Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لونا چماری

سلمیٰ اعوان

لونا چماری

سلمیٰ اعوان

MORE BYسلمیٰ اعوان

    اب اللہ جانے کہ ان دو لفظوں کے پس منظر میں کیا بات تھی کہ اس چوڑی گلی میں ٹارنیڈو نوّے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آیا اور اودھم مچا گیا۔ بالاں ماچھن کے ہاتھ فضا میں یوں لہراتے تھے جیسے میدان جنگ میں تلواریں۔ منہ کے زاوئیے یوں بگڑتے تھے جیسے کڑوی کسیلی دوا پینے پر مریض کے۔ وہ چوڑی گلی کے بیچوں بیچ کھڑی سامنے والے گھر کے گڑھے مردے اکھاڑنے میں جتی ہوئی تھی۔

    بڑے بڑے پھولوں والی سستی چھینٹ کے ملگجے پردے کے پیچھے سے زینب بی بی کا کھچڑی بالوں والا سر تھوڑے تھوڑے وقفوں سے گردن باہر نکال کر اس کی باتوں کا جواب دیتا تھا پر صاف لگتا تھا کہ دونوں میں مقابلے کی کوئی بات ہی نہیں۔ کہاں کڑکتی لشکارے مارتی تیز دھار کی تلوار اور کہاں زنگ آلود کند چھری۔ تنگ آ کر اس نے حلق پھاڑ کر کہا

    ’’لوناں چماری‘‘

    بس وہ تو یوں اچھلی جیسے شلوار میں بھڑ گھس گئی ہو اور اس نے ڈنک مار دیا ہو۔ اب وہ اُچھل اُچھل کر اسے زندہ پکڑنے کے درپے ہو کہ کیسے اس کی تکا بوٹی کر ڈالے۔

    زینب کی لڑکی نے ماں کا آنچل پکڑ کر پیچھے گھسیٹا۔

    ’’چھوڑو بھی امّاں کس ناہنجار کے منہ لگ گئیں۔ گونہہ میں پتھر پھینک کر اپنے اوپر چھینٹے پڑوانا ہے ‘‘۔

    وہ بھی شاید اتنا سا لڑ کر ہانپ گئی تھی۔ پردہ چھوڑ کر اندر آ گئی۔ چارپائی پر بیٹھی تو سانس دھونکنی کی طرح اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ ہونٹ سفید پڑ رہے تھے۔ بہو بھاگ کر کٹورے میں کورے گھڑے سے پانی لائی اور اس کے ہاتھوں میں تھمایا۔ سارا کٹورہ پی گئی تو کہیں اوسان ٹھیک ہوئے۔

    ہمسائی اپنی چھت پھلانگ کر ان کی چھت پر آ گئی اور منڈیر سے لٹک کر ہمدردی جتانے لگی۔

    ’’بہن سچ تو یہ ہے شرافت کا زمانہ نہیں۔ سارا محلہ تماشا دیکھنے والا تھا۔ کسی نے آگے بڑھ کر یہ نہیں کہا کہ بالاں زیادتی مت کر‘‘۔

    زینب کی دھان پان سی بہو جو لڑائی جھگڑوں سے کوسوں دور بھاگتی تھی ساس کے قریب پائنتی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’ارے امّاں ! آپ سے کہا بھی ہے کہ بالاں کی بیٹی اور داماد سے متعلق کوئی بات نہ کیا کریں کوئی چھوڑے یا رکھے ہمیں کیا؟‘‘

    ’’ارے تو کوئی غلط بات کہہ دی۔ یہی کہا نا کہ لو بی بڑی چاتر بنی پھرتی تھی۔ گیا وہ اب۔ تُف تو اس لُتری پر ہے کہ جس نے یہ لگائی بجھائی کی‘‘۔

    ’’بہن تمہیں پرائی آگ میں کُود کر کیا لینا ہے۔ چولہے میں جائے بالاں و بھاڑ میں جائے اُس کی چھوکری اور جہنم میں جائے اس کا داماد۔ اس کی تو زبان کم بخت سان پر رکھی ہوئی ہے۔ نہ آنکھ میں دید ہے نہ نظر میں لحاظ۔ جو آگا پیچھا پُننے پر آتی ہے تو پلٹ کر دیکھتی نہیں اور جو کوئی اس سے الجھے گا وہ اس کی روٹیاں لگانا بند کر دے گی۔ یہ تم بھی جانتی ہو اور میں بھی کہ گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں چولہے کے آگے بیٹھ کر ٹبر کی روٹیاں پکانا ان نازک مزاج بیبیوں کے لیے کس قدر دشوار ہے ؟ بہن وہ کیوں اسے ناراض کریں ؟تم سے انہیں کیا لینا۔ یوں بھی اسے اس محلے کا بڑا مان ہے۔ تم نئی کرایہ دار۔ آج یہاں کل وہاں۔

    اب لاکھ بھی بالاں اپنی ذات چھپاتی۔ محلے والوں سے کہتی کہ اس کے ابّا کا تو امرتسر میں پرچون کا بڑا کام تھا۔ بُرا ہوا اس تقسیم کا جس نے سب کچھ لوٹ لیا۔ جاننے والے تو جانتے تھے کہ وہ اصلاً نسلاً بھٹیارن ہے۔

    محلے کے عین درمیان کچے میدان کے ایک کونے میں اس کے باپ نے ایک تنور گاڑا تھا اور لو برساتی دوپہروں میں اُس کی کم گو اور حلیم مزاج ماں اپنے بڑے سے پیٹ پر میلے لٹھے کی چادر ڈالے روٹیاں لگایا کرتی تھی۔ بڑی بوڑھیاں اسے اس حال میں یوں آگ کے سامنے کام کرنے پر ٹوکتیں۔

    ’’اے کیوں مرتی کھپتی ہو؟ فقیرے سے کہو نا وہ بیٹھا کرے۔ اپنی جان کو ہلکان کرتی ہو؟ یہ دن بھلا ایسی کڑی محنت کرنے کے تھوڑی ہیں ‘‘۔

    اور وہ لوہے کی ڈھائی فٹ لمبی جوڑی سے روٹیاں اُتار اُتار کر چنگیروں میں رکھتی جاتی اور ٹھہر ٹھہر کر کہتی۔

    ’’اس مشٹنڈے کو میرا خیال ہوتا تو بات ہی کیا تھی۔ ارے میں کوئی گوشت پوست کی زنانی تھوڑی ہوں بچے پیدا کرنے کی مشین ہوں ‘‘۔

    اُس کے ہاتھ لکڑی کے تختے پر بچھے خشکے پر رکھے پیڑوں کو برقی انداز میں تھپکنے میں مصروف ہو جاتے۔ مٹی کی کونڈی میں پڑے پانی میں اس کا ہاتھ اک ذرا ڈوبتا، بید کی چھال والی گدی پر پھرتا، روٹی اس پر ڈالتی اور دوہری ہو کر منہ تنور میں ڈال دیتی۔ پل بھر میں وہ روٹیوں کے تھبے لگا دیتی۔

    تب بالاں یہی کوئی نو دس سال کی ہو گی۔ گندے میلے کچیلے کپڑوں میں سارا دن چھوٹے بھائیوں کو اٹھائے تیرے میرے گھروں میں گھسی رہتی۔ سات بھائیوں کی دو بہنیں تھیں۔ ایک بالا سے کافی بڑی تھی۔ اس خاندان میں لڑکوں کی بڑی بہتات تھی۔

    اور جب اُس کی امّاں دسواں بچہ جننے والی تھی وہ اللہ کو پیاری ہو گئی۔ بے چاری آدھی رات کو یہی دہائی دیتے چل بسی۔

    ’’ارے کوئی یٰسین کا ایک رکوع ہی سنا دے ‘‘

    پر وہاں یٰسین کِسے آتی تھی جو اسے سنانے بیٹھتا۔ فقیر حسین کے کپڑے اس دن بھی بڑے صاف اور بالوں میں کنگھی پٹی تھی۔ چہرہ غم و فکر کے تاثرات سے یکسر خالی تھا۔ دری پر بیٹھا وہ کوئی راہ گیر نظر پڑتا تھا جو یونہی چلتے چلتے دو منٹ کے لیے پرسہ دینے بیٹھ گیا ہو۔

    بیوی کا سوئم ہوا۔ نواں ہوا اور پھر چالیسواں بھی ہو گیا پر اس کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ بدستور بالوں میں خضاب لگاتا۔ انہیں خوشبودار تیل سے چپڑتا۔ دائیں کان میں چنبیلی کے عطر میں ڈبویا پھویا اڑستا۔ پاؤں میں کھُسّہ، کمر میں سرخ اور سبز دھاری دار ٹاسے کی لنگی پہنتا۔ گلے میں پٹکا ڈالتا اور چھیل چھبیلا بن کر باہر نکلتا۔ اس کی بلا سے بچے رو رہے ہیں۔ انہیں بھوک پیاس ستا رہی ہے۔ لوگ، حیران ہوتے اور تعجب سے کہتے۔

    ’’ارے یہ انسان ہے یا پتھر‘‘

    پر اس پتھر نے اس کی شادی کرنے میں ذرا دیر نہ کی۔ اس کا بالاں کو سینت سینت کر اور ڈھانپ ڈھانپ کر رکھنا سب بیکار ہو رہا تھا۔ خوشبودار، خوش رنگ اور خوش ذائقہ خربوزے کی طرح وہ تو کال کوٹھڑی سے بھی اپنا پتہ دے رہی تھی۔ ایسی پھوٹ کر نکلی تھی کہ گدڑی میں لعل والی مثال سچ ہو گئی تھی۔

    ادھر اسے چودہواں لگا اور ادھر وہ ڈولی میں بٹھا دی گئی۔ جھنگ میں فقیر حسین کے دور پار کے رشتے دار تھے انہی کا بیٹا تھا۔ سال بعد میکے آئی اور محلے کے سبھی گھروں میں گود میں دو ماہ کا بچہ اٹھائے اٹھائے پھری۔ اس سوال کے جواب میں کہ اس کا گھر والا اور سسرال کیسی ہے وہ تڑاخ سے بولی۔

    ’’ارے جیسا نکھٹو (اس کا اشارہ اپنے باپ کی طرف تھا) آپ تھا ویسا ہی بیٹی کے لیے بھی ڈھونڈ لیا۔ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔ چلو آپ تو صاف ستھرا ہی رہتا ہے، وہاں تو وہ بات بھی نہیں۔ من من بھر مٹی بالوں اور کپڑوں میں ٹھسنے رکھتا ہے۔ عقل کا بھی کورا ہے۔ کوئی بات کہو بھیجے میں گھستی نہیں۔ دودھ پیتا بچہ ماں کے گھنٹے سے چمٹا رہتا ہے۔

    اس نے سو سو کیڑے خصم میں اور ہزار ہزار سسرال میں ڈالے۔

    ’’میں تو اب کبھی گاؤں نہیں جاؤں گی۔ کبھی بھی نہیں۔ ارے کون وہاں اپنی مٹی پلید کروائے۔ نہ کھانے کا مزہ، نہ پہننے کا، نری دھول مٹی گرد۔ جس کو ضرورت ہو وہ یہاں چلا آئے ‘‘۔

    اور واقعی اس نے جو کہا کر دکھایا۔ نہ جانا تھا نہ گئی۔ باپ اور بھائیوں نے ایڑی چوڑی کا زور لگا لیا۔ دو مونہی سانپ کی طرح وہ تو پھنکارے مارتی پھرتی۔

    ’’لو خود شہروں میں موجیں مارتے پھرتے ہیں۔ پنکھوں کے نیچے بیٹھتے اور برفیں پیتے ہیں اور مجھے وہاں دوزخ میں دھکیل دیا ہے۔ ارے کون سے جنم کا بدلہ لیا تم نے مجھ سے۔ میرے لئے شہر میں کوئی بر نہ ملا۔ طاعون کی بھینٹ چڑ ھ گئے تھے سارے۔ ہیضے نے نگل لیا تھا انہیں۔ کالے پانیوں میں جا پھینکا مجھے۔ تھو تم پر اور تمہاری اوقات پر‘‘۔

    وہ تو بھڑکتی چنگاری بن گئی تھی۔ ذرا سی بات پر آسمان سے باتیں کرنے والے شعلوں کا روپ دھار لیتی۔ کہنے والے کا تیا پانچہ کر دیتی۔ باپ اور بھائی تو کسی کھیت کی مولی نہ تھے۔

    اور واقعی جس کو اس کی ضرورت تھی وہ سر کے بل آیا۔ یہاں ٹھنڈی ہوائیں تھیں اور کھانے کو رنگا رنگ بکتی چیزیں۔

    باپ کا تنور تو بند پڑا تھا۔ اس نے اسے چالو کیا اور خاوند کو اس پر بٹھایا۔ ایک ایک دھیلے اور پائی پائی کا حساب کرتی۔ خود تو کام کاج سے آزاد ہو کر ماں کی پیڑھی پر بیٹھی اور ہر سال بچہ جننے لگی۔ چند ہی سالوں میں ڈھیر لگ گئے۔ وہ پلٹ کر بھی نہ دیکھتی کہ کونسا بچہ کہاں غائب ہے ؟ گلیوں میں کب سے آوارہ گردی کر رہا ہے ؟ کس کے تن پر کپڑا ہے اور کون ننگا ہے ؟ کسے بخار ہے اور کونسا تندرست ہے ؟ کونسا بھوکا ہے اور کس کا پیٹ بھرا ہوا ہے ؟

    وہ بے چارے خود ہی منہ مارتے پھرتے ادھر ادھر ماموں خالہ کے گھر گھس جاتے۔ سخت سردیوں میں ننگے پیر، ننگے سر اور جسم پر ایک میلے سے کپڑے میں گھومتے پھرتے۔ نہ انہیں ٹھنڈ لگتی اور نہ وہ بیمار پڑتے اور اگر کبھی پڑ جاتے تو دوا دارو کے بنا ہی ٹھیک ہو جاتے۔ لوگ باگ حیران ہو کر دیکھتے، سوچتے اور کہتے۔

    ’’ارے یہ بچے ہیں یا سیسہ پلائی دیواریں ‘‘۔

    بڑے لڑکے سے چھوٹی لڑکی تھی۔ اس کے بعد اوپر تلے کے چھ لڑکے تھے۔ لڑکی جوان ہونے لگی تو اس نے باہر گھومنا پھرنا بند کر دیا۔ لڑکی کو محلے کے عام گھروں میں بھی جانے سے روکتی۔ ماں بیٹی کی اس بات پر چخ چخ بھی ہو جاتی۔ وہ اس کے سرخی مائل سفید رخساروں کے ابھرے ہوئے گوشت کی چٹکی بھر کر غصیلے لہجے میں کہتی

    ’’چھنال بیاہ دوں گی تو جہاں مرضی گو کھاتی پھرنا‘‘

    انہی دنوں تنور کے عین سامنے گلی کی دوسری طرف ایک چھوٹی سی بیٹھک میں ایک نو عمر لڑکا کرایہ دار بن کر آیا۔ اس کے والدین مدت سے مدینہ گئے ہوئے تھے اور وہیں بس گئے تھے۔ لڑکا چچا کے پاس گجرات میں تھا۔ میٹرک کیا۔ واپڈا میں ملازمت مل گئی اور لاہور آ گیا۔

    اس کے تنور پر روٹیاں پکنے کے علاوہ دال بھی پکتی تھی۔ لڑکا شام کو روٹی وہیں کھانے لگا۔ بالاں کی لڑکی چھیماں خوبصورتی میں ماں سے چار ہاتھ آگے تھی۔ جوانی کا تو اپنا ایک حسن اور نکھار ہوتا ہے۔ رنگ دودھ کی طرح سفید تھا۔ اداؤں میں بانک پن تھا۔

    اور دونوں کی آنکھ لڑ گئی۔

    بالاں زمانے بھر کی چلتر عورت گھر میں آگ لگتی اور جان نہ پاتی۔ بیٹی کے ہار سنگھار میں اضافہ ہوا اور لڑکے کے تنور کے گرد چکر کاٹنے میں تیزی آئی تو پل جھپکتے میں ساری رام کہانی جان گئی۔ شام کو جب وہ روٹی کھانے آیا تو اس نے خود بیٹھ کر اسے کھانا دیا اور آہستہ آہستہ اس سے ساری باتیں معلوم کیں۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اسے کیا چاہیے تھا؟ چند دنوں بعد پیار سے کہا۔

    ’’بچہ! زمانہ خراب ہے۔ غریب کی عزت لوگ یوں بھی سستی سمجھتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کوئی کہے بالاں کی لڑکی کا فلاں سے یارانہ ہے۔ تمہیں اگر پسند ہے تو سیدھا نکاح کرو‘‘۔

    لڑکے کو کیا اعتراض تھا۔ اندھے کو آنکھیں مل رہی تھیں۔ بیٹھے بٹھائے پکی پکائی کھیر چاندی کے ورقوں کے ساتھ کھانے کو نصیب ہو رہی تھی۔ اس نے بالاں کے ہاتھ پکڑ لئے۔

    ’’آپ ہی میرا مائی باپ ہو۔ جیسے چاہتی ہو کرو۔ میں تابعدار‘‘

    سارا خرچہ بالاں نے خود کیا۔ خاصی دھوم دھام سے نکاح ہوا۔ محلے والوں نے کہا بھی۔

    ’’اے لڑکے کا اتہ نہ پتہ۔ اچھی بھلی لڑکی کی زندگی تباہ کر دی‘‘۔

    کچھ گھر ایسے بھی تھے جن کی جوان لڑکیاں موزوں بروں کی تلاش میں بوڑھی ہو رہی تھیں۔ بالاں کی لڑکی جو ابھی کل کی چھوکری تھی اسے بیٹھے بٹھائے پڑھا لکھا کماؤ لڑکا مل گیا۔ ماؤں کے لیے یہ بھی ناقابل برداشت تھا۔ چند ایک نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔

    ’’اے اپنا مزہ پورا کرے گا اور لات مارے گا۔ لوگ تو باجوں گاجوں اور پگڑیوں والوں کی معیت میں بیاہ کر لے جانے والی کی لاج نہیں رکھتے۔ ذرا سی بات پر ہاتھ میں کاغذ تھما دیتے ہیں اور یہاں تو کوئی بات ہی نہیں ‘‘۔

    یہ باتیں اس کے کانوں میں بھی پڑیں۔ اس نے نفرت سے ہنکارا بھرا۔ بایاں بازو حریف کو چت کر دینے کے انداز میں سر کے پیچھے لے گئی اور ہونٹ سکوڑ کر بولی۔

    ’’ارے ان کے پیٹوں میں خوامخواہ ہی مروڑ اٹھنے لگے ہیں۔ بھڑوا چھوڑ دے گا تو لونڈی کو اور کروا دوں گی۔ میری چھوکری کو لڑکوں کی کیا کمی‘‘؟

    باجے گاجوں کیساتھ اس نے لڑکی کو چند مہینوں بعد وداع بھی کر دیا۔ اسی بیٹھک میں دونوں رہنے لگے۔ سال بعد بیٹا بھی آ گیا۔

    بالاں کے داماد نے بیٹے کی اطلاع سعودیہ والدین کو دی۔ جنہوں نے لکھا۔

    ’’بچہ! ہم کب سے تمہیں آنے کا کہہ رہے ہیں۔ اب تو خیر سے صاحب اولاد ہو گئے ہو۔ ہم لوگ تمہیں اور تمہارے بچے کو دیکھنے کے لیے بہت بے چین ہیں ‘‘۔

    خط اس نے ساس کو دکھایا تو وہ جی داری سے بولی۔

    ’’جاؤ۔ بچہ جاؤ۔ لوگ تو باہر جانے کو ترستے ہیں۔ تمہارا تو وہاں ٹھکانہ ہے۔ زندگی میں کماؤ اور کھاؤ‘‘۔

    اور اس نے داماد کے لیے پیسے کا بھی انتظام کر دیا۔

    ’’لو بڑی چاتر بنی پھرتی تھی۔ اڑ گیا پنچھی اب بیٹھ آرام سے ‘‘۔

    نئی کرایہ دار زینب بی بی نے پان کی پیک نالی میں پھینکی۔

    باچھوں کو دائیں ہاتھ کی پہلی اور دوسری پوروں سے صاف کیا اور شامت اعمال سے محلے ہی کی ایک عورت سے یہ سب کہا۔

    یہ بالاں کی سجن بیلی تھی۔ اس نے ایک کی جگہ دو لگائیں اور بالاں نے بیچوں بیچ گلی کے کھڑی ہو کر اس کا وہ فضیحتا کیا کہ بڑے بڑوں نے کانوں کو ہاتھ لگا لئے۔

    چار پانچ ماہ تک خط باقاعدگی سے آتے رہے۔ ایک آنے والے کے ہاتھ اس نے چھیماں کے لیے دو جوڑے اور بچے کے لیے کھلونے بھی بھیجے پر اس کے بعد خاموشی تھی۔ جن کے پاس وہ داماد کے خط پڑھوانے اور لکھوانے جاتی تھی۔ چار ماہ تک جب اس کا کوئی پتر نہ آیا تو وہ لوگ بھی جان گئے کہ بالاں کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔

    توپوں کے دہانوں کی طرح عورتوں کے منہ بھی رنگ رنگیلی باتوں کے لیے کھل گئے تھے۔ بھانت بھانت کی بولیاں تھیں۔ بولیوں کا زور ابھی عروج پر پہنچا ہی تھا کہ ان کا زوال بھی ہو گیا۔

    داماد کا خط بھی آیا اور ویزہ بھی۔ا س نے لکھا تھا کہ میں بیمار پڑ گیا تھا۔ اسپتال میں دو ماہ داخل رہا۔ میری انتڑیوں میں زخم تھے۔ اب ٹھیک ہوں۔ میرا دل چھیماں اور بچے کے لیے بہت اداس ہے۔

    اس نے بیٹی اور نواسے کو جہاز میں بٹھایا اور سکھ کا لمبا سانس بھر کر محلے کی معمر عورت سے بولی۔

    ’’جنی کا دکھ تو رب بیری دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ لوگ میرا تماشا دیکھنا چاہتے تھے۔ کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں میں نے۔ انسان کو پرکھنے کا شعور رکھتی ہوں۔ اٹھائی گیرے کے ہاتھ اپنی لاڈلی بیٹی کا ہاتھ دے دیتی ایسی احمق نہیں ہوں میں ‘‘۔

    باتیں کرنے والوں کو ایک بار پھر یہ یقین کرنا پڑا کہ وہ بخت کی دھنی ہے۔

    کوئی دس ماہ بعد بیٹی اور داماد نے سسر کو بُلانے کے لیے لکھا۔ یہ جون کی تپتی دوپہر تھی۔ سورج سوا نیز پر آیا لگتا تھا۔ تنور پر لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ وہ پسینہ پسینہ دھپا دھپ روٹیاں لگانے میں جتا ہوا تھا۔ بالاں خط ہاتھ میں لئے وہیں اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

    ’’ارے چھیماں نے تجھے بلانے کا لکھا ہے۔ کہتی ہے یہاں کام کا بہت زور ہے۔ ابّا کو بھیج دے۔ وارے نیارے ہو جائیں گے ‘‘۔

    ’’تو بھیج دے سوچتی کیا ہے ‘‘؟ اس نے تکونی آنکھیں بالاں کے چہرے پر گاڑ دیں۔

    ’’لو سوچوں نہ۔ کم بخت سدا کا تو نکھٹو ہے۔ یہاں تو میرے ڈر سے ٹک کر بیٹھ جاتا ہے اور دو پیسے کما لیتا ہے۔ وہاں کس کا ڈر ہو گا؟ تو نے اڑیل ٹٹو کی طرح اکڑ جانا ہے وہاں۔ زیادہ لالچ کے چکر میں تھوڑے سے بھی جاؤں۔ دس بارہ ہزار پر پانی الگ پھرے۔ ‘‘

    اور پھیجے نے غصے میں لوہے کی جوڑی اس کی آنکھوں کے سامنے لا کر بجائی۔

    ’’اپنے ٹوٹے منہ سے کبھی دو لفظ اچھے بھی بول لیا کر۔ ہمیشہ جی جلانے والی باتیں ہی کرتی ہو‘‘۔

