Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈھاک بن

صدیق عالم

ڈھاک بن

صدیق عالم

MORE BYصدیق عالم

    کہانی کی کہانی

    یہ افسانہ جدید سماج کے ساتھ قبائلی تصادم کی جادوئی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ وہ لوگ کانا پہاڑ کے باشندے تھے۔ اسے کانا پہاڑ اس لئے کہتے تھے کیونکہ جب سورج اس کی چوٹی کو چھو کر ڈوبتا تو کانی آنکھ کی شکل اختیار کر لیتا۔ کانا پہاڑ کے بارے میں بہت ساری باتیں مشہور تھیں۔ اس پر بسے ہوے چھوٹے چھوٹے قبائلی گاؤں اب اپنی پرانی روایتوں سے ہٹتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ پر عیسائی مشنری حاوی ہوگئے ہیں اور کچھ نے ہندو دیوی دیوتاؤں کو اپنا لیا ہے۔ مگر جو افواہ سب سے زیادہ گرم تھی اور جس نے لوگوں کو مضطرب کر رکھا تھا وہ یہ تھی کہ اب کانا پہاڑ سے روحیں منتقل ہو رہی ہیں۔ وہ یہاں کے لوگوں سے ناخوش ہیں اور ایک دن آئے گا جب پہاڑ کے گربھ سے آگ اْبلے گی اور پیڑ پودے گھر اور پرانی اس طرح جلیں گے جس طرح جنگل میں آگ پھیلنے سے کیڑے مکوڑے جلتے ہیں۔

    جھرنا ہیمبرم کی آنکھوں میں سیلن بہت آسانی سے اترتی تھی۔ اتنی آسانی سے کہ صبح نیند سے جاگ کر دونوں پپوٹوں کو الگ کرنے کے لیے اسے انگلیوں کا اچھا خاصا زور لگانا پڑتا۔ آج تو اس کی داہنی آنکھ آدھی ہی کھل پائی تھی اور اسی حالت میں وہ ادھر ادھر گھوم رہی تھی، صبح کے کام کاج کر رہی تھی، سور کی ناند صاف کررہی تھی اور اس کی داہنی آنکھ میں تھا کہ دن گھستا چلا آ رہا تھا۔ اسے کسی طور اس آنکھ کو پورا کھولنا ہوگی تاکہ آسانی سے بند کر سکے۔ اس نے کئی بار کوشش کی مگر پپوٹوں کے کنارے پھر بھی جڑے رہے۔ آخر میں تھک کر اس نے ایک بیڑی سلگا لی جسے وہ خود بناتی تھی، اور بھک بھک دھواں نکالتے ہوے اپنے مجروح دانتوں سے تنکے کھینچ کھینچ کر بانس کی ٹوکری بننے لگی۔ اس کے بیٹے رائسن ہیمبرم کو شہر نے مانگ لیا تھا اور اب وہ ریل کی پٹری کے کنارے کنارے اپنے ہتھوڑے اور دوسرے اوزار لے کر گھومتا۔ اس کے شوہر منگرو نے مہوے کا ٹھرا پی پی کر اپنا پیٹ اتنا بڑا کر لیا تھا کہ اسے شہر کے سرکاری اسپتال میں اندر سے چیر کر ٹھیک کرنا پڑا۔ مگر پھر وہ زیادہ دن تک زندہ نہ رہ پایا۔ اس نے اتنا غصہ اپنے اندر بھر لیا تھا کہ وقت سے پہلے ہی بوڑھا ہو گیا تھا۔ ایک دن اس نے اپنی رکھیل آرتی سردار کو اتنا مارا اتنا مارا کہ وہ ادھ موئی ہو گئی۔ اس دن گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ منگرو شرابی ہو گیا ہے اور منگرو مرنے والا ہے اور اب منگرو کسی بھی دن جنگلی بد روحوں کے شکنجے میں ہوگا جو اسے اڑا کر ڈھاک کے جنگل میں لے جائیں گی، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیڑوں کے کھوکھلوں میں بھٹکتا رہےگا اور راہ گیروں پر عجیب و غریب چہرے بناتا رہےگا۔

    ایک دن منگرو کا بھوت آئےگا! جھرنا ہیمبرم خود سے کہہ رہی تھی اور وہ ہر کام آسان کر دےگا۔ وہ سوروں کے طویلے میں رہنا شروع کر دےگا اور سوروں کی گرمی بڑھ جائےگی۔ وہ مرغیوں کے ڈربے میں رہنا شروع کر دےگا اور ان کے ٹونگنے لیے ہرے پتے پیڑپودوں اور جھاڑیوں کے نچلے حصوں میں اگائےگا اور سلائی کنڈ کے بڑے پتھر سے پھوٹتے جھرنے میں پانی ہی پانی ہوگا۔ میں نے منگرو کے لیے سجنا کے کھوکھل صاف کروائے ہیں تاکہ اپنے آرام کے لیے اسے ڈھاک کے جنگل کی طرف لوٹنا نہ پڑے بلکہ انھیں میں سے کسی میں وہ آرام سے لیٹا رہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح جب وہ زندہ تھا لیٹا رہتا تھا۔

    وہ لوگ کانا پہاڑ کے باشندے تھے۔ اسے کانا پہاڑ اس لیے کہتے تھے کیونکہ جب سورج اس کی چوٹی کو چھو کر ڈوبتا تو کانی آنکھ کی شکل اختیار کر لیتا۔ کانا پہاڑ کے بارے میں بہت ساری باتیں مشہور تھیں۔ مثلاً اس پر بسے ہوے چھوٹے چھوٹے قبائلی گاؤں اب اپنے پرانے رکھ رکھاؤ سے ہٹتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ پر عیسائی مشنری حاوی ہو گئے ہیں اور کچھ نے ہندو دیوی دیوتاؤں کو اپنا لیا ہے۔ مگر جو افواہ سب سے زیادہ گرم تھی اور جس نے لوگوں کو مضطرب کر رکھا تھا وہ یہ تھی کہ اب کانا پہاڑ سے روحیں منتقل ہو رہی ہیں۔ وہ یہاں کے لوگوں سے ناخوش ہیں اور ایک دن آئےگا جب پہاڑ کے گربھ سے آگ ابلےگی اور پیڑ پودے گھر اور پرانی اس طرح جلیں گے جس طرح جنگل میں آگ پھیلنے سے کیڑے مکوڑے جلتے ہیں۔

    شاید یہی وجہ تھی کہ منگرو کے اندر اس قدر غصہ بھرا ہوا تھا۔

    اور شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے تیر اور بھالے تیز کیا کرتا۔

    مگر اس نے کبھی تیر نہیں چلائے، بھالا نہیں اٹھایا۔ وجہ بے وجہ مہوا پیتے پلاتے رہنا، ڈھلان میں ہفتہ وار ہاٹ میں مرغے لڑانا اور ہبا ڈبا کھیلنا جہاں سے وہ بہت سارے سکے جیت کر آتا اور کبھی کبھار ہار کر بھی۔ مگر جھرنا ہیمبرم جانے کیسی جادوگرنی تھی، دو وقت کا ابلا ہوا اناج اور گوشت اس کے برتن میں عین وقت پر دھرا ہوتا جن کی طرف منگرو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا، مگر کھائے جاتا، جیسے یہ سب کچھ اسے اچھا نہ لگ رہا ہو، جیسے اس کے اندر کی آتما اسے پھٹکار رہی ہو اور جب اس اندرونی ملامت سے وہ ہار جاتا تو آرتی کے پاس چلا جاتا۔ آرتی جو جانے انجانے کتنوں ہی کی مشترک رکھیل تھی اور جسے مہوے سے شراب کشید کرنے کا فن آتا تھا اور جس کا شوہر اسے ہر کسی کے پاس بیچنے کے لیے بےچین رہتا۔

    ’’بہت کراری بہو ہے، بس ایک باٹلی ٹھراسرکار اور دس روپے۔‘‘ وہ اکثر پہاڑی راستے سے گزرنے والے سیاحوں کی گاڑیوں کے سامنے دونوں ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہو جاتا۔ اس کی بغل میں آرتی سر جھکائے کھڑی رہتی، اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کرتی رہتی، اپنی ساڑی کے پلو کو منھ میں ٹھونستی جاتی۔

    ’’یہ شہری لوگ!‘‘ وہ دل ہی دل میں سوچتی۔

    اور جب جھرنا ہیمبرم اکیلی رہ گئی تو کتنوں نے ہی اسے گونے کی پیشکش کی۔ وہ ٹوکریاں اچھی بنتی تھی۔ اس کے جانور بیماری سے نہیں مرتے تھے اور جنگل کے ان گوشوں سے وہ بخوبی واقف تھی جہاں بدلتے موسموں کی مناسبت سے سوکھی لکڑیوں کی بہتات ہوتی۔ اس کے بالوں میں چاندی کے تار جاگنے لگے تھے اور اس جیسی تجربہ کار عورت کا سہارا کاہل قبائلیوں کی ہمیشہ کی ضرورت رہی ہے۔

    صرف جھرنا ہمبرم کوا ن کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی منگرو کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی تھی۔ صرف منگرو کہیں اور تھا اور وہ کہیں اور۔ جنگل میں کیکر، شہتوت اور بچھو متی کی جھاڑیوں میں جہاں سانپ اپنی کینچلی چھوڑ جاتے وہ منگرو کے پیروں کے نشان ڈھونڈتی۔ مگر پھر اسے یاد آتا، آتماؤں کے پیر نہیں ہوتے۔۔۔نہیں پیر تو ہوتے ہیں، مگر انھیں زمین پر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی جھرنا ہیمبرم خود بھی پریت آتما کی شکل اختیار کر لیتی اور اسے لگتا وہ کیکر کی جھاڑیوں پر بہ آسانی چل سکتی ہے۔ اس کے اندر اسے آزمانے کی ہمت تو نہ تھی مگر وہ آتماؤں کا مذاق بھی اڑانا نہیں چاہتی تھی۔

    جس دن رائسن اپنے سے بھی دگنی عمر کی ایک عورت کے ساتھ وارد ہوا جس سے اس نے بیاہ کر لیا تھا تو بڑے غصے میں دکھائی دیا۔ اس دن پہلی بار جھرنا ہیمبرم کو منگرو کی بہت ضرورت محسوس ہوئی۔ اسے پہلی بار لگا کہ وہ اکیلی ہو گئی ہے۔

    ’’یہ سب کچھ اب زیادہ دن نہیں چلنے کا،ماں!‘‘ رائسن نے گھر کے اندر قدم رکھنے سے پہلے ہی اعلان کردیا تھا۔ ’’اب زیادہ سمے نہیں ہے جب بواری ماں بنےگی اور ہمیں اگلے دنوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔‘‘

    ’’اگلے دن؟‘‘ جھرنا ہیمبرم نے معصومیت سے پوچھا۔

    ’’میرے ریلوے کوارٹر میں دو کمرے ہیں،‘‘رائسن نے سگریٹ سلگاتے ہوے کہا۔ وہ کھانس بھی رہا تھا۔ ’’اور بواری جب ماں بنےگی تو ہمیں کسی نہ کسی کی ضرورت تو ہوگی ہی۔ رہا ایک کمرہ تو اسے ہم کرائے پر دے سکتے ہیں۔‘‘

    دو ہفتے رائسن اور بواری جھرنا ہیمبرم کے ساتھ رہے۔ بواری اور جھرنا ہیمبرم کسی حد تک ہم عمر بھی کہی جا سکتی تھیں۔ اس لیے دونوں گھل مل گئیں۔ بواری کے کولھے پیچھے کی طرف نکلے ہوے تھے اور ا س کے سامنے کے تین دانت نقلی تھے جنھیں رات کے وقت کھول کر اسے پانی کے پیالے میں ڈبوکر رکھنا پڑتا تھا۔ وہ بار بار اپنے دونوں کان جھاڑتی اور نقلی دانتوں سے ہنستی۔

    ’’میرا باپ شروع میں میرے بیاہ سے خوش نہیں تھا جیسا کہ میرے باپ کو ہونا چاہیے۔ وہ میرے لیے اور بھی اونچے سپنے دیکھتا تھا۔ مگر میری سوتیلی ماں نے میرا ساتھ دیا۔ ہم نے ہنومان چوک کے مندر میں شادی کی۔ میری تین بہنیں ہیں اور سب کی سب میری ہی طرح سندر ہیں۔ ہمیں بَروں کا کیا کال ہے۔‘‘

    جھرنا ہیمبرم زیادہ تر اس کی باتوں کا سرا ٹھیک سے پکڑ نہ پاتی۔ مگر پھر بھی اسے پتا تو تھا کہ اس کے بیٹے کی بہو اپنے دل کا بوجھ اس کے سامنے ہلکا کر رہی ہے۔ رائسن تو جھونپڑی سے تھوڑی دور بانس کے جھنڈ کے سامنے بچھی چار پائی پر لیٹا لیٹا سگریٹ پھونکتا رہتا اور اپنی انگلیاں چٹخاتا رہتا اور یہ وہی جگہ تھی جہاں دس سال پہلے تک چیتا اور بن سور آیا کرتے تھے۔

    ’’ارے، یہ سب کتنی بکواس ہے،‘‘وہ بیچ بیچ میں چلا اٹھتا۔ ’’اس کانا پہاڑ میں ڈھنگ سے جینے کا کچھ تو سادھن ہونا چاہیے۔‘‘

    بواری ضرورت سے زیادہ کھاتی تھی اور اسے ہر وقت لوٹا لے کر جھاڑیوں کے پیچھے گڑھیا کی طرف جانا پڑتا۔

    ’’مجھے تو لگتا ہے ماں، مجھے جلد سے جلد اسے پیٹنا شروع کر دینا چاہیے،‘‘ رائسن ماں کو آنکھ مار کر کہتا۔ ’’اس جیسی عورت کے لیے اس سے بہتر اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ مگر اس کا باپ سالا انجن کا خلاصی تھا جو اسٹیم انجن سے ریٹائر تو ہو چکا ہے مگر انگاروں کی سی آنکھیں رکھتا ہے۔ صرف بواری اس سے نہیں ڈرتی اور اس کی یہی بات تو مجھے بھاتی ہے۔‘‘

    گاؤں میں جتنے بھی جھونپڑے تھے سب ایک دوسرے سے الگ الگ مختلف اونچائیوں پر کھڑے تھے۔ ایک دو جگہ باڑ کے اندر مکئی اور سورج مکھی کے پودے تھے۔جھرنا ہیمبرم کے کتے تھنبانے بواری کو شروع سے ناپسند کر دیا تھا۔ وہ بلا جھجھک دور کھڑا اس پر بھونکتا رہتا۔ سور ناند میں چھینکتے رہتے، جھرنا ہیمبرم ٹوکری بنتی رہتی اور رائسن چارپائی پر سگریٹ کی ٹیڑھی راکھ کو دھیرے دھیرے ہوا میں منتشر ہوتے دیکھتا رہتا۔

    واقعی یہ سب کوری بکواس ہے، وہ دل ہی دل میں سوچتا اور اس کتے کو مہمانوں کی قدر کرنی چاہیے۔ میری غیرحاضری میں اس گھر کا تو کباڑا ہی ہو گیا ہے گویا۔ بڑھؤ کے مرنے کے بعد کچھ بھی تو نہیں سدھرا ہے یہاں۔

    اور دو ہفتے بعد، رائسن ہیمبرم اپنی بیوی بواری اور ماں جھرنا ہیمبرم کو لے کر گاؤں سے چلا گیا۔

    اور بس میں تین گھنٹے اور رکشا میں پندرہ منٹ کے سفر کے بعد تینوں ریلوے کے ایک پرانے کوارٹر کے دروازے پر پہنچ گئے جس کی قدیم طرز کی محرابی چھت پر جھاڑیاں اور پیپل کے پودے اگے ہوے تھے۔ یہاں آنکھوں کے سامنے ریلوے کی پٹریاں چمک رہی تھیں اور جھرنا ہیمبرم کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ کوئلہ جلانے کا اتنا تیز دھواں جانے کہاں سے پھیل رہا تھا اور یہاں پیڑ پودوں پر ایک عجیب سی ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ زمین توے کی طرح سپاٹ اور سیاہ تھی اور جدھر بھی نظریں اٹھاؤ صرف کوے ہی کوے تھے اور انسان ہی انسان جو کوؤں کی طرح ہی غلیظ تھے اور کالک سے لپٹے ہوے انھیں کی طرح ڈھیٹ نظر آرہے تھے۔ پہلے دن سے ہی جھرنا ہیمبرم کو گھر کا پورا کام کاج سنبھالنا پڑا اور چونکہ کرایہ دار ابھی مل نہ پایا تھا رائسن نے دوسرے کمرے پر تالا دے رکھا تھا۔ اس لیے جھرنا ہیمبرم کو اپنا بستر باورچی خانہ کے دروازے کے پاس آدھے گھرے ہوے برآمدے پر لگانا پڑا جہاں سے پٹریوں کے اوپر پھیلے ہوے کالک زدہ تار اور تاروں بھرا آسمان دکھائی دیتے تھے۔

    اندر کمرے سے بواری اور رائسن کے کھلکھلاکر ہنسنے، چومنے اور ایک دوسرے کو پیار بھری فحش گالیوں سے نوازنے کی آوازیں آتی رہتیں۔ آدھی رات سے قبل دونوں باری باری سے جھرنا ہیمبرم کے سوتے ہوے جسم کو لانگھ کر غسل خانے کے اندر جاتے۔ مگر جھرنا زیادہ تر وقت جاگتی رہتی اور ایسے اوٹ پٹانگ وقت میں سوجاتی جب بواری کو اس کی ضرورت ہوتی۔

    ’’جب سے کوارٹر آئی ہے، بڑھیا کو تو مزہ ہی مل گیا ہے،‘‘ بواری کوسنے دیتی۔ ’’ڈھنگ سے دو وقت کا کھانا بنانا تو آتا نہیں، پسر کر یوں سوتی ہے جیسے سارا جگ جیت کر آئی ہو۔‘‘

    اب تو رائسن نے نل سے پانی لانا بند کر دیا تھا۔ نل پر پانی کے لیے بڑا ہنگامہ ہوتا۔ اکثر جھرنا خالی ڈول کے ساتھ واپس لوٹتی اور اس پر بواری کا عتاب نازل ہوتا۔

    ’’غیر کو تو آدمی گالی بھی دے لے، مگر اپنے پر کیسے تھوکے؟‘‘ بواری اپنے خصم کو سناتی۔ ’’اجی میں تو کہتی ہوں، آپ تو ادھر توجہ دیتے ہی نہیں، بس اکیلے مجھے ہی جھیلنا پڑتا ہے۔ بڑھیا تو خالی ڈول لے کر واپس آ جاتی ہے اور مجھے نل پر جاکر گالی گلوج کرنی پڑتی ہے۔‘‘

    ’’سب بکواس سن رہا ہوں میں،‘‘ رائسن کہتا۔ ’’میرا خیال ہے بڑھیا جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتی۔ جلد ہی سیکھ جائےگی۔ ارے اب اس میں چلانے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ تم بواری بس جلد سے جلد ایک بچہ دے دو، یہ گھر بھر جائےگا۔ کیوں نہ آج ہم ایک نیا طریقہ اپنائیں؟‘‘

    اور پچھلے پورے دو سال سے دونوں اسی کوشش میں تو مصروف تھے۔جھرنا ہیمبرم کے آنے کے بعد اب تو دن میں بھی وہ ایک آدھ کوشش کر لیتے۔ فرصت کے وقت جھرنا کوارٹر کے دروازے کے باہر اکڑوں بیٹھی زمین پر کسی تنکے سے لکیریں کھینچتی رہتی، ٹرینوں کو گزرتے دیکھتی رہتی۔ اسے دھواں اگلتے ہوے اسٹیم انجن زیادہ اچھے لگتے جن کے ڈرائیور سر پر غلیظ رومال باندھے رہتے اور اس عجیب و غریب بڑھیا کی طرف تاکتے رہتے جسے اس شہر کی بھاشا بھی نہیں آتی تھی۔ پٹریوں پر بھاگتے کتوں کو دیکھ کر اسے اپنا تھنبا یاد آ جاتا۔ سوروں کو تو اس نے پڑوسیوں کو امانت کے طور پر سونپ دیا تھا، مگر تھنبا کو کون سنبھالتا! کتنی دور تک وہ پہاڑی راستے پر بھاگتا آیا تھا اور بس کے پیچھے پیچھے اس نے دوڑ بھی لگائی تھی۔ اسے یاد کرکے جھرنا کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور وہ دبی دبی آواز میں کوئی پہاڑی گیت گانے لگتی جسے وہاں کوئی سمجھ نہ پاتا، یہاں تک کہ اندر سے بواری کی پکار سنائی دیتی۔

    ’’بڑھیا، باہر کیا خصم پھانس رہی ہے کہ اب تک آنکھیں سٹی ہوئی ہیں؟ کتنا درد ہے میرے بدن میں۔ مگر کوئی مجھے اپنی بیٹی کی نظر سے دیکھے تب نا!‘‘

    رات کو اکثر رائسن دیر سے شراب پی کر لوٹتا اور باورچی خانے کے دروازے پر پڑے ہوے جسم سے اسے چڑ ہو جاتی۔

    ’’جی چاہتا ہے ایک لات جماؤں اسے۔ یہ بھی سونے کا کوئی وقت ہے ماں؟ اور کھانا کون کھلائےگا؟ یہ سب تیرے کارن ہے کہ بواری کے پیٹ میں بچہ ٹھہر نہیں پا رہا ہے۔‘‘

    ’’اور کیا!‘‘ بواری اندر سے تائید کرتی۔ ’’ذرا سمجھاؤ اسے، کبھی جو مالش کا تیل گرم کر کے میرے بدن پر لگایا ہو۔ میری تو کمر کا درد بڑھتا جا رہا ہے۔‘‘

    ’’ارے گھبرانے کی بات نہیں، پہلے کچھ کھا لینے دو، بڑی بھوک لگی ہے۔ پھر میں تیری کمر کا درد ٹھیک کر دیتا ہوں۔ میرے پاس ایک خاص نسخہ ہے،‘‘ رائسن آنکھ مار کر کہتا۔ ’’اور ذرا دیکھ، کیا لایا ہوں تیرے لیے۔ بہت ہی خستہ مال پوے ہیں۔ پسند ہیں نا تجھے؟ پر اتنا بھی نہ کھا لینا کہ پھر سے لوٹا لے کر دوڑنا پڑے۔‘‘

    ’’ارے، میرے پیٹ میں تو کچھ پچتا ہی نہیں۔‘‘

    ’’اس کی ضرورت ہی کیا ہے، گھر کے اندر سنڈاس جو ہے۔‘‘

    کبھی کبھی بواری باپ کے گھر چلی جاتی۔ اس وقت گھر میں سناٹا رہتا اور دونوں ماں بیٹے کی دیرینہ محبت لوٹ آتی۔

    ’’ارے اماں، بواری سے کہوں گا اب کے بازار سے تمھارے لیے تانت کی ساڑی لائے۔ اور یہ سڑی گلی چپل، مجھ سے تو یہ برداشت نہیں ہوتی، جانے تم کیسے انھیں سٹکتی پھرتی ہو؟‘‘

    ’’ارے اماں ذرا ٹھیک سے کھایا کرو، تم تو سوکھتی جا رہی ہو۔ یہی حال رہا تو تمھارے باقی کے دانت بھی جھڑ جائیں گے۔‘‘

    ’’ارے اماں، اب کے بواری سے کہوں گا تمھیں ریلوے ٹاکیز میں سنیما دکھا کر لائے۔‘‘

    مگر بواری دن بدن شکی ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے ٹونا ٹوٹکا بھی کر کے دیکھ لیا تھا، سادھو سنتوں اور پیر فقیروں کے مزاروں کے درشن بھی کر لیے تھے، ٹنگا بھوت والے برگد پر سیندور کی پوجا بھی کی تھی اور تجربہ کار چھنال بوڑھیوں سے سن کر رائسن کے ساتھ ہر وہ طریقہ آزما لیا تھا جو بچہ پیٹ میں رکھنے کے لیے ضروری ٹھہرتا ہے، مگر تھی وہ بانجھ کی بانجھ اور آخرکار اس کی بجلی جھرنا ہیمبرم پر ہی ٹوٹتی۔

    ’’یہ سب اس کے کارن ہے۔ اس نے اپنے مرد کو کھایا اور اب میرے پیٹ سے بچے چرا رہی ہے۔‘‘

    ’’چپ رہ رنڈی،‘‘ رائسن چلاتا۔ ’’میری پیاری رنڈی!‘‘

    ’’میں کہتی ہوں، ضرور اس میں کچھ بات ہے۔ میں نے اکثر کچھ سائے آنگن میں چلتے دیکھے ہیں۔‘‘

    ’’میں کہتی ہوں، کبھی تم غور سے بڑھیا کو نہیں دیکھتے۔ کل صبح میں نے جب اسے دیکھا تو وہ مری پڑی تھی۔ مگر اسے جب ہلایا تو اس نے اپنی سیلن بھری آنکھیں کھول دیں اور اپنے سفید دانتوں سے بھوتنی کی طرح ہنس دی۔‘‘

    ’’میں کہتی ہوں وہ رات کونیند میں چلتی ہے اور اپنے گیتوں کے ذریعے بدروحوں کو بلایا کرتی ہے۔‘‘

    مگر رائسن زیادہ دن تک ماں کا دفاع نہ کرسکا۔ اب تو بواری نے کھلے عام جھرنا کو گالی دینا شروع کر دیا تھا۔

    ’’ہر رات اس چڑیل کو مجھے لانگھنا پڑتا ہے۔‘‘

    ’’ہر صبح اس کی لاش دیکھنی پڑتی ہے۔‘‘

    ’’ہر دوپہر، جب میں سوتی ہوں، جانے یہ کہاں جاتی ہے۔ لوگوں نے اسے مڑے ہوے پیروں سے چلتے دیکھا ہے۔ ‘‘

    اور جب بات حد سے گزر گئی تو ایک دن رائسن نے جی بھر کر شراب پی، گھر آیا اور ماں کے جھونٹے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا باہر لے جا کر ریل کی پٹری پر ڈال دیا۔ جھرنا اٹھی اور لنگڑاتے لنگڑاتے تاروں کی ناکافی روشنی میں اس سمت ہولی جدھر اس کی دانست میں اس کے پہاڑ تھے۔

    گھر پہنچنے میں اسے تین دن لگے۔ اس ایک سال کے عرصے میں اس کے اور بھی بہت سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ جب پہاڑ نے ہیمبرم کو دیکھا تو اس نے اپنی جھاڑیوں اور پیڑوں والی بانہیں پھیلا دیں اور سورج کانا پہاڑ پر گویا ہمیشہ کے لیے ٹھہر گیا اور رنگین سروں والے گرگٹ سوکھے پتوں پر بھاگتے بھاگتے رک گئے اور اپنے سر موڑ موڑ کرجھرنا ہیمبرم کو تاکنے لگے۔ اور جب جھرنا ہیمبرم گاؤں سے کچھ دور، جہاں تک بس کے کنڈکٹر نے ترس کھا کر اسے لفٹ دی تھی، ایک چٹان پر بیٹھی اپنے بالوں سے تنکے نوچ نوچ کر نکال رہی تھی تو اسے کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔

    تھنبا سورج کو سرپر اٹھائے کھڑا تھا۔

    ’’گھر لوٹ کر آ گئی مالکن؟‘‘ کتے نے کہا۔

    ’’ہاں رے،‘‘جھرنا ہیمبرم نے کتے کے سر کو تھام کر سینے سے لگاتے ہوے کہا۔ ’’میرا بچہ بڑا دکھی ہے تھنبا، مجھے جلد سے جلد انصاف مانگنے ڈھاک کا جنگل جانا ہوگا۔‘‘

    ڈھاک کا جنگل! ڈھاک کا جنگل! کتا راستہ بھر بھونکتا رہا۔

    کبھی ڈھاک کے جنگل میں صرف ڈھاک کے پیڑ رہے ہوں گے، مگر حال کے برسوں میں دوسری قسم کے پیڑ بھی جگہ جگہ اگ آئے تھے۔ انھیں میں سے چیتیان کے ایک پیڑ پر منگرو نے قبضہ جما رکھا تھا۔ وہ اس کی کھوکھلی شاخ پر، ہاتھ پر سر رکھے لیٹا رہتا اور اپنی مڑی ہوئی ٹانگ ہلایا کرتا۔ یہاں وہاں بہونیا کے پیڑوں میں گلابی پھول کھلے ہوے تھے اور املتاس کے پھل لانبے اور فحش انداز میں جھولتے رہتے اور ڈھاک کے بونے پیڑوں میں دھول اور ہوا سرگوشیاں کرتی رہتیں جن میں کمتر درجہ کی روحیں بلبلایا کرتیں۔

    ’’خاموش رہو بےمطلب کے پلو!‘‘ منگرو کی آواز سے روحیں دہل جاتیں اور وہ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے پیڑوں اور جھاڑیوں کے پیچھے پناہ لینے لگتیں۔’’ یہ بھی کوئی زندہ انسانوں کی جگہ ہے کہ دانت نکوس رہے ہو؟ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے علاوہ تم آتماؤں کو اور کچھ آتا بھی ہے؟‘‘

    ’’بغاوت!‘‘ روحیں چلاتیں۔

    اور ان نعروں کو سن کر منگرو کا پیٹ ہنسی سے پھولنے لگتا۔ وہ چیتیان کے پیڑ سے زمین پر چھلانگ مارتا اور ڈھاک کے پیڑوں کی آڑ سے نکلی ہوئی روحوں کے کولھوں پر لات لگایا کرتا۔

    ’’تم اسی قابل ہو۔‘‘ وہ کہتا۔ ’’اور شاید یہ لات تھوڑی بہت عقل تمھارے پیٹ میں ڈال دے۔‘‘

    مگر جھرنا ہیمبرم جب ڈھاک کے جنگل میں وارد ہوئی تو روحوں کی آپس میں صلح ہو چکی تھی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ڈھاک بن میں سرے سے روحوں کا وجود ہی نہ ہو۔

    منگرو نے چیتیان کی کمزور شاخ سے سرموڑ کر جھرنا ہیمبرم کو دیکھا اور مسکرایا۔

    ’’آ گئی میری مہوا کی ترنگ۔ ذرا دیکھو، مرنے کے بعد بھی اسے میری ضرورت ہے جیسے زندگی بھر کا دکھ لے کر بھی جی نہیں بھرا۔ آہ، ہماری ناریوں کو اور کتنا بوجھ چاہیے۔‘‘

    تھنبا کا سینہ کانپ رہا تھا۔ وہ سر کو زمین پر گاڑ کر غرا رہا تھا۔ اس کی دم ٹانگوں کے بیچ چھپتی جا رہی تھی۔ اسے بدروحیں کبھی پسند نہیں تھیں۔ اسے ان کی عادت بھی نہ تھی۔

    ’’وہ دکھی ہے، بہت دکھی ہے۔ ‘‘جھرنا گھٹنوں کے بل گر کر رو رہی تھی، مٹی چہرے پر مل رہی تھی۔

    ’’اچھا!‘‘منگرو کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ’’تب تو میں بھی دکھی ہوں۔‘‘

    ’’آہ منگرو، ایک سال تک میں نے ان کا دکھ دیکھا۔ آہ، ہمارے بچے دکھی ہیں۔‘‘

    منگرو کو د کرچیتیان کے پیڑسے نیچے اترا اور جھرنا کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے سر کے بال تن کر کھڑے ہو گئے۔ بہت ساری روحوں نے پتوں اور جھاڑیوں کے پیچھے سے سر باہر نکال کر دیکھا۔ وہ اپنی لانبی زبانوں سے دانت چوس رہی تھیں اور منگرو کی مصیبت سے خوش تھیں۔

    ’’عورت! میرے قریب نہ آنا، ورنہ میں تیرا ٹیٹوا دبا دوں گا۔ میں پہاڑ پر گِدھوں کو اترنے کی اجازت نہیں دے سکتا جیسا کہ تم چاہتی ہو۔‘‘

    ’’چاہے وہ اپنا بچہ ہو؟‘‘ جھرنا ہیمبرم نے بڑھ کر منگرو کا کرتا پکڑنا چاہا۔

    ’’دور ہٹ!‘‘ منگرو کود کر پیچھے ہٹ گیا اور اپنی ایڑیوں پر بلند ہوتا چلا گیا جسے دیکھ کر کمتر آتماؤں کے دل کانپنے لگے۔ ’’مجھ سے یہ سب دیکھا نہیں جاتا۔ اتنی کمزوری کے ساتھ زندہ رہنا کیا مطلب رکھتا ہے۔ عورت اپنے ناخن تیز رکھ اور زبان کی نوک پر انگارے۔ سانپوں میں مجھے کو برا سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘

    ’’انھیں بچہ دے دو منگرو۔ ان کی زندگی آسان ہو جائےگی۔‘‘

    ’’ہرگز نہیں!‘‘ منگرو دانت پیس رہا تھا۔ ’’تو پہاڑ سے نیچے گئی اور انھوں نے تیرے بال سفید کر ڈالے۔‘‘

    ’’منگرو!‘‘

    ’’تجھے زندہ رہنے کے لیے کسی کی ضرورت تو نہیں تھی جھرنا؟ تو ریچھ کی طرح طاقتور تھی۔ تو تو اکیلی پہاڑ کی رکھوالی کر سکتی تھی۔ پھر بھی، جب تو کمزور پڑ ہی چکی ہے تو میں تجھے لڑنے کے لیے ایک ہتھیار دیتا ہوں۔ ‘‘وہ جنگل کی طرف بھاگا۔ وہ ایک دیودار کے تنے پر چڑھتا نظر آیا، اس نے اپنی آنکھیں خار دار جھاڑیوں پر ٹانگ دیں اور کان پتوں پر لٹکا دیے۔ اس کے دانت پتھروں پر گرتے چلے گئے اور اس کے بال الگ الگ رینگنے لگے۔ جھرنا ہیمبرم نے اپنے سامنے ایک چھوٹے سے نقارے کو پڑا پایا۔ منگرو اس کے سامنے کھڑا ہانپ رہا تھا۔ نقارے کے چمڑے کی کھال پر اپنی سوکھی چمڑیوں والا ہاتھ پھیر رہا تھا۔

    ’’اس نگاڑے کے لیے ہم روحوں نے کتنی محنت کی تھی۔ اسے مٹی کے نقاب پہن کر ناچنے والوں سے چھینا تھا جب ان کا جتھا نیچے شہر کی طرف جارہا تھا اور نشے میں تھا۔ جب بھی تیرا دکھ تجھے چاٹے تو اپنی ساری چوٹ اس کو دینا۔ یہ تیرا دکھ بانٹ لے گا، تیرا کام آسان کردے گا۔ اسے بجانے کے لیے ایک مڑی ہوئی لکڑی بنا لینا اور اسے تیل پلانا جس کی ہم روحوں کو قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘

    منگرو چیتیان کے پیڑ کی طرف اڑتا دکھائی دیا۔ روحوں نے اپنے سر جھاڑیوں اور پتوں کے اندر کر لیے۔ منگرو نے سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر اپنی ایک ٹانگ ہمیشہ کی طرح موڑ لی اور سیٹی بجانے لگا۔

    ’’چل بھاگ تھنبا!‘‘ اس نے کہا۔

    نقارے کی آواز زیادہ تر رات کی تنہائی میں سنائی دیتی۔ اس نقارے کی چوٹ سے جھرنا ہیمبرم نے گاؤں کے لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔ کہاں سے ملا اسے یہ نگاڑا؟ یہ بڑھیا عجیب و غریب کارنامے دکھاتی ہے۔ ایک سال بعد بھی اس کے تمام کے تمام سوْر زندہ رہے تھے اور تھنبا نے تین جنگلیوں کو کاٹ کھایا تھا جو گوشت کے لیے اس کا اغوا کرنا چاہ رہے تھے۔ مگر یہ نگاڑا ایک عجیب واقعہ تھا۔ اسے سمجھنا مشکل تھا۔ مگر بڑھیا ہر رات جس دلجمعی سے اسے بجاتی وہ اس سے بھی زیادہ عجیب تھا۔ بوڑھا منگل باسکے ایک دن لنگڑاتا ہوا جھرنا ہیمبرم کے دروازے پر پہنچا۔ اس نے بیڑی قبول کی اور کھانستا رہا۔ جھرنانے نگاڑا نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ ایسا کرنا ضروری تھا۔ بوڑھا باسکے سارے گاؤں اور اس کے چرند و پرند کی طرف سے آیا تھا۔

    ’’اس کا چمڑا مضبوط ہے اور لکڑی کا تو جواب نہیں جس پر یہ تنا ہوا ہے،‘‘منگل باسکے نے بیڑی پیتے ہوے کہا۔ ’’کوئی وجہ تو ہوگی کہ تم اسے اس طرح راتوں کو بجاتی ہو؟‘‘

    ’’میرے رائسن کو اس کی ضرورت ہے۔‘‘

    ’’شاید۔‘‘ منگل باسکے اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’ہمیں اس سے کیا لینا۔ ہر کسی کو اپنے ڈھنگ سے دکھ جھیلنے کا حق ہے۔‘‘

    لگتا ہے بیٹے کی مار کھا کر دماغ پھر گیا ہے، اس نے گاؤں والوں کو بتایا۔ اسے اس کے حال پر چھوڑا جا سکتا ہے۔

    اور گاؤں والوں نے جھرنا ہیمبرم کو معاف کر دیا۔ مگر جھرنا کی ہر رات امیدوں بھری تھی۔ وہ دل لگا کر آدھے گھنٹے تک نقارہ پیٹتی اور تھنبا کا سینہ کانپتا رہتا اور پھر واقعی معجزہ ہو گیا۔ نگاڑے نے چمتکار دکھایا۔

    جاڑے کی ایک کہر آلود صبح رائسن دروازے پر کھڑا تھا۔ جھرنا اس سے لپٹنا چاہتی تھی، مگر رائسن سردمہری کے ساتھ چپ چاپ کھٹیا پر بیٹھ گیا اور بیڑی پھونکتا رہا۔ اس نے وقت پر کھانا کھایا اور بانس کے جھنڈ کے پیچھے جا کر زمین پر لیٹ کر دھوپ کھانے لگا۔ اگلے پورے ہفتے تک اس نے بہت کم بات کی۔ وہ گاؤں میں آوارہ گھومتا پھرا۔ اس نے کسی سے بات نہیں کی۔

    ’’بواری کیسی ہے؟‘‘ آخر ایک دن جھرنا ہیمبرم نے پوچھ ہی لیا۔

    ’’اچھی ہے،‘‘ رائسن نے بتایا۔ اس کے گالوں پر ہلکی ہلکی گھنگھریالی داڑھی اگ چلی تھی۔ اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ لگ رہا تھا اندر ہی اندر اسے کچھ کھرچ رہا تھا۔ اس نے نقارے کو تعجب اور تمسخر سے دیکھا۔

    ’’تو اب اس کی بھی ضرورت پڑنے لگی ہے؟ کیا بکواس ہے۔‘‘

    مگر بیٹے کے آنے کے بعد جھرنا کو نقارے کی ضرورت نہ تھی، اس لیے اس نے اسے بانس کی ایک پرانی چٹائی کے اندر لپیٹ کر رکھ دیا تھا۔ اب وہ پہلے کی جیسی جھرنا ہیمبرم بن گئی تھی۔ وہ دل ہی دل میں منگروکی شکرگذار تھی۔

    ’’شاید اب میں واپس نہ جاؤں۔ ان شہروں میں کوئی زندگی نہیں ہے ماں،‘‘ ایک دن رائسن نے اعلان کیا۔

    ’’بواری کو کب لارہے ہو؟‘‘

    رائسن نے کوئی جواب نہ دیا۔ مگر ایک ہفتے کے اندر یہ جواب جھرنا ہیمبرم کو دوسری طرح سے مل گیا جب شہر سے پولیس کا ایک دستہ آکر رائسن کو حراست میں لے کر چلا گیا۔ رائسن پر بواری کے خون کا الزام تھا جس کے مردے کو اس نے ریل کی پٹری پر ڈال دیا تھا تاکہ اسے ایک حادثہ قرار دے سکے۔ مگر وہ اس وقت اتنا پیے ہوے تھا کہ اسے آس پاس کا ہوش نہ تھا اور کئی لوگوں نے اسے بواری کے جسم کو پٹری پر ڈالتے دیکھا تھا۔

    اس کے جانے کے بعد جھرنا لٹی لٹی سی جھونپڑی کے دروازے پر بیٹھی رہی، بانس کے جھنڈ کے اوپر پھیلے ہوے نیلے آسمان میں پرندوں کو چکر لگاتے دیکھتی رہی۔ اس رات گاؤں والوں نے پھر سے نقارے کی آواز سنی اور یہ آواز رک رک کر رات رات بھر سنائی دیتی رہی۔ مہینوں بیت گئے۔ جھرنا ہیمبرم کے بدن پر گوشت براے نام رہ گیا اور اس کے چہرے کی ہڈیاں باہر نکل آئیں۔ ہر وقت اس کی آنکھیں بے چینی لیے اپنے گڈھوں میں گھومتی رہتیں۔ اس کے آدھے سور بیمار ی سے مر گئے۔ جس دن وہ تھنبا اور پھٹے ہوے نقارے کے ساتھ ڈھاک کے جنگل کی طرف گئی۔ اس دن آسمان پر گھنے کالے بادل چھائے ہوے تھے اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ڈھاک کا جنگل سنسان پڑا تھا۔ اس نے نقارے کو منگرو کے چیتیان کے پیڑ سے لٹکا دیا اور منگرو کو جنگل میں ڈھونڈتی رہی۔ ڈھاک کا جنگل خاموش تھا۔

    اس کی آواز پہاڑ کے اوپر سے دوسرے پہاڑ تک جا کر لوٹ آئی جیسے تیز ہوا اسے کاندھوں سے ڈھو کر لے گئی ہو اور واپس لے آئی ہو۔

    ’’منگرو! یہ نقارہ تواب کچھ بھی نہیں کرتا۔‘‘

    ڈھاک کا جنگل اب پوری طرح خاموش بھی نہ تھا۔ ڈھاک کے بڑے بڑے پتوں پر بارش کی موٹی موٹی بوندیں ٹپ ٹپ گر رہی تھیں۔ اسے لگا جیسے پتوں کے پیچھے کچھ سرسرا رہا ہو، مگر کچھ بھی دکھائی نہ دیا اور پھر دیکھتے دیکھتے ہوا تیز ہوگئی، آسمان بجلی کے کڑکنے سے آرپار پھٹتا چلا گیا اور تیز بارش اور ہوا میں پیڑ زمین بوس ہوتے گئے۔ جھرنا اور تھنبا نے ڈھاک کے ایک پیڑ کے تنے سے لپٹ کر سرکو دونوں بانہوں کے اندر کر لیا۔ ان کی پیٹھ اور کولھوں پر بارش تازیانے لگا رہی تھی، اولے برسا رہی تھی۔

    ’’واپس نہ چلیں مالکن؟‘‘ تھنبا بیچ بیچ میں جھرنا سے سرگوشی کر رہا تھا۔ مگر واپسی ناممکن تھی جب تک طوفان فرد نہ ہو جائے اور جب طوفان فرد ہوا تو سارا جنگل گیلا، اداس اور خاموش تھا۔ اپنے سارے پانی برسا کر بادل بدمست ہاتھیوں کی طرح واپس جا رہے تھے۔ جھرنا اور تھنبا نے سر اٹھا کر دیکھا۔ ڈھاک کے جنگل میں اب صرف ڈھاک کے پیڑ رہ گئے تھے۔ املتاس، بہونیا اور چیتیان کے سارے پیڑ جن پر آتمائیں رہتی تھیں اور وہ بھی جس پر منگرو رہتا تھا، نگاڑے کے ساتھ جانے کہاں چلے گئے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے