لمحوں کی صلیب
اورمیں سمندر کی طرف منھ اٹھائے بڑی دیرسے چپکے چپکے رورہاتھا۔
آج کرسمس کی رات تھی۔ ہرطرف روشنیاں جگمگارہی تھیں۔ ہنسی اورقہقہے ابل رہے تھے، نئے اورقیمتی ملبوسات میں لوگ خوش فعلیاں کرتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ ہوٹل اور بال روم کھچاکھچ بھرے پڑے تھے۔ مجھ سے چندقدم کے فاصلے پر ہوٹل تاج محل کے باہرموٹروں کی ایک لمبی قطارتھی۔ لوگ آرہے تھے اور جارہے تھے، دوسری طرف گیٹ وے آف انڈیا پرنوجوان لڑکوں اورلڑکیوں نے اودھم مچارکھی تھی۔ وہ چیخ رہے تھے، ہنس رہے تھے، گارہے تھے، اچھل رہے تھے، کود رہے تھے، ایک دوسرے سے جانے کیاکیا کررہے تھے۔
اورمیں سمندر کی طرف منھ اٹھائے چپکے چپکے رورہاتھا۔
آج کی رات میری اورماریاکی رات تھی، لیکن ماریااوپرہوٹل تاج محل کے بال روم میں فرنانڈیز کے ساتھ ڈانس کررہی تھی اورمیں چپکے چپکے رورہاتھا۔ اکیلا، اداس، تنہا۔ماریا نے کل شام آفس سے نکلتے وقت، آج رات کاسارا پروگرام میرے ساتھ طے کیاتھا اورمیں نے شام کواسے آج چر چ میں بھی دیکھا تھا۔ اس کے سرپرایک ریشمی اسکارف بندھا ہواتھا اوروہ سینے پرہاتھ باندھے بڑے احترام سے سرمن سن رہی تھی۔ اس وقت وہ بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ اس کے چہرے پرتقدس اورنورتھا۔ اس کے ساتھ اس کی ما ں اور دوچھوٹے چھوٹے بھائی بھی تھے، سرمن ختم ہوتے ہی پریئرسنے بغیرمیں وہاں سے نکل آیاتھا۔ اوروقت سے پہلے ہی چرچ گیٹ اسٹیشن پرآکے کھڑا ہوگیاتھا۔ جہاں اس نے مجھ سے ملنے کا وعدہ کیاتھا۔ میں بہت دیرتک بے چینی سے انتظارکرتارہا۔میری نظریں باربارگھڑی کی طرف جاتی تھیں۔اس کے آنے کا وقت بھی نکل گیا، لیکن وہ نہیں آئی۔ لوکل ٹرین کئی بار آگئی، لیکن ماریانہیں آئی، میں نے سوچا کہ اس کی پوپلے منھ والی ماما نے اس کواکیلے جانے سے منع کیاہوگا اورجب مجھے پورایقین ہوگیاکہ ماریاا ب نہیں آئے گی تو میں اداس اداس ٹہلتاہوا اس سڑک پرنکل آیا۔ یوں ہی بے مقصدہوٹل تاج کے سامنے آکے کھڑا ہوگیا۔ آنے جانے والوں کودیکھتارہا۔ خوبصورت عورتیں اور بدصورت مرد، جوان مرداوربوڑھی میک اپ زدہ عورتیںآرہی تھیں اورہاتھوںمیں ہاتھ دیے ہوٹل میں جارہی تھیں۔ آج کرسمس کی رات جو تھی اورمیں یوںہی کھڑے کھڑے آنے جانے والوں کو دیکھتا رہا۔ دنیامیں مجھے ماریا کے علاوہ کسی اورلڑکی سے دلچسپی نہیں ہے۔ اس لئے میں اکیلااکیلاکھڑاتھا۔ اچانک ایک کارزن مجھ سے تھوڑی دورآگے رکی۔ ماریا آفس کے گنجے ادھیڑعمر فرنانڈیز کے بازو میں بازوڈالے ہنستی ہوئی کارسے اتر رہی تھی۔ جہاں تھا، وہیں سکتے کے عالم میں کھڑے کاکھڑا رہ گیا۔ ماریانے اپنے کپڑے بدل لئے تھے، وہ اب ایک منی اسکرٹ پہنے تھی، جوگھٹنوں سے اوپر تھا۔ اس کی گوری، چکنی، صحت مندلمبی ٹانگیں چمک رہی تھیں۔ اس کے سرپر اسکارف بھی نہیں تھا۔ اس کے پریشان ادھ کٹے بال ہوامیں اڑرہے تھے اور وہ تیزتیزقدم بڑھاتی ہوئی اوپرتاج میں چلی گئی تھی۔ میں بہت دیر تک یونہی سکتے کے عالم میں کھڑا رہا۔ اچانک کسی راہ گیر کے دھکے سے میں چونک گیا اورآہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ بات کچھ کچھ میری سمجھ میں آرہی تھی اور میں سوچنے لگا۔ فرنانڈیز ماریاکے گھرگیاہوگااور اس کو اپنے ساتھ لایاہوگا۔ ماریاکی پوپلے منھ والی ماما نے انہیں ہنسی خوشی جانے کی اجازت دی ہوگی، جانے کی اجازت کیسے نہ دیتی، وہ اس کی بیٹی کاباس تھا اورمیں کھڑے کھڑے چارگھنٹے سے ماریاکاانتظارکررہاتھا۔ میں نے کسی اورگرل فرینڈ کاسہارا بھی نہ لیناچاہا، کیوں کہ ماریا کے سوامجھے کوئی اورلڑکی اچھی نہیں لگتی ہے اورماریا فرنانڈیز کے ساتھ کار میں آکراوپرتاج کے بال روم میں ڈانس کررہی تھی۔
چلتے چلتے اب میں کھڑا ہوگیا۔ میں نے قہقہے لگاتے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھا۔ ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے جوڑوں کی طرف دیکھا جوآہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ اوپرتاج کی اونچی بلڈنگ کی طرف دیکھا، جس میں کہیں کسی کمرے میں ماریاڈانس کررہی تھی اورخوشی سے کرسمس کی رات منارہی تھی۔
میں نے غصے میں ہونٹ کاٹ لئے۔ مجھے اب بے حدغصہ آرہاتھا۔ خون میرے رخساروں میں تمتمانے لگا۔میری مٹھیاں خود بخود کھلنے اور بندہونے لگیں اورمیں نے دانت پیس لئے۔ میں نے سوچا کہ مجھے کچھ کرناچاہئے۔ کچھ کرنا چاہئے۔ کچھ خوفناک، خطرناک، دھماکہ، تباہی، توڑپھوڑ، مجھے بے حد غصہ آر ہا تھا۔ مجھے کچھ کرناچاہئے۔سامنے ہی فرنانڈیز کی لمبی، چمکیلی امپالا کھڑی تھی۔ امپالا کے باہرکھڑکی سے لگاڈرائیورسگریٹ پی رہاتھا۔ میرے دل میں اچانک یہ خیال آیاکہ مجھے اسی امپالا کوتباہ کردیناچاہئے۔ پہلے اس کے شیشے چکنا چور کرنے چاہئیں۔ پھرہرطرف سے پتھروں سے مارمارکے اس کاحلیہ بگاڑ دینا چاہئے۔ اس کی کھڑکیاں، چھت، ڈکی سب کچھ توڑناچاہئے۔ اس کاقیمتی انجن نکال کراس کوایک ٹوٹے پھوٹے کھلونے کی طرح سمندرمیں ڈال دیناچاہئے۔
میرے ہونٹوں پرایک اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل گئی، میراغصہ آہستہ آہستہ کم ہورہاتھا۔ میرے دل کابوجھ بھی کچھ کم ہورہاتھا۔ میں نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ دوسرے ہی لمحے اچانک میرے ذہن میں ایک نئی بات آگئی اورمیں اچھل پڑا۔ مجھے بڑے اطمینان سے ٹنکی میںآگ لگانی چاہئے۔پوری گاڑی جل کے تباہ ہوجائے گی۔یہ بہت اچھاطریقہ ہے۔ یہ طریقہ میں نے ایجی ٹیشن کے دنوں سرکاری بسوں میں آگ لگاتے وقت سیکھاتھا۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ میں انجن کی ٹنکی میں آگ لگادوں گا، پھردیکھتا ہوں گنجافرنانڈیزماریا کوکس طرح گھرلے جاتاہے۔ ساری تفریح کامزہ چکھادوں گا۔ میں نے غصہ سے زمین پرتھوک دیا۔ میں آہستہ آہستہ اپنے قدم آگے بڑھانے لگا اور کارکے پاس پہنچنے لگا۔ ڈرائیور اب بھی کھڑکی کے ساتھ لگاسگریٹ پی رہاتھا۔ میں اب کار کے بالکل برابر میں کھڑا ہوگیاتھا۔ میں ٹکٹکی باندھے کارکودیکھتارہا۔ میرا دل بری طرح دھڑک رہاتھا۔ ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھرآئی تھیں۔ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میں نے جیب میں سے ماچس نکالنے کے لئے ہاتھ ڈال دیے، لیکن ماچس نہیں مل رہی تھی۔ میرا جوش جانے کہاں غائب ہوگیاتھا۔ میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں، میں نے کانپتے ہاتھوں سے جیب سے ماچس نکال لی۔ گھبراہٹ میں وہ میرے ہاتھوں سے نیچے گرگئی۔ ڈرائیور نے اچانک گردن موڑکے پیچھے کی طرف دیکھا اورمیں کانپ کے رہ گیا۔ میں کچھ نہیں کرسکتا، مجھے محسوس ہواکہ اگرمیں آگے نہیں بڑھ گیاتو میں یہیں بے ہوش ہوجائوں گا۔ میں نے آگے بڑھناشروع کیا۔ اب کار میرے بہت پیچھے کھڑی تھی۔میں نے ماتھے سے پسینے کوصاف کیااور ایک گہری لمبی سانس چھوڑدی اورایک سگریٹ سلگالی، لیکن کار میں آگ لگانے سے کیافائدہ؟کچھ بھی نہیں۔میں نے سوچا۔ ماریا اگرفرنانڈیز کے ساتھ چلی آئی تو اس میں بھلاکارکا کیاقصورہے؟ ہاں! سارا قصور اس گنجے فرنانڈیزکاہے۔فرنانڈیزہمارے آفس کاباس ہے۔ میں اس کے آفس میں ایک معمولی کلرک ہوں اورماریاایک اسٹینوٹائپسٹ، گنجافرنانڈیز دن میں کئی بار کسی نہ کسی بہانے ماریا کوبلاتارہتاہے اورباتیں کرتارہتاہے۔ اس میں ماریا کاکوئی قصورنہیں ہے، کیوں کہ وہ اس کاباس ہے اوراس کا حکم بجالانا ماریاکافرض ہے اورپھر اسے خوش رکھے بغیر توکوئی بھی آفس میں ایک دن نہیں رہ سکتا، مجھے پرمیلایاد آگئی، جسے فرنانڈیز نے ایک مہینے کے اندراندرجھوٹے الزامات لگاکرنوکری سے الگ کیاتھا۔ کیوں کہ پرمیلابہت ہی سنجیدہ اورشریف لڑکی تھی۔ اس نے فرنانڈیز کے ساتھ گھومنے پھرنے کی ہردعوت کو ٹھکرادیاتھا۔ فرنانڈیزبہت ہی کمینہ آدمی ہے، مجھے ایسا لگا کہ فرنانڈیز میرااور میری خوشیوں کابہت بڑا دشمن ہے۔ بدمعاش کہیں کا، مجھے فرنانڈیز کوختم کرناچاہئے۔ میں نے بڑی تیزی سے پھرسوچناشروع کیا۔ مجھے آہستہ آہستہ پھرغصہ آرہاتھا۔ میری دماغ کی رگیں پھرتننے لگیں۔ میں نے سوچا کہ میں بڑی تیزی سے ہوٹل کی سیڑھیاں چڑھ جائوں گا۔ لائونج کو پارکرتے ہی بال روم میں گھس جائوں گا اور ایک ہی جھٹکے سے ماریا کوفرنانڈیز کی بانہوں سے الگ کردوں گا اورفرنانڈیز کوٹائی سے پکڑکربال روم سے باہر کھینچ لائوں گا۔ مکے مارمار کے اس کے سارے دانت توڑدوں گا۔ میری مٹھیاں خودبخود سختی سے بندہونے لگیںاورپھر اس کونیچے گراکے ٹھوکریں مارمار کے اس کی ہڈی پسلی توڑدوں گا۔ میں نے غصے میں دانت پیس لئے۔ پھرایک اور زورکی ٹھوکر مارکر اس کی ایک آنکھ بھی پھوڑدوں گااور اس کے منہ پرتھوکوں گا۔ میں نے غصہ سے زور سے زمین پر تھوک دیا اورماریاچیخ مارکرمیرے گلے سے لگ جائے گی۔ میری اپنی ماریا- میری اچھی ماریا-اور تصورہی میں فرنانڈیز ایک مرے ہوئے چوہے کی طرح میرے سامنے پڑا تھا اور میں بری طرح کانپ رہاتھا۔ اورپھر۔۔۔ پھرمیں ماریا کولے کر وہاں سے بھاگ جائوں گا اورپھرفرنانڈیزپولس میں رپورٹ کردے گا۔ دوسرے دن مجھے نوکری سے علیحدہ کردیاجائے گا اورمیں پھر بیکار ہو جائوں گا۔۔۔ بیکار۔۔۔ بیکاری کا خیال آتے ہی میرے سارے جسم میں ایک جھرجھری سی دوڑگئی۔ مجھے ان دنوں کی حالت یادآگئی جب میں بیکارتھا۔ میرے ہاتھ پیرڈھیلے پڑگئے۔ سارے جسم میں سردسرد سی لہریں دوڑنے لگیں اورمیں نے بے بسی سے ہونٹ کاٹتے ہوئے ایک سگریٹ جلالیااورسرجھکاکے آہستہ آہستہ چلنے لگا اورمیں نے ماریا کے بارے میں سوچناشروع کیا۔ میرے دل پر ایک بوجھ ساتھا۔ میں نے بہت سی باتیں دل ہی دل میں سوچ رکھی تھیں۔جومجھے ماریاسے کہنی تھیں اورمیں اس وقت اکیلا، اداس ٹہل رہاتھا اوروہ اوپرڈانس کررہی تھی اورخوشی سے کرسمس منارہی تھی۔
اورمیں۔۔۔ مجھے اب ماریا پرغصہ آنے لگا۔
میں نے سوچاکہ قصورتوفرنانڈیزکابھی نہیں ہے۔ وہ بیچارا توقطعی بے قصور ہے۔ سا راقصور اسی ماریاکا ہے۔ یوں ہی بھولی بھالی بنتی ہے، انوینٹ ہونے کا پوزکرتی ہے۔ اصل میں یہ لڑکی کافی آوارہ ہے۔ حرافہ کہیں کی۔ وہ فرنانڈیزکے ساتھ جانے سے منع کرسکتی تھی۔ کوئی بہانہ تراش کرسکتی تھی۔کوئی گودمیں تھوڑی اٹھاکے لے جاتا۔آوارہ لڑکیاں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔کسی نے ذراسی دعوت دی اورجھٹ تیارہوگئیں۔میرے سامنے کیسی میٹھی میٹھی باتیں کرتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی میرے بال بنادیتی ہے۔ کبھی ٹائی کی ناٹ ٹھیک کرتی ہے اورکبھی اچانک میرے سینے میں سرچھپاکے پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے۔ ہونہہ! میں سب سمجھتاہوں۔ وہ مجھے بے وقوف بنارہی ہے۔ مجھ سے فلرٹ کرتی ہے۔ لیکن۔۔۔ لیکن اندرہی اندر میرے دل میں کوئی چیز اس بات کو ماننے سے انکارکررہی تھی۔ بہت کوشش کے باوجود بھی میرے دل میں ماریا کے خلاف نفرت یا انتقام کا کوئی جذبہ پیدانہ ہوسکا اور میں نے بڑی بے بسی سے سگریٹ کوپیروں تلے زور سے کچل دیا۔
میں آہستہ آہستہ ٹہلتاہوا سمندرکو لہروں کی گنتاجارہاتھا۔ میں نے پھرسوچنا شروع کیا۔ میں سارے کپڑے اتارکے سمندرمیں گھس جائوں گااوربہت دورتک سمندر کے اندرنکل جائوں گا۔ کوئی بہت بڑی لہرآئے گی اور مجھے کھاجائے گی اورپھر صبح ماریاسنے گی توبہت روئے گی۔پچھتائے گی لیکن پھر رونے اورپچھتانے سے کیاہوگا۔ سمندرمجھے نگل گیاہوگا اورپھرآہستہ آہستہ ماریا مجھے بھول جائے گی۔ ہوسکتاہے وہ گنجے فرنانڈیزکے ساتھ ہی شادی کرے گی یا جارج کے ساتھ، جواس کا خاموش عاشق ہے۔
اورمجھے کیاملے گا، کچھ بھی نہیں۔ میں مرجائوں گا۔ مجھے توکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کوئی بھی نہیں اورمیں نے مرنے کاخیال ایک دم دل سے نکال دیا۔
نہیں مجھے نہیں مرناچاہئے۔ ایک لڑکی کے پیچھے بھلامیں اپنی جان کیوں دینے لگا۔ دنیا میں اتنی ساری لڑکیاںہیں تومیں ایک لڑکی کی خاطرکیوں اپنی جان دوں۔
اب میں زرینہ سے دوستی بڑھائوں گا۔ بیچاری مجھ سے کتنی محبت کرتی ہے، لیکن منہ سے ایک لفظ بھی نہیں بولتی ہے چپ چاپ مجھے گھورتی رہتی ہے۔ میرے لئے اتنے سارے تحفے چوری چھپے لاکے دیتی ہے۔ میری چھوٹی بہن کوبلاکے اسے ٹا فیاں کھلاتی رہتی ہے اور میرے بارے میں پوچھتی رہتی ہے۔
ہاں!مجھے زرینہ کے پیار کی قدرکرنی چاہئے اورجب میں زرینہ کے ساتھ گھومنے نکلاکروں گا، توماریا حسدکے مارے جل جل جائے گی۔
اوراسی لمحے تصورہی میں ماریا کی دوبڑی بڑی پھیلی ہوئی آنکھیں مجھے حیرت سے دیکھتی ہوئی معلوم ہوئیں، اس کااداس معصوم چہرہ۔ اس کے کانپتے ہوئے ہونٹ۔ زرینہ ایک دم میرے دماغ سے غائب ہوگئی۔
نہیں!میں ماریا کوکبھی نہیں چھوڑسکتا۔۔۔، ماریا۔۔۔ میری اچھی ماریا۔۔۔ اور میری آنکھوں میں آنسولرز نے لگے۔
میں اب ہوٹل تاج محل سے ذراتھوڑی دور، سمندر کے کنارے کھڑاہوٹل کی طرف دیکھ رہاتھا۔ رات کے تین بج رہے تھے۔ اندرڈانس ہورہاتھا۔ دھنیں تیزی سے بج رہی تھیں، بدل رہی تھیں، تالیاں پیٹی جارہی تھیں، مائک پرکچھ انائونس ہورہاتھا۔ اب کوئی نئی دھن بجنی شروع ہوگئی تھی۔ شاید والز کی دھن بج رہی تھی اورمیں تصورہی میں فرنانڈیز اورماریاکوڈانس کرتے ہوئے دیکھ رہاتھا۔
فرنانڈیزکاپورا بازوماریاکی کمرکے گردتھا۔ اس کے ہاتھ میں ماریاکاہاتھ تھا۔
ایک، دو، ایک۔۔۔ اب اس کی ٹانگیں ماریا کی ٹانگوں سے برابر ٹکرارہی تھیں۔۔
ایک دو۔۔۔ ایک دو۔۔۔ اب وہ ایک دوسرے کے سینے کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔
ایک دو۔۔۔ دو ایک۔۔۔ ایک۔۔۔ صرف ان کے پیرہل رہے تھے اور ٹانگیں آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے ٹکرارہی تھیں۔
ایک دو۔۔۔ ایک دو۔۔۔ رنانڈیزاسے زورسےبھینچ رہاتھا۔
ایک دو۔۔۔ ایک دو۔۔۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ چپکے کھڑے تھے۔
ایک۔۔۔ دو۔۔۔ ماریا کے جسم کی خوشبو،۔۔اس کے بالوں کی مہک، ماریا۔۔۔ جھیل جیسی آنکھیں۔۔۔
ایک۔۔۔ دو۔۔۔ میں ایک صلیب پرلٹک رہاتھا۔ میرے سینے میں زوروں کا درد اٹھ رہاتھا میرے ہاتھ بے بسی سے لٹکے ہوئے تھے۔ میرا سر پھٹا جا رہاتھا۔ اوراسی لمحے با ل روم میں لائٹ آف کردی گئی۔
اب فرنانڈیز نے اپنے ہونٹ ماریاکے ہونٹوں پر رکھ دیے ہوں گے۔ کٹے پھٹے کالے موٹے ہونٹ، پتلے پتلے سرخ ہونٹ۔۔۔ اورمیں نے دردکی شدت سے آنکھیں بندکرلیں اوروہاں سے ہٹ آیا۔ آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا گیٹ وے آف انڈیاکے پاس کھڑا ہوگیا۔ بے بسی کے عالم میں، سمندر کی طرف اٹھائے۔۔۔ میں آہستہ آہستہ ٹائی کی ناٹ کھولتاگیااورمیں نے بوری بندر سے خریدی ہوئی قیمتی ٹائی سمندرمیں پھینک دی۔ بہت محنت سے سنوارے ہوئے بالوں کوتتربتر کیااوراپنے دونوں ہاتھوں سے سرکوتھام لیا۔ میری آنکھوں میں بے چارگی کے آنسوآگئے۔
اورمیں سمندر کی طرف منہ اٹھائے چپکے چپکے رونے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.