    ’’اے تو کچھ غلط کہتی ہوں۔ دیکھو تو ذرا غصہ کیسے دکھاتا ہے ؟ ارے بد ذات یہ میں ہی نصیبوں جلی ہوں جو تجھ جیسے کو بھگت رہی ہوں ‘‘

    اور بالاں دان رات سوچتی رہی۔ جب ڈھیر سارا سوچ چکی تو اس نے فیض محمد عرف پھیجے کو سفید اور سبز پروں والے طیارے میں بٹھا دیا اور بیٹی کو اطلاع بھیج دی۔

    لوگ حیران تھے کہ وہ کس خزانے پر بیٹھی ہے ؟ شادی کی۔ داماد کو بھیجا۔ بیٹی اور نواسے کو بھجوایا اور اب شوہر پر بھی دھڑا دھر خرچ کیا۔ کہاں سے اتنا پیسہ آتا ہے اس کے پاس؟ یہاں تو بڑے بڑوں کی حالت پتلی ہے۔

    اور پھر کچھ یوں دیکھنے میں آیا کہ ایک بڑا گر انڈیل مرد اکثر و بیشتر اس کے پاس بیٹھا دیکھا جانے لگا۔ مردوں کا اُس کے پاس بیٹھنا کوئی نئی بات تو نہیں تھی۔ ایک تو اس کا کاروبار ایسا تھا دوسرے وہ آزاد طبیعت کی عورت تھی۔ مگر یہ چھ فٹ سے نکلتی قامت والا مرد کئی بار رات کی تاریکی میں بھی اس کے گھر سے نکلتا اور داخل ہوتا دیکھا گیا۔ بالاں لاکھ منہ پھٹ، منہ زور اور خود سر عورت تھی پر کہنے والے کہتے تھے کہ وہ اس قماش کی نہیں۔

    ایک دن صبح سویرے محلے والوں کی آنکھ تیز نسوانی آوازوں سے کھل گئی۔ گھروں کی عورتوں نے چھتوں کی منڈیروں سے، بالکونیوں کی کھڑکیوں سے جھانک کر گلی میں دیکھا کہ ماجرا کیا ہے ؟

    ماجرا یہ تھا کہ نسواری برقعے میں ایک موٹی تازی گوری چٹی عورت بالاں کے گھر کے تھڑے کے پاس کھڑی بول رہی تھی۔

    ’’رنڈی چھینال نکال اپنے اس تگڑے کو باہر۔ رات بھر کلیجے سے لگا کر ابھی ٹھنڈ نہیں پڑی۔ وہاں میں ساری رات گھر کا دروازہ کھولے اس جنم جلے کا سیاپا کرتی رہی۔ او نچے اونچے کر لاتی رہی۔

    ہے کوئی جو اس کنجر کے تخم اور رنڈی باز کو جا کر بتائے کہ بڑا لونڈا رات مرتے مرتے بچا ہے۔ میں نگوڑی کیا جانوں کہ باہر یار بیلیوں کے ساتھ کیا گلچھرے اڑاتا رہا۔ کیا کھِے سواہ کھائی۔ آدھی رات اگیّ ادھی پچھے دست اور الٹیاں، کدھر جاؤں، کِس کو کہوں کِس کا دروازہ بجاؤں۔ کون اپنی نیند حرام کر کے چھوکرے کو ڈاکٹر پاس لے کر جائے۔ ادھر بھاگوں ادھر بھاگوں اس مرن جو گے کا سیاپا کرتی اُسے سونف پودینہ پلاتی ساری رات سولی پر کاٹ دی۔

    بالاں کیل کی طرح دروازے میں گڑی کھڑی تھی۔ لیکن یہ صاف معلوم ہوتا تھا کہ بالاں اگر تولہ ہے تو وہ ڈیڑھ تولہ۔ بالاں اگر آندھی ہے تو وہ طوفان۔ مقابلے کی چوٹ تھی۔

    قریبی مسجد کا امام درس قرآن دے رہا تھا۔ حضرت یوسفؑ اور زلیخا کا بیان تھا۔ ایک آواز اس کی کان میں پڑتی تو دس آوازیں ان دو عورتوں کی سنائی دیتیں۔

    عورتیں کانوں پر ہاتھ دھرتی جاتیں ؟توبہ توبہ استغفار بھی پڑھتی جاتیں پر وہاں سے ہٹنے کے لیے بھی تیار نہیں تھیں۔ بغیر ٹکٹ کے تماشا تھا۔ کیسے ادھورا چھوڑ دیتیں ؟۔

    دو تین مرد بیچ میں پڑے۔ انہوں نے برقع پوش عورت سے کہا

    بی بی مہربانی کرو۔ ایسی گندی باتیں منہ سے نہ نکالو۔ شرفاء کا محلہ ہے۔ سبھی لوگ بہو بیٹیوں والے ہیں۔ اس پر وہ تنک کر بولی۔

    ’’ڈوب مرو کہتے ہو شرفاء کا محلہ ہے۔ اس رنڈی کو سینے سے لگا کر رکھا ہوا ہے۔ وہاں کوٹھے پر کیوں نہیں بھیجتے اسے۔ چپڑی کھاتے ہو اور وہ بھی دو دو۔ نکالو میرے خصم کو‘‘۔

    بالاں نے ایکا ایکی گھر کے دروازے کھول دئیے۔

    ’’کتی جو تیرا خصم نہ نکلا تو چونڈی مروڑ دوں گی تیری۔ بوٹی بوٹی کتوں سے نچوا دوں گی‘‘۔

    واقعی اندر کوئی نہیں تھا۔ ننگ دھڑنگ بچے ٹوٹی چارپائیوں پر کسِی زیر تعمیر گھرکے سامنے بکھری شکستہ اینٹوں کی طرح اِدھر اُدھر بکھرے سو رہے تھے۔ غالباً وہ تو کہیں سویرے ہی نکل گیا تھا۔

    ہا تھا پائی بھی ہو جاتی اگر لوگ بیچ بچاؤ نہ کرواتے۔ بہرحال اس لڑائی کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ وہ مرد دوبارہ بالاں کے تنور یا اس کے گھر نہ دیکھا گیا۔ کچھ عورتوں کا کہنا تھا وہ جہاں ملازم تھا اُس کی بیوی بڑے افسرسے ملی اور اس کے سامنے روئی پیٹی۔ یوں چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس کی تبدیلی ہو گئی۔ واللہ عالم بالصواب۔

    کبھی کبھی کوئی اجنبی چہرہ اس کے گھر ضرور دیکھا جاتا۔ محلے کے چند آدمی اس سے یہ کہنے لگے کہ اسے شریف عورت کی طرح رہنا چاہیے۔ محلہ اُسے بیٹی کی طرح سمجھتا ہے۔

    اس نے کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی حرکت کی۔ الٹا ان کے لتے لے ڈالے تھے۔ بے چارے دم دبا کر بھاگے۔ جتنا لُچا اتنا اونچا، جتنا شریف اتنا رذیل والی بات ہو گئی تھی۔ محلے میں چار پانچ آدمی مستقل اس کے پاس بیٹھک کرنے لگے تھے۔

    اسی دوران اس کی بیٹی کا خط آیا کہ امّاں ابّا یہاں کوئی کام نہیں کرتا۔ سارا دن چارپائی توڑتا ہے۔ کھانے کو اچھا مانگتا ہے۔ میں اسے بہتیرا کہتی سنتی ہوں پر اس پر کوئی اثر نہیں۔ وہ تو ایک بار بھی مسجد نبوی میں نہیں گیا۔ میرے گھر سے ایک کوس کا فاصلہ ہے سارا۔ حج کے لیے کہا تو بولا۔

    ’’ارے میں نے کونسے گناہ کئے ہیں جو بخشوانے کے لیے بھاگتا پھروں ‘‘

    ’’تم اسے ڈانٹ ڈپٹ والا خط لکھو میرے تو کہنے سننے میں نہیں ‘‘۔

    اور خط سن کر اس نے ما تھا پیٹ لیا۔

    ’’ارے اسی بات کا تو مجھے ڈر تھا۔ ہڈحرامی تو اُس کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ وہ تو یہاں میرے ڈر سے لگے بندھوں کام کرتا تھا جانتا تھا کہ میرا ڈنڈا اس کی ہڈی پسلی توڑ دے گا۔ اُس نے لمبی دکھ اور یاس میں لپٹی آہ کلیجے سے نکالی تھی۔

    ہائے بدنصیب پیسہ برباد کرنا تھا سو کر دیا۔

    خط لکھواتے ہوئے اس کا غصہ اپنے پورے عروج پر تھا۔

    ’’بھیج دو اُسے واپس کسی واقف کار کے ساتھ جو پانی سے پاکستان آ رہا ہو۔ کہنا کہ وہ اسے سمندر میں دھکا دے دے۔ مچھلیاں اسے کھا جائیں۔ میرے پاس وہ مت آئے۔ مجھے نہیں رکھنا اسے ‘‘۔

    جب وہ آیا اس نے اس کا وہ فضیحتا کیا کہ اس نے بھی دل میں سوچا ہو گا کہ وہاں پڑا کیا برا تھا۔ کا ہے کو یہاں اپنی کھال نچوانے آ گیا ہوں۔

    دھکے دے کر اسنے اسے باہر نکال دیا اور خود عدالت میں طلاق کے لیے درخواست دائر کر دی۔ لوگوں نے کہا بھی

    ’’چل جانے دے بالاں۔ کیوں اسے خوار کرتی ہے ؟ پڑے رہنے دے اپنے در پر۔ تیرا سائیں ہے۔ بچوں کا باپ ہے۔

    بھلا وہ اسے بخش دیتی۔ اس کا تو بس نہیں چلتا تھا کولہو میں پسوا کر تیل نکلوا لیتی اس کا۔

    پھر بہت سارے دن اور مہینے گذر گئے۔ وہ بھی جیسے بڑی بدل گئی۔ تنور پر گاہکوں کو سالن ڈال کر دیتے ہوئے، کسی عمر رسیدہ مرد یا عورت سے باتیں کرتے ہوئے بس یہی کہتی

    ’’میں نے تو کملی والے سے دل لگا لیا ہے۔ چھیماں نے مجھے اور بچوں کو بلانے کے لیے لکھا ہے۔ پاسپورٹ بنوا رہی ہوں۔ میں نے تو نبی جی کے قدموں میں کٹیا ڈال لینی ہے۔ اُن کے ذکر اور ورد کو زبان پر رکھ لینا ہے۔ کیا رکھا ہے زندگی میں ؟ بس اب تو اللہ مجھے مدینے لے جائے۔

    اُسے جیسے پہیے لگ گئے تھے۔ ایک پیر اس کا لاہور ہوتا اور دوسرا اسلام آباد۔ اتنے ڈھیر سارے بچوں کے ساتھ سعود یہ جانا اس کے لیے بس یوں تھا جیسے سعودی عرب فیصل آباد ہی تو ہو۔

    اب اسے طلاق بھی مل گئی اور وہ جانے کے لیے بھی تیار تھی۔

    پھر اس کا وہ تنور جس پر ہمیشہ ہی عورتوں، بچوں اور مردوں کا جمگھٹا سا لگا رہتا تھا ویران ہو گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ محلے کی ساری رونق اپنے ساتھ سمیٹ کر لے گئی ہے۔ شریف عورتوں نے جہاں اس کے جانے پر شکر ادا کیا وہیں ایک کمی سی بھی محسوس ہوئی۔

    ’’اے اللہ ماری اب تو بڑی بدل گئی تھی۔ دیکھو تو بہن جانے اللہ کو اس کی کیا ادا بھائی کہ اپنے پاس بلا لیا۔ اپنے دیدار کے لیے اپنے حبیب کے دیدار کے لیے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کسی کو حقیر مت جان۔ نیکی، پرہیز گاری اور پارسائی کی کوئی ضمانت نہیں۔ اس کی نظروں میں کون اچھا اور کون برا یہ سب وہ جانے۔ ہم اور تم کون ہوتے ہو فیصلہ کرنے والے۔

    عورتیں ایک دوسری سے یہ کہتیں اور اس کے مقدر پر رشک کرتیں۔

    جب آٹھ ماہ بعد حج کا زمانہ آیا۔ محلے کی دو عورتیں اور تین مرد حج کے لیے جانے لگے تو سبھی عورتوں نے جانے والیوں سے کہا کہ وہ بالاں سے ضرور مل کر آئیں اور اُسے کہیں کہ بالاں تو تو محلے کو رنڈا کر گئی ہے۔

    پر جب وہ عورتیں فریضۂ حج سے فارغ ہو کر آئیں تو انہوں نے بتایا کہ بالاں نے ایک اونچے لمبے موٹے تازے عربی سے نکاح کر لیا ہے۔ مدینے سے چھ کوس پر وہ ایک بڑے سے خیمے میں رہتی ہے اور اقبال بیگم کہلاتی ہے۔ موٹے موٹے دبیز قالین پر گاؤ تکیے کے سہارے بیٹھی جب بالاں ہمیں اٹھ کر ملی تو ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ ایک نوکرانی نے قہوہ اور خشک میوہ ہمارے سامنے رکھا۔ خدا گواہ ہے بالاں کا رنگ سیب کی طرح دہکتا تھا۔ وہ تو ایسی جاندار عورت نظر آتی تھی کہ جیسے اس نے ایک بچہ بھی نہ جنا ہو۔ سارے بچے کاموں پر لگ لگا گئے تھے پر وہ ان سے ملتی جلتی نہیں۔

    اور جب ہم میں سے ایک نے کہا۔

    بالاں تو نے حج تو کر لیا ہو گا۔ تو تو مقدر والی ہے۔ بہتی گنگا کے کنارے کھڑی ہے۔ جب چاہا نہا لیا۔ وہ عجیب بے نیازی سے بولی۔

    ’’ارے کہاں ؟ میں نے تو ابھی مسجد نبوی کا بھی دیدار نہیں کیا۔ میں تو اسے (اس نے اپنے شوہر کے متعلق کہا) یوں بھا گئی کہ نکاح کئے بغیر میری جان نہ چھوٹی۔ ابھی دس دن ہوئے یورپ سے ہو کر آئی ہوں ‘‘۔

    وہ انگلستان اور فرانس کی باتیں یوں کر رہی تھی جیسے زندگی کا ایک حصہ وہاں گذارا ہو۔

    اور ہم دونوں ہونقوں کی طرح اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے