Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لندن کی ایک رات

نرمل ورما

لندن کی ایک رات

نرمل ورما

MORE BYنرمل ورما

    میں دوسری بار وہاں گیا تھا۔ پہلی بار دیر سے پہنچا تھا۔ میرے پہنچنے سے پہلے ہی سارا کام تقسیم ہو چکا تھا۔ میں مایوس سا گیٹ کے باہر کھڑا تھا۔ سوچ رہا تھا شاید آخری لمحے انھیں کسی آدمی کی ضرورت پڑ جائے اور وہ مجھے بلا لیں۔ دیر تک گھڑگھڑاتی مشینوں کے اندر سوڈے کی بوتلوں کی کھنک سنائی دیتی رہی۔ جن کو کام مل گیا تھا وہ جلدی جلدی اپنے سوٹ اتار کر کام کے کپڑے پہن رہے تھے۔

    باہر دالان میں بوتلیں تھیں۔۔۔ پھیکی چاندنی میں چمکتی ہوئی، ایک کے اوپر دوسری، سلسلہ وار فیکٹری کی دیوار کے ساتھ چنی ہوئی۔ دور سے دیکھنے پر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کانچ کے کسی لمبے ٹیلے پر بہت سی بلیاں ایک دوسرے کا گلا پکڑے بیٹھی ہیں۔

    میں کھڑا رہا۔ کچھ دیر بعد ایک انگریز میرے پاس آیا، ’’تم ابھی تک کھڑے ہو۔۔۔؟ میں نے کہانا، آج کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا۔

    ’’نہیں، میں صرف دیکھ رہا تھا۔‘‘ میں نے دھیرے سے ہاتھ اپنے کندھے سے الگ کر دیا۔

    ’’کل پندرہ منٹ پہلے آ جانا۔۔۔ اگر کچھ لوگ کل نہیں آئے تو تمہیں لے لیا جائےگا۔ گڈ نائٹ!‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

    یہ دوسری رات تھی۔ ٹیوب اسٹیشن کی سیڑھیاں چڑھ کر میں اوپر آیا تو دیکھا کہ کل کی طرح چاندنی آج بھی نکھر کر پوری طرح پھیلی ہے۔ دور مل کی چمنیوں کے بیچ لندن کا غبار آلود آسمان سمٹ آیا تھا۔

    مجھے دوبارہ راستہ ٹٹولنا پڑا۔ میں ان سڑکوں پر دوبارہ چلنے لگا جن پر کل چلاتھا، جواب شناسا تھیں لیکن چاندنی میں عجیب غیرمانوس سی دکھائی دے رہی تھیں۔

    دوسرے روز نارتھ ایکٹن سے ذرا آگے چل کر میرے پاؤں خود بخود ٹھٹک گئے۔۔۔ سوچا تھا آج میں جلدی آ گیا ہوں اور گیٹ پر میرے سوا اور کوئی نہیں ہوگا لیکن میرا قیاس صحیح نہ تھا۔ وہاں پہلے ہی بیس پچیس بےروزگار نوجوانوں کی بھیڑ تھی۔۔۔ انگریز لڑکے، چند طلبا جو شکل و صورت کے اعتبار سے برمی معلوم ہوتے تھے، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے نیگرو۔ سب الگ الگ ٹولیوں میں تھے، سب کی آنکھیں گیٹ پر لگی تھیں۔ کچھ چہرے جانے پہچانے لگتے تھے۔ انہیں شاید میں نے کل رات بھی دیکھا تھا۔ ان سب کی آنکھیں میری طرف اٹھیں، خاموش اور کھنچی ہوئی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے اس خاموشی میں ایک عجیب ساخوف ابھر آیا ہے، مجھ سے نہیں بلکہ اس انجانے مقدر سے جس کا فیصلہ اگلے چند لمحوں میں ہونے والا تھا۔

    میں بھی ان کے ساتھ ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔۔۔ ان سے ڈرتا ہوا، پھر بھی ان کے قریب۔

    پونے نو بجے کے قریب منیجر صاحب ہمارے پاس آئے۔ مجھے قدرے مایوسی ہوئی۔ وہ کل والے صاحب نہیں تھے، جنہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ منیجر کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک پرزہ تھا۔ ہم سب ان کے قریب کھسک آئے۔۔۔ چڑیاگھر کے ان بے زبان اور معصوم جانوروں کی مانند جو کچھ بھی پانے کے لالچ میں مشین کی طرح حرکت میں آکر سلاخوں کے قریب آ جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے انہوں نے ہمیں دیکھا۔ ہمارے کھلے، ننگے، جذبات سے عاری چہرے انہیں قدرے عجیب ڈراؤنے لگے ہوں گے، کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھیں جلد ہی کاغذ پر جھکالیں اور تیزی سے ایک کے بعد ایک نام پڑھتے چلے گئے۔

    وہ سب لوگ چھانٹ لیے گئے جنہوں نے پچھلی رات کام کیا تھا۔ ان کے علاوہ صرف تین اور لڑکوں کو چنا گیا تھا۔۔۔ دولاوارث سے دکھائی دینے والے انگریز نوجوان اور ایک جنوبی افریقہ کا طالب علم جو سب سے آگے کھڑا تھا اور بار بار جھک کر منیجر صاحب کے کان میں کچھ پھسپھسا دیتا تھا۔

    ’’آج اتنے ہی۔‘‘ انہوں نے ہمدردانہ انداز سے ہماری جانب دیکھا، ’’آپ لوگ کل آئیے۔۔۔ شاید کچھ زیادہ آدمیوں کی ضرورت پڑےگی۔‘‘

    بھیڑ میں سے تین چار نوجوانوں نے آگے بڑھ کر ان سے بحث کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بڑی لاچاری میں اپنے ہاتھ ہلا دیے اور مسکراتی آنکھوں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے اندر چلے گئے۔

    ہمارا انتظار ختم ہو چکا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی ہم میں سے کسی کو اس پر یقین نہیں آیا۔ منیجر کے جانے کے بعد بھی ہم میں سے کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ لگتا تھا، جیسے پچھلے تین منٹوں میں جو کچھ بھی ہوا ہے وہ ابھی ادھورا ہے اور ایک ایسی غیرحقیقی صداقت ہے جس کا شاید ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ ابھی کچھ آس ہے جو باقی ہے، جو انتظار کے بعد بھی اپنے دروازے کھلے رکھتی ہے۔ ہم میں سے بہت تو ایسے تھے جو ٹیوب میں تین یا چار شلنگ کا ٹکٹ لے کر لندن کے دور دراز کونوں سے یہاں آئے تھے۔ ہم سب کے ہاتھوں میں ایک ایک تھیلا تھا جس میں ہم نے رات کی ڈیوٹی کے کپڑے اور کھانے کا سامان رکھ رکھا تھا۔ ہم میں سے کسی کے لیے بھی یہ باور کرنا مشکل تھا کہ ہمیں اگلی ٹیوب سے واپس لوٹ جانا ہوگا۔

    پائپ سے نکلتا نیم گرم پانی، چاندنی میں جھلملاتے کیچڑ کے گڑھے، یہاں تک کہ نالی میں پڑی ایک خالی بوتل ہمیں بڑی غیر متعلق اور بےتکی سی معلوم ہوئی۔ ہم شاید یہ بھی بھول گئے کہ ہم یہاں کس لیے آئے تھے۔ چند لمحے پہلے جو نوکری نہ ملنے کا دکھ تھا، وہ اب صرف ایک بے ڈول، بدوضع بوجھ سا بن کر ہماری ٹانگوں کے اردگرد لپٹ گیا تھا، جسے ہمیں دوبارہ گھر تک گھسیٹ کر لے جانا تھا۔ اس لمحے بھوک اور مایوسی کے باوجود ہمارے دل میں کہیں بھی کوئی جھنجھلاہٹ یا تلخی نہیں تھی۔

    لیکن کچھ لمحوں میں ہی دفعتاً وہ طلسماتی لمحہ ٹوٹ گیا۔ ہم پھر اپنی دنیا میں لوٹ آئے۔ ایک لمبی بوجھل سی سانس اس مایوس بھیڑ سے اٹھی اور چند فحش، بے ہودہ گالیوں میں کھو گئی۔ ایک دوسرے کے جسم کی بو۔۔۔ جسے ہم پاس پاس کھڑے سونگھ سکتے تھے، گالیوں کے باوجود اپنا سکتے تھے۔۔۔ اب الگ الگ راستوں پر بکھرنے لگی تھی۔ صرف ہم تین آدمی اب بھی احاطے کے اندر غیریقینی انداز سے کھڑے رہے۔ میرے پیچھے ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی۔

    ’’بلڈی باسٹرڈ!‘‘ پہلے آدمی نے کچھ دبے کچھ بھرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ آگے بڑھ آیا، خوفزدہ اور شک بھری نظروں سے چاروں طرف دیکھا اور پھر بوتلوں کی ٹوکریوں کے ڈھیر سے سوڈے کی ایک بوتل نکال کر پینے لگا۔ دوسری بوتل اس نے تیسرے آدمی کے ہاتھ میں زبردستی تھما دی تھی، ’’پیو یار، ان سالوں کو کیا پتا چلےگا۔‘‘

    تیسرا آدمی، جو ایک کم عمر نیگرو طالب علم تھا، بوتل لینے میں جھجک رہا تھا لیکن پھر نہ جانے کیا سوچ کر اس نے اپنے سر کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور ایک دودھ پیتے بچے کی طرح بوتل کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ہونٹوں سے لگا لیا۔ ایک لمبا سا گھونٹ بھر کر اس نے ننگی بانہہ سے اپنا منھ پونچھا اور بوتل میرے سامنے رکھ دی۔

    ’’یہ تیسرا موقع ہے جب میں یہاں آیا ہوں۔ کل جس بابو نے کام دینے کا وعدہ کیا تھا، آج وہ دکھائی نہیں دیا۔‘‘

    ’’کل بھی ایسا ہی ہوگا۔ کوئی نیا آئےگا اور اسے پتا نہیں چلےگا کہ ہم آج رات آئے تھے۔‘‘

    ’’کوئی بھی آئے۔۔۔ میں تو اس طرف جھانکوں گا بھی نہیں۔ ڈیم دیئر۔۔۔‘‘

    پہلے آدمی نے اپنے اوور کوٹ کے بٹن کھول دیے۔ اتنی گرمی میں بھی وہ اوورکوٹ پہنے تھا، اس پر مجھے کوئی خاص تعجب نہیں ہوا۔ اس کی شخصیت کچھ ایسے ڈھنگ سے اوور کوٹ سے منسلک تھی کہ ایک کو دوسرے سے الگ کرنا ہی حیرت انگیز ہوتا۔ وہ ایک تندرست توانا جوان مرد تھا، چھوٹی سی چگی داڑھی تھی جس کے اوپر آنکھیں خالی خالی بوکھلاہٹ میں جھپکتی رہتیں، بوکھلاہٹ ہی نہیں بلکہ ایک عجیب سا اعصابی تناؤ جو اکثر شکار ہونے والے جانوروں میں ملتا ہے۔ ہالی وڈ کے ولن کا سا اس کا ڈیل ڈول اندھیرے میں کسی کو بھی بڑا ڈراؤنا لگ سکتا تھا۔

    ہم دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے ہوئے نارتھ ایکٹن کے پل کے پار آگئے تھے۔ لندن کی ڈبل ڈیکر بس ہمارے قریب سے گزر گئی۔ ماہ اگست کے خزاں رسیدہ پتوں کا ریلا دیر تک بس کے پیچھے بھاگتا رہا۔

    تیسرا آدمی جو ایک نوجوان نیگرو تھا، اب بھی اداس تھا اور چپ چاپ آنکھیں جھکائے سڑک پر چل رہا تھا۔

    ’’لندن میں کب سے ہو؟‘‘ داڑھی والے نوجوان نے (بعد میں جس نے اپنا نام ولی بتایا تھا) نیگرو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔

    وہ چپ رہا۔

    ’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘

    ’’جنوبی افریقہ سے۔ یہاں پڑھتا ہوں۔‘‘

    وہ شاید بات کو یہیں ختم کر دینا چاہتا تھا۔ اس نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور ہم دونوں کے آگے کر دیا۔ ہم نے شکریہ ادا کیا اور دوسری طرف دیکھنے لگے۔ یہ اس کا آخری سگریٹ تھا۔۔۔ خواہش کے باوجود ہم میں اتنی تہذیب باقی تھی کہ اسے لینے سے انکار کر دیں لیکن یہ تہذیب و اخلاق کا سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ کچھ دیر بعد ہم تینوں اس سگریٹ کو باری باری پی رہے تھے۔

    سامنے لندن کی رات تھی۔۔۔ بوجھل، گدلی، پرسکون۔ وہ شہر کا ایک اجاڑ کونا تھا اور سڑک خالی تھی۔۔۔ خالی، لیکن ویران نہیں۔ پتوں کی سرسراہٹ، پرانے مکانوں کی باسی بو۔۔۔ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ہم کیچڑ میں کچھ بے جان چیزوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں، حالانکہ وہاں ہوا اور لیمپ پوسٹ کے دائروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔

    ’’تم کہاں جاؤگے؟‘‘

    ’’وارن اسٹریٹ۔‘‘ اس نے کہا، ’’پچھلے دو دنوں سے آرہا ہوں۔ اب تک پانچ پاپس صرف آنے جانے میں خرچ ہو چکے ہیں۔ اتنے پیسوں سے تو میں ٹینس کھیلنے جا سکتا تھا۔‘‘ اس وقت ٹینس کھیلنے کا ذکر بڑا عجیب سا لگا۔۔۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے پچھلے کئی دنوں سے اُسے پیٹ بھر کھانے کو بھی نہیں ملا ہے۔

    ’’میرے دوست کو کام مل گیا ہے۔‘‘ نیگرو طالب علم نے قدرے امنگ بھرے لہجے میں کہا، ’’ہم دونوں ساتھ رہتے ہیں۔ کل شاید وہ مجھے کچھ شلنگ ادھار دے سکےگا۔‘‘

    ’’ڈیم ہم اف ہی ڈزنٹ۔۔۔‘‘ ولی نے عجیب جھنجھلاہٹ آمیز لہجے میں کہا، ’’میں تو کل کسی حالت میں نہیں آؤں گا۔۔۔ پلیز کم ٹو مارو!‘‘ منیجر کی نقل اتارتے ہوئے اس نے منھ سکیڑ لیا، ’’ٹو مارو بی ڈیمڈ! تم کل آؤگے؟‘‘ اس نے پہلی بار میری جانب دیکھ کر پوچھا۔

    ’’شاید آؤں گا۔‘‘ میں نے جان بوجھ کر اسے مزید دق کرنے کے لیے کہا۔ اس کے اس وقت کل کی بات کرنے سے مجھے بہت افسوس ہوا تھا۔

    ’’سالے کتنا دیتے ہیں؟‘‘

    ’’ڈھائی پونڈ۔‘‘ نیگرو طالب علم نے کہا۔

    ’’ہر صبح؟‘‘

    ’’ہاں، ہر صبح۔ آدھی رات کے وقت چائے اور سینڈوچز بھی دیتے ہیں۔ میرا دوست بتا رہا تھا۔ کل میں اور وہ ساتھ ساتھ آئے تھے۔ اسے لے لیا گیا، میں رہ گیا۔‘‘

    ’’نیگرو تھا؟‘‘

    ’’نہیں، وہ برمی ہے۔‘‘

    ’’اور آپ؟‘‘ وِلی نے مشکوک انداز سے میری طرف دیکھا، جیسے اپنی نظروں میں مجھے تول رہا ہو، ’’کیا آپ جاپانی ہیں؟‘‘ میں نے سر ہلادیا۔ اتنی سی بات پر اس کی مخالفت کرنا مجھے بےمعنی سا لگا۔ کچھ دیر تک ہم چپ چاپ ٹیوب اسٹیشن کی طرف چلتے رہے۔ جب کبھی گرم ہوا کا جھونکا آتا، ہم لرز جاتے اور ہماری بھوک اپنے سب رشتے توڑ کر بےقابو ہو جاتی۔ معلوم ہوتا، ہوا لیمپ پوسٹ کے زرد مدھم اجالے کو توڑ جاتی ہے اور توڑ کر اپنے ساتھ بہالے جاتی ہے۔۔۔

    ’’گرمی بہت ہے۔۔۔ پچھلے پانچ سال سے ایسی گرمی نہیں دیکھی۔‘‘

    ’’پانچ سال سے لندن میں ہو؟‘‘

    ’’ہاں، شاید زیادہ۔۔۔ تب سے کئی کام کر چکا ہوں۔ اب اور نہیں رہوں گا۔‘‘

    ’’کیا گھر واپس جاؤگے؟‘‘ وِلی سے پوچھا۔

    ’’گھر؟‘‘ نیگرو طالب علم جارج کے لہجے میں ایک کھوکھلا پن ابھرآیا، جیسے ’گھر‘ لفظ بڑا عجیب ہو، جیسے پہلی بار اس نے یہ لفظ سنا ہو۔ ’’میں چاہتا تو یہ تھا کہ یہیں رہوں لیکن وہ ہمیں چاہتے نہیں۔‘‘

    ’’وہ۔۔۔ آہ! ۔۔۔‘‘ وِلی نے کہا۔

    وہ! اچانک ہم نے چاروں طرف دیکھا۔ کوئی بھی نہ تھا، حالانکہ وہ ہر جگہ اور ہر وقت ہمارے ساتھ تھے، ہمارے باہر اتنے ہی جتنے اندر۔۔۔

    ’’تم یہیں تھے جب جارنگ ہل میں فساد ہوا؟‘‘ ولی کے سفید دانت چمک اٹھے۔

    ’’نہیں، اس وقت تک میں لندن نہیں آیا تھا۔‘‘

    ’’میں وہیں تھا۔ تین دن تک ایک انگریز لڑکی کے گھر چھپا رہا۔ جب وہ ایک ایک نیگرو کو چن چن کر لِنچ کر رہے تھے، میں اس سفید چمڑی والی طوائف کے ساتھ سوتا تھا۔ اس نے سوچا تھا میں اسے چاہتا ہوں۔۔۔ لیکن میں نے اسے اس کے بعد دیکھا تک نہیں۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ میں بدلہ لے رہا تھا۔۔۔ اس کی سفید چمڑی سے۔۔۔‘‘ اور اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا جو اتنا فحش نہیں تھا جتنا حقارت آمیز تھا۔

    دور کارخانوں کے دھویں کے پارٹیوب اسٹیشن کی بتیاں چمک رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے زمین کا کوئی ٹکڑا اچانک درمیان سے پھٹ گیا ہو اور اس کے نیچے سے ہیروں کی جگمگاتی جھالر سطح پر آ گئی ہو۔

    ’’تم یہاں پڑھتے ہو؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ لیکن گرمی کی چھٹیوں میں کام کرتا ہوں۔ پہلے ڈانس کے لیے جاتا تھا۔‘‘ جارج نے کہا۔ اس کا لہجہ بھی بڑا اداس تھا، جیسے کام نہ ملنے کا دکھ ابھی پوری طرح نہ مٹا ہو۔

    ’’کانٹی نینٹ میں کیوں نہیں جاتے یار؟‘‘ ولی نے کہا، ’’میرا ایک دوست جرمنی گیا ہے۔ وہاں نوکریوں کی کمی نہیں۔ سنا ہے وہاں لڑکیاں کالے رنگ کے پیچھے بھاگتی ہیں۔ صرف اشارہ کرنے کی دیر ہے۔۔۔‘‘

    ’’شاید پچھلی لڑائی کی وجہ سے۔۔۔‘‘ جارج نے کہا، ’’کچھ سال پہلے فادر وہاں گئے تھے۔ کہتے تھے کہیں آدمی نظر نہیں آتا۔ ہر طرف عورتیں۔۔۔‘‘

    ’’اوہ، میری کس قدر خواہش ہے کہ ایک جنگ اور ہو، پھر ایک جنگ اور، پھر ایک جنگ اور۔۔۔‘‘ ولی نے کہا۔ جارج نے حیرانی سے ولی کی طرف دیکھا، پھر میری طرف دیکھا۔ وہ شاید کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے محض سر ہلا دیا۔ کہا کچھ بھی نہیں۔

    اور شاید یہ ٹھیک بھی تھا۔ لندن کی اس خاموش گرم رات میں جنگ بہت عجیب سی چیز لگتی تھی۔۔۔ بےمعنی اور مضحکہ خیز۔ اس پر بحث کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ ہوا بھی یہی۔ ہم بہت جلد ولی کی بات کو بھول گئے۔ اس کے بعد ہم مختلف ملکوں کی لڑکیوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔۔۔ پیٹ کی بھوک کے اندر سے اچانک ایک نئی بھوک جاگ اٹھی تھی۔

    ’’میں اسپین جانا چاہتا تھا۔ وہاں کی لڑکیاں۔۔۔ آہ! لیکن سالوں نے ویزا نہیں دیا۔ اپنے ملک کی کنواریوں کی پاکیزگی کا انہیں بہت خیال ہے۔‘‘

    اسپین۔۔۔ جیسے کسی نے دبی ہوئی راکھ کرید دی ہو۔

    ’’تم گئے ہو؟‘‘

    ’’میں جانا چاہتا تھا۔ بہت پہلے۔‘‘

    ’’سول وار میں؟‘‘

    ’’اس وقت میں بہت چھوٹا تھا۔‘‘

    ’’سول وار ہمارے ملک میں شاید۔۔۔‘‘ اور جارج اچانک چپ ہو گیا۔ اس کے گھنگھریالے بالوں پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں۔

    ’’آئی ڈونٹ لائیک سول وار۔‘‘ ولی نے کہا۔

    ہماری بات پھر وہیں آ گئی تھی۔۔۔ بیگائیل کی اس گولی کی طرح جو چاروں طرف گھوم پھر کر ایک ہی چھید میں آ پھنستی ہے۔ ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ لندن کی بہت خاموش اور گرم رات تھی اور لڑائی بہت دور کی چیز لگتی تھی۔۔۔

    راستے میں دائیں جانب ایک پرانے قہوہ خانے سے ہنسی اور موسیقی کا ملاجلا شور اٹھ رہا تھا۔ قہوہ خانے کے پیچھے گلی کے اندھیرے کونے میں دو سایے، ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے، بار بار ہل اٹھتے تھے۔ اوپر اٹھی ہوئی اسکرٹ کے نیچے سڈول ننگی ران رہ رہ کر کانپ جاتی تھی اور پھر ٹٹولتے ہوئے مضطرب ہاتھوں کے نیچے بھنچ جاتی تھی۔

    ’’چلو کچھ بیئر پی لیں۔ کچھ پیے بغیر میں سو نہیں سکتا۔‘‘ ولی نے کہا۔

    مجھے ذرا ہچکچاہٹ ہوئی۔ میری جیب میں آخری وہ شلنگ پڑے تھے جو میں نے ٹیوب کے لیے بچا رکھے تھے۔ جارج کا حال بھی زیادہ بہتر نظر نہیں آ رہا تھا۔ ولی کی تجویز کو اس نے سنا ان سنا کر دیا۔ وہ اندھیرے میں سیٹی بجا رہا تھا۔ ولی شاید سمجھ گیا۔ جارج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے کہا، ’’فکر کی کوئی بات نہیں، یہاں کے لوگ مجھے جانتے ہیں۔۔۔ ایک زمانے میں میں یہاں اکثر آتا تھا۔‘‘ جارج کی بےاعتنائی مٹ گئی، ایک عجیب بچکانہ سی خوشی اس کے چہرے پر پھیل گئی۔

    ’’میں تھوڑی سی جن لوں گا۔ امید ہے کل میرا دوست کچھ شلنگ ادھار دے سکےگا۔‘‘ ہمارے قدم پب کی طرف مڑ گئے۔

    دروازہ کھلتے ہی آوازوں کے ایک ابلتے مچلتے ریلے نے ہمیں اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ دھویں میں تحلیل ہوتی، الجھتی، ایک دوسری کو چھیلتی آوازیں جو کہیں راہ نہ پاکر گدلے ابلتے پانی کی طرح ایک ہی گڑھے میں اکٹھا ہو گئی تھیں۔ روشنی، جو مدھم تھی اور دھویں میں گھری تھی، جس میں کسی ایک چہرے کو پہچاننا اور اسے دوسرے سے الگ کرنا ناممکن تھا۔

    نیچے بیسمنٹ تھا، کچھ سیڑھیاں اترکر۔ کبھی کبھار ناچتے ہوئے جوڑوں کی پرچھائیاں زینے پر پڑتی تھیں۔۔۔ کبھی بے ڈول اور لمبی، کبھی اتنی چھوٹی کہ معلوم ہو جاتا جیسے شفاف پانی کے نیچے سے مچھلیاں اوپر اٹھتی ہیں اور دوسرے ہی لمحے ڈوب جاتی ہیں۔ ہم کونے کی میز کے گرد بیٹھ گئے۔ ولی کچھ دیر بعد بیئر کی تین بوتلیں اور گلاس لے آیا۔ ہم پینے لگے۔

    ’’پہلے میں یہاں کام کرتا تھا۔ کچھ مہینے رہا، پھر جی اوب گیا۔ اس ہوٹل کا مالک اطالوی ہے۔ آدمی برا نہیں ہے لیکن ڈرتا بہت ہے۔ اس طرف آیا تو تم سے ملواؤں گا۔‘‘ ولی نے کہا۔

    ’’کافی ٹپ ملتی ہوگی؟‘‘

    ’’انگریز زیادہ نہیں دیتے۔ بہت ہوا تو ایک چھ پینی۔ لیکن کانٹی نینٹ سے جو ٹورسٹ آتے ہیں ان کی بات دوسری ہے۔ وہ کھلے دل کے ہوتے ہیں، لیکن بے وقوف بھی کم نہیں ہوتے۔‘‘

    ’’مجھے اب کوئی بھی کام مل جائے، میں کر لوں گا۔‘‘ جارج نے کہا۔

    باطن کی گرہوں کے بیچ بیئر نے راستہ بنایا ہے۔۔۔ جہاں پہلے بند پنجرہ تھا، اب وہاں پھڑپھراتے پنکھ ہیں، پرواز کے لیے بےقرار۔

    ’’میں اب زیادہ دن یہاں نہیں رہوں گا۔‘‘ ولی نے کہا۔ ’’میرا دوست جرمنی میں ہے۔ ہو سکا تو ایک دن میں بھی وہاں چلا جاؤں گا۔‘‘

    وِلی نے گلاس ختم کیا اور اسے میز پر اوندھا رکھ دیا، ایک بھی بوند نہیں گری۔ بیئر کا جھاگ داڑھی پر بکھر گیا تھا، جیسے ریت کے ذرے ہوں۔۔۔ گیلے اور سفید۔

    ’’میں جرمنوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ جارج نے کہا۔

    ’’دیئر از ریئل لائف، ہر کونے پر جوان جوان لڑکیا ں کھڑی رہتی ہیں۔‘‘ ولی نے کہا۔

    ’’میں جرمنوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ جارج نے پھر کہا۔ میں ہنسنے لگا۔ جارج نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں بڑی بےچارگی سمٹ آئی تھی۔

    ’’سب لوگ ایک جیسے ہی ہیں۔‘‘ ولی نے کہا۔

    ’’لیکن وہ لوگ۔۔۔‘‘ جارج نے اشارہ کیا۔۔۔ باہر کی جانب، دروازے کے باہر، جہاں محض اندھیرا تھا۔

    ’’وہ لوگ بھی۔۔۔ تم بلاوجہ ڈرتے ہو۔۔‘‘ ولی نے کہا۔

    ایک لمحے کے لیے جارج کا ہاتھ، جو گلاس پر ٹکا تھا، کانپ گیا۔

    ’’یو آر اے راٹر!‘‘ جارج نے کہا۔

    اُس کی آواز میں کچھ ایسا تھا کہ ولی کا چہرہ اچانک پیلا پڑ گیا۔

    ’’دیکھو، میں بہت برا آدمی ہوں۔ اس لفظ کو دوبارہ زبان پر کبھی نہ لانا!‘‘

    ’’اور! واقعی؟‘‘ جارج کی آواز لرز رہی تھی، جیسے وہ ہوا میں تنی رسی پر چل رہی ہو اور نیچے گڑھا ہو، جہاں سے وہ کبھی بھی پھسل سکتی ہے۔ ’’یس۔۔۔ یو آر اے راٹر!‘‘

    ولی گلاس اٹھاکر اچانک کھڑا ہو گیا، جیسے یہ کوئی کھیل ہو اور قاعدے کے مطابق اسے کھڑا ہونا ہی ہو۔

    ’’ایک بار پھر تو کہنا!‘‘ اس کا گلاس جارج کے سر کے قریب پہنچ چکا تھا۔ کانچ پر چپکی بیئر کا جھاگ روشنی میں چمک رہا تھا۔ جارج کی نیم وا آنکھیں اس کی طرف اٹھیں، ’’یس، یو آر اے راٹر! آل رائٹ؟‘‘

    گلاس تلے اس کا سر ہل رہا تھا۔ آدمی کا سر پورے دھڑسے الگ ہوکر محض اپنے محور پر اس طرح کانپ سکتا ہے، یہ مجھے بڑا مضحکہ خیز سا دکھائی دیا۔ وِلی نے گہرے استعجاب سے اس کی طرف دیکھا اور پھر ہنسنے لگا، ’’شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔ مے بی آئی ایم۔۔۔‘‘ وہ پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔

    ہم نے زیادہ نہیں پی تھی۔۔۔ صرف کسی نے ہمارے ارد گرد ایک ڈراؤنا سا پھندا ڈال دیا تھا جسے چھوتے ہی خون بہنے لگتا تھا۔

    کچھ دیر بعد ہوٹل کا مالک ہماری میز کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ گول مٹول جسم لیکن خاصا گٹھیلا، رنگ بہت پیلا۔ چھوٹی سی پیشانی پر تیل سے بھیگے سیاہ گھنگھریالے بال جھکے ہوئے تھے۔

    ’’اور چاہیے؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے ولی کی طرف دیکھا۔

    ’’ابھی ہے۔۔۔ بعد میں۔۔۔‘‘ ولی نے کہا۔ اس کے لہجے میں پہلا سا تناؤ نہیں تھا، حالانکہ تحقیر کے جذبے کو ہم نے محسوس کر لیا تھا، ’’یہ میرے دوست ہیں۔‘‘ اطالوی نے ہماری طرف دیکھا لیکن اس کی آنکھوں میں کوئی اضطراب نہیں جاگا۔

    ’’ولی ہمارے یہاں کام کرتا تھا۔۔۔‘‘ اس نے فخر سے ولی کی طرف دیکھا، جیسے اسے ہم لوگ ولی کے مقابلے میں بڑے حقیر دکھائی دے رہے ہوں۔

    ’’کافی دیر سے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    جارج چپ رہا (خدا کا شکر ہے، اس کا سر اب نہیں کانپ رہا تھا) میں خالی گلاس سے کھیل رہا تھا، میرے ہاتھ رک گئے۔

    ’’صرف کچھ دن سے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’از نٹ اٹ فائن؟‘‘

    ’’اٹ از فائن۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’کوئی کام؟‘‘ وہ میری قمیص کے کالر کو دیکھ رہا تھا۔ نہ جانے کتنے ملکوں کی دھول اس پر جمی تھی۔

    ’’ابھی کچھ نہیں۔۔۔‘‘

    ’’ولی کو کام مل سکتا ہے لیکن یہ ایک جگہ ٹکتا نہیں۔۔۔‘‘ اس نے وِلی کی طرف دیکھا، کچھ پیار سے، کچھ گلہ کرنے کے انداز میں۔

    ’’تمہارے یہاں رہ سکتا تھا۔ صرف تم۔۔۔‘‘ ولی نے کہا۔ اطالوی کے چہرے پر اچانک بیزاری ابھر آئی، ’’تم جانتے ہو۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’آہ!‘‘ ولی نے کہا، ’’تم سب لوگ ایک ہی جیسے ہو۔‘‘

    ’’بہت گرمی ہے۔۔۔‘‘ جارج نے کہا۔

    ’’تم جانتے ہو۔۔۔‘‘ اطالوی نے اصرار کیا۔

    ’’نا۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہو ں کہ میں ابھی ڈانس کروں گا۔ ’’ولی نے اپنی کرسی پیچھے دھکیل دی اور اٹھ کھڑا ہوا لیکن اطالوی نے جھپٹ کر اسے کندھوں سے پکڑ لیا۔ اس کی آنکھیں اچانک خوفزدہ ہو گئیں۔ ولی کو اپنے لمبے پتلے جسم کے مقابل اس کا ٹھگنا، گیند نما جسم قابل رحم سا دکھائی دینے لگا۔

    ’’ولی! تم جانتے ہو، یہاں پر۔۔۔‘‘

    ولی نے جھٹکا دے کر جھٹکے سے اپنا کندھا چھڑا لیا۔ اس کی پیٹھ ہماری میز کے سہارے ٹک گئی۔ جارج نے بیئر کی بوتل کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ ایک لمحے کے لیے محسوس ہوا جیسے ہم کسی ڈگمگاتے جہاز کے ڈیک پر بیٹھے ہوں۔

    آرکسٹرا شروع ہوتے ہی پب کے الگ الگ کونوں سے لڑکے لڑکیوں کے جوڑے بیسمنٹ کی سیڑھیاں اترنے لگے تھے۔

    اطالوی نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ وہ صرف خلا میں گھور رہا تھا۔

    ولی کہیں بھی نہیں تھا۔

    اس کا خالی گلاس ہماری میز پر رکھا تھا۔ جارج نے بوتل سے ہاتھ اٹھا لیا۔ اس کی ہتھیلی کے پسینے کی پوری چھاپ کانچ پر ایک سفید دھبے کی طرح نقش ہو گئی تھی۔ اطالوی نے ہماری طرف دیکھا۔ محسوس ہوا جیسے وہ ہمیں پہچان نہ پا رہا ہو۔ اس نے بے بسی سے دونوں ہاتھ پھیلا دیے تھے۔

    ’’پاگل ہے۔۔۔ ہے نا؟‘‘

    ہم چپ رہے۔ اس وقت وہاں کچھ ایسا تھا جس کا ہم سے کچھ تعلق نہیں تھا مگر جس کا دھندلا سایہ چپ چاپ ہمارے درمیان سمٹ آیا تھا۔ وہ بھاری، تھکے قدموں سے کاؤنٹر کی طرف مڑ گیا۔

    ’’بہت گرمی ہے۔‘‘ جارج نے کہا، ’’تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں؟‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ مجھے اچانک جھنجھلاہٹ سی ہوئی۔

    ’’ڈیڑھ شلنگ میرے پاس ہے۔ اس سے ’لاگر‘ آ سکتی ہے؟‘‘ ا س نے پوچھا۔

    میں ولی کے خالی گلاس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

    ’’کہاں ہو سکتا ہے؟‘‘

    مدھم روشنی تلے جوتوں اور سینڈلوں کی کھٹ کھٹ، اردگرد ٹوٹتی، ناتواں آوازوں کا سیلاب پھیل گیا، جس کے ایک سرے پر ہم تھے۔۔۔ایک میز، جارج، لاگر کے دو گلاس۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا ہم نے پہلے پہل دیکھا تھا۔

    اب صرف ایک کرسی خالی تھی۔

    ’’شاید وہ ناراض تھا۔ میں اپنے کو روک نہیں سکا۔‘‘ جارج نے کہا۔

    ’’تم نے اسے کچھ بھی نہیں کہا۔‘‘

    ’’میں اپنے کو روک نہیں سکتا۔‘‘ اس نے میز پر پڑا میرا ہاتھ زور سے پکڑ لیا۔ میری انگلیاں اس کی ہتھیلیوں تلے چپچپانے لگیں۔

    ’’تمہیں معلوم نہیں۔۔۔مجھے باکسنگ کا بہت شوق ہے۔ جب میں پہلے پہل لندن آیا تھا اور بے کار نہیں تھا تو ہر روز باکسنگ کے لیے جاتا تھا لیکن میں ایک بار بھی نہیں جیت سکا ہوں۔ سنتے ہو؟ ایک بار بھی نہیں۔۔۔‘‘ وہ بولا، ’’میرے اعصاب میں ایک عجیب سا تناؤ پھیلنے لگتا ہے۔ میں انتظار کرتا ہوں، کچھ لمحوں تک، کہ دوسرا آدمی مجھے ہٹ کرے۔۔۔اور اگر وہ نہیں کرتا۔۔۔تو میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ میں آنے والے خطرے کی پروا نہیں کرتا اور مناسب موقع آنے سے پہلے ہی اندھا دھند ٹوٹ پڑتا ہوں۔۔۔حالانکہ جانتا ہوں کہ یہ غلط ہے، مقابلہ اس طرح نہیں کیا جاتا اور اسی لیے میں گھر سے بھاگ کر یہاں آ گیا ہوں۔۔۔میں اپنے باپ کی طرح انتظار نہیں کر سکتا۔۔۔‘‘

    ’’اور وہ۔۔۔ تمہارے والد، کس کا انتظار کر رہے ہیں؟‘‘

    ’’مجھے نہیں معلوم۔۔۔مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘ اس کی پیشانی لاگر کے گلاس کے پیچھے چھپ گئی۔

    میں نے اپنا ہاتھ دھیرے سے چھڑا لیا۔۔۔وہ پسینے میں بھیگ گیا تھا۔ میں اسے اپنے قریب لے آیا، جیسے وہ کوئی پالتو چیز ہو۔۔۔انگلیوں سے بنا ہوا ایک سفید گوشت کا لوتھڑا، اس کے اوپر بھورے بال، بہت بال، جو اس کے لمس سے ابھی تک دبے تھے اور میں نے سوچا، ہم سچ مچ کتنی کم بار اپنے ہاتھوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ ہیں، جیسے وہ حقیقت میں ہیں اور تب محسوس ہوتا ہے کہ جو بھی شے ان کی گرفت میں آئے گی وہ ہماری نہیں ہو سکتی۔

    ’’جانتے ہو، میں نے ولی کوراٹر کیوں کہا؟‘‘

    ’’اٹ از نتھنگ!‘‘ میں اس کے چہرے کو براہ راست نہیں دیکھ پا رہا تھا۔

    ’’کیونکہ۔۔۔درحقیقت میں بھی وہی ہوں۔ میں نے ابھی تم سے کہا تھا کہ میں اپنے والد کی بہت عزت کرتا ہوں (حالانکہ یہ اس نے مجھ سے کبھی نہیں کہا تھا) انہیں نہیں جانتے۔ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں، مجھے نہیں معلوم۔ وہ ان کے پیچھے تھے۔‘‘

    ’’وہ کون؟‘‘

    ’’وہ۔۔۔‘‘ ایک یخ بستہ دہشت، سانپ کی کنڈلی سی اس کی آنکھوں میں بیٹھ گئی تھی، ’’تم نے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔‘‘ اس نے میرے ہاتھ کو اپنی ہتھیلیوں میں بڑی سختی سے جکڑ لیا۔ اس کے کالے چہرے پر صرف سفید دانت نظر آ رہے تھے۔۔۔ایک کان سے دوسرے کان تک کھنچے ہوئے۔۔۔اور میں سمجھ نہیں سکا کہ وہ ہنس رہا ہے یا صرف ایک فراموش لمحے میں اس کے دانت کھلے کے کھلے رہ گئے ہیں۔

    ’’میں یہاں محفوظ ہوں۔۔۔اینڈفاردیٹ آئی ہیٹ ہم، آئی ہیٹ ہم لائیک ہیل۔‘‘

    ہم چپ چاپ پیتے رہے۔ میرے سامنے گھڑی کا ڈائل تھا جسے میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ میں سوچتا ہوں مجھے ایک سگریٹ پینا چاہیے۔۔۔ایسا معلوم ہوتا ہے میں نے ایک طویل مدت سے سگریٹ نہیں پیا۔

    ’’تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ اس کی آواز میں بچوں جیسا اصرار تھا۔

    ’’کچھ بھی تو نہیں۔‘‘

    ’’اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟‘‘

    ’’تمہاری جگہ پر؟‘‘ میں ہنسنے لگا، ’’مجھے تو آج تک یہ بھی نہیں معلوم کہ مجھے اپنی جگہ پر کیا کرنا چاہیے۔‘‘

    ’’لیکن تم نے کوئی فیصلہ تو کیا ہوگا۔۔۔اپنا ملک چھوڑنے سے پہلے؟‘‘

    ’’شاید بچنے کے لیے۔‘‘

    ’’کس سے بچنے کے لیے؟‘‘

    ’’اپنے ملک کے لوگوں سے۔۔۔شاید اور چیزوں سے بھی، جو اب مجھے یاد نہیں۔‘‘

    اور تب، اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ زیادہ پینا شاید ممکن نہیں ہوگا۔ صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ خالی آنتوں کو لاگر بھگو گئی تھی۔ ایک نیلی، ہری سی دھند، کہیں بھی، راستہ ٹٹولتی ہوئی، ہر اُس کھڑکی کے آگے جمع ہوگئی تھی جس سے میں باہر دیکھ سکتا تھا۔ وہاں گھڑی کا ڈائل تھا۔۔۔بے حد سفید۔۔۔ہوا میں ڈولتی ایک سال خوردہ لاش کی مانند جو نہ جانے کب سے میرے ساتھ گھسٹ رہی تھی۔۔۔

    ’’تم ہنس کیوں رہے ہو؟‘‘

    مجھے یہ جان کر بےحد تعجب ہوا کہ میں ہنس رہا ہوں۔۔۔اور جب میں نے جان لیا کہ میں ہنس رہاہوں تو پھر خود کو روکنا بےمعنی سا لگا۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں، کچھ یاد آ گیا تھا۔۔۔‘‘ میں نے ٹالتے ہوئے کہا۔ یاد مجھے کچھ بھی نہیں آیا تھا۔

    ’’کیا یاد آ گیا تھا؟‘‘ وہ میری طرف جھک آیا، جیسے ابھی گلے سے لٹک جائےگا، ’’بتاؤنا، کیا یاد آ گیا تھا؟‘‘

    ’’جانتے ہو۔۔۔دوتین دن پہلے میں جیل جانے والا تھا۔ بس بال بال بچ گیا۔‘‘

    ناقابل برداشت دباؤ تلے کوئی بھی چیز یاد کی جا سکتی ہے۔۔۔اور سچ مچ تین دن پہلے کا ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا۔۔۔ہاں، سچ مچ میں بال بال بچ گیا تھا۔ (مجھے اس طرح کے محاورے بہت پسند ہیں اور میں انہیں موقع بےموقع دہراتا رہتا ہوں۔)

    ’’جاتنے ہو، لندن میں اپنے ایک دوست کے گھر ٹھہرا ہوا ہوں۔ پچھلے دنوں اس کی گرل فرینڈ فن لینڈ سے اس کے ساتھ رہنے آئی تھی۔ کمرہ ایک ہی تھا، اس لیے میں باہر رہتا تھا۔ میں دن بھر میوزیم کی لائبریری میں رہتا اور رات کو سونے کے لیے یوسٹینڈ اسٹیشن چلا جاتا تھا۔ ہر روز مقررہ وقت پر میرا دوست مجھے کچھ شلنگ دے جاتا تھا۔ اس شام کسی وجہ سے وہ میرے پاس نہیں آ سکا۔ میرے پاس صرف دس پینی بچے تھے۔ دن بھر میوزیم میں بیٹھے بیٹھے بھوک کا کچھ پتا نہیں چلا لیکن رات ہوتے ہی میں خود کو نہیں روک سکا۔ اس وقت تک کنگ کراس کے سستے ریستوراں بند ہو چکے تھے اور میں بس میں بیٹھ کر شہر کے گردونواح میں بدحواس سا گھومتا رہا۔‘‘

    آخرکار ایک گریک ریستوراں دکھائی دیا جو بظاہر بہت سستا معلوم ہو رہا تھا۔ آلو کے چپس اور ٹوسٹ کا آرڈر دے کر میں اندر بیٹھ گیا۔ تم جانتے ہی ہو، یہ چیزیں سب سے سستی ہوتی ہیں۔۔۔زیادہ سے زیادہ آٹھ پینی۔ میں بے فکر تھا۔ کچھ دیر بعد یونہی میری نگاہ سامنے دیوار پر جاپڑی، پرائس لسٹ پر، جسے شروع میں گھبراہٹ کے باعث میں دیکھ نہیں سکا تھا۔ ٹوٹس اور چپس کے دام ڈیرھ شلنگ تھے۔۔۔اور میرے پاس دس پینی سے زیادہ ایک پینی بھی نہیں تھی۔۔۔پھر جانتے ہو میں نے کیا کیا؟

    میں ایک دم کھڑا ہو گیا (اس طرح میں جارج کے روبرو کھڑا ہو گیا اور زور سے چلایا) ’گڈ ایوننگ! ارے باہر کیسے کھڑے ہو؟ (اور میں سچ مچ چلا رہا تھا، جارج کے منھ پر) ہوٹل کا مالک بڑے اشتیاق سے مجھے تاک رہا تھا۔ ’’میرے ایک دوست باہر کھڑے ہیں۔۔۔ان سے مل کر ابھی آتا ہوں۔ ٹوٹس اور چپس کی پلیٹ چھوڑکر میں دروازے کی طرف بڑھا۔ بالکل سیدھے قدموں سے، اس طرح اورمیں سچ مچ چل رہا تھا۔۔۔میزوں کے درمیان اور دروازہ پار کرتے ہی۔۔۔تم جاتنے ہو میں نے پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ (میں پھر مڑ کر جارج کے پاس آ گیا تھا۔۔۔لاگر کا ایک لمبا گھونٹ پی کر میں بیٹھ گیا تھا) میں بہت دیر تک بھاگتا رہا تھا۔‘‘

    ’’اور وہ تمہارے پیچھے تھا؟‘‘

    ’’نہیں، ہنسی کی بات تو یہی ہے کہ وہ میرے پیچھے نہیں تھا اور پھر بھی میں ایک اندھیری گلی سے دوسرے اندھیری گلی میں دوڑتا رہا۔۔۔اور دیکھو، میری جیب میں دس پینی بچ گئے تھے، جب کہ میری بھوک بالکل مٹ گئی تھی۔‘‘

    ’’تم بھی خوب ہو۔‘‘ جارج نے ہنستے ہوئے کہا۔

    مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ ہنس رہا ہے۔ میرا دوست اور اس کی محبوبہ بھی اسی طرح ہنسنے لگے تھے، جب دوسرے دن میں نے انہیں یہ واقعہ سنایا تھا۔ حالانکہ مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ لوگ، خاص طور پر وہ لوگ جن پر ایسے واقعات گزرتے ہیں، کیسے انہیں معمولی قرار دے دیتے ہیں۔ کیونکہ دیکھو، اس وقت جب واقعہ رونما ہو رہا ہوتا ہے، آدمی کتنا بدحواس ہو جاتا ہے، بغلوں سے ٹھنڈا پسینہ ٹپکتا ہوا قمیص سے چپک جاتا ہے اور اندر افسردہ سا اضطراب بھر جاتا ہے، باوجود ہماری عمر کے، باوجود ہمارے تجربے کے۔۔۔میں تو جانتا ہوں کہ اس رات جب میں دس پینی جیب میں دباکر سڑک پر بھاگ رہا تھا، کوئی بار بار مجھ سے کہہ رہا تھا، یو فول۔۔۔یو ایڈیٹ۔۔۔یو۔۔۔

    ’’تم بھی کمال کے آدمی ہو!‘‘ جارج نے کہا اور جب اس نے تیسری بار یہی بات کہی تو مجھ سے بیٹھانہیں گیا۔ آنکھوں کے آگے گھڑی کا ڈائل پھر گھومنے لگا اور میں ٹائلٹ کی طرف بڑھ گیا۔ ٹائلٹ نیچے بیسمنٹ میں تھا۔ میں تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ مجھے ڈر تھا کہیں سیڑھیوں پر کچھ نہ ہو جائے۔ میں نے منھ پر ہاتھ رکھ لیا اور بڑے پراسرار انداز سے مسکرانے لگا۔

    ہوا کچھ بھی نہیں۔ نہ سیڑھیوں پر، نہ واش بیسن میں، جس پر میں دیر تک جھکا رہا تھا۔۔۔اس انتظار میں کہ کچھ باہر آئےگا اور اب گھڑی کا سفید ڈائل نہیں گھوم رہا تھا۔ میں نے نل کھول دیا تاکہ میں اطمینان سے ایک ایک چیز یاد کر سکوں اور اپنی آواز نہ سن سکوں۔ رات کی اس گھڑی میں یہاں میں کیا کر رہا ہوں؟ نہیں، ایسے نہیں چلےگا، مجھے ڈھنگ سے، ترتیب وار ہر چیز یاد کرنی چاہیے، جیسے یہ بہت اہم ہو، جیسے کوئی بڑی ’’صداقت‘‘ اس پر منحصر ہو۔

    ’’ترتیب وار۔۔۔‘‘ یہ لفظ مجھے اچھا لگا تھا اور میں بار بار اسے زبان پر پھیر رہا تھا اور میں کافی دیر تک چیزوں کو یاد کرنے کے بجائے دہراتا رہا کہ مجھے ہر چیز ترتیب وار یاد کرنی چاہیے۔

    ٹائلٹ سے باہر آیا تو پاؤں جیسے ٹھٹک کر رہ گئے۔ ناچتے ہوئے جوڑوں کے گرداب میں گھر گیا تھا۔ لوگ دھکا دے کر آگے نکل جاتے تھے اور میں کبھی دائیں، کبھی بائیں، ایک کٹھ پتلی کی طرح گھوم جاتا تھا۔ جب کبھی اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کرتا تو ڈانسنگ فلور پیروں تلے سکڑنے لگتا اور یوں محسوس ہوتا جیسے میں ایک بڑی تیزی سے گھومتے ہوئے لٹو پر کھڑا ہوں۔ تبھی مجھے اپنے کندھوں پر ایک عجیب سا بوجھ محسوس ہوا۔

    ’’تم یہاں ہو؟‘‘ وِلی کی داڑھی میرے ماتھے کو چھو رہی تھی، ’’اور جارج؟‘‘

    ’’وہیں ہے۔‘‘ میں نے اوپر کی طرف اشارہ کیا۔

    جس لڑکی کے ساتھ وہ ناچ رہا تھا اس کا چہرہ اس کے سینے تلے چھپ گیا تھا۔۔۔صرف اس کے بلونڈ بال دکھائی دے جاتے تھے۔

    ’’تم آؤگے نہیں؟ تمہاری لاگر۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’آؤں گا۔۔۔ تم ناچوگے؟‘‘

    اس بار لڑکی نے چہرہ اوپر اٹھایا۔ اس کے ننگے شانوں پر پاؤڈر کے ہلکے نشان تھے اور اس نے سستی چھینٹ کی سمر اسکرٹ پہن رکھی تھی۔ ہونٹوں پر پسینے کی بوندیں تھیں جو شاید دیر تک ناچنے کے باعث لپ اسٹک کے اوپر پھیل گئی تھیں۔ بھیڑ میں کھڑے رہنا ناممکن تھا۔ وہ میرے قریب ہی بہت دھیمے قدموں سے ناچنے لگے تھے۔۔۔ایک بہت تنگ گھیرے کے اندر۔ کبھی ولی کا سر میرے پاس آ جاتا، کبھی لڑکی کے بلونڈ بال۔

    ’’کیسی ہے؟‘‘ ولی نے دھیرے سے اس کے بالوں کو جھنجھوڑ دیا۔

    وہ ہنس رہی تھی۔

    ’’یہ بہت خراب ہے۔۔۔ہے نا؟‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا اور پہلی بار مجھے لگا، جیسے اس کی آنکھیں سوتی جاگتی گڑیا کی سی ہیں، جو سر پیچھے ہوتے ہی بند ہوجائیں گی اور سیدھا ہوتے ہی کھل جائیں گی۔

    ’’ناچوگے؟ مے بی ودہرا!‘‘ ولی نے کہا۔

    وہ دونوں ناچ رہے تھے۔۔۔بہت ہی ہلکے اسٹپس کے ساتھ۔ جب جس کا چہرہ میرے پاس آتا، وہ میرے کانوں میں کچھ کہہ دیتا۔

    ’’اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہیں۔۔۔مرجائیں گے مجھے اس کے ساتھ دیکھ کر۔‘‘ ولی نے کہا۔

    ’’تم ناچوگے نہیں؟ مے بی ودمی!‘‘ لڑکی نے کہا۔

    ’’وہ اطالوی منع کرتا تھا۔‘‘ میں نے ولی سے کہا۔

    ’’مرنے دو اسے!‘‘ وِلی نے کہا۔

    آرکسٹرا کی اس گھسی پٹی دھن میں جانے کیسے موزارٹ کے لٹل نائٹ میوزک کی ہلکی سی آمیزش ابھر آتی تھی۔۔۔محض چند لمحوں کے لیے۔۔۔اور تب مجھے لگا تھا جیسے کسی نے میری سانس کو پہلے کی طرح انگلی پر لپیٹ کر کھینچ لیا ہو۔

    ’’جن پیو گے؟ پیسے یہ دےگی۔‘‘ ولی نے دھیمی آواز میں پھسپھساتے ہوئے کہا۔

    ’’مے بی ودمی۔۔۔‘‘ لڑکی نے یونہی لاتعلقی سے کہا۔

    اس سے پہلے کہ میں کچھ کہہ پاتا، ناچتے ہوئے جوڑوں کی بھیڑ انہیں مجھ سے بہت دور گھسیٹ لے گئی۔ وہ اچانک آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔

    میرا سر اَب بھی چکرا رہا تھا لیکن یہ سر چکرانا ویسا نہیں تھا جیسا ٹائلٹ جانے سے پہلے تھا۔ اب اس چکرانے میں ایک انوکھا سا ہلکا پن تھا جیسے دھند کی جگہ وہاں برسے ہوئے بادل بکھرے ہوں اور لامحدود وسعت ہو۔ بھیڑ کے اندر راستہ ٹٹولنا آسان نہیں تھا۔ بیسمنٹ کی سیڑھیوں کے نزدیک آکر میں رک گیا۔ بڑی شدید خواہش ہوئی وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ جانے کی۔۔۔ سو جانے کی۔

    ’’ہیلو!‘‘ میرے ہاتھ کو کسی نے جکڑ لیا تھا۔ پیچھے مڑکر دیکھا۔ پب کا اطالوی مالک کھڑا تھا۔ شاید وہ دور سے بھاگ کر میرے پاس آیا تھا۔ ہاتھوں پر قمیص کی مڑی ہوئی آستینیں لٹک آئی تھیں۔ وہ ہانپ رہا تھا، جیسے آس پاس کی ہوا اس کے سانس لینے کے لیے قطعی ناکافی ہو۔

    ’’سنو، وہ تمہارا دوست ہے؟‘‘

    میں نے کندھے سکیڑ لیے۔

    ’’کیا تم اسے یہاں سے نہیں لے جا سکتے۔۔۔میرا مطلب ہے اس جگہ سے؟‘‘

    ہمارے چاروں طرف ناچتے ہوئے لوگوں کا دائرہ کبھی بہت تنگ ہو جاتا تھا، کبھی ایک دم پھیل جاتا تھا۔ آرکسٹرا کے آگے کوئی شخص مائیکرو فون کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گانے لگا تھا۔

    ہم دونوں کے درمیان ہماری نگاہوں کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔

    ’’تم کیوں نہیں کہہ دیتے؟‘‘ میں نے کہا۔

    ’’میں اس سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔۔۔وہ میری بات بھی نہیں مانےگا۔‘‘

    ’’لیکن کیوں۔۔۔؟ وہ یہاں کیوں نہیں رہ سکتا؟‘‘

    ’’یہ جگہ اس کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ ایک اضطراب سا اس کی آواز میں ابھر آیا، ’’میں اسے پہلے بھی کئی بار منع کر چکا ہوں۔‘‘

    میری پھر خواہش ہوئی۔۔۔وہیں سیڑھیوں پر لیٹ جانے کی۔

    ’’دیکھیے۔۔۔میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ہماری ملاقات کچھ گھنٹے پہلے ہوئی تھی۔۔۔ آپ یقین نہیں کرتے؟‘‘ ایک لمحے کے لیے مجھے اس کے قابل رحم چہرے سے نفرت ہوئی، جیسے میں نے کسی گجلجی سی چیز کو چھو لیا ہو۔ ’’میں تو اسے ٹھیک سے جانتا بھی نہیں، یہ بھی نہیں جاتنا کہ اس کا پورا نام کیا ہے۔۔۔‘‘ میں نے کچھ اس طرح کہا جیسے زندگی میں پورا نام جاننا بہت اہم ہو، جیسے اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ یکایک اس نے میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ وہ ایک دم میرے قریب آ گیا۔

    ’’تم۔۔۔ تم یہیں رہوگے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ میں نے سر ہلا دیا، ’’جب تک تم باہر نہ پھینک دو۔۔۔‘‘

    اس کی گرفت ڈھیلی ہو گئی، لیکن اس کی آنکھیں اب بھی مجھے ٹٹول رہی تھیں۔ میں سیڑھیاں چڑھنے لگا۔۔۔مجھے بار بار ایسا محسوس ہوتا رہا کہ اب بھی اس نے پیچھے سے پکڑ رکھا ہے۔۔۔یا خدا، کاش میں ایک سگریٹ پی سکتا۔۔۔! لگتا ہے میں نے ایک مدت سے سگریٹ نہیں پیا۔

    جب میں دھکے کھاتا اور اپنی بساط کے مطابق دوسروں کو دھکے دیتا ہوا اپنی میز کے پاس پہنچا تو جارج سب سے بےنیاز ہوکر سو رہا تھا۔ اس کا سر میز کے کنارے پر ٹکا تھا، اس کا جسم کرسی پر سکڑ گیا تھا، ادھ کھلی آنکھوں کے بیچ سفید پتلیاں میلی روئی کے پھاہوں کی طرح ابھر آئی تھیں۔ پہلے مجھے وہم ہوا کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے، جو سچ نہیں تھا۔ اس کے ہونٹوں کے کونوں پر سوکھی اور سفید چاک کی مہین لکیر سی بہہ آئی تھی جو میں نے رومال سے سب کی نظریں بچاکر پونچھ دی۔

    اس رات پہلی بار مجھے لگا کہ وہ عمر میں بہت چھوٹا ہے۔۔۔مضحکہ خیز حد تک چھوٹا اور انجان۔

    میرا گلاس خالی تھا۔۔۔میں نے تھوڑی سی لاگر اس کے گلاس سے اپنے گلاس میں انڈیل لی۔ ایک لمحے کے لیے محسوس ہوا جیسے وہ نیم وا آنکھوں سے مجھے دیکھتا ہوا مسکرا رہا ہے۔۔۔ اور اس میں ہلکا سا طنز پوشیدہ ہے۔ شاید بن رہا ہے، میں نے سوچا، سو نہیں رہا اور مجھے دیکھ رہا ہے۔۔۔لیکن شاید یہ بھی میرا وہم ہو، میں نے سوچا اور پینے لگا۔ پھر مجھے کچھ اکیلاپن سا محسوس ہوا۔ سوچا، اپنے دوست کو ٹیلیفون کرلوں، ہو سکتا ہے اس کی گرل فرینڈ اب تک چلی گئی ہو اور میں اس کے کمرے میں سو سکوں۔ لیکن اگر وہ ہوئی تو اسے برا محسوس ہوگا۔۔۔اسے اٹھا دوں، یہ کب تک ایسے سوتا رہےگا؟

    اس اثنا میں گھر کی بات یاد آ گئی۔ یوروپ آنے سے پہلے وہ گھر میں آخری رات تھی۔۔۔جولائی کی ایک رات۔۔۔اور مجھے دوسرے دن چلے جانا تھا۔۔۔اور میرا باپ میرے بستر کے پاس کھڑا رہا تھا، سوچتا ہوگا میں سو رہا ہوں، لیکن میں سب کچھ دیکھ سکتا تھا۔۔۔ویسے بھی ہمارے شہر میں جولائی کی راتیں بہت اجلی ہوتی ہیں۔۔۔آنکھیں موند لو تو بھی سب کچھ دکھائی دیتا ہے۔۔۔اچانک پھرخواہش پیدا ہوئی کہ میں باہر چلا جاؤں۔

    یہ بہت آسان تھا۔ پہلے میں کرسی سے اٹھوں، پھر دروازہ کھولوں اور باہر چلا جاؤں۔۔۔جسٹ ٹوکم آؤٹ۔۔۔ یہ بری بات ہے، میں نے سوچا۔ اس کے منھ پر تھوک پھر بہہ آیا تھا، ہونٹوں سے بہتا ہوا ٹھوڑی تک۔ جہاں نیلے کانٹوں ایسے بال اگ آئے تھے۔۔۔میں نے رومال سے پھر اس کا منھ پونچھ دیا۔۔۔

    آوازیں۔۔۔ ایک بدحواس سی چیخ۔

    بیسمنٹ کی دیوار پر پرچھائیاں ابھرنے لگتی ہیں۔۔۔ایک بھیانک خواب کی طرح۔

    کرسیوں کے کھینچنے کی آواز، بےہنگم سی ہنسی۔۔۔لیکن ہے کچھ بھی نہیں۔

    میں اٹھتا نہیں۔۔۔گلاس میں اب بھی لاگر بچی ہوئی ہے اور میں اٹھ نہیں سکتا۔۔۔

    اور تب اچانک اس لمحے مجھے خود میں ایک عجیب سا سکون محسوس ہوتا ہے، گھنی، چلچلاتی، گرم ریت کے لامتناہی سلسلے جیسا اور میں اسے پکڑے رہتا ہوں۔

    جسٹ ٹو کم آؤٹ۔۔۔جسٹ ٹو۔۔۔

    میں پوری قوت سے جارج کو جھنجھوڑنے لگتاہوں۔

    وہ ایک دم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور احمقانہ اندازسے مجھے دیکھنے لگا۔۔۔اس پالتو جانور کی طرح جو عین موقعے پر اپنا کام بھول کر آس پاس کھڑے تماشائیوں کو دیکھنے لگتا ہے۔ پھر دفعتاً اس کی آنکھیں عجیب دہشت زدہ سی ہو گئیں۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘

    ’’چلو یہاں سے چلیں۔‘‘

    ’’لیکن۔۔۔ کیا ابھی؟‘‘

    وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ میں جلدی میں طے نہیں کرپا رہا تھا کہ کیا اسے کچھ بھی بتانا مناسب ہوگا؟

    ’’کیا میں سو گیا تھا؟‘‘ اس نے پوچھا اور نہ جانے میرے چہرے پر اسے کیا نظر آیا کہ وہ مشکوک ہو گیا۔

    ’’یہ شور کیسا ہے؟‘‘

    اس کا چہرہ بالکل ویسا ہی ہو گیا جیسا کہ اس وقت تھا جب ہم سوڈا فیکٹری کے باہر اندھیرے میں کھڑے تھے۔۔۔اب وہ لمحہ کتنی دور ہے اور کیسا بےمحل!

    ’’ہمیں چلنا ہوگا۔۔۔ باہر۔‘‘

    باہر لندن کی رات ہے۔۔۔ہمارا انتظار کرتی ہوئی۔۔۔ہمیں نگل جانے کو بےتاب۔

    ’’ولی کہاں ہے۔۔۔؟ ہم اس کے بغیر نہیں جا سکتے۔‘‘

    ’’وہ۔۔۔ آ نہیں سکتا۔‘‘

    پب کا دروازہ کھلتا ہے۔۔۔کچھ لوگ ہڑبڑاکر اندر گھستے ہیں۔

    ’’دے آر دیئر۔۔۔ دی ڈیڈ۔۔۔‘‘ ایک بہت ہی بھدی گالی اور آوازیں، مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی مانند بےمعنی۔

    میں اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوں۔

    ’’میں نہیں جاؤں گا۔‘‘

    ’’تم پاگل تو نہیں ہو؟‘‘

    ’’وہ کہاں ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’وہ۔۔۔‘‘ میں غصے میں اسے اٹھا دیتا ہوں۔ وہ عین میرے سامنے کھڑا ہے۔

    ’’بتاؤ، وہ کون؟‘‘ میں اسے اس کے کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالتا ہوں اور وہ۔۔۔

    ’’بولو، وہ کون؟‘‘

    ’’یو آر ڈرنک!‘‘ اس نے کہا اور ایک جھٹکے سے خود کو چھڑا لیا۔

    شاید یہ سچ ہے، میں نے سوچا۔۔۔شاید میں نے بہت پی لی ہے۔ اس خیال سے مجھے بڑی تشفی ملی۔

    ’’تم یہیں رہوگے؟‘‘

    ’’میں کہیں بھی رہوں۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’سنو۔۔۔‘‘ میں درمیان سے کرسی ہٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔

    ’’یو آر ڈرنک۔۔۔‘‘ وہ پیچھے ہٹ گیا۔

    میں چلنے لگا۔ وہ بھی چل پڑا، لیکن مجھ سے الگ۔ محسوس ہوا جیسے یہ کوئی کھیل ہے جس میں دو آدمی آنکھوں پر پٹی باندھ کر چلتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے دور جا رہے ہیں لیکن درحقیقت ایک دوسرے کے قریب سرکتے آتے ہیں۔

    دروازے کی طرف۔۔۔پہلے میز آتی ہے، ادھ جلی سگریٹ کے ٹوٹے، خالی گلاس اور بوتلیں، کرسیوں پر رکھے شام کے اخبار، فرش کے ایک کونے میں گری پڑی لپ اسٹک کی ڈبیا، جسے گھبراہٹ میں کوئی عورت اٹھانا بھول گئی تھی۔۔۔اور مجھے لگا جیسے کوئی واردات اچانک ہوئی ہوگی، قطعی غیرمتوقع اور سب لوگ کسی تیاری کے بغیر جم غفیر کے گرداب میں پھنس گئے ہوں گے۔

    ’’وِلی کہاں ہے؟‘‘

    ’’اور یہ اطالوی۔۔۔‘‘

    ابھی کچھ اور نہیں سوچا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور ایسا معلوم ہوا جیسے ایک جھٹکے سے جارج مجھ سے الگ ہو گیا ہے۔۔۔آخری لمحے میں (یا سب سے شروع کے لمحے میں) میں نے کوشش کی کہ اسے اپنے ساتھ جکڑے رکھوں، جیسے یہ بجائے خود ایک اہم چیز ہے، لیکن میرا سر سنسناتا ہوا نیچے کی طرف گھوم گیا۔ جو ہاتھ میں نے جارج کو پکڑنے کے لیے پھیلایا تھا، وہ مڑتا گیا۔ چھت، نہیں یہ چھت نہیں ہے، صرف روشنی ہے، (’’ڈونٹ لیٹ دیم اسکیپ۔۔۔‘‘ ایک پھنکارتی سی آواز ابھری اور پھر وہ بھی نہیں) اور وہ ایک تختے کی طرح کانپ رہا تھا اور اسے میں دیکھ سکتا تھا۔۔۔ کانپتے ہوئے۔۔۔جیسے وہ میری بانہہ نہ ہو، کوئی لکڑی ہو جسے موڑا جا رہا ہو آخری حد تک اور وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتی ہے۔۔۔نہیں، یہ اذیت نہیں ہے، اذیت کی ایک حد ہوتی ہے اور اس سے پرے اس کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔۔۔

    ’’آئی سے۔۔۔لیو ہم الون۔۔۔‘‘ کیا یہ اطالوی کی آواز ہے؟ مجھے خفیف سی حیرت ہوتی ہے۔ میرے اوپر جھکے ہوئے چہرے ایک ایک کرکے اٹھ رہے ہیں، لیکن میں انہیں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ سوائے ان کی گرم گرم سانسوں کو محسوس کرنے کے جو گردن کو بار بار چھو جاتی ہیں۔ پھر وہ بھی نہیں۔

    ’’تم اٹھ سکتے ہو؟‘‘

    میں اپنی بانہہ کو دیکھتا ہوں۔۔۔وہ اب فرش پر پڑی ہے۔۔۔حیرت ہے، وہ اب تک مجھ سے جڑی ہے!

    میں بیٹھ گیا ہوں۔ پھر اچانک میرے ہاتھ گالوں پر چلے جاتے ہیں۔ وہ گیلے ہیں۔ وہ آنسو ہو سکتے ہیں، اس پر مجھے یقین نہ آیا۔۔۔وہ واہیات ڈھنگ سے خود بخود بہہ نکلے تھے اور مجھے پتا نہیں چلا تھا۔۔۔کچھ اس شخص کی طرح جو صبح اپنے بستر کو گیلا پاتا ہے اور یقین نہیں کرپاتا کہ اس نے ہی۔۔۔

    ’’کچھ پیوگے؟‘‘ اطالوی میرے اردگرد منڈلا رہا ہے۔

    ’’وِلی کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’وہ اسے مار ڈالیں گے۔۔۔میں نے تم سے کیا کہا تھا؟‘‘ اس کا گلاعجیب طرح سے بھرا گیا تھا۔

    ’’کیا کہا تھا؟‘‘ مجھے اب کچھ بھی یاد نہیں آ رہا۔

    ’’تمہیں معلوم ہے۔۔۔تم اگر اسے اپنے ساتھ لے جاتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔‘‘

    کچھ بھی نہ ہوتا۔۔۔لیکن جو ہوا ہے اسے کوئی روک سکےگا؟ یہ کوئی بھی نہیں جانتا۔

    ’’اب میں جاؤں گا۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’کہاں؟‘‘ اطالوی دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔

    ’’کہیں بھی۔۔۔باہر۔۔۔‘‘ چاروں طرف دیکھا، جارج کہیں بھی نہیں تھا۔ مجھے ذرا سی خوشی ہوتی ہے۔

    ’’باہر؟‘‘ اطالوی کو شاید یقین نہیں آیا۔ وہ شاید فیصلہ نہیں کرپا رہا تھاکہ میں کس حد تک پی چکا ہوں۔۔۔اور کس حدتک سنجیدہ ہو سکتا ہوں۔

    ’’اس وقت وہ۔۔۔وہ باہر کھڑے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’سنو۔۔۔‘‘ میں نے بڑے فطری انداز میں کہا، ’’میں کچھ بھی نہیں کروں گا۔۔۔میں سیدھا گھر چلاجاؤں گا۔‘‘

    ’’کیسی بات کرتے ہو۔۔۔‘‘ اس بار وہ ایک دم ابل سا پڑا، ’’وہ جانتے ہیں، تم ولی کے ساتھ آئے ہو۔۔۔تم ان سے بچ کر نہیں جا سکتے۔‘‘

    بحث کرنا فضول تھا۔ وہ مانےگا نہیں۔

    باہر اچانک شور و غل بڑھ گیا ہے۔۔۔ایک لمحے کے لیے ٹیڑھی سی اینٹھن میری پیٹھ پر رینگنے لگی ہے۔ برف کی ڈلی کی طرح۔ اسے میں پہچانتا ہوں۔ یہ ڈر ہے۔۔۔بہت شروع کا ڈر، اپنی ذات میں بالکل ننگا۔۔۔بالکل بےآواز۔

    مجھے لگا جیسے میں مسکرا رہا ہوں۔

    ’’دیکھو۔۔۔تم مجھے ایک چھوٹا وسکی دے سکتے ہو؟‘‘

    وہ کچھ دیر تک مجھے گھورتا رہا۔ میں آگے بڑھ آیا تھا۔ ہم دونوں کے چہرے اتنے قریب تھے کہ باہر کے شور کے باوجود میں اس کی سانسوں کی آواز سن سکتا تھا۔

    ’’تم جاؤگے تو نہیں؟‘‘ شک اور بےیقینی سے اس کی آواز ایک تناؤ میں کھنچ آئی تھی۔

    ’’میں پاگل نہیں ہوں۔‘‘

    وہ کچھ دیر تک چپ چاپ مجھے گھورتا رہا۔

    ’’تمہیں یہاں چھوڑ کر میں نہیں جا سکتا۔‘‘ اس نے کہا۔

    یکبارگی جی میں آیا کہ اس کے پسینے میں لت پت، گول مول گدرائے چہرے کو الگ الگ حصوں میں توڑ دوں۔۔۔لیکن میں اسی طرح مسکراتا رہا۔

    ’’میں یہاں رکوں گا۔۔۔تمہارے لیے نہیں تو وسکی کے لیے۔ تم مجھ پر اتنا بھی یقین نہیں کرتے؟‘‘ اس بار اس کے ہونٹ ایک غیر متوقع ہنسی میں پھیل گئے۔ اس ہنسی میں ایک بےچارگی چھپی تھی، جیسے وہ ہنس کر خود کو یقین دلا رہا ہو کہ اس نے مجھ پریقین کر لیا ہے۔ وہ کاؤنٹر کی طرف بڑھا جہاں مختلف شرابیں اور بیئر کی بوتلیں رکھی تھیں۔ وہ بار بار پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھتا جاتا تھا۔

    میں کھڑا رہا۔

    اسکاچ کی بوتل اس نے کاؤنٹر پر رکھ دی۔ پھر میری طرف دیکھا، جیسے ہم دونوں کے درمیان کوئی پراسرار سمجھوتا ہو۔ ہماری خاموشی جیسے ان آوازوں سے بلند تھی جو لہروں کی مانند اٹھتی تھیں۔۔۔ایک دوسرے سے الجھی ہوئی۔۔۔اٹھتی تھیں، دروازے سے ٹکراتی تھیں اور پھر لامتناہی تاریکی میں بکھر جاتی تھیں۔

    وہ گلاس کو دھو رہا تھا۔ نل سے نکلتا ہوا پانی۔۔۔اور چمکیلے گلاس پر پھیلتی ہوئی اس کی ایک ایک بوند۔۔۔میں بوندوں کو دیکھتا رہا اور مجھے بار بار محسوس ہوتا رہا کہ میں قے کر دوں گا۔ میں ننگے کانچ پر بہتے پانی کو نہیں دیکھ سکتا۔۔۔میرے اندر ایک عجیب سی کپکپی دوڑنے لگتی ہے۔۔۔میں آگے بڑھتا ہوں، دروازے کی طرف۔ اس کی پیٹھ اب بھی میری طرف تھی۔۔۔نل کے بہتے پانی کی آواز میرے دل کی دھڑکن کو چھپا رہی تھی۔۔۔اور تب، اس لمحے، اچانک مجھے محسوس ہوا، جیسے اب میں چاہوں بھی تو نہیں مڑ سکتا، جیسے خود میرا اپنی ٹانگوں پر کوئی اختیار نہیں رہا۔۔۔میں خود اپنے سے الگ ہو گیا ہوں۔

    اور دروازہ کھل گیا۔۔۔دوسرے لمحے میں باہر تھا۔

    باہر۔۔۔اندھیرے میں۔

    ’’جسٹ ٹو کم آؤٹ۔۔۔‘‘ میں نے اپنے سے کہا۔

    وہ گرمیوں کی ایک کھلی اور نرم رات تھی۔۔۔ایک قوی ہیکل حیوان کی طرح خاموش، جودن بھر کی تھکن کے بعد اپنی کچھار میں اپنے پورے وجود کو پھیلا کر سو گیا ہو۔

    پسینہ سوکھ رہا تھا۔ میں نے بھرپور سانس لی۔۔۔ایک بار۔۔۔دوبار۔۔۔ذرا سا پچھتاوا ہوتا ہے۔۔۔ میں وسکی چھوڑ کر چلا آیا تھا۔۔۔کاش اس وقت وہ میرے جسم میں ہوتی! میں پھر سانس کھینچتا ہوں۔۔۔کاش میں ایک سگریٹ پی سکتا۔۔۔میں بڑی سڑک چھوڑ کر ایک تنگ گلی میں چلا آیا ہوں۔۔۔اکثر گلیوں کے نکڑ پر سگریٹ کی آٹومشینیں لگی رہتی ہیں۔۔۔

    ’’ہیر از دی سن آف اے بچ!‘‘

    میں رک جاتا ہوں۔۔۔نہیں، یہ ڈر نہیں ہے۔ میں پرسکون ہوں۔۔۔صرف ایک سرد سی لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں رینگ رہی ہے۔۔۔لیکن ایک گجلجی چھپکلی کی طرح بےنیاز۔

    وہ وہاں تھے۔۔۔دیوار سے چپکی پرچھائیاں آگے سرکتی ہیں۔

    ’’ہولڈ ہم!‘‘ ایک پھٹی سی چیخ۔۔۔اور میں اچانک پیچھے مڑ جاتا ہوں۔۔۔سرسراتی ہوا میری بغلوں کے بیچ سے نکل جاتی ہے۔

    ’’ڈیمڈ نگر۔۔۔‘‘

    ’’ویٹ، جسٹ ویٹ۔۔۔‘‘

    وہ پیچھے سے آیا تھا۔۔۔مجھے پتا بھی نہیں چلا کہ میرا سر پیچھے کی طرف مڑ گیاہے۔۔۔ایک لمحہ اور۔۔۔اور میں دو حصوں میں بٹ جاؤں گا۔۔۔

    کاش میں اس کے چہرے کو دیکھ سکتا۔۔۔

    ہاتھ ہے، جو نم ہے۔۔۔میں اپنی کنپٹیوں میں سرسراتا خون محسوس کر سکتا ہوں۔ میں تھوڑا کپکپاتا ہوں۔۔۔اور کچھ آگے کی طرف گھسٹ جاتا ہوں۔ وہ بھی میرے ساتھ بڑھتا ہے۔۔۔یہ کوئی دوسرا شخص ہے جس نے میرے ہاتھ پکڑ رکھے تھے۔ ایک لمحے کے لیے مجھے تعجب ہوتا ہے۔۔۔کیا یہ میرا جسم ہے جو اس طرح تھرتھرا رہا ہے؟

    ’’یو اسٹنکنگ سوائن!‘‘

    میں ایک جھٹکے سے اپنے آپ کو کھینچتا ہوں۔۔۔لیکن میرے بال۔۔۔میرے بال اس کے ہاتھ میں تھے۔ اس کی ننگی بانہہ میرے منہ کے سامنے ہلتی ہے۔۔۔اور اچانک میں اپنے دانت اس میں گاڑ دیتا ہوں۔۔۔ ’’اوہ، لیواٹ بگر۔۔۔‘‘ ایک ٹوٹتی سی سانس۔۔۔ وہ مجھے ہلاتا ہے۔۔۔ ایک بار، دوبار۔۔۔اور ہر بار میں شرابی سا اس کی بانہہ پر جھول جاتا ہوں۔

    ’’لیو ہم الون، یو سن آف اے وائٹ ہور!‘‘

    کیا یہ ولی کی آواز ہے؟ میں پوری قوت سے چیخنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ایک خوفناک غرغراہٹ کے سوا میرے حلق سے کوئی بھی آواز نہیں نکل پاتی۔

    اور تب اچانک مجھے لگا، اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے۔۔۔میں خود کو اٹھا سکتا ہوں۔ میری آنکھ کھلتی ہے۔ اندھیرے میں نیلا دائرہ میرے سامنے سے گزر جاتا ہے اور اس سے پرے سرخ، سبز، گلابی دھبے تیرتے جاتے ہیں۔۔۔میں نے انہیں کبھی دیکھا ہے، مدت پہلے کبھی دیکھا ہے، جیسے یہ کوئی بھیانک خواب ہے جسے میں دہرا رہا ہوں۔۔۔شروع سے آخر تک۔

    مجھ سے دو گز کے فاصلے پر وہ کھڑا تھا۔۔۔گلی کی دیوار سے چپکا ہوا۔ ایک لمحے کے لیے یقین نہیں آیا کہ وہ ولی ہے، وہی شخص جس کے ہمراہ کچھ دیر پہلے میں لاگر پی رہاتھا۔۔۔

    لیکن کیا وہ مجھے پہچان سکتا ہے؟

    اور وہ بلونڈ لڑکی۔۔۔اور جارج۔۔۔کیا وہ یادداشت کے دائرے سے باہر کہیں رات میں ڈوب گئے ہیں، ہمیں چھوڑ کر، جو اس لمحے خود کو نہیں پہچان پا رہے ہیں؟

    صرف دو گز کا فاصلہ اور بیچ کا اندھیرا۔

    بھیڑ، آدھا چہرہ اور ایک دراز قد نوجوان وِلی پر جھکتا ہے۔۔۔اور ولی کی قمیص کا کالر ہاتھ میں پکڑ کر اسے دیوار کے پاس گھسیٹ لاتا ہے۔۔۔کھٹاک۔۔۔پھر کھٹاک۔۔۔

    وہ اسکارف جھول جاتا ہے۔۔۔اسکارف جو اس لمبے آدمی نے گلے میں باندھ رکھا ہے۔۔۔رنگین۔ اس پر گلاب کے پھول چھپے ہیں۔۔۔گلاب کے پھول۔۔۔اور خون، جو ولی کے ہونٹوں سے پھسلتا ہوا اس کے حلق تک بہہ آیا ہے۔۔۔ایک لمحے میں سب کچھ ابھر آیا ہے۔۔۔آوازیں، پسینہ، گلی کی کھٹی سی بو اور ہنسی۔۔۔

    اور تب وہ آیا تھا۔۔۔ایک ٹھگنا سا آدمی، جو ابھی تک بھیڑ کے اندھیرے میں چھپا تھا۔ اس کی گھنی بھنووں کے نیچے چھوٹی چھوٹی غیرساکن آنکھیں چمک رہی تھیں۔ بھنووں کے بال اتنے لمبے اور گھنے تھے کہ اس کی آنکھوں پر جھک آئے تھے، جیسے اس نے اپنے چہرے پر کسی کتے کانقلی چہرہ پہن رکھا ہو۔۔۔

    وہ بہت ہی دھیمے قدموں سے ولی کی طرف بڑھ رہا تھا۔

    ’’کہاں گئی تمہاری ڈارلنگ؟‘‘ اس نے جھٹکے سے ولی کی ٹھڈی کو اوپر اٹھا دیا۔

    ’’بول۔۔۔ کہاں گئی؟‘‘

    ہر بار ’’کہاں گئی‘‘ کہتے وقت وہ ولی کے سر کو دیوار پر دے مارتا تھا۔۔۔ہر بار ولی کاجسم ایک شرابی کی طرح گھوم جاتا تھا۔

    اور وہ ہنس رہے تھے۔۔۔

    ’’پلیس ہم دیئر!‘‘ دوسرے نے اپنے۔۔۔کی طرف اشارہ کیا۔ کھٹ، کھٹ۔۔۔سر سے دیوار کے ٹکرانے کی آواز۔ کھٹ کھٹ۔۔۔میرے دل کی بیمار دھڑکن۔ پسینے اور خون سے لتھڑی ولی کی قمیص اور ایک مسلسل، کبھی نہ ختم ہونے والی کھٹ کھٹ اور وحشیانہ ہنسی۔۔۔

    ’’بولو، کہاں گئی۔۔۔؟ اسپیک! اسپیک! اسپیک، یو فلتھی۔۔۔ ہا۔ ہا۔ ہا۔۔۔‘‘ کھٹ۔ کھٹ۔ کھٹ۔۔۔

    اسکارف میں جھولتے ہوئے رنگین گلاب کے پھول۔۔۔

    مجھے اب کچھ بھی یاد نہیں۔۔۔سچ پوچھو تو مجھے یہی نہیں معلوم کہ میں خود چلایا تھا یا کوئی باہر کی چیخ مجھے دفعتاً جھنجھوڑ گئی تھی (نہیں۔۔۔آج بھی میں یقین نہیں کر پاتا کہ وہ خوفناک چیخ میرے حلق سے نکلی ہوگی) ۔ مجھے صرف اتنا محسوس ہوا کہ میری سانس، ایک اندھے چمگادڑ کی طرح میری چھاتی کی دیوار سے ٹکراتی ہوئی بےتحاشا پھڑپھڑانے لگی تھی اور میں نے ایک دھکے سے ان دونوں ہاتھوں کو اپنی گردن سے چھڑا لیا جنہوں نے اب تک مجھے روک رکھا تھا۔۔۔

    صرف دو گز۔۔۔اور بیچ کا اندھیرا۔

    میں ولی کی طرف بڑھا تھا۔ میں اس سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، اسے چھونا چاہتا ہوں، کیوں کہ یہ بہت اہم ہے۔

    بیچ کا اندھیرا اور وہ ٹھنڈے ہاتھ اور تب وہ چیخ۔۔۔

    میرا سر اس نہ دکھائی دینے والے شخص کی ٹھڈی سے ٹکرایا تھا جس نے مجھے بیچ میں پکڑ لیا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے میرا منھ بھینچ لیا۔۔۔میرا منھ اس کی قمیص پر گھسٹتا گیا۔ ’’آئی ول ٹیچ یو۔ ہاؤٹورن۔۔۔باسٹرڈ۔۔۔‘‘ نہ جانے کیوں میں اپنی ٹانگوں کو، مرگی کے مریض کی طرح ہوا میں بےتحاشا گھمانے لگا۔ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔میں نے سوچا۔۔۔وہ مجھے چھوڑےگا نہیں۔۔۔اور تب مجھے لگا جیسے اب میں سانس نہیں لے سکوں گا۔ لیکن یہ غلط تھا۔ ہر دوسری سانس پہلی سانس کی گرفت سے اپنے کو چھڑا کر اوپر آتی تھی اور پھر مجھ سے چپک جاتی تھی اور میں سوچتا تھا، یہ آخری ہے، لیکن تیسری سانس پھر چھٹپٹاتے ہوئے اپنے کو دوسری سانس کے پنجے سے چھڑا لیتی تھی اور مجھے حیرت ہوئی کہ کوئی بھی سانس پیچھے رہ کر آخری نہیں بننا چاہتی۔۔۔

    اور تب ایک لامحدود خوشی نے مجھے اپنے میں سمیٹ لیا، جیسے میں اب تک محض اس لمحے کے لیے جی رہا تھا اور اب وہ وقت آ گیا ہے اور آنے والی گھڑیوں میں کوئی بھی ڈر پہلے جیسا ڈر نہیں ہوگا۔۔۔میں بھول گیا تھا کہ میں اکیلا ہوں۔۔۔میں صرف یہ جانتا تھا کہ وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور میں بچ نہیں سکتا اور اس رات مجھے پہلی بار لگا کہ اکیلا ہونا ہی کافی نہیں ہے۔۔۔کیونکہ وہ ہر جگہ ہیں اور یہ میں جانتا تھا۔ صرف یہ نہیں جانتا تھا کہ ایک دن وہ مجھے بھی پکڑ لیں گے۔۔۔اب وہ پہلے جیسا ڈر نہیں تھا، محض خیالی؛ اب وہ ٹھوس تھا اور محدود تھا۔۔۔اتنا ہی بڑا جتنا میں ہوں۔ ہم دونوں اندھیرے میں جانوروں کی طرح سانس لے رہے تھے اور مجھے لگا جیسے میں آخر تک اپنی ٹانگوں کو اسی طرح ہوا میں گھماتا رہوں گا۔ ’’اوہ ڈیر! ہاؤفنی اٹ از۔۔۔ ہاؤفنی!‘‘ کوئی ہنس رہا ہے۔ (کیا یہ میں ہوں؟) ہنسی جس کی کوئی آواز نہیں۔ گھونسے گالیاں اور پھر وہی ہنسی)

    وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے لے گئے ہیں، گلی کے کونے تک۔

    میں اٹھنے کی کوشش کرتا ہوں اور بیٹھ جاتا ہوں۔ پھر خواہش ہوتی ہے لیٹ جانے کی، وہیں سڑک پر۔ لیکن آنکھیں بند کرتے ہی لگتا ہے جیسے کوئی چیز ایک بگولے کی طرح اوپر اٹھتی ہے۔۔۔ میری ٹانگوں میں، چھاتی میں، بازوؤں کے جوڑوں میں۔ اٹھتی ہے اور بیٹھ جاتی ہے۔۔۔کیایہ کرب ہے؟ اور مجھے ذرا سا تعجب ہوتا ہے کہ میں نے زندگی کے اتنے برس گزار دیے اور اسے نہیں جانا۔ لگتا ہے میرے شعور نے اس کرب کا ایک کنارہ پکڑ لیا ہے اور گھسٹتا جا رہا ہے۔۔۔ کبھی صرف شعور رہ جاتا ہے۔۔۔کرب سے الگ۔۔۔تب لگتا ہے جیسے میں نے کچھ توڑ دیا ہے۔

    بارش کی شام ہے اور میں دوبارہ اپنے شہر کی سڑک پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگ رہا ہوں۔۔۔ایک چھوٹا سا غار میرے سامنے کھل گیا ہے اور ایک خوفناک حد تک شدید خواہش دل میں جاگتی ہے اس میں چھپ جانے کی۔۔۔جیسے اس میں چھپ جانے سے ہی سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا، سب کچھ۔۔۔لیکن یہ غار نہیں ہے۔ یہ کرب ہے، جو قطعی نئے قسم کا ہے، جو اپنے میں مکمل ہے اور جسے آج تک میں نے نہیں پہچانا (ہاؤ فنی اٹ از، ہاؤ ونڈر فلی فنی!) بیچ بیچ میں شعور کا پردہ کھل جاتا ہے اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ میں ہوں۔۔۔اور مجھے ناگہاں یقین نہیں آتا کہ میں باہر، آ گیا ہوں۔۔۔اپنے سے باہر جہاں مجھے کوئی نہیں بچا سکتا۔

    اندھیرے سے باہر۔۔۔جہاں وہ ہیں۔

    وہ شروع اگست کی ایک رات تھی۔ وہ مجھے گلی کے ایک غلیظ اور خاموش کونے میں چھوڑ گئے تھے۔ کتنی دیر تک میں وہاں پڑا رہا، مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ بیچ بیچ میں میری آنکھ کھل جاتی تھی، ایک لطیف اور شفاف دھند کے پیچھے لندن کا آسمان چمک جاتا تھا۔ پھر آنکھیں بند ہو جاتی تھیں۔۔۔مجھے محسوس ہوتا کہ جیسے میں ایک دھند کو چھوڑکر دوسری دھند میں سمٹ آیا ہوں۔

    کچھ دیر ایسا ہی رہا۔ پھر میں چوکنا ہو گیا۔ پیروں کی آہٹ بہت دھیمی رفتار سے میرے پاس چلی آئی تھی۔ میں اونگھنے لگا تھا۔ شاید یہ خواب ہو۔ دیر تک معلوم نہیں ہو سکا کہ کوئی لگاتار میرے کندھوں کو ہلا رہا ہے۔

    ’’کیا زیادہ چوٹ آئی ہے؟‘‘

    ’’نہیں، زیادہ تو نہیں۔۔۔‘‘ آنکھ کھل گئی۔ میرے اوپر جارج کا چہرہ جھکا ہوا تھا۔ لاگر کی ہلکی سی بو مجھے چھو گئی۔ نہ جانے کیوں اس بو کے ساتھ ایک دوسری یاد ابھر آئی۔۔۔موتسارت کے سیریناد کی ایک بہت پرانی دھن، محض ایک ٹوٹی کہنی کی سی تھرکن، جسے کچھ لمحے پہلے میں نے پب میں اچانک پہچانا تھا۔۔۔

    ’’تم یہاں ہو؟‘‘

    ’’مجھے معلوم تھا وہ تمہیں یہاں لائے ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’ولی کہاں ہے؟‘‘

    ’’لیٹ ہم گوٹو ہیل۔۔۔اگر وہ نہ ہوتا۔۔۔تو کچھ بھی نہ ہوتا۔‘‘

    ’’کیا کچھ نہ ہوتا؟‘‘

    اچانک بڑی سڑک سے ایک کارگزر گئی۔ ہماری آنکھیں چندھیا گئیں۔ مجھے پہلی بار اپنا دھیان آیا۔ قمیص کا کالر اوپر سے پھٹ گیا تھا، پینٹ پر مٹی، دھول اور بیئر کے دھبے تھے اور مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے بدن کے پسینے سے چپکی میری بنیان سے ایک بوجھل گیلی گیلی سی بھاپ نکل رہی ہو۔

    ’’تم واپس کیوں آئے؟‘‘

    ’’میں اندر آنا چاہتا تھا۔۔۔تم لوگوں کے پاس۔۔۔لیکن تم جانتے ہو۔۔۔‘‘

    ’’اٹس آل رائٹ جارج!‘‘ میں نے اسے بیچ میں ہی ٹوکا، جیسے میں ایک لمبی بیماری سے اٹھا ہوں۔ پاس ہی لیمپ پوسٹ کا پیلا دائرہ تھا۔ میں نے اس کے بیچوں بیچ تھوک دیا۔۔۔بالکل سرخ، جیسے پان کی پیک ہو۔ یہ خون ہے۔۔۔مجھے بہت عجیب سا لگا۔ میں نے ایک بار پھر تھوکا، ایک بار پھر اپنے خون کو دوبارہ دیکھنے کی خواہش ترک نہ کر سکا۔

    ’’تمہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ جارج نے کہا۔ اس کی آواز میں ایک دبی دبی پژمردگی تھی۔ مجھے وہ کچھ عجیب سی لگی۔ میں چپ رہا اور صرف کھڑا ہو گیا۔ ایک لمحے تک گلی کی دیوار سے میرا سر ٹکا رہا۔۔۔

    کھٹ۔۔۔ کھٹ۔۔۔ کھٹ۔۔۔

    اب بھی وہ آواز میری نسوں میں پھڑپھڑا رہی تھی۔

    ہم چپ چاپ ٹیوب کی جانب چلنے لگے۔ میری جیب میں اب بھی دو شلنگ پڑے تھے۔ غیرارادی طور پر میری کانپتی انگلیاں انہیں سہلا دیتی تھیں۔

    باہر سڑک پر اگست کے پتے تھے۔۔۔لندن کا دھواں شب سے پرے گرتا جا رہا تھا۔

    ’’تم میرا یقین نہیں کرتے۔۔۔تم سمجھتے ہو۔۔۔‘‘ جارج نے زبردستی میرا کندھا پکڑ لیا۔

    ’’اٹس آل رائٹ۔۔۔‘‘ میں نے اس کا ہاتھ کندھے سے الگ کر دیا۔ کاش وہ اس وقت میرے ساتھ نہ ہوتا۔

    ہم ٹیوب اسٹیشن کی سیڑھیاں اترنے لگے۔

    پلیٹ فارم سنسان پڑا تھا۔ بنچوں پر اکا دکا آدمی اونگھ رہے تھے۔ ہمارے بالکل نزدیک کھمبے کی اوٹ میں ایک جوڑا دیوار کے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔لڑکی اپنے بالوں پر بار بار ہاتھ پھیرتی تھی۔ اس کے سامنے کھڑا نوجوان دبی آواز میں سرگرشی کر رہا تھا۔ لڑکی بار بار ہنسنے لگتی تھی اور پھر چونک کر دونوں طرف دیکھ لیتی تھی۔

    ٹکٹ خرید کر ہم قریب کے خالی بنچ پر بیٹھ گئے۔

    ’’تم لندن میں ہی رہوگے؟‘‘

    وہ چپ رہا۔ اس کی آنکھیں بتیوں کے پرے انڈر گراؤنڈ سرنگ پر مرکوز تھیں۔۔۔اندھیری، سیلن بھری۔ لگتا تھا، سرنگ کا اندھیرا اوپر شہر کے اندھیرے سے کٹ گیا ہو۔۔۔جیسے ٹھہرے ہوئے گدلے پانی کا تالاب ہو۔

    ’’نہ جانے ولی کہاں چلا گیا!‘‘

    ’’ولی۔۔۔میں نے اسے دیکھا تک نہیں۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’لیکن تم باہر کھڑے تھے، تم نے ابھی کہا تھا؟‘‘

    ’’میں نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔‘‘

    ہم پھر چپ ہو گئے۔ لیکن خاموشی میں ایک بوجھل سا تناؤ تھا، جیسے کوئی چیز بار بار ہمارے درمیان آ جاتی ہو اور ہم بار بار اسے پرے دھکیل دیتے ہوں۔

    ’’تم سمجھتے ہو۔۔۔میں جھوٹ بول رہا ہوں؟‘‘ اس نے کہا۔

    میں دوسری طرف دیکھنے لگا۔

    ’’تم کچھ بھی سمجھو، مجھے اس کی قطعی پروا نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’ڈونٹ بی سلی!‘‘ میں نے کہا۔

    ’’تم میرا یقین کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اس بار اس نے میری طرف دیکھا۔

    ’’تم سوچتے ہو میں بھاگ گیا تھا۔۔۔‘‘ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔

    ’’ڈیم اٹ، آئی ایم ڈیم اٹ۔‘‘

    ’’انہوں نے مجھے پکڑ رکھا تھا۔۔۔اور میں تمہارے پاس۔۔۔‘‘

    ’’اٹس آل رائٹ، جارج۔‘‘

    ’’اونو۔۔۔ اٹس ناٹ آل رائٹ۔۔۔‘‘ وہ جیسے چیخ رہا ہو۔

    قریب ہی بنچ پر اونگھتا ہوا آدمی اٹھ بیٹھا اور ہماری طرف دیکھنے لگا۔

    ’’جارج، سنو۔۔۔‘‘ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ بنچ کے ہتھے پر اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں کے بیچ دبا تھا اور بار بار ہل اٹھتا تھا۔

    ’’آئی واز اَفریڈ، ٹیربلی افریڈ۔۔۔‘‘

    ہم دونوں کانپ رہے تھے۔

    ’’افریڈ۔۔۔‘‘

    میں سامنے دیکھتا رہا۔۔۔انڈر گراونڈ کا اندھیرا جیسے دھیرے دھیرے ہل رہا ہو۔۔۔ایک پردے کی مانند جو ابھی اٹھ جائےگا۔ میں اس لمحے جارج سے ڈرنے لگا، خود اپنے سے ڈرنے لگا۔ مجھے لگا جیسے میں اب کبھی اس کی طرف دیکھ نہیں سکوں گا۔ اس لمحے میں کوئی بھی خطرناک حرکت کر سکتا تھا۔ میں اس سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا، کچھ بھی۔۔۔لیکن اب ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اچانک تنہا ہوگئے تھے اور وہ رو رہا تھا اور میں کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔۔۔ شاید اس سے خوفناک اور کوئی کیفیت نہیں ہوتی جب دو آدمی ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی محسوس کر لیں کہ ان میں کوئی بھی ایک دوسرے کا نہیں ہے، جب وہ یہ محسوس کر لیں کہ بیتے دنوں کی ایک بھی یاد، ایک بھی لمحہ ان کے موجودہ، اس گزرتے ہوے لمحے کی تنہائی میں ان کا ہاتھ نہیں بٹا سکتا۔

    تب ہم چونک اٹھے۔ دوسرے پلیٹ فارم پر وارن اسٹریٹ جانے والی ٹیوب آرہی تھی۔ جارج کو اسی میں جانا تھا۔ ہمارے آس پاس کے بنچوں پر اونگھتے ہوئے لوگ دفعتاً اٹھ کھڑے ہوئے۔ ٹیوب کی تیز ہیڈلائٹ میں نیو ایکٹن کی اگلی سرنگ کا اندھیرا ذرا پیچھے کھسک گیا۔ سیڑھیوں سے کچھ لوگ بھاگتے ہوئے نیچے پلیٹ فارم پر اتر رہے تھے، تاکہ وارن اسٹریٹ جانے والی آخری ٹیوب کو پکڑ سکیں۔

    جارج کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک بار بھی مجھے نہیں دیکھا اور دوسرے لمحے بھیڑ کے ہمراہ وہ بھی ٹیوب کی طرف بھاگنے لگا۔ ٹیوب کے آٹومیٹک دروازے پل بھر کے لیے کھلے اور بھیڑ کو اپنے اندر نگل کر دوسرے لمحے بند ہو گئے۔

    پہیوں کی دھڑدھڑاتی آواز دھیرے دھیرے ہلکی پڑتی چلی گئی اور پھر ماحول حسب سابق پرسکون ہو گیا۔ سرنگ کے جس اندھیرے کو ٹیوب لائٹ نے پیچھے کھسکا دیا تھا، وہ پھر واپس لوٹ آیا۔

    صرف پلیٹ فارم کی کھلی چھت سے پرے نیو ایکٹن کی روشنیاں چپ چاپ جھلملاتی رہیں۔

    کھمبے کی اوٹ سے نوجوان نے کہا، ’’اگلی گاڑی سے۔۔۔‘‘ اور اسے چوم لیا۔ لڑکی کی آنکھیں بند ہو گئیں۔

    اس نے دیکھا بھی نہیں۔۔۔

    اور مجھے لگا، جیسے مدت سے میں نے سگریٹ نہیں پیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے