(۱)
’’اس عالیشان کوٹھی میں رہنے والے عالیشان خاندان کے اتنے وارث مارے گئے، لیکن کسی نے چوں تک نہیں کی۔ عورتوں کے دل ہیں یا پتھر۔‘‘ چائے کی تھڑی لگانے والے کالو رام نے ڈونگر گولا کو صبح صبح ایک گلاس چائے دیتے ہوئے رازدارانہ میں سرگوشی کی۔
’’ہاں بھیا! گھر کے سارے مرد مارے گئے۔ بڑے داتا حکم کا ایک بیٹا اور منجھلے داتا حاکم کے دو بیٹے ممبئی کے کسی بڑے کالج میں پڑھتے ہیں، سو بچ گئے۔‘‘ ڈونگر گولا نے جو، اب بوڑھا ہو گیا تھا، کھانستے ہوئے ڈھیر سا بلغم دھول بھری زمین پریشر سے تھوکتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھیا، یہ توبتاؤ، دنگائیوں سے ان کی کوئی دشمنی تھی کیا؟‘‘
’’کیوں پوچھ رہا ہے؟‘‘
’’تم نہیں جانتے کیا، دنگوں کا مقصد تو مسلمانوں کو چن چن کر مارنا ہے۔‘‘ کالو رام کے لہجے میں خفیف سا درد تھا۔
’’دشمنی نہیں تھی بھیا! چمچماتی دو بڑی گاڑیوں میں شہر سے دور فیکٹری سے لوٹ رہے تھے۔ سب کے سب لمبے چوڑے، سرخ سفید، پٹھانوں کے دھوکے میں مارے گئے۔‘‘
’’کیا ٹولے نے پینٹ اتر وا کر نہیں دیکھا تھا۔ چیک تو کیا ہی ہوگا؟‘‘
’’نہیں! سب کچھ جلدی اور دھوکے میں ہوا۔ گاڑیوں میں آگ لگا دی تھی۔ ادھ جلی لاشیں جب برہنہ ہونا شروع ہوئیں، تب پتہ چلا۔‘‘
’’لاشیں گھر تک کیسے آئیں!‘‘
’’وہ ٹولے والے خود چھوڑ گئے اور کہہ دیا، ’’بھول ہو گئی، ان کا داہ سنسکار کر دو۔‘‘ کل سے لاشیں رکھی ہیں، آج راجستھان سے رشتے دار آئیں گے، تب داہ سنسکار ہوگا۔‘‘
’’پرکل سے خاموشی کیوں ہے؟ کوئی رونا نہیں، اتنے مردوں کی بیواؤں کا تو اب تک دل پھٹ گیا ہوتا۔‘‘ کالو رام نے حیرت و استعجاب سے پوچھا۔ ڈونگر گولا اس کا دوست تھا۔ دونوں بے تکلفانہ باتیں کیا کرتے تھے۔
’’ارے تو ان راجپوتوں کو نہیں جانتا۔ ان کی عورتیں موت پر روتی نہیں ہیں۔ چاہے وہ اپنا ہی مرد کیوں نہ ہو۔ رونا آئے بھی تو ضبط کر لیتی ہیں۔‘‘
’’بھلا وہ کیوں! روتے تو سبھی ہیں۔ سبھی جن مانس ہیں۔ پھر عورتیں تو کمزور دل کی ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ وہی روتی پیٹتی ہیں۔‘‘
(۲)
’’ہاں، چھوٹی رانی صاحب کو رونا آرہا تھا، مگر بڑی کنوررانی صاحبہ نے انھیں آنکھیں دکھائیں تو انھوں نے اپنے منہ میں آنچل ٹھونس لیا۔‘‘
’’روتے کیوں نہیں؟‘‘
’’پردے کی سخت پابندی کی وجہ سے۔ باہر آواز نہ جائے اس لئے۔‘‘
’’لیکن یہ تو نیا زمانہ ہے۔ سب تو باہر گھومتی ہیں۔ پردہ تو اب رہا نہیں۔‘‘
’’ہاں تو، ٹھیک کہہ رہا ہے۔‘‘ ڈونگر گولا نے اباسی لیتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ’’مگر پردے سے زیادہ ایک بات اور ہے، وہ یہ کہ’’رونا راجپوت قوم کے لیے اپنی آن بان شان کے خلاف ہے۔‘‘
’’کیوں خلاف ہے۔‘‘ کالو رام کا تجسس بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
’’ان کے یہاں ایسا ہوتا آیا ہے۔‘‘
’’کیوں ہوتا آیا ہے۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔‘‘
’’بھئی، رواج ہی ایسا ہے۔‘‘
’’وہی تو جاننا چاہتا ہوں۔ یہ رواج آخر بنا کیسے؟‘‘
’’دراصل بات یہ ہے کہ رونا کمزوری اور کایرتا کی نشانی سمجھا جاتا ہے اور قوم ہمیشہ سے بہادور رہی ہے یا ہونے کا دکھاوا کرتی آئی ہے۔ کمزوری کا مظاہرہ کرنا ان کی شان کو چوٹ پہنچاتا ہے۔ راجستھان میں یہ ریت اس قوم میں عام ہے۔‘‘ ڈونگر گولا نے عالمانہ انداز میں کالو رام کو سمجھایا اور اسٹور سے ماچس کی بجھی ہوئی تیلی کو جلا کر منہ میں رکھی بیڑی کو سلگایا۔
’’اوہ! یہ بات ہے، مگر یہ تو میّت کا مذاق اڑانا ہوا۔‘‘
’’اب کچھ بھی سمجھ لو۔‘‘
’’ضروری تو نہیں سب ہی پکے دل کے ہوں۔‘‘
’’ہاں ضروری تو نہیں۔‘‘
’’پھراگر رونا چاہیں تو؟‘‘
’’بڑے بوڑھے انھیں ایسا نہیں کرنے دیتے۔ منہ میں کپڑا ٹھونس دیتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو ظلم ہے۔‘‘
’’اب ظلم ہی سہی۔ ریتی، رواج کو تو نبھاناہی پڑتا ہے۔ لوک لاج بھی کوئی چیز ہے۔‘‘
’’اب کیا ہوگا؟‘‘ کالو رام نے بڑی فکر کا مظاہرہ کیا۔‘‘
(۳)
’’جا رہا ہوں۔ کہیں گولی جات کی عورتیں مل گئیں تو بلالاؤ ں گا۔‘‘
’’یہ گولی جات کیا ہوتی ہے۔‘‘ کالورام نے دوسرے گراہک سے خالی گلاس لیتے ہوئے پھر سوال ٹھونکا۔ اب ڈونگر گولا جھنجھلا گیا تھا۔ لہجے میں تیزی لاتے ہوئے بولا، ’’ارے میں بھی تو اسی جات کا ہوں۔ پر میری شادی نہیں ہوئی۔ میں نے کی ہی نہیں۔ ورنہ ہماری نسل ہی اس رواج کی تکمیل کرتی چلی آئی ہے۔ ان کے مرنے پر ہماری ہی عورتیں بَین کرتی ہیں اور خوب کرتی ہیں۔ رونا نہیں بھی آتا تو کوشش کرکے جھوٹ موٹ ہی سہی وہ دھاڑیں مار مار کر روتی ہیں، چلاتی ہیں، بال نوچتی ہے، کپڑے کھسوٹتی ہیں۔ اس طرح رونے کو ’’پلا لینا‘‘ کہتے ہیں اور جتنا زیادہ تاثرکن پلا لیا جاتا ہے، راجپوت عورتوں کے من کو اتنا ہی سنتوش پہنچتا ہے۔ وہ خوش ہوتی ہیں کہ نمک کا قرض ادا کر دیا۔ بس اسی لیے میں نے شادی نہیں کی۔ یہ سب مجھ کو پسند نہیں ہے۔ پھر راجپوت مرد ہماری عورتوں پر غلط نظر ڈالنے سے بھی نہیں چوکتے۔ بھیا! بڑی بے بسی ہوتی ہے۔‘‘ ڈونگر گولا کی تیز ی اور جھنجھلاہٹ دھیرے دھیرے ٹھنڈی سانسوں میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔
’’یہ جات والے کیا راجستھان کے ہر شہر میں مل جاتے ہیں؟‘‘
’’نہیں یہ جات تو غلام پرتھا کے تحت وجود میں آئی۔ راجپوتوں میں لڑکی کی شادی پر دہیز میں گولی گولا دئے جاتے ہیں۔ یہ زندگی بھر ان کی غلامی کرتے ہیں، خدمت کرتے ہیں۔ پھر کسی کی بھی موت ہو، یہ روتے ہیں، مگر صرف گولینیں، گولے نہیں روتے۔‘‘ اب ڈونگر گولا کے چہرے پر کالو رام کے سوال کرنے سے کوفت صاف نظر آنے لگی تھی۔
’’تمہاری نسل کیسے بڑھتی ہے؟‘‘
’’اتنا بھی نہیں جانتا۔ پھر بتاؤں گا۔ بہت دیر ہوگئی، سورج چڑھ آیا، بڑا کام ہے۔‘‘ بیڑی کے بچے ٹھونٹ کو ڈونگر گولا نے پھینکتے ہوئے کہا۔
’’نہیں نہیں! پہلے میری بات کا جواب دے۔ لے، یہ ایک چائے اور پی لے، پھر چلا جانا۔‘‘ کالو رام نے دوسرے گراہک کے لیے بنائی ہوئی چائے میں سے بچی جائے کو گلاس میں انڈیلتے ہوئے ڈونگر گولا سے کچھ اس ہمدردی اور اپنے پن سے کہا کہ ڈونگرنہ چاہتے ہوئے بھی گلاس ہاتھ میں لے کر بات پوری کرنے لگا، ’’سن!یہ لوگ دہیز میں ہمیں لاتے ہیں اور ہماری بھی آپس میں شادی کروا دیتے ہیں۔ اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہماری نسل صدیوں سے ان کی خدمت گزاری کرتی چلی آ رہی ہے۔ مگر اب ہماری جات والوں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے۔ اب راجستھان میں بھی گولا گولی تقریباََ ختم ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے نام کے آگے شیخاوت، جھالا، راٹھوڑ اور بھاٹی لگانا شروع کر دیا ہے۔ جس کا آقا جو ہوا۔ اس نے ویسا ہی ’’سر نیم‘‘ لگا لیا اور گولا گولی سے پیچھا چھڑا لیا۔ اب رونے کے لیے یہ کسی بھی ضرورت مند کو پیسے دے کر بلوا لیتے ہیں اور اس طرح ’پلا لینے‘ کی رسم پوری کرتے ہیں۔‘‘ اپنی بات کو جلدی سے ختم کر کے، کالو رام کو حیرت واستعجاب اور تفکرات کے دائرے۔
(۴)
میں قید کرکے ڈونگر گولا نے سائیکل اٹھائی اور بڑے بڑے پیڈل مار کر دور بستی کی طرف آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
پور اشہر دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک حصہ مرگھٹ بنا دیا گیا تھا اور دوسرا حصہ رنگین اور عیش و عشرت میں ڈوبا ہوا تھا۔ دوسرا حصہ، پہلے حصے پر، انسانیت کی رسوائی کا مظاہرہ بڑے فخر سے کر رہا تھا۔ بہت ہی منظّم طریقے سے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جا رہا تھا۔ جس میں صوبائی حکومت اور پولیس کا پورا پورا تعاون تھا۔
کمپیوٹر ائز فہرست کو ساتھ لے چلنے والے دنگائی پہلے ایک ٹرک میں بھر کر مشتعل نعروں کے ساتھ مسلم بستی کا چکر لگاتے، اس کے بعد کئی ٹرکوں میں خاکی اور بھگوا رنگ کے کپڑے پہنے، نوجوانوں کا جھنڈ آتا ہے۔ جن کے پاس فوراََ آگ پکڑنے والی اشیا خطرناک ہتھیار، بھالے اور ترشول ہوتے۔ یہ پہلے تو امیرمسلمانوں کے گھروں کو لوٹتے اور پھر ٹرکوں میں لاد کر لائے گئے گیس سلنڈروں سے مکانوں میں کچھ دیر گیس چھوڑ تے اور ماچس کی جلتی تیلی پھینک کر مع خاندان سب کو جلا دیتے۔ عورتوں کی عصمت دری کھلے عام کرتے۔ بچوں کے سامنے ان کے باپ، چچا، دادا کا بڑی بے دردی سے قتل کرتے، ماؤں کے سامنے بچوں کو زندہ آگ میں پھینک دیتے۔ یہی نہیں بلکہ پیٹ میں پل رہے ننھے وجود کو پیٹ سے چیر کر نکالتے اور آگ میں جھونک دیتے، بچے اور عورتیں ڈرے سہمے اور خوفزدہ ہو جاتے تو، خوب ہنستے۔ پھر ان کے سامننے نگلے ہوجاتے، ناچتے اور کسی بھی عورت کو، لڑکی کو پکڑکر سب کے سامنے بلا تکار کرتے۔
آج کئی مہینے گزر گئے تھے۔ شہر میں یہ سب ہوتے ہوئے۔ ایسا لگتا تھا اس شہر کا کوئی محافظ نہیں، کوئی خدا نہیں، کوئی رام نہیں، کوئی رحیم نہیں۔ آدھا شہر سلک رہا تھا، آدھا اسے سلگا رہا تھا۔ وہاں انسان تو کیا، حیوان بھی نہیں تھا۔ بَس کھوکھلے جسم تھے۔ جن کی بربریت کے آگے حیوانیت بھی حیران تھی۔ ڈونگر گولا سائیکل چلاتے ہوئے شہر کے انہیں حالات پر غوروفکر کرتے ہوئے ایک جلی ہوئی تباہ بستی میں پہنچا۔ ہو حق! آدم نہ آدم ذات۔ بس سب کچھ جلا ہوا، لٹا ہوا، اجڑا ہوا، کالا کالا بکھرا بکھرا، وہ گھبرا کر خوفزدہ ہو کر وہاں سے الٹے پاؤں بھاگا۔ اس کی آنکھوں میں ڈھیر وں آنسوں تھے۔ اپنی اتنی عمر میں ایسا منظر اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ’’ہے بھگوان! یہ میرے وطن کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچ کر آسمان کی جانب دیکھا اور بڑی بے دلی سے پیڈل مارتے ہوئے سائیکل چلاتا رہا آخر کار وہ ایک راحتِ شور میں پہنچا۔ جہاں گندگی، مچھر وں اور بدبو کا انبار تھا اور اس سے بھی زیادہ بو باس والے ادھ ننگے، چھوٹے چھوٹے، لٹے لٹے انسانی جسم صرف ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی جوانیاں اور پیلی آنکھوں، لٹکتی کھالوں والی ویرانیاں۔
ڈونگر گولا نے سائیکل گندی نالی کے بہتے ہوئے کیچڑ کے کنارے کھڑی کی اور چاروں طرف تجسّس سے دیکھنے لگا۔ کئی بچوں اور آٹھ دس عورتوں نے اسے گھیر لیا، ’’کیا بات ہے، کیا چاہیے؟‘‘
’’رونا ہوگا، بَین کرنا ہوگا، بدلے میں پیسے ملیں گے۔ چلوگی میرے ساتھ۔ ایک ہزار سے کم کسی کو نہیں دلواؤں گا۔‘‘
(۵)
عورتیں ایسے دیکھنے لگیں جیسے وہ کسی دوسری دنیا سے آیا ہو لیکن جب ڈونگر گولا نے انہیں سارا ماجرا سمجھایا تو وہ خوشی خوشی تیار ہو گئیں کہ شک و شبے کا اب کوئی مقام ان کے ذہنوں میں نہیں تھا۔ اب ان کا لٹتا بھی کیا، شوہر عزت، شہرت، دَھن، دولت، گھر بار سب کچھ تو ختم ہو چلا تھا۔ بچا ہی کیا تھا۔ خوف و ڈر سے وہ آزاد ہو گئی تھیں۔ اب تو صرف ان کو نظر آ رہے تھے اپنے یتیم اور ادھ ننگے اور بھونک سے تڑپتے بچے، بیمار اور بوڑھے ماں باپ، ان کی دوا دارو، اور بہت کچھ۔۔۔ اور ایسے میں ایک ہزار کی رقم۔‘‘
’’صرف پانچ عورتیں کافی ہیں۔‘‘
’’رابعہ تو چلی جا۔۔۔‘‘
’’نورجہاں تجھے بھی جانا ہوگا۔۔۔ نہیں میں بھی جاؤں گی۔ مجھے اس وقت پیسوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ کل سے میرا بچہ بخار میں تپ رہا ہے۔ کسی طرح سے بھی دوا کا انتظام کرنا ہے۔‘‘ میمونہ نے ضد کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا بابا! تو چلی جا۔۔۔ جا! دیر نہ کر۔۔۔ اور اس طرح آپس میں فیصلہ کرکے پانچ عورتیں بڑے تجسس اور فکر کے ساتھ گولا کے پیچھے پیچھے چل دیں۔ ہر ایک کے دل میں سو سو سوال، وہ سوچ رہی تھی۔ آخر دوسرے کے غم کو، جس سے نہ کوئی رشتہ نا طہ، اس شدت سے کیسے محسوس کریں کہ بین کرنے لگیں، یہ کیسے ممکن ہوگا۔ مگر پھر روپیوں کی مجبوری انہیں برابر تقویت پہنچاتی رہی۔۔۔ یا خدا! آج ہم پر یہ کیسا وقت آ گیا ہے، جو ہاتھ ہمیشہ دینے کے لیے اٹھتے تھے۔ آج لینے پر مجبور ہیں۔ وقت اور حالات پل بھر میں کس طرح بدل جائیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ آخر کوئی تو بتائے ہمارا قصور کیا تھا۔ کیوں ہمیں برباد کیا گیا، مذہب کے نام پر، سیاست کے نام پر، فرقے کے نام پر۔۔۔ کس کس کے نام پر آخر کب تک لوٹا جاتا رہےگا۔۔۔ یوں برباد کیا جا تا رہےگا۔۔۔ یہ انسان کو کیا ہو گیا ہے۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ تاثر ات کے ہجوم نے ان کے لب بستہ کر دئے تھے۔ پانچوں نے ایک ساتھ اداس نظروں سے آسمان کی جانب دیکھا اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں پانی دیکھ کر، آپس میں کسی نے کسی کا کندھا دبایا کسی نے ہاتھ ہاتھ میں لے کر اور کسی نے پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر ایک دوسرے کو ڈھارس بندھائی۔ اس کے باوجود آنسو کا ایک قطرہ ان کی آنکھوں میں نہیں تھا۔ وہ تو سوکھ گئے تھے۔ آدھا راستہ انہیں تفکرات اور غم کے سایوں میں گیر کر طے ہو گیا۔
’’جلدی چلو۔۔۔ جلدی جلدی۔۔۔ سر پہ آنچل ڈالو، منہ چھپاؤ۔‘‘ ڈونگر گولا کے لہجے میں ڈھیروں ہمدردی تھی۔
’’یہ لو! سب نے ایسا ہی کیا۔‘‘
’’کوٹھی میں جہاں تمہیں بیٹھ کر رونا ہے وہاں تک میں تمہیں پہنچا دوں گا۔ بس یہ سمجھ لو، یہ اس گھر کی ریت ہے۔ باقی سے تمہیں کچھ غرض نہیں۔‘‘ عورتیں ڈونگر کی ہدایات چپ چاپ سنتی رہیں اور پیچھے پیچھے چلتی رہیں۔
کوٹھی میں گہما گہمی بڑھ گئی تھی۔ تینوں کنور ممبئی سے آ گئے تھے۔ دیگررشتے دار بھی جو دھ پور سے آ گئے تھے۔ ڈونگر اس گھر کا پُرانہ نوکر تھا۔ حویلی کے ادب و آداب جانتا تھا۔ وہ آگے آگے ہوا اور پول سے دری خانہ (مردانہ) کر اس کرکے زنانے تک (۶)
پہنچتے ہوئے اس نے عورتوں کو ’’پلا لینے‘‘ کی ہدایت دی۔ عورتیں پہلے تو جھجکیں، پھر کوئی چارہ نہ دیکھ کر زنان خانہ میں جاتے ہوئیں گھونگھٹ کرکے رونے کی کوشش کرنے لگیں۔ ان عورتوں کو دیکھ کر بڑی کنواررانی صاحبہ کا ماتھا ٹھنکا۔ بل پڑ گئے۔ آتی تھیں تو جاتی کہا تھیں، فوراََ انھیں اور ڈونگر کو بلوا بھیجا۔ وہ آیا۔ کہا ’’ڈونگر یہ کسے اٹھا لایا۔ پورے شہر میں یہی مسلمان عورتیں تجھے دیکھائی دیں۔ کچھ تو سوچا ہوتا، کیا تیری متی ماری گئی تھی۔‘‘
’’حاکم! سارے شہر میں کرفیو ہے۔ زیادہ دور نہ جا سکا۔ پاس کے شوِر سے انہیں لے آیا۔ مجبوری تھی، ہماری بھی، ان کی بھی۔ حضور! مائی باپ۔ ان سے کام چلا لیجئے۔‘‘ ڈونگر گولا نے کمر کو خم کرتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ کر اس بے بسی سے کہا کہ بڑی کنورانی صاحب لاجواب ہو گئیں اور موقع کی نزاکت کو محسوس کرکے، جو ہے اُسے غنیمت جانو، کی طرز پر جس تیزی سے اٹھیں تھیں، اتنی ہی نرمی اور عاجزی سے الٹے پاؤں اپنا استھان لیا۔ کچھ خواتین سے ان کی آنکھیں ملیں۔ وہ سوالیہ نشان بنی تھیں۔ مگر بڑی کنورانی صاحب نے جلدی سے ان سے نظریں بچا تے ہوئے مسلم خواتین پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔
عورتیں پلا لے رہی تھیں اورگھر کی چھے جوان بیوائیں خاموشی سے گھٹ گھٹ کر آنسو روکنے کی ناکام کوشش میں لگی تھیں۔ گھر کی بڑی بوڑھی اور رشتہ داروں نے کلائی سے کہنیوں اور کہنیوں سے بازوؤں تک پہنے ان کے چوڑے اُتارنا شروع کر دیئے۔ کسی نے ہتھ پھول اتارے، تو کسی نے پگ پان، تو کسی نے جوڑ۔ بڑی موسی نے چھوٹی رانی صاحب کے گلے کا بڑا ہار ’’آڑ‘‘ اتارا تو بہت کچھ سامنے آ گیا۔ کرتی کا گلا نہایت بڑا تھا۔ بڑی بوڑھیوں نے اُسے مہین آنچل سے ڈھکنے کی کوشش بھی کی، مگر ناکام رہیں۔ سب کچھ چھلک آنے کو بیتاب۔ کیا چھاتی، کیا غبار۔۔۔ اِدھر یہ رسمیں چل رہی تھیں۔ اور اُدھر۔۔۔ وہ پانچ عورتیں۔۔۔!
شروع میں رونا مصنوعی رہا، لیکن پھر کسی کو اپنا باپ یاد آ گیا، کسی کو شوہر، کسی کو جوان بھائی تو کسی کو معصوم اولاد۔ کسی کو مجبوری پر رونا آیا تو کسی کو بچوں کی بھوک پر۔۔۔ ان کی یتیمی پر۔۔۔ ان کے مستقبل پر۔۔۔ حالات پر، سانحات پر، قوم پر انسان پر۔۔۔ اور نہ جانے کس کس پر۔۔۔ ایک کہرام مچ گیا اور یہی تو چاہیے تھا۔ پلے سے سب مطمئن نظر آ رہے تھے، مگر دو گھنٹے مسلسل پلا لینے کے بعد بھی کہرام تھاکہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ گھر والے دنگ تھے کہ اتنا اظہار افسوس تو ان کے خاندان میں پہلے کبھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ وفا شعار گولیوں نے بھی نہیں!۔۔۔ آخر بمشکل رشتے داروں نے آکر ان ’گولیوں‘ کو چپ کرایا۔ بر ف کا انتظام کہا سے ہوتا چنانچہ لاشوں میں سے تعفن اٹھنا شروع ہو چکی تھی۔ اس لیے جیسے تیسے پلّے کی رسم کو ختم کر کے ایک ایک ہزار روپے عورتوں کو دے کر جانے کے لیے کہہ دیا گیا۔
سوجی ہوئی آنکھوں، بکھرے بالوں اور بے ترتیب آنچلوں کو سنبھالتی ہوئی رابعہ، نورجہاں، میمونہ، شاکرہ اور ذکیہ کوٹھی سے باہر آکر اپنے شِوِر کی طرف نڈھال قدموں سے روانہ ہوئیں۔
(۷)
ابھی دوسرے موڑ پر ہی پہنچی تھیں کہ۔۔۔ سوجی ہوئی آنکھیں، انہیں۔۔۔ خمار آلودلگیں۔۔۔ بکھری بال کالی گھٹائیں اور بےترتیب آنچل۔۔۔ ہواکی ٹھنڈک اور وہ ’ٹولہ، نکڑ پر ایک ناٹک کھیلنے لگا۔ سین بولنے لگا۔ فضا ہموار تو تھی ہی، رواں بھی ہو گئی۔۔۔ کردار اسٹیج پر نمودار ہونے لگے۔ رابعہ، میمونہ، ذکیہ۔۔۔ اُبلتی آنکھیں۔۔۔ نوچے کھسوٹے بال۔۔۔ تار تار آنچل۔۔۔ ٹولے والے۔۔۔ بھگوا وستر۔۔۔ تِرشول۔۔۔ بھالے۔۔۔ اور کرارے نوٹ۔۔۔ اور اس ناٹک کو دیکھنے والی سامعین۔۔۔ ابھی ابھی نکڑ کے دوسرے چھور پر دیوی کے مندر سے پوجا کرکے لوٹی آٹھ دس خواتین۔۔۔ ہاتھ میں پوجا کی تھالی لیے اور اُس میں دیوی ماں کا پرساد لیے پراسرار نگاہوں سے نکڑ ناٹک دیکھنے میں محوتھیں۔۔۔ سارا منظر دیکھ کر وہ خوشی اور جوش سے بھر جاتی ہیں اور جے ماتا دی کے نعرے اور دیوی کے بھجن زور زور سے گانے لگتی ہیں۔ آواز ایسی کہ جیسے شعلہ سا لپک رہا ہو۔۔۔ اور ناٹک، اسٹیج، کردار، پلاٹ اور سامع کے درمیان سے۔۔۔ عورت۔۔۔ مرد اور انسان۔۔۔ سب غائب ہو گئے تھے۔ بس کھوکھلے جسم، بدکردار ی کی مثال بن کر ننگانا چ، ناچ رہے ہیں۔ سامعین عورتیں جن کی محبت، وفا، تیاگ، پیسا، کرونا اور ممتا۔۔۔ سب خصوصیتیں ان کے جسم سے جدا ہوکر آسمان میں ایک دائرہ بناکر رقص کر رہی ہیں اور خصوصیتوں کو جکڑ رکھا ہے، بہت سی دیوی ماؤں نے، لکشمی ماں نے، سرسوتی ماں نے، درگا ماں نے اور نہ جانے کتنی ماؤں نے۔۔۔!
ان تمام دیویوں نے ان سامعین خواتین کی روحوں کو، ان کی خصوصیتوں کو خلاء میں جکڑ کر ایک حلقہ تعمیر کر لیا تھا اور کھوکھلے بدن، کھوکھلے جسم۔۔۔ بےحس، جذبات سے عاری، نفرت و حقارت اور بربریت کا مظاہرہ اس وحشی پن سے کررہے تھے کہ وحشیوں اور درندوں کی آتما بھی کانپ جائے۔۔۔ نکڑ ناٹک آدھے گھنٹے میں تمام ہو گیا اور تمام ہوئیں۔۔۔ سوجی ہوئی آنکھیں، تمام ہوئے بے ترتیب بال اور تمام ہوا ان کا آنچل۔۔۔!
اب ان آنچلوں کے لیے ’’پلا لینے والی‘‘ وہاں کوئی ’’گولی‘‘ نہیں تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.