مد و جزر
میں پورے آٹھ سال کے بعد وہ حدود عبور کر رہا تھا۔ وہی حدود جہاں سے کبھی میں بےحد غمگین گذرا تھا لیکن اب مسکراتا ہوا آرہا تھا اور ان آٹھ سالوں نے مجھے ایک پگلے سے لڑکے کی بجائے ایک جہاں دیدہ اور تجربہ کار نوجوان بنا دیا تھا۔ میں نے نئے نئے ملک دیکھے تھے۔ قسم قسم کے آدمیوں سے ملا تھا۔ طرح طرح کی باتیں سیکھی تھیں۔ اب میرے خیالات کتنے وسیع تھے۔ میرا نظریہ کس قدر بلند تھا۔ اب جیسے ایک نئی دنیا میں سانس لے رہا تھا، جو پہلی دنیا سے نرالی تھی۔
میں نے ٹرین کی کھڑکی سے باہر دیکھا۔ گذرتے ہوئے اسٹیشنوں کو، پہاڑوں کو، پلوں کو، سرنگوں کو۔۔۔ مجھے ایک ایک چیز یاد تھی۔ ان سب کا نقشہ ہوبہو میرے ذہن میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے ان چیزوں کو اتنی مرتبہ دیکھا تھا کہ سب کچھ یاد ہو گیا تھا۔ وہ مخصوص شکل کی چوٹیاں، وہ لہراتی ہوئی ندیاں، وہ جنگل، سب کچھ وہی تھا بالکل وہی۔۔۔ جو آج سے آٹھ سال پہلے تھا لیکن حالات کس قدر مختلف تھے۔ تب میں زندگی سے بیزار تھا۔ میر ا نظریہ حیات شکست خوردہ تھا۔ تب مجھے دنیا کی کسی چیز سے دلچسپی نہ تھی، زندہ رہنے کی تمنا نہ تھی، چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا لیکن اب میری آنکھوں میں نور ہے۔ سورج فقط میرے لیے ہی چمکتا ہے، پھول محض میرے لیے ہی مسکراتے ہیں، ستارے محض میرے ہی لیے جگمگاتے ہیں اوردن رات کا یہ عجیب کھیل، یہ نوروظلمت کا امتزاج یہ صرف میرے ہی لیے ہے۔
دراصل یہ دنیا نہ تو غم کدہ ہے اور نہ راحت کدہ۔ نہ یہاں رنج بٹتے ہیں اور نہ خوشیاں تقسیم ہوتی ہیں۔ نہ ہی یہ ایک عذاب ہے اور نہ دلکش سپنا۔ یہ تو ایک خلا ہے ایک وسیع خلا، جس میں بذات خود زندگی کا نام ونشان تک نہیں۔ یہاں ہمارا دل نور کا منبع ہے، اسی کے جلا سے ہماری روح روشن ہے، اسی سے ہماری آنکھوں میں یہ تروتازگی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے۔ جب تک یہ شمع جلتی رہتی ہے ساری دنیا منور اور مسرور نظر آتی ہے۔
یہ چاند، سورج، ستارے سب ہماری اپنی روشنی سے نظر آتے ہیں اور جس روز یہ شمع بجھ جائے تو چاروں طرف ظلمت ہی ظلمت چھا جاتی ہے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ تب قدرت کا یہ کھیل کس قدر بے معنی اور بےرنگ وبولگتا ہے اور دل کے نور کے ساتھ روح کی جولانی اور آنکھوں کی شگفتگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
اور میرے دل کی شمع، جسے محبت کی شدید ناکامی نے ایک مرتبہ بجھا دیا تھا، میں نے خود اسے روشن کر لیا اور اب وہ تو اتنی روشن ہے کہ خود میری آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔
میں مسکرانے لگا۔ لڑکپن میں کیسی کیسی حماقتیں سرزد ہوتی ہیں؟ مجھے ثریا سے کس قدر محبت تھی، میں اسے کس قدر چاہتا تھا۔ بچپن سے اسے پوجتا تھا۔ آج تک مجھے محض ایک مرتبہ محبت ہوئی تھی۔ فقط ثریا سے۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ جب انتخاب کا وقت آیا تو ثریا نے اپنے پرانے رفیق کو چھوڑکر احمد کو چن لیا جو بالکل نووارد تھے، جن سے محض چند ہفتوں کی واقفیت تھی۔ جونہ خوبصورت تھے اورنہ ان میں کوئی خوبیاں تھیں۔ پتہ نہیں ثریا نے ایسا کیوں کیا تھا۔
اتنے قلیل عرصے میں وہ ثریا کو اتنے بھائے کہ وہ میری اتنی طویل رفاقت بھول گئی۔
محبت بھی کیسی عجیب چیز ہے؟ بالکل طوفان کی طرح ابھی تندوتیز ہے، ابھی رخ پلٹا اور سکون ہی سکون ہے، جیسے کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ محبت کتنی غیریقینی شئے ہے۔ جیسے ہوا کارخ۔۔۔ نہ جانے کب بدل جائے۔
جس رات میں نے ثریا سے سب کچھ کہہ دیا تھا، اس نے کتنی سنگ دلی سے میری محبت کو ٹھکرایا تھا، جیسے کسی بےوقوف بچے سے باتیں کر رہی ہو۔ مجھ سے دو تین سال بڑی ضرور تھی لیکن یہ فرق برائے نام ہی تھا۔
اور مجھے کس قدر رنج ہوا تھا، جیسے کسی نے دل کچل دیا تھا۔ کتنے دنوں تک کھویا کھویا سا رہا۔ نہ دن کی خبر رہی نہ رات کی اور آخر ناامید ہوکر کہیں باہر نکل گیا اور یہ تبدیلی میرے لیے کس قدر بہتر ثابت ہوئی۔ اگر میں کامیاب ہو جاتا اور ثریا مجھے چن بھی لیتی تو اب تک شاید میں ایک گھریلو اور چڑچڑا شخص بن جاتا، جو شاید زندگی کی یکسانیت سے تنگ آچکا ہوتا۔ ایک ہی جگہ رہ رہ کر، ایک ہی قسم کی باتیں سن سن کر کبھی کا بوڑھا ہو چکا ہوتا۔
لیکن اب میں کس قدر مختلف ہوں۔
میں آئینے کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ کشادہ شانے، بھرا ہوا سینہ، اونچا قد، مسکراتا ہوا چہرہ، آنکھوں میں نور، گالوں پر سرخی، لبوں پر ایک عجیب سی شرارت آمیز مسکراہٹ۔ کیا کوئی اس مسکراہٹ کو چرا سکتا ہے؟ نہیں! اسے نہ کوئی چرا سکتا ہے، نہ چھین سکتا ہے۔ اب یہ مسکراہٹ ہمیشہ رہےگی بلکہ بڑھتی جائےگی۔
اس طویل عرصے میں میں نے مصیبتوں پر قہقہے لگائے تھے۔ زندگی کی ظلمتوں میں، دل کوخون کر دینے والے حالات اور بھاری سے بھاری غموں میں میرا مغرور سر کبھی نہ جھکا۔ نہ ہی میں نے کسی کو اپنی مدد کے لیے پکارا۔ میں اپنے سفینے کا خود ہی ناخدا بن گیا اور اب میرا دل مضبوط ہے چٹان کی طرح۔ میرے عزم آہنی ہیں۔ میرے ارادے بلند ہیں۔ میرے خیالات پختہ اور وسیع ہیں۔ میر انظریہ حیات فاتحانہ ہے۔ مجھ پر ہر شئے مسکراتی ہے۔ مجھ پر دنیا مسکراتی ہے۔ تلخ سے تلخ غم میرے مضبوط دل پر اثر نہیں کر سکتا۔ بڑی سے بڑی ناکامی بھی مجھ سے میرا سکون قلب نہیں چھین سکتی۔
اور آٹھ سال پہلے میں ایک بےوقوف سا لڑکا تھا۔ زردرو لڑکا جو ہر دم خواب دیکھا کرتا تھا، جس کی زندگی ثریا کے قدموں میں نثار تھی، جس کا دل ثریا کی محبت میں تلملایا کرتا تھا، جس کی آنکھوں میں ہمیشہ آنسو رہتے تھے، جوہمیشہ ناممکن باتوں کے متعلق سوچا کرتا تھا۔۔۔ اگریہ ہو جائے تو۔۔۔ اگر وہ ہو جائے تو۔۔۔
میں ہنس پڑا۔ اب میں کیا کتنا بدل گیا ہوں۔ اگر کہیں احمد مجھے مل جائیں تو ان کا شکریہ ادا کروں گا۔ اگروہ نہ آتے تو نہ میں ٹھکرایا جاتا، نہ تو یہ خوشگوار تبدیلیاں میری زندگی میں ہوتیں۔ توبہ توبہ! میں بھی کس قدر احمق رہ چکا ہوں۔
میں نے گھڑی کی طرف دیکھا، چار بجے تھے۔ کل علی الصبح چار بجے، پورے بارہ گھنٹے کے بعد میں گھر پہنچ جاؤں گا۔ عزیزوں سے ملاقات کس قدر خوش گوار ہوگی۔ اتنے طویل عرصے کے بعد اور پھر اتنے عرصے تک میں نے انہیں کبھی بھی تو یاد نہ کیا تھا۔ مجھے دیکھ کرحیران رہ جائیں گے۔ آج دسمبر کی اکتیس تاریخ ہے۔ کل نئے سال کا نیا دن طلوع ہوگا!
میں نے سگریٹ سلگائی اور کش لگانے لگا۔
اور ایک اسٹیشن پر سچ مچ احمد مل گیا۔ پہلے تو مجھے یقین ہی نہ آیا۔ بری طرح سے چمٹ گئے اور مجھے ٹرین سے اتار لیا۔ بولے کچھ روز ٹھہرو۔ میں نے معذرت کی تو مجبور کرنے لگے۔ میری ایک نہ چلی اور طے ہوا کہ کم از کم ایک رات تو ٹھہر جاؤں، کل صبح کی ٹرین سے چلا جاؤں۔ میں نے انہیں غورسے دیکھا۔ کتنے تبدیل ہو گئے تھے؟ عینک لگ گئی تھی، چہرے پر جھریاں پڑ گئی تھیں، جسم ڈھیلا ہو گیا تھا، بوڑھے لگتے تھے۔ خوبصورت تو پہلے بھی وہ نہ تھے لیکن اب تو بالکل یونہی سے لگتے تھے۔
’’ثریا سے بھی مل لوگے۔‘‘ وہ بولے، ‘‘ بھلے آدمی صدیاں گذر گئیں، کچھ بھی تو پتہ نہ چلا تمہارا۔ رنج تو واقعی ہوا تھا تمہیں لیکن ایسا بھی کیا کہ زندگی سے بیزار ہوکر خانہ بدوشی شروع کر دی؟‘‘ اور ہم دونوں ہنس پڑے۔
ذراسی دیر میں ہم کار میں ان کے گھر جا رہے تھے۔
’’آخر کہاں رہے تم اتنے دنوں تک؟ کبھی کبھار سن لیا کرتے تھے کہ روزبروز مشہور ہوتے جا رہے ہو اوربہت مال دار ہو گئے ہو۔ کیوں؟‘‘
’’ہاں! بڑا لطف رہا۔ دنیا دیکھی۔۔۔ زندگی دیکھی۔‘‘
اور ہم گھر پہنچ گئے۔
ثریا ملی۔ بالکل ویسی ہی حسین۔ اتنی ہی پیاری۔ اتنے طویل عرصے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ آنکھوں میں وہی افسوس تھا۔ لبوں پر وہی مسکراہٹ اور پیشانی پر وہی نور۔ احمد بولے، ’’لو تم بھی دل ہی دل میں شاید کڑھا کرتی تھیں کہ ان صاحب کو اتنا رنج ہوا ہوگا، اتنا قلق ہوا ہوگا۔ یہ دیکھ لو ماشا ء اللہ کیا قسمت ہے۔ کیا شکل وصورت ہے۔ کیا مسکراہٹ چہرے پر کھل رہی ہے۔ قسم لے لو جو اتنا سا بھی رنج ہوا ہو۔ کیا سجیلے جوان بن گئے ہیں۔‘‘
ہم مسکرا رہے تھے۔ چائے کا دور چل رہا تھا۔ پرانی باتوں پر قہقہے لگ رہے تھے۔ کتنی دیر ہم یونہی بیٹھے رہے اور پھر احمد کو کہیں سے بلاوا آ گیا اور وہ کچھ دیر کے لیے باہر چلے گئے۔
اب ثریا مسکراکر بولی، ‘‘ بیگم کہاں ہیں؟‘‘
’’کس کی بیگم؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تمہاری!‘‘
’’نہیں تو! کوئی بیگم مل ہی نہ سکیں، مجھے اپنے ساتھ ہمدردی ہے۔‘‘ میں نے شوخی سے کہا۔
لیکن ثریا کو جیسے اس بات سے غم ہوا۔ وہ چپ ہو گئی۔
’’کیوں شادی کیوں نہ کی تم نے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’یونہی۔۔۔‘‘
’’کس لیے آخر؟‘‘
میں چپ رہا۔ میں نے فوراً باتوں کارخ پلٹ دیا اور اب سفر کی باتیں شروع کر دیں۔ طرح طرح کے لطیفے، چٹکلے اور بڑی دلچسپ باتیں سنا رہا تھا لیکن میں اکیلا ہی ہنس رہا تھا اور ثریا ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر بےحد سنجیدگی تھی۔
’’ایک بات پوچھوں۔ سچ بتاؤگے کیا؟‘‘
’’ہاں ہاں!‘‘
’’پھر کبھی کوئی لڑکی اچھی لگی؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’جھوٹ!‘‘
’’سچ! خدا کی قسم تمہاری قسم!‘‘ میں بولا۔
’’کیوں؟‘‘
’’بس یونہی!‘‘
وہ کھوئی کھوئی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگی۔ ایسی نگاہوں سے آج تک کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ وہ عجیب ہی نگاہیں خوابیدہ سی، حسرت بھری، غمناک نگاہیں۔ نہ جانے کتنی دیر اسی طرح گذر گئی اور مجھے خبر نہ رہی کہ میں کہاں بیٹھا ہوں۔ بس میں دو پرفسوں آنکھوں کے سامنے مجبور بیٹھا تھا۔ پھر وہ بولی، ’’کیا تمہیں اپنا بچپن یاد ہے؟ اپنا اور میرا۔ کیا تمہیں وہ پرانی رفاقت بھی یاد ہے؟ کیا تمہیں اس بھرے باغ کا وہ خوبصورت گوشہ یاد ہے، جہاں سرخ رنگ کے کمرے تھے۔۔۔ ہمارے کمرے۔
ہمارے کمرے کتنے پیارے تھے۔ دیواروں پر رنگ برنگی تصویریں تھیں۔ چھت سے طرح طرح کے غبارے آویزاں تھے اور میزوں پر ہماری پر یوں کی کہانی کی کتابیں۔ کھلونے اور بجلی کے رنگین لیمپ رکھے تھے۔ کیا تمہیں وہ سفید اجلے پھولوں والا پودا بھی یاد ہے جو ایک دریچے میں سے اندر جھانکا کرتا تھا اور بعض اوقات تو ہوا کے جھونکوں سے اس کی ٹہنیاں جھوم جھوم کر بالکل اندر آ جایا کرتی تھیں۔ اس کی ٹہنیوں میں کتنے بےشمار پھول کھلتے تھے اورجب رات کو چاند اس دریچے کے پاس سے گزرتا تو اکثر اسی پودے کی خاردار ٹہنیوں سے الجھ جاتا اور دیر کے بعد نکلتا۔‘‘
میں نے اثبات کے طور پر سر ہلا دیا۔ وہ بولی، ’’ہم کتنے پیارے بچے تھے۔۔۔ کیسے ہنس مکھ اور خوبصورت۔۔۔ ہم دونوں کی تصویریں اب تک رکھی ہیں۔۔۔ ہمیں ایک دوسرے سے کتنی محبت تھی۔۔۔ کبھی ایک دفعہ بھی تو نہیں لڑتے تھے۔ نہ کبھی کوئی رنجش ہوئی تھی۔ ہر وقت ہنستے رہتے تھے۔ ہمارے پڑوس میں رہنے والے بوڑھے انگریز اور ان کی بیوی کو تم نہیں بھولے ہوگے۔ وہ ہم سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ آس پاس کتنے سارے بچے رہتے تھے۔ لیکن ایسی ہم ہی صرف اچھے لگتے تھے۔ یاد ہے جب ایک روز ہم ان کے لیے پھولوں کے گلدستے بناکر لے گئے تھے تو انہوں نے ہمارے چہرے چوم لیے اور بولے کہ ان پھولوں سے کہیں زیادہ دمک اور تروتازگی توتم دونوں فرشتوں کے چہروں پر ہے۔
اور کیا تمہیں وہ بادل بھی یاد ہے جو چپکے سے ہمارے کمرے میں چلے آتے تھے۔۔۔ جب اجلے اجلے بادل ڈرتے ہوئے سروکے درختوں کے اوپر سے گزرنے لگتے تو ہم جلدی سے سب دریچے بند کر لیا کرتے لیکن بادل فوراً اندر آ جاتے اور دھواں ہی دھواں ہو جاتا۔ کیا تہیں وہ شہد کی مکھیاں بھی یاد ہیں جو پھولوں کے تختوں پر بھنبھنایا کرتی تھیں اور اونچے درختوں میں ان کے بڑے بڑے چھتے تھے۔ نوکر اکثر ہمیں شہد کے چھتے لاکر دیا کرتے تھے۔ وہ جھیل تو نہیں بھولی ہوگی، جو ایک میل پرے پہاڑیوں میں تھی۔
کتنی منتوں کے بعد ہمیں وہاں کشتی کی سیرکی اجازت ملی تھی۔ ہماری انا ساتھ چلی گئی تھی۔ ذرا دیر پہلے بارش ہوئی تھی۔ ہوا کے خنک جھونکوں سے ہم ٹھٹھر رہے تھے لیکن کشتی کے سیر کا شوق بےانتہا تھا۔ جھیل میں کیسی رنگ رنگ کی مچھلیاں تھیں اور جب ہم جھیل کے وسط میں تھے تو یکایک ایک قوس قزح درختوں کے جھنڈ سے نکل آئی اور آسمان کو طے کرتی ہوئی پہاڑیوں پر چلی گئی اور جھیل پر ایک رنگین پل بنا دیا۔ یاد ہے؟‘‘
’’ہاں یاد ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ بڑی پیاری آواز میں بولی، ’’تمہیں وہ قوس قزح بھی یاد ہے، جو بارش کے بعدہمارے باغ کے اوپر نکلا کرتی تھی۔ کتنے بے شمار رنگ ہوا کرتے تھے۔ تم مجھ سے ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ ہم دونوں ایک دن کسی قوس قزح پر چلتے چلتے دور چلے جائیں گے۔ تاروں کی دنیا میں، جہاں پہنچ کر شاید ہم دونوں مسکراتے ہوئے تارے بن جائیں گے۔ ایک مرتبہ ہم قوس قزح کے سرے کی تلاش میں نکلے تھے جو چنارکے درختوں کے اوپر تھا لیکن اتنے میں بادل چھٹ گئے۔ سورج نکل آیا اور قوس قزح غائب ہوگئی۔ اب بھی بارش کے بعد اکثر قوس قزح نکلتی ہیں، بالکل ویسی ہی۔
اور کیا تمہیں وہ بوڑھی انا بھی یاد ہے۔ وہی پر شفقت انا جس کا دل سونے کا تھا جو ساری ساری رات ہمیں پریوں کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ جب کبھی تمہاری امی ڈانٹتیں یا مجھے شرارتوں پر دھمکایا جاتا تو ہم رونی صورتیں بناکر دریچوں میں بیٹھ جاتے، تب ہمیں سب بزرگوں پر کیسا کیسا غصہ آتا۔ اس وقت ہماری محبوب انا ہی ہماری غمخوار ہوتی تھی۔ وہی آکر ہمیں ہنساتی، گدگدیاں کرتی۔ کیا تم اس کی لوریاں بھول گئے؟ وہ محبت بھری پیاری لوریاں، وہ چھوٹے چھوٹے گیت جواس کے سادے اور پرخلوص دل سے نکلتے تھے۔ ہم غصے میں آکر نہ جانے اسے کیا کیا کہہ دیا کرتے لیکن وہ کبھی برانہ مانتی اور اس کا بھولا بھولا نورانی چہرہ ہمیشہ جگمگاتا رہتا۔ اب وہ دوسری دنیا میں ہے۔ مرتے وقت اس نے تمہیں بہت یاد کیا۔ تمہیں دیکھنے کے لیے وہ بہت بے قرار رہی، بہت تڑپی اور بار بار یہی پوچھتی رہی کہ تم کہاں ہو؟ تمہارا کوئی خط نہیں آیا؟ اور مرتے دم آخری لفظ جو اس کی لبوں سے نکلا وہ تمہارا نام تھا۔‘‘
انا کے نام پر میری آنکھیں پرنم ہو گئیں۔ میرا دل بھر آیا۔
’’کیا تمہیں وہ تتلیاں بھی یاد ہیں جو دریچوں سے اڑتی ہوئی کمرے میں آ جاتی تھیں۔ ہمارے کمرے کے گرد بےشمار پھولوں کے پودے تھے، کئی پھول دار بیلیں تھیں۔ تمہیں وہ سیٹیاں بجانے والے پرندے تونہ بھولے ہوں گے، جن کے کئی پنجرے دالان میں آویزاں تھے۔ تم انہیں طرح طرح کی سریلی سیٹیاں ہر روز سکھایا کرتے تھے اور جنگل بھی تمہیں یاد ہوگا جو ہمارے باغ سے شروع ہو جاتا تھا۔ ہمیں نوکر وہاں لے جایا کرتے تھے اور جب ہم پہلی مرتبہ وہاں گئے تھے تو کتنا ڈر لگا تھا۔ میں تو بالکل سہم گئی تھی اور جب نوکر شہد کے چھتوں کی تلاش میں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تو میں کتنی ڈری تھی۔ کانپتی ہوئی تم سے چمٹ گئ تھی۔ میں تم سے کچھ بڑی تھی لیکن تمہارے سینے سے اپنا سرچسپاں کرکے مجھے کتنی ڈھارس پہنچی تھی لیکن کانپتی بدستور ہی۔ تم نے مجھے دلاسا دیا، میری ہمت بندھائی۔
تمہیں یاد ہے کہ تم نے میرے گالوں کو چوم لیا تھا جو بالکل زرد تھے اور میرا چہرہ اتنا تمتمایا کہ وہ وحدت مجھے اب تک یاد ہے۔ اب بھی میں اکثر وہاں جایا کرتی ہو ں، وہاں سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ ویسے ہی آسمان سے باتیں کرتے ہوئے شاہ بلوط کے درخت ہیں، وہی کانٹو ں بھری جھاڑیاں ہیں، جن میں گلابی رنگ کے میٹھے میٹھے پھل لگتے ہیں۔ وہی پیچ دار بیلیں ہیں، جو پھولوں سے لدجاتی ہیں۔ وہی خود رو جنگلی پھول ہیں، جو گھاس سے سرنکال کر جھومتے ہیں اور تمہیں وہ صنوبر کا درخت بھی یاد ہے جس کے تلے سبزے پربیٹھ کر ہم پھل اور شہد کھایا کرتے تھے۔ وہ درخت جوں کاتوں ہے۔ اس کے نیچے ا بھی سبزہ لہلہاتا ہے، پھول مسکراتے ہیں اور جھینگر شور مچاتے ہیں۔‘‘
اور سب کچھ میری آنکھوں میں پھر رہا تھا۔ شاید میں خواب دیکھ رہا تھا۔
’’تمہیں وہ چاندنی راتیں یاد ہیں، جب ہم دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے باغ میں پھرا کرتے تھے۔ ان دنوں میں کتنی ڈرا کرتی تھی۔ ذرا سی آہٹ ہوتی اور میں تم سے چمٹ جاتی اور تم دلیربن کر اس آہٹ کی تلاش میں درختوں کے جھنڈ میں بھی چلے جاتے تھے۔ اب بھی میں ڈرا کرتی ہوں۔ رات کو کوئی آہٹ سنائی دے جائے تو سہم جاتی ہوں اور کیا اون کی بلی یاد ہے تمہیں، جو تم نے میری سالگرہ پر مجھے دی تھی۔ اب بھی وہ میرے پاس رکھی ہے۔۔۔ بالکل ویسی ہی چمکیلی ہے۔ فقط اس کے گلے کاربن کھو گیا اور میں نے نیا باندھ دیا ہے۔ میں نے اسے ایسی جگہ رکھا ہے جہاں وہ ہر روز مجھے نظر آ جاتی ہے۔۔۔‘‘
وہ بدستور بول رہی تھی۔ اس کے لب ہل رہے تھے اور میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے دیکھ رہا تھا، جن میں وہی فسوں تھا، و ہی گہرائی تھی اور وہی معصومیت تھی۔ میرے سامنے وہی پیاری مورت بیٹھی تھی۔ وہی حسن کی دیوی۔۔۔ بلا کی حسین ثریا۔ میرے بچپن اور لڑکپن کی رفیق۔ وہی بھولی بھالی لڑکی جس کی بہکی بہکی نگاہیں، کھوئی کھوئی باتیں مجھے جان سے زیادہ عزیز تھیں۔
میں نے ان ہلتے ہوئے سرخ ہونٹوں کو دیکھا۔ یہ وہی ہونٹ توہیں جنہیں میں نے بارہا چوما تھا۔ ان میں جنگلی شہد کی سی مٹھاس تھی۔ عجیب سی جلن اور تمازت تھی۔ یہ وہی گلابی رخسار ہیں، وہی سنہری لٹیں ہیں، وہی دلکش پلکیں ہیں، جنہیں چوم چوم کر دیوانہ ہو جایا کرتا تھا۔ یہ وہی نازک بازو ہیں جو میرے گلے میں حمائل رہا کرتے تھے اور یہ وہی حسین و جمیل چہرہ ہے جو میرے سینے سے لگ کر سرگوشیوں میں پیار بھری باتیں کیا کرتا تھا۔
اور اس آٹھ سال کے طویل عرصے میں کس قدر بدل گیا تھا۔ اس عرصے میں نہ مجھے کبھی ثریا یاد آئی، نہ کبھی اداس ہوا۔ میں نے کسی کو بھی یاد نہیں کیا۔ نہ مجھے احمد پرر شک آیا، نہ حسد ہوا۔ میں سب کچھ بھولنے نکلا اور کامیاب ہو گیا اور اب جب کہ میں اپنی نئی زندگی سے مطمئن ہوں تو نہ جانے کیوں ثریا مجھے بھولے بسرے خواب یاد دلا رہی تھی اور یہ خواب کیسے صاف اور صحیح ہیں۔ دراصل یہ خواب نہیں ہیں حقیقتیں ہیں اور میں سب کچھ بھول جانے پر بھی کچھ نہیں بھولا۔ مجھے سب کچھ یاد ہے۔ اس طویل عرصے میں یہ پرانی یادیں میرے دل کے کسی حصے میں محفوظ رکھی ہیں۔ ایک چنگاری راکھ میں دہکتی رہی اور اب کوئی اس چنگاری کو ہوا دے رہا ہے۔
دفعتاً مجھے خیال آیا کہ مجھے سب کچھ یاد ہے۔ ایک ایک بات یاد ہے۔ اے میری روح! اے میرے خوابوں کی تعبیر! میری عزیز ترین شے! میری پیاری ثریا! مجھے سب کچھ یاد ہے۔ میں کچھ بھی تو نہیں بھولا۔ مجھے وہ بچپن یاد ہے جو ہم نے اکٹھے گزارا تھا۔ مجھے تمہاری طویل رفاقت یاد ہے۔ تم واقعی نہایت ہی خوبصورت بچی تھیں اور اب بھی تم اتنی ہی حسین ہو، اتنی ہی پیاری ہو۔ مجھے وہ رنگ برنگے پھول اور وہ ناچتی ہوئی تتلیاں بھی یاد ہیں۔ وہ جگمگاتے ہوئے لمحے بھی یاد ہیں جو ہم نے اکٹھے گزارے تھے۔ وہ ہرا بھرا باغ، وہ گھنا جنگل، شاہ بلوط کے دیو قامت درخت، جھل مل کرتی ہوئی خوابیدہ جھیل، خوشنما قوس قزح، و ہ صنوبر کا تنہا درخت، سب کے سب میری آنکھوں کے سامنے پھر رہے ہیں۔
میں نورانی چہرے والی مشفق انا کو بھی نہیں بھولا۔ خدا اس کی لحد پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے۔ اگر چہ میں اسے اب کبھی نہیں دیکھ سکتا لیکن اس کے پرشفقت ہاتھ کا لمس اب بھی محسوس کرتا ہوں اور مجھے محبت کی وہ تندو تیز آگ بھی یاد ہے، جس میں پھنکا کرتا تھا۔۔۔ تمہاری محبت کی آگ۔ اب بھی میں یہی سوچتا ہوں کہ وہ محض محبت ہی نہیں تھی بلکہ کوئی اور جذبہ تھا۔۔۔ محبت سے بھی معصوم اور بلندتر۔۔ اور تمہارا جس قدر احترام میرے دل میں پہلے تھا، اتنا ہی اب بھی ہے۔
مجھے تمہاری محبت بالکل نہیں بھولی۔ وہ محبت جو لمحہ لمحہ بڑھتی گئی اور مجھے اپنی پہلی اور تلخ ترین شکست بھی یاد ہے۔ وہ دن بھی یاد ہے جب دبی سہمی ہوئی محبت کا جنازہ نکلا تھا۔ میری آرزوئیں امنگیں سب دفن ہو گئی تھیں۔ اس دن کے بعد میں نے کبھی محبت کے متعلق سوچا ہی نہیں۔ کتنی التجاؤں کو ٹھکرا دیا، کتنی پیار بھری نگاہوں کو مایوس کر دیا۔ محبت سے میرا عقیدہ اٹھ گیا کیونکہ ہم زندگی میں محض ایک مرتبہ محبت کر سکتے ہیں اور ہم اس دنیا میں آکر ایک دوسرا جنم بھی لیتے ہیں۔ جس روز ہمیں محبت کی سی نعمت عطا ہوتی ہے، تب ہم ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح موت بھی دو مرتبہ آتی ہے۔ ایک تو طبعی موت اور دوسری محبت کی ناکامی، جس کے بعد روح اور دل و دماغ سب مر جاتے ہیں۔ میں نے نئی زندگی پائی تھی لیکن میں نے اس روز موت کا بھی مزہ چکھ لیا تھا جب تم نے اپنے پرانے رفیق کو ٹھکرا کر ایک اجنبی کو چن لیا تھا۔ شاید میری محبت حقیر تھی یا میں اس قابل ہی نہ تھا یا شاید احمد تمہاری نگاہوں میں جچ گیا تھا۔
بالکل وہی ماحول تھا۔ وہی فضا تھی۔ ناچتی ہوئی تتلیاں، مسکراتے ہوئے پھول، چمکتا ہوا سورج، سب کچھ ویسا ہی تھا، جیسا ہمارے بچپن میں ہوتا تھا۔ یکا یک میری دنیا پرشام آ گئی۔ اندھیرا چھا گیا اور میں ظلمت میں کھو گیا۔ تب میرے دل کی پکار کسی نے نہ سنی۔ میری آہیں میرے سپنے میں رہ گئیں۔ یہ سارا غم میری روح ہی میں سماکر رہ گیا۔
یہ چاند تارے، سورج، یہ قدرت، کتنی ظالم ہے؟ محبت کے آغاز میں یہ طرح طرح کے اشاروں اور کنایوں سے دل کو کس قدر مسرور بنا دیتی ہے۔ کیسی کیسی امیدیں پیدا ہوتی ہیں، کیسی کیسی خوشیاں برستی ہیں۔ اس کے بعد محبت کی ناکامی کے بعد بھی یہ اسی طرح کچوکے لگاتی ہے۔ یہ کیسی عجیب خدائی ہے۔ یہ کتنی عجیب دنیا ہے۔
لیکن ثریا اب غمگین کیوں ہے؟ سب کچھ اس کی خواہش کے مطابق ہوا، اب اس کی آنکھوں میں آنسو کیوں لرز رہے ہیں؟ یہ بیتے ہوئے دنوں کی باتیں کیوں کر رہی ہے؟ اسے وہ سہانا زمانہ کیو ں یاد آ رہا ہے؟ یہ اپنی موجودہ زندگی کی مسرتوں کی باتیں کیوں نہیں کرتی؟ یہ احمد کے متعلق باتیں کیوں نہیں کرتی؟ شاید اسے یہ زندگی پسند نہیں۔ شاید اس کا انتخاب غلط نکلا۔ شاید اسے احمد میں وہ ہستی نہ مل سکی جس کے لیے اس نے میری محبت کو ٹھکرا دیا تھا۔ شاید اس کے دل میں میری پہلی محبت جوں کی توں محفوظ ہے۔ شاید یہ میرے چہرے میں اس بھولے بھالے چہرے کو دیکھ رہی ہے جو اتنے دنو ں اس کا دوست رہا تھا۔
وہ بدستور ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتی رہی تھی۔ اس کی آنکھیں غمگین ہوتی گئیں۔ اس کی آنکھوں کی جھلملاہٹ بڑھتی گئی۔ ایک مرتبہ تو اس نے اپنی پلکوں پر اٹکے ہوئے دو موٹے موٹے آنسو پونچھ ڈالے۔ ملگجے دوپٹے کی روپہلی گوٹ میں اس کا چہرہ کتنا پیارا لگ رہا تھا۔ چاندنی میں وہ دنیا کی حسین ترین مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔ اتنے میں دو بچے آ گئے۔ ایک پگلا سا لڑکا اور ایک موٹی موٹی آنکھیں والی خوبصورت بچی۔
’’یہ کون ہیں؟‘‘
’’پڑوس میں رہتے ہیں۔ دونوں کی بڑی گہری دوستی ہے۔ ہمیشہ اکٹھے رہتے ہیں۔‘‘ میں نے انہیں پاس بلاکر گود میں بٹھا لیا اور پیار کرنے لگا۔ ثریا بچے کی طرف اشارہ کرکے بولی، ’’اس کا نام تو کچھ اور تھا لیکن میں نے اس کی امی کو مجبور کرکے بدل دیا اور اب اس کا نام تمہارے نام پر رکھا ہے۔ بالکل تم سا ہے، نہ جانے ہر وقت کیا سوچتا رہتا ہے، کچھ خواب سے دیکھتا رہتا ہے۔ بات بات پر اداس ہو جاتا ہے۔ تنہائی میں آنسو بہا نے بیٹھ جاتا ہے۔ نہ جانے کس دنیا میں رہتا ہے۔ ہو بہو تمہاری نقل ہے۔ اس بچی سے اسے اتنی محبت ہے کہ اس کے بغیر ایک لمحہ چین نہیں پڑتا۔‘‘
میں نے بچے کی آنکھوں کو دیکھا اور ایک طویل داستان میرے سامنے پھرنے لگی۔ بچپن کی معصوم رفاقت، لڑکپن کی سہمی ہوئی محبت اور پھر جوانی کی آگ۔ کیا ہمیشہ ایک ہی قصہ دہرایا جاتا ہے؟ کیا محبت کے پھیکے خواب شروع شروع میں ایسے ہی رنگین ہوتے ہیں؟ قدرت کو اس خونخوار کھیل میں کیا لطف آتا ہے؟ خدا نہ کرے کہ یہ بچہ جومجھ جیسا ہے، میری ہی طرح اجڑ جائے۔ خدا نہ کرے کہ اس کی زندگی میں بھی ایسی تلخ گھڑیاں آئیں۔
احمد آ گئے اور پھر دیسی ہی باتیں شروع ہو گئیں۔ وقت گزرتا گیا اور کافی رات گئے میں سب کو شب بخیر کہہ کر اپنے کمرے میں گیا۔ طبیعت میں الجھن سی تھی۔ نہیں یہ محض الجھن ہی نہیں تھی، جلن تھی۔ آنکھیں پرنم ہوتی جاتی تھیں۔ دل بیٹھا جا رہا تھا۔ میں دریچے کے پاس کھڑا ہو کر باہر دیکھنے لگا۔ نہایت ہی سہانی چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ آسمان سے نور برس رہا تھا۔ پھول، پتے، ٹہنیاں سب پر ایک روپہلی ملمع چڑھا ہوا تھا۔ چاندنی میں ہر ایک چیز کیسی کیسی عجیب لگتی ہے اور یہ سایے کیسی پراسرار مخلوق ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ان میں جن ہے۔ یہ تھرکتے بھی ہیں اور گھٹتے بڑھتے بھی رہتے ہیں۔
نہ جانے کیوں میں کمرے سے باہر نکل آیا اور چپکے سے باغ میں چلا گیا۔ چاند اتنی تیزی سے چمک رہا تھا کہ آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ میں باغ میں پھرتے پھرتے ایک سرو کے پاس بیٹھ گیا۔ اب میں چاند کو پتلی پتلی ٹہنیوں کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
میرا دل تلملا اٹھا۔ ایک سیلاب آیا اور سب کچھ بہا کر لے گیا۔ ایک طوفان نے سب کچھ زیرو زبر کر دیا اور میری آنکھو ں کے سامنے آج سے آٹھ سال پہلے کی ایک ایک بات ابھرنے لگی۔ میرے خدا ایسی ہی تو حسین رات تھی۔ یہی چاند تو مسکرا رہا تھا۔ یہ نورانی آسمان محیط کیے ہوئے تھا۔ یہی ننھے منے تارے ٹمٹما رہے تھے۔ بالکل ایسی ہی رات تھی جب میں نے ثریا سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ اس محبت کا اظہار جو مجھے ہمیشہ سے تھی۔ ازل سے تھی۔ اس رات وہ کتنی حسین دکھائی دے رہی تھی۔ آج تک میں نے حسن کو ایسے روپ میں کبھی نہیں دیکھا۔
میں نے اس کا بازو اپنے ہاتھ میں لے کر کہا تھا، ‘‘ میں جانتا ہوں کہ یہ سب خواب ہے جبھی تو تم اتنی حسین معلوم ہو رہی ہو۔ یہ ملکوتی حسن، یہ دلآویز تبسم، یہ فسوں، یہ اس دنیا سے ہرگز تعلق نہیں رکھتے۔ جلدی کرو، چاند غروب ہونے والا ہے۔ درختوں کے سایے لمبے ہو جائیں گے اور اس جھنڈ کے پیچھے چاند چھپ جائےگا اور یہ پھول کلیاں اور پتے سب سو جائیں گے۔ یہ جھینگر جو گا رہے ہیں، اس درخت کے سایے میں جہاں کرنیں چھن رہی ہیں، وہ پرندہ جو اڑا جا رہا ہے دیکھا تم نے۔ وہ راستہ ہے ہمارا۔ آج ہم کرنوں پر چلتے جائیں گے حتیٰ کہ ایسے طلسم زدہ مقام پر پہنچ جائیں گے، جہاں ہم دو مسکراتے ہوئے پھول بن جائیں گے۔ ایک ہی ٹہنی کے دو حسین پھول۔ ایک دوسرے کو چومتے ہوئے پھول جنہیں شبنم چمکارےگی، نسیم سحری جھولا جھلائےگی اور جن کی خوشبو سے گلشن مہک اٹھےگا۔
یہ روپہلی روشنی جو پتوں پر ناچ رہی تھی، یہ آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے تارے، یہ ہوا کے سرگوشیاں کرتے ہوئے جھونکے، یہ زندگی کا پراسرار طلسم، یہ صبح و شام کی رنگینیاں، یہ سب تمہاری محبت کے کرشمے ہیں۔ تمہارے جگمگاتے ہوئے پیارے چہرے کو دیکھ کر میری آنکھوں میں نور آ جاتا ہے۔ کیا میری آنکھیں میرے دل کے شدید طوفان کو ظاہر نہیں کرتیں؟
وہ مسکرائی اور ساری کائنات مسکرانے لگی۔ ہم ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، جس کی چوٹی ستاروں تک پہنچتی تھی، پھر میں نے اسے اپنے خواب سنائے اور جیسے اپنی ساری زندگی اسے سونپ دی۔ اپنا معصوم بچپن، بیوقوف سا دل، گھبرائی ہوئی روح، سہمی ہوئی محبت، سب کچھ اس کے قدموں میں رکھ دیا۔ زندگی کے عجیب سفر کو میں سمجھنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ ایسے سفر، جس کی ابتداکا علم ہے نہ انتہا کا لیکن اس وقت میں نے زندگی کا راز بھی پا لیا تھا۔ اس کے قریب میں ہی میری زندگی تھی، زندگی کی مسرتیں پنہا تھیں، زندگی کا مقصد تھا۔ میری روح، میرے خواب، میری امیدیں، سب کے سب اس کی رفاقت کے لیے ترس رہے تھے۔ میں نے آخری منزل ڈھونڈ لی ہے۔
میں نے اس کا نازک سا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا لیا اور بولا، ’’تم قدرت کی حسین ترین چیزوں سے بھی زیادہ حسین ہو۔ مجھے ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے میں تمہاری پیاری باتیں سنائی دیتی ہیں۔ میں بہتی ہوئی ندی کے شور میں تمہارے قہقہے سنتا ہوں۔ طلوع ہوتے ہوئے سورج میں تمہارا مسکراتا ہوا چہرے نظر آتا ہے، چاند میں تاروں میں کھلکھلاتے ہوئے پھولوں میں شرماتی ہوئی کلیوں میں ہرجگہ تم ہی تم ہو۔ تم میری دنیا پر چھا گئی ہو، میری آنکھوں میں بس گئی ہو، میری روح میں سما گئی ہو۔ میرے دل میں تمہارے لیے محبت ہی نہیں ایک زبردست جذبہ بھی ہے، محبت سے بھی اعلیٰ اور بلندتر۔
اگر تم میری ہو جاؤ تو میری زندگی بدل جائے۔ میری دنیا بدل جائے۔ میری صبح و شام بدل جائے۔ میرے خوابوں کی تعبیر پوری ہو جائے اور میری زندگی میں اتنی مسرتیں چلی آئیں جتنی شاید بہشت میں بھی نہ ہوں گی۔ اس کے بعد میں کوئی مزید مسرت خدا سے نہ مانگوں گا۔ میں اپنا پرخلوص دل تمہارے قدموں میں رکھ دوں گا۔ ایسا دل جس میں تم ہی تم ہوگی۔ میں ان آنکھوں کی، ان پلکوں کی، ان لٹوں کی پرستش کیا کروں گا اور اس جگمگاتے ہوئے چہرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھا کروں گا جب تک کہ میری آنکھوں میں نور ہے، تم ہی میری آنکھوں میں رہوگی۔‘‘
لیکن اسے یہ سب کچھ اچھا نہ لگا۔ میری التجائیں بیکار ثابت ہوئیں۔ اس کے دل پر کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے یاد رکھےگی۔ شاید کبھی کبھار میں اس کے خوابوں میں بھی آجاؤں لیکن اس نے یہ صاف صاف بتا دیا کہ ہماری راہیں مختلف ہیں۔
وہ بولی، ‘‘ تم عمر میں چھوٹے ہو، ناسمجھ ہو، تمہاری طبیعت میں بچپنا ہے۔ کاش تم سمجھ سکتے کہ دنیا میں زیادہ آرزوئیں ایسی ہیں جو نابود ہو جاتی ہیں، زیادہ امیدیں ایسی ہی جو زندہ دفن ہو جاتی ہیں، زیادہ خواب ایسے ہیں کہ جو کچلے جاتے ہیں اور اکثر دل ٹوٹ جایا کرتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کبھی ایک دوسرے کے رفیق نہیں بن سکتے۔ مجھے افسوس ہے، بہت افسوس ہے، کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ تم اب جاکر روؤگے اوراس رات کو دیر تک نہیں بھولوگے لیکن میں مجبور ہوں۔‘‘
میں نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور جیسے چلا کر بولا، ’’تم میری ہو۔ تم یونہی نہیں جا سکتیں۔ مجھے اس طرح نہیں چھوڑ سکتیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ ازل سے ساتھی ہیں اور ابد تک رہیں گے۔ تمہاری روشنی سے میری کائنات منور ہے۔ تم سے ہی میری زندگی میں چہل پہل ہوگی۔ تم بسا بسایا ایوان کیوں کر اجاڑکر چلی جاؤگی۔‘‘
’’مجھے بہت ہی افسوس ہے۔ تم سمجھ نہیں سکتے لیکن تم نے ایک مصیبت میرے گلے میں ڈال دی ہے۔ اب تم مجھے یاد آؤگے۔ مجھے تم پر کتنا ترس آیا ہے، شاید تم اندازہ نہیں لگا سکتے۔ میں تمہیں کبھی نہ بھول سکوں گی اور یہ رات مجھے ہمیشہ یاد رہےگی۔ ’’
’’لیکن کیوں؟ کیا میرا دل بالکل حقیر ہے؟ کیا میں اس قابل نہیں؟‘‘
’’نہیں نہیں! یہ بات نہیں۔ اب احمد آ گئے ہیں۔ ان کے آنے سے پہلے اگر تم نے یہ سب کچھ کہا ہوتا تو شاید۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اب یہ سب فضول ہے۔ اب احمد آ گئے ہیں۔ میں تمہیں برا تو نہیں کہتی، تم اچھے ہو لیکن احمدبہت اچھے ہیں۔ بہت ہی اچھے ہیں۔‘‘
میں نے اس کے ہاتھ چھوڑ دیے اور پیچھے ہٹ گیا۔ کچھ دیر سر جھکائے کھڑا رہا۔ مجھے چکر سا آ گیا اورمیں گھاس پر بیٹھ گیا اور جب وہ چلی گئی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے دل کی کھڑکیاں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں۔ میری روح کا طوفان اور وقت کا شور ختم ہو گیا۔ زندگی کی گردش مدھم پڑنے لگی اور بےمحور ہوکر رہ گئی۔ اب میرے دل میں نہ غم تھا نہ کسی سے شکوہ، نہ کوئی آرزو باقی تھی نہ جینے کی تمنا۔ کچھ بھی تو باقی نہ رہا تھا، جیسے میں نے اپنا ماضی اورمستقبل کچھ دفن کر دیا۔
وہ بیش بہاخزانہ جو میرے دل میں محفوظ تھا، میرے لبوں پر آکر ضائع ہو چکا تھا۔ محبت کایہ مقدس جذبہ نطق کا سہارا لیتے ہی اپنی وقعت کھو چکا تھا۔ کیا میں اب کبھی پھر کبھی محبت کر سکوں گا؟ اور اگر کی بھی تو کیا وہ اتنی ہی پرخلوص اور صادق ہوگی؟
بلبل اپنے محبوب سے شکوے کرتی ہے، اس کے سامنے نالہ وشیون کرتی ہے اور چپ ہو جاتی ہے لیکن پہلی خاموشی اور دوسری خاموشی میں کتنا فرق ہے؟
اس کے بعد پتہ نہیں کیا ہوا، میرے صبح و شام کیوں کر گزرتے رہے۔ مجھے کچھ بھی تو یاد نہیں، میں سارا سارا دن تاریک گوشوں میں چھپا رہتا۔ کبھی کبھار شام کو باہر نکلتا۔ روشنی سے گھبراتا ہوا۔۔۔ انسانوں سے ڈرتا ہوا۔ میں چپ چاپ بیٹھا رہتا۔ کسی سے نہ بولتا۔ ایک ایک کرکے میں نے تمام دوست کھو دیے۔ اب میرا دل بالکل خالی تھا۔ یہاں تک کہ جو رشک یا حسد میرے دل میں احمد کے لیے تھا، وہ بھی نہ رہا تھا۔
مجھے ڈھونڈا جاتا۔ کمروں میں تلاش کیا جاتا اور میں ہمیشہ کسی تاریک کمرے میں تنہا ملتا۔ اس طرح دن گذرتے گئے اور وہ غم جو میرے دل پر مسلط تھا، آہستہ آہستہ میری روح پر چھا گیا۔۔۔ اور زندہ رہنا دوبھر ہو گیا۔ زندگی محال ہو گئی۔ دنیا سے جی بھر گیا۔
ایک روز میں نہ جانے کیا سوچ کر دور نکل گیا اور ایک اونچے پہاڑ پر چڑھ گیا۔ ایک بڑے پتھر پر بیٹھ کر کچھ سوچنے لگا۔ نیچے ایک برساتی ندی شور مچاتی ہوئی بہہ رہی تھی۔ چاروں طرف چٹانیں ہی چٹانیں تھیں۔ میں کافی بلندی پر تھا۔ تب میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا، اے میرے خدا، واقعی تیری دنیا دیکھنے میں بڑی ہی دلکش ہے، نہایت ہی رنگین اور سنہرا سپنا ہے اور زندگی نہایت خوبصورت شے ہے لیکن درحقیقت یہ سب کچھ ایک دھوکہ ہے اور جب حقیقت سے دوچار ہونا پڑے تو یہ پردہ آنکھوں سے اٹھ جاتا ہے اور جب دل ٹکڑے ٹکرے ہو جائےگی تو زندگی جیسا بھیانک عذاب کوئی نہیں۔ یہی دنیا جہنم سے بدتر ہو جاتی ہے لیکن ایسے میں زندگی سے فرار سہل ہے۔ نجات پانے کا ذریعہ کچھ مشکل نہیں اور جبکہ میری زندگی میں اتنی سی دلچسپی بھی نہیں رہی تو۔۔۔
میں نے نیچے چٹانوں کی طرف دیکھا۔ نوکیلے پتھر کی طرف دیکھا اور شور مچاتی ہوئی ندی کو دیکھا اور مجھ پر ایک عیب سی وحشت طاری ہو گئی۔ عین اسی وقت مجھے ایک آواز نے چونکا دیا۔ میں نے گھبراکر دیکھا، ایک دراز قد شخص میرے پاس کھڑا مجھے شام بخیر کہہ رہا تھا۔ اس کے دمکتے ہوئے چہرے پر تازگی تھی، مسکراہٹ تھی۔ اس نے نہایت ہی شوخ رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔
ہم چند لمحے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ وہ بےحد مسرور تھا۔ اس نے سگریٹ پیش کی، جسے میں نے بڑی بے دلی سے قبول کر لیا۔ وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔
’’کتنی دل فریب شام ہے۔۔۔‘‘ وہ بولا، ’’چمکتا ہوا نیلا آسمان، خودرو پھولوں کے تختے اور ہوا کے خنک جھونکے۔۔۔ اگر مجھے ایسی فضا ہر روز میسر آ جائے تو میں خدا سے اور کچھ نہ مانگوں۔‘‘
میں چپ بیٹھا تھا۔
’’آج اتفاق سے میں اس ندی میں مچھلی کا شکار کھیلنے چلا آیا۔ دوپہر سے گول گول پتھروں میں بیٹھا رہا ہوں۔ آپ کو اس قدر بلندی پرتنہا دیکھا تو چلا آیا۔ آپ شاید غروب آفتاب دیکھنے اتنی بلندی پر آئے ہوں گے۔‘‘
’’جی نہیں ویسے ہی آ گیا تھا۔‘‘
’’آج مجھے ایک بھی مچھلی نہیں ملی۔ البتہ چند تتلیاں میرے رنگین مفلر کو پھول کاگلدستہ سمجھ کر آ گئی تھیں۔ چاہتا تو انہیں پکڑ لیتا لیکن پھر سوچا اس خوش نما دنیا میں سیر کرنے کا جتنا حق مجھے ہے، اتنا ہی ان رنگین تتلیوں کو بھی ہے۔ زندتی کتنی پیاری چیز ہے۔ بھلا اس رنگ و بو کے طوفان کو چھوڑکر کون جانا پسندکرےگا۔‘‘
’’میں اسے چھوڑنے کو تیار ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نہیں! یہ سراسر ناشکری ہے۔ زندگی بہت قیمتی ہے، بہت ہی پیاری ہے۔ یہ چاند، تارے، سورج، زمین و آسمان، کون کہتا ہے کہ بہشت اس سے زیادہ دلچسپ جگہ ہوگی۔ زندگی خواہ کیسی تلخ کیوں نہ ہو، پھر بھی بڑی پیاری ہے۔‘‘
’’اور اگر روح رنج والم کے بوجھ سے دب جائے تو؟‘‘
’’تو یہ چمکیلا چاند ہے۔ یہ مسکراتے ہوئے تارے ہیں۔ یہ جگمگاتے ہوئے پھول ہیں۔ قدرت ایک شفیق محبوب کی طرح دلداری کرتی ہے ا ور بہت کچھ بھلا دیتی ہے۔‘‘
’’اور آنکھیں اگر بےنور ہو جائیں۔۔۔؟‘‘
’’تو پرندوں کے سریلے چہچہے ہیں، سرگوشیاں کرتے ہوئے ہوا کے جھونکے ہیں، جو عجیب وغریب اسرار بتاتے ہیں۔ آفتاب کی روح افزا دھوپ ہے۔ اگر میری روح رنج والم سے دب جائے، آنکھیں بےنور ہو جائیں، تب بھی میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہنے کی تمنا کروں گا۔ زندگی بڑی پیاری ہے۔ یہ دنیا بےحد دلچسپ جگہ ہے۔ بھلا اسے کون چھوڑنا پسند کرےگا؟‘‘
’’اور اگر محبت کی ناکامی دل میں نشتر چبھونے لگے تب؟‘‘
’’محبت کی ناکامی کوئی ناکامی نہیں۔ محبت جوانی کی خزاں ہے۔ محبت روح کو گھن لگا دیتی ہے۔ دنیا کی نصف سے زیادہ آہیں، رنج اور مصیبتیں محض محبت کی وجہ سے ہیں۔ مسرتوں سے کہیں زیادہ ہمیں ہمیشہ رہنے والا رنج بخشتی ہے۔ یہ ایک ایسا سودا ہے جس میں نفع کم ہے اور نقصان بہت زیادہ ہیں۔ آج تک کبھی غمگین نہیں ہوا۔ میں نے محبت بھی کی ہے لیکن میری مسرتوں کی اتنی قسمیں ہیں اورمیرے دل پر خوشی کی جلا اس قدر ہے کہ محبت کی اہمیت بالکل ذرا سی رہ گئی ہے۔‘‘
’’لیکن سدا کے غمزدہ دل پر کسی خوشی کا اثر نہیں ہوتا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’لیکن دنیا کتنی وسیع ہے۔ یہاں محبت کے سوا اور بھی بےشمار خوشیاں ہیں۔ اس سے بھی معصوم اور بلندتر۔ کئی ایسی بھی ہیں جو محبت کے گہرے سے گہرے زخم کو مندمل کر دیتی ہیں۔ میری زندگی میں بھی ایسے لمحات آئے جب میں چاہتا تو رو روکر روگ لگا لیتا اور پھر ساری عمر نہ مسکراتا۔ لیکن نہیں! جہاں زندگی خدا کا تحفہ ہے وہاں مسرور رہنا انسان کا فرض ہے۔ مسکراتے ہوئے وقت گذارنا خدا کی بہترین عبادت ہے۔۔ اور ایسے میں غمگین ہونا جب انسان چاہے تو مسرور ہو سکتا تھا نہ صرف بزدلی ہے بلکہ زندگی اور خدا سے غداری ہے۔ ہم خدا کے اس عظیم احسان کا بدلہ نہیں دے سکتے لیکن مسکراتے ہوئے ہونٹوں اور مسروردل سے شکریہ ضرور ادا کرسکتے ہیں اور محبت تو ہر جگہ موجود ہے، حسن چاروں طرف خوابیدہ ہے۔
تم نے کسی پیارے بچے کی آنکھوں کو غور سے نہیں دیکھا، جہاں سے نور کی کرنی نکلتی ہیں۔ اسے گود میں بٹھاکر باتیں نہیں کیں۔ شاید تم نے پھولوں کے کنج میں اڑتی ہوئی تتلیوں کا تعاقب نہیں کیا۔ چاندنی رات میں تم نے روشنی اور سایے نہیں دیکھے۔ چمکتا ہو چاند، سمندروں کی لہروں سے رات بھر کیا سرگوشیاں کرتا ہے، سورج کی نوزائیدہ کرنیں شرماتی ہوئی کلیوں سے کیا کہہ دیتی ہیں، ہوا کے جھونکے کنول کے پھولوں سے کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔۔۔ کبھی سوچا؟ چاند کے ساتھ ساتھ ان ستاروں کے جھرمٹ کونہیں دیکھا جو چاند کے گرد طواف کرتا ہے، اپنے محبو ب کی بلائیں لیتا ہے۔ یہاں سب کچھ ذاتی ہے، فقط قدرت ہی ایک ایسی حسین ہستی ہے، جس کی محبت ہمیں روا ہے اور یہ محبت ابدی ہے۔ غیرفانی ہے۔‘‘
اس نے میری ناک پر رکھی ہوئی کالے شیشوں کی عینک اتار دی اور بولا، ’’یہ سیاہ عینک ہے جس سے تمہیں ہر ایک چیز تاریک نظر آ رہی ہے۔ ذرا اب دنیا کو دیکھو۔ یہ غروب آفتاب کتنا دل فریب ہے۔ یہ ماحول کس قدر روشن اور چمکیلا ہے۔‘‘
اور واقعی میری آنکھیں چوندھیا گئیں۔ میں بیٹھا سورج کی سنہری شعاعوں کو دیکھتا رہا۔ شفق پھیلی اور سورج غروب ہو گیا۔
’’اب ادھر دیکھو۔‘‘ میں نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ چودھویں کا چاند جگمگا رہا تھا۔ میرے سوکھے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ چاند اتنی تیزی سے چمک رہا تھا جیسے اس کی کرنیں میرے سینے سے ہوتی ہوئیں میرے دل کو منور کر رہی تھیں۔
’’واقعی قدرت نہایت ہی حسین ہے۔ سب چیزوں سے زیادہ حسین۔‘‘
ہم دونوں پگڈنڈی سے نیچے اتر رہے تھے۔
جب ہم جدا ہونے لگے تو وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا، ’’تم یہاں سے کہیں دور چلے جاؤ۔ اس زندگی، اس ماحول اور اس پرانی فضا کو یہیں چھوڑکر ایک نئی زندگی کی تلاش میں نکل جاؤ۔ دیکھ لینا، تھوڑے ہی دنوں میں تم ان غمگین لمحات پر اور اپنی اس حالت پر ہنسا کروگے۔ جب میں تمہیں یاد آؤں گا تو بس مسکرا دیا کرنا اور یہ کبھی نہ بھولنا کہ زندگی خدا کا ایک نہایت قیمتی تحفہ ہے اور مسکراتے رہنا نہ صرف ہمار ا فرض ہے بلکہ اس معبود کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ اچھا خدا حافظ۔‘‘
اور میں سب کچھ چھوڑچھاڑ کر ایک نئی زندگی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ وداع ہوتے وقت جب میں نے عزیزوں کے چہرے دیکھے تو میرا دل تلملانے لگا اور میں ریل کی کھڑکی سے سر نکالے اس محبوب سرزمین کو دیکھتا رہا، جہاں میں نے اپنا بچپن اور لڑکپن گزارا تھا۔ شاید سال کی آخری تاریخیں تھیں، جب میں نے وہ حدود طے کیں اور جب نئے سال کا پہلا سورج طلوع ہوا تو میں نئی حدود میں تھا۔ اس پراسرار اجنبی کی گفتگو نے مجھ میں نئی روح پھونک دی تھی۔ ایک طویل مسافت کے بعد میں کہیں دور جا نکلا۔ بالکل اجنبی جگہ میں۔
لیکن یہ سب بھولنے میں مجھے کچھ دیر لگی۔ آخر وقت نے ان زخموں پر مرہم لگا دیا اور ماضی دھندلا ہوتا گیا اور پھر ایک دن میں نے ماضی کو دفن کر دیا۔
اب میں ایک نئی دنیا میں تھا۔ نئی زندگی تھی۔ یہ سب کچھ نیا تھا۔ وہی قسمت جو عرصے سے بھول چکی تھی، اس نے مجھے یاد کیا اور اب میرے موافق ہو گئی۔ ہر چیز میرے موافق ہو گئی۔ میں ہر جگہ جیتنے لگا۔ زندگی کی ہر دوڑ میں آگے نکلنے لگا۔ اپنے رفیقوں میں ممتاز ہوتا گیا۔ تقدیر مسکرانے لگی۔ دنیا مسکرانے لگی۔ اب میرا ماضی سے کوئی واسطہ نہ تھا، اس لیے میں نے عزیزوں سے بھی خط و کتابت کم کر دی۔ اپنی پرانی زندگی سے کوئی سروکار نہیں رکھا۔ بھول گیا کہ کون کہاں ہے اور کیسا ہے۔
میرا دل مضبوط ہوتا گیا اور آخر اتنا سخت ہوتا گیا، جیسے چٹان۔ میرے خیالات پختہ ہوتے گئے۔ میں دلیر بنتا گیا۔ مصیبتوں پر قہقہے لگاتا۔ زندگی کی ظلمتوں میں، دل کو خون کر دینے والے حالات میں، بھاری سے بھاری غموں میں میرا مغرور سر کبھی نہ جھکا۔ نہ میں نے قدرت کو کبھی اپنی مدد کے لیے پکارا، نہ کبھی قدرت سے کوئی توقع رکھی۔ میں نے کبھی محبت کے بارے میں نہیں سوچا۔ میں نے ان بےکار التجاؤں، نہ قبول ہونے والی دعاؤں، ہمیشہ غداری کرنے والی امیدوں اور زندگی سے شکست خوردہ نظریات کو دھتکار دیا۔ اب میں اپنے سفینے کا آپ ہی ناخدا تھا۔ میرے سامنے تقدیر کی کوئی وقعت نہ تھی۔ اب میں ایک ایسی دنیا کا حکمراں تھا جو خود میری ہی تخلیق تھی۔
’’اور اب؟‘‘
اب بھی شاید ویسا ہی ہوں لیکن کیا میں سچ مچ پتھروں جیسے دل کا مالک ہوں؟ کیا واقعی میری روح مسرور اور مطمئن تھی؟ کیا میں ثریا کو بھول چکا ہوں، اپنے ماضی کو دفن کر چکا ہوں؟ کہیں میں اپنے آپ کو دھوکا تو نہیں دے رہا؟ کہیں میں اتنے سال اپنے آپ کو دھوکا تو نہیں دیتا رہا ہوں؟
کتنی عجیب بات ہے کہ میں خود اپنے آپ کو نہیں سمجھ سکتا، اب تک نہیں سمجھ سکا۔ زندگی کتنی عجیب ہے اور انسان کا دل بھی کتنی عجیب چیز ہے، جس کے ایک گوشے میں آگ لگی رہتی ہے اور دوسرے کو خبر نہیں ہوتی۔ ایک حصہ درد و کرب سے تڑپتا رہتا ہے اور دوسرا مسرت سے مچلتا رہتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو کتنی آسانی سے بہلا پھسلا لیتے ہیں، کیسی عیاری سے دھوکہ دیتے ہیں۔
جب میں یہاں سے گیا تھا تو نہ میں ثریا سے ملا تھا نہ احمد سے، اس لیے نہیں کہ میں ان سے ملنا نہیں چاہتا تھا بلکہ اس لیے کہ شاید میرے اس طرح جانے سے ثریا کو کچھ افسوس ہو، شاید ذراسی دیر کے لیے کچھ خلش ہو اور تب بھی میرے دل میں ایک ننھی سی کرن ٹمٹمارہی تھی۔ امید کی کرن۔ شاید کبھی ثریا میری ہو جائے۔ کتنی احمقانہ امید تھی۔ ہماری کتنی امیدیں احمقانہ ہوتی ہیں۔ ہم ہمیشہ ناممکن باتوں کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔
زندگی کا ایک اہم حصہ میں نے ثریا کی محبت میں ضائع کر دیا تھا۔ بھلا اس کی محبت سے مجھے کیا ملا تھا؟ اور کیا یہ محبت تھی؟ محبت تو وہ ہوتی ہے جو دونوں طرف ہو، جس کا جواب محبت میں نہ ملے وہ محبت تونہیں۔ وہ تو کچھ بھی نہیں۔ بھلا ان چیزوں کے چاہنے سے کیا فائدہ جنہیں تمہاری ضرورت ہی نہ ہو، جو تمہیں خاطر ہی میں نہ لائیں۔ اگر کوئی چاند سے محبت کرنے لگے اور اپنی عمر اسی ضبط میں گزار دے تو اس میں چاند کا کیا قصور؟
لیکن میرے خدا! یہ احساس شکست کتنی ظالم چیز ہے۔ یہ روح پر تاریکی بن کرچھا جاتا ہے۔ پھانس کی طرح چبھ جاتا ہے اور ہر وقت کوئی اس پھانس کو چھیڑتا رہتا ہے۔ اس کی چبھن کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ میں نے کیا کیا جتن کیے لیکن اتنے طویل عرصے میں بھی اس زخم کو مندمل نہ کر سکا۔ باوجود اتنی کوششوں کے میں اسے بھلا نہ سکا اور اب بھی یہ عذاب بدستور مجھ پر مسلط ہے۔
اور اب میرے پاس سب کچھ ہے۔ عزت، دولت، غیرمعمولی صحت۔ دنیا مجھ پر مسکراتی ہے۔ لیکن ایک کمی ہے۔۔۔ مسرت کی۔ یوں ظاہری طورپر تو بےحد مسرور رہا ہوں۔ دوسرے بھی میری صحبت میں بہت مسرور ہو جاتے ہیں لیکن میرا دل غمگین ہے۔ میری روح پژمردہ ہے اور اب تک میں مسرت کی تلاش میں ہی رہا ہوں۔ اتنے دنوں مسرت ہی کی تلاش میں سرگرداں رہا ہوں۔ دل کے زخم کے لیے مرہم ڈھونڈتا پھرا ہوں۔ میں نے لق ودق صحراؤں میں، تاریک اور سنسان جنگلوں میں مسرت کو ڈھونڈا۔ میں نے نہ معلوم ویرانوں میں، اجاڑکھنڈروں میں، آباد محفلوں میں اسے ڈھونڈا۔ میں نے غم زدہ روحوں کی صحبت میں، بےکس ہستیوں کی دل جوئی میں، مسکراتی ہوئی مخلوق کے قرب میں، دمکتے ہوئے چہرے میں، آسمانی نعمتوں میں اس کی تلاش کی لیکن اسے کبھی نہ پا سکا۔
اور اب دراصل میری مسرت صرف ایک جگہ تھی۔ دنیا بھرکی وسعت میں صرف ایک مرکز پر محدود تھی۔ ثریا کی رفاقت میں۔ اس مسرت سے میں محروم تھا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ دل کی جس دہکتی ہوئی آگ کو میں لے کر نکلا تھا، وہ مدھم پڑ گئی۔ تپش کچھ کم ہو گئی۔ دیکھنے میں آتش کدہ راکھ کا ایک ڈھیر بن گیا۔ کچھ لمحے ایسے بھی آئے جب میں اسے بھی بھول گیا۔ لیکن چند چنگاریاں اندر ہی اندر سلگ رہی تھیں، اب دفعتاً بھڑک اٹھیں۔ دل کے شکستہ شیشے کو ذرا سی ٹھیس پہنچی اور بالکل ہی چور چور ہو گیا۔ میں اتنے دنوں مسکراتا بھی رہا تھا، ہنسا بھی تھا لیکن میرے قہقہے مصنوعی تھے۔ وہ مسکراہٹیں کھوکھلی تھیں۔ اپنے دل پر جو مصنوعی مسرت کا ہلکا سا خول میں نے چڑھایا تھا، وہ بالکل کمزور تھا۔ یہ نئی امیدیں پانی کا بلبلہ تھیں۔ ابھی تھا، ابھی گیا۔
میں نے جونئی دنیا اپنے لیے تخلیق کی تھی، وہ ناپائیدار تھی، وہ خواب کی دنیا تھی۔ میں اتنے دنوں تک ایک خواب دیکھتا رہا اورجب میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ میری روح پر وہی عذاب طاری ہے۔ میں اسی آگ میں پھنک رہا ہوں۔ میری آنکھوں میں وہی آنسو ہیں جو ایک مرتبہ ہم نے خشک کر لیے تھے اور میں وہی بےوقوف سا لڑکا ہوں جو ثریا کی محبت میں کھویا کھویا سا رہتا تھا، جسے نہ دنیاسے دلچسپی تھی نہ دنیا کی دل فریبوں سے، جس کا دل ثریا کی بات بات پر نثار تھا۔ ثریا ہی اس کی آرزو تھی۔ وہی اس کی جستجو تھی۔ میں وہی تو ہوں، وہی پاگل سا لڑکا، جو ہر وقت خواب دیکھتا رہتا تھا۔
مجھے سب کچھ یاد ہے۔ ساری تصویریں میری آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہیں۔ مجھے ثریا سے اتنی ہی محبت ہے جتنی آٹھ سال پہلے تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ میں اس کی پرستش کرتا ہوں۔ یہ میری زندگی کی پہلی اور آخر ی محبت ہے۔ میری آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ کوئی چیز میرا دل مسوس رہی تھی۔ چٹکیاں لے رہی تھی۔ میری روح تلملا رہی تھی۔ میں نے آستین سے آنسو پونچھے۔ میں نے اس طویل عرصے میں ایک بھی آنسو نہ بہایا تھا لیکن اے میرے خدا! بالکل ایسی ہی رات تو تھی، یہی چاند چمک رہا تھا، یہی ننھے منے تارے ٹمٹما رہے تھے، یہی سناٹا تھا، ایسے ہی درخت کے نیچے میں نے ثریا کے قدمو ں میں اپنی محبت رکھ دی تھی، جسے اس نے ٹھکرا دیا تھا۔
میں نے چاروں طرف دیکھا کہ کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا ہے، پھر میرا سر جھک گیا۔ انتہائی بے کسی سے میں ایک زخم خوردہ روح کی طرح گر پڑا اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار بہہ نکلی۔ میں خوب رویا۔۔۔ اتنا رویا کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ نہ جانے اتنے آنسو کہاں سے آ گئے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک زبردست جوالامکھی، جو ایک عرصے سے خامو ش تھا، جاگ اٹھا ہے۔ میں سسکیاں لے لےکر بچوں کی طرح رو رہا تھا۔۔۔ اپنی محبت کی زندہ لاش پر، اپنی شکست پر، اپنی زندگی پر، اپنی تنہائی پر۔
پتے پتے پر چاندنی کھل رہی تھی۔ کلیاں، پھول، پتے سب سوتے پڑے تھے۔ درختوں کے سایے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ چاند آہستہ آہستہ درختوں کی جھنڈ میں چھپا جا رہا تھا۔ ٹہنیوں سے چاند کی کرنیں چھن رہی تھیں۔ دور کہیں ایک بلبل اپنے محبوب سے شکوہ کر رہی تھی اور ایک بدنصیب غمزدہ دل اپنی زندگی کا مرثیہ پڑھ رہا تھا۔
جب میرے آنسو تھمے تو چاند غروب ہو چکا تھا۔ مشرق میں تیز روشنی ہو رہی تھی۔ ستاروں کی شمعیں ایک ایک کرکے بجھتی جا رہی تھیں اور جب میں لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا تو سرو کے درختوں میں مجھے ثریا ملی، جو بےحد غمگین تھی۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، سرخ ہو رہی تھیں، جیسے دیر تک روتی رہی ہو۔
اور میرا دل دھڑکنے لگا۔ شاید وہ رات بھر مجھے دیکھتی رہی تھی۔ میں نے جلدی سے ایک آنسو پونچھا جو میرے رخسار پر پھیل رہا تھا۔ جب ہم ایک دوسرے کے قریب سے گذرے تو میں نے صبح بخیر کہا اور اس نے ایک پھیکی مسکراہٹ سے جواب دیا۔
ذرا سی دیر کے بعد میں ٹرین میں تھا۔ احمد مجھے ٹرین پر چھوڑنے آئے تھے۔
دفعتا ًمجھے خیال آیا کہ آج نئے سال کی پہلی صبح ہے۔ آج لوگوں کے دلوں میں کیسی کیسی امنگیں ہوں گی۔ لوگ مسرت کے لیے دعا مانگ رہے ہوں گے اور ایک میں ہوں، جس کے لیے یہ چمکیلا دن ایک اداس سی شام سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ پھر میں سوچنے لگا کہ میں اب کہاں جا رہا ہوں؟ مجھے کہاں جانا چاہئے۔ میری منزل کہاں ہے؟
کیا میں لوٹ کر پھر یہاں سے بہت دور چلا جاؤں۔ اس مرتبہ اتنی دور کہ پھر کبھی واپس نہ آ سکوں لیکن نہیں۔۔۔ اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب شاید میں اپنے آپ کو دھوکا دینے میں کامیا ب نہ ہو سکوں گا۔
میں نے ملاحوں سے سنا تھا کہ انہیں سمندر کی تنہائی میں، رات کی تاریکیوں میں پراسرار آوازیں سنائی دیا کرتی ہیں۔ تاریکیوں سے کوئی ان کا نام لے لے کر پکارتا ہے۔ اسی طرح مجھے کئی سیاحوں نے بتایا تھا کہ گھنے جنگلوں اور ویران صحراؤں میں رات کے سفر کرتے وقت کتنی ہی مرتبہ انہوں نے کسی نہ معلوم ہستی کو ان کا نام لے لے کر چلاتے سنا تھا۔
اب میں زندگی کے ان کھنڈروں اور اجاڑ ویرانوں میں سے کسی ایک کو اپنا نام پکارتے ہوئے صاف سن رہا تھا۔ تاریک اور بھیانک مستقبل مجھے پکار رہا تھا۔ تنہائی مجھے پکار رہی تھی۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ سنہری دھوپ، لہلہاتا ہوا سبزہ، پیلے پیلے کھیت، درختوں کی قطاریں، پھوار اڑاتی ہوئی ندیاں اور اوپر نیلا چمکتا ہوا آسمان، رنگ برنگے پرندے۔۔۔ تیرتے اور غوطے لگاتے ہوئے۔ پہلے یہی چیزیں مجھے کتنی عزیز تھیں اور اب میرے لیے نہ سورج میں ضیا ہے، نہ چاند تاروں میں روشنی۔ یہ پھول، یہ گلشن، یہ دنیاسب بے معنی سی چیزیں ہیں۔
اب میں ہر چیز سے بیزار ہوں۔ قدرت سے بےزار ہوں۔ زندگی سے بےزار ہوں۔ اپنے آپ سے بیزار ہوں۔ اب میری دنیا پر اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
آج میں اپنے آپ کو کس قدر تنہا محسوس کر رہا ہوں اور جوں جوں عمر گذرتی جائےگی، یہ احساس تنہائی بڑھتا جائےگا، حتی کہ مجھے گھیر لےگا۔ تب نہ جانے میری صبح و شام کیوں کر گزریں گے؟ اورجب یہ آنکھوں کا نور اور دل کی جولانیاں جواب دینے لگیں گی۔۔۔ تب میرا رفیق کون ہوگا؟
میرے رخساروں پر آنسو بہنے لگے۔
یہ زندگی کتنی عجیب ہے۔ نہ ہم زندگی کو سمجھتے ہیں اور نہ زندگی ہمیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھتے۔
ابھی پرسوں میں کس قدر مختلف تھا۔ میرے دل میں امنگیں تھیں۔ زندگی کی تمام خوشیاں مجھ پر مسکراتی تھیں۔ میرے دل میں زندہ رہنے کی خواہش تھی۔ بلند عزائم تھے۔ آہنی حوصلے تھے۔ چٹان کی طرح مضبوط دل تھا۔۔۔ اور اب میں اتنی سی دیر میں اس بچے کی طرح رو رہا ہوں، جس کا کھلونا ٹوٹ گیا ہو۔
میری زندگی چند خوابوں پر مشتمل ہے۔ مسرور لڑکپن، ثریا کی محبت۔۔۔ جب میں بلندیوں پر پہنچ گیا۔ میری شکست جس نے مجھے گہرائیوں میں پھینک دیا۔۔۔ اس کے بعد سنبھل گیا اور اب پھر گرا جا رہا ہوں۔
ایک لہر آتی ہے۔ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں جا پھینکتی ہے۔ دوسرے کنارے پر چھوڑ جاتی ہے۔ تیسرے کنارے سے پھر بہاکر سمندر میں لے جاتی ہے۔۔ اور تھپیڑے سہنے کے لیے چھوڑ جاتی ہے۔
زندگی کتنی عجیب ہے؟ یا شاید میں ہی ایسا ہوں، جسے نہ دل پر قابو ہے، نہ جذبات پر۔ ذراسی دیر میں بدل جاتا ہوں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے متاثر ہوتا ہوں۔ میرا کوئی وصول ہی نہیں۔ شاید یہ میری اپنی کمزوریاں ہیں۔ میری اپنی خامیاں ہیں، یا یہ زندگی کی ان لہروں کا کھیل ہے۔۔۔ مدوجزر ہے۔
زندگی کا مدوجزر!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.