Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مچھی والی

دیپک کنول

مچھی والی

دیپک کنول

MORE BYدیپک کنول

    سری نگر میں مچھلیوں کا کوئی مخصوص مارکیٹ نہیں ہے۔ یہاں مچھلیاں یا تو براہ راست آپ کے دروازے تک پہنچتی ہیں یا دریائے جہلم پربنے پل جیسے امیرا کدل پل، بڈشاہ پل، حبہ کدل پل یا زینہ کدل پل پر سے دستیاب ہو سکتی ہیں۔ ان پلوں کے فٹ پاتھوں پر مچھی والیوں نے برسوں سے قبضہ جما کے رکھا ہے۔ حکومتیں بدلیں۔ حالات بدلے۔ پل بدلے۔ پرانے پلوں کی جگہہ نئے پل تعمیر ہوئے۔ اتناسب کچھ بدلنے کے باوجود مچھلیوں کے یہ بازار نہیں بدلے۔ کتنے ہی میو نسپلٹی کے افسروں نے ان مچھی والیوں کو یہاں سے کھدیڈنے کی کوشش کی مگر کسی کو کامیابی نہیں ملی۔ ان مچھی والیوں نے ان پلوں کے فٹ پاتھوں کو اپنے باپ دادا کی جاگیر کی طرح ان پرقبضہ جما لیا تھا۔ کس کی کیا مجال جو وہ ان مچھلی والیوں کی طرف آنکھ بھی ٹیڑھی کر سکے۔ اب اگر کسی جیالے پولیس والے یا کسی افسر نے ان کو دانت دکھانے کی کوشش کی تو اسے منھ کی کھانی پڑی۔ کیونکہ یہ مچھی والیاں اتنی منھ پھٹ اور جھگڑالو تھیں کہ شیطان بھی ان سے پناہ مانگتا تھا۔ کسی نے ایک سنائی نہیں تو وہ کھڑے کھڑے سو سو سنا کر بیٹھ جاتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی انکے منھ لگنانہیں چاہتا تھا۔ فٹ پاتھ پر اُنکے یوں بازار لگانے سے حالانکہ راہ چلتے مسافروں کو پل پار کرنے میں بڑی دقت ہوتی تھی۔ انہوں نے فٹ پاتھ کو یوں گھیر کے رکھا تھا کہ راہ گیر کو ایسے نکلنا پڑتا تھا جیسے سوئی کے ناکے سے نکلنے کی سعی کر رہا ہو۔ مگر اتنی تکلیف اٹھانے کے باوجود کوئی انکے حلاف زبان نہیں کھولتا تھا۔ اُنہوں نے ہر پل کو پل صراط سمجھ کر پار کرنا قبول کر لیا تھا مگر مچھی والیوں سے دشمنی مول لینا منظور نہ تھا۔

    آخر پلوں کی اور مچھلی والیوں کی اس قربت کی وجہ کیا تھی یہ تو کوئی محقق ہی بتا سکتا ہے یا امیرا کدل کے فٹ پاتھ پر بیٹھنے والی وہ چار مچھی والیاں جو ہر دن اس پل پرایک قطار میں بیٹھی ہوئی نظر آتی تھیں۔ ان کی اپنی اپنی جگہہ مخصوص تھی۔ کسی ادلا بدلی کا امکان کم ہی ہوتا تھا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ مچھلیاں بیچنے کیلئے عورتیں ہی یہاں آکر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ آج تک میں نے کسی مرد مچھی والے کو یہاں بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ عورتیں مختلف علاقوں کی رہنے والی تھیں۔ کوئی زکورہ کی ہے تو کوئی نشاط یا ہارون کی رہنے والی۔ یہ چاروں صبح صبح مال لے کر امیرا کدل پہنچ جایا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی صبح کی نشت میں ہی سارا مال بک جاتا تھا۔ کبھی پورا مال نہ بکنے کی صورت میں شام کو بھی انہیں قسمت آزمائی کرنی پڑتی تھی۔ یہ جو چار مچھی والیاں تھیں اسمیں سے حبلہ اور کلسم ادھیڑ عمر کی تھیں، جب کہ سارہ اور مریم درمیانہ عمر کی تھیں۔ حالانکہ ان کی آپس میں کوئی قرابت داری نہ تھی۔ چاروں مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں مگر یہاں آکر وہ بہنوں کی طرح ایک دوسرے کو اپنے دکھڑے سنانے بیٹھ جاتی تھیں۔ حبلہ کلسم اور سارہ کی آپس میں خوب چھنتی تھی جب کہ مریم سے انکی بنتی نہیں تھی۔ سچ تو یہ تھا کہ ان چاروں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور خوش باش مریم تھی۔ وہ عام مچھلی والیوں کی طرح نہیں تھی۔ وہ بڑی نزاکت پسند اور خوش طبع تھی۔ وہ ایسے عشوے اور غمزے دکھاتی تھی کہ گاہک اس کی ایک ایک ادا پر فدا ہوکر رہ جاتے تھے اور ہمیشہ اسی سے مچھلیاں خرید کر لے جاتے تھے۔ چاہے اس کی مچھلیاں سڑی ہوئی کیوں نہ ہوں، وہ دیکھتے ہی دیکھتے مچھلیوں سے بھرا ہوا باسن خالی کر دیتی تھی جب کہ اس کی ہم پیشہ عورتوں کا ہنکارے لگاتے لگاتے دم پھول جاتا تھا پر ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ اس کے وہاں سے چلے جانے کے بعد ہی چند بھولے بھٹکے گاہک ان کی گرفت میں آ جاتے تھے۔ وہ اتنی آزردہ اور دل جلی ہوتی تھیں کہ جتنا مال بیچتی نہیں تھیں اس سے کہیں زیادہ مریم کو کوسنے دیتی رہتی تھیں۔

    کسی بھی مال کو بیچنے کے لئے ایک خاص اد اور انداز چاہے۔ ا یک مریم کو چھوڑ کے باقی کی یہ مچھی والیاں اس ادا سے نابلدتھیں۔ دراصل وہ ان پڑھ اور گنوار تھیں۔ نہ بات کرنے کا سلیقہ نہ لبھانے کی ادا معلوم، شکل و صورت دیکھو تو سر جھاڑ منھ پہاڑ۔ کپڑے ایسے پہن کے رکھے ہیں جن میں لیرے لگے ہیں۔ حالت یہ اور اینٹھ ایسی کہ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیں۔ مطلب یہ کہ شکلیں چڑیلوں کیں اور مزاج پریوں کا۔ جب بھی کوئی گاہک ان کے سامنے کھڑا ہو کر اُن کی طرف دیکھنے لگتا تھا تو وہ اُسے ایسی خشم ناک نگاہوں سے گھورنے لگتی تھیں جیسے و ہ انہیں اغوا کرنے آیا ہو۔ ان کے چہرے مہرے سے وحشت ٹپکتی تھی۔ ایسے میں گاہک کی آدھی دلچسپی انکا سڑا اور جلا ہوا منھ دیکھ کے ہی ختم ہو جاتی تھی۔ ایک تو وہ جھگڑالو اوپر سے ہٹیلی۔ گاہک کو خوش کرنے کے لئے ریٹ میں کمی پیشی کرنی ہی پڑتی ہے مگر وہ توایک دمڑی کم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھیں۔ کوئی ریٹ کم کرنے کے لئے کہتا تووہ ایسے بگڑ جاتی تھیں جیسے گاہک نے ان کو کوئی مادر ذاد گالی دی ہو۔ کوئی انہیں اپنے طور طریقے بدلنے کا مشورہ دیتا تو وہ اسے ہی آڑے ہاتھوں لینے لگتی تھیں۔ ان کو سمجھانا اپنا سر پتھر پر دے مارنا جیسا تھا۔ وہ تو جیسے یہ طے کرکے بیٹھیں تھیں کہ چاہو تم کاٹو اپنی ناک کانی میں نہ چھوڑوں اپنی بانی۔ جو گاہک غلطی سے ان کے چنگل میں پھنس جاتا تھا وہ تو ایک بار ان سے مال لے کر آگے کے لئے توبہ کر لیتا تھا۔ وہ مال بھی ایسے دیتی تھیں جیسے گاہک پر احسان کر رہی ہوں۔ اُنکے اس طریقہ کار سے گاہک ان سے دور دور ہی بھاگتے تھے جب کہ مریم کے آگے گاہکوں کی لائن لگی رہتی تھی۔ مریم کے آگے پیچھے کتنے بھی گاہک آکے کھڑے ہوجاتے تھے وہ ایک شوخ تبسم کے ساتھ اپنے ہرگاہک کا سواگت کرتی تھی۔ گاہک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ بڑے پیار سے جو اس سے بات کرتی تھی تو خریدار ایک دم ریشہ خطمی ہوکر رہ جاتا تھا اور پھر مریم کے آگے وہ یوں پھسکڑا مار کر بیٹھا رہتا تھا جیسے اس نے اس پر کالاجادو کر دیا ہو۔ اس کی ساتھ والیاں تازہ مال لے کے خریداروں کی راہ تکا کرتی تھیں جب کہ مریم ابسی ہوئی مچھلیاں بھی من موافق دام پر بیچا کرتی تھی۔

    مریم اپنی ساتھ والیوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ وہ اسے اُٹھتے بیٹھتے پانی پی پی کر کوسا کرتی تھیں۔ اس کی وجہ سے ان کا دھندہ ٹھپ ہوکر رہ گیا تھا۔ کلسم کا شوہر پیر مرشد تھا۔ قرب و جوار کی عورتیں آکر اس سے تعویذ لیا کرتی تھیں۔ کلسم ایک روز اپنے میاں سے گنڈے تعویذلے کر آئی۔ ہفتوں بیت گئے۔ مریم پر تو کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ اس پر تو جیسے کسی شیطان کا سایہ تھا۔ کسی چیز کا اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ تو ہر روز اس اُمید کے ساتھ اٹھتی تھیں کہ آج مریم اس بازار سے دفا ہو جائےگی مگر وہ تو اپنی جگہ جمی ہوئی ان کی چھاتی پر مونگ دلتی رہتی تھی۔ جب پیر فقیروں کی کوششیں کارآمد ثابت نہ ہوئیں تو انہوں نے دوسرا راستہ اپنا لیا، حبلہ کا خصم شیر گڑھی تھانے میں خاکروب تھا۔ حبلہ نے اسے مریم کے پیچھے لگا دیا۔ وہ پولیس کی وردی پہن کر آیا تو تھا مریم کواپنا رعب دکھانے پروہ یہ نہیں جانتا تھا کہ الٹی آنتیں گلے پڑ جائیں گے۔ وہ تو اپنی نوکری سے ہی ہاتھ دھو بیٹھا۔ ہوا یوں کہ ایس پی صاحب کی بیوی مریم سے ہی مچھلیاں خرید کر لے جاتی تھی۔ جب پولیس والے نے مریم کا قافیہ تنگ کرنا شروع کر دیا تو وہ دوڑی دوڑی میم صاحب کے پاس گئی اور جاکر پولیس والے کی شکایت کردی۔ معا ملہ ایس پی کی نوٹس میں آ گیا۔ سلام شیخ کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ اسے نوکری سے بر طرف کر دیا گیا۔ وہ اپنی بیوی کو تبرہ بھیجتا رہا۔ حبلہ اپنا سر پیٹتی رہ گئی۔ اس دن کے بعد مریم ان کی آنکھوں کی شہتیر بن کے رہ گئی۔ اس کی خوشحالی ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ وہ اس کی کامیابی سے جلتی تھیں۔ وہ جب اپنا باسن خالی کرکے اٹھ کر چلی جاتی تھی تو وہ جل بھن کر کوئلہ ہوجاتی تھیں۔ وہ جب نوٹ گننے بیٹھ جاتی تھی تو نوٹ دیکھ کر ان کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتے تھے۔ وہ جب کسی سے ہنسنے بولنے لگتی تھی تو وہ کان لگا کر ان دونوں کی باتیں سننے لگتی تھیں تاکہ انکے ہاتھ کوئی ایسا بہانہ تو مل جائے تاکہ وہ مریم کو پورے بازار میں ذلیل و رسوا کر سکیں۔ اس کا بن ٹھن کے رہنا بھی انہیں گوارہ نہ تھا۔ ادھیڑ عمر کی حبلہ اپنی ہم عمر عورت کلسم سے کہتی۔

    ”بے حیا، چھنال سج دھج کے کیسے آئی ہے جیسے دوسراخصم کرنے نکلی ہو۔“

    ”ہائے ہائے بےشرمی کی بھی حد ہو گئی۔ میں تو اسے اللہ میاں کی گائے سمجھتی تھی مگر یہ تو شیطان کی خالہ نکلی۔ اسکا ابھرا ہوا پیٹ دیکھ رہی ہو کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ کہتی ہے میں نے خصم کر لیا ہے پر وہ ہے کہاں۔ آج تک وہ ہم میں سے کسی کو دکھائی نہ دیا۔ ہوتا تو کیا وہ کبھی اس طرف نکل نہ آتا۔ یہ ہم سب کو الو بنا رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ہم سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کوئی اور ہی کھیل کھیل رہی ہے۔ یہ مچھلی بیچنا، مجھے تویہ سب ڈھول کا پول ہی لگ رہا ہے۔“

    ”تم سچ کہہ رہی ہو بہن مجھے بھی معاملہ کچھ گڑبڑ لگ رہا ہے۔ یہ عورت بڑی چالاک اور مکار ہے۔ وہ کہتے ہیں نا سب گنوں پوری کہو نہ لنڈوری ویسی ہی ہے یہ بد ذات۔“ وہ اسی طرح آئے دن پیٹھ پیچھے اس کی غیبت کرتی رہتی تھیں۔ مریم کا ان باتوں سے کچھ بگڑ نہیں رہا تھا۔ وہ تو ان ساری باتوں سے بے خبر اپنے کام سے کام رکھتی تھی جب کہ یہ تین عورتیں اس کی برائی کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالی کرتی تھیں۔

    مریم کی ذاتی زندگی کے بارے میں اس کی ہم پیشہ عورتیں اتنا ہی جانتی تھیں کہ پہلے اس کی ماں یہاں پر بیٹھ کر مچھلیاں بیچا کرتی تھیں۔ مرنے سے پہلے وہ اس پیشے کو اپنی بیٹی کو ودیعت کر گئی۔ پھر پتہ چلا کہ مریم کی شادی ہو گئی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ حبہ کدل میں کہیں رہ رہی ہے۔ شادی کے بعد وہ اچانک غائب ہو گئی اور ایک سال تک اس بازار میں دکھائی نہ دی۔ اس کے چلے جانے پر اس کی ہم پیشہ عورتوں نے گھی کے چراغ جلائے۔ پاس کے آستانے میں جاکر حاضری دی اور سب نے باری باری نیاز چڑھا لیا۔ اب وہ اس بازار کی بے تاج ملکائیں تھیں۔ گاہک کو اب جبراً و قہراً انہی سے مچھلیاں خریدنی پڑتی تھی۔ کوئی اگر مریم کے بارے میں پوچھتا تھا تو وہ ہتھے سے اکھڑ جاتیں اور پھربر افروختہ ہوکر اس سے پوچھتی۔

    ”کیوں تو اس کا خصم ہے کیا؟“

    گاہک اس جواب سے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا تھا۔

    مریم کے چلے جانے کے بعد اب ان تینوں کے دن پھر گئے تھے۔ اب وہ مچھلیاں منھ مانگے داموں پر بیچا کرتی تھیں۔ مال بھی جلدی جلدی ختم ہو جاتا تھا۔

    فارغ ہوتے ہی وہ آپس میں ہنسی ٹھھٹول کرنے بیٹھ جاتی تھیں۔

    ”ہائے جب سے وہ منحوس یہاں سے گئی ہے بازار میں جیسے رونق آ گئی ہے۔ وہ جب تک یہاں تھی ہم پر جیسے نحوست چھائی ہوئی تھی۔ خریدار ہمیں دیکھ کر ایسے منھ پھیر لیتا تھا جیسے ہم اسے کھا جائیں گے۔ بس اسی چھنال کے پاس مرنے جائےگا۔ وہ گئی تو ایسا لگ رہا ہے جیسے خس کم جہاں پاک ہو گیا۔“

    ”مجھے تو شک ہے کہ وہ جادو ٹونا کرنا جانتی تھی۔ نہیں تو اس میں ایسے کونسے سرخاب کے پر لگے تھے کہ گاہک اسی کے پاس مرنے جاتے تھے۔“

    ”مجھے تو لگتا ہے کہ وہ کسی یار کے ساتھ بھاگ گئی۔ جب سے گئی ہے اس کی نہ کوئی خیر نہ خبر۔ یہاں ہوتی تو ایک آدھ بار یہاں مرنے ضرور چلی آتی۔ لگتا ہے اب وہ کبھی نہیں آئے گی۔ اس کا قصہ ختم ہی سمجھو۔“

    اس طرح کی باتیں روز کا قصہ تھا۔ دراصل وہ اب بھی مریم سے اس قدر خائف تھیں کہ اس کا نام لیتے ہی ان کا دل کانپ ضرور اٹھتا تھا۔ وہ دل ہی دل میں یہی دعا کرتی رہتی تھیں کہ اب وہ کبھی لوٹ کر نہ آئے پر ان کی یہ ساری دعائیں بےکار ثابت ہوئیں جب ایک دن مریم سویرے سویرے مچھلیاں لے کر فٹ پاتھ پر آکے بیٹھ گئی۔ اُسے دیکھ کر ان کے چہرے فق ہو گئے۔ وہ اس کے پاس جاکر اتنا بھی نہ پوچھ سکیں کہ وہ آج تک کہاں تھی۔ اسے دیکھ کر وہ اپنے سارے پنجے چھکے ہی بھول گئیں اور لگیں ایک دوسرے کا منھ تکنے۔ مریم نے کلسم کو دیکھ کر بڑی بے خوفی سے کہا۔

    ”کیوں! مجھے دیکھ کر تم سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا۔ کہیں تم یہ سوچ کے نہیں بیٹھی تھیں کہ اب میں کبھی واپس نہیں آوں گی؟“

    ”تم آو نہ آو میری جوتی سے۔ تم کوئی رزاق ہو کیا جو تم نہیں رہو گی تو ہمیں رزق نہیں ملےگا۔ ارے وہ رحیم و کریم ہے۔ وہ سب کو روٹی دیتا ہے۔“ کلسم نے بڑی ہمت کر کے جواب دینے کی کوشش کی۔ اُسکی سکھیاں اس جواب سے بڑی خوش ہوئیں۔ مریم نے غصے سے اپنا منھ دوسری طرف کر لیا۔ اتنے میں ایک گاہک اسے دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑا اور وہ حیرت و مسرت کے ملے جلے لہجے میں اُس سے بولا۔

    ”اری تم کب آ گئی۔ تم تو ایسے غائب ہو گئی تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ کہاں تھی تم اتنے دنوں؟“

    ”بڑی لمبی کہانی ہے۔ کبھی فرصت سے سناوں گی۔ اس وقت کہیے کتنے کلو مچھلی دے دوں۔“

    ”لینے کا پروگرام تو تھا نہیں پر تم کہہ رہی ہو اس لئے میں تم کو مایوس نہیں کروں گا۔ چلو دو کلو مچھلی دے دو۔“

    ساتھ میں بیٹھی مچھی والیوں کے منھ اُتر گئے۔ وہ ایک دوسرے کی طرف ایسی بے بسی اور لاچارگی کے ساتھ دیکھنے لگیں جیسے کہہ رہی ہوں کہ اب پھر سے ان کی قسمت میں سوکھا پڑ جائےگا۔ اب ساری ہریالی اسی کی طرف چلی جائےگی۔ وہ دل ہی دل میں اسے کوسنے لگیں۔ جی میں آ رہا تھا کہ اسے بالوں سے پکڑ کر پورے بازار میں گھما کر لے آئیں۔ سات توں سے اسکا منھ کالا کر دیں۔ اس کی واپسی ان کے لئے نیک شگون نہ تھی۔ گاہک پھر سے اس کے جال میں پھنستے چلے جا رہے تھے اور وہ بیٹھی بیٹھی مکھیاں اڑا رہی تھیں۔

    ایک دن صبح صبح کا وقت تھا۔ وہ تینوں جلدی سے آکر بیٹھ گئی تھیں جب کہ مریم کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ تینوں دل ہی دل میں یہی دعا مانگ رہی تھیں کہ خدا کرے کہ مریم کہیں فنا ہو جائے۔ کوئی اسے بھگا کر لے جائے یا وہ کسی کے ساتھ بھاگ جائے۔ وہ اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں تھیں کہ کلسم نے سارہ سے کہا،

    ”وہ بد ذات کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ خدا اسے غارت کردے۔ ایک بار پھر ہمارا دھندہ چوپٹ کر دیا۔ ایک ایک کرکے ہمارے گاہک ہم سے ٹوٹتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو ہمیں یہ دھندہ چھوڑ کر کوئی اور دھندہ کرنا پڑےگا۔“

    ”تم ٹھیک کہہ رہی ہو بہن“ حبلہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا، ”اللہ کرے اسے لوکے لگ جائیں۔ میرے شوہر کو بےکار کر دیا۔ جب سے اس کی نوکری چلی گئی تب سے وہ مردود گھر میں پڑا ہوا ہے اور بات بات پر مجھے طعنے دیتا رہتا ہے کہ میری وجہ سے اُسکی نوکری چلی گئی۔۔۔ کوئی کام کرنے کو بولو تو کام کا نام سنتے ہی اس کی اماں مر جاتی ہے۔ اچھا خاصا گزارہ چل رہا تھا میرا۔ خدا اسکا ستیا ناس کر دے میرے بچوں کا آزوقہ چھین لیا اس کم ذات نے۔ اب میں اکیلی جان کس کس کو دیکھتی پھروں۔ بچوں کو دیکھوں یااپنے نکھٹو مرد کو۔“ کہتے کہتے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔

    سارہ جو بہت دیر سے چپ تھی، حبلہ کو سہارا دیکر بولی۔

    ”حوصلہ رکھو بہن۔ اس کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ جس نے تیرے ہاتھ کا نوالہ چھین لیا اللہ اس کی روٹی ہی چھین لےگا۔“

    وہ سب باری باری مریم کو کوسنے دے رہی تھیں کہ اچانک ایک کار ان کے سامنے آکے رکی اور اس میں سے مریم اتراتے ہوئے اتر گئی۔ وہ تینوں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف یوں دیکھنے لگیں جیسے انہوں نے کوئی عجوبہ دیکھ لیا ہو۔ ان کی حالت ایسی تھی کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ گاڑی چلانے والا ایک خوش رو لونڈا تھا۔ اس نے مریم کا مچھلیوں سے بھرا باسن گاڑی سے اتارا اور پھر وہ مسکرا کر مریم کی طرف دیکھ کر گاڑی کی طرف بڑھا اور گاڑی اسٹارٹ کرکے چلا گیا۔ وہ تینوں ابھی تک صم بکم بنی بیٹھی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی ڈراونا خواب دیکھ رہی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ اس خواب سے باہر آئیں تو وہ ایک دوسرے کی طرف ایسی نظروں سے دیکھنے لگیں جیسے وہ اشاروں کنایوں سے کچھ سمجھنے اور کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ تھوڑے توقف کے بعد جب مریم ایک گاہک کی طرف متوجہ ہوگئی تو ان کے بیچ کچھ کھسر پھسر چلنے لگی۔ مریم ان سے بےپرواہ ہوکے اپنے کام میں مشغول تھی۔ کلسم نے حبلہ کی طرف دیکھ کر کہا۔

    ”یہ لونڈا کون تھا جو اسکی تابعداری میں ایسا کھڑا تھا جیسے اس کا خصم ہو۔“

    ”ہو سکتا ہے اس نے ایک اور خصم کر لیا ہو۔ ویسے یہ اپنے بارے میں کچھ بتاتی نہیں۔ کون جانے اب تک یہ کتنے خصم کر چکی ہے۔ اسکی ماں نے بھی تین تین خصم کر لئے تھے۔ لگتا ہے یہ بھی اپنی ماں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ یہ چاہے کتنا بھی چھپا کے رکھ دے جب پاپ کا گھڑا بھر جائےگا تو سارا کیا دھرا عام ہو جائےگا۔ ایک دن سب کو پتہ چلےگا کہ یہ کتنی بڑی حرافہ ہے۔ آدمی کتنا ہی شاطر اور کایاں کیوں نہ ہو عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔“

    وہ روز اسے کار میں چھوڑنے آتا تھا اور اسے وہاں چھوڑ کر چپ چاپ چلا جاتا تھا۔ یہ تینوں اس لونڈے کو ایسی نظروں سے گھورنے لگتی تھیں جیسے وہ یوسف ثانی ہواور اسے پھسلانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ جب وہ ان کی طرف تضحیک بھری نظروں سے دیکھتا تھا تو یہ غصے سے اُبل پڑتی تھیں اور منھ ہی منھ میں اسے صلواتیں سنانے لگتی تھیں۔ اس سے بھی جی نہ بھرتا تھا تو وہ روز نئی نئی کہانیاں گڑھنے لگتی تھیں اور ان کہانیوں کو عام بھی کر رہی تھیں۔ حبلہ، کلسم اور سارہ نے مریم کو رسوا کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ وہ چلا چلا کر سبھی گاہکوں کو بتا رہی تھیں کہ مریم بد چلن ہے۔ ایک غنڈے موالی سے اس کا چکر چل رہا ہے۔ وہ روز اس کے ساتھ جاتی ہے اور اپنا منھ کالا کرکے آتی ہے۔ بہت کم لوگ ان کی باتوں پر یقین کرتے تھے۔ کوئی ان کی باتوں کو جھٹلانے کی ہمت بھی نہیں کر پاتا تھا کیونکہ سبھی لوگ ان عورتوں کو جانتے تھے۔ ان سے حجت کرنا بھڑکے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے کم نہ تھا اس لئے وہ ایک کان سے سنتے اور دوسرے کان سے اُڑاتے تھے۔

    ایک دن جب وہ لونڈا مریم کو چھوڑ کے چلا گیا، ٹھیک ایک گھنٹے بعد وہ پھر سے لوٹ کر آیا۔ وہ جب گاڑی کھڑی کر کے نیچے اترا تو سب نے دیکھا اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ایک عمر رسیدہ آدمی بھی تھا جو اس کے ساتھ ہی گاڑی سے نیچے اتر گیا۔ مریم نے جب ان کو اس حال میں دیکھا تو اس کے ہوش و حواس باختہ ہو گئے اور وہ اس لونڈے کی طرف دوڑی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی وہ اسے بانہہ سے پکڑ کر گاڑی میں بٹھاگیا۔ جاتے جاتے اس نے اس ادھیڑ عمر کے آدمی سے کہا، ”ہم جب تک واپس لوٹ کر نہیں آتے تم اس کی مچھلیوں کا خیال رکھنا کاکا۔“ یہ کہکر وہ گاڑی کو بھگانے لگا۔ ان کی یہ ہڑ بڑاہٹ اور بد حواسی دیکھ کر تینوں کی باچھیں کھل گئیں۔ اتنا تو انہیں یقین آہی گیا کہ مریم پر کوئی نہ کوئی آفت ضرور ٹوٹی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر بغلیں بجانے لگیں اور ان کے اوجھل ہوتے ہی تینوں مچھی والیاں اس ادھیڑ عمر کے گرد جمع ہو گئیں اور جھوٹ موٹ کی ہمدردی جتاتے ہوئے، اس سے بڑی حلیمی سے پوچھ اٹھیں۔

    ”خدا خیر کرے۔ سب کچھ ٹھیک تو ہے نا۔ آخر ایسا کیا ہوا جو مریم ننگے پاوں یہاں سے بھاگی؟“

    ”کیا بتاوں میں۔“ وہ ایک سرد آہ بھر کر بولا، ”اللہ کے رنگ بھی بڑے نرالے ہیں۔ جو اس کی جتنی زیادہ بندگی کرتا ہے وہ اسی کو اتنی ہی تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایک سال پہلے اسکا شوہر چلا گیا۔ اپنے پیچھے دو معذور اور ناتوان بچے چھوڑ گیا۔ وہ ذہنی طور ہی نہیں جسمانی طور بھی معذور ہیں۔ یہ جیسے تیسے کرکے انکی کفالت کر رہی تھی کہ اسکا دیور اندر ہو گیا۔ ڈیڑھ سال یہ اندر رہا۔ ابھی ابھی جیل سے چھوٹ کر آیا ہے۔ وہ کتنا ہی بدکار سہی مگر اپنی بھابی کو ماں کی طرح مانتا ہے۔ اس کے ہر حکم پر اپنی جان تک نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ ابھی یہ مریم کو چھوڑنے آیا تھا کہ پیچھے سے بڑا لڑکا رفیق سیڑھیوں سے گرا۔ حالت بہت نازک ہے۔ اللہ جانے بچ بھی جائےگا کہ نہیں اسی کو لے کر اسپتال جا رہے ہیں۔ بیچاری مریم! ایک وہ مریم تھی جسکے لال کو صلیب پر چڑھایا گیا اور ایک یہ مریم جو دو جوان بچوں کو پل پل مرتے دیکھتی ہے۔ اس نے ایک پل بھی سکھ کا نہیں دیکھا پھر بھی دیکھو کیسے مسکراتی رہتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا اس ایک مسکراہٹ کے پیچھے وہ کتنے غم و اندوہ چھپا کے بیٹھی ہے۔ جب دیکھو کوئی نہ کوئی مصیبت اسے گھیر لیتی ہے پھر بھی وہ کس جی داری سے حالات کا مقابلہ کر رہی ہے۔ اس عورت کو دیکھ کر کسی کا بھی کلیجہ منھ کو آ سکتا ہے۔ مولا اس پر رحم کرے۔“ کہکر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ تینوں دکھ اور حیرت سے ایک دوسرے کا منھ تکنے لگیں۔ انہیں ایسا لگا جیسے یکا یک انکی مچھلیاں سڑ گئی ہوں اور ان سے اٹھنے والی سڑاند اور عفونت سیدھے ان کے اندر ا بھر گئی اور اس سڑاند سے ان کی روح چیخ اٹھی ہو۔ ان کے سر آپ ہی آپ نیچے جھکتے چلے گئے۔ ایسا لگا جیسے ان پر چھاجوں پانی پڑا ہو۔ وہ اپنے آپ کو ابتدال کی انتہائی پستیوں میں گلے گلے تک ڈوبتی ہوئی محسوس کرنے لگیں۔ مریم ایک بار پھر ان کو چت کر گئی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے