Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماتن کی کہانی

تکشی شو شنکر پلے

ماتن کی کہانی

تکشی شو شنکر پلے

MORE BYتکشی شو شنکر پلے

    ’’ماں۔۔۔ پتاجی آج بھی نہیں آئیں گے؟‘‘

    دعاکے درمیان تریسا نے ماں سے پوچھا۔

    دعا کے وقت بھی ماریا کا دھیان گھاٹ پر ناؤ کی آواز پر تھا۔ اس نے کہا:

    ’’آئیں گے بیٹی۔۔۔ آج ہی آئیں گے۔‘‘

    پھر ماریا نے اس دن کے لیے دعا کی۔ جو کھانا مل چکا تھا اس پر خدا کا شکر ادا کیا۔ تریسانے بھی ماں کے ساتھ دعا کو دوہرایا، اس کے ہاتھ پھیلے ہوئے تھے۔ سر ایک طرف کو جھک گیا تھا۔ پھر ایک طرف ڈھلک گیا تھا۔ آدھ کھلے ہونٹوں اور نیم باز آنکھوں سے اس نے نیزوں پر لٹکتا ہوا یسوع کا چہرہ بڑے غور سے دیکھا۔ بجھتے ہوئے چراغ کی مدھم روشنی میں اسے یسوع مسیح کا چہرہ ہلتا ہوا محسوس ہوا۔ خدا کچھ کہنا چاہتا ہے۔ یسوع ہماری مدد کیجئے۔‘‘

    پھر وہی دعا۔۔۔ تریسا نے کچھ بھی نہیں کیا۔

    پاس بیٹھی ہوئی روسا بڑبرانے لگی۔ تریسانے پھر پوچھا:’’پتاجی نہیں آئے تو ہم کھانا کیسے کھائیں گے؟‘‘

    ماں نے کہا۔۔۔ ’’آئیں گے بیٹی۔‘‘

    چراغ بجھنے والاہے۔ ماریا نے چراغ اٹھاکر ایک بار ہلایا۔ رات اور گہری ہوتی گئی۔۔۔ پانی برسنے لگا۔ ہوا چلنے لگی۔

    انہوں نے چپ چاپ دعاکی۔ ان کی دعا ابھی قبول نہیں ہوئی ہے۔ چار پانچ فٹ گہرے گڑھوں اور ندی کے بہاؤ کو روک کر گھر آنا ہے۔ ایسے پہاڑ کی تلہٹی تک وہ گئے ہیں کہ یہ بھی نہیں دیکھ سکتے کہ جھیل کی حدکہاں ختم ہوتی ہے۔ وہاں ایک بھی انسان مدد کے لیے نہیں ہے۔ ندی میں گہرے بھنور بھی ہیں۔۔۔ ہوا میں لٹکا بانس کا ٹکڑا ٹوٹ جائے تو۔۔۔؟ وہ یسوع کے پیروں سے لپٹ گئی۔۔۔ اس کے دو لڑکیاں ہیں۔

    تریسانے پھر پوچھا،

    ’’پتاجی جانے اس برسات میں کہا ں ہوں گے۔۔۔ کہیں بھیگنے سے بخار نہ آ جائے انہیں۔‘‘

    ماریانے آنکھیں کھولیں۔۔۔ اس میں بھی و ہ کمی ہے۔۔۔ اب چراغ بجھ جائےگا۔۔۔ گھاٹ پر ناؤ کی آواز سننے کی آس میں دونوں ماں بیٹی نے باہر کی طرف دیکھا۔۔۔ مگر گہرے اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دیا۔

    ’’ماں۔۔۔ پتاجی۔۔۔!‘‘

    ’’بیٹی تریسا۔۔۔! باہر کوئی پکارتا ہے۔‘‘

    ’’ذرا چراغ تو دکھاؤ بیٹی۔۔۔‘‘

    ’’چراغ بجھ گیا ہے پتاجی۔۔۔‘‘

    تریسا نے دوبارہ چراغ جلایا اور برآمدے میں آئی مگر وہ پھر بجھ گیا۔

    ماتن برآمدے میں آیا۔ ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اور ایک بڑی سی پوٹلی بھی۔

    ’’ذرا چراغ دکھانا بیٹی۔‘‘

    ’’آگ نہیں ہے پتاجی۔‘‘

    تریسا پتاجی کے گلے لگنے کے لیے اندھیرے میں انہیں ٹٹول رہی تھی۔ مگر اسے پتاجی نہیں مل رہے تھے۔ روسا بھی اٹھ گئی۔ اس نے پتاجی کو پکارا۔ انہیں پکڑنے کی کوشش میں روسا کا سر تریسا کے ہونٹوں سے جا ٹکرایا۔ ’’انگیٹھی میں بھی آگ نہیں ہے کیا۔۔۔؟‘‘ ماتن نے پوچھا۔

    ’’آج گھر میں آگ نہیں جلائی۔‘‘ ماتن کو غصہ آنے لگا۔

    ’’آج انگیٹھی بھی نہیں جلائی۔‘‘

    ’’آج میرے بچوں نے کچھ بھی نہیں کھایا۔ تم نے انہیں کچھ بھی نہیں دیا۔‘‘

    ماتن بھیگا ہوا تھا۔ پہلے روسا نے اسے پکڑا۔ اس نے روسا کو گود میں اٹھا لیا۔

    ’’انہیں سویرے اور شام کو کچھ دے دیا تھا۔ رات کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘ ماریا نے کہا۔

    ’’پڑوس سے بھی بچوں کو بہت کچھ مل گیا۔ مگر آج کوئی کام نہیں ہو سکا۔ کیونکہ سویرے سے پانی برس رہا ہے۔‘‘

    ’’تب تونے بھی کچھ نہیں کھایا ہوگا؟‘‘ ماتن نے بیوی سے پوچھا۔

    ’’نہیں۔‘‘

    بچی کو نیچے بٹھاکر آگ لینے گیا۔۔۔ اس دن آدھی رات کو ان کے ہاں روشنی بجھی۔۔۔ مگر اس کے بعد بھی وہ نہیں سوئے۔ میاں بیوی باتیں کرتے رہے۔

    شوہر نے کہا۔۔۔ ’’تین روپے دیے۔ اس کے بعد موٹر میں چڑھ کر وہ ایرنا کو تم چلے گئے۔‘‘

    ’’پھر یہ چار آنے۔۔۔؟‘‘

    ’’ہوٹل میں کافی پینے کو دیے تھے۔ دلیا نہیں تھا، اس لیے میں نے کافی نہیں پی۔‘‘

    ’’چاول کہاں سے۔۔۔؟‘‘

    ’’راستے کے خرچ میں میں نے بچائے ہیں۔‘‘

    ’’کتنے ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’دوپاؤ۔۔۔‘‘

    اب ماریا نے ماتن کے جانے کے بعد کی ساری روداد کہہ سنائی۔ ’’دو دن پتے بنانے مٹکاٹ گئی۔ نو آنے ملے۔۔۔ ایک دن ترپورن میں چاول صاف کیے۔ ایک دن چار ناریل بیچے۔ مگر آج بارش کی وجہ سے باہر ہی نہیں نکل سکی۔ لیکن میں نے بچوں کو بھوکا نہیں رکھا۔‘‘

    ’’مگر خود بھوکی رہی۔؟‘‘

    پھر خاموشی چھا گئی۔ مگر یہ بالکل خاموشی نہیں تھی بلکہ فکر کا احساس تھا۔ اس سکوت سے کسی بھی وقت کوئی آواز بلند ہو سکتی تھی۔

    ’’اب کتنا ہوگا۔۔۔؟‘‘

    ’’چودہ۔۔۔‘‘

    ’’کیا یہ سب پیسے دینے جا رہے ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں توا ور کیا۔۔۔ ایک برس میں اتنا ہی ہو سکا۔ اس کی عمر آٹھ برس کی ہو گئی ہے؟ پانچ سات سال اور باقی ہیں۔‘‘ کچھ دیر چپ رہنے کے بعد ماتن نے کہا:’’دس پیسے زیادہ دے دیں گے تو اتنا ہی اچھا رہےگا کیونکہ اس کی وجہ سے اچھا لڑکا مل سکےگا۔ ہاں بس یہ ہے کہ ہمیں تھوڑی سی تکلیف ضرور اٹھانا پڑےگی۔‘‘

    ماریا سہم گئی۔ مستقبل کے بارے میں سوچتے سوچتے وہ دونوں نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔۔۔ وہ دونوں خواب دیکھ رہے تھے۔۔۔ بیٹی کی شادی۔۔ اس کا گھر۔۔۔

    صبح ہی صبح ماتن ارچرا پہنچ گیا۔ تب تک چاکو سے ملنے وہاں چارپانچ لوگ آ چکے تھے۔

    چاکو اس گاؤں کے دولت مند آدمی ہیں۔ ان کے پاس بہت سی زمین اور کھیت ہیں۔ ان کی دولت مندی کی بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ ان میں غرور ہے نہ نفرت۔ وہ ہمیشہ بڑے نرم لہجے میں بات کرتے ہیں۔ کسی سے نفرت کا اظہار کرنے والا ایک بھی لفظ ان کے منہ سے کبھی نہیں نکلا۔ مذہب پرستی کے بارے میں کہیے تو وہ ہر اتوار کو گرجاگھر جاتے ہیں۔ خدا کو بھلاکر کچھ نہیں کرتے۔ چند دن پہلے ہی انہوں نے گرجاگھر کے لیے ایک ہزار روپے چندہ دیا تھا۔ چاکو نے نیند سے چھٹکارا پاکر ماتن کو دیکھا۔ ’’کب آئے ماتن۔۔۔؟‘‘

    ’’کل رات۔۔۔‘‘

    ماتن کو چاکو سے اکیلے میں باتیں کرنی ہیں مگر وہاں چار، چھے آدمی بیٹھے ہیں۔ لوگ ان سے ملنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ماتن کو تکلیف ہوئی۔ اتنی دیر میں چاکو چن کی کی بیٹی نے کافی پلانے کے لیے بلایا۔ سب آدمیوں کووہیں بیٹھا چھوڑکر چاکو چن کافی پینے اندر گیا۔ ساتھ میں ماتن بھی تھا۔ تھوڑی دیر بعدماتن لوٹ آیا۔ اس کا چہرہ ایک بڑی خوشی کی بات سے کھلا ہوا تھا۔ اس نے تین روپے چاکو کو سونپ دیے تھے۔ اس طرح اس نے تریسا کی شادی کے لیے چودہ روپے اکسٹھ پیسے جمع کرکے بڑا اطمینان حاصل کیا تھا۔ چاکو کی بیوی نے متاچن کو کچھ لکڑیاں کٹوانے کے لیے بلایا۔ لکڑیاں کاٹنے کے بعد چاکو نے کچھ اپنے کام کے لیے بلا لیا۔

    کھیتوں میں ہل جوتا جا رہا ہے۔ چاکو وہاں جاتا ہے، ناؤ کھینے کا کام ماتن کرتا ہے۔

    ناؤ چلاتے وقت ماتن نے چاکو کی شہرت کے بارے میں باتیں کہیں کہ چاکو کو تو سارا ضلع جانتا ہے۔

    ماتن نے چاکو کی بیٹی کے لیے ایک لڑکا بھی دیکھ لیا ہے۔ بڑے دولت مند گھر کا ہے۔ باغ بھی ہے۔ ’’سوچوں گا۔‘‘ چاکو نے کہا۔

    کھیتوں میں آنے کے بعد گایوں کو چارہ دینے کا کام ماتن کود ے دیا گیا۔ اسے پورا کرنے کے بعد اس نے ناریل کے پتے ٹھیک کیے۔ بعدمیں چاول لینا تھے۔ اسی طرح کے بہت سے کاموں میں شام ہو گئی۔

    ماتن اتنا تھک گیاکہ اس سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا۔ چولہے کے پاس جاکر ماتن نے گرم پانی مانگا۔ چولہے پر چاول ابل رہے تھے۔ پانی ابھی گرم نہیں ہوا تھا۔ اتنی دیر میں چاکو بھی وہاں آ گیا۔

    ’’ارے اب کیا پانی پینے کا وقت ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’کچھ نہیں ذرا تھکن سی۔۔۔‘‘ متاچن نے بڑی اداسی سے کہا۔

    ’’دوپہر کو تو خوب ڈٹ کر کھایا ہوگا۔۔۔؟‘‘

    ’’کچھ نہیں کھایا۔‘‘

    ’’کیوں۔۔۔؟‘‘

    ’’گھر میں کچھ نہیں تھا۔‘‘

    ’’اچھا ذرا ان مزدوروں کو مزدوری تو دیدو۔‘‘

    مزدوری بانٹتے بانٹتے بالکل ہی شام ہو گئی۔

    چاکو کی عبادت کا وقت تھا۔ ماتن کا جسم تھکن کے مارے سیدھا نہیں ہو رہا تھا اس کا جی بےقرار تھا مگر پھر بھی وہ سر کھجاتے ہوئے چاکو کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔

    ’’کیوں تجھے عبادت کے لیے نہیں جانا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’کچھ دھان۔۔۔‘‘

    ’’چاول۔۔۔؟ کس کے لیے۔۔۔؟‘‘

    ’’بچوں کے لیے۔ گھر میں کچھ نہیں ہے۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ میں ذرا عبادت کر آؤں۔‘‘

    ماتن نے سوچامجھے چھ سیر دھان مانگنا چاہئے۔ چار سیر مزدور ی کے اور دو سیر آج کے کھانے کے۔

    ۲

    ابھی کسی کو پالے پہنچانے کے لیے ماتن کو جانا ہے۔ مگراب اس میں بالکل طاقت نہیں رہی ہے۔ ماتن لوگوں سے کہتا کہ مجھے کام پر بلا لو۔ مگر لوگوں کایہی خیال تھا کہ وہ کام نہیں کر سکتا۔ اس لیے جب کام کے لیے کوئی نہیں ملتا تو لوگ اسے بلالیتے تھے۔ اسے کچھ بھی دے دینا سب کو بہت زیادہ لگتا تھا۔ پھر بھی وہ حساب لگاتا رہتا ہے۔ چاکو کے گھر میں کرنے کے لیے بہت سے چھوٹے چھوٹے کام تھے۔ ماتن کے لیے۔ اس لیے جب کہیں کام نہیں ملتا ہے تو وہ چاکو کے ہاں چلا جاتا ہے۔ سب کام پورے کرکے چار سیر دھان مانگ لیتا ہے۔ اس طرح دن گزر رہے ہیں۔ مگر ایسے دن گزارنے سے کیا فائدہ۔۔۔؟ کپڑے بنانا ہیں۔۔۔ تیل بالوں میں لگانا ہے۔ گرجاگھر میں چندہ دینا ہے۔ لڑکیوں کو پڑھانا ہے۔ یہ سب کام چاکوچن کی مدد سے چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جب چاکوچن کے ہاں کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو اس کی تیمارداری کے لیے بھی ماتن ہی کو مقرر کیا جاتا ہے۔ وہ نہ ہوتا تو ہم کیا کرتے؟

    ’’میں بھی یہی سوچتا ہوں۔‘‘

    ’’ہاں؟۔۔۔ کیا کرتے۔۔۔؟‘‘

    چاکوچن ان کی مدد کرنے والا دیوتا بن گیا ہے۔ کتنا ہمدرد ہے وہ۔۔۔ کتنا عبادت گزار ہے۔

    اس بچارے کا صرف ایک خواب تھا کہ اپنی بیٹی کی زندگی سنوار سکے اور ساری زندگی کی اس کشمکش کا اندازہ اس کے کام کی رفتار سے لگایا جا سکتا ہے۔۔۔

    بچے پیدا ہوئے، ہاتھ پاؤں ہلائے، گرتے پڑتے چلنے پھرنے لگے اور کسی نہ کسی طرح بڑے ہو گئے۔ چھوٹی لڑکیاں بھی اب رفتہ رفتہ بڑی ہو رہی تھیں۔ اب وہ کتاب سلیٹ لے کر اسکول جانے لگی تھیں۔ اس کے علاوہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک اوربھی حساب بڑھ رہا تھا اور وہ زندگی بھر ساتھ چلنے والا تھا۔ یہ حساب کتاب ان کے دل پر لکھا ہوا تھا اور ہر مہینے کی بدلتی ہوئی تاریخوں کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ چاکو کو ماتن کچھ نہ کچھ روز دے دیتا تھا۔ یہ رقم بڑھتے بڑھتے نوے روپے تک پہنچ گئی تھی۔

    ان کی دونوں بیٹیاں تھیں۔ فرض کا یہ احساس ان دونوں میاں بیوی کو پریشان کرتا تھا۔ وہ صرف اپنے بچو ں کے لیے ہی تو جیتے ہیں۔

    شام کو روز میاں بیوی حساب جوڑا کرتے تھے۔

    ماریا شوہر سے پوچھتی۔

    ’’کتنے روپے دینے پر اچھا لڑکا مل جائےگا؟‘‘

    ’’دس ہزار آنے اکٹھے ہو جائیں تو ایسا لڑکا مل جائےگا جس کا اپنا گھر بھی ہوگا۔‘‘

    ’’تو اتنی رقم جوڑنے میں کتنی دیر لگےگی۔‘‘ وہ پوچھتی۔

    اس طرح وہ بیٹی کے لیے روپیہ اکٹھا کر رہے تھے۔ یہ خیال ہی ان کی زندگی میں خوشیاں بکھیر دیتا تھا۔ بھوکے سونے پربھی انہیں کوئی دکھ نہ ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ جوش میں بھرے رہتے تھے۔ کیونکہ ان کی بیٹیوں کی شادی کے لیے روپیہ جمع ہو رہا تھا۔

    متاچن کا یہ جوش و خروش سارے گاؤں میں مشہور تھا۔ تریسا چھپ چھپ کر ماں باپ کی باتیں سنتی تھی۔ ہر دن ان کی دولت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ کبھی کبھی اس کے والدین کا حساب غلط بھی ہو جاتا تھا۔ چار میں تین جمع ہونے پر آٹھ ہو جاتے۔ تریسا جانتی تھی کہ اس کے جاہل والدین کا حساب غلط ہے۔ وہ چاہتی تھی یہ بات وہ کہہ دے۔ مگر یہ بات اس کے منہ سے نہیں نکل سکتی تھی۔ چھوٹی سہی مگر بہرحال وہ ایک کنواری لڑکی تھی۔۔۔!

    پھر بھی تریسا میں بلا کی خود اعتمادی اور ہمت ہے۔ اس کی حالت اتنی خراب نہیں ہے۔ مچھلی والے توما کی بیٹی نے ایک دن کہا۔۔۔ ’’ہم غریب ہیں۔‘‘

    تریسا نے کہا۔۔۔ ’’مگرہم غریب ہونے پر بھی غریب نہیں ہیں۔‘‘ بات کا مطلب سمجھے بغیر ہی چاکو کی بیٹی ہنس پڑی۔ جوش میں آکر تریسا نے اپنی بات پھر دوہرائی۔۔۔ کیونکہ وہ اس بات کا مطلب جانتی ہے۔ دوسروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئےگی۔

    ایک دن دوپہر میں تریسا اپنی سہیلیوں کے ساتھ اسکول کے سامنے کھیل رہی تھی۔ اتنے میں بینڈ کی آواز آنے لگی۔ آواز سن کروہ گھر کی جانب دوڑی۔ وہ شادی کا جلوس تھا۔

    سب براتی شادی والے گھر کی جانب جا رہے تھے۔ ماریا انہیں جانتی ہے۔ اس نے کہا وہ ہمارے پڑوسی انا (بھائی) ہیں۔ وہ لڑکا آوی چیری کا ہے۔ ودھو نے اس کو دیکھا اور ہنس پڑی۔

    تریسا نے پوچھا’’جہیز کتنا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’مجھے نہیں معلوم۔۔۔‘‘ ماریانے جواب دیا۔

    شادی کا جلوس دیکھ کر تریسا مورت کی طرح ساکت ہو گئی۔ اس کے دل میں کئی طرح کے وسوسے بیدار ہو رہے تھے۔ وہ جیسے کسی اور دنیامیں پہنچ گئی تھی۔ اسے اپنے آس پاس کا کوئی ہوش نہ تھا۔ خیالات کے ساتھ جانے اس کادل کہاں بہا جا رہا تھا۔

    سب سہیلیاں جا چکی تھیں۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد ماریا رک گئی۔ اس نے تریسا کو بلایا۔ تریسا جاگ سی گئی۔ دوڑکر سہیلیوں کے پاس آئی۔

    اس کی ایک سہیلی نے کہا:’’یہ وہاں کھڑی کھڑی اپنی شادی کا خواب دیکھ رہی تھی۔‘‘

    دوسری نے پوچھا، ’’لڑکا کہاں کا ہے ری۔۔۔؟‘‘

    تیسری نے پوچھا، ’’جہیز کتنا ہے۔۔۔؟‘‘

    تریسا کو غصہ آ گیا۔ وہ سب پر برس پڑی۔ اس پر وہ سب اور ہنسنے لگیں۔

    تریسانے کہا۔۔۔ ’’ہنستی کیوں ہو۔۔۔! ہمارے پاس بھی جہیز ہے۔ میرے ماں باپ اکٹھا کر رہے ہیں۔۔۔؟

    یہ کہہ کر وہ وہا ں سے چلی گئی۔

    کچھ برس گزر گئے۔ ماتن کا حساب بھی کافی بڑھ گیا۔ اس کے ساتھ ہی تریسا کا جسم اور اس کا دل بھی بڑھا۔ اس کی بیٹی کی ہم عمر لڑکیوں کے والدین کو پریشان دیکھ کر ماتن بہت خوش تھا۔ اس کی بیٹی کو تو بہت اچھا دولہا ملےگا۔

    جب وہ میاں بیوی حساب کرنے بیٹھتے تو تریسا کا دل اس وسیع دنیا میں کچھ ڈھونڈنے لگتا۔۔۔ کہیں ایک مرد اس کے لیے بھی بیٹھا ہوگا۔ وہ کیسا ہوگا۔۔۔؟ کیا کرتا ہوگا۔۔۔؟ ایک کرتا ٹوپی پہننے والا اس کے گلے میں منگل سوتر ڈالےگا۔ اس شخص کی تصویر وہ اپنے دل میں دیکھ رہی تھی۔ سسرال۔۔۔؟ وہ کیسا گھر ہوگا۔۔۔؟ گھر اور زمین ان ہی کی ہے۔

    وہ اسے پیار کرےگی۔۔۔ اس کی عزت کرےگی۔۔۔اس کے بدلے کیا وہ بھی اسے پیار کرےگا۔۔۔؟ اس کی عزت کرےگا۔۔۔ اس کے بدلے کیا وہ اسے اور کیا دےگا۔۔۔؟ وہ بھی ماں بنےگی۔۔۔؟

    تریسا ایسی ہی باتیں سوچا کرتی تھی۔ وہ نامعلوم مرد جب اسے سوتے سے جگائےگا تو اسے کتنی شرم آیا کرےگی!

    جانے اس کی شادی کس عمر میں ہوگی۔ اسے اپنی کئی سہیلیاں یاد آئیں جن کی شادی سولہویں سال میں ہو گئی تھی۔ وہ سترہ سال کی ہے۔ میری عمر کے بارے میں شاید پتاجی کو کچھ پتہ نہیں ہوگا۔ مگرماں تو ٹھیک ٹھیک جانتی ہے۔

    ایک دن ماریا نے ماتن سے کہا۔

    ’’ایسے بیٹھنے سے کام نہیں چلےگا۔ تریسا سترہویں سال میں آ گئی ہے۔‘‘

    ’’ایشور۔۔۔‘‘ تریسا نے ایک لمبی سانس لی۔

    ماتن نے جواب دیا۔۔۔ ’’یہ بات میرے دل میں ہے میں اسے دیکھ رہا ہوں ایک لڑکے کوہی ڈھونڈنا ہے نا؟ چار پیسے زیادہ ہو جائیں تو اچھا ہے۔‘‘ کچھ دن اور بیت گئے۔ ماتن پالے گیا۔ واپس آیا تو اس نے بتایا کہ ایک لڑکا مل گیا ہے۔ اچھا ہے، بیس برس کا ہے۔ بیڑی تک نہیں پیتا۔ اکلوتا بیٹا ہے۔ ان کے پاس ایک ایکڑ زمین ہے۔ اگلے اتوار کو لڑکی دیکھنے آئیں گے۔

    ’’کیا دینا ہے۔۔۔؟‘‘ ماں نے پوچھا۔

    ’’پانچ ہزار آنے۔‘‘

    تریسا نے سسرال کی زمین اور گھر کو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھا۔ ان کے ماں باپ بھی ہو ں گے۔ اس کے ساتھ آرام سے زندگی گزار دوں گی۔

    اگلے اتوار کو وہ لوگ لڑکی دیکھنے کے لیے آئے۔ اس نے اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھا۔ تریسا پر خودفراموشی سی طاری ہو گئی۔

    شادی طے ہو گئی۔ جہیز پانچ ہزار آنے پر طے ہو گیا۔ شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ گرجاگھر کے پادری نے بھی اسی تاریخ کا اعلان کیا۔ تریسا کے پتا نے اگلے اتوار کوجہیز کی رقم پہنچا دینے کا وعدہ کیا۔

    تریسا بےحد خوش تھی۔ اس کی سہیلیاں اس سے مذاق کرنے لگیں اس کی ہم عمر شادی شدہ لڑکیوں نے اسے نصیحتیں کرنا شروع کر دیں۔ وہ شادی کے دن گننے لگی۔

    میاں بیوی اب پھر حساب لگا رہے تھے۔ جہیز اور شادی کے اخراجات کے بعد تھوڑا سا ہی پیسہ بچےگا۔ اس کے بعد روسا کے لیے جمع کریں گے۔

    پالے جانے کے بعدایک دن پڑوسن کے یہاں سے آکر ماریا نے کہا۔

    ’’چاکوچن آیا ہے۔۔۔!‘‘

    ’’چاکوچن آیا ہے۔ کل سویرے وہ بازار جائےگا۔ اس کے بعد کو ٹایم جائےگا۔‘‘

    ’’آج ہی روپیہ لاکر رکھا ہے۔‘‘

    ’’وہ کیسے۔۔۔، اب کے تو میلہ ہے اتوار کو۔۔۔؟‘‘

    ’اس کا انتظار کرنا ہے۔‘‘ پیچھے کے گھر میں گیا۔ ماتن کو دیکھ کر چاکو مسکرایا۔۔۔

    ’’ایسا لگتا ہے سارا انتظام ہو گیا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ امید ہے وہاں سے آکر سب انتظام ہو جائےگا۔‘‘

    ’’جہیز کتنا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’پانچ ہزار آنے۔‘‘

    ’’تب تو سب ملاکر سات ہزار آنے لگ جائیں نا۔۔۔‘‘

    ماتن ہنستا رہا۔ چاکوچن نے لڑکے کے بارے میں پوچھا۔۔۔ماتن نے ساری باتیں تفصیل سے سنائیں۔

    ’’پیسہ کہاں سے آئےگا۔۔۔؟ کہیں گاڑ کے رکھا ہے کیا۔۔۔؟‘‘

    ماتن دنگ رہ گیا۔ ایسا صدمہ اس نے زندگی میں کبھی نہیں سہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اب کیا کہے۔ منھ سے آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔

    ’’یہاں تھوڑا تھوڑا دیا ہوا پیسہ۔۔۔‘‘ بس اتنا ہی کہہ سکا۔

    ’’تھوڑا تھوڑا دیا پیسہ۔۔۔؟‘‘ چاکو نے پوچھا: بجلی کی گرج کی طرح یہ آواز ماتن کے کانوں میں گونجی۔

    چاکو نے پھر کہا۔

    ’’سب کا حساب میرے پاس ہے۔ تمہارا لیا ہوا اور باقی دو روپیہ۔ کل سترہ روپے اکٹھے کرکے مجھے دینا ہوگا۔۔۔‘‘

    ’’میں نے آپ سے لیا۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔‘‘

    ’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ محنت کرکے۔۔۔‘‘

    ’’تونے یہاں کام کیا۔۔۔؟ خدا پر ایمان رکھنے والا کون مذہبی آدمی تجھ سے کام کروا کے گناہ مول لےگا! کمزور کہیں کا۔‘‘

    ’’میں نے پتا کاٹا۔۔۔ گائے کی دیکھ بھال کی۔۔۔‘‘

    چاکو ہنس پڑا۔۔۔ ’’اس کے لیے مزدوری۔۔۔؟‘‘

    ماتن تھک کر بیٹھ گیا۔

    چاکونے کہا۔۔۔ ’’لڑکی کی قسمت ہوگی توسب کچھ ٹھیک ہوگا۔ میں پندرہ روپے دوں گا۔۔۔ خدا سب جانتا ہے۔‘‘

    دو تین بڑے لو گ اور پادری گھاٹ پر آئے چاکوان کے استقبال کو اٹھا۔

    رات کافی بیت گئی۔ ماتن کے گھر کا چراغ اپنے آپ بجھ گیا۔ ابھی تک وہ نہیں لوٹا تھا۔

    چراغ بجھ جانے پر بھی ماں بیٹی انتظار کرتی رہیں۔

    ماتن دوسرے دن بھی نہیں آیا۔

    اور پورم میں سال گرہ کی ہل چل تھی۔

    دوسرے دن اتوار ہے۔ چاکو کا میلہ ہے۔ ایک لاش ماتن کے گھاٹ پر آئی۔ ہاتھ پیر رسی سے بندھے تھے۔

    وہ ماتن ہی ہوگا۔

    میلے کی چاروں طرف گونجنے والی آواز۔۔۔ ہر طرف چاکو کی تعریف اور اس کے مذہب پرستی کا ذکر ہو رہا تھا۔

    ماتن کی لاش سے لپٹ کر ماں بیٹیاں بچاری رو رہی تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے