Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مہادیو واڑی

کمل دیسائی

مہادیو واڑی

کمل دیسائی

MORE BYکمل دیسائی

    صبح مہادیوباڑی میں ہولے سے قدم رکھتی ہے اورسروں میں بھیگ جاتی ہے۔ مہادیوباڑی پرغنودگی طاری ہے اور شکر کی سی مٹھاس میں ڈوبے ہوئے سروں میں ڈوبتی چلی جارہی ہے۔

    انامو کاشی اچانک بیدارہوتاہے۔ شایدصبح ہوگئی۔ کہیں سے شہنائی کے سرسنائی پڑرہے ہیں۔ میٹھے پن کا احساس ہورہا ہے۔

    انامو کاشی کے گھرکے مقابل ہی میونسپلٹی کادیاجلاکرتاہے۔ کھمبے پر آڑی سی ایک تختی آویزاں ہے، ’’مہادیوباڑی۔‘‘ کھمبے کے نیچے کچرے کا بڑاساپیپارکھا ہے۔ روزانہ اس کچرے کے ڈھیر کوکھنگالنے والا ایک کتااوراس پرجھپٹ کر بیٹھنے والاکوا۔ اناموکاشی کوبے تحاشہ ہنسی چھوٹتی ہے۔ آپ نے کبھی دیکھا ہوگا۔ کبھی سکون سے آنکھیں بھینچے کوئی جانوربیٹھاہوتاہے، تو اس پرجھٹ سے کوئی کوا آبیٹھتاہے یہ اس کی عادت ہوتی ہے۔ بچپن میں انا نے ایک تصویربنائی تھی، بہتے پانی میں ڈبکیاں لیتی کالی کلوٹی بھینس اورپشت پر بیٹھا ہوا کوا۔ رنگین چاک سے تصویرمیں رنگ بھرے تھے۔ چکوڑی (گاؤں کانام) میں وہ اسکول جاتا تھا۔ ندی نالوں سے گذرنے والے راستے کی وجہ سے وہ اکثراسکول جانے سے انکار کردیتا۔

    وہ تختی اب پرانی ہوگئی۔ حروف مٹ سے گئے ہیں، پھربھی دھندلے سے نقوش باقی ہیں۔ ’مہادیوباڑی‘ پپّامراٹھے کے نانا، جوامیرتھے، یہ زمین انہیں کی خریدی ہوئی تھی۔ پھریہ گھربنواکر راستہ بھی بنوایاتھا۔ اناموکاشی کے گھرکے بعد گنجی کراَنّاکامکان تھا، اس کے بعدساٹھے کا، پھرپروہت کا۔ یہ سارے لوگ بقول انامو کاشی ’’بڑے وغیرہ وغیرہ قسم کے لوگ تھے۔ خواہ وہ ساٹھے ہوں یا پروہت، کمبخت سب کے سب غیرضروری۔‘‘ اکثربینک میں کام کے دوران اناموکاشی کوخیال آتاتھا کہ یہ لو گ کسی کلیئرنہ ہونے والے چیک کی مانندہیں۔ ان کے گھرکی چائے بھی تودوسروں کے گھر کی چائے کی سی ہوتی ہے۔ پھربھلاکیوں یہ لوگ اکڑتے ہیں۔

    ان سے قریب ہی پپّامراٹھے کاخوبصورت شاندارمکان تھا۔ ان چاروں گھروں میں نمایاں، سیمنٹ کنکریٹ کا بناہوا کئی کھڑکیوں والا، گیلری اورپھر تیسری منزل پرچھت، چھت پر سجی پھلواریاں اوران میں پانی دیتی ہوئی پانڈو پرتاپ کی سبھدرا جیسی دکھائی دینے والی ممی مراٹھے۔ یہ گھران لوگوں کی نگاہوں کے سامنے تعمیرہواتھا۔ اناموکاشی کی سمن کوبڑی حیرت ہوتی۔ بھلا اتناخوبصورت گھر بھی ہوسکتاہے؟اس نے توکبھی ایسا گھردیکھا ہی نہ تھا۔ دن بہ دن وہ گھرکوبنتاسنورتا دیکھتی، خیالوں میں وہاں کے چکرلگاتی۔ اس کے فرش کو، دیواروں کو، کھڑکیوں کو چھونے کا ایک الگ لطف ہوگا۔

    مراٹھے کی انجنی کے گھرچھوڑکرچلے جانے کی خبرجب سمن کوملی تواسے جھٹکاسا لگا۔ ایسے خوبصورت گھرکوچھوڑکرلڑکیاں جاسکتی ہیں بھلا؟بڑی پاگل ہے۔ وہ خودتوکبھی نہ جاتی۔ اس گھرمیں کیسا مزہ آتا۔ لیکن کیابھلا وہ زیب دیتی اس گھرمیں؟وہ توگندی بدصورت سی اوراس کے چہرے پرلگا چشمہ تواوربھی برا لگتاہے۔ وہ بری ہے۔ اس کچرے کے پیپے میں اورمجھ میں کوئی فرق نہیں۔ وہ جھٹ اپنی انگلی دروازے کی درازمیں رکھ کر دروازہ بندکردیتی ہے۔ رستا ہوا خون دیکھ کراسے سکون سا حاصل ہوتاہے۔ مجھے ایسا کیوں ہوتاہے؟کچھ سینے پرونے کے لیے لے بیٹھیں کہ سوئی آنکھوں میں کھپ جاتی ہے اورآنکھ پھوٹ کر لٹک جاتی ہے۔ وہ اندھی ہوجاتی ہے۔ لیکن خوفزدہ نہیں ہوتی۔ آخرکارایسا کیوں ہوتاہے؟ٹھیک ہے سبھی کواس کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرناچاہئے۔ بھلالوگ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیوں کریں؟اناتڑاتڑاس کے منہ میں کیوں نہیں مارتے؟

    ہیڈماسٹرنی نے ایک بارگنگو پاٹل کی کتاب چرانے پرچھڑی سے ماراتھا۔ یہ دیکھ کرسمن میں بھی مارکھانے کی خواہش جاگ اٹھی۔ اسے بھی ایسی ہی مارپڑنی چاہئے، اس کے جسم پربھی اسی طرح چھڑی کے نشانات اٹھ آنے چاہئے۔ خوداذیتی کی خواہش اس کے جسم میں شدت سے جاگ اٹھی۔ کتاب اس نے چرائی ہے۔ وہ دوڑی ہوئی جاتی ہے۔ کتاب میں نے چرائی ہے مجھ کوماریے۔ نہیں نہیں نہیں، میں نے چرائی ہے، ماریے نامجھے۔

    ہیڈماسٹرنی خوف زدہ سی پریشان کن نگاہوں سے اسے دیکھتی ہے۔ لیکن یہ بات تو اس کی دانست میں بیٹھ چکی ہے کہ وہ بری ہے۔ انا کوچاہئے کہ وہ اسے خوب ماریں۔ وہ پرسوں روزمرہ کی طرح نیلومراٹھے کے اسکول جانے کے وقت دروازے میں کھڑی تھی۔ اپنی مختصرسی چوٹیاں اڑاتی ہوئی نیلو اپنی سائیکل لیے باہر آتی ہے۔ لیکن اسے اپنی جانب پرامید نگاہیں باندھے کھڑی سمن دکھائی نہیں دیتی۔ آج شاید اسے دیرہوگئی تھی، ورنہ وہ توروزانہ سمن کو مسکراکر ٹاٹا (الوداع) کرتی ہے۔ تووہ دن بھر سمن کے لیے اچھاگذرتا۔ لیکن بھلا وہ روزسمن کودیکھ کر کیوں مسکرائے؟سمن ایسی کون سی بڑی ہے؟بالکل کچرا تو ہے!

    نیلو کی سائیکل اس کے جسم کوروندتی ہوئی گذرجاتی ہے لیکن نیلو اس سے بے خبرہے۔ اس کا جسم (سمن کا) اورتن جاتاہے۔ خود اذیتی کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔ وہ دوڑتی انا کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ اورایک عجیب سی آواز میں چلاتی ہے، ’’اناآپ مجھے ماریے، میں واقعی بہت بری ہوں۔ مجھے کچھ نہیں آتا، سچ مچ میں سزا کی حقدارہوں، آئندہ مجھ سے کبھی غلطی سرزد نہ ہوگی۔ آپ ماریں گے نا مجھے؟آپ مجھے ماریں گے تواچھا لگے گا۔‘‘

    انابھیگی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتاہے، جھجک سی محسوس کرتاہے۔ آخرکار اسے اس طرح کا دورہ کیوں پڑتا ہے؟کہیں دامو کی طرح اسے بھی کچھ ہونے والا تونہیں؟

    اکا جواب دیتی ہے۔

    ’’کیاپتہ اب میں بھی کیاکہوں؟کس کا پنّا(لکھا) کون پڑھے گا؟جب ہوناتقدیرمیں لکھا ہوتو میں بھلاکیسے روک سکتی ہوں؟جوہوناہے سوہوجائے۔ سما! تم تھوڑی شانت ہوجاؤ۔ خواہ مخواہ ایسی بات نہ سوچو، تم بالکل بری نہیں ہو۔ بھلاتم سے ایسا کس نے کہا؟

    دراصل انا کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے لیے کیا کریں۔ وہ چپ سادھے ہیں۔ دامو بھی اسی طرح کی حرکتیں کیاکرتاتھا۔ اس پرغشی طاری ہوتی۔ ادّا اس کے ہمراہ نرسوباکی باڑی میں قیام اختیارکیے ہوئے تھی۔ وہ (دامو) ہرروزصبح سویرے ٹھنڈے پانی میں غوطہ لگاکردتاّ کے مندرمیں جابیٹھتا۔ یہ عمل بڑھتا گیا اوراسی میں ختم ہوا۔‘‘ ہے گرودتاّ میرے من کوشانتی دے۔‘‘ پالکی آگے بڑھتی ہے۔ تاریکی میں ملی جلی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ندی کی جانب سے ہوآتاہے۔ آسیب زدہ لوگ کھمبوں کوتھام کران سے اپنا سرٹکراتے ہیں اورچیختے چلاتے ہیں۔

    ’’ہے دتا مجھے چھڑاؤ۔۔۔‘‘ بقیہ کچھ لوگ گردش کرتے ہیں۔ یہ عمل تو چلانے سے بھی بھیانک ہوتاہے۔ کلیجہ کاٹ کھانے کودوڑتاہے۔ گھپ اندھیرے میں آواز لرز جاتی ہے۔ اسے ہمیشہ اس سے خوف لاحق رہاہے۔ ایک طرف پرسکوت گھاٹ، پرسکون مندر، ندی میں پھیلی ہوئی چاندنی اوریہ سارے لوگ۔ ایسے میں خوف اس کا جسم کھاتا اورندی پرپھیلی ہوئی چاندنی میں گھلی ہوئی ہوااسے ہولے سے تھپکیاں دیتی۔ یہ سب کچھ کیسا عجیب ہوتاہے۔

    انااچانک اٹھ کھڑاہوتاہے اور باہرچلا آتاہے۔ شاید کل رات سے بارش ہورہی ہے۔ مراٹھے کے شاندار گھرکے پڑوس کا وہ برگد کاپیڑبھیگتے بہت اچھا دکھائی دیتاہے۔ جیشٹی پورنیماکے روزعورتوں نے اس برگد کے پیڑ کودھاگا لپیٹا تھا۔ وہ بڑا ہی بھولالگ رہا تھا۔ انا کے دل میں اس کی (برگد کے پیڑکی) بڑی عزت تھی۔ اپنی لاکھوں آنکھوں سے اس برگد نے مہادیوباڑی میں متواترجاگ کرپہرہ دیاہے۔ اس کی چھاؤں خوفزدہ کرتی۔ کسی نے اس کی جڑوں کے پاس گڈھوں میں دتا کی چپلیں رکھ دی تھیں۔ گوِندا چاری طریقے پر پوجاتی ہے۔ وہیں پرایک پتھر پرنقاشی کیے ہوئے دوسانپ ہیں۔ ناگ پنچمی کے دن اکاان پردودھ انڈیلتی ہے۔ کہتے ہیں یہاں ناگ کا زہراتارا جاتاہے۔ یہاں آکرعموماًسانپ کاکاٹا نہیں مرتا۔

    کڈپی (گاؤں کا نام) کے ڈانڈیکرکے وکیل کے بیٹے کوجب سانپ نے کاٹا تب اس کے گلے میں پتھرباندھ کراسے یہاں لایاگیاتھا۔ کہتے ہیں زہراترگیا۔ شایدیہ سچ نہ ہو۔ کسی کیڑے مکوڑے نے کاٹ لیاہوگا۔ کمبخت لوگ جھوٹ بھی بہت بولتے ہیں۔ پتے ہوا سے کھڑکھڑاتے ہیں اوراناموکاشی کوشامو کا کاکی کہانی سناتے ہیں۔ بہت پرانی، اس کے چچا زادچچا کی کہانی۔ شاموکاکایہاں اس درخت کے نیچے چبوترے پربیٹھتے تھے، انہیں کوئی اولادنہ تھی۔ ایک دن جوتشی نے ان سے کہا، ’’سنو! بازار سے تھیلی بھرکُرمرے لے آؤ اور صبح یہاں اس چبوترے پربیٹھ کرکھاؤ پھردیکھوکیاہوتاہے۔‘‘

    شامو کاکاصبح سویرے اٹھ کرتھیلی بھرکُرمرے لے آتااوردرخت کے نیچے چبوترے پربیٹھ کر کھانے لگتاہے۔ مزے لے لے کر اطراف میں نظردوڑائے کرمرے چباتاہے کہ کہیں سے لڑکوں کی ایک ٹولی چلی آتی ہے، جن کی ہنسی سے چبوترے کے پتھرہل جاتے ہیں۔

    ’’کاکا آپ کیاکھارہے ہیں؟‘‘

    ’’ہمیں بھی تودیجئے نا۔‘‘

    شاموکاکاکے ہاتھوں سے لمحہ گرکرکھوجاتاہے۔ وہ کرمرے ان لڑکوں میں تقیسم کیے بناکھاتارہتاہے۔ جوتشی نے بھی یہی توکہا تھا کہ کسی کو نہ دینا۔ کرمرے ختم ہوجاتے ہیں۔ لڑکے اپنی راہ لیتے ہیں۔ پھربھی جوتشی خفاہوتاہے اورکہتاہے، ’’تم میں توصلاحیت ہی نہیں ہے، تم چلے جاؤ، تمہیں بچہ ہوناناممکن ہے۔‘‘ آہٹ سننے کے بعد بھی کانوں کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ سب کچھ فضول ہے۔

    کھمبے سے پرے رہنے والی کھوت کاکوؔزورسے کوئی چیزکھٹاک سے پھینک دیتی ہے۔ سرخ ملائم ساکچھ حصہ پیپے کے باہرگرپڑتاہے۔ روزوالا کتا اس پرجھپٹ کرکھانے لگتاہے۔ اناموکاشی کویہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ سیدھے سیدھے لاکر پیپے کے اندرڈالنے میں ان کاکیا بگڑتاہے؟کیا لوگوں کوگھن نہیں آتی؟وہ گنجی کرکی اوّا کتنی اچھی ہے۔ چھواچھوت کے معاملے میں وہ بڑھیابڑی محتاط رہتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد بڑی دور سے اپنے جھوٹے پتل کوٹھیک پیپے کے اندرپھینکتی ہے۔ نشانہ بھی خطا نہیں ہوتا، جیسے وہ عادی ہوچکی ہو۔ گوِنداچاری کے جانے کے بعد اس نے کبھی تھالی کوچھواتک نہیں۔ ایک ہی وقت کھاناکھاتی پراپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے پتل پر۔ وہ بڑی کٹرقسم کی ہے۔ گونداچاری کے (حیات) ہوتے اپنے کالے گھنے لمبے بالوں کابڑا ذکرکرتی، بڑی دیرتک کنگھیوں کابکسالیے بیٹھی جوڑاباندھتی رہتی۔ پھرنول پری کے آنگن سے چنے ہوئے چانے کے پھول یاپھر لمبا نوکدار بڑا سا کیوڑا اپنے بالوں میں سجاتی۔ بناپھولوں کے اسے کبھی نہ بھاتالیکن جس طرح بڑائی سے وہ اپنے بالوں کاذکر کرتی، گووندا چاری کی موت کے بعدانہوں نے سنیاس لے کربال اتاردیے تھے۔ نمایاں نظرآنے والا(ماتھے کا) ٹیکاغائب تھا۔ گری (گاؤں کا نام) سے ہوآئیے۔

    ہاں! ان کا زیادہ تروقت باغ میں ہی گذرتا۔ جہاں آم، کٹھل اورسنگڑے کے درخت ہیں۔ اوّا کے آنگن میں نیم کا ہوناضروری ہے۔ سنڈاس کے اطراف رات رانی خوب پھیلی ہے۔ دوسری طرف موگرا بھی ہے، جس پرڈھیرسارے پھول ہیں۔ کچھ ایسے بھی کہ جن کے نام اناموکاشی نہیں جانتا۔ سنگڑے کے پھولوں کی کڑی (سالن) اوّا خوب بناتی ہے۔ مصالحہ دار کڈبو(چکلی کے قسم کی کھانے کی چیز) بنانا توانہیں کا کام ہے۔ پپا کوبھی بہت پسند ہے۔ ’’ارے اوّا سے کہوکہ وہ کھڑی شکراورکشمش بے دانہ ڈالے ہوئے کڈبوبنائے۔‘‘

    اوپرسے حکم صادرہوتاہے۔ گوبرسے لپے ہوئے آنگن میں وہ پھررنگولی سجاتی ہیں۔ تیرہ لفظوں سے بنا ٹیبل، اٹھارہ نقطوں سے کیچوا۔ اورکہتے ہیں کہ ایک ’سنچاری‘ کوسجایاہواگیان کمل ہوناضروری ہے۔ وہ مالارنگولی میں رنگ بھررہی ہے۔ سب کچھ ختم ہونے پرپیتل کے ڈبوں کوپونچھنے لگیں گی تاکہ وہ چمکدار ہوجائیں۔ اوا کولگتاہے اپنی زندگی ختم ہوچکی ہے۔ اناکے ساتھ کیسی سکھ کی زندگی تھی۔ کس چیزکی کمی تھی؟اب جسم نڈھال سا ہوگیاہے۔ ان کا جی مرجھاجاتاہے۔ خواہ مخواہ جلن سی ہوتی ہے۔ وہ اننت سین گلی میں رہنے والی گوپی کابائی جواپنے شوہر ہی کی زندگی میں سورگ سدھاری۔ اس کے جسم کا اصل سوناہوا۔ لیکن اس کی ایسی قسمت کہاں! یہ توایک بھوگ ہے۔ اس کے سواکچھ نہیں۔ ورنہ یہ بھی بھلاکسی کے ہاتھوں ہوتاہے؟

    ادا توپہلے ہی کم گوتھی، اب بالکل ہی نہ بولتی ہوگئی۔ ان کا گروراجہ ان سے خوف زدہ ہے۔ سال بھرکاتھا کہ اسی وقت سے ماتھے پرلگاہواکھڑا ٹیکا(گنگو) وہ چالے کاپھول اوروہ ریشمی ملائم بال اس کے دل میں بڑی گہرائی تک گھر کرگئے تھے۔ اس کی ادا کارنگ توبالکل ملائی جیساتھا۔ اس کے جسم سے لپٹ جانے پرنرم گدوں میں دھنستے چلے جانے کاسا احساس ہوتا۔ وہ اس کے برابرنہیں۔ کلوٹاسا جسم جوبچپن میں پھوڑے پھنسیوں سے بھراہوتا۔ اوّا سنبھالتی پروہ شرماجاتا۔ اس کا دل ڈوبتا جاتاتھا۔ اوّا جان جاتی کہ ان کا گروراجہ ان سے دور نکل گیاہے۔ پربھلاکیوں؟اسے اس کا یہ برتاؤ ناپسندہے۔ جب وہ اسکول جاتاتھا، وشنوسوامی آئے تھے۔ اوّا کے گھربھی وہ آتے ہیں۔ گروراجہ کوجبراًشراب پلاتے ہیں۔ وہ انکارنہیں کرتا۔ گردن جھکائے خاموشی سے حکم بجالاتاہے۔

    اوّا چاہتی تھی کہ ایسے وقت میں اسے انکارکرکے جھگڑناچاہئے تھا۔ وہ اوّا کے ان جذبات کوجا ن جاتا ہے۔ چھوت چھات کا مسئلہ اسے کچوکے لگاتاہے۔ آنگن کا باغیچہ اسے جسم میں کھپتا سا محسوس ہوتاہے۔ اسے اپنی اس غلطی کا احساس ہوتاہے لیکن وہ یہ سب کچھ چھوڑنے سے قاصر ہے کہ یہ سب کچھ اس کے لیے پیڑھیوں سے چلتاآرہاہے۔ یوں بھی اوّا کچھ زیادہ ہی سوچاکرتی ہے۔ اب پرسوں ہی کے دن رسوئی گھرمیں صرف کتے نے جھانکاتھا۔ پورے ایک گھنٹے تک وہ رسوئی گھر کوگوبر سے لیپتی رہی۔ اپنے سے نہیں ہوپاتا پھربھی مصالحے دارکڈبوبناکربرہمنوں کوکھانا کھلایا اور پھردکشا(خیرات)

    بھلا آج کتاگھر میں کیوں آیا۔ ایسا تو کبھی نہ ہوا۔ کہیں میرے ہاتھوں کوئی غلطی توسرزد نہ ہوئی گروراجہ؟پرمیں اپنی طرف سے تومذہب کے کسی اصول پرعمل کرنے میں کوتاہی نہیں کرتی۔ تمہاراوہ گوشت خور Non vegeterianدوست جب تمہارے ہمراہ گھرآیاتھا، میں نے سارے گھرمیں گؤموت (گائے کا پیشاب) چھڑک دیاتھااور تمہاری لاعلمی میں تمہارے پانی میں بھی ایک قطرہ ملادیاتھا۔ پہلے ایسا کبھی نہ ہوا۔ اب میرے ہاتھوں نہ جانے یہ سب کیسے سرزدہوجاتاہے۔

    وہ دن بھربے چین سی گروراجہ کوکچوکے لگاتی رہتی ہے۔ اوروہ غریب جان کئی بارصرف یہ سوچ کر رہ جاتاکہ وہ یہ سب کچھ خاموشی سے کیوں سنتا ہے؟پلٹ کرجواب کیوں نہیں دیتا؟بہت پریشان کرتی ہے، جان کھاتی ہے۔

    لیکن! جب وہ میٹرک میں تھا، تب اس نے خواب میں ادّا کی موت دیکھی تھی۔ وہ خواب میں بہت رویاتھا۔ (جاگ جانے پربھی روتارہا) اب کیاکریں؟اپنا کیاہوگا؟گویا اب اس کی پرسان حال ادّا واقعی نہ رہی ہو۔ وہ اپنے آپ میں آئندہ زندگی گذارنے کی ہمت پیدا کرنے کی کوشش کرتاہے۔ ہاں! اب وہ تنہا ہے۔ دل کومضبوط بناکر اب اسے سب کچھ کرناہے۔ لیکن اسے توکچھ بھی نہیں آتا۔ ایسے میں ادّا کہیں سے آکراسے سنبھالا دیتی ہے۔

    وہ ہڑبڑاتا ہے۔ ادّا سے اب اسے اوربھی خوف لاحق ہوتاہے۔ کیاسبھی انسانوں کواسی طرح کے خواب آتے ہوں گے۔ اس وقت وہ اچانک انجانے خوف سے دوچار ہے، جو اس کے دل پراثرانداز ہے۔ پرسوں بھی ایک ایسا ہی عجیب سا خواب اس نے دیکھاتھا۔ ایک بڑاسا پیلاناگ کنڈلی جمائے پھن پھیلائے کونے میں جھوم ڈول رہاہے اورٹکٹکی باندھے گروراجہ کودیکھے جارہے۔ گروراجہ اپنے کام میں مگن ہے۔ اس کی طرف سے لاپرواہ۔ پراس کا رنگ کتنااچھا ہے۔ اس کے ڈولتے ہوئے پھن پر ہاتھ پھیرنے کی خواہش اس میں انگڑائی لیتی ہے۔ لیکن کبھی کاٹ لیاتو؟پھرکیاہوگا؟وہ خوف زدہ ہوجاتاہے۔ ایسے میں کہیں سے موکاشی کی سمن آنکلتی ہے اوروہ اس پھیلے ہوئے پھن پر ہاتھ مارتی ہے۔ گروراجہ اس سے جھگڑتاہے، ’’ارے تم نے ایسا کیوں کیا؟کیوں مارااسے؟کہیں ڈس لیتاتو؟اوردیکھواب وہ چلابھی گیانا؟‘‘

    سمن مسکراتی ہے۔ لیکن گروراجہ کی بھی تویہی سب کچھ کرنے کی خواہش تھی۔ پھربھی وہ کیوں خفاہوتاہے؟

    صبح جا گ جانے پراسے عجیب سا لگتاہے۔ کسی گناہ کے سرزدہونے کا احساس ہوتاہے۔ اچانک اسے خیال آتاہے کہ کہیں موکاشی کی سمن مجھے پیارتونہیں کرتی؟ارے باپ رے! وہ پاگل لڑکی اپنی بیوی بنے گی؟میرے کاندھے سے کاندھاملاکرچلاکرے گی؟کیسابھیانک خیال ہے۔ وہ بے انتہاشرماتاہے۔ جسم میں رقت سے طاری ہوتی ہے۔ خوف سے اس کادھڑکتاہے۔ ہاں! بالکل! اسے یقین ہوجاتاہے۔ وہ اسکول جانے کے وقت پردروازے میں آکھڑی ہوتی ہے۔ دانت پسارے ہنستی ہے۔ بھینس کے سے کالے کلوٹے جسم کی نمائش کرتی ہے۔ یقیناًشک کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ ورنہ بھلاکیاوہ کچرے کے پیپے کودیکھتی رہتی ہے؟ دن گذرتے گئے۔ گمان یقین میں بدل جاتاہے۔ وہ ایک دن ساٹھے کی پچھواڑمیں رہنے والے وشنوپروہت سے ذکرکرتاہے۔

    ’’ہاں پرسوں میں جارہاتھا۔ اس نے مجھے روک لیا۔ میں ایک سؤرسے شادی کرلو ں گا؟ہاں! ہم بھی توکچھ ہیں کہ نہیں؟کیاہم کسی سے بھی شادی کرلیں؟‘‘

    یہ سن کراسے (گروراجہ) اپنے پروشنوکے ہنسنے کاگمان ہوتاہے۔ وہ قطع کام کرتاہے۔ وشنومیں یہ یہی توخراب عادت ہے۔ تھورابیڈمنٹن کیاکھیلناآتاہے اوروہ انجنی مراٹھے اس سے بات کیا کرتی ہے کہ اکڑتاہے۔ بھلا اس میں اکڑنے کی کیا بات ہے؟گروراجہ کوتوخودکسی سے خصوصاً لڑکیوں سے بات کرنا توبالکل نہیں بھاتا۔ ورنہ کیاوہ کھیل نہیں سکتا؟اس میں ایسا کیامشکل ہے؟میں بھی کھیل سکتاہوں۔ پراسے اسکالربننا ہے۔ پی ایچ ڈی کرنی ہے۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ اس کے دل میں انجنی سے بات کرنے کی بڑی حسرت تھی۔ لیکن اس میں (گروراجہ میں) اسے گردن اٹھاکر دیکھنے کی ہمت بھی تونہ تھی۔ وہ کہاں سے ملے گی اسے؟مجھے ضرورت بھی نہیں ہے۔ پھریہ ہواکہ انجنی بھودان تحریک میں شامل ہوگئی۔ اسے اس با ت کا بڑا دکھ تھا۔ یہ امیروں کی لڑکیاں بڑی منہ زورہوتی ہیں۔ عجیب عجیب حرکات کربیٹھتی ہیں۔ پیسے سے سب چل جاتاہے۔ کھدرکی ساری پہن کر ونوبا کے ساتھ ہوگئی۔ بھلایہ پاگل پن اورکتنے دن چلے گا؟دیکھتے ہیں وہ زندگی لٹائی ہوئی لوٹ آتی ہے۔ گروراجہ نے جب یہ سوچا اسے سکون سا حاصل ہوا۔

    انجنی واقعی چلی گئی۔ اب وہ لوٹ کرنہ آئے گی۔ جگدیش سے اس کی شادی بھی طے ہوئی۔ وہ حال ہی میں جرمنی سے ڈاکٹری پاس کرکے لوٹاتھا۔ انجنی نے ایک روزپپّاسے کہا، ’’مجھے شادی وادی نہیں کرنی۔ میں نے بھودان تحریک کے لیے وقف کردیاہے اپنے آپ کو۔‘‘

    پیاپائپ پیتے ہوئے اس کی جانب دیکھتے ہیں۔ انہیں ہنسی آتی ہے۔ وہ ایک چمکدارصوفے پردراز ہیں۔ ’’فیمنیا‘‘ میں چھپنے والی تصویروں کی مانندوہ گھربھی ایک تصویر ہی دکھائی دے رہاہے۔ دیوان خانے میں رکھا ہوا کے (K) کمپنی کا چمکدار الٹراماڈرن فرنیچر ہے۔‘‘ یہ کمپنی بہت اچھی ہے۔ بس یوں گئے اور خریدکرلے آئے۔‘‘ پدماکہتی ہے۔ وہ دیوان اس پربچھے ہوئے گدے، ساٹن کانقش نگار کیاہوالحاف، رسوئی میں برشین(گیس) ہے۔ پریشرکوکرہے۔ چاروں جانب سے ’’بیڈٹی‘‘ آتی ہے۔ ان کے لیے توپدماخودلے آتی ہے۔ وہ مسکراتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کی سی ضدہے۔ بس اورکیا۔

    ’’ہوں جاؤ جاؤاندرجاؤ! بھودان کے لیے نکلی ہیں۔ یہ غیرضروری لاڈپیار مجھے ناپسندہے۔ تم کیا جانو، جوکہہ رہی ہو کہ وقف کردیاہے۔ مطلب بھی جانتی ہواس کا؟‘‘

    ’’مجھے جانا ہے، کافی سوچ بچارکے بعد میں نے یہ فیصلہ کیاہے۔ میں جاؤں گی۔‘‘

    انجنی اورکچھ نہ بولی۔ پپّاپریشان ہوجاتے ہیں۔ لڑکی کاقدچھوٹاہے۔ یہ انہیں معلوم نہ تھا، کھدرکی ساڑی میں وہ بہت اچھی لگتی ہے۔ انہوں نے تواپنی لڑکی کی جانب دیکھاہی نہ تھا۔ پدماکی جب شادی ہوئی تھی، اس وقت وہ بھی بالکل ایسی ہی دکھائی دیتی تھی۔ لیکن اس کا ارادہ پکاہے۔

    ’’کیاتم واقعی جاؤگی؟ٹھیک ہے، توپھرجاؤ، میں تمہیں اجازت دیتاہوں۔ باہرجاکر کچھ سیکھ آؤبیٹی۔‘‘ انجنی جان گئی ہے کہ پپااس کی بات کو سمجھ گئے ہیں۔ وہ جھک کرنمسکارکرتی ہے۔ پھراس کے بعد انجنی اس گھرمیں دکھائی نہیں دی۔ پرممی کویہ سب ناپسندتھا۔

    ’’آپ ہی نے بیٹی کابیجالاڈکیا ہے، اسے آزادی دے رکھی ہے، بھلاآپ کو زیب دیتاہے، یہ اس عمرمیں؟‘‘ پپا صرف سنتے رہے۔ بھلاکیاکہتے؟

    پدماکہتی ہے، ’’اب توپھلواریوں میں کیکٹس اگائے جاتے ہیں۔ دادا کے یہاں بھی میں نے وہی دیکھا اور گھارپورے ہیں ناان کے یہاں بھی۔‘‘

    بس یہی کام آتاہے اسے۔ بقیہ ساری باتیں اس کی سمجھ سے بالاترہیں۔ انجنی پدما کی لاڈلی تھی۔ لہذا اسے بھی سب کچھ (اس کابھودان تحریک میں جاناوغیرہ) ناپسند تھا۔

    مراٹھے کے گھرسے شہنائی کے سرسنائی دیتے ہیں۔ اچھا! تویہ سروہاں سے آرہے تھے۔ ورنہ میں سوچوں کہ مہادیو باڑی میں یہ کیسے نیاپن آیا! اکاکہہ رہی تھی کہ آج ان کے گھرمنگل گور(دلہنوں کی پوجا) ہے۔ نہ جانے اناموکاشی کے دل میں کیاسمائی کہ وہ پھرتی سے گھرکی سیڑھیاں اترکر اپنی راہ لیتاہے۔ راستہ اب تک بیدار نہیں ہوا۔ بھیگی ہوئی راہوں پرننگے پاؤں چلنے میں بڑا مزہ ااتاہے۔ اب تک غنودگی کے عالم میں وہ راستے اور ان دکانوں کے بورڈبے سہارا معلوم ہوتے ہیں۔ شاید انسانوں کی آوازوں کے سہارے ہی وہ جیتے ہوں۔ یہیں پرانا موکاشی کی ٹوپی کی دکان تھی۔ اناموکاشی خاموشی سے دکان میں اسٹول پربیٹھابیڑی پیتارہتالیکن پڑوس کے ونیتابھنڈارمیں بڑ ی بھیڑہوتی۔ نہ جانے یہ عورتیں ہرروزکیا خریدتی ہیں۔ وہ خاموشی سے ماروتی کے مندر میں داخل ہوتاہے۔ مندر میں کوئی نہیں ہے۔ شاید ماروتی کی پوجا ختم ہوچکی ہے۔ دوسال قبل کہیں سے آیاہواپجاری یہیں پرمقیم تھا۔ اس کے پاس ڈھیر ساری پوتھیاں تھیں، جنہیں وہ دن بھرپڑھتارہتا۔ اناموکاشی کی خواہش تھی کہ وہ دریافت کرے کہ ان کی کون سی زبان ہے؟وہ کچھ نہ جان پاتا۔ ایک وہ آیاتھا۔ لیکن اپنا کوئی نشان نہ چھوڑے ہوئے چلاگیا۔ آخروہ کون تھا؟کہاں سے آیاتھا؟کس لیے آیاتھا؟وہ کال کدھر(گاؤں کانام) کی بڑھیا بھی ایک روز یوں ہی بھاگ آئی تھی۔ د ن بھرایک پیٹی (ٹرنک) پربیٹھی رہتی۔ پھر نہ جانے اس کاکیاہوا۔ اکاّ سے دریافت کرناچاہئے۔

    یہ اجتماعی منڈپ کتناوسیع ہے۔ کئی دنوں سے اناموکاشی کی یہاں آمدورفت رہی ہے۔ ہرروزآتارہاہے۔ لیکن آج اس کے ذہن میں نہ جانے یہ بات کیوں آئی۔ شایدمندرمیں کسی کے نہ ہونے سے۔ مندر میں بھگوان کے حضورمیں بھی اسے ڈرلگتاہے۔ سیندورملاہوا، نیل میں ڈوباہوا سیپ سی آنکھوں والا ماروتی اس تاریکی میں اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہاہے۔ گلے یہی روئی کے پتے اورروئی کی مالاپڑی ہے۔ پٹا نے کا پھول سرپردھراہے۔ مورتی کے کمرے سے عجیب کھاری بوکااحساس ہورہاہے۔ مورتی پر اگی ہوئی کائی کاملائم سا احساس جسم میں بس جاتاہے۔ دوسرے مندروں میں ابابیلوں کی بونہیں آتی، نہ ہی ان کا پھرپھڑاناہوتاہے۔ شنکر کے مندر میں یہ ساری خصوصیات ہوتی ہیں۔ آج یہاں کچھ اس قسم کے ماحول کا سااحساس ہورہاہے۔ ماروتی کے مندر کے اطراف میں سبھی دیوتا اھرادھرپھیلے کھڑے ہیں۔ آ ج شایدوہ نہیں آئے گا۔

    وہ اناموکاشی کوہرسنیچرکونظرآتاہے۔ اس کے ہاتھوں میں پٹانے کے پھولوں سے بھری تھیلی ہوا کرتی۔ تھیلی میں ناریل، کھڑی شکر، کافور اوراگربتی بھرے ہوتے۔ مغموم آوازمیں ماروتی کے سوترپڑھتا ہواوہ کاکتی (گاؤں کانام) سے آتا۔ اس کے پوتے کاجس دن بارہواں (پیداہونے کے بارہ دن بعدمنعقد کی جانے والی تقریب، جس میں نام وغیرہ رکھا جاتاہے) منایاگیا، اس نے دہی چاول کی پوجا کااہتمام کیاتھا۔ سبھوں کوپیڑے تقسیم کیے تھے۔ اناموکاشی کوبھی پیڑاملاتھا۔ اناموکاشی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراس کا سرتاپاجائزہ لیاتھا۔ کاش یہ اپنادوست ہوتا۔ گورا، چٹا، اونچا، اس مندر کی راما کی مورتی جیسا خوش وخرم۔ واقعی!اسے اپنادکھ بتایاجائے۔ دھیرے سے اس کاہاتھ تھا م لیاجائے۔ پرایسا کبھی نہیں ہوتا۔ اناموکاشی اس اجتماعی منڈپ میں چکرلگاتاہے۔

    ایساپرسکون مندر اس نے کبھی نہ دیکھاتھا۔ مہورت کے دنوں میں یہاں شادیاں انجام پاتی ہیں۔ باہربینڈبجانے والے آتے ہیں۔ بینڈ بجتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بارود لٹائی جاتی ہے۔ سرسرکرتی سرنلیاں (پٹاخوں کی ایک قسم) اورنوکیلے تیرآسمان میں اڑائے جاتے ہیں۔ کئی بم پھٹتے ہیں، جن کی بدبو سے کراہیت سی ہوتی ہے۔ اس بارود پر پابندی عائد کرنی چاہئے۔ شادی کے اختتام پرپٹاخوں کے پھٹے ہوئے سرخ اورہرے کاغذات اور گندی بدبوپھیلی ہوتی ہے۔ راستہ پرغیرضروری طورپر اداسی اوردکھ کالبیراچھاجاتاہے۔ منڈپ پرخاموشی طاری ہے۔ کل وہاں عطربکھراتھا۔ گلاب کا پانی بھی چھڑکاگیاتھا۔ نشی گندھا کاایک پھول بوگنی بیل کے پتوں میں لپیٹ کر گلدستے تقسیم ہوئے تھے، جن میں سے کچھ اب بھی بکھرے پڑے ہیں۔ بیڑے کے پان پرخوشبودار میسورسپاری، چیوڑے کے چاردانے، تھوڑی سی بندی اورچائے۔ لوگ ہنس بول رہے تھے۔

    نئے نئے کپڑوں کی الگ شان تھی۔ پروگرام کے اختتام پرلوگ ہمیشہ خالی پن سا محسوس کرتے ہیں۔ ماروتی کی سیپ جیسی آنکھیں البتہ جوں کی توں ہیں۔ اچانک اسے مئی مہینے میں بیل ہو نگل سے آئی ہوئی ایک بارات یادآئی۔ وہ لوگ اپنے ساتھ (فلمی) ریکارڈ بھی لائے تھے۔ لاؤڈاسپیکر لگائے گئے۔ مندرمیں دودنوں تک جم کرریکارڈ بجے۔ لمحہ بھرکے لیے بھی خاموشی نہ ہوئی۔ حتی کہ ریکارڈیں تھک کرٹوٹ گئیں۔

    ’’کمال ہے لڑکیوں کا۔۔۔ دماغ خراب ہوئے لڑکوں کے۔‘‘

    ’’سپریم نمسکار وننتی وشیش۔‘‘

    ’’کالی ٹوپی والے ذرانام توبتا۔‘‘

    پھردرمیان میں بسم اللہ (بسم اللہ خان) کی شہنائی بجتی اورپھر’’دل کاکھلونا۔۔۔‘‘

    کریم خان کوبھی شاید نہ سن پاتے، ’’ارے بھئی کیاہے؟بھلاکس نے ایجادکیایہ گراموفون؟حرام خور کوپھانسی دینی چاہئے۔‘‘ تمام ریکارڈیں کانگریس کے کنویں میں پھینک دینی چاہئے۔ اسپیکر توڑدینے چاہئیں۔ سن سن کردماغ خراب ہوگیاہے۔ اب لوگ سن لیتے ہیں، اس کامطلب یہ نہیں کہ جوجی میں آیاوہ سنائیں! ہاں بھئی اب آپ ہی بتائیے۔ ’’سپریم نمسکاروننتی وشیش۔۔۔‘‘ یہ بھی کوئی گانا ہوا؟یہ کیساگاناہے؟چپ رہوتوبڑھے چلے جاتے ہیں۔ ہم بالکل نہیں سنیں گے۔ آخرہم بھی کچھ ہیں۔

    اناموکاشی بہت خفاہوا۔ ہونٹ دانتوں میں دبائے ہوئے مندرکے اطراف چکر کاٹ رہاہے۔ کیاکریں کچھ سجھائی نہیں دے رہاہے۔ آخرکاراسے اپنے غصے پر ہی چڑسی آتی ہے۔ پھر اس طرح کے فضول خیالات میں الجھ کروہ سوجاتاہے اورمسکراتارہتاہے۔

    راستے کے وسط میں کھمبے سے ٹیک لگائے ہوئے ایک بورڈرکھاگیاہے۔ ’’راشٹریہ کرتن کار’بھ‘پٹوردھن بوا(بابا) کا بیان (تقریر) شایدپٹوردھن بواکی آمد ہوئی ہے۔ اچھاہوا۔ ’’ہمار ا اورسبھوں کااس دنیامیں بھلاکربھگوان۔‘‘ اب اس کے آگے؟اناموکاشی کوکچھ یاد نہیں پڑتا۔ ونوبا کی گیتائی لائی جاتی ہے۔ ونوبا کی تصویر کو پونچھ کرنمایاں جگہ پررکھا جاتاہے تاکہ سب کچھ دیکھ سکیں، جسے مراٹھے کی انجنی گوندھاہواباریک دھاگوں کاہارپہنادیتی ہے۔

    گیتائی کے پڑھنے کامقابلہ ہوتاہے۔ اناموکاشی کے اشوک کوانعام کا مستحق قراردیاجاتاہے۔ ایسی کچھ ہلچل مہادیوباڑی میں ہواکرے۔ دوسری چنے کی دال اورمونگ پھلی کے دانے ایک پیالی میں بھگاکر اشوک سوجاتاہے۔ صبح سویرے آدھی چڈی پہنے، شرٹ پہنتے ہوئے نمسکار کرنے کے لیے گیہوں کے آٹے کے بنے لڈوآتے ہیں۔

    ’’بھئی ہمارے گھروالوں کوتوڈالڈاناپسندہے، انہیں تواس کی خوشبوہی پسند نہیں۔ مجھے بھی نہیں بھاتا۔‘‘

    ممی مراٹھے بمبئی کی رہنے والی ہیں! یوں جتاتی ہیں جیسے یہاں کچھ بھی نہیں ملتا۔ پرسوں ڈالڈا کی جانب سے منعقد کردہ مقابلے میں انہوں نے ایک خوبصورت سامنظر مندرمیں پیش کیاتھا۔ آرتی اتارتی ہوئی ٹھمک ٹھمک کرچلنے والی ایک جذباتی عورت، اوپربلندی پرایک مندر۔ ناریل کے درخت کی تصویر والا آدھے پونڈکاڈبہ، مندرسج گیاتھا۔ کمبخت یہاں ریشم تومیسرہی نہیں آتا، ورنہ ساڑی کی ڈیزائن بڑی ونڈرفل ہوجاتی۔ کئی جگہوں پرتلاش کے باوجود ۱۵۷کے شیڈزآخرکارنہ مل سکے۔ ممی ہی کواول انعام ملا۔ اوشامشین! یوں بھی وہ فورٹ میں لیڈی وارووالا کے کلاس میں جایا کرتی تھی۔

    عجیب عورت تھی، جودس مرتبہ ہاتھ دھوتی۔ ساٹن اورلینن کے بغیرکپڑے کے استعمال کی رائے نہ دیتی۔ پھربھلااسے انعام کیوں نہ ملتا؟ممی مراٹھے ڈراموں میں بھی خوب کام کرتی ہیں۔ انہیں تودلی سے اسکالرشپ ملنے والی تھی۔ ان کا ارادہ اداکاری کے موضوع پر پوری جانکاری حاصل کرنے کاتھا۔ برہاکے دکھ اوربے عزتی سے ہربارپریشان ہونے والی یشودھا اپنی پاکیزگی کے لیے زمین دھنس جانے والی ویدیہی (ستیا) اس طرح کے کئی رول انہوں نے نبھائے۔ ان کی بیٹیاں بھی ان ہی کی طرح ہیں۔ ایس ایس سی میں پڑھنے والی نیلو کوانجمن ادبی مباحثہ کی جانب سے گیت گائن کے مقابلے میں ڈھال (تمغہ) ملی تھی اور پرسوں جب پپاکے آفس کی گیدرنگ Gatheringہوئی تھی نا، تب شیلونے ڈانس کیاتھا۔ ’’ناہرن ننگے شرن‘‘ اور ’’آلاری پو۔‘‘ اب شاید وہ یوتھ فیسٹیول میں حصہ لینے کے لیے گروپ ڈانس لے کر دلی جارہی ہے اورانعام بھی پائے گی۔

    اناموکاشی ماروتی کے مندر سے باہرآتاہے۔ مراٹھے کے گھرکے سامنے ڈاکٹر موکشی گنڈم کی موٹرکھڑی دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹرنی بائی شاید آگئی ہیں۔ دروازے سے داخل ہوتے وقت اناموکاشی کاسرٹکراتا۔ چھیبوا!گھرکتناچھوٹا ہے ایک آدھ کھڑکی بھی نہیں۔ ہرآنے جانے والے سے اناموکاشی کومسکراکرکہناپڑتاہے۔

    ’’ذراسنبھال کر، اپناسرسنبھال کر آئیے۔‘‘ وہ دوسال قبل دادر کے علاقے میں (بمبئی کے) ایک فلیٹ میں رہنے والے بابوکلکرنی کے یہاں گیاتھا۔ بابوکلکرنی نے اسے ایک انگریزی فلم دکھائی اورایک ہوٹل میں بھی لے گئے۔ سیڑھیاں اترتے وقت اس کاپیرپھسل گیا(تھا) اوپرکی چھت سے اس کا سرٹکراتاہے (تھا) ۔ چھت پرتختی آویزاں تھی’’Mind your head” بابوکلکرنی نے اسے مطلب سمجھایا۔ اناموکاشی کی ہنسی چھوٹ گئی۔ بابوکلکرنی جب سے بمبئی گیاہے، بڑا چالاک ہوگیاہے۔ یوں تووہ پہلے بھی تھا۔ اس نے اقتصادیات میں بی اے کیاہے۔ جے کرشن مورتی کا بیان سننے کاشوقین ہے۔ انگریزی بہت اچھی ہے۔

    ایک دن وہ اناکوایک Spritualسینٹرلے گیا۔ جہاں برآمدے میں ایک اسٹینڈ بناتھا۔ ”Keep your ego here”بیان سننے کے لیے آئے ہوئے لوگ اپنی Hats رین کوٹ (برساتی) اورچھڑیاں لٹکائے دیتے ہیں اورچپلیں نیچے دباکر رکھ دیتے ہیں۔ انا نے بھی اپنی کالی ٹوپی اورپھٹی ہوئی چپل رکھ دی اور بچھی ہوئی دری پرایک جھینگر کی مانندکونے میں بیان ختم ہونے تک بیٹھارہا۔ کچھ سمجھ نہیں پایا۔ کلکرنی وقفے وقفے کے بعدمسکرادیتا۔ شک وشبہات پرگفت وشنید بھی کرتا۔ یہ لوگ بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے کوتویہ سب کچھ سمجھتاہی نہیں۔ پڑھائی امتحان کچھ بھی نہ جم پایا۔

    ’’میاں موکاشیاتم توپتھرہو، اصل پتھر، ریمیاجیسے، بنجارہ اگربارہ گاؤں کاچکربھی لگاآئے، وہ توشنکراچاریہ نہیں بن پاتا۔ تم بھی یہ شوق چھوڑو۔ تمہیں نہیں جمے گایہ سب کچھ۔‘‘ چکوڑی کے اسکول کے منڈرگی ماسٹرنے کہا۔

    ’’جاؤ جاؤمروجاکر۔ آخرمیں بھی کتناکچھ کروں؟جیسی بہن ویسے تم ہو۔ ارے کم از کم شری گنشیا تو سیکھو(ابتدائی تعلیم توحاصل کرو) ’اتنا چلاتارہتاہوں حرام خور لیکن تمہاری وہی پرانی روش، برے کرموں کی۔ ارے جنم ہی نہ لیتے! لیکن جب قسمت ہی میں تعلیم پانا نہ لکھا ہوتو اس میں بھلاتمہارا کیسا دوش؟جیسا باپ ویسابیٹا۔ وہ بھی توزندگی بھریوں ہی بیٹھ کر کھاتارہا۔ کچھ نہ کیا۔‘‘

    واقعی دادا نے کچھ نہ کیا۔ ا ن کی یادگھیرلیتی ہے۔ بس بیڑے کوٹ کوٹ کرکھاتے رہے۔ اورمیٹھے گلے سے (میٹھی آوازمیں) آرتیاں گاتے رہے۔ پھرایک دن خاموشی سے چل دیے۔

    ’’آرتی بھون سندراچی‘‘ اِندر اورامکنداچی‘‘ یہ آرتی وہ بہت اچھی گاتے تھے۔ گنوکاکانے بڑی کوشش کرکے مجھے پھرایک بارپوسٹ اور تار (Telegram) کے امتحان کے لیے بٹھادیا۔ لیکن ہم توناکام ہی ہوئے۔ ایک مرتبہ دادا کی جیب سے بیڑی چراتے ہوئے گنوکاکا نے پکڑلیا۔

    ’’بہت اچھے! اب یہ دھندے کرو۔‘‘

    ڈنڈے سے ایسا دے ماراکہ چڈی میں پیشاب خطاہوگیا۔ پربیڑی کی عادت نہ چھوٹی۔ اوراب ہے بھی توکیابری ہے۔

    اناگھرمیں داخل ہوتاہے۔ زری دارساڑی میں ملبوس سمن نگاہوں کے سامنے سے کہیں گذرجاتی ہے۔ وہ حیرت زدہ رہ جاتاہے۔ ایک جرم کا احساس ہوتاہے۔ آخرانسان کتنافکرمندہو۔ کیسی کیسی فکریں پالے، پرآپ سے سچ کہتاہوں۔ اب میں نے سوچناچھوڑدیاہے۔ گذشتہ سال مالی کی شادی رچائی۔ بڑی مشکل میں ہوئی۔ اب کیاکریں۔ اپنا ہی دامادبالکل بندر، انٹرسائنس بھی پاس نہ کرسکاتھا۔ اناموکاشی کے سامنے بڑ اپن جتاتاہے۔ ایسی پینگیں اناموکاشی کے سامنے؟ایک آدھ روز منہ توڑکے رکھ دوں گا۔

    اناموکاشی سے بضد ہوکرجہیز حاصل کیا۔ سونے کی مانندکھیت کاحصہ بیچا۔ کیا کرتے؟کوئی چارہ نہ تھا۔ اوراب کمبخت دانت نکوسے گھڑی کاتقاضہ کررہاہے۔ بتیس شرالا(گاؤں کانام) لڑکیوں کے ایک اسکول میں معمولی ساماسٹر ہے۔ ایک توماسٹروہ بھی لڑکیوں کے اسکول میں۔ اب بھلا وہ کیساہوگا! ماسٹرکاذکر ہوتواس کی نگاہوں میں گروراجہ گھوم جاتاہے۔ انسان کواتنا سیدھا بھی نہیں ہوناچاہئے۔ موٹے سے فریم کی عینک اور گردن جھکائے چلنا، ہزارہزار صفحات کی کتابیں پرھتاہے۔ بیوی نے گلابی رنگ کے تولیے پرہرے ریشم سے طویل قامت سروکادرخت بنائی تھیلی ہاتھوں میں لیے اسکول جاتا۔ دنیا سے بے نیاز سنجیدہ ساچہرہ۔

    ’’سر، کیاآپ کبھی ہنس نہیں سکتے؟‘‘ لڑکیوں کی توفطرت ہی میں شرارت بھرتی ہوتی ہے۔ گروراجہ کے گال تمتماتے ہیں، جسم تھرتھرااٹھتاہے۔ وہ خفا ہوکر کہتاہے، ’’آپ لڑکیاں بے وقوف ہیں۔ تمہارے پاس سرنہیں بلکہ فلاورپاٹ ہوتاہے۔ سادہ سا لفظ آکسیجن تولکھ نہیں پاتیں لیکن تجربہ گاہ میں شیشے کے آلات توڑپھوڑ دیتی ہو، ڈانٹنے پرصرف کھکھلاکرہنستی ہو۔ تم لوگوں کوکچھ خیال ہے کہ نہیں؟اورمجھ سے کہتی ہوکہ مجھے ہنسناہی نہیں آتا! ارے جب آپ لوگ دن بھر ہنستی رہیں گی توہمارے حصے کی ہنسی کہاں سے بچے گی؟‘‘

    ’’جی، جی، بھڑکاہوا دکھائی دیتاہے۔‘‘

    ’’پھرتواچھا ہے نا!‘‘

    ’’یعنی اسے بھڑکنا آتاہے؟‘‘

    ’’مذاق بھی کرتا ہے، سنانہیں؟‘‘

    گروراجہ بھوک سے نڈھال ہوجاتاہے۔ اسے شرمندگی کا احساس ہوتاہے۔ اسے اتناخفا نہیں ہوناچاہئے تھا۔ شرم سے اس کی گردن جھک جاتی ہے۔ پڑھائی کے دنوں میں دولڑکے اس کے یہاں نوٹس مانگنے آئے تھے۔ گروراجہ اپنے دبلے پتلے جسم پرانڈرویئر چڑھائے ہوئے پتیلے میں انگارے ڈالے اپنی پتلون استری کرنے میں مصروف تھا۔ یہ پتلون اس نے خودہی دھوئی تھی۔ پرلوگ اس کے ان کاموں کو کیوں دیکھتے ہیں؟آئندہ نہ آنے پائیں۔ بھین چو۔۔۔ کہیں کے۔ کیوں آئے آپ لوگ؟تمہیں نوٹس نہیں دوں گا۔ تمہیں میرے گھرنہ آنے کی تاکیدکی تھی نا! اتناکہہ کروہ دروازہ بندکردیتاہے اوربیچارے بچے سہمے ہوئے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ دوسروں سے اس کے خفا ہونے کاقصہ سناتے۔ بھلا اس میں خفا ہونے والی کیا بات تھی؟کیوں نہیں! ہمارا چھوٹا سا بغیرکھڑکیوں والا گھروہ کیوں دیکھیں؟

    مراٹھے شیلوکی نانی اوّا سے جھگڑاکربیٹھی تھی۔ نانی کوشک ہوگیاتھا کہ اندھیرے میں شیلو کاہاتھ گروراجہ نے تھام لیاتھا۔ وہ بکواس کیے جارہی ہیں۔ اوّا ساکت سن رہی تھی، کوئی جواب نہ دیا۔ گروراجہ سے تفتیش بھی نہ کی۔ جھوٹ یا سچ کافیصلہ بھی نہ ہوا۔ گروراجہ کی خواہش تھی کہ وہ کچھ توپوچھے کہ وہ اپنی صفائی پیش کرے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اوّا نے سب کچھ غیر ضروری جانااورٹھیٹ گروراجہ کے ماموں سے ملنے چلی گئی اورواپسی میں ون مالاکواپنی بہوبناکرلے آئی۔ بناتفتیش کے اوّا نے اس سے بدلہ لے لیاہے۔ غیرضروری طورپرگروراجہ تلملااٹھا تھا۔ لیکن آج اسے یہ سب کچھ بڑا مزے دارلگتاہے۔

    وقت گزرچکاہے ہے۔ لوگ اس حادثہ کوبھول چکے ہیں۔ ناکردہ جرم کا الزام گروراجہ کے ذہن میں کچوکے لگاتاہے۔ بس ایک بار لوگوں پرمنکشف ہوجائے کہ اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیاتھا۔ خیراب اسے چھوڑو! جوہوناتھا سوہوگیا۔ ون مالا بھی ہوبہو اوّا جیسی ہی ہے۔ پہلے پہل اسے دیکھ کر گروراجہ کومحسوس ہواکہ گھرکے آنگن کے چانے کے درخت کے پھول کی پنکھڑی اس کے گالوں پر سے گھمائی گئی ہو۔ پہلی رات وہ کہتا ہے، ’’تم (اپنے ماتھے پر) کنکو (ٹیکا) کی کھڑی لکیربنایاکرو۔ تم پرخوب جچتی ہے۔ ہرروزچانے کاپھول سرپرلگایا کرو، مجھے بہت بھاتاہے۔ کروگی نا!‘‘

    مراٹھے نے اوّا سے گفتگوبند کردی۔ اناموکاشی کوسب کچھ ناپسندہے۔ انہیں گروراجہ سے بڑی اپنائیت ہے۔ انہیں یقین ہے کہ گروراجہ اس قسم کی کوئی حرکت نہیں کرے گا۔

    ’’آج صبح صبح کہاں بھٹکنے گئے تھے؟ساری چائے ٹھنڈی ہوگئی، اب پھر گرم کرنی ہوگی یادوسری بنانی ہوگی۔ کیا اب یہی کام بچاہے میرے لیے؟میں کوئی نوکرانی ہوں جوہرکام کروں؟خیراب کہیں بھی ٹکڑاتوڑناہی ٹھہرا، کمبخت زندگی ہی مردے کی مانند، لیکن کبھی بیمار پڑی تو قطرہ چائے بھی میسرنہ ہوگی۔ خود ہی توبے شرم ہوں جوپاگلوں کی طرح کام کیے جاتی ہوں۔‘‘

    اکا کی یہ روز کی باتیں۔ ان میں کوئی نیاپن نہ تھا۔ ایک لفظ کابھی نہیں۔ ’’سنواکا! ڈاکٹرموکشی گنڈم کی موٹردروازے کے سامنے دکھائی دے رہی ہے۔ شایدشکنتلاآئی ہے۔‘‘

    ’’آئی ہوگی، وہ تو آئے گی ہی!‘‘

    اناکی باتوں کے نشترسے وہ گھائل سی ہوجاتی ہے۔ نگرکرکی شنکتلاجب لوٹ آئی (بیوہ ہوکر) اس وقت اس کی عمرصرف بارہ سال کی تھی۔ نگرکرتاتیاکے لیے گویا آسمان پھٹ پڑاہو۔ پرتاتیاغم سہہ لیتے ہیں، ’’شکاتم اسکول جاؤ۔‘‘ کنکو (ٹیکا) برقراررکھے ہوئے وہ اسکول جاتی رہی۔ اکا، اوّا اورپروہت ماما کے کانوں میں کہتی ہے، ’’سب نئے نئے نخرے ہیں۔ کیاکنکو(ٹیکا) لگاتی ہے۔ اورکیا اسکول جاتی ہے۔ یہ سارے نخرے زیب نہیں دیتے۔‘‘ اکا بھی اسی طرح بارہویں ہی سال میں لوٹ آئی تھی۔ اسے اپنے شوہر کا نام بھی یادنہیں تھا۔ وہ ایک فوٹوگرافرتھا، اس سال پلیگ پھیلی تھی۔ کہیں کسی میت کی تصویر اتارنے گیاتھا، واپسی پربغل میں ایک گانٹھ لیے ہوئے لوٹا، کہتے ہیں اس بٹھائی ہوئی میت کو دیکھ کر ان پرخوف طاری ہوگیاتھا۔ اسے کہاں کچھ علم تھا۔ صبح ہونے پرگنو کاکا نے اسے سب کچھ سمجھادیا۔ اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا۔

    ’’کوئی فکرنہ کروتائی(بہن) وہ اکاّ کوتائی کہتے۔ ان کی بڑی بیٹی اکاّ ہی تو تھی۔ ہکے ری میں ایک کیس (کچہری کاکیس) کاکام نپٹاکرآتاہوں۔ پھرتمہیں لے جاؤں گا۔ تم پڑھو! میں تمہیں نرس بناؤں گا۔ تم اپنے پیروں پر کھڑی ہوجاؤگی، سمجھیں؟‘‘ وہ تائی کوتاکید کرتے ہیں۔

    ’’جان لواگرتم نے تائی کو ہاتھ بھی لگایا۔‘‘ لیکن جوں ہی گنوکاکا ہکے ری چلے گئے، ادھروہ چنڈال دعویٰ کربیٹھی ہے۔ وہ نانی کاہے کی تھی، وہ توجنم جنم کی دعویدارتھی۔ اودیسی (گالی) میری زندگی تباہ کرکے رکھ دی۔ خودتوبیوہ تھی ہی، مجھے بھی ویسا ہی کرکے رکھ دیا۔ اب خودبھی مرگئی۔ بھلااسے میراشراپ لگے بنارہے گا؟پراس کیوں دوش دو! اپنے تونصیب ہی ایسے تھے۔ یہ سارے پچھلے جنم کے پاپ ہیں۔ شکنتلا پھل پھول جاتی ہے۔ سفیدساڑی میں اس پرنکھارسا آجاتاہے۔ لکشمی کی زچگی سے فارغ ہوکرچولہے کے کام میں جٹی اکاہانپ رہی ہے۔ اسپتال میں شکنتلاسب کوعزیز ہے۔ اورڈاکٹر موکشی گنڈم توبہت خوش ہیں۔

    ’’دیکھاشکنتلاکواس کا دشنیت مل گیا۔ اب کیاکیاچلتاہے۔‘‘ اکانگر کرکی دیوار سے کان لگاکر بیٹھ جاتی ہے۔ کیا گجرالے کرآتاہے۔ کیا اس کے سرمیں باندھتاہے۔ یوں بیسوا کی طرح طورطریقوں کوچھوڑکیارہنے کا؟اب بھلاکی کہیں؟پھرایک دن ڈاکٹر موکشی گنڈم شکنتلا سے شادی کرلیتاہے۔ کہانی ختم ہوجاتی ہے۔

    اب بھلاشادی کرنے سے کھویاہوانصیب تھوڑاہی واپس آئے گا؟کیسی عورت ہے! جوچلاگیا وہ گیاہی جانو۔ یوں کرنے سے تھوڑے ہی کوئی ماتھے پرٹیکا لگائے گا۔ گنو کاکانے بھی اکاّ کی مخالفت نہ کی ہوتی، پراب توصرف بھائی کے چولہے ہی خاک ہی کھانی ہے۔ اکاّ کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ نانی کی طرح اس کا دل پھر دھڑکنے لگتاہے۔ آخرکار دامو کو لے کروہ نرسوبائی کی باڑی کوچلی جاتی ہے۔

    اسے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ اب گنو کاکاکاسہارا بھی نہ رہا۔ یوں بھی وہ بہت پریشان ہے۔ پرانوں میں اورمندروں میں چاروں طرف اسے اداسی سی پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ کاکا نے اسے کاشی یاترا کروائی۔ بھاگیرتھی (گنگا) کاپانی اس پرچھڑکاگیا۔ لیکن جسم جوں کا توں، گویا بھاگیرتھی (گنگا) نے اسے پوترنہ کرنے کاتہیہ کرلیاہو۔ پریاگ تیرتھ سے اس کامن اچاٹ ہوجاتاہے۔ بھلاپانی بھی کون پلائے گا! معلوم پڑتا ہے کہ اس کا کوئی چھٹکارانہیں۔

    ’’میں کیاکروں گا تمہارا پنڈدان، پانی پلاؤں گا بالکل پریاگ میں جاکر بس اتناتوکافی ہے!‘‘ گنوکاکا، کا باپ اسے مریل سی آوازمیں دلاسادیتاہے۔ وہ ضرور کرے گا۔ وہ گنو کاکاہی کی طرح ہے۔ کیا خوب سنبھالااس نے ماں کو، لیکن یہ مناسب نہیں لگتا۔ کتنابھی کرے۔ ہے تووہ غیرہی۔

    انااکاّ کے من کی باتیں نہیں جان پاتا۔ وہ بھربھرکے چائے پیتاہے۔ اشوک کی منجی پرپہنی ہوئی چندیری ساڑی پہنے لکشمی اس کے مقابل سے گذرجاتی ہے۔ وہ اسے بغور دیکھتاہے۔ کھیت میں کھڑے بجوکاکی مانندلاغرسی خم زدہ اور اوپرسے زری دار ساڑی۔ اس نے اسے لعنت ملامت کی۔ اب بھی مریل سے بدذائقہ جسم کوسجاتی ہے۔ وہ نراگدھاہے۔ بالکل گدھا۔ پاگل سے بچوں کواپنی آنکھوں سے دیکھ کربھی پاگل نہیں کہہ پاتا۔ خواہ مخواہ لوگ کہتے ہیں کہ مراٹھے کے بچے بڑے خوبصورت اور محنتی ہیں۔ ممی اب تک جوں کی توں پھولی ہوئی۔ پہلے لکشمی بھی ایسی نہ تھی۔ ونٹ مری کے شوالے میں ان کی شادی انجام پائی تھی۔ ہری ساڑی میں لپٹا ہواجسم شیولیلا مرت کی سمٹتی جیسادکھائی دیاتھا۔ پرآ ج لکشمی اکہری ہوکررہ گئی تھی۔ اچانک وہ لکشمی سے خفا ہوجاتاہے،

    ’’تم کہاں چل دیں، اتنی سج دھج کر؟کیاتمہیں زیب دیتاہے اس عمر میں؟ذراآئینہ دیکھو!‘‘

    لکشمی لجاجاتی ہے۔ کچھ خفابھی ہوتی ہے۔ نڈھال سی اس مریل حالت کااسے احساس توہے پھربھی نہ جانے اس پرکیوں چڑھتاہے۔ جبکہ اسی نے اپنی یہ حالت بنائی ہے۔ دل میں کچھ غلط باتیں سراٹھارہی ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں۔ پچھلے کئی دنوں سے وہ گھرسے باہرنہ نکلی۔ کبھی موقع ہی ہاتھ نہ آتا۔ اوراب توصوفے تک آنابھی مشکل سا ہوگیاہے۔ باہرکی روشنی بھی سہی نہیں جاتی۔ باہراتنی روشنی کیوں ہوتی ہے۔ کیا ضرورت ہے اس روشنی کی؟دوسرے کے گھرکی دال کھانے کوجی چاہتاہے۔ ایک سہاگن ہونے کے ناطے پچھلے پانچ برسوں سے کسی نے اسے دعوت نہ دی۔ اپنے ہی ہاتھوں کاپکاپکایاکھاناکھاکرانسان کواکتاہٹ ہوتی ہے۔ کمبخت زبان مزہ بھول جاتی ہے۔ غیروں کے گھرکاکھانا اورخصوصا مراٹھے کے چمکداربرتنو ں میں مختلف اقسام کا پکاکھانا بڑا لذیذہوتاہے۔ یہی وجہ تھی کہ اسے جانے کی خواہش ہورہی تھی۔

    ’’مراٹھے کے یہاں منگل گور(دلہنوں کی پوجا) ہے نا؟اپنے گھربھی دعوت آئی ہے۔ کل ممی خود آئی تھی۔ بڑی دیر تک بیٹھی رہی۔ سما نے کتے کی جوتصویربنائی تھی اس کی بڑی تعریفیں کیں اورکہا، کبھی گھرآیاکرو۔ شیلوتمہاری ہم عمر ہے نا؟تم بھی شیلوہی توہو، تمہارے آنے بنادوستی کیسے بنے گی؟ممی بہت اچھی ہیں۔ بڑے میٹھے بول بولتی ہیں۔‘‘

    پچھلے سال ایس ایس سی میں کامیاب ہونے پرسمابڑی خوش تھی۔ حسب موقع خوب بولتی ہے۔ اسے کالج جانے کی خواہش تھی۔ لیکن ہماری ایسی قسمت کہاں؟انا اگرچاہیں بھی تو نہیں پڑھاپائیں گے۔ کافی مارکس مجھے ملے لیکن میں نے گھرہی پررہنے کی رائے ظاہرکی۔ ہندی کے امتحانات دیے۔ ڈرائنگ کے امتحانات پاس کیے۔ اب سلائی بنائی سیکھناہے۔ پرسکھائے گاکون؟آپ سکھائیں گی مجھے؟سکھائیے نا! میں آپ کی مشین خراب نہیں کروں گی۔ احتیاط سے استعمال کروں گی۔ کوئی گندگی بھی نہیں پھیلاؤں گی۔ توپھرکیامیں آجایاکروں؟

    یہ سن کرممی مراٹھے کی ساری محبت ختم ہوجاتی ہے۔ چھی! یہ بھی کوئی رہن سہن ہے! گفتگو کے دوران تھوک اڑاتی ہے۔ ایسوں کوکیا مدددیں۔ قریب آنے پراس کے جسم سے اٹھتی ہوئی بدبوسے وہ نالاں ہوجاتی ہے۔ اسے نفرت سی ہوتی ہے۔ جھوٹاوعدہ کرکے نیم گرم چائے پی کروہ وہاں سے چلی آتی ہے۔

    ’’چلوبھئی ابھی بہت سے گھروں میں جاناہے۔‘‘

    ’’سنااناتم نے! ادّا کے گھردعوت آئی ہے۔ بڑی تعجب کی بات ہے۔ ادّا(مجھ سے) کہہ رہی تھی کہ ممی نے اس سے کہا کہ اب جوکچھ ہوچکاہے اسے بھول جاؤ۔ اب تو آپ نواسے والی بھی ہوگئی ہیں۔ اورپھرصبح صبح ایک دوسرے کامنہ تو دیکھناہی پڑتاہے۔ اب ختم کیجئے (پرانے جھگڑے کو) اورکل سے اپنی بہو کوہمارے گھربھیجئے۔ اورہاں! اگلے جمعہ کوان کے لیے (شوہرکے لئے) کچھ کڈبوبناکربھیجئے۔

    باوجوداس کے سمااورلکشمی نہ جائیں۔ بھلا وہ کیوں جائیں؟اناموکاشی چاہتاہے کہ وہ اپنے دل کی بات کہہ دے پروہ صرف سوچ کررہ جاتاہے۔ لکشمی کو خوش ہوکرباہر جاتے ہوئے دیکھتاہے۔ اناموکاشی کواس پراوراپنے آپ پر رحم آتاہے۔ ذہنی الجھن میں گرفتار وہ کھانا کھاتاہے اوربینک چلاجاتاہے۔ کیاوہ واپسی میں بھی اس طرح خوش ہوں گی! وہ ہرروزملنے والا ہشاش بشاش شخص کاشی آج بھی مل جاتاتو کتنااچھا ہوتا۔ آج اس کا من خالی خالی سا ہوگیاہے۔

    سماوہاں آگئی تواسے ایسالگاگویاواقعی شیلواس کی سہیلی ہے۔ کل ممی نے یہی تو کہا تھا۔ وہ شیلو کے پیچھے پیچھے جہاں جاتی، کچھ بڑبڑاتی پھررہی تھی، ’’ایسے کیوں میرے پیچھے گھوم رہی ہو؟مجھے یہ نہیں بھاتا۔ جاکہیں جاکرایک جگہ بیٹھو۔‘‘

    شیلو کی سہیلیاں اس سے پوچھتی ہیں، ’’کون ہے وہ؟ایسی پاگلوں جیسی کیا بڑبڑاتی ہے؟کیاوہ پاگل ہے؟‘‘

    سمن بھاگ کر آگے بڑھ آتی ہے، ’’ہاں میں پاگل ہوں۔ توکیاکہناچاہتاہے؟بولیے نا! بولیے۔ جوکچھ کہناہے۔ کیوں کہ ہم توغریب ہیں نا! تمہاری طرح تھوڑی ہی ہم اچھے گھر میں رہتے ہیں۔ ہمارے گھر پرکہاں ایسی بڑی منگل گور آتی ہے؟ہم توکوڑاکھنگالنے والے کتے کی طرح ہیں، اس بھکارن جیسی۔‘‘ اس سے آگے اس سے کچھ کہانہیں جاتا۔ ہکلاتی ہوئی پیچھے ہٹتی ہے اوربغیرکھاناکھائے چلی آتی ہے۔ لیکن کوئی اس کی طرف دھیان نہیں دیتا اورنہ ہی اسے مناکرواپس لے آتا۔ شیلوکی سہیلیاں حیران کن نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔ سیڑھیاں اترکرجاتے ہوئے انہیں سب کا خوف ختم ہوجاتاہے۔ پھر سب کھلکھلااٹھتی ہیں۔

    ’’اَیّااتنامزدہ دلاتی ہے یہ؟‘‘

    اکاّ، کشی کوکہانی سنارہی ہیں۔ کشی کووہ کہانی پسندہے۔ سرپرہاتھ پھیرکراسے اپنے پہلومیں کھینچتے ہوئے اکاکہہ رہی ہے، ’’ایک گروتھا اورایک تھا شاگرد۔‘‘ (آج بھلاکیاپکا ہوگا مراٹھے کے گھر؟پوجاشاندارہوئی ہوگی، کیاکھانے کی محفل اٹھ چکی ہوگی؟) وہ روزانہ اسے سکھاتاکہ یہ سب جھوٹ ہے۔

    شکنتلاکی بیٹی شایدکشی کی ہم عمرہوگی۔ اس کے بچے خوبصورت ہیں۔ سنا ہے ڈاکٹر نے کیمپ میں بنگلہ خریداہے۔ بنگلے کا نام بھی سناہے کچھ عجیب سارکھاہے، ‘‘ خوابوں کی زین۔‘‘ ایک دن شیرآیا۔ شیرجنگل میں رہتے ہیں۔ شیرکودیکھ کرگروجی گھبراگئے۔

    ’’کیوں اس طرح کیوں چلی آئی؟کھاناکھالیا؟‘‘

    ’’نہیں میں چلی آئی۔‘‘ اوراکاّ کے دوسرے پہلو میں لیٹ جاتی ہے اوراس کی کہانی میں کھوجاتی ہے۔ سمن کوبھی وہ کہانی بہت پسندآتی ہے۔

    ’’ہوں توگروجی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ شاگردکوکچھ عجیب سا لگتاہے۔ گروجی آپ بھاگ کیوں رہے ہیں؟وہ پوچھتا ہے، کیاشیرجھوٹا نہیں ہے؟پھرمیرا بھاگنا بھی توجھوٹاہی ہے۔۔۔‘‘

    ’’لکشمی کہاں ہے؟‘‘

    سمن خاموش ہے۔ بھوک کی وجہ سے نڈھال ہوگئی ہے۔ وہ شیلوکے ہمراہ نائلون کی خوبصورت ساڑی میں گھوم رہی ہے۔ ساڑی پر چانے کاعطرچھڑکاہے۔ شیلواس کی انگلی تھامے سارے گھر کاچکرلگاتی ہے اسے دائی(پھول) کاگجرادیتی ہے۔ اس کی سہیلیاں اب اس کا مذاق نہیں اڑاتیں۔ پھرنہ جانے اچانک کیاہوتاہے کہ شیلو پھراس سے جھگڑاکرتی ہے۔ اسے کیچڑمیں دھکیل دیتی ہے۔ سمن اپنے بچا ؤ کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن کیچڑ میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ ایک کیڑااس کا جسم کترتاہے۔

    پھرنہ جانے کیسے اس کے ہاتھوں میں کنول کھل اٹھتے ہیں۔ بڑے ہی خوبصورت سے کنول۔

    مراٹھے کے گھرپردوپہرمیں ایک ہنگامہ ساہے۔ پھولوں اورپکوان کی ملی جلی خوشبواسے پریشان اورسست کیے ہوئے ہے۔ نئے نویلے کپڑوں میں اسے شدیدگرمی لگ رہی ہے۔ لوگوں کے مذاق میں چھپے نشترسے اس پرغشی طاری ہورہی ہے۔ دوپہراس کی مانندتھک کرنڈھال ہے۔ کوٹھی کے کمرے میں بکھرے ہوئے سامان کے درمیان وہ کچھ دیرسستانے کے لیے لیٹ جاتاہے اوراس سے قبل کہ وہ ان حالات کاجائزہ لے، نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔ یوں ہی ہوتا ہے۔ تہوار کے دن عورتوں کورتی برابربھی فرصت نصیب نہیں ہوتی۔ ممی کے منہ کاپیڑا ابھی ختم نہیں ہوا۔

    دھویاہوا ہاتھ ابھی سوکھانہیں کہ ’’چلئے‘‘ بس! اٹھناہی پڑتاہے۔ شام کے ناشتے کی تیاری کرنی ہے۔ رت جگاکرنے کے لیے آنے والی لڑکیوں کودرمیانی وقفے میں کافی پلانی چاہئے۔ بارش نہیں ہورہی۔ اوپرچھت پرجاکرسب کوچانے کے گجرے دیے جائیں۔ وہ بڑبڑاکراٹھتی ہے۔

    لکشمی تھکی ماندی کھانے کے لیے بیٹھ توجاتی ہے۔، پرنوالہ اس کے حلق میں ہی اٹک جاتاہے۔ من کڑواسا ہوتاہے۔ وہ گھرچلی آتی ہے۔ اناکب کا آچکاہے۔ لکشمی شرماجاتی ہے۔ وہ اس سے نظریں بچاتی اندرچلی آتی ہے۔ انا کی ہنسی چھوٹتی ہے۔

    اس کی صبح کی تھکان اب غائب ہوچکی ہے۔ اس وقت اسے بڑا اچھامحسوس ہورہاہے۔ چائے پی کربڑے سکون سے باہرآکروہ بیڑی پینے لگتاہے۔ تھکاماندہ گروراجہ اپنی گلابی رنگ کی تھیلی سنبھالے ہوئے بے نیازی سے چلاآرہاہے۔ ایک جانی پہچانی ہنسی، جواس کے چہرے پر دکھائی دیتی ہے، اسے لانے کے لیے پورے دس منٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس کے چہرے کا چمڑاتناہواہے۔ چپل شایدبارش کی وجہ سے ٹوٹ گئی ہے۔

    ’’ہوں! کیاکیسے ہو؟‘‘

    ’’ہوں ٹھیک ہونا؟اسکول چھوٹ گیاشاید؟‘‘

    اناّکو اس سوال پرہنسی آتی ہے۔ مہادیوباڑی میں آج روشنی بکھڑی پڑی ہے۔ برگد کے اس درخت کی ہری چمکدار آنکھیں، روشنی میں چمکتی ہیں۔ گویا پہرہ دے رہی ہوں۔ کچھ بھی ہو۔ اناموکاشی بیٹھ جاتاہے۔ بڑی دیرتک بیٹھا رہتاہے۔ وقت کھوتاجارہاہے۔ ٹھنڈی ہوا کانوں کے اطراف جلن سی پیداکررہی ہے۔ شاید کافی رات گذرگئی۔ پھربھلااتنی دیرکیاکہہ رہے تھے؟

    کانوں پرکپڑا لپیٹے ہوئے اسے ایک خیال آتاہے۔ بچپن ہی میں اگربچوں کواس برگد کے پیڑ کی چھال کاقہوہ پلادیاجائے تو؟پھریہ ہوگاکہ اس گوڑیو (سیپوں) جیسی آنکھوں والے ماروتی کی مانندہمارے لوگ بن جائیں گے۔

    اکاّ بڑی دیرتک تسبیح پھراتی رہتی ہے۔ غنودگی کے عالم میں اسے سانپ کے ڈسنے کااحساس ہوتاہے۔ اور خواب میں وہ یہ بھی دیکھتی ہے کہ وہ مرگئی ہے۔ پریاگ جاکرباپواسے پانی پلاتاہے۔ اسے بڑا سکون حاصل ہوتاہے۔ لکشمی کے دل میں سوال سراٹھاتاہے کہ اس بارش میں لڑکیاں چھت پرکیسی کھیلیں گی؟

    مراٹھے کے گھرطنبورے کے سرچھڑتے ہیں۔ کوئی ان میں اپنا سرملارہاہے۔ مہادیوباڑی اس آواز سے تھرتھرااٹھتی ہے۔ وہ مٹے ہوئے حرفوں والی تختی بارش کی ہواسے ہل جاتی ہے۔ بارش متواتر برس رہی ہے۔ برگد کاپیڑ تن گیاہے۔ مراٹھے کے گھرسے روشنی چھن چھن کرآرہی ہے اوراس روشنی کی گرماہٹ کوتلاش کرتے ہوئے مہادیو باڑی اوربھی اپنے قدموں کوپیٹ میں کھینچ لیتی ہے۔ ماروتی کے سرپرپڑا ہوا پھٹانے کاپھول (ایک قسم کا پھول) اب تک اسی حالت میں پڑاہواہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے