ماضی کے جھروکے سے
سنہ۱۹۴۔ کی دہائ کا زمانہ تھا۔
مدن پورشہر سے دور افتادہ مختصر آبادی پر مشتمل ایک گاؤں تھا۔
ابھی نمازی یہاں کی اکلوتی مسجد سے نماز فجر پڑھ کےنکل ہی رہے تھےکہ تیز تیز ڈرم بجنے کی آوازاور اس کے بعد ایک منادی نے سبھوں کو چونکا دیا۔ اس گاؤں کا دستور تھا کہ جب زمینداروں کے یہاں کسی اہم تقریب کا اعلان مقصود ہوتا تو اس دن ان کی کوٹھی کی بالائی منزل پر تین بارڈرم پیٹ کر وہیں سے بآواز بلند اس کا اعلان کیا جاتا تھا۔
’’گاؤں کے سبھی لوگوں کو اطّلاع دی جاتی ہے کہ آج شام کو چودھری سلامت علی کی کوٹھی پر دعوت عام کا انتظام کیا گیا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ معہ اپنے سب گھر والوں کے شریک ہوں۔ یہ دعوت چودھری صاحب کے یہاں ان کے پوتے کے ولادت کی خوشی میں دی جا رہی ہی ہے۔‘‘
چودھری صاحب کا خاندان اس گاؤں میں دو پشت پہلے آباد ہوا تھا۔ ان کی اس گاؤں میں سکونت کے سلسلہ میں ایک روایت مشہور تھی۔ ان کی اصل رہائش گاہ قصبہ مہنت گڈھ میں تھی۔ یہ قلعہ نما کوٹھی واقعی کسی چھوٹے ہندو راجہ کی گڑھی تھی جسے ۱۸۵۷ کے انقلا ب میں بغاوت کے جرم میں مالکوں کو بےدخل کرکے انگریزوں نے اپنی خیرخواہی کےصلہ میں ان کے بزرگوں کو عطا کی تھی۔ اس کوٹھی میں ایک طرف ایک چھوٹا شیو مندر اور اسی سے ملحق ایک مختصر ساکمرہ تھا جسکے دروازے پر ہمیشہ ایک زنگ آلود تالہ پڑا رہتا تھا۔ اس کمرہ اور مندر کے دیکھ بھال کی پوری ذمہ داری ایک مہنت کی تھی۔ مہنت جی کے مرنے کے بعد جب نواب صاحب کے بزرگوں نے قفل توڑا تو وہاں ایک طرف گیندے کے سوکھے پھولوں کے بیچ ایک استھی کلس رکھا ہوا تھا۔ پاس ہی ایک دھوپ دان بھی تھا۔ نواب زادوں کویہ کلس اپنی اس شاندار محل میں پھوٹی آنکھ نہیں بھایا۔ بزرگوں کی سرزنش کا خوف نہ ہوتا تو وہ نہ جانے کب اسے وہاں سے نکال کر پھینک چکے ہوتے۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد گھر کے کئی منچلوں نے اس کے ساتھ یہ حرکت شروع کی کہ گوشت مچھلی کھاکر اس کا بچا ہوا حصہ اس کلس پر چڑھانے لگے۔ روایت ہے کہ پھر انھیں اکثر خواب میں ایک رانی دکھائ دینے لگی جو کہتی تھی فوراً گڑھی چھوڑ دوورنہ تمہارے خاندان میں دھی کا پوت بھی نہیں بچنے کا۔ ناچار نوابوں نے خوفزدہ ہوکر یہ کوٹھی اپنے ایک رشتہ دار کو سپرد کرکے اس چھوٹے سے موضع مدن پور کو بسا لیا تھا۔
مدن پور بسنے کے بعد بھی یہ خاندان اب تک زیادہ پھولا پھلا نہ تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ خاندان میں دو پگڑیاں ایک ساتھ نہیں رہ سکتی ہیں شاید رانی نے یہ بھی دھمکایا تھا۔ چودھری سلامت علی اور ان کے والد میر فضل علی کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا مگر وہ خود اسے اتفاق ہی مانتے تھے۔
چودھری صاحب کا یہ پوتا جسکی چھٹی کی آج شام تقریب ہونے والی تھی انکا دوسرا بچہ تھا۔ اس سے پہلا بچہ دو دنوں سے زیادہ اس دنیا میں سانس نہیں لے سکا تھا۔ عام طور پر یہ رواج تھا کہ کیا امیر کیا غریب ہر زچہ پہلے بچہ کی ولادت سے پہلے اپنے مائیکے پہنچا دی جاتی تھی۔ فردوس بیگم کو باوجود اصرار کے بھی ان کے مائیکے نہیں جانے دیا گیا تھا۔ پچھلے حادثہ کے بعد اس بار یہ احتیاطی تدابیر اور شدید تر ہوگئی تھیں جیسے کہ:
زچہ خانہ کے دروازہ کو بند رکھنا۔
دروازہ کے باہر مستقل جلتی ہوئ لکڑی کا دھواں۔
زچہ خانہ میں چند خاص کو چھوڑ کر ہر ایک کا داخلہ ممنوع۔ ان خواص کو بھی اندر جانے سے سے پہلے اپنے ہاتھوں اور پیروں کو آنچ دکھانا۔
بچہ کو بلیوں کی پرچھائیں سے بھی بچانا۔
فردوس جہاں نہا دھوکر ابھی اپنے کمرے میں آرام کی غرض سے جیسے ہی گئیں تھیں کہ ساس کا بلاوا آ گیا۔ جاکے دیکھا تو مہرن خالہ ان کی مصاحبت فرما رہی تھیں۔ یہ جگت خالہ تھیں اورمفت مشوروں کے لئے ہر جگہ پہنچ جایا کرتی تھیں۔
وہ آج یہاں یہ صلاح دینے آئ تھیں کہ زچہ خانہ کا اکلوتہ روشندان جو پائیں باغ کی طرف کھلتا ہے وہ بھی بند کرا دیا جائے۔ اس سلسلہ میں ایک قصہ سنوانے کے لئے ہی ساس نے بہو کو طلب کیا تھا۔ ان کے قصے کا ماخذ یہ تھا کہ پیدائش کے چار چھ دنوں کے اندر بچوں کے فوت ہونے کا سبب کوئی بلا ہے۔ یہ بلا اکیلی نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک بھائی اور ایک بہن۔ بہن بلی بن کے دروازے سے داخل ہوتی ہے۔ بچے کو روشندان کی طرف اچھال دیتی ہےاور بھائی جو روئی کے گالے کی طرح روشن دان پر موجود رہتا ہے بچے کو پکڑ لیتا ہے۔
آج سویرے ہی سے کوٹھی میں مشینی انداز میں فوری چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔ جلدی جلدی سامان کی فراہمی کی جا رہی تھی۔ دوپہر سے شہنائی کی نوبت بیٹھ گئ تھی۔ احاطہ میں کپڑوں کے تمبو لگائے جا رہے تھے جن میں بیٹھنے کے لئے فرش بچھائے جا رہے تھے۔ دو تین تخت بچھاکر ان پر قیمتی ایرانی قالین بچھائے گئے تھے۔ جگہ جگہ فرشی حقے اور اگالدان بھی رکھے ہوئے تھے۔ کئی گھر خالی کراکےان میں کھانا پکنے کا انتظام چل رہا تھا۔
اندر زنان خانہ میں دوپہر تک آس پاس کے گاؤں کے کافی رشتہ دار آ چکے تھے۔ رشتہ کے دور کی پھوپھیاں معہ باجے گاجے کے بدھاوے کے ساتھ آ دھمکی تھیں۔ بڑی بیگم کے حکم سے نائنیں اور خادمائیں پھرکیوں کی طرح ادھر ادھر تیزی سے بھاگ دوڑ میں مصروف تھیں۔ سہ پہر کو آنگن کے بیچو بیچ ہلواہے کی پتنی سمیہ نے گوبر سے لپائی کی۔ زمین سوکھتے ہی شبو نائن اپنے کام میں مستعدی سے جٹ گئی۔ اس نے چاول بھگوکر سل پر باریک پیسا اور سفید محلول تیار کیا لکڑی کی ایک بڑی ڈوئی زمین پر رکھی اور اس محلول کی مدد سے زمین پر خوبصورت چوک بنایا اور اس پر چھوٹی چوکی بچا دی۔ تھوڑی دیر میں فردوس بیگم زرق برق لباس سے آراستہ اور بیش قیمت زیورات سے مزین اس چوکی پر جلوہ افروز ہوئیں۔ ہر طرف مبارک سلامت کی فلک شگاف آوازیں بلند ہوئیں۔ میراثنوں نے ڈھولک کی تھاپ پر گلا پھاڑ پھاڑکر سوہر گانا شروع کیا۔ کافی دیر تک صدقہ خیرات اور انعام و اکرام کا سلسلہ چلتا رہا۔ عام پرجا میں سے ہر ایک نو مولود کی دعاؤں کے سلسلہ میں بڑھ چڑھ کر سبقت لے جانا چاہتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ عنایات کا حقدار ہو سکے۔
اس موقع پر مہنت گڈھ کی کوٹھی پر قبضہ جمانے والی دور کی رشتہ دار آمنہ بی بی بھی کیوں چوکتیں۔ انھوں نے بھی اپنی یہ کارگزاری گنادی کہ اس باربہو بیگم کے حاملہ ہونے کی خبر کے ساتھ ہی انھوں نے پابندی سے مندر میں پوجا اور کلس پر پھول چڑھوانے شروع کروا دئے تھےاور یہ بچہ مردہ رانی کی خوشنودی کا صلہ ہے۔
سب کے بعد میں مہرن خالہ سب سے بڑی انعام کےحقدار کی صورت میں آگے آئیں۔
’’فردوس دلہن! میں نے نہ کہا تھا کہ اس بار زچہ خانہ کےاس موئے روشن دان کوبھی بند کرا دینا۔ قربان جاؤں، خدا اسے رہتی دنیا تک آباد رکھے۔ کیا چاند سے بچے سے تمہای گود آباد ہوئی ہے۔۔۔‘‘
’’مہرن خالہ! میرے اس بچہ نے تو ایک گوری ڈاکٹر کے صاف ستھرے اور ہوادار اسپتال میں آنکھیں کھولی ہیں۔‘‘ فردوس جہاں نےبات کاٹتے ہوئے کہا۔
حاضرین کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.