Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لذت غم

نسیم انجم

لذت غم

نسیم انجم

MORE BYنسیم انجم

    رات ۱۲ بجے کا وقت تھا، سردیوں کا زمانہ، سڑکیں سنسان اورریسٹورینٹ ویران تھے، ٹھنڈی ہوائیں جسم سے ٹکراتیں تو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ناکردہ گناہوں کی سزا نے برف کی سل جسم سے باندھ دی ہو، اس نے یخ بستہ ہواؤں سے بچنے کے لئے مفلر کو اپنے کاندھوں کے گرد اچھی طرح لپیٹ لیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کے حصار میں اپنے سینے اور شانوں کو سختی سے جکڑ لیا تھا، ایساکرنے اسے اتنے سرد ہواؤں سے بچنے میں اچھی خاصی مدد مل گئی تھی۔

    افضل اس راستے پر پیدل ہی سفر کرتا تھا، چونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اس طرف کوئی رکشہ آنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتا ہے اور یہ بس کا روٹ بھی نہیں تھا۔ سڑکوں کے دونوں طرف قدآور ہری بھری شاخوں سے لدے درخت پراسراریت میں اضافے کا باعث تھے، درختوں پر لٹکتی اور پتوں کے درمیان سے جھانکتی ہوئی چمگادڑیں ڈراؤنا منظر پیش کر رہی تھیں۔

    وہ اس منظر سے بےنیاز بلا خوف و خطر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا، تھوڑی ہی دیر کی مشقت کے بعد وہ اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ گیا۔ اس نے اسی پتھر پر اپنا پیر رکھا، جسے وہ دن کے وقت اپنی سہولت کی خاطر دیوار سے ٹکا کر رکھ گیا تھا۔ اس نے بڑی آسانی کے ساتھ دیوار سے چھلانگ لگائی اور احاطے کے اندر کود گیا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا ٹوٹی ہوئی قبر کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے جیب سے سگریٹ نما ٹارچ نکالی اور اسے جلا کر قبر کو روشن کر دیا، جب اسے اطمینان ہو گیا کہ کوئی جنگلی جانور، یا کوئی کیڑا مکوڑا نہیں ہے تب اس نے اپنا دایاں اور پھر بایاں پیر قبرکے اندر اتار دیا اور اکڑوں ہو کر بیٹھ گیا اور منتر پڑھنے کے لئے تیاری شروع کر دی۔ عطر کو اس نے مٹی پر انڈیل دیا، انڈے پاس ہی رکھ دیئے، عورت کے سر کے بال مٹی میں دبا دیئے اور پھر لوبان جلا کر پڑھنا شروع کر دیا، تقریباً جب وہ نصف گھنٹے کے بعد قبر سے نکلا تو وہ بے حد شانت تھا جیسے گوہر مراد بر آیا ہو۔

    قبروں کے درمیان سے گزرتا ہوا وہ کتبے پڑھنے لگا۔ مرنے والوں کے نام کے ساتھ ان کی ڈگریاں اور عہدے بھی درج تھے، دیکھو ذرا! کس قدر بے بس و محتاج ہیں نہ ہڈیاں سلامت اور نہ گوشت۔ زندگی میں اپنی دولت اور اپنی شان و شوکت پر کس قدر اکڑ ہوگی، کاش انسان اپنی قبر کو یاد رکھے، اللہ نے قرآن میں جب ہی تو کہا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔

    لیکن میں کیوں مرنے والوں کے عیب ڈھونڈ رہا ہوں اللہ نے طعنے مارنے اور دوسروں کو اپنے سے کمتر جاننے والوں کے لئے عذاب کی خبر دی ہے۔

    تیز ہوا کا ایک جھونکا آیا جو اس کی سوچوں اورگلے میں بندھے مفلر کو اپنے ساتھ لے گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر گلاب کے پودے میں اٹکے ہوئے مفلر کو نکالا اور دوبارہ گردن میں ڈال لیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کی سوچوں کامحور بھی بدل گیا اور اب وہ سامعہ کے بارے میں سوچ رہا تھا اور اپنی خوش نصیبی پر خود ہی نچھاور ہو رہا تھا کہ۔۔۔ سامعہ جیسی خوبصورت، خوب سیرت لڑکی اس کی شریک سفر بنی، جبکہ وہ بچپن سے نوجوانی تک آٹزم (Autizm) جیسی بیماری میں مبتلا رہا۔ خاندان والے اسے اپنی بیٹی دینے کو تیار نہ تھے، اسی دوران جب وہ ماضی کے اجالوں میں سفر کر رہا تھا، قبرستان کی مخصوص خوشبو نے اسے اپنی حصار میں لے لیا اور اس خوشبو نے اسے ایسے مست کر دیا، جیسے سانپ سپیرے کی بین کی آواز سن کر جھومنے لگتا ہے، اسے بچپن سے ہی آہ و گریہ زاری کی آوازیں پسند تھیں، اسے میت گاڑیاں اور میت گھر ضرور متاثر کرتے اور لواحقین کا رونا پیٹنا، تجہیز و تکفین کا مرحلہ، مرنے والے کی آخری رخصتی کا سماں اسے کئی دن ایک انوکھا سا لطف دیتا اور اگر غمزدہ ماحول آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا تو کوشش کر کے سانحات کو بیدار کر لیتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہی ہوگی کہ لڑکپن کے دنوں کو تنہائی نگل گئی اور پھر اس کے ساتھ ہی قلیل مدت میں اس کے گھر سے ایک نہین چار جنازے اٹھے، پہلے دادا اور پھر ٹھیک چالیسویں دن دادی اس دنیا سے سدھار گئیں۔ ابھی گھر کے لوگ دادا، دادی کا غم بھولے بھی نہ تھے کہ اس سے بڑے دونوں بھائیوں کو ٹرک نے کچل دیا۔ گھر بھر میں کہرام مچ گیا اور قیامت اتر آئی، کلیجہ چھلنی ہو گیا، محلے کا ہر شخص دونوں میتوں کا دیدار کرنا چاہتا تھا۔ گھر میں تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی، بس وہ دن تھا کہ وہ وقت، وہ لمحات افضل کے دل و دماغ پر سما گئے۔ بھائیوں کے مرنے کے بعد اسے اس بات کا بھی احساس ہو گیا تھا کہ اپنے پرائے کی نگاہ میں اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ محلے، کے لڑکے اور اس کے ہم جماعت بھی اسے دوست بنانے میں ذرہ برابر نہیں کترا رہے تھے، ورنہ تو وہ سالہا سال خاموشی کی ردا اوڑھے رہا لیکن یہ معاملات تھوڑے ہی دن رہے اور پھر چند دنوں بعد ہی سب کا رویہ ویسا ہی ہو گیا۔

    ابا صبح سے نوکری پر چلے جاتے اور چچا اپنی دکان پر اور اماں گھر کی ذمہ داریوں میں مصروف ہو جاتیں اور وہ اسکول کی راہ لیتا۔ شام کے وقت گھر کا سودا سلف بھی لے آتا، لیکن قریب مارکیٹ پر جانے کی بجائے دور دراز کی دکانوں پر جانے کی راہ پکڑتا، واپسی پر گھر کے سب افراد طعن طعن کرتے کہ اتنی دیر لگا دی کہ ضرورت ہی ختم ہو گئی اور خود ہی بازار جا کر چیزیں خریدنی پڑیں لیکن اس کی وہ ہی روش رہی، اسی لئے گھر والوں نے اس سے گھر کے کام کروانے کے لئے حکم دیا اور نہ امید رکھی۔

    انہی دنوں اللہ نے اسے دو جڑواں بہنوں سے نوازا۔ اس واقعہ نے گھر میں سب کو مسرور کر دیا، وہ خود بھی بہت خوش تھا کہ اس کی دلبستگی کا سامان پیدا ہو گیا ہے لیکن یہاں بھی اسے مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا، اماں سارا دن بہنوں کو سنبھالتیں اور وہ گھر کے کام کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔

    وقت کا پنچھی اڑتا چلا گیا اسی دوران وہ کالج میں چلا گیا اور ربیعہ اور فریحہ پرائمری جماعتوں کو پاس کر کے سیکنڈری میں آ گئی تھیں۔ شام کو دونوں بہنیں اپنی سہیلیوں کے ساتھ دھما چوکڑی کرتیں اور وہ خاموش کھڑا دیکھتا رہتا۔ اس کی خواہش کے باوجود اسے ہرگز نہ کھلاتیں۔ ان مواقعوں پر اماں ابا اسے پڑھائی پر مکمل توجہ دینے کے لئے نصیحتیں کرتے، وہ جواب میں کہتا، اماں کتنا پڑھوں۔۔۔؟ آپ بتائیے، بتائیے نا۔۔۔ سارا وقت آپ لوگ مجھے پڑھنے کے لئے کہتے ہیں۔وہ برہم ہونے لگتا ۔ آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھر آتے۔

    ارے بیٹا جتنا پڑھ سکو، اچھے ہی ہے۔ وہ اماں کا جواب سن کر چھت پر چلا جاتا اور گوشتہ تنہائی میں بیٹھ کر گزرے واقعات کو یاد کرتا اور کسی نئے حادثے کے جنم لینے کی خواہش کروٹ بدلتی، کوئی گھر میں ہی مر جائے، لیکن نہیں، وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا، اسے سب عزیز تھے، محلے میں۔۔۔؟ لیکن کون؟ اس کی سمجھ میں نہ آتا۔ تب وہ تسکین دل کے لئے علاقے کے قبرستان چلا جاتا اور نئی اور تازہ پھولوں سے آراستہ قبروں کو دیکھتا، مرنے والوں کے بارے میں سوچتا، موت کی حقیقت پر غور وفکر کرتا۔۔۔؟

    یہ قضا و قدر کیا ہے۔۔۔؟ اللہ نے پیدائش سے پہلے ہی تمام روحوں سے اپنی وحدانیت کا اقرار لے لیا تھا، لیکن دنیا میں آکر کر ہم سب کچھ کیوں بھول جاتے ہیں۔ تبلیغ دین کا فریضہ بھی، ہم سب پر واجب ہے، لیکن ہم ڈرتے ہیں عجیب و غریب سوالات اس کے ذہن میں گھر کر لیتے اور وہ سوچتے سوچتے گھر کی راہ لیتا۔

    جتنا غور وفکر کرنے کی کوشش کرتا لیکن زندگی کا معمہ حل نہیں ہوتا تھا اور موت کے مراحل اس کے لذت کا سبب بن گئے تھے، اسی عرصے میں ربیعہ ڈینگی بخار کی لپیٹ میں آ گئی، علاج و معالجے کے باوجود وہ صحت نہیں پکڑ رہی تھی ۔افضل بے چین تھا اور جلد سے جلد نتیجے کا خواہشمند تھا۔ لیکن اس کی تمنا پوری نہیں ہو رہی تھی، پچھلی رات اس کی اچانک آنکھ کھل گئی۔ گھر کے سب افراد سو رہے تھے، ربیعہ کراہ رہی تھی، اس نے آواز لگائی، نیم بے ہوشی کے سبب اس نے کوئی جواب نہ دیا، وہ اس کے بیڈ کے نزدیک ہی جا کر بیٹھ گیا اور سوچوں کی گرداب میں پھنس گیا۔

    ربیعہ مر گئی ہے، لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں، دروازے پر شامیانہ، گہوارے میں کفنائی ہوئی ربیعہ کی لاش اور پھر وہ ہی روتا، پیٹتا آخری منظر۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں، ایک کیف و سرور تھا جو انگ انگ میں سما گیا تھا۔ نہ جانے وہ کب اپنے بستر پر گیا اور کب آنکھ لگی، اسے اندازہ ہی نہ ہوا۔ صبح اٹھا تو رات میں آنے والی سوچوں پر وہ ندامت محسوس کر رہا تھا، چند ہی ہفتوں بعد ربیعہ صحت مند ہو گئی اور سب کچھ پہلے ہی جیسا ہو گیا۔

    ان دنوں ابا ہر روز اسے اپنے پاس بیٹھا کر اس کی کلاس لیتے، زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتے، خیالوں اور خوابوں کی دنیا سے نکلنے کے گُر بتاتے، نماز کی پابندی کے فوائد سے آگاہ کرتے۔ ابا کے لیکچرز کا اس پر اچھا اثر پڑا تھا، وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگا تھا، خوب محنت سے پڑھتا اور شام کو بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتا۔ یہ ہی وہ زمانہ تھا جب اس کی زندگی میں سکون ہی سکون آ گیا اور افضل کی لذت غم کی طلب ماند پڑنے لگی، ان دنوں چاچا کی شادی کے بھی چرچے ہو رہے تھے اور لڑکی ڈھونڈی جارہی تھی۔ جلد ہی اماں، ابا نے یہ فریضہ بھی انجام دے ڈالا، چاچا کی شادی کیا ہوئی کہ اماں نے اس کی شادی کی بھی ٹھان لی۔ اس کی وجہ اس نے بی۔کام شاندار نمبروں سے پاس کیا تھا اور ملازمت بھی جلد ہی مل گئی تھی۔ اماں افضل کی شادی کرنے میں کامیاب ہو گئیں اور سامعہ جیسی خوبصورت لڑکی گھر آ گئی تھی۔

    سوچوں کے حصار سے وہ اس وقت باہر آیا جب گھر قریب آ گیا تھا۔ اس نے ہاتھ میں بندھی گھڑی پر نگاہ ڈالی، رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔

    جس وقت وہ گھر میں داخل ہوا، سامعہ بستر سے اچھل کر کھڑی ہو گئی اور غصے سے بولی، آج پھر دیر کر دی، آخر پورا دن رہتے کہاں ہو؟ کیا کسی مزار پر مجاوری کی نوکوری کر لی ہے۔ تمہارے کپڑے عطر اور لوبان کی خوشبو سے بسے ہوئے ہیں۔۔۔ آخر معاملہ کیا ہے؟ سامعہ اس کے مدمقابل آکر اسے جھنجھوڑنے لگی۔ لیکن وہ ہمیشہ کی طرح خاموش رہا۔ سامعہ پر ہزیانی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والوں کو بھی برا بھلا کہنے لگی، کہ انہوں نے تمہاری شادی مجھ سے کیوں کروا دی۔۔۔؟ جب تم ذہنی طور پر صحت مند نہیں تھے اور اب تو ملازمت سے بھی دیر سے آنے لگے ہو؟

    ہر دوسرے روز ایسی ہی خانہ جنگیاں جاری رہتیں۔ وہ طعنوں، تشنوں کے بارودی گولے اس کی طرف اچھالتی اور وہ خاموشی سے کیچ کر لیتا۔ اس طرح یہ جنگ ہمیشہ ہی بے نتیجہ ہی رہتی، ان ہی حالات میں وہ یکے بعد دیگرے دو بچیوں کی ماں بن گئی، بڑھتے ہوئے اخراجات نے حالات مزید کشیدہ کر دیئے اور سامعہ کئی بیماریوں میں مبتلا ہو گئی، سب سے بڑی اور تکلیف ذہنی اذیت تھی۔ وہ راتوں کو جاگنے لگی، ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی اس کی نیند لے اڑا ہے، وہ جیسے ہی بستر سنبھالتی آنکھیں موندتی اس پر برسات کی پھوار شروع ہو جاتی اور نیند آنکھوں سے غائب ہو جاتی، قدموں کی آہٹ اور سیاہ ہیولے اسے اپنی طرف بڑھتے ہوئے محسوس ہونے لگتے۔ لیکن وہ جوں ہی آیات ربانی کی تلاوت کرتی، ماحول پرسکون ہو جاتا، ان حالات میں وہ اپنے میکے چلی آئی، کئی عاملوں اور باباؤں کو دکھایا، سب نے کہا کہ سامعہ جادو کے حصار میں ہے۔ باباؤں اور مولویوں کے تعویذ، فلیتے اور نقش سامعہ کی جادوئی کیفیات کے لئے کارگر ثابت نہ ہو سکے۔ تب سامعہ کی بھابھی نے اسے مشورہ دیا کہ بہت بڑے سوامی جی ہیں، وہ جادو کا توڑ جادو ہی سے کرتے ہیں۔

    بھابھی! میِں مسلمان ہوں، کیوں جاؤں ان سادھوؤں کے پاس اور جادو کرانے والا تو جنت سے دور کر دیا جاتا ہے اور مجھے اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی ہے۔

    اوہ! کیا کہنے تمہاری عاقبت کے، گھر برباد ہو رہا ہے بچیاں رل رہی ہیں، میاں نہ جانے کہاں سے خوشبو لگا کر آتا ہے، یا جاتا ہے۔۔۔؟ اور یہ ہیں کہ جادو کا توڑ جادو سے نہیں کروں گی۔ بس بھابھی بس! بہت ہو گیا، آپ کو معلوم ہے کہ یہ جادو اللہ نے بابل کے دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتارا تھا۔ محض آزمائش کے لئے۔

    ارے! جب اللہ نے ہی اتار ہے، تو سامعہ بی بی گناہ کیسا۔۔۔؟

    بھابھی ! کیا کفر بکتی ہو۔

    واہ سامعہ واہ ! تم جو فرشتوں کو بیچ میں لا رہی ہو اورطان پر الزام بھی لگا رہی ہو تو یہ کفر نہیں ہے کیا اور پھر اللہ فرشتوں پر جادو کیوں اتارےگا؟

    بھابھی! اللہ کے معاملات اللہ جانے، ہم کون ہوتے ہیں سوال کرنے والے۔۔۔؟ آپ قرآن کا ترجمہ پڑھ لیں سب پتہ چل جائےگا۔

    مجھے سکھانے چلی ہیں، پہلے خود تو سمجھ لو، بھابھی غصے سے چیخ رہی تھیں اور سامعہ سوچ رہی تھی کیوں نہ گھر چلی جاؤں معوذتین سے اپنا علاج کرہی رہی تھی اور فائدہ بھی ہو رہا تھا۔ پھر کیوں یہاں چلی آئی۔

    سامعہ نے ماں کے روکنے کے باوجود اپنے گھر کی راہ لی اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اب افضل سے کبھی بات نہیں کرے گی اس سے اچھی تو اس کی ساس نند ہی ہیں جو اس کی تکلیف کا خیال کرتی ہیں اور دوا تعویذ بھی کرتی ہیں اور افضل ۔۔۔ ؟ اس نے تو اپنی زندگی نوکری کے لئے وقف کردی ہے، گھر کے مسائل سے اسکو کوئی دلچسپی نہیں۔

    سامعہ کی لاتعلقی نے افضل کو مزید بے چین اور مایوس کر دیا تھا۔ اپنی بے کلی کو دور کرنے کے لئے اس نے اخبار کا مطالعہ کیا اور پھر ظہر کی نماز کے بعد اس پتے پر روانہ ہو گیا جو اس نے اخبارمیں دیکھا تھا۔ رقت آمیز مناظر نے اچھے اچھوں کو رلا دیا تھا، پورا خاندان ٹرالر کی زد میں آ گیا تھا اور مرنے والے جس گاڑی میں سوار تھے وہ گاڑی کھلونے کی طرح چکنا چور ہو گئی تھی، تدفین کے بعد وہ گھر لوٹ آیا۔ آہ و بکا کی وادی میں اتر گیا اور گھنٹوں لذت اور تسکین کے مزے لوٹتا رہا۔

    فریحہ نے سامعہ کے کمرے میں کھانے کی ٹرے لاکر رکھ دی تھی۔

    اٹھ جایئے کھانا کھا لیں ۔

    سامعہ نے آنکھیں کھولیں اور ہولے سے بولی! بچیاں سو گئیں؟

    جی بھابھی! امی انہیں سلا رہی ہیں، دودھ پلا دیا ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں، کھانا کھاکر سو جائیں۔

    ٹھیک ہے، وہ اٹھ کر بیٹھ گئی، دوسرے کمرے سے افضل بھی آ گیا۔

    دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا اور پھر اپنے اپنے بستروں پر لیٹ گئے۔

    رات کا پچھلا پہر گزر چکا تھا، سامعہ کی آنکھوں سے نیند غائب تھی، دل پر گھبراہٹ اور اعصابی طور پر کمزوری محسوس کر رہی تھی، وہ اسی کیفیت میں اپنی جگہ سے اٹھی اور جگ سے انڈیل کر پانی پینے لگی۔ افضل کے بستر پر نگاہ گئی وہ اپنی جگہ پر نہیں تھا۔

    یہ ہی تشویش اسے دوسرے کمرے میں لے گئی، کمرے میں روشنی تھی اور ہلکی ہلکی سی آوازیں آ رہی تھیں۔

    اف! اس وقت کون آ گیا، حیرانی اور پریشانی کے عالم میں وہ دروازے کے قریب پہنچ گئی، کمرے میں جھانکا، افضل موبائل پر بات کر رہا تھا، موبائل سے آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔

    بابا جی! میں عمل کو روکنا چاہتا ہوں، میں سامعہ کو مزید تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا۔

    تجھے یہ بات تو پہلے سوچنی چاہئے تھی۔

    جی بابا! غلطی ہو گئی، آپ کو معلوم ہے روز، روز کے لڑائی جھگڑے، طعنے برداشت نہیں ہوتے تھے۔ جان چھڑانے کا ایک ہی حل سمجھ میں آیا۔

    ہوں! تو سن اگر تو نے عمل روک دیا تو یہ جنات تجھ پر آ جائیں گے، اور تجھے مار ڈالیں گے اور تیرا گھر برباد ہو جائےگا، بول منظور ہے؟

    نہیں۔۔۔ بابا، نہیں، افضل کی آواز میں گھبراہٹ اور پریشانی نمایاں تھی۔ میں یہ چاہتا ہوں، ہم دونوں زندہ و سلامت رہیں، ہماری بچیاں بہت چھوٹی ہیں، گھر برباد ہو رہا ہے میرا، بچا لو، بابا ، بچا لو۔

    سامعہ کا دل چاہا کمرے میں داخل ہو کر افضل کی پٹائی کر دے اور موبائل توڑ کر باہر پھینک دے اور کہے، بدبخت انسان! سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے، یہ کیا ہمارا گھر اور ہماری جانیں بچائےگا، لیکن اس نے صبر سے کام لیا کہ آگے کے منصوبے سے واقف ہو سکے۔

    ایک شرط پر تو بج سکتا ہے، تیرا گھر محفوظ رہ سکتا ہے۔

    وہ کیا۔۔۔؟ افضل نے بڑی عجلت میں جواب دیا تھا۔

    وہ یہ کہ تو کم از کم دو لاکھ کا انتظام کر، ان پیسوں کے عوض تیرا کام میرے مرید کریں گے۔

    ’’دو لاکھ ؟‘‘ افضل کی آواز میں لکنت آ گئی تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ زلزلے کے جھٹکے کی زد میں آ گیا ہو۔

    سامعہ نے اپنے آپ کو بمشکل سنبھالا اور کمزور قدموں سے چلتی ہوئی بستر تک پہنچی اور اپنے آپ کو فوم کے گدے پر گرا لیا۔

    رات اسی سوچ و بچار میں گزر گئی کہ افضل سے طلاق لے لوں، لیکن کہاں جاؤں گی؟ اور پھر طلاق تو اللہ کے نزدیک سب سے برا فعل ہے، پھر میں اللہ کو کیوں ناراض کروں، یہ زندگی اس ہی کی تو ہے، اور ہے بھی مختصر، نہ جانے کیس موڑ پر شام ہو جائے اور پھر بچیوں کا مستقبل بھی برباد ہو جائےگا۔ یا کروں۔۔۔؟ س کا سر چکرانے لگا۔

    صبح سامعہ جلد ہی اٹھ گئی، اس کے اٹھنے کے دو تین گھنٹوں بعد افضل اٹھا، منہ ہاتھ دھویا اور ناشتہ کی میز پر آ گیا۔

    سامعہ بھی اس کے ساتھ ناشتہ کرنے لگی پھر اسی ہی دوران سامعہ نے افضل کی جیب سے موبائل نکالا اور اسے کھولا اور اس کی سم لے کر باہر کی طرف چل دی اور کچرے کے ڈھیر پر اچھال دی۔

    ارے، ارے، یہ کیا کیا ۔۔۔؟ وہ باہر کی طرف بھاگا،

    ٹھہر جاؤ، اس نے حکم صادر کیا۔

    وہ رک گیا۔ واپس آجاؤ، دراصل وہ سم تمہاری اور میری جان کی دشمن ہے، ہم بابا سے رابطہ کی تمام راہیں مسدود کر دیں گے اور جلد ہی یہ گھر چھوڑ دیں گے۔

    لیکن۔۔۔؟ وہ سراپا سوال بن گیا۔

    لیکن ویکن کچھ نہیں، میں نے رات تم دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سن لی تھی۔

    سنو افضل! جو لوگ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ ہمیشہ بامراد ہوتے ہیں، نفع نقصان بےشک اللہ ہی کی طرف سے ہے، بس نیت میں کھوٹ نہیں ہونا چاہئے۔

    ہم آج ہی کسی اچھے سے سائیکٹرس سے ملیں گے۔ افضل کی آنکھوں میں آنسوؤں کا دریا تیر گیا اور اس کا جھکا ہوا سر مزید جھکتا چلا گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے