محاسن
۱
اپنی پیدائش کی منتظر بیٹی کا نام محاسن رکھنے کا فیصلہ اس کے ابو نے قاہرہ کے ائیرپورٹ پر کیا۔ خاتون امیگریشن کلرک جس نے ان کا جلدی میں گم کردہ پاسپورٹ پبلک ایڈریس سسٹم سے کام لے کر تندہی سے تلاش کرکے دیا، اس نیک دل، انسان دوست بی بی کا نام محاسن تھا۔ یہ نام ایک چھوٹی سے نیم پلیٹ کی صورت میں اس کے بمشکل چھپائے گئے سینے پر آویزاں تھا۔
جمیل سیٹھ کو معلوم تھا کہ ان کی بیوی حاملہ ہے اور الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹو ں کی مناسبت سے اب ان کے ہاں تیسری اولاد ایک بیٹی کی صورت میں پیدا ہوگی۔
پاسپورٹ کی بازیابی کے بعد بھی وہ اپنی اس مصری مہرباں کو ٹھیک اسی جگہ پر جہاں نام کی وہ چھوٹی سی پلیٹ آویزاں تھی بغور دیکھتے رہے۔ ان کی نظر کی اس غیر مہذب پیوندکاری کو جب عمر کی تفاوت کے باوجود اس افسر نے نوٹ کیا تو وہ مہرباں معصومہ کچھ ہراساں سی ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی جمیل سیٹھ بھی اس کی سراسیمگی بھانپ گئے اور اسے جتلانے لگے کہ اس کا نام اتنا اچھا ہے کہ وہ اپنی ولادت کی منتظر بیٹی کا نام بھی محاسن رکھنا چاہتے ہیں اور اب تو اس کی مہربانیوں کی وجہ سے یہ نام اور بھی بامعنی ہوچلا ہے۔ تب اس مہربان نے بتایا کہ محاسن کا لفظ احسان، خوبی اور اوصاف کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ہماری عربی بڑی جامع اور وسیع المعانی زبان ہے۔ جس پر جمیل سیٹھ نے لاریب( بلاشبہ) کہہ کر اپنی راہ لی۔
یوں محاسن کا یہ نام جمیل سیٹھ کی زندگی میں ایرپورٹ پر کیے جانے والے حسن سلوک کے حوالے سے اسمی بامسمی بن کر ایسا وابستہ ہوا کہ اپنی چاروں اولادوں میں وہ ہی اپنی باپ کا جگر گوشہ بن پائی۔ اپنی عمر کے بیسویں برس میں اس کی امی کا انتقال ہو گیا۔ وہ اس موت کا ذمہ دار اپنی بڑی بھابی کو گردانتی ہے۔ اسی نے انجکشن لگاتے وقت ڈاکٹر کو یہ نہ بتایا تھا کہ اس کی امی شدید ڈایابیٹک ہیں، کچھ دواؤں سے انہیں شدید ری ایکشن ہونے کا احتمال تھا۔
دو سال تک تو جمیل سیٹھ بھی اس اپنی بیوی کی دفاتِ حسرت آیات سے کچھ پریشاں پریشاں رہے۔ دو بیٹوں کی شادی تو انہوں نے اپنی رفیقِ حیات کی موجودگی میں ہی کر دی تھی۔ مسئلہ محاسن اور ارمغان کی شادی کا تھا۔ ولید تو اپنی ماں کی موت کا غم بھلانے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ چلا گیا اور وہیں کسی نیپالی دوشیزہ کے دامن سے ایسا وابستہ ہوا کہ بس ولیمے کی تقریب پر ہی اسے پاکستان لایا۔
محاسن کے لیے اس کی منجھلی بھابی کے قریبی رشتہ داروں میں سے ایک لڑکے عنادل کا رشتہ آیا۔ وہ باہر کا ایم بی اے تھا۔ گھرانہ اس کے منجھلے بھائی کا بھی دیکھا بھالا اور انتہائی آسودہ حال تھا۔ محاسن کو رشتے پر کچھ اعتراضات تھے ایک اعتراض تو یہ تھا کہ کہ لڑکے میں کچھ کچھ نسوانیت جھلکتی تھی۔ جس پر بھابھیوں نے اسے سمجھایا کہ ایسے لڑکے طبیعتاً بہت ہی ڈوسائل اور گھر گرہستی کو نبھانے والے ہوتے ہیں۔ محاسن کو اس کا نام عنادل، بھی بہت زنانہ لگا۔ وہ دونوں مل کر یک زبان ہوکر کہنے لگیں وہ اسے شادی کے بعد رستم، سہراب مصباح الحق یا سردار طور خان محسود پکار لے تو نام بھی مردانہ ہو جائےگا۔
محاسن کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ باپ کی خدمت، ماں کی مفارقت ان کی تربیت کا بھرم اور اپنی ہی طبیعت کی بلند پروازی اسے اس بات سے روکتی رہی کہ وہ اپنے لیے خود ہی ڈھونڈ ڈھانڈ کرکسی لڑکے سے شادی کرلے۔ اس وجہ سے اس نے بھی زیادہ مین میخ اس رشتے میں نہ نکالی یوں بھی وہ ایک بہت سمجھوتہ ساز لڑکی تھی۔۔۔ یوں باپ اور بڑی بھابھی کے سمجھانے پر جلد ہی مان گئی۔
لڑکے کا اپنا گھر بھی قریب ہی خیابان ہلال پر واقع تھا۔ اس کے گھر کے دیگر افراد بھی قریب ہی ایک بنگلے میں رہتے تھے۔ سامنے والی سڑک یعنی خیابان بادبان پر جمیل سیٹھ کا اپنا گھر تھا۔ ہزار گز سے کچھ بڑے سے پلاٹ میں پانچ پانچ سو گز کے دو بنگلے ایک راہدادری سے جڑے تھے۔ بڑا بھائی اپنی فیملی کے ساتھ ایک بنگلے میں تو دوسرے میں جمیل سیٹھ مقیم تھے منجھلے بھائی کا گھر بھی پچھلی گلی میں تھا عنادل کسی ملٹی نیشنل ادارے میں ڈپٹی کوالٹی کنٹرول منیجر تھا۔صبح اپنے دفتر جاتے وقت وہ محاسن کو والد صاحب کے ہاں اتار دیتا تھا۔ وہ وہاں کچھ دیر رہتی پھر ابو کے ساتھ ہی ان کے آفس آ جاتی اور شام کو انہیں کے ساتھ واپس آجاتی تھی۔ رات اس کی آمد کے وقت وہ تیار ہوتی کہ تاکہ وہ اپنے گھر لوٹ جائے۔
اس دوران دو واقعات ایسے ہوئے جن سے محاسن کی زندگی میں بھونچال سا آ گیا۔
پہلا واقعہ یہ تھا کہ اس کے والد کے دوست بہار الدین جن کا تعلق افغانستان کے غلزئی قبیلے کے تھا۔ وہاں وہ غدر مچنے کی وجہ سے اپنے دو بھائیوں کے ساتھ پشاور آ گئے تھے۔ پشاور میں روڈ کنسٹرکشن کی ٹھیکیداری کا بڑا کاروبار تھا۔ ان کی اکلوتی اولاد، ایک بیٹی بس فروزاں ہی تھی، محاسن کی ہم عمر۔ وہ اپنی اہلیہ اور فروزاں کے ساتھ کراچی آئے۔ وہ جمیل سیٹھ کے ہاں قیام پذیر تھے۔ جمیل سیٹھ اور بہار الدین، دونوں دوستوں کا خیال تھا کہ چھٹیوں پر آیا ہوا محاسن کا چھوٹا بھائی دلید اس حسن خوابیدہ فروزاں کو دیکھ لے تو دونوں کی بات پکی ہو جائے۔ ولید کو اس منصوبے سے دور امریکہ میں اپنی ہم مکتب نیپال کی رشمی پانڈے کچھ ایسی من بھائی کہ کم از کم شادی کے معاملہ میں اس نے ڈیورینڈ لائن (افغانستان اور پاکستان کی 2,640 کلومیٹر سرحد جسے باقاعدہ طور پر سن 1893 میں افغان امیر عبد الرحٗمن اور برطانوی راج نے تشکیل دیا) کراس کرنے کا کوئی خیال ظاہر نہ کیا۔
فروازں کی آمد کے تیسرے دن ہی وہ رشمی پانڈے کے والدین سے بات پکی کرنے کٹھمنڈو چل پڑا۔ اس کی روانگی کے دو دن بعد احمد علی ایک دن سندھ کے شہر نواب شاہ کے سفر پر کسی سے ملنے جانے کے لیے اپنی اہلیہ کے ساتھ نکلے۔ راستے میں کار کو حادثہ پیش آیا جس میں ڈرائیور اور وہ دونوں میاں بیوی جاں بحق ہو گئے۔
محاسن نے اس جانکاہ حادثے سے سنبھلنے میں فروزاں کی بہت دل جوئی کی۔ وہ خود چونکہ اپنے میاں کے ساتھ رہتی تھی لہذا اس نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ وہ فروزاں کو اپنے گھر پر لے آئے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ عورتوں کی ایک بڑی اکثریت تو خود کو جواں بکریوں سے بھی اپنے شوہروں کے معاملے میں غیر محفوظ تصور کرتی ہے۔
اس نے بہر حال یہ ہی بہتر جانا کہ فروزاں اس کے والد کے ساتھ ہی ان کے گھر پر رہے۔ ویسے بھی اس نے اپنا غم غلط کرنے کے لیے یہیں پر ایک نجی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔فروزاں لڑکیوں کے ہاسٹل میں منتقل ہونا چاہتی تھی مگر نہ محاسن مانی نہ ہی جمیل سیٹھ۔
فروزاں کے والدین کے انتقال کے ٹھیک تین ماہ بعد جمیل سیٹھ نے سب سے پہلے محاسن پر ہی پر یہ پہاڑ توڑا کہ انہوں نے فروزاں کی مرضی سے اس شادی کر لی ہے۔ وہ اس بات سے بہت رنجیدہ ہوئی۔ اس کا خیال تھا کہ باپ بھلے سے شادی کرتا مگر کسی پختہ عمر کی خاتون کے ساتھ۔جوان سال عورت توجہ کی بہت طالب ہوتی ہے۔ یہ توجہ نہ مل پائے تو اس میں بہت بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ فروزاں دل سے بہت رنجور اور حالات سے بہت مجبور ہے لہذا وہ اگر ایک ذمہ دارانہ رویہ اختیار نہیں کرتی تو اس جمے جمائے خاندان میں بہت سی دراڑیں پڑ جائیں گی۔
ایسا نہ ہوا۔ فروزاں اس کی توقعات سے بڑھ کر ذمہ دار طبیعت اور گھریلو رجحانات کی مالک نکلی۔ وہ جلد ہی حاملہ بھی ہو گئی۔ جلد بازی کے اس احساس تحفظ اور غلغلہ مچاتی سمند کی لہروں جیسا جھاگ اڑاتی جوانی کے علاوہ محاسن کو کوئی اس میں اور عیب نہ دکھائی دیا۔
اپنے ماں بننے کی اطلاع فروزاں ہی نے سب سے پہلے محاسن کو دی۔ اس کا دل جیتنے کے لیے ساتھ ہی بہت آہستگی سے کہا وہ محاسن میں تین رشتوں کا امتزاج دیکھتی ہے یعنی ایک سمجھدار ساس، ایک ذمہ دار بیٹی اور ایک پیار کرنے والی دوست کا۔ اس بات کو سن کر محاسن نے بغیر بتائے دکھوں کی ماری تنکوں کی کشتی پر تیرتی فروزاں کی یہ وضاحت سن کر چھوٹی موٹی رنجش کے آخری کانٹوں کو بھی دل ہی دل میں جلا کر راکھ کر لیا۔ محاسن نے اسے گلے لگا کر جب معاف کیا تو بن ماں کی یہ دونوں یتیم لڑکیاں گلے لگ کر بہت دیر تک روئیں۔
جمیل سیٹھ کا فروزاں سے شادی کے بعد بھی بطور بیٹی کے محاسن سے تعلقات میں کوئی اتار چڑھاؤ نہ آیا تھا وہ اس کو پہلے کی طرح ہی چاہتے تھے۔ فروزاں کو بھی اس لگاؤ سے کبھی کوئی گلہ نہ ہوا لہذا یہ بات بھی اس کو جلد معاف کر دینے میں معاون ثابت ہوئی۔
کچھ دن تک تو خاندان کے لوگوں میں اس شادی پر چہ مگوئیاں ہوتی رہیں مگر جمیل سیٹھ چونکہ مالدار تھے، خاندان والوں اور رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے اس لیے تعلقات ان سے بھی جلد ہی نارمل ہو گئے۔ سیٹھ جمیل کی اس شادی سے منجھلا بیٹا منیب البتہ کچھ ناراض ہوا اس ناراضگی کی تہہ میں شادی سے زیادہ اس کی بیوی کی ناعاقبت اندیشی اور خود منیب کا اپنا حرص شامل تھا۔ اس کا بہت دنوں سے ارادہ تھا کہ اس کے والد اپنے کاروبار کا کچھ حصہ راولپنڈی منتقل کر کے اسے اس کا تنہا حقدار قرار دے دیں۔ جمیل سیٹھ اس کی پنڈی منتقلی کے حق میں نہ تھے۔ وہ ذہین تھا کاروباری سمجھ بھی بہت تھی اس کی مدد سے وہ کاروبار میں پھیلاؤ کے خواہشمند تھے۔ جب انہون نے منیب کی بات نہ مانی تو وہ اس شادی کو بہانہ بنا کر ناراض ہوا۔ گھر کی چابیاں محاسن کے حوالے کرکے وہ اپنے حصے کی دولت سمیٹ کر اپنی بیوی کے ساتھ راولپنڈی شفٹ ہو گیا۔ بڑے بھائی وقاص نے بھی باپ کی اس شادی والی حرکت پر کچھ دن تک تو ناراضگی نبھائی مگر محاسن کے سمجھانے پر مان گیا۔ وہ باپ کے کاروبار میں شریک تھا۔
دوسرا واقعہ کچھ عجیب تھا۔ اس کے اثرات اس کے وجود میں سانپ کے کاٹنے کی مانند ظاہر ہوئے۔ یہ سانپ مگر کچھ ایسا تھا کہ اس کا فاسفولی فیز A2 این زائم (enzyme) جو زہر کو زہریلا بناتا ہے بدن میں داخل ہوکر کے عصابی نظام کو مفلوج کرتا ہے اور بر وقت علاج نہ ہونے کی صورت میں بدن میں خون کے سرخ خلیوں کو ناکارہ بنا کر موت کا بہانہ بنتا ہے۔ یہ فاسفولی فیز اے ٹو این زائم اس کے وجود میں سب کی نگاہوں سے بچ کر بہت آہستگی سے سرائیت کر گیا۔ اس سانپ نے محاسن کو مزے لے لے کر مگر تھوڑی تھوڑی مقدار میں رہ رہ کر کاٹا۔ دھیمے دھیمے،غیر محسوس طریقے پر۔
محاسن کو عنادل سے اپنی ذات میں جسمانی عدم دل چسپی سے گلہ تو بہت تھا مگر وہ خود کو یہ سمجھا کر چپ ہو گئی کہ شاید کچھ مرد ایسے ہی ہوتے ہوں۔ نئی عورت سے تعلقات بنانے میں دیر آشنا ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ کسی رات وہ اس کی جلوہ سامانیوں کی تاب نہ لاکر اس ٹوٹ پڑے اور یہ تعلقات عام میاں بیوی والے عورت مرد کے تعلقات کا روپ دھار لیں۔ محاسن ہر رات اسے رجھانے کے لیے خوب بنتی سنورتی۔ خواب گاہ میں طرح طرح کی خوشبو اور روشنی کا اہتمام کرتی۔ شادی سے پہلے وہ ایک ہفتے کے لیے اپنا سامان لینے اپنی خالہ کے پاس لندن گئی تھی اور وہاں سے اپنی کسی دوست کے ساتھ میلان (اٹلی) اور پیرس کا چکر بھی لگا کر آئی تھی جہاں سے اس نے نائیٹیوں اور من کو برمانے والی لانجرے (lingerie۔ عورتوں کے زیر جامے ) کا وافر اسٹاک جمع کیا تھا۔ عنادل میاں ان سب شرارتوں کے باوجود جانے کسی مٹی گارے کے بنے تھے کہ ان پر جھاگ جیسی، بدن کا جلد ساتھ چھوڑنے والی ان ترغیبات کا کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ وہ تقریباً ہر رات ہی سندرتا کی اس مورت کو بےاعتنائی سے دیکھتے۔ بستر میں ہی کمپنی کے لیپ ٹاپ پر کاروباری ای میل بھیجتے بھیجتے سوجاتے گو ڈی وی ڈی پلئیر پر طرح طرح کے لبھاؤنے مناظر آہوں اور سسکیوں کی شور مچاتی بارات کی مانند گزرتے رہتے مگر مجال ہے کہ عنادل کے جسم و جان میں اس بات سے کوئی تحریک ہوتی ہو۔
کچھ دیر بعد ہی بچے کی طرح مادر شکم میں سمٹ کر سو رہنے والے بچے عنادل پر شبِ ناآسودہ کی ماری محاسن دزدیدہ نگاہ ڈال کر نیم جاں ہوکر اپنے بستر سے اٹھتی۔ اس کا لیپ ٹاپ بستر سے نیچے رکھ کر ٹی وی کو دیگر بتیوں کے ساتھ گل کرکے کمرے میں سے باہر چلی جاتی۔ خواب گاہ کا دروازہ آہستگی سے بھیڑ کر وہ باہر لاؤنج میں رکھے لیزی بوائے پر پیر پھیلا کر دراز ہوکر وہ کبھی خود پر تو کبھی کتاب کے حروف پر نگاہ ڈالتی۔ دونوں میں اسے جب کوئی ربط محسوس نہ ہوتا تو وہ گیسٹ روم کے غسل خانے میں عریاں ہو کر وہ اپنے سراپے کو دیر تک تکتی رہتی تو اسے مختلف کتابوں اور عورتوں کے انگریزی رسائل سے اچکا ہوا یہ خیال دامن گیر ہو جاتا کہ کہیں اس میں عنادل کی جنسی عدم دل چسپی کی وجہ یہ تو نہیں کہ وہ نامرد یا ہم جنس پرست ہے۔
یہ شک ایک ایسا مردہ گوشت تھا جسے اس کے اندر کی عورت ایک مادہ ہائنا (لکڑ بگھا) کی مانند کھینچ کھانچ کر اپنے ہی یقین کی بھوک مٹانے کے لیے کسی نتیجہ خیز مقام تک لے آتی۔ خیالات کے اس بہاؤ میں اسے کہیں فروزاں دمکتی مسکراتی دکھائی دیتی جو ہر صبح اسے پہلے سے زیادہ جگ مگاتی اور آسودہ دکھائی دیتی تھی۔اس کے وجود سے ایسی روشنی پھوٹ رہی ہوتی جو مرد عورت کی سہولت آشنا لذت بھری قربت سے جنم لیتی ہے۔ ایسا کئی دفعہ ہوتا تھا۔ عنادل کی بے توجہی اور فروزاں کی آسودگی اسے ہر رات انگاروں پر سلاتی۔
محاسن بہت حسین نہ تھی، پر دیدہ زیب بہت تھی۔ چہرے پر بھرے بھرے ہونٹ بہت رقبہ تو نہ گھیرتے تھے مگر پھر بھی اپنے اس افقی اختصار کے باوجود اسے ایک اسکول گرل والی معصومیت ضرور عطا کرتے تھے۔ صاف شفاف جلد والے چہرے پر ان لبوں کے کونے پرایک نمایاں تل تھا جو بوسے کے بےتاب طلب گار کے لیے نقطہء آغاز بن سکتا تھا مگر عنادل نے ان ہونٹوں کو اگر مجبوری میں کبھی چوما بھی تو بالکل اس طرح جس طرح کوئی چائے یا کافی کے کپ کی گرم کناری پر ہونٹ رکھ کر جلدی سے علیحدہ ہو جائے۔
اس کے ان کے ہونٹوں کے پیچھے چھپے اجلے بےداغ ہونٹ بہت ترتیب سے جمے تھے۔ سوچ لیں کہ وہ امریکہ کی میرین کا ایک ایسا چاک و چوبند دستہ تھے جو الاسکا کی برفانی میدانوں میں اس کے ہونٹوں کے گلابی وادی میں سفید کیمو فلاج یونی فارم پہنے ڈیوٹی دینے کے لیے ہمہ وقت ایستادہ رہتے تھے۔ناک اس نے اپنی امی کے منع کرنے کے باوجود سولہویں سالگرہ سے تین دن پہلے ہی چھدوائی تھی جو جب ذرا زخم ہو جانے کی وجہ سے پک گئی تو اسے بہت ساری ڈانٹ اور مائیسین بھی کئی دن تک کھانی پڑی۔ ناک ٹھیک ہو گئی تو اس نے مستقل طور پر اس میں راجھستانی نتھنی، لونگ اور کوکے بہت شوق سے پہننا شروع کر دیا۔ اس مخصوص قسم کے زیور سے اس کی ناک جو معمول سے ذرا زیادہ ہی ستواں تھی اس کا چبھاؤ چھپ جاتا تھا۔
محاسن کے بال کمر تک لمبے اورچمکیلے تھے اور وہ انہیں کبھی کھول لیتی تو ایک سیاہ آبدار چادر کی طرح پردہ تان لیتے تھے۔ ان کی کوئی لٹ جب آوارگی کرتی ہوئی چہرے پر بکھرتی تو ایسا لگتا تھا کہ کسی مشہور سیکورٹی ایجنسی کا کوئی گارڈ مفت کی ڈیوٹی دینے کے لیے مالکان کی طرف سے تعینات کر دیا گیا ہو۔ قد دراز تھا، عام لڑکیوں سے ذرا نکلتا ہوا اور جامہ زیبی بھی قیامت تھی۔اس کی آنکھوں میں ذہانت کے بجرے کسی ساکت جھیل پر بےمقصد تیرتے دکھائی دیتے۔ نگاہ بھر کے کسی کو دیکھنے کی عادت اس میں پہلے بھی کبھی نہ تھی۔ ماں نے اسے بہت اوائل عمری میں سمجھادیا تھا کہ یہ انگریز لوگ کسی کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ ان کے ہاں کسی کو گھور کر دیکھنا بد تہذیبی میں شمار ہوتا ہے۔ اس طرح ٹکٹکی جماکر دوسروں کو دیکھنے سے سامنے والے کو حرص اور شک کا شائبہ گزرتا ہے۔ یوں نگاہوں کے کونے سے دوسروں کو دیکھنا ایک عادت سی بن گئی۔ وہ اپنی نظر ہٹابھی لیتی تھی تو اس کی نگاہوں میں ایک ایسا سحر تھا کہ مطلوب نگاہ بہت دیر تک تڑپتا رہتا۔ جلد کی تازگی اور قدرتی چمک کی وجہ سے میک اپ کا استعمال بھی وہ کم ہی کرتی تھی۔ عنادل پر اس حسن کے ان بیش بہا جلووں کا وہی اثر ہوتا جو صحرائے الصحرا کے علاقوں پر مشتمل ماریطانیہ، مالی، تیونس اور نائیجر کے ممالک کے صحراؤں پر کبھی کبھار کی بارش کا ہوتا ہے۔ بےآب و گیا، اپنی ہی آگ میں جھلستے ہوئے، بے لطف اور بے آرام، لق و دق ریگستان۔
سچ پوچھو تو اس شک کی ابتدا شادی کے اولین ایام میں ہی پڑگئی تھی۔ نکاح کی رات ایک تو عنادل نے بارات لانے میں اتنی دیر کردی کہ محاسن کی رخصتی کہیں صبح چار بجے جاکر ممکن ہوئی۔ کمرے میں آتے آتے وہ بھی بہت بور ہو چکی تھی اور عنادل بھی جمائیاں لے رہا تھا۔ اسے گلے لگا کر پانچ منٹ میں ہی سو گیا۔ ولیمے والی رات کا معاملہ اور بھی عجب تھا۔ وہ ابھی پارلر میں ہی تھی کہ اطلاع آئی کہ عنادل کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے اور اسے ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ یہ اطلاع عنادل کی سب سے چھوٹی بہن فارہہ لے کر آئی تھی۔سب گھر والوں کی ہدایت تھی کہ عنادل خود ہی پنڈال میں دو تین گھنٹوں میں آ جائےگا۔ اسے ڈرپ لگی ہے۔عنادل آیا تو سہی مگر رات کو وہ چپ چاپ منھ لپیٹ کر ہی سو رہا۔ اس کے بعد چھ ماہ تک ایسے کئی اہتمام ہوئے۔ کسی دعوت سے واپسی پر تو کبھی یوں ہی لبھاؤ اور ترغیب کے لیے مگر محاسن باکرہ کی باکرہ ہی رہی۔
وہ اکثر تاسف کرتی کہ اس کے والد عنادل کی بجائے اپنے جنرل منیجر فرحان سے کردیتے تو اچھا ہوتا۔ کیا ہوا اگر وہ اس سے عمر میں پورے پندرہ برس بڑا تھا۔ فرحان کو ایک اطلاع کے بموجب اس کی بیوی نے چھوڑ دیا تھا مگر اس کی معلومات کے حساب سے اس سارے بگاڑ کی ذمہ دار خود اس کی بیوی تھی۔ اسے اپنا کوئی پرانا کلاس فیلو بہت پسند تھا مگر مذہبی دشواریوں کی وجہ سے یہ شادی نہ ہو پائی۔ بعد میں جب وہ ایک دوسرے سے چھپ چھپ کر ملنے لگے تو اس وجہ سے یہ شادی ٹوٹ گئی۔
فرحان بہت ہینڈ سم تو نہ تھا۔ خوش لباس، شریں گفتار اور کیئرنگ بہت تھا ذوق جمالیات بہت اچھا تھا مگر بقول وقاص کے اس کی ذہانت اوسط درجے کی تھی۔ سچ پوچھو تو ذہانت کے معاملے میں وقاص خود بھی ایپل کمپیوٹرز اور آئی فون اور آئی پیڈ کے مالک اسٹیو جاب جیسا نہ تھا۔ تنہائی اور میاں کی عدم توجہی کی ماری محاسن اور فرحان کے درمیان دفتری معاملات کو نپٹاتے نپٹاتے دونوں میں ایک چپ چاپ سی انڈر اسٹینڈنگ پیدا ہو گئی تھی جو بتدریج ایک لگاؤ کی صورت اختیار کرتی جارہی تھی۔
اس تعلق کے حوالے سے نہ تو دفتر میں کوئی افواہ سازی کا بازار گرم ہوا نہ ہی اس کے والد جمیل سیٹھ نے اسے اس بارے میں کوئی تنبیہہ کی۔ اس سلیقے اور راز داری میں جہاں محاسن کی اپنی پھونک پھونک کر قدم بڑھانے والی احتیاط پسند طبیعت کا بہت کچھ دخل تھا تو وہیں اس کا وہ بہت کچھ کریڈٹ فرحان کی سمجھ داری، دھیمے پن احترام سے آراستہ لگاؤ اور رکھ رکھاؤ کو بھی دیتی تھی۔ ابتدا میں جب یہ سلسلہ چلا تو محاسن کو یہ خیال آتا رہا کہ فرحان کی اس احتیاط کے بندھن میں شاید کمپنی کی ملازمت کو بھی دخل ہو۔ وہ ان کی کمپنی میں انتظامی سطح پر ایک ذمہ دار ترین عہدے پر فائز تھا۔ بعد میں اسے لگا کہ اس اہتمام میں کچھ اس کی طبیعت کا اپنا فطری میلان بھی شامل ہے۔
اس کے ابو نے ہی اسے بتایا کہ فرحان کے ابو مرکزی حکومت میں افسر تھے، ریٹائرمینٹ کے بعد وہ اسی کمپنی میں ملازم ہو گئے تھے۔ ان کی تین اولادیں تھیں عندلیب، رفاقت اور فرحان۔ بہنیں بڑی تھیں، دونوں بیاہ کر ملک سے باہر جا بسی تھیں۔ ان کے اچانک انتقال سے کچھ دن پہلے ہی فرحان بہنوں کی مدد سے باہر سے پڑھ کر آیا تھا۔ پہلے تو ادھر ادھر کہیں نوکری کرتا رہا بعد میں وہ ان کی کمپنی میں آن کر ملازم ہو گیا۔ اس بات کو اب پندرہ برس ہوتے تھے۔
اس کے پیار کے طور اطوار کے یہ من بھاؤنے انداز اسے بہت عرصے پہلے دیکھی گئی وائلڈ لائف کی ایک فلم کے چند مناظر کی یاد دلاتے رہے۔ منگولیا میں سردی کے ایام میں Demoiselle Crane جنہیں بھارت میں سارس اور کونج کہا جاتا ہے پاکستان اور بھارت کا رخ کرتے ہیں۔ ہندوستان کی ریاست راجھستان میں ایک قصبے کا نام 'کی شن' ہے۔ اس قصبے میں کبھی کسی کسان نے سرسوں کی ایک بوری کے بیج ان سارسوں کو ڈال دیے تھے۔ اب ہر سال موسم گرما میں دس ہزار سارسوں کا ایک جھنڈ اس جگہ باقاعدگی سے اپنا دانہ چگنے پہنچتا ہے۔ محاسن نے سوچا کہ اس نے بھی سرسوں کے بیج کی ایک بوری فرحان کے سامنے ڈال دی ہے۔ وہ بھی اپنی میلان طبع اور اس کی سہولت سے یہاں دانہ کھانے ضرور آئےگا۔
ایک دن بات چیت کے دوران اس ہمت کرکے اپنے اور عنادل کے ساتھ درپیش معاملے کو اپنی ایک قریبی سہیلی کا کیس بنا کر جب فرحان کے ساتھ اس پر موضوع پر تفصیلی گفتگو کی تو فرحان کو کچھ حیرت بھی ہوئی مگر وہ اس یہ سمجھا نے میں کامیاب ہو گیا کہ اس کی سہیلی کا میاں ممکن ہے ہم جنس پرست یعنی (Gay) ہو اور اس طرح کے مردوں کو عورتوں میں کوئی جنسی دل چسپی نہیں ہوتی۔ اپنی اس سہیلی کو وہ تجویز دے کہ وہ اپنے میاں کا بدن اس کی بےتوجہی کے دوران چپ چاپ دیکھے ممکن ہے اسے کچھ ایسی علامات دکھائی دے جائیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ بدن کسی اور کے تصرف میں رہتا ہے۔ یہ راز زیادہ دن تک چھپ نہیں سکتا۔ وہ کوشش کرکے اسے رنگے ہاتھوں پکڑے مگر شور مچائے بغیر چپ چاپ طلاق لے لے۔
ایک ہفتے کے لیے وہ اپنے والد کی تجویز پر سنگاپور گئی۔ جانا تو اس کے بھائی وقاص کو تھا مگر اس کے بیٹے کا ان عین انہی دنوں اچانک ہرنیا کا آپریشن ہونے کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ یوں اسے فرحان کے ساتھ جانا پڑا۔۔۔ وہاں کوئی کاروباری کانفرنس تھی۔ یوں بھی اس کے والد کی مرضی تھی کہ فرحان سے تربیت پاکر وہ ان کے بزنس میں شامل ہو جائے۔ دوبئی سے ان کی فلائٹ میں سیٹ بزنس کلاس میں بک تھی۔ جہاز جب فضاوں میں بلند ہوا تو وہ نہ جانے کب دوران پرواز نیند کی ماری اس کی بانہوں میں سمٹ کر سو گئی۔ دفتر سے وہاں سیدھے ائیر پورٹ آئے ہوئے فرحان کو شیو کرنے کا موقع نہ ملا تھا۔ ہلکے ہلکے اسٹبل جب اسے اپنے گالوں کو سہلاتے ہوئے محسوس ہوئے تو وہ بھی سوچی سمجھی غفلت کا بہانہ بناکر آنکھیں موندے اسکے سینے پر سر رکھے سانسوں کی مالا جپتی یہ سوچتی رہی کہ عنادل کے چکنے لوشنوں کے پالے لمس میں اور اس مردانہ کھردرے پن میں لذت کا کتنا جاں لیوا فرق ہے۔
کانفرنس والے انہیں ایک دن سنگا پور کے بوٹانیکل گارڈنز لے گئے جن کا شمار دنیا کے بہترین پک نک اسپاٹس میں ہوتا تھا۔ وہاں گھومتے گھومتے گروپ سے کٹ کروہ درختوں کے ایک جھنڈ میں پہنچ گئے جہاں ایک جھیل میں کنول کھلے تھے۔ ایک پتھر پر بیٹھی محاسن کا پیر پھسلا تو وہ تقریباً پانی میں گلے گلے تک ڈوب گئی، فرحان نے اسے نکالا اور خشک کرتے کرتے اسے کئی دفعہ چوما۔ بوسوں کا یہ ذائقہ تو یقیناًبہت ہی لذت آگیں تھا مگر اس کہیں زیادہ دل خوش کن اس کا وہ جملہ تھا کہ قدرت نے آپ کے ہونٹوں کے کونے پر یہ تل اس لیے سجایا ہے کہ بھولے بھٹکے مسافر اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ وہاں سنگاپور میں قیام کے دوران فرحان نے اسے کئی دفعہ دیر تک چوما مگر بات بوس کنار تک ہی رکی رہی۔
نہ جانے کیوں محاسن نے مواقع کی اس بھر مار میں بھی اسے خود ہی اپنے دل میں متعین حدود کو پھلانگنے کی اجازت نہ دی۔
کانفرنس سے واپسی پر محاسن کے میاں عنادل کو کمپنی میں ترقی پر نئی جھمجھماتی کار ملی تو ایک ڈاریؤر بھی رکھ لیا گیا۔ عجب بدتمیز سا ملازم تھا۔ بےحد تنومند، غصیلا اور تحکم آمیز رویوں کا مالک، عنادل سے تو یوں بات کرتا تھا جیسے وہ اس کا ملازم ہو۔
محاسن کو وہ پہلے دن سے ہی نہ بھایا۔ کئی مرتبہ اس کی بدتمیزیوں سے اور گھر کے دیگر ملازمین سے روز روز کے جھگڑوں سے عاجز آن کر محاسن نے اسے نوکری سے فارغ کرنے کا بھی کہا مگر عنادل کا کہنا تھا کہ یہ اس کے باس کے گاؤں کا ہے۔ ان ہی کی فرمائش پر اسے نوکری دی گئی ہے، تنخواہ بھی کمپنی دیتی ہے لہذا اس کا اسے نوکری سے نکالنے پر کوئی اختیار نہ تھا۔
اس دوران ڈرائیور کو عنادل نے ایک دو کمروں کا پورا سوئیٹ اپنے ہی بنگلے کے آؤٹ ہاؤس میں دے دیا۔ دفتر سے اب وہ جلد آ جاتا تھا۔ آنے کے کچھ دیر بعد جب محاسن یا تو اپنے ابو کے گھر ہوتی یا کسی اور دوست یارشتہ دار سے ملاقات کے لیے گئی ہوتی وہ ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر کہیں چلا جاتا۔ وہ دونوں واپس لوٹتے تو محاسن عنادل اس کا انتظار کیے بغیر یا تو لاؤنج میں یا اوپر اب اپنے نئے آباد کیے ہوئے بیڈ روم میں سو چکی ہوتی۔ گیٹ کھلنے اور کمرے میں کھٹ پٹ سے اندازہ ہو جاتا کہ میاں عنادل گھر واپس آ گئے ہیں۔
چھٹی والے دنوں میں عنادل کی حالت ماہی بےآب کی سی ہوتی۔ ڈرائیور ان دنوں میں کہیں اپنے علاقے کے لوگوں سے ملنے جلنے چلا جاتا۔
اس ڈرایؤر کے آجانے سے محاسن کو ایک نسوانی ادراک نے یہ سمجھایا کہ جب شکسپئر کے مشہور ڈرامے ہیملیٹ میں ایک کردار مارسیلس کی زبانی یہ کہتا ہے کہ ‘‘Something is rotten in the state of Denmark,’‘
تو یقیناً اس مملکت میں کچھ ایسی خراب باتیں ہو رہی ہیں جنہیں کسی طرح بھی در گزر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سوچتی رہی کہ اس کی زندگی میں عنادل نے یہ کیا بگاڑ اپنا لیا ہے کہ اس سے مفر ممکن نہیں۔ وہ اسی شش و پنج میں مبتلائے عذاب ہوکر نہ چاہتے ہوئے بھی فرحان کے قریب ہوتی چلی گئی۔
باپ کی، فروزاں کی اس کے تینوں بھائیوں کی اپنی دنیا تھی جس میں اس کا عمل دخل بہت کم تھا۔ فرحان اسے بہت فراوانی سے دستیاب تھا۔ اس دوستی میں اب خاصا اعتماد اور بےتکلفی آ چکی تھی۔ یہ لگاوٹ وہ عنادل سے انتقام کے طور پر بھی بڑی دل جوئی سے نبھاتی تھی۔
فرحان پی۔ ای۔ سی۔ ایچ۔ ایس سوسائٹی کے ایک پرانے بنگلے میں ایک عدد چوکیدارکے ساتھ رہتا تھا۔ اس بنگلے میں کئی پرانے درخت تھے۔ جس چھوٹی سی شاہراہ پر یہ واقع تھا وہاں ہر طرف ہی پرانے درخت تھے۔ شہر کے کئی معتبر لوگ وہیں رہائش پذیر تھے۔ یہ ایک پرانی طرز کا بنگلہ تھا۔ اس کے ابو نے اپنی ملازمت کے دنوں میں اسے بنوایا تھا۔ فرحان کو یہ ورثے میں مل گیا تھا۔ پرانا ہونے کے بوجود اس نے اسے بہت عمدگی سے مین ٹین کیا تھا۔ صبح ایک ماسی اور جمعدار اس کی صفائی اس کی موجودگی میں کرکے چلے جاتے اور پھر یہ گھر اس کی آمد تک بند رہتا۔ بوڑھا چوکیداربابا غلام رسول ان کے ہاں پچھلے پینتیس برسوں سے ملازم تھا۔
اسے ہندوستانی موسیقی، اردو شاعر کا بہت شستہ ذوق تھا۔ بالخصوص اس نے مصطفے زیدی اور داغ کو تو گھوٹ کر پی رکھا تھا۔مصطفے زیدی کی زندگی اور شاعری پر بھی ا س کی بہت اسٹڈی تھی۔ جاپانی اور ہسپانوی ادب کا بھی وہ دیوانہ تھا۔ جن دنوں ان دونوں کا پیار پروان چڑھ رہا تھا وہ جاپانی ادیب ہاروکی مراکامی کا بہت شدت سے مطالعہ کر رہا تھا اور اسے اکثر وہ اس کیا یہ قول Pain is inevitable. Suffering is optional.148 (درد تو ناگزیر ہے مگر آزار اپنے اختیار کی بات ہے)
یہ اس کی کتاب
What I Talk About When I Talk About Running کا مشہور جملہ تھا۔ محاسن اسے اپنی زندگی پر فٹ کرنے کی کوشش کرتی تو وہ اس پر ایسے ہی فٹ ہوتا تھا جیسے مشہور اداکارہ پریانکا چوپڑہ کے بدن پر اس کے پسندیدہ فیشن ڈیزائنر ریتو کمار کے بلاؤز اور ہالٹرز چسپاں ہو جاتے تھے۔
فرحان کو کھانا پکانے کا بھی بہت شوق تھا۔ بالخصوص عربی کھانے اور شوشی وہ بہت اہتمام سے اس کی آمد پر اس کی مرضی سے تیار کرکے اپنے ہاتھوں سے کھلاتا تھا۔
گھر کے لاؤنج میں لکڑی کے ایک تختے پر پیتل کے الفاظ میں جڑی ہوئی یہ عبارت کم بخت نے کہاں سے لا کر لگائی ہوئی تھی کہ’‘ All my guests give me happiness, some by coming, some by going ‘‘( میرے سبھی مہمان میرے لیے مسرت کا باعث بنتے ہیں، کچھ اپنے آنے سے، کچھ اپنے چلے جانے سے)شراب ضرور پیتا تھا مگر ایک رکھ رکھاؤ کے ساتھ۔ اسی نے محاسن کو سگریٹ، شراب اور بدن کے ذائقوں سے آشنا کیا۔ فرحان کے ہاں کوئی عجلت، ضد یا بےتوجہی نہ تھی۔ باتیں کرتا تو دل چاہتا کہ گھنٹوں بیٹھے سنتے رہو۔ وہ اکثر سوچتی کے ایسی کیا بات تھی کہ اتنے اچھے اور سمجھدار مرد کو بھی ایک عورت نے چھوڑ دیا۔ اس کے بارے میں وہ سوچتی تو اسے اپنی ماں کی یہ بات بھی بہت یاد آتی کہ ہزار عورتوں میں سے ایک عورت کو اپنے خوابوں کا شہزادہ ملتا ہے باقی تو ساری زندگی بھر جھک مارتی ہیں۔
محاسن کے شکوک عنادل کے بارے میں چند دن سے اپنے عروج پر تھے۔ اسے چوکیدار نے بتایا کہ ایک چھوٹی سی لوہے کی الماری جو الماری کم اور تجوری زیادہ لگتی ہے وہ ڈرایؤر کے کمرے میں عنادل صاحب نے رکھوا دی ہے۔ ڈرائیور اور صاحب شام کو جاتے وقت اس الماری کو کھول کر اس میں سے کچھ چیزیں اپنے ایک چھوٹے بیگ میں رکھتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس کے بعد روانہ ہو جاتے ہیں۔ ڈرائیور چرس بھی بہت پیتا ہے۔ اس کا ماتھا اس وقت بھی ٹھنکا جب وہ ایک دن عنادل کی غیر موجودگی میں اپنی لانجرے نکالنے اپنے پرانے بیڈ روم گئی۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ یہ لانجرے وہ اپنی کچھ دوستوں کو بطور تحائف دے ڈالے۔ ان کی اب اس کی ازدواجی زندگی میں کوئی افادیت باقی نہیں رہی اس میں نے جب اپنے وارڈ روب کا جائزہ لیا تو اسے وہاں ایک غدر مچا ہوا دکھائی دیا۔ کچھ سامان تو اب بھی بن کھلے ہی اس کے وارڈ روب میں رکھا تھا۔ اسے مگر اس بات پر بڑی حیرت ہوئی کہ اس کے اس سامان کے بکس تو اپنی جگہ موجود تھے مگر دو تین نائٹیاں ان میں سے غائب تھیں۔ ایک نائیٹی جو اس نے بہت دن ہوئے کسی رات پہنی تھی وہ عنادل کے باتھ روم میں موجود تو تھی مگر اس کا ایک اسٹریپ ہک کے پاس سے ٹوٹا تھا۔
وہ سوچ میں پڑ گئی کہ کیا اس غلیظ تعلق میں اس کا میاں نسوانی رول ادا کرتا ہے اور یہ لباس پہن کر وہ اپنے سی۔ ڈی ہونے کا مزہ لیتا ہے۔ سی۔ ڈی۔ یعنی کراس ڈریسر (Cross Dresser) وہ مرد اور عورتیں ہوتے ہیں جنہیں جنس مخالف کے لباس اور لوازمات اپنے بدن پر سجاکر ایک عجیب سی جنسی لذت اور احساس تکمیل محسوس ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ سوچ کر اسے عنادل سے بہت کراہت محسوس ہوئی۔
اب اسے مزید صرف ایک ثبوت درکار تھا۔ وہ تھا ان ثبوتوں کو اس کے منھ کے سامنے رکھ کر عنادل کا سامنا۔ وہ کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے اسے ایک موقع صفائی کا دینا چاہتی تھی۔ جو کچھ اس نے اپنے کمرے میں دیکھا اس سے وہ بہت ٹوٹی، اپنے کمرے میں آن کر روئی بھی بہت۔ انتقام کی آگ بھی اس کے اندر ہی اندر سلگنے لگی۔
اس انکشاف کی کڑواہٹ میں وہ پورا ایک ہفتہ لتھڑی رہی۔ اسے کبھی اپنے آپ سے تو کبھی عنادل سے گھن سی آنے لگی اور وہ سوچنے لگی کہ کیا اس میں کوئی ایسی کمی ہے کہ اس کا میاں اس کی جانب شب اول سے ہی مائل نہ ہوا، تب اسے فرحان کی وہ بات یاد آ گئی کہ اس کی سہیلی کا میاں ممکن ہے ہم جنس پرست یعنی (Gay) ہو اور اس طرح کے مردوں کو عورتوں میں کوئی جنسی دل چسپی نہیں ہوتی۔ اب اسے یہ باور کرنے میں کوئی دشواری نہ تھی کہ عنادل بھی مکمل طور پر Gay ہے وہ ایک باٹم یعنی مفعول ہے اور وہ حرام زادہ ڈرائیور اس کا فاعل یعنی ٹاپ۔ وہ ایک عجب کرب میں یہ سوچ سوچ کر مبتلا رہی کہ کیا کوئی اعلٰی خاندان کا فرد جس کی تعلیم باہر کی ہو اور جس کا گھرانہ بھی بہت معقول اور معاشرے میں شریف اور باوقار ہو وہ اپنے سے بےحد کمتر حیثیت کے ملازم کے ساتھ جنسی تعلق کی ان رزیل ذلتوں کی کھائی میں گر سکتا ہے۔ اسے قرآن کریم کی سورۃ التین کی چوتھی اور پانچویں آیت یاد آگئی جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’‘ ہم نے انسان کو خوب سے خوب تر حالت میں پیدا کیا مگر ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو پستیوں کی گہرائی میں جا گرتے ہیں’‘۔ انسانی تعلق بالخصوص کسی ازدواجی تعلق میں کوئی بریک پوائنٹ یا کوئی ٹپنگ پوائنٹ اگر ہوتا تو عنادل اور محاسن کے تعلق میں یہی انکشاف، یہ نقطہء ادراک وہ آخری تنکا تھا جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی۔
۲
کڑواہٹ اور بےلطفی کہ ان ہی ایام میں ایک ایسی دعوت آ گئی جس میں نہ جانا اس کے اختیار کی بات نہ تھی۔ اس دعوت میں جانے کا اس کا کوئی موڈ نہ تھا، مگر بڑی بھابھی کی ضد کے آگے اسے مجبوراً ہتھیار ڈالنے پڑے اس نے محاسن کے اپنے اور فروزاں کے لیے ااپنی ہی کسی دوست کے بیوٹی پارلر پر اس سے پوچھے بغیر ٹائم تک لے لیا۔ دعوت کا معاملہ یہ تھا کہ اس کی بڑی بھابھی کی سب سے چھوٹی بہن عارفہ کی شادی تھی۔ اس شادی میں اس کے نہ جانے پر خاندان میں بہت خرابیاں ہوتیں۔
اس کی امی نے مرتے وقت اسے وصیت کی تھی کہ اس خاندان میں وہ ہی ان کی اصل وارث ہے جو بھی ہو جائے وہ خاندان کو سینت، سنبھال کر رکھے گی، اسے بکھرنے نہیں دےگی۔ کاش اس کی امی ان دنوں اس کی روح جس عذاب میں مبتلا تھی اس کا کوئی ادراک رکھتیں اور دنیا سے وقت رخصت اس کے ناتواں کندھوں پر یہ بار گراں نہ ڈالتیں۔
وہ اپنی بھابھی اور فروزاں کے ساتھ پارلر تیار ہونے گئی تھی۔ وہاں اس کی تیاری اور حسن کو دیکھ کر کسی لڑکی نے جملہ کسا کہ ‘‘محاسن لگتا ہے آج کی رات تو ع غالبؔ کے اڑیں گے پرزے تو فروزاں نے بھی اس کی جانب سے جواب دیا کہ‘‘ ہماری محاسن بھی کم نہیں ع جلا کر راکھ نہ کردوں تو داغ نام نہیں۔ ‘‘ان کی اس جملہ بازی اور پنڈال میں پہنچنے میں تاخیر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی بھابھی نے کہا‘‘ لڑکیو بند کرو یہ انتاکشری اور جلدی سے ہال میں پہنچو کیوں کہ بارات اب بس گھر سے نکلنے والی ہے۔ ‘‘اس پر محاسن نے آہستہ سے ناک میں روبی کی نتھنی پہنتے ہوئے کہا‘‘ بھابھی یہ شاعری والی چیز کو بیت بازی کہتے ہیں انتاکشری تو گانوں کی ہوتی ہے‘‘۔
اس رات محاسن نے فلاور موٹفس کے بارڈر والی را سلک کی گہرے مرون رنگ کی سا ڑھی گردن کے پیچھے اور کمر پر باندھی ہوئی ڈوریوں والے چھوٹے چھوٹے سے بلاؤز کے ساتھ پہنی تھی، کمر میں سونے کی کردھانی،مانگ میں راجھستانی کندن ٹیکا اور گلے میں نورتن کا موتیوں والا ہار اس سجاوٹ کو اور بھی تکمیل کے انتہائی دل فریب مقام تک ہاتھ تھام کر لے آئے تھے۔ چلتے وقت فروزاں نے کار میں اس سے مذاق کیا کہ ‘‘کہیں ایسا نہ ہو بھول میں دولہا، دلہن کی جگہ اسے کار میں بٹھا کر لے جائے’‘۔ جس پر محاسن نے زمانے بھر کے دکھ اپنی آواز میں سمیٹ کر کہا ‘‘ایسی ہماری قسمت کہاں، ہمارا دولہا ہی ہمیں برت لے تو بھی بہت ہے’‘۔ اس جملے پر فروزاں نے بہت آہستہ سے کہا: ’‘ I feel your pain. Should I talk to your Dad about this ?!’‘۔ (مجھے تمہارے دکھ کا ادراک ہے۔کہو تو میں اس کا تذکرہ تمہارے والد سے کروں) جس پر محاسن نے بہت آہستہ سے کہا ‘‘ Not till I ask you to tell him my sorrows’‘( نہیں، اس وقت تک نہیں جب تک میں خود تمہیں اپنے دکھ انہیں بیان کرنے کا کہوں)۔
بارات کے آنے سے پہلے ہی اسے عنادل کا ایس ایم ایس آ گیا کہ وہ کمپنی کی کسی میٹنگ میں اپنے باس کی مصروفیت کی وجہ سے اس کی نمائندگی کرنے لاہور جا رہا ہے۔ کل وہ دفتر سے سیدھے گھر آئےگا۔ وہ سب کو بتا دے کہ اس کا انتظار نہ کیا جائے محاسن کا دل چاہا کہ اس کی اس بہانے بازی پر وہ فون کرکے اسے بےنقط کی سنائے اور جتلا دے کہ وہ اپنے یار کے ساتھ غلاظت کے کس دھندے میں مصروف ہوگا۔ ایک عجب نفرت اور انتقام کے جذبے نے اس میں اس پیغام کو پڑھ کر سر اٹھایا مگر اس نے تہیہ کیا کہ وہ اپنی اس کیفیت کا راز کسی پر کھلنے نہیں دے گی کم از کم ان مہمانوں میں۔
شادی میں بہت لوگ آئے تھے اور فرحان بھی اس کے والد کے ساتھ آیا۔ سیاہ پن اسٹرائپڈ سوٹ اور سفید قمیص پر سرخ بو ٹائی لگائے ہوئے۔ ہاتھ میں نکارا گوا کا بنا ہواLa Aroma de Cuba Mi Amor دھیمے دھیمے جلتا ہوا قیمتی سگار۔ جس کی خوشبو وہاں فضاؤں میں بکھرے بہت سے پرفیومز پر حاوی ہو گئی تھی۔ فروزاں نے اسے راستے ہی میں بتایا تھا کہ جمیل سیٹھ نے کہا ہے کہ جب بارات آ جائے تو وہ انہیں فون کردے۔ ان سے دیر تک نہیں بیٹھا جاتا وہ فرحان کے ساتھ آ جائیں گے۔ اسے بھی وقاص اور رضوانہ کی جانب سے دعوت ہے۔اسے لگا کہ اس تقریب میں کہیں سے ہالی ووڈ کا اداکار جارج کلونی بھولے بھٹکے آ گیا ہے۔ وہ اسے بہت اچھا لگتا تھا۔ اس کی دو فلمیں۔ 'From Dusk Till Dawn' اور . 'Confessions of a Dangerous Mind اس نے کئی کئی مرتبہ دیکھی تھیں۔
نکاح کی اس دعوت میں اگر بہت سے مردوں اور عورتوں نے محاسن کو دیکھا اور ا س کے حسن، سجاوٹ اور طرح داری کی سب ہی نے داد دی تو کچھ ایسی عورتیں بھی تھیں۔ جنہیں اپنے میاں، فرحان کے مقابلے میں ایسے ہی لگے جیسا قیمتی کھادی سلک کی موجودگی میں کفن کا کورا لٹھا لگتا ہے۔
اس کے ابو تو وہاں لوگوں سے ملنے جلنے میں لگ گئے۔ فرحان البتہ ایک کونے میں شامیانے کی طرف پشت کرکے تنہا بیٹھا رہا۔ محاسن کو جانے کیوں یہ گمان گزرا کہ اس کی نگاہیں اسے بےصبری سے تلاش کر رہی ہیں۔ دھیمے دھیمے اپنے اندر ہی اندر سلگنے کی جو عادت محاسن کو پڑ گئی تھی اس کا اس نے پورا مزہ لیا اور وہ جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرکے عورتوں کے جھرمٹ میں گھسی رہی۔ ان ہی جھرمٹوں کے درمیاں سے اسے کبھی دوسری لڑکیوں کے شانوں کے اوپر سے تو ان کی بانہوں کے خلاوؤں سے سب کی نگاہوں سے بچ کر اسے تکتی رہی۔ اسے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ فرحان نے نہ صرف دیکھ لیا ہے بلکہ تصدیق کے طور پر اس نے اس کے بڑے بھائی وقاص اور اس کی بڑی بھابھی رضوانہ سے پوچھ بھی لیا ہے کہ ‘‘محاسن اور عنادل نہیں آئے کیا۔ دونوں دکھائی نہیں دے رہے ‘‘جس پر رضوانہ نے اسے بتایا کہ محاسن تو آئی ہوئی ہے کہیں لڑکیوں سے ہنسی ٹھٹھول میں لگی ہوگی مگر عنادل شاید نہ آئے۔ وہ لاہور گیا ہوا ہے۔ محاسن کو اپنی بھابھی کی اس راز افشانی پر کچھ بے لطفی بھی محسوس ہوئی۔ اچھا تھا موصوف اسے تلاش کرتے۔ کچھ بےچین ہوتے۔
کھانے کا اعلان ہوا تو بےتاب روحیں ماحضر تناول کرنے کے لیے ٹوٹ پڑیں۔ محاسن نے البتہ تصاویر کھنچواتے ہوئے اسے اسٹیج پر دیکھا اور اسے لگا کہ شاید فرحان نے یک فلائنگ کس بھی اس کی جانب بلند کیا جس پر محاسن نے جھوٹ موٹ کی دور ہی سے اسے آنکھیں بھی دکھائیں اور ٹھینگا بھی۔ رضوانہ بھابھی گھسیٹ کر اس کے ابو کو ان کے انکار کے باوجود کھانے کی میز پر لے گئی اور محاسن کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ خود بھی کھالے اور جمیل انکل کے کھانے کا بھی خیال رکھے۔ اس کے ابو تو کھانے کو دوران کسی سے گفتگو میں مصروف ہو گئے مگر جب محاسن کسی دور کی ٹیبل پر کھانا لینے گئی تو اسے اپنی پشت پر سرگوشی کے انداز میں یہ جملہ سنائی دیا۔
‘‘کیا آج یہاں دو شادیاں ہیں؟’‘۔ یہ فرحان تھا۔
‘‘غور سے دیکھئے شادی بھی ایک ہے اور دلہن بھی ایک ہے ‘‘محاسن نے اپنی بڑی بڑی نگاہوں کو اس پر مرکوز کرتے ہوئے کہا۔ اسے لگا کہ دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے پر پسندیدگی سے جم کر رہ گئی ہیں۔ وہ کچھ ہڑ بڑائی بھی کہ کہیں یہ سب کچھ کوئی سن نہ لے، دیکھ نہ لے مگر انبوہ آوارگاں تو پیٹ کا ایندھن پلیٹوں میں جمع کرنے میں یوں مصروف تھا۔ دور تک انہیں کوئی دیکھنے اور سننے والا دکھائی نہ دیا جس سے اس کی جان میں جان آئی۔
‘‘شادی بھلے سے ایک ہو دلہنیں دو ہیں ‘‘فرحان نے اس کی طرف اپنی پلیٹ بڑھاتے ہوئے کہا۔ محاسن نے اس حرکت کو تقریباً نظر انداز کرتے ہوئے چوکے بغیر ا س کے پسندیدہ شاعر مصطفےٰ زیدی کی نظم کا ایک مصرعہ پڑھ ڈالا وہ کہےگی اپنی باتوں سے اور کس کس پر جال ڈالے ہیں۔
‘‘جس کا جواب اسے بھی اس ہی نظم کے دوسرے مصرعے کی صورت میں مل گیا کہع عشق میں اے مبصرین کرام، یہی ٹیکنیک کام آتی ہے اور یہ ہی لے کر ڈوب جاتی ہے۔ (مصطفٰے زیدی کی نظم فرہاد۔۔۔کوہ ندا)
‘‘ تو آج حضرت کا ڈوبنے کا موڈ ہے؟’‘۔ محاسن نے اس کی پلیٹ میں تھوڑی سی بریانی اور ایک کباب رکھتے ہوئے کہا۔
‘‘اکیلے نہیں‘‘ وہ بھی کب باز رہنے والا تھا۔
‘‘ڈھونڈ لیجئے مسٹر جارج کلونی یا مسٹر وی ٹو کورلونی( امریکن فلم گاڈ فاد ر میں مارلن برانڈو کے کردار کا نام) آج تو یہاں بہت شکار ہے’‘محاسن نے بریانی کا ایک چھوٹا سا نوالہ منھ میں رکھتے ہوئے کہا۔
‘‘شیر بھوکا مرجاتا ہے مگر گھاس نہیں کھاتا۔’‘ اس نے پسندیدگی کی ایک اور بھرپور نگاہ ڈالتے ہوئے جب یہ جملہ کہا تو محاسن کی بےاختیار ہنسی کچھ اس انداز میں چھوٹی کہ بریانی کے کئی دانے سیدھے اس کی قمیص اور کوٹ پر چپک گئے۔ وہ اس بات سے بہت ہی خفت محسوس کرنے لگی اور معافی مانگی تو اس نے کہا کہ نہیں اس کا جرمانہ دینا ہوگا۔
‘‘ Any laundary of your choice sir’‘( آپ کی پسند کی کوئی بھی لانڈری) محاسن نے پیشکش کی۔
No washing of dirty linen in public. My place tonight and a few drinks ,lot of music and some heart to heart talk. I know you have been very distressed lately ( ہم اپنے گندے کپڑے سب کے سامنے نہیں دھوتے۔ آپ میرے ہاں آئیں گی۔ ابھی اور اس وقت، کچھ پینا پلانا، بہت سا میوزک، کچھ دل سے دل کی بات۔ مجھے علم ہے کہ آپ کچھ دنوں سے بہت رنجور ہیں) آپ کو میرے بارے میں اتنا سوچنے کی اجازت کس نے دی ہے؟ محاسن نے اس کے مشاہدے کا توڑ کرنے کے لیے ایک عجب جارحانہ انداز اختیار کیا۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا اس کا بھائی وقاص وہاں آ گیا اور فرحان کو اپنے ابو کے پاس کسی سے ملانے لے گیا۔ مرد کا دھندہ پانی بھی دعوتوں میں چلتا رہتا ہے۔ اس دوران ایک دو اور خواتین آ گئیں اور محاسن ان سے بات چیت میں لگ گئی۔ جب اس کی نگاہ تیزی سے اپنی جانب واپس آتے ہوئے فرحان پر پڑی تو وہ ان سے علیحدہ ہوکر خود بھی اس کی طرف چلنے لگی۔ اس نے محاسن کو تقریباً حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ کار لےکر دروازے پر آ رہا ہے۔ وہ بھی اپنے ابو کے ساتھ بہانہ کرکے بیٹھ جائے وہ اس کے ابو کو گھر پر اتار کر اسے اپنے گھر لے جائےگا۔ اس معلوم ہے آج رات اس کا میاں عنادل شہر سے باہر گیا ہے لہذا اسے تردد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
محاسن کو وہاں سے رخصت کی اجازت ملنے میں بہت رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ عنادل کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس کے پاس یوں دلہن کی رخصتی سے پہلے جلد چلے جانا اس کی بھابھی کو بھی کچھ اچھا نہ لگا۔ وہ تو خیر ہو فروزاں کی جس نے انہیں سمجھایا کہ عنادل سے ناچاقی کی وجہ سے محاسن کا سب کو چھوڑ کر یوں چلے جانا موڈ کی خرابی اور گھر اکیلا ہونے کی وجہ سے ہے۔
جب وہ کار میں پچھلی سیٹ پر بیٹھی تو اس نے نوٹ کیا کہ فرحان نے رئیر ویو مرر کا رخ اس کے چہرے پر مرکوز کر دیا تھا۔ اسے بہت الجھن ہوئی کہ وہ سارا راستہ اس کی پچھلے کئی دنوں سے طاری اداسی کا اور عنادل کے نہ آنے سے اس پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیتا رہےگا۔ شادی کے مقام سے ابو کے گھر تک وہ بہت خاموشی سے کار کی کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے ابو کے ساتھ ان ہی کے گھر اتر جائےگی اور انہیں عنادل سے تعلق ختم کرنے کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کرےگی مگر پھر اس نے یہ سوچ کر کہ یہ فریضہ وہ فروزاں کو ہی انجام دینے دے تو بہتر ہوگا۔ فروزاں کو جمیل سیٹھ کے موڈز اور موقع کی مناسبت کا شریک حیات ہونے کی وجہ سے اس سے بہتر اندازہ رہتا ہے۔
ابو کا گھر آیا تو ان کے اترتے وقت اس نے کمال چالاکی سے انہیں باور کرایا کہ وہ محاس کو جاتے جاتے اس کے گھر اتار دےگا۔ اک بارگی محاسن کے دل میں آئی کہ وہ بھی اپنے ابو کے ساتھ کار سے اتر جائے مگر جب فرحان اگلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اس کے لیے منتظر کھڑا رہا تو وہ یہ سوچ کر بھی کہ اس نے اتنی ضد اور اشتیاق سے اس کو ساتھ لے جانے کی ضد کی ہے لہذا وہ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ کر واپس آ جائےگی۔ اس سے بات چیت کرکے ممکن ہے اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے اور وہ عنادل کے بارے میں کسی درست فیصلہ پر پہنچ جائے۔ کچھ دور جاکر گلی کے موڑ پر فرحان کا اشارہ پاکر وہ پچھلی سیٹ سے اتری اور وہ چپ چاپ ڈرایؤر سیٹ کے برابر اپنی ساڑھی احتیاط سے سمیٹ کر بیٹھنے لگی۔ دروازہ بھی خود ہی بند کرنے کی کوشش کی تو فرحان نے اس کی ساڑھی کا پلو جو باہر لٹک رہا تھا ایک چاؤ سے تھام کر اس کی گود میں رکھ دیا۔
دوران سفر سارا راستہ فرحان اس کے ہاتھ تھامے اس کی انگلیوں سے کھیلتا رہا اور وہ یہ سوچتی رہی کہ آج رات اگر اسے عنادل دیکھ لیتا تو کیا وہ اپنی پرانی روش ترک کرکے اس سے ٹوٹ کر پیار کرتا۔ اسے یاد آیا کہ وہ اپنی شب عروسی کو بھی کچھ کم حسین نہیں لگ رہی تھی اور اس کے بعد بھی ایسی کئی راتیں آئیں جس میں اس کا حسن اور سجاوٹ دیکھ کر تو کچھ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سرک کر اس پر والہانہ انداز میں جھک جاتے۔ اسے گہری گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر ایک آدھ مرتبہ فرحان نے پوچھا بھی مگر وہ طرح دے گئی اور کہنے لگی کہ ‘‘اسے سن ساٹھ کی دہائی کی ایک فلم بہو بیگم کی وہ غزل ع دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں۔۔۔ مشکل ہو عرض حال تو ہم کیا جواب دیں۔ اس نے اپنی کار روک کر اپنے ایم پی پلئیر پر کہیں سے ڈھونڈ کر لگا دی۔’‘
غزل ختم ہوئی تو محاسن نے بہت دبے لفظوں میں اس سے پوچھا کہ ‘‘اس کا یوں رات کو فرحان کے گھر اکیلے آنا ٹھیک ہے؟’‘
‘‘اکیلی تو وہ کئی دفعہ آئی ہے اس لیے اس کا اعتراض وقت پر ہے تنہا آنے پر نہیں’‘۔ فرحان نے اس پر اپنی نگاہیں مرکوز کرتے ہوئے کہا۔
‘‘ چوکیدار بابا غلام رسول کیا سوچےگا؟ ‘‘محاسن نے ہلکے سے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔
‘‘ڈونٹ وری سائیڈ والی کھڑکی پر بلائنڈ لگا ہے۔ وہ کار کچن کے دروازے سے لگا دےگا اور چوکیدار بابا غلام رسول کو وہ لان کے دوسری طرف رکھی پانی کی مشین چلانے بھیج دےگا۔ وہ خاموشی سے کار سے اتر کر کچن کے راستے گھر کے اندر چلی جائے۔ واپسی پر بھی یہی انتظام کر لیں گے’‘۔ فرحان نے اسے تسلی دی۔
‘‘لگتا ہے یہ سب کچھ مجھے وہاں دیکھ کر ٹھان لیا تھا تم نے فرحان؟!‘‘ محاسن نے اسے جتلایا۔
‘‘ایکزیٹ لی۔’‘ اس نے بھی شرارت سے جواب دیا۔
کار کے بنگلے کا دروازہ کھلتے ہی دو عدد بڑے سے کتے جن میں ایک تو ڈوبر مین تھا اور دوسرا ایک روٹ وائلر کار کی جانب لپکے۔ ‘‘ا یزی برونو، ایزی ڈوبی‘‘ فرحان نے انہیں پیار کرتے ہوئے آہستہ سے کہا ‘‘مائی ڈیئر کریو ٹیک یور اسٹیشنز وی آر ریڈی فار ٹیک آف’‘۔۔۔۔ اس کا یہ حکم سنتے ہی دونوں کتے دو مختلف سمتوں میں چل پڑے۔اس دوران ایک ہلکی سی بھونکنے کی آواز محاسن نے گھر کے اندر بھی سنی۔
دروازہ کھول کرجب وہ داخل ہوئی تو اس کا استقبال ایک کتیا نے کیا۔قریب تھا کہ وہ چیخ پڑتی فرحان بھی اندر آ گیا اور کہنے لگا ‘‘او مائی برگنڈی بےبی (فرانس کے علاقے برگین ڈی کے علاقے کی شراب کے نام سے منسوب ایک رنگ جو گہرا سرخ مگر قدرے سیاہی مائل ہوتا ہے)۔ بے بی یو ٹیک یور اسٹیشن۔ کوئیک۔ وی ہیو گیسٹ۔ آئی ڈڈ مس یو’‘۔ وہ کچھ دیر اور کبھی فرحان تو کبھی محاسن کے گرد سونگھ کر چکر لگاتی رہی اور پھر خاموشی سے دم ہلاتی ہوئی غائب ہو گئی۔
گھر کے اندر ایک دھواں دھواں سی خوشبو چار سو پھیلی تھی محاسن کو پتہ تھا کہ یہ خوشبو اعلیٰ قسم کے بخور کو جلانے سے سارے ماحول پر چھا جاتی ہے۔ اس نے پوچھا کہ اس نے ان تین کتوں کو یہ کیوں کہا کہ ‘‘مائی ڈیئر کریو ٹیک یور اسٹیشنز وی آر ریڈی فار ٹیک آف (میرے ساتھیو اپنی جگہ پر تشریف رکھو اب ہم پرواز کرنے والے ہیں) یہ تو ’’کپتان جہاز کو فضا میں بلند کرتے ہوئے اپنے کیبن کریو کو کہتا ہے۔’‘
اس نے بتایا کہ ڈوبی جو چھ ماہ کا روٹ وائلر ہے وہ تو بابا غلام رسول کے پاس جاکر بیٹھ جائےگا۔ رات بھر ایک خونخوار کیفیت اس پر طاری رہےگی اور وہ اس کا معاون بن کر چوکیداری کرےگا۔ برونو جو ڈوبرمین ہے لان کے ساتھ چھجے پر جا بیٹھےگا۔ اس سے بچ کر کسی کا اندر آنا ناممکن ہے۔ برگنڈی جو مادہ ڈوبرمین پنشر ہے وہ گھر کے مین دروازے کی کھڑکی پر جاکر بیٹھ جائےگی۔
محاسن کو لگا کہ فرحان کی ساری زندگی میں ایک ترتیب اور سلیقہ ہے کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ ہمت کرکے اپنے ابو کو اس سے شادی پر رضامند کر لیتی۔ اس کی امی اگر زندہ ہوتیں تو وہ عنادل کا رشتہ ہرگز منظور نہ کرتیں۔ یہ رشتہ اس کی منجھلی بھابھی نے جانے کہاں سے ڈھونڈ کر نکالا تھا۔ وہ کم بخت خود تو کہیں دفعہ ہو گئی مگر اس کی زندگی کو روگ لگا گئی۔
جب وہ خواب گاہ میں داخل ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس سفید کمرے میں ہر شے سفید رنگ کی تھی۔ فرنیچر، تصویوروں کے البم حتی کے میوزک سسٹم اور اسپیکر بھی سفید تھے جن کے اجلے پن کو گرے رنگ کے بارڈرز نے کمرے کے باقی ماحول سے ذرا جدا کر دیا تھا۔ کمرے میں اس رنگ کی کثرت کی وجہ سے ایک کشادگی اور ٹہراؤ کا احساس ہوتا تھا، اسے ایک ایسا بستر دکھائی دیا جس پر ایک قیمتی کھیس جس کا مجموعی تاثر نیلا اور سرخ آتا تھا۔ بچھا تھا۔ اس پر ایک بہت ہی نفیس سا کمفر ٹر بھی ایک سلیقے سے تہہ کیا رکھا تھا۔ بستر کے عین سامنے فرحان کی اسی سوٹ میں ایک قد آدم تصویر تھی اور بستر کے عین اوپر لٹکی دھیمی روشنیوں کے دو خوبصورت شیشے پر گہرے جامنی اور نیلے نیلے رنگ کے گلوبز کے درمیان سفید تختی جس کا بارڈر سنہرا تھا سیاہ حروف میں لکھا تھا ‘‘Wear cute pyjamas to your bed...You never know who
you'll meet in your dreams’‘
( بستر میں اپنے شب خوابی کا نفیس لباس پہن کر سویا کریں کیا خبر خوابوں میں آپ کی ملاقات کس سے ہو جائے)
اس عبارت کو پڑھ کر محاسن مسکرانے لگی۔
کمرے میں آن کر ا فرحان نے ایک ایسا سوئچ آن کیا جس کی وجہ سے میز پر رکھا ایک چوکور فریم اندر سے روشن ہوکر گھومنے لگا۔ اس میں چاروں طرف اس کی امی کی تصویریں لگی تھیں۔ وہ یقیناًکوئی مہارانی لگتی تھیں، جے پور کی مہارانی گیاتری دیوی جیسی سنجیدہ، حسین اور بنی سنوری۔ ابو اور بہنوں کی تصویریں راہ داری میں جو لاؤنج سے اس کے کمرے تک آتی تھی اس میں دونوں دیواروں پر آویزاں تھیں۔ اسی دوران اس نے سوئچ بند کر کے اوپر کا بکس ہٹایا تو محاسن کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اب جو چھوٹا بکس آہستہ آہستہ گھوم رہا تھا اس میں محاسن کی چار تصویریں لگی تھیں۔ ایک تصویر میں وہ دنیا و مافیا سے بےخبر اپنے دفتر میں بیٹھی کام کر رہی تھی۔ بال کھل کر کچھ چہرے پر بکھرے ہوئے تھے۔ دوپٹہ بھی پھسل کر کاندھے سے بانہوں تک آ گیا تھا۔ گورے سڈول عریاں بازو جو حضرت وارث شاہ کو بھی ہیر کا سراپا دوبارہ بیان کرنے پر اکساتے وہ بھی بہت اچھے لگ رہے تھے۔ سیاہ رنگ کے دوپٹے نے ان بازوؤں پر پھسل کر بلاوجہ ہی ایک دربان کا فریضہ سنبھال لیا تھا۔
اسے یہ خیال ہوا کہ یہ تصویر اس سے چھپ کر اتاری گئی ہے مگرجس میز پر وہ جھکی ہوئی تھی وہ فرحان کے کمرے کی تھی۔ دوسری تصویر بوٹانکل گارڈن کی تیسری چانگی ایرپورٹ کی ایک بڑی سی کاسمیٹکس کی دکان میں کھینچی گئی تھی جہاں وہ ہ اپنے لیے میک اپ دیکھ رہی تھی وہ ایک شوکیس پر بےدھیانی میں یوں جھکی ہوئی تھی کہ اس کے سیاہ ٹاپ کو جس کے کشادہ گلے سے جس کی وجہ سے پہنتے وقت اسے ہر وقت کچھ نہ کچھ شکایت رہتی تھی۔ گلے کی اس کشادگی کی وجہ سے اس کے تندرست گورے سینے کا بڑا حصہ باہر کی جانب امڈ پڑا تھا اس کا پینڈینٹ دونوں کی گولائی کی وجہ سے پیدا شدہ دباؤ سے بنی ہوئی ایک لکیر کے درمیان بری طرح جکڑا ہوا تھا۔ اس تصویر میں وہاں دکان میں نسب جا بجا مختلف آئینوں میں اس کے جلوے نے اس تصویر کو ایک گروپ کمپوزیشن کا روپ دے دیا تھا۔ یہ بھی بہت خوب صورت تصویر تھی۔ گردوپیش کے ماحول سے اہل انجمن سے بے نیار اپنی آگ میں جلتی کسی شمع کی تصویر۔ چوتھی سنگاپور کے ہوٹل کی لابی کی تھی۔ ریسپشن ڈیسک کی جانب پشت کیے وہ چھت کی جانب دیکھ رہی تھی۔ ان میں سے کوئی بھی تصویر اس نے واپسی پر نہ تو کبھی اسے دکھائی تھی نہ ان کا کوئی تذکرہ وہ کبھی اپنی زبان پر کبھی لایا تھا۔
‘‘تو جناب نے مجھے مکمل طور پر بدنام کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے؟’‘ محاسن نے اپنا رخ اس فریم سے بدل کر احتجاج اور مدھم سی ناراضگی کو اپنے لہجے میں سمیٹتے ہوئے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
‘‘نہ اس دل میں کوئی آپ کے علاوہ آتا جاتا ہے نہ اس کمرے میں کوئی آپ کے علاوہ آنے کی جسارت کر سکتا ہے۔’‘ اس نے یقین دلایا۔
مجھے دیکھنے دو کہیں ایسا تو نہیں ایک اور چھوٹا بکس اس فریم میں موجود ہو۔ محاسن نے جائزہ لینے کے لیے جب جھکی تو فرحان کو ساون کی راتوں کے دو تندرست چاند بلاؤز کے سرخ و سیاہ شب میں جھمکتے دکھائی دیے۔
‘‘نو انر بکس۔۔۔شیور’‘ (کوئی اندرونی خانہ تو نہیں) محاسن نے شرارت اور بےیقینی سے پوچھا۔
‘‘اگر کبھی ہوگا تو اس میں صرف آپ ہی کی نیوڈز ہوں گی‘‘۔ فرحان نے بھی اسی شوخی اور اعتماد سے جواب دیا۔
‘‘آگ لگا دوں دی گی تمہارے اس گھر کو اگر ایسا کبھی کیا تو’‘۔ محاسن نے اس کی اس شوخی کا لطف لیتے ہوئے دھمکی بھرے لہجے میں چیتاونی (وارننگ ) دی۔
‘‘پھر تو لوگوں کو یہ کن سیپٹ (تخئیل) با آسانی سمجھ میں آجائےگا کہ ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے’‘ فرحان نے سرگوشی کی ‘‘یو آر اے کلر مسٹر فرحان مسٹر وی ٹو کورلونی’‘ محاسن نے اس کے جواب سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا تو اس نے آگے بڑھ کر اسے بانہوں میں تھام لیا۔ پہلے اس کا ٹیکہ ہٹاکر اس کی پیشانی چومی پھر اپنی زبان کی نوک سے اس کی نتھنی کے نیچے اس کی ناک کو چھیڑنے لگا تو اسے اپنے ہونٹوں کی اوندھی محراب پر عجب سی گدگدی محسوس ہوئی اور وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور ‘‘چھوڑو مجھے‘‘ کہہ کر بانہوں سے اسے پرے دھکیلنے لگی۔
اس کی اس درخواست پر فرحان بہت آہستگی سے یہ کہتے ہوئے علیحدہ ہو گیا کہ ‘‘ Let me fix up few things for you while you listen to a medley of a thumri ‘‘ ( میں جب تک آپ کے لیے کچھ چیزوں کا بندوبست کروں تب تک آپ ایک ٹھمری کے ذخیرے سے لطف اندوز ہوں)
اس نے جب اپنے میوزک پلئیر کو آن کیا تو سب سے پہلے استاد عبدالکریم خانصاحب کی آواز میں راگ بھیرویں کی مشہور ٹھمری ع باجو بند کھل کھل جائے بخور کی خوشبو کی ہم رکاب ہوکر ماحول میں دھیمے دھیمے لہراتی فضا میں گونجنے لگی۔ شاید وقت کی مناسبت سے یہ ٹھمری ذرا جلد بج پڑی تھی۔جب تک وہ لوٹ کر آتا ٹھمری گانے والوں میں ریتا گنگولی کی باری آ چکی تھی۔ وہی ایک ٹھمری، وہی ایک جادو۔
اس دوران اس نے اپنے گھر کے مردوں کا موازنہ فرحان سے کیا۔ اس کے والد خالصتاً کاروباری مرد تھے۔ مہزب اور اوسط تعلیم کے حامل۔ بڑے دو بھائیوں میں بھی اسے کبھی کوئی ایسی بات نہ دکھائی دی جو انہیں اس قبیل کے دوسرے مردوں سے ممتاز کرتی۔ ولید تو جلد ہی امریکہ چلا گیا تھا۔ یہاں وہ کرکٹ کا دیوانہ تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ دولت ان کے گھرانے میں فروانی سے موجود ہے مگر وہ بات وہی وصف جسے کلاس کہتے ہیں ان کے ہاں سرے سے مفقود ہے۔ اس کے ہاں کے مرد دولت کا ڈھیر دیکھ کر خوش تو ہو سکتے ہیں مگر اس کے برتنے اور اس کا صحیح استعمال کا انہیں کوئی ادراک نہیں۔اپنے دونوں بھائیوں اور باپ کے گھر میں اسے آرام اور سہولت کہ جملہ لوازمات تو موجود تھے مگر ذوق اور جمالیات نام کی کوئی چیز انہیں دور سے چھو کر بھی نہ گزری تھی۔ اسے اس حوالے سے اپنے گھرانے میں ایک عجیب سے اجاڑ اور بے لطفی کا احساس ہوا۔
اس کا اپنے میاں عنادل کو موسیقی کا بہت شوق تھا، سمفنیز اور آپیراز اور بیلٹ کا وہ دیوانہ تھا، کتابیں بھی پڑھتا تھا مگر کرائم فکشن، آؤٹ ڈور کا بھی شوقین تھا مگر اس کی ساری پک نکس اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتیں جن میں شاید ہی کوئی عورت دکھائی دیتی۔ ایک دفعہ البتہ اس نے کمرے کی کھڑکی سے کار میں کچھ عورتیں دیکھی تھیں جو اسے اتنی ہی غیرمعمولی لگیں جتنے اس کے مرد دوست تھے جو یا تو بہت نسوانیت بھرے ہوتے یا بہت رف، گھناؤنے اور تنو مند۔ سر شام پک نک پر روانہ ہوتے اس قافلے کو اس نے اپنے وارڈ روب والے انکشاف کے بعد اپنے کمرے کی کی کھڑکی سے دیکھا تھا۔ چونکہ وہ جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچنے والی تھی لہذا اس نے اس قافلے میں عنادل کی شمولیت اور ان کے ساتھ روانگی یکسر کو نظرانداز کیا مگر اسے لگا کہ یہ جو چار چھ عورتیں بھی ایک کار میں موجود تھیں وہ بھی ہم جنس پرستوں کا ہی ممکن ہے کوئی ٹولہ ہو۔بہت پہلے اس نے کسی سے سنا تھا کہ اب یہاں بڑے شہروں میں بھی اس طرح کے سب گروپس وجود پذیر ہو گئے ہیں۔
اپنے خیالات کے سمندر میں ریتا گنگولی کی گائی ہوئی اس ٹھمری کے تنکے کے سہارے بہتی محاسن نے کمرے میں ایک ٹرے اٹھائے فرحان کو داخل ہوتا دیکھا۔ اس کی ساڑھی کی رنگ کی ٹی شرٹ اور گرے رنگ کی سویٹ پینٹ پہنے ہوئے وہ اپنی عمر سے کئی برس کم دکھائی دے رہا تھا۔ اپنا سوٹ اس نے اتار دیا تھا۔ اس نے کبھی اسے اس طرح کے لباس میں یوں اپنے مسکیولر بدن کا اظہار کرتے ہوئے نہ دیکھا تھا۔ وہ اسے بہت اچھا لگا۔ مردانگی کا ایک پیکر، اس پر مکمل توجہ کی بارش برساتا ہوا ایک آوارہ بادل جو اس کی زندگی کے سلگتے صحرا میں جانے کہاں سے اتنے لدے پھندے مون سون سے اس کے وجود میں لذتوں اور پیار کی روئیدگی پیدا کرنے چلا آیا تھا۔
وہ ٹرے جو اس نے دونوں ہاتھوں میں تھامی تھی اس ٹرے میں دو تین پیالیوں میں تو مختلف خشک میوہ جات تھے۔ کیلی فورنیا کے بڑے سالٹڈ بادام، بھونے ہوئے کاجو، لبا لب بھرے پستۂ خنداں: ایک طشتری میں تین چار تازہ تیار کی ہوئیں شوشی رائس کیوبز اور مہکتا ہو ا سی ویڈ جس سلاد جسے ہلکے چاول کے سرکے، سویا ساس اور سرسوں کے بیجوں سے تڑکا دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی برف کی چھوٹی سی چمکتی بالٹی اور ایک جگمگاتا چھوٹا سا چمٹا بھی رکھا تھا۔ دو عدد جام بھی خالی رکھے تھے۔ اس ساتھ کی میز پر جمانے کے بعد وہ اٹھا اور ایک شیلف کھول کر اس نے ہی بیکی کی جاپانی سنتوری وہسکی نکالی جس کی عمر اس کے لیبل پر نمایاں طور پر اکیس برس درج تھی۔ اسے یاد آیا کہ یہ وہسکی اسی کا بھائی ٹوکیو سے واپسی پر لایا تھا اور اسی نے ایک تھیلی میں ڈال کر محاسن کو فرحان کو دینے کے لیے کہا تھا۔ دفتر آتے ہوئے اس نے تھیلی کو کھول کر دیکھا۔ وہ اس بات کو نوٹ کرکے مسکرائی کہ وہسکی کے ڈبے کا رنگ بھی اس کی ساڑھی اور فرحان کی ٹی شرٹ سے بڑی حد تک ملتا جلتا تھا۔
گلاس میں وہسکی ڈال کر جب جام ٹکر ا کر ٹوسٹ کرنے کی باری آئی تو اسی نے کہا ‘‘ٹو نائٹ یور بیوٹی ونز دی ہرٹ’‘ جس پر محاسن نے بھی گردن جھکاکر بہت شرماتے ہوئے کہا کہ ‘‘ٹو نائٹ فو ر دی نیور اینڈنگ لو’‘۔ پہلا گھونٹ پی کر اس کی طبیعت میں جولانی آئی تو محاسن نے بہت آہستگی سے اپنے کرسٹن لوبوٹن کے سینڈل اتار کر پیر صوفے کے سامنے فٹ ریسٹ پر رکھ دیے۔ وہ کچھ دیر ان پیروں سے کھیلتا رہا، کبھی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی میں پڑے چھلے کو آہستہ آہستہ گھماتا اور کبھی اس کے تلووں کا نرم نرم دباؤ سے مساج کرتا۔
اس دوران جب اس نے دونوں کے لیے دوسرا جام بھرا تو وہ سفید فٹ ریسٹ جس پر اس نے پیر جمائے ہوئے تھے اسے ایک سلیقے سے پرے کرکے اس کے قدموں میں آن کر بیٹھ گیا۔ جس پر محاسن نے اسے حکم دیا:
‘‘جاؤ اپنی جگہ پر سامنے جاکر بیٹھ جاؤ’‘
‘‘وہاں اکیلا بیٹھ کر میں کیا کروں؟’‘
‘‘بس مجھے دیکھو۔وہ مجھے کبھی نظر بھر کے نہیں دیکھتا۔’‘
‘‘وہ کون؟’‘
‘‘عنادل۔’‘
‘‘میں تو تمہیں اس وقت بھی چار سو اپنے اردگرد دیکھتا ہوں جب تم مجھ سے دور، اپنے گھر ہوتی ہو۔’‘
‘‘فی الحال تو میں موجود ہوں، بس مجھے جی بھر کے دیکھو۔’‘
‘‘اتنی دور سے؟’‘
‘‘ہمارے پیار میں فاصلوں کی بہت اہمیت ہے۔’‘
‘‘فاصلے تو تم سے عنادل نے برتے ہیں اور تم اس کی سزا مجھے دے رہی ہو۔’‘
‘‘دیکھو مجھے مینٹلی ہراساں مت کرو۔ میں آج بہت ویک ہوں۔’‘
اپنا جام تھامے، لطف کے سنگھاسن (تخت) پر مہارانی بنی، حسن دل فریب کے جس کا رنگ روپہلا اور روپ رسیلا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی چنگاری ہنس کے دھیمے دھیمے اپنی آگ سے شوق نظارہ میں اچھل رہی ہو۔ فرحان کو پتہ ہی نہ چل پا رہا تھا۔ وہ ہلکی ہلکی مستی بھری نگاہ اس پر ڈالتا رہا۔ اس نے سوچا کہ یہ چنگاری دل پر کب گرتی ہے اور کب چپ چاپ رخصت ہوتی ہے یہ دنیا کو کیا پتہ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے نوٹ کیے کہ پسینے کے کچھ شریر قطرے محاسن کے بھرے بھرے پیار کے پاکٹ ایڈیشن جیسے ہونٹوں کے اوپر اور ٹھوڑی پر ویسے ہی جمع ہو گئے ہیں جیسے جام کی بیرونی سطح پر ایئر کنڈیشنڈ اور شراب میں تیرتی برف کی کیوبز کی وجہ سے آبی بخارات موتیوں کی صورت میں جمع ہو گئے تھے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر میوزک سسٹم اس لیے آف کر دیا کہ اسے لگا کہ محاسن کی ہلکی ہلکی، اوں ’’اوں‘‘ ا س میں دب رہی تھی۔ یہ، اوں ’’اوں‘‘ اسے ایک ایسی عورت کی ماحو ل کی پیدا کردہ اچانک میسر آئی اس خود لذتی کا پر لطف احتجاج محسوس ہوئے۔ یہ وہ عورت تھی جو برسوں سے محبت اور اپنائے جانے کی ناآسودہ خواہش جو مجبوری حالات کی وجہ سے کھل کر رو بھی نہ پائی ہو۔۔۔ ورنہ کیا بات تھی جس بات نے اسے رونے نہ دیا۔ وہ انہیں آوازوں کے تعاقب میں بہت خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے قدموں میں اس کے پہلو پر سر رکھ کر بیٹھ گیا۔ فٹ ریسٹ پر اس کے پاؤں کی درمیانہ انگلی میں پھنسے چھلّے کو اتارنے کی کوشش کرنے لگا۔
محاسن نے تیسری جام کی فرمائش کی تو اس نے یہ کہہ کر اسے رد کر دیا کہ ‘‘ Too much, too soon in drinks never works well with the beginners’‘(بہت جلد، بہت زیادہ نئے پینے والوں کے حق میں مفید نہیں ہوتے)۔
‘‘ I am a desert. A scorching desert of love when it comes to being satiated’‘( جب بات سیراب ہونے کی ہو تو میں صحرا ہوں، پیار جھلستا صحرا)
آپ کی کچھ تصویریں لے لوں؟ فرحان نے اجازت مانگی نیوڈز؟ محاسن نے پوچھا یور ٹیک ( جو آپ کا دل چاہے) فرحان نے جواب دیا۔
‘‘ایک شرط پر کہ ہر تصویر مجھے دوگے میں فیصلہ کروں گی کہ کون سی تم رکھوگے۔ آپ کا ڈیجیٹل کیمرہ میں اپنے ساتھ لے جاؤں گی’‘۔
‘‘ You indeed are an oasis of consciousness when it comes to self-control ‘‘(آپ یقیناً خودآگہی کا ایک نخلستان ہیں جب خوداختیاری کا معاملہ ہو تو) فرحان نے اسے جتلایا۔
آئی ایم ریڈی بےبی محاسن نے اسے اجازت دی
چند تصویروں کو بعد جو اس نے مختلف انداز میں اپنے کیمرے میں محفوظ کیں تو کسی پروفیشنل ماڈل کی طرح پوز بناتے ہوئے جب اپنے پیر وں کو پھیلاکر انگڑائی کی محراب بنائی تو فرحان کو لگا کہ اس کا کیمرہ، دل نگاہیں سبھی سلگ اٹھے ہیں۔ اپنے بلاؤز کی آستین کی ڈوری کھولنے کے لیے ہاتھ بلند کیے تو فرحان نے اسے کہا ‘‘فریز ‘‘اور پیچھے جاکر اسے گردن پر اور کانوں پر بہت بوسے لیے کانوں کی لو کو ہونٹوں میں دبا کر جب وہ اپنے ہونٹ کاندھے پر لایا تو ڈوری کچھ تو محاسن نے کھول دی تھی کچھ دانتوں نے کھول دی وہ بےنیازی سے کھل کر آدھی کمر کی جانب تو آدھی سامنے کے رخ پر ڈھلک گئی۔ اس کی اطالوی کومیٹ برا کی کلیئر اسٹریپ کو ہٹا کر فرحان نے چومنا شروع کیا تو اس کی سابقہ ‘‘اوں اوں’‘ اب ایک ‘‘اوہو’‘ اور ہلکے سے سرگوشی کے انداز میں کہے گئے الفاظ ‘‘مائی فرو بے بی’‘ میں بدل گئے تھے۔ اسے ہوش اس وقت آیا جب فرحان کے دانت اس کے شانے پر بری طرح پیوست ہو گئے تھے۔ وہ ایک تڑپ سے علیحدہ ہوئی تو ساڑھی کا پلو اور بلاؤز کی ڈوری اور برا کی اسٹریپ سب پھسل کر اس کے بازو کے درمیان اس طرح آ گئے کہ سینے کا کچھ حصہ ڈھلکے بلاؤز سے باہر جھانکنے لگا۔ اس حالت میں فرحان نے اس کے کئی شاٹس کیمرے میں محفوظ کیے۔
وہ اپنی برا کو پھر سے اپنے شانے پر چڑھاکر، بلاؤز کی ڈوری کو باندھ کر اور پلو کو کاندھے پر چن کر آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر، اپنی نتھ، ٹیکا اور کردھانی اتار کر میز پر خود کو آئینے میں دیکھنے لگی تو فرحان نے اپنا آدھا جام اس کے ہونٹوں کے قریب کر دیا اور وارفتگی سے اسے چومنے لگا۔ قربتوں اور بوسوں کا یہ سلسلہ ایک سلیقے سے، اس کی پیہم سپردگی اور تعاون سے اس کے کانوں اور گردن سے پھیلتا پھیلتا شانوں سے نیچے اترتا ہوا اس ایک لمحے میں کچھ ایسا دراز ہوا کہ اسے یہ معلوم ہی نہ چلا کہ حلق سے شراب اور بدن سے کپڑے کب اترے۔ اب وہ یاد کرے تو صرف اتنا یاد پڑتا ہے کہ جس وقت دونو ں بدن مکمل برہنگی کے پیرائے میں پہلی دفعہ ایک ہو رہے تھے میز پر رکھے میوزک سسٹم پر تم آئے تو آیا مجھے یاد گلی میں آج چاند نکلا جانے کتنے دنوں کے بعد آج چاند نکلا والا گیت بج رہا تھا۔ اسے لگا کہ اس رات برسوں سے اس کے ترسے ہوئے دل اور بدن بھی رفاقت کی اس فروانی اور سہولت میں اس کے رقیب بن گئے اور دونوں نے فرحان کو خود سے پرے کرنے میں اس کا کوئی ذرہ بھر بھی ساتھ نہ دیا۔
صبح جب وہ اٹھی تو بستر سے فرحان غائب تھا۔ اسے ساتھ کے کمرے سے دھم دھم کی آواز آرہی تھی۔ صوفے پر اس کے لیے ململ کا ایک دھلا ہوا کرتا رکھا تھا۔ وہ ایک تولیہ اپنے بدن پر لپیٹ کر جب ساتھ کے کمرے میں گئی تو فرحان ٹریڈ مل پر دوڑ رہا تھا۔ اس کا بدن پسینے سے شرابور اور سینے پیٹ اور بازو کے مسلز نمایاں تھے۔ وہ ایک پیکر مردانگی لگ رہا تھا۔
رسمی حال احوال اور مسکراہٹوں کے تبادلے کے بعد وہ غسل کرنے چلی گئی۔ شاور کی گرم دھار جب محاسن کے بدن پر پڑی تو وہ دو متضاد خیالات کے کناروں پر کے درمیاں ایک ایسی کشتی کی مانند ڈولنے لگی جسے اس کے ملاح نے بیچ منجھدار میں چھوڑ دیا ہو۔
ایک خیال تو اس وقت یہ غالب تھا کہ یہ سب کچھ غلط ہوا۔ فرحان کو یہ سب کچھ نہیں کرنا تھا۔ اس میں وہ خود کو بھی برابر کا دوش دے رہی تھی۔ جس وقت یہ سب کچھ ہوا، وہ بدستور عنادل کی بیوی تھی۔ ہمیشہ کی اعلیٰ اخلاقی اقدار میں یقین رکھنے والی محاسن کو لگا کہ اس نے امانت میں بہت بڑی خیانت کی ہے۔ دوسرا خیال تھا کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہوا ہے یہ اس نے خود کو ایک جذبۂ انتقام کے ہاتھوں مجبور ہوکر فرحان کے حوالے کیا ہے۔ وہ بھی محبت اور جسمانی جذبات کی تسکین کی متلاشی تھی۔ وہ اپنے ابو سے بات کرکے فرحان سے شادی کر لےگی۔ یہ سب اسی کا تھا۔ اس نے وقت سے پہلے اگر اس کے بدن پر اپنا تسلط جتلایا ہے تو کیا برا کیا ہے۔ بعد میں بھی تو یہی سب کچھ ہونا تھا۔۔۔ عنادل نے اسے بڑے ظالمانہ طریقے سے انتہائی بھونڈے غیر فطری انداز میں نظرانداز بھی کیا ہے۔ اسے اپنی خواہشات جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں تھیں ان خوہشات کی تکمیل میں اسے دھوکا بھی دیا ہے۔
اسی دوران اسے غسل خانے کے دروازے پر ایک دستک سنائی دی اس کے ساتھ اسے فرحان کی آواز سنائی بھی دی۔ اس نے بات سننے کے لیے شاور بند کیا تو دروازہ بھی کھل گیا ہڑبڑاہٹ میں اس نے اپنا رخ دیوار کی جانب کیا تو فرحان نے شرارتی لہجے میں کہا کہ وہ کرتہ صوفے پر ہی چھوڑ آئی تھی۔ اس نے سراپا سامنے سے چھپانے کے لیے جب دیوار کا رخ کیا تو فرحان کو لگا کہ فرانس کے مشہور میوزیم لورے میں محبت اور حسن کی دیوی افروڈائٹ کا وہ مجسمہ جسے رومن وینس ڈی میلو کے نام سے یاد کرتے ہیں ایک ادا سے اپنے دور سے آئے ہوئے مداح سے شرما کر رخ بدل کر دوسری جانب ہو گیا ہے عین اسی لمحے اس نے دیکھا کہ محاسن کی کمر پر اور کاندھوں پر رات کی وحشتوں کے نشان موجود تھے ایسا ہی ایک بڑا سا نشان اسے اپنے بازو پر دکھائی دیا جو محاسن کی وارفتگی کی حسین نشانی تھی۔ ٹریڈ مل پر دوڑتے ہوئے اس نے کئی دفعہ اس نشان کو خود ہی چوم لیا تھا۔
محاسن نے یہ نشان اس کے بازو پر اس وقت ثبت کیا تھا جب وہ گہری نیند سو رہا تھا۔ وہ جب درد کی شدت سے تڑپ کر بیدار ہوا تو محاسن اس پر جھکی ہوئی تھی۔ اسے لگا کہ وہ نیند کے عالم میں اسے بہت دیر تک تکتی رہی۔ ان کے سر کے عین اوپر دو میں سے صرف روشنی کا ایک گلوب جل رہا تھا۔ ڈمر سے اس کی لائٹ بھی محاسن نے مدھم کر دی تھی۔ جیسا عموماً رات کی فلائیٹ میں کچھ بےخواب مسافر اپنی نشست پر کتاب پڑھنے یا کمپیوٹر پر کام کرنے کے لیے روشن کر لیتے ہیں تاکہ ہم سفر کی نیند مخل نہ ہو۔
ناشتے کی میز پر محاسن آئی تو کمر پر باندھے ہوئے ایک تولیے پر گیلے گیلے کرتے سے فرحان کو بے باکی اور اپنی قبولیت کی ایک منھ بولتی تصویر سامنے بیٹھی دکھائی دی۔ محاسن البتہ بہت چپ چپ اور کھوئی کھوئی تھی۔ ناشتے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ وہ گھر جانا چاہتی ہے۔ وہ دفتر جانے سے پہلے اسے گھر چھوڑ دے بالکل اسی انداز میں جیسے وہ یہاں چھپتی چھپاتی آئی تھی۔
۳
ناشتے کی میز پر محاسن آئی تو کمر پر باندھے ہوئے ایک تولیے پر گیلے گیلے کرتے سے فرحان کو بےباکی اور اپنی قبولیت کی ایک منھ بولتی تصویر سامنے بیٹھی دکھائی دی۔ محاسن البتہ بہت چپ چپ اور کھوئی کھوئی تھی۔ ناشتے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ وہ گھر جانا چاہتی ہے۔ وہ دفتر جانے سے پہلے اسے گھر چھوڑدے بالکل اسی انداز میں جیسے وہ یہاں چھپتی چھپاتی آئی تھی۔
گھر آن کر وہ سوگئی۔ تین گھنٹے بعد اٹھ کر جب وہ غسل کررہی تھی عنادل کمرے میں آیا اور سیدھا باتھ روم کا دروازہ کھول کر اسے بہت انہماک سے دیکھنے لگا۔ محاسن نے سوچا کل رات سے اب تک کے یہ عجیب لمحات ہیں۔اس کی عریانگی دو مردوں کی نگاہوں میں کھب کر رہ گئی تھی۔ وہ ہاتھ پھیلائے جب اسے سمیٹنے کو آگے بڑھا تو محاسن نے انتہائی غصے سے اسے جھڑکا کہ ’‘ڈونٹ یو ڈئیر’‘۔ وہ اس کی اس جھڑکی سے ڈر کر انہیں قدموں سے واپس پیچھے ہٹ گیا۔ کہنے لگا کہ اس کا باس آیا۔ محاسن کو اس نے درخواست کی کہ وہ تیار ہوکر نیچے ڈرائنگ روم میں آجائے۔ محاسن نے نیچے آکر خانساماں کو اس کے لیے چائے لانے کا کہا۔ باس بھی عنادل کا ہم عمر تھا۔کچھ دیر بعد وہ دونوں رخصت ہو گئے محاسن اس شش و پنج میں مبتلا رہی کہ وہ عنادل سے اپنی شادی ختم کرنے کے بارے میں براہ راست اپنے بھائی بھابھی سے بات کرے یا فروزاں کو پہلے اعتماد میں لے۔ وہ اپنے ابو کے گھر گئی تو خلاف توقع وہ گھر پر تھے۔ آج ان کے اینجائنا میں کچھ شدت تھی۔ فروزاں اور اس کا بھائی کچھ ہی دیر پہلے انہیں دل کے ڈاکٹر کو دکھا کر انہیں لائے تھے۔محاسن نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ اس موقعے پر اپنا روگ بیان کرنے بیٹھ جائے۔
جب اس کے ابو سو گئے تو فروزاں نے اس سے پوچھا کہ ‘‘وہ رات کہاں تھی۔ اس کے ابو نے اعلی الصبح اسے فون کرنے کو کہا تو اس کے فون پر گھنٹیاں تو بج رہی تھیں پر جواب نہیں مل رہا تھا۔ کیا وہ رات فرحان کے ساتھ تھی؟!’‘۔ اس لمحے محاسن کو خیال آیا کہ رات سے اس نے فرحان کے ساتھ کار میں بیٹھتے ہی اپنا فون سائلنٹ پر کرکے پرس میں رکھ دیا تھا اور اب تک اس کی خبر نہ لی تھی۔
اس نے بہانہ تراشا کہ چونکہ عنادل نہیں آیا تھا لہذا وہ پی پلاکر فون کا رنگر سائلنٹ پر رکھ کر سو گئی تھی۔ عنادل کے معاملے میں وہ اب کسی فیصلے پر پہنچنا چاہتی ہے۔ فرحان والی بات پر اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ ممکن تھا کہ کسی قسم کی کوئی وضاحت اس باب میں فروزاں کے شک کو مزید تقویت بخشتی۔ اپنے والد کی طبیعت کا پوچھتے ہوئے جب اس کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ ڈاکٹر نے انہیں ماحول کی تبدیلی کا کہا ہے تاکہ وہ بزنس کے جھمیلوں سے دور کہیں باہر چلے جائیں۔ دو دن اس فیصلے میں لگے کہ وہ اپنی سالی کے گھر ایبر ڈین، اسکاٹ لینڈ چلے جائیں۔ فروزاں بھی کبھی ملک سے باہر نہیں گئی تھی۔ جب ان کے روانہ ہونے کا دن آیا تو اس کے ابو نے اچانک ضد کی کہ محاسن بھی ساتھ چلے۔
دو دن سے محاسن نے فرحان سے نہ تو ملاقات کی نہ اس کے فون کا جواب دیا۔ جس دن اس کی روانگی تھی۔ فرحان شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ یوں بھی محاسن اسے اپنی روانگی کے بارے میں کچھ بتانے کے حق میں نہ تھی۔ اس کو اس بات سے یک گونہ راحت سی مل رہی تھی کہ اس رات کی حرکت پر اگر وہ کچھ فکر مند رہے، تو اچھا ہے۔ اسے واپسی پر کمپنی کے دفتر میں پتہ چلا کہ اسکاٹ لینڈ کے عازمین میں محاسن بھی شامل ہے۔ روانگی کے اس پروگرام کی پیشگی اطلاع محاسن کی جانب سے نہ ملنے کا اسے کچھ ملال ہوا۔
محاسن نے اس حوالے سے عنادل سے بھی کچھ بات نہ کی جب وہ صبح سویرے کی فلائیٹ پر روانہ ہونے کے لیے اپنا سامان اپنے بیڈ روم میں پیک کر رہی تھی۔ عنادل رات کو ڈرائیور کے ساتھ واپس آیا تو وہ بغیر دستک کمرے میں چلی آئی۔ خیال تھا کہ وہ اپنے اس سامان کے بارے میں اس سے سوال جواب کرےگی۔ عنادل نے قمیص اتاری ہوئی تھی اور پشت پر ناخنوں کے کھرچنے کے تازہ نشان تھے۔ عنادل سے اس نے جب ان کے بارے میں پوچھا تو وہ چپ ہو گیا۔ ایک خفت اور خوف جو ہر مجرم کے چہرے پر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے وقت ہوتا ہے، وہ اس کے چہرے پر بھی عیاں تھا۔ محاسن جو تقریباً عنادل کے برابر قد کی تھی بہت آہستگی سے اس کے قریب گئی اور صرف ایک جملہ کہا کہ ‘‘ So you faggot , you dirty bastard , you are with him’‘ (گالی! غلیظ حرامزادے تو تم اس کے زیر تصرف ہو) اس کے ساتھ ہی زناٹے سے اس نے کس کر ایک چانٹا اس کے منھ پر رسید کیا۔ اس نے وہ تمام بکس جو اس کے سامان سے خالی تھے ایک کرکے اس پر پھینکے اور ہر اس حرکت پر صرف ایک جملہ کہا کہ ‘‘ You dirty bastard . You wore all these for him. Shame on you! I am leaving you’‘ ( حرامزادے۔ یہ سب کچھ تم نے اس کے لیے پہنا۔ میں تمہیں چھوڑ کر جا رہی ہوں)۔
اس نے اپنی خالہ سے ایبر ڈین، اسکاٹ لینڈ میں جب عنادل کے حوالے سے بات کی تو ان کا مشورہ تھا کہ وہ وقاص کو اعتماد میں لے کر خلع کی درخواست عدالت میں دائر کرے لیکن اگر عنادل کو اسے طلاق دینے میں کوئی اعتراض نہ ہو تو اس بات پر خاموش علیحدگی ایک بہتر فیصلہ ہوگا۔
فروزاں اور اس کے ابو تو وہاں اسکاٹ لینڈ ہی میں قیام پذیر رہے مگر اس کے ابو نے محاسن کو یہ کہہ کر جلد ہی واپس پاکستان بھجوا دیا کہ وہ فرحان کے ساتھ گوانگ زو میں جو صنعتی نمائش منقعد ہو رہی ہے اس کا دورہ کرکے دیکھ لے کہ وہاں سے قدرتی آفات کے حوالے سے جو اب ملک میں کثرت سے آنے لگیں جس میں زلزلہ اور طوفان کے بعد کی تباہ کاریاں شامل ہیں وہاں ان آفات کی تباہ کاریوں کے اثرات زائل کرنے کے لیے امپورٹ کی خاطر کون سی مشینری منافع بخش ثابت ہوگی۔ اس نمائش میں انہیں اور فرحان کو جانا تھا۔اس سلسلے میں سب لوگوں سے بات چیت ہو چکی ہے مگر اب ان کی نمائندگی وہ کرےگی۔ گوانگ زو تک مختلف فلائٹیں جاتی ہیں مگر وہ خود ایک دفعہ ہانگ کانگ سے انٹر سٹی ٹرین میں سوار ہو کر گئے تھے۔ زمینی سفر طویل ہے یہی کوئی پندرہ گھنٹے کا مگر بہت پر لطف محسوس ہوتا ہے ان کی ٹرین سروس بھی بہت عمدہ ہے۔
چین کے سفر پر روانہ ہونے سے ہفتہ بھر پہلے فرحان نے اسے اپنی مادہ کتیا برگنڈی جو ڈوبر مین پنشر تھی تحفے میں دے دی۔ وہ محاسن کو بہت پسند تھی۔ وہ بتانے لگا کہ اس کتیا پر برونو اور ڈُوبی گھر کے دونوں نر کتوں میں اب کھینچا تانی ہونے لگی ہے۔ اس کے دو تین دوست بھی برگنڈی اس سے مانگتے ہیں۔ اس نے محاسن کو بتایا کہ چونکہ ایک ہفتہ کا عرصہ ایسا ہے کہ وہ اس کی عادات کے بارے میں اسے سمجھانے میں کامیاب رہےگا۔ نیا کتا جب گھر میں آتا ہے تو اسے ایڈجیسٹ کرنے میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ محاسن کا خیال تھا کہ عنادل کو اس پر اعتراض ہوگا مگر اس ایک ہفتے میں وہ گھر پر بہت ہی کم آیا وہ بھی اس کی غیر موجودگی میں۔ برگنڈی بھی اس ایک ہفتے میں اس گھر اور محاسن سے خاصی مانوس ہو گئی۔
اس سفر میں وہ فرحان کے بہت قریب آ گئی۔ عنادل سے طلاق لینے کا مشورہ اس نے بھی دیا۔ اس کی جنسی عادات کے حوالے سے فرحان کو یقین تھا کہ یہ بہت پختہ عادات ہیں۔ ان میں کسی طور تبدیلی ممکن نہیں بلکہ وقت کے ساتھ اس میں اور بھی خرابیاں آئیں گی۔ اس حوالے سے ان میں شادی کے عہد و پیماں بھی ہوئے۔ واپسی میں انہوں نے شنگھائی کی سیر بھی کی۔ محاسن کو لگا کہ اس نے ایک مرد کے حوالے سے جو بھی خواب دیکھے تھے ان کی واحد تعبیر اسے فرحان کے وجود میں دکھائی دی۔
جب وہ واپس آئی تو بھائی وقاص کا رویہ محاسن کے بارے میں خاصا جارحانہ تھا۔ بھابھی بھی سیدھے منھ اس سے بات نہیں کر رہی تھیں۔ وہ حیران تھی کہ اچانک یہ سب کیوں ہوا۔ فرحان بھی وقاص کے رویے سے بہت نالاں تھا۔ وقاص اس کی بات بات پر تحقیر کرتا تھا۔ چین سے واپسی کے پانچویں دن اسے فروزاں نے فون کیا کہ وہ فوراً ایبرڈین پہنچے اس کے ابو کی طبیعت بہت مضمحل ہے۔ وہ ان کے صحت کے حوالے سے خاصی پریشان ہے۔
چلنے سے پہلے اس نے عنادل سے طلاق کے بارے میں بات کی۔ اس نے طلاق کے باب میں اس کے سامنے دو شرائط رکھیں۔ ایک تو وہ تمام زیورات جو عنادل کی طرف کے ہیں۔ یہ ان کے خاندانی زیورات ہیں یہ سب اس کی پر نانی اور پر دادی سے انہیں کے گھرانے میں موجود رہے ہیں وہ واپس کر دےگی بشمول ان کے جوائنٹ اکاونٹ میں موجود رقم کے۔
محاسن کو لگا یہ بہت گھاٹے کا سودا ہے۔ جوائینٹ اکاونٹ میں کوئی دو کروڑ روپے موجود تھے۔ جس میں کچھ رقم اس کی اپنی بھی تھی۔۔۔ دوسرے وہ اس کی نجی زندگی کے بارے میں حلف لے کر یہ اقرار کرے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے و ہ انہیں کہیں بھی، کبھی بھی، کسی پر ظاہر نہیں کرےگی۔ اس خاموشی کے عوض وہ اپنا وہ گھر جس میں وہ دونوں شادی کے بعد سے قیام پذیر ہیں وہ اس کے نام کر دےگا۔ محاسن کو ان دونوں شرائط پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ اس وجہ سے اسے طلاق اور خیابان ہلال والا گھر دونوں بغیر کسی بد مزگی کے اور اطمینان سے مل گئے۔
ایبرڈین سے واپس آتے ہی اس کی زندگی میں دو بھونچال ایک دم آ گئے۔ پہلا بھونچال تو یہ آیا کہ اسے فروزاں نے بتایا کہ وہ فرحان کے ساتھ گوانگ زو کے چائنا ہوٹل کے سوئمنگ پول میں بکنی پہنے بوس و کنار میں مصروف تھی۔ یہ سب وقاص کو ای میل کے ذریعے کمپنی کے ایک ملازم ظہیر محمود نے بھیجی تھیں۔ مزید چھان بین پر اکاونٹنٹ نے وقاص بھائی کو سفری اخراجات کی جو فائل دی اس میں گوانگ زو اور شنگھائی میں صرف ایک کمرہ دونوں ہوٹلوں میں لیا گیا تھا اور وہ بھی فرحان کے نام پر۔اس نے یہ کیا نادانی کی۔ اس کے ابو کو فون پر یہ سب باتیں بتا دی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ دل گرفتہ ہیں۔
تین دن بعد جمیل سیٹھ کا انتقال ہو گیا۔ اپنی وفات سے پہلے انہوں نے محاسن کو معاف اس لیے کر دیا کہ عنادل کے بارے میں وہ گھر کے چوکیدار اور محاسن کی خالہ کی زبانی بہت کچھ جان چکے تھے۔خود فروزاں نے بھی انہیں سب کچھ بتا دیا تھا۔ انہیں محاسن کے اس سے طلاق لینے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔
محاسن کو یاد آیا کہ ظہیر محمود انہیں اس ہوٹل میں کئی دفعہ دکھائی دیا تھا۔ اسے فرحان نے کمپنی کی ملازمت سے ایک بڑے گھپلے کی وجہ سے جمیل سیٹھ کو بتاکر نکالا تھا۔وقاص اس فیصلے سے ناخوش تھا۔ وہ اسے ایک موقعہ اور دینا چاہتا تھا۔ اسے لگا کہ احمد سلمان نے ہی اپنے سیل فون سے یہ تصاویر کھینچ کر اس کے بھائی کو بھجوائی تھیں۔
واپسی پر دوسرے جس بھونچال نے اس کا استقبال کیا وہ یہ تھا کہ وقاص بھائی نے شدید بےعزتی کرکے فرحان کو کمپنی کی ملازمت سے فارغ کر دیا ہے اس بےعزتی میں یہ طعنہ بھی شامل تھا کہ وہ ایک ملازم کا بیٹا ہے لہذا اس نے ان کی بہن کو ورغلا کر نمک حرامی کا ثبوت دیا ہے۔ وہ ملازمت چھوڑ کر ملک سے کہیں باہر چلا گیا ہے۔
۳
چند دن بعد اسے فرحان کی ایک ای میل ملی جس میں جمیل سیٹھ کی وفات پر تعزیتی کلمات کے علاوہ یہ بھی درج تھا کہ ‘‘اسے ابوظہبی میں بہت اچھی ملازمت مل گئی ہے۔ کمپنی اس کے دوست کی ہے۔ جو کچھ ہوا وہ اس کی غلطی تھی۔ محاسن نے اسے دونوں جگہوں پر بالکل اسی طرح کمرے لینے کو کہا تھا جیسا انہوں نے ہانگ کانگ کے پینی انسویلا ہوٹل میں کیا تھا حالانکہ سالسبری روڈ پر واقع یہ ہوٹل ان دونوں ہوٹلوں سے جہاں انہوں نے گوانگ زو اور شنگھائی میں قیام کیا۔ ان سے وہ ایک مہنگا ہوٹل تھا۔ وہ کچھ بد احتیاط ہو گیا تھا اس کا خیال تھا کہ سفری اخراجات کے بل محاسن جب واپسی پر منظور کر دےگی تو وہ یہ فائل اپنے پاس رکھ کر تلف کر دےگا۔ واپسی پر تیزی سے بدلے ہوئے حالات نے دونوں کو مہلت نہ دی تو یہ بدمزگی ہوئی۔ وہ برگینڈی کا خیال رکھے۔ وہ اس کی نشانی ہے۔ زندگی میں ملنا بچھڑنا انسان کے اختیار سے زیادہ حالات کے بہاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ خط کے آخر میں ایک جان لیوا فقرہ یہ درج تھا کہ’‘ Everything, Everyone, Everywhere.....Ends’‘۔ محاسن اس ای میل کو پڑھ کر بہت دیر تک روتی رہی۔ اس نے تہیہ کیا کہ اب وہ کسی سے پیار نہیں کرےگی۔
اس بات کو اب دو سال ہوتے تھے۔ فروزاں سے اس نے اس دوران کئی دفعہ شادی کا کہا وہ اس کی ہم عمر تھی۔ وہ کب تک یہ پہاڑ جیسی زندگی یوں تنہا کاٹے گی۔ فروزاں کا جواب تھا کہ ‘‘ہم غلزئی ہیں نہ ہمارا دل کسی پر آتا ہے نہ ہمارا بدن ایک کے علاوہ کوئی دوسرا مرد دیکھتا ہے۔’‘
وقاص بھائی اور بھابھی اس کے حوالے سے بہت نارمل ہو گئے تھے۔ کمپنی میں اس کا خاصا اچھا رول ہو گیا تھا۔ گوانگ زو اور شنگھائی سے منگوائے ہوئے ڈی واٹرنگ پمپس اور ملبہ ہٹانے والی مشینری امپورٹ کرنے والی ایجنسی کی وہ مالک تھی۔ جس میں اس نے فروزاں کو بھی شامل کر لیا تھا۔
ہفتے اتوار کو وہ ایک دوست کی این جی او کے کام میں مدد کرتی تھی۔سمیرہ اس کی بچپن کی دوست تھی۔ شادی کے بعد لاہور چلی گئی تھی۔ وہاں سے طلاق اور ایک بیٹا ساتھ لائی جو اب چودہ برس کا تھا۔ ہمیشہ کی مالدار سمیرہ کو ضوریز نام کے نوجوان سے جو ایک بینڈ کا مالک تھا اس سے پیار ہوا تو اس سے شادی کر لی۔ عمر میں اس سے پورے آٹھ برس چھوٹا تھا۔
ایک دن وہ کسی دعوت کے سلسلے میں سمیرہ کے ہاں وقت سے بہت پہلے گئی تو اسے لگا کہ بیس مینٹ میں بہت شور تھا۔ وہ نیچے جب یہ منظر دیکھنے گئی تو سب بینڈ بجانے والے ایک نوجوا ن شیری جس کا پورا نام شہر یار مرزا تھا۔ اس بےچارے کو ڈانٹ رہے تھے کہ وہ آج گٹار بجاتے وقت لے اور سر کا خیال نہیں رکھ رہا۔ سفید کرتے پاجامے میں اسد امانت علی خان کا یہ ہم شکل وضاحت دے رہا تھا کہ اسے ان کے بینڈ میں شامل ہوئے بمشکل ایک ہفتہ ہوا ہے۔ اسے ان کے تال میل کو سمجھنے کا کچھ وقت ملنا چاہیے۔ یوں بھی وہ انفرادی کارکردگی سے جدا ہوکر پہلی دفعہ کسی بینڈ میں شامل ہوا ہے۔
وہ اپنا فون اور پرس وہاں لاؤنج میں چھوڑ سمیرہ کے پاس کچن میں گئی تو شیری بھی پیچھے پیچھے چائے اور سر درد کی گولی کا مطالبہ لے کر آ گیا۔ گولی کے لیے سمیرہ نے جب اپنے بیڈ روم میں محاسن کو بھیجا تو اسے وہاں کچھ دیر ہو گئی۔ واپسی پر اس نے شیری کو کہا کہ لگتا ہے’‘ یہ ساز اس کے لیے کچھ نیا ہے۔ یہ اس کا اوریجنل گٹار نہیں لگتا؟’‘
‘‘ساز بھی پرایا ہے، انداز بھی غیروں جیسا ہے مگر یہ سب کچھ ا پنوں کے لیے ہے۔’‘ شیری نے لہجے میں ایک بے اعتنائی سے مگر اس انداز سے اسے دیکھتے ہوئے جس میں اس کے لیے بڑی پسنددیدگی اور اپنائیت تھی جواب دیا۔ محاسن کو دور کہیں سے لگا کہ یہ سب کچھ فرحان نے اس کی طرف دیکھ کر کہا ہے۔ وہ بھی اسی کے انداز میں بات کرتا تھا۔ جس میں سننے والے کے لیے اپنا مطلب تلاش کرنے کی واضح رعایت موجود ہوتی تھی۔
‘‘ Interesting Answer’‘ سب سے کیا وہ ایسی ہی باتیں کرتا ہے؟ محاسن نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے جتلایا۔
‘‘وہم سے نازک اگر کوئی یقین ہو تو وہ ایسی ہی باتیں کرتا ہے۔’‘ شیری کے اس جملے نے محاسن کو بہت شدت سے فرحان کی یاد دلائی تو وہ موضوع بدلنے کے لیے اس سے پوچھ بیٹھی کہ ‘‘اس کی بات چیت اور اردو اتنی اچھی کیسے ہے؟’‘
وہ بتانے لگا کہ ‘‘اس کے ابو ایک