لکھنؤ کافی ہاؤس کی ایک شام
لکھنؤ میں رسی بٹوں سے آگے ٹوریا گنج کے پہلے چوراہے کے بائیں طرف لکھنؤ کافی ہاؤس تھا۔ لکھنؤ کافی ہاؤس سرخ پتھر کی بنی ہوئی ایک قدیم عمارت کے نچلے حصہ میں تھا اور یورپین طرز تعمیر کا نمونہ تھا یہ عمارت خاصی طویل و عریض رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی اوپری منزل پر تمام تر سرکاری و غیر سرکاری دفاتر تھے جبکہ نچلے حصہ میں لکھنؤ کافی ہاؤس کے علاوہ سٹی کورٹ تھا جس کے مختلف کمروں میں سیکشن تھے طویل راہ داری والے برآمدے کے باہر املی اور آم کے سالخوردہ درخت کے نیچے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر نقل نویس اور اسٹامپ وینڈر بیٹھے ہوئے تھے۔
اس پورے علاقے میں حتی کہ عمارت سے متصل چھوٹی بڑی سڑکوں اور گلیوں میں بھی اس قسم کے گویا ٹھیئے بنے ہوئے تھے سیاہ کورٹ پہنے سیاہ بویا ٹائی لگائے وکلاء اور مقدمات میں پھنسے ہوئے دانستہ یا نادانستہ مجرمین کے متعلقین یہاں سے وہاں آتے جاتے رہتے۔ کافی ہاؤس کے مرکزی دروازے پر اس پرشور علاقے (جہاں پھل والوں اور مختلف کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والوں کی آوازوں میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی) کے پچھلی طرف تھا۔ یہ کافی ہاؤس نامعلوم کورٹ کی تشکیل سے پہلے کا تھا یا بعد میں بنا لیکن یہ تھا کہ دن میں تو اس میں وکلاء اور کورٹ سے متعلق لوگوں کے علاوہ اور لوگ بھی آتے جاتے رہتے لیکن شام ڈوبتے ہی یوں معلوم دیتا جیسے ستارے زمین پر اتر آئے۔ یہاں شاعروں اور ادیبوں کے علاوہ فلم لائن سے متعلق لوگ بھی آتے تھے جن میں نئے دور کی فیشن پرست خواتین بھی ہوتی تھیں کافی ہاؤس کے ہال میں موجود دیوار کے ساتھ قدیم یورپین طرز کے کیبن اور بقیہ حصہ میں میز کرسیاں تھیں زیادہ تر کرسیاں لوہے کی فولڈنگ ٹائپ اور میزوں کی سطح سفید نشان زدہ سنگ مرمر کی تھیں۔ ان کیبنوں اور میزوں میں سے بعض کی کئی کئی دن قبل بکنگ ہو جایا کرتی تھی اور اس میز پر یا کیبن میں لکڑی کی ایک چھوٹی سی تکون رکھی ہوتی جس پر نمایاں الفاظ Reserve لکھا ہوا ہوتا اور نئے آنے والے غیر وقف شدہ میزوں پر بیٹھتے بیرونی دروازے سے دائیں طرف نیم دائرے کا شیشم کا بلیک براؤن کاؤنٹر تھا جس کے پیچھے جھولنے والی کرسی پر عموماً ایک ادھیڑ عمر کلین شیو منحنی سا شخص ہوتا تھا جس کا نام ڈینئش سالم تھا جو تمام وقت کسی انگریزی کتاب کا مطالعہ کرتا رہتا اور جب کاؤنٹر پر کسٹمر واپسی کے وقت آتا تو کاؤنٹر کے پچھلے حصہ میں موجود بٹن کو ڈینئش دباتا اور چند لمحوں کیلئے کافی ہاؤس کے پرسکون ہال میں ٹرن ٹرن کی مخصوص آواز گونجتی جو اگلی مرتبہ بجنے تک کانوں میں سنسناتی رہتی جو ایسے لوگوں کیلئے تکلیف دہ ہوتی جو بیرونی پر شور دنیا سے اس کافی ہاؤس میں سرشام چند لمحے سکون سے گذارنے آتے تھے۔ تاکہ تمام دن کی کوفت کو کافی کی چسکیوں میں بھلا سکیں۔ کافی ہاؤس ہال کے تقریباً 1/4حصہ میں اونچی چھت سے لگی ایک گیلری بھی تھی جس میں میز کرسیاں رکھی تھیں یہ کافی ہاؤس نہ تو وی آئی پی تھا کہ عام لوگ اس میں نہ آ سکیں اور نہ ہی تھرڈ کلاس تھا کہ وہاں اوباش قسم کے لوگ آزادی سے آ سکیں۔ تقریباً چھ سال تک دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک، معذور کرنے اور تباہی پھیلانے کے بعد جنگ عظیم دوم جاپان کے دو ہنستے بستے شہروں کی تباہی اور نازیوں کے شکست تسلیم کر لینے کے بعد ختم ہو چکی تھی۔ بظاہر ہندوستان براہ راست شریک نہ ہونے کی وجہ سے اس عظیم تباہی سے محفوظ رہ گیا تھا۔ لیکن عالمی کساد بازاری اس کے باوجود ہندوستان کے طول و ارض میں پھیل گئی تھی کہ بالواسطہ یہ بھی عالمی جنگ میں شریک رہا تھا۔ ہر طرف بیروزگاری اور مہنگائی کا دور دورہ تھا۔ غریب تو غربت کا شکار تھے لیکن جن کے پاس پیسہ تھا وہ بھی بازار سے روزمرہ استعمال کی اشیاء دستیاب نہ ہونے سے پریشان تھے۔ کافی ہاؤس کی ریزرو میزوں اور کیبنوں میں پائپ اور سگار سے نکلنے والے دھویں کے مرغولوں کے درمیان کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے لوگوں میں اسرار الحق مجاز، علی سردار جعفری، معین احسن جذبی اور سجاد ظہیر کے علاوہ کرشن چندر ساحر لدھیانوی اور ڈاکٹر تاثیر بھی ہوتے اور گفتگو کا موضوع زیادہ تر ترقی پسند تحریک ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شام میں اپنے ایک غیر معروف دوست جو پرانی فلموں کے اداکار شیخ مختار کا بھانجہ تھا امجد کے ساتھ کافی ہاؤس میں پہنچا اور سلام دعا کے بعد منیجر ڈینئش سالم کو وہ کارڈ دکھایا جو ریزرو افراد کیلئے لانا لازمی ہوتا تھا۔ اس نے کارڈ کو بغور دیکھا اور اومین (O'MAN) کہہ کر حسب عادت ایک ویٹر کو بلایا اور اس سے بولا، صاحب کو سات نمبر کیبن میں لے جاؤ کیبن تمام ایک جیسے تھے ان پر نمبر نہیں تھے نمبروں کے بارے میں ویٹروں کو علم ہوتا تھا۔ کیونکہ وہاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے زیر زمین لوگ بھی آتے تھے جن سے ڈینئش کی گہری دوستی تھی اسی لئے کیبنوں پر نمبر نہیں ہوتے تھے ہر کیبن میں چار کرسیاں اور ایک ٹیبل ہوتی تھی۔ میں جب وہاں پہنچا تو وہاں ڈاکٹر کوشلیا اور گوبند دونوں موجود تھے۔
ڈاکٹر گوبند کا پورا نام ارسلا جیسمین گوبند تھا وہ عیسائیوں کے اعلیٰ طبقہ کیتھولک سے تعلق رکھتا تھا۔ جبکہ ڈاکٹر کوشلیا برہمن تھی اور ایک پنڈت کی بیٹی تھی۔ ڈاکٹر کوشلیا اور گوبند دونوں کا وائی ایم سی اے سے تعلق تھا جو بظاہر عیسائیوں یا اینگلو انڈین نوجوانوں کا کلب تھا لیکن وہاں ہندو سکھ پارسی اور مسلمان بھی تعلقات کی بنا پر تقریبات میں آیا جایا کرتے تھے دونوں سے مل کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس افرا تفری کے دور میں اچھے دوست بچھڑ گئے تھے میں نے بتایا آج انجمن ترقی پسند مصنفین کی خاص میٹنگ ہے جس میں خبر ہے کہ مجاز اپنی ایک نئی نظم شائد اعتراف سنائیں گے۔ ڈاکٹر کوشلیا چھریرے بدن کی سانولی سلونی گہرے گہرے نقوش والی ایک خوبصورت خاتون تھیں جنہوں نے شکیسپیئر پر ڈاکٹریٹ کیا ہوا تھا جبکہ گوبند لکھؤ یونیورسٹی میں لیکچرار تھے۔
میری بات سن کر دونوں مسکرائے اور سگار کی راکھ جھاڑتے ہوئے گوبند آہستہ سے ہنس کر بولے مجاز کو میں دیکھ رہا ہوں ان کی صحت اور مدہوشی (کثرت مئے نوشی) سے قطع نظر مستقبل میں ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے۔ ڈاکٹر کوشلیا نے گوبند کی تائید کی اتنے میں ویٹر نے امجد اور میرے لئے پہلے سے دیئے آرڈر پر کافی کے مگ لا کر رکھے اور بولا کہ آپ لوگوں کو گیلری میں اوپر بلایا گیا ہے کچھ دیر ہم چاروں باتیں کرتے رہے اور پھر اٹھ کر کافی ہاؤس ہال کی بائیں طرف بنی چوبی سیڑھیوں سے گیلری میں پہنچے جہاں کانفرنس کی تیاری ہو رہی تھی۔ اس رات ترقی پسند ادب پرسیر حاصل بحث مباحثے کے دوران مجاز نے اپنی نظم اعتراف پڑھی جس کو بے حد پسند کیا گیا مجاز کی حالت بہتر نہ تھی یا تو زیادہ پیئے ہوئے تھے یا پھر تاڑی اور کچی شراب کے زیادہ استعمال سے جو ان کو سانس کا عارضہ ہو گیا تھا اس کی وجہ سے ان سے گفتگو میں اور اشعار پڑھنے میں بھی بے حد دشواری ہو رہی تھی۔ وہ حسب سابق لکھنوی ٹائپ ویل کے کرتے اور چوڑے پائچے کے پاجامے پر سیاہ شیروانی پہنے تھے کافی دن بعد انکا حلیہ بہتر نظر آ رہا تھا ورنہ وہ ہمیشہ اجڑے اجڑے بڑے بڑے سر کے بکھرے بالوں کے ساتھ نظر آتے تھے آج سلیقے سے بال جمے ہوئے تھے لیکن شیروانی کے تمام بٹن کھلے ہوئے تھے یہ حلیہ یقیناً شمیم نے ان کا ٹھیک کیا ہوگا کیونکہ ایک وہی ان کا زیادہ خیال رکھتی تھی کالج کی پرانی رفاقت کی وجہ سے ورنہ ایک بوڑھی ماں تھی جن کی باتوں کو سن کر مجاز ٹال جاتے تھے۔
شمیم نے انجمن ترقی پسند مصنفیں کی کانفرنس کا معلوم ہونے پر مجاز کو کسی سے ڈھونڈوا کر جن کا زیادہ وقت ایک مخصوص تاڑی خانے کی چھت پر اپنے نام نہاد دوست نما دشمنوں کے ساتھ گذرتا تھا بلا کر حلیہ درست کر دیا ہوگا مجاز کا بظاہر حلیہ درست ہونے کے باوجود کرتے کے دامن کا ایک کونہ نیفے میں پھنسا ہوا تھا اور ازاربند لٹک رہا تھا وہ ایک ہاتھ سے اسٹینڈ میں کسے ہوئے مائیک کا آہنی راڈ پکڑتے اور جھومتے ہوئے ایک مصرعہ اپنے مخصوص پرجوش انداز میں پڑھتے پھر ایک لمبی سانس لیتے مجاز اگرچہ کے بے حد بزلہ سنج تمسخرانہ مزاج رکھتے تھے لیکن حساس بھی بہت تھے ان کو کسی کا ٹوکنا بالکل پسند نہ تھا اسی لئے شاید کسی نے دامن درست کرنے یا شیروانی کے بٹن لگانے کی طرف اشارہ نہ کیا۔ کانفرنس ختم ہونے کے بعد ایک تانگے میں مجاز کو ایک آدمی کے ساتھ ان کے گھر بھیج دیا گیا کہ تنہا جانا ان کے نہ بس میں تھا اور نہ ان کے لئے بہتر تھا وہ چلتے چلتے مدہوشی میں کسی سڑک کے کنارے لکھنؤ کی کسی سنسان گلی کے گٹر میں گر جاتے اور ساری رات وہیں مدہوش پڑے رہتے حتی کہ لکھنؤ کی سردیوں کی سخت ترین سرد رات ان کو ٹھڑا کر ہلاک کرد یتی۔ ڈاکٹر کوشلیا نے ایک دعوت نامہ دکھاتے ہوئے مجھ سے وائی ایم سی اے کلب چلنے کی خواہش کا اظہار کیا میں نے پہلے تو منع کیا مگر جب گوبند نے بھی اصرار کیا تو امجد سے میں نے پوچھا کیا خیال ہے چلیں امجد نے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ اس کو ضروری کام ہے اور ہاتھ ملا کر چلا گیا ڈاکٹر کوشلیا سے میرے کالج اور یونیورسٹی کے زمانے سے مراسم تھے ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے تھے لیکن چھ برس ساتھ رہنے کے باوجود کبھی کھل کر اظہار نہ کیا پھر کوشلیا جرمنی چلی گئیں اور میں اپنی دنیا میں مصروف ہو گیا۔ واپس آنے کے بعد بطور انگلش پروفیسر کوشلیا نے یونیورسٹی جوائن کر لی اب یہ کہ کبھی کبھی ملاقات ہو جاتی تو بیتے دنوں کی یاد تازہ ہو جاتی۔ ہم دونوں کے درمیان اگرچہ عہد و پیمان نہ ہوئے تھے لیکن نامعلوم کیوں نہ کوشلیا نے اب تک شادی کی تھی اور نہ میں نے۔
اس رات جب ایک ہی تانگے پر کوشلیا میرے ساتھ بیٹھی تو گوبند آگے کو چوان کے ساتھ بیٹھ گئے نامعلوم گوبند کو میرا کوشلیا کے ساتھ اور خود آگے کوچوان کے ساتھ بیٹھنا ناگوار ہوا یا نہیں بظاہر پتہ نہ چلا ڈاکٹر گوبند کوشلیا کے کولیگ تھے اور لکھنؤ میڈیکل یونیورسٹی میں طب پڑھاتے تھے کوشلیا نے کبھی بتایا نہیں اور نہ کبھی میں نے پوچھا کہ گوبند سے ان کے کیسے مراسم ہیں کبھی گوبند کی کسی بات سے بھی اندازہ نہ ہوا۔ بہر حال اس رات جب ہمارا تانگہ امین آباد سے قبل ایک چوراہے پر پہنچا تو ایک ہجوم سا دیکھا معلوم ہوا خاکسار تحریک کا جلوس برآمد ہونے والا ہے۔ خاکی رنگ کی ہاف پینٹ خاکی قمیض فل بوٹ پہنے ہاتھ میں خاکسار تحریک کا پرچم اور بیلچہ اٹھائے لوگ نعرے لگا رہے تھے اتنے میں ایک گلی سے (شاید کسی مخالفین کے طے شدہ پروگرام کے تحت) ایک بڑا سا پگڑ باندھے بڑی بڑی خوفناک موچھوں اور بے ترتیب داڑھی والا ایک سکھ کر پان لئے ہوئے نکلا اور جلوس کے سب سے آگے کھڑے ہوئے نوجوان کے پاؤں پر ایک دم تلوار ماری گاجر کی طرح اس نوجوان کا پاؤں کٹ گیا خون کا فوارہ اور نوجوان کی چیخ ایک ساتھ بلند ہوئی ایک ہی وقت میں گرتے ہوئے نوجوان کو تھامنے اور خون آلود لہراتی ہوئی کرپان لئے ست سری اکال کا نعرہ لگاتے دوڑتے ہوئے سکھ کو پکڑنے لوگ دوڑے ایک دم افراتفری مچ گئی اور دیکھتے دیکھتے فساد شروع ہو گیا جو فضاء ذرا دیر پہلے پر سکون تھی سڑک پہ چلتے ہوئے معمولی ٹریفک کسی کسی وقت ہارن یا سائیکل کی گھنٹی کی آواز آ رہی تھی چند منٹ میں مسلمانوں سکھوں اور ہندوؤں کے نعروں سے لوگوں کی چیخوں اور بندوق کی تڑتڑاہٹ سے گونجنے لگی۔ تانگے والے نے بمشکل تانگے کو روکا کیونکہ شور سن کر گھوڑے کے بدکنے کا بھی خدشہ تھا ایک قدرے تاریک گلی میں اس نے تانگے کو موڑا اور ہم لوگوں سے بولا آپ لوگ اپنی جانیں بچائیں میں نے تیزی سے اترتے ہوئے کوشلیا کو اترنے میں مدد دی اتفاقیہ طور پر قریب ہی میرے ایک دوست ہری چند کا مکان تھا میں نے تیزی سے دروازہ کھٹکھٹایا جب وہ باہر آیا تو میں نے صورت حال بتائی اس نے ہم لوگوں کو اندر آنے کا اشارہ کیا لیکن نامعلوم کیا سوچ کر ڈاکٹر گوبند نے اندر جانے سے منع کر دیا اور کوشلیا کو اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کرنے لگا اتنے میں کچھ فسادی گلی میں گھس آئے جو زیادہ تر مسلمانوں کے گھر لوٹنے اور آگ لگانے کیلئے ڈھونڈنے لگے دو چار سکھ چمکتی ہوئی کر پانے لئے اور ہندو بندوقیں اٹھائے ہماری طرف لپکے ایک سکھ نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو ایک دم ڈاکٹر گوبند ہنس کر طنزیہ بولے کمال ہے تم لوگ ان کو نہیں جانتے ارے بھائی ترقی پسند ادیب و شاعر انعام الحق ساگر ہیں اور یہ خاتون ڈاکٹر کوشلیا اور گھر ہری چند کا ہے وہ لوگ منہ پر ڈھاٹے باندھے ہوئے تھے ایک دم مجھ پر حملہ آور ہوئے اور چاہتے تھے کہ میرا کام تمام کر دیں یکایک کوشلیا بالکل میرے سامنے آ کر بولی خبردار کوئی ان کو ہاتھ نہ لگائے تم کو پہلے مجھے قتل کرنا ہوگا وہ لوگ رک گئے لیکن ایک سکھ نے کوشلیا کے سر پر تلوار مارتے ہوئے کہا چلو تو پہلے تم کو قتل کرتے ہیں کوشلیا نے ایک چیخ ماری اور گرنے لگی اس کو میں نے بڑھ کے تیزی سے سنبھالا اتنے میں ہری چند جھپٹا اور تیزی سے ایک ہندو سے بندوق چھین لی اور ان کی طرف تان کر دھاڑا خبردار میں بھی ہندو ہوں لیکن یہ دونوں میرے مہمان ہیں اگر تم لوگ باز نہ آئے تو میں تم سب کو بھون دوں گا۔
اب نامعلوم وہ لوگ ہری چند کے واقف کار تھے یا کیا تھا ایک دم وہ بولے چلو آگے دیکھتے ہیں یہ سب میری امید کے برخلاف تھا ورنہ ذرا دیر کو تو مجھے یہی لگا کہ مسلحہ سکھ اور ہندو شاید ہری چند کو بھی ہلاک کر دینگے اور بعد میں میرا نمبر تو یقینی تھا کوشلیا میری بانہوں میں بیہوش ہو چکی تھی اگرچہ تلوار کا وار صحیح نہیں پڑا تھا اس کے باوجود میرے اور کوشلیا کے کپڑے خون میں تر ہو گئے تھے ورنہ تو سر کے دو ہو جاتے اس رات ہری چند نے واقعی دوستی نبھائی ایک پرائیویٹ ڈاکٹر سے کوشلیا کی پٹی کروا کے ہمیں محفوظ مقام پر پہنچایا اس کے بعد ہسپتال میں جب تک کوشلیا رہی ہری چند اور میں برابر دیکھ بھال کرتے رہے۔ لیکن ڈاکٹر گوبند ایک بار بھی دیکھنے نہ آیا میں کوشلیا کی بہادری اور محبت کے بے ساختہ اظہار سے بہت متاثر تھا۔ صحتیاب ہونے کے بعد جب پہلی بار کوشلیا یونیورسٹی پہنچی تو ڈاکٹر گوبند ان کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ کے خوشدلی سے بولا ڈاکٹر کوشلیا دوبارہ زندگی اور صحت مبارک ہو کوشلیا کے دل میں اس کے خلاف بہت کچھ تھا مگر وہ متانت سے بولی ڈاکٹر گوبند جب دلوں میں بغض ہو تو بہتر ہے کہ دور کی سلام دعا ہو اور آہستہ سے کہا اگرچہ کہ وہ بھی ضروری نہیں یہ سن کر گوبند کا چہرا ایک دم سرخ ہو گیا اور وہ ایک عام ان پڑھ ہندو کی طرح طنزیہ بولا تم ایک مُسلے کیلئے اپنے کولیگ کی دوستی ختم کر رہی ہو کوشلیا مسکرائی طنز سے بولی وہ کولیگ جس نے مصیبت کے وقت دشمن کا ساتھ دیا جو ایک بار بھی مجھے دیکھنے نہ آیا کہ میں زندہ ہوں یا مر گئی اس کے بعد وہ رکی نہیں اور اپنا پیرئیڈ لینے چلی گئیں۔
اس کے بعد ملک میں ہی نہیں زندگی میں بھی بہت تبدیلیاں آئیں تقسیم ہند نے صدیوں سے ساتھ رہنے والوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا لاکھوں انسان قتل کر دیئے گئے گھروں کو لوٹ کر آگ لگا دی گئی۔ لاکھوں افراد کو قافلوں کی صورت میں پاکستان جاتے ہوئے لوٹ کر قتل کر دیا گیا۔ اس سب کے ساتھ میرے والد صاحب جو بڑے بھائی کے ساتھ مل کر پریس چلا رہے تھے ان کے مشرقی پاکستان چلے جانے سے بددل ہو گئے اور پاکستان جانے کی تیاری کرنے لگے پاکستان آنے سے قبل میں تمام ترقی پسند تحریک کے ساتھیوں سے ملا سب نے مجھے روکا مگر میں نے بتایا میں والدین کے بغیر لکھنؤ میں اکیلے نہیں رہ سکتا۔ اس دوران لکھنؤ کافی ہاؤس میں میں اور کوشلیا کئی دفعہ ملے دنیا بھر کی باتیں کرتے رہے لیکن ایک دوسرے کا ہمیشہ ساتھ دینے کی نہ کوئی قسم کھائی نہ شادی کا خوبصورت وعدہ کیا۔
ایک رات جبکہ تین دن بعد بذریعہ تیسری اسپیشل ٹرین میرے والدین کی روانگی تھی۔ میں لکھنؤ کافی ہاؤس پہنچا امید کے مطابق کوشلیا میر ی پسندیدہ سفید ساری میں موجود تھی ویٹر کو کافی کا آرڈر دینے کے بعد میں اسی مخصوص کیبن میں کوشلیا کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا آج میرا دل بے حد اداس تھا پرانے دوستوں اور ان گلی کوچوں سے بچھڑنے کا خیال ستا رہا تھا جہاں کوشلیا کے ساتھ ایک عرصہ گذرا تھا اور جوانی کے خوبصورت دن بتائے تھے کالج اور یونیورسٹی یاد آ رہے تھے جہاں کوشلیا کے ساتھ ایک عرصہ گذرا تھا اور ہماری خاموش محبت پروان چڑھی تھی۔ جہاں ہم نے اندیکھی منزلوں اور انجانے راستوں کے خواب دیکھے تھے۔ کوشلیا سے کافی دن قبل میں نے بتایا تھا کہ میرے والدین نے پاکستان جانے کا ارادہ کر لیا ہے کوشلیا نے پریشان ہو کر اتنا پوچھا تھا تم بھی چلے جاؤ گے میں Clear بات کرکے کوشلیا کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا اس لئے میں نے کہا معلوم نہیں۔ میں دیر تک چپ رہا اور سوچتا رہا کیسے بتاؤں کہ جس کو دیکھ کر جس سے مل کر باتیں کر کے ساتھ رہ کر دل کو سکون ملتا ہے وہ ہمیشہ کیلئے جدا ہو رہا ہے کچھ سوچ کر میں نے کوشلیا سے کہا میں پرسوں پاکستان چلا جاؤں گا کیا تم میرے ساتھ چل سکتی ہو۔ کوشلیا کچھ دیر چپ رہی پھر آہستہ سے بولی نہ میں اپنا وطن چھوڑ سکتی ہوں اور نہ اپنا مذہب لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تمہارے بعد میری زندگی میں کوئی دوسرا نہیں آئے گا پھر دیر تک سسکیاں لے کر روتی رہی۔ میرے پاس الفاظ ختم ہو چکے تھے کافی دیر بعد لکھنؤ کافی ہاؤس سے ہم نکلے تو دور سے انسانی چیخوں بموں کے دھماکوں اور آگ بجھانے والی گاڑیوں کی خوفناک گھنٹیوں کی آوازیں فضاء کو دہشت ناک بنا رہی تھیں یہ علاقہ کیونکہ سول لائن اور فوجی تھا اس لئے یہاں محدود طور پر سکون تھا۔ میں نے گہرے سیاہ بادلوں میں چھپتے ہوئے زرد چاند کو دیکھا۔ میں نے خدا حافظ یوں نہ کہا کہ اس نے میری امید کے برخلاف مسلمان ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ کوشلیا نے کانگریسیوں کی طرح جے ہند کہا اور اپنی سیاہ مورس میں بیٹھ کر چلی گئی مڑ کر بھی نہ دیکھا اور میں سر جھکا کر گھر چلا آیا اس کے ایک ہفتہ بعد میں پاکستان پہنچ گیا تیسری اسپیشل ٹرین صحیح سلامت اپنی منزل پر پہنچ گئی تھی۔
پاکستان آنے کے بعد کچھ عرصہ شمیم جو میری بھی اچھی دوست تھی سے خط و کتاب جاری رہی پھر نامعلوم کیوں یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ میں ملازمت کی مصروفیات اور حالات کی وجہ سے خواہش کے باوجود بھارت نہ جا سکا اکثر جب لکھنؤ یاد آتا تو لکھنؤ یونیورسٹی اور کافی ہاؤس یاد آتا کوشلیا کی اور اسکی والہانہ محبت یاد آتی دل میں کسک سی اٹھتی مگر پھر مصروفیات میں بھول بھال جاتا۔ کئی سال گذر گئے میں نے سوچا گھر والوں کے اصرار پر کوشلیا نے کسی سے شادی کر لی ہوگی اور وہ اپنے گھر میں آباد ہوگی پتہ نہیں مجھے یاد بھی کرتی ہوگی یا نہیں شمیم سے خط و کتابت تھی مگر بہت کم پھر ۱۹۵۵ء میں شمیم کا کوشلیا سے بچھڑنے کے سات سال بعد آخری خط آیا جس سے دو اہم خبریں ملیں ایک یہ کہ مجاز پاگل ہونے کے بعد انتقال کر گئے اور دوم یہ کہ کوشلیا چیچک کے موزی مرض میں مبتلا ہو کر زندگی ہار گئی اور شمیم نے یہ بھی لکھا تھا اس نے تمہارے انتظار میں شادی بھی نہیں کی اس کو یقین تھا تم ایک دن ضرور واپس آؤگے۔ میں خط کا مطالعہ کر ہی رہا تھا کہ میرے دوسرے بچے کو گود میں لئے میری بیوی کمرے میں داخل ہوئی مجھے خط پڑھتا دیکھ کر پوچھا کس کا خط ہے میں نے خط خاموشی سے اس کو تھما دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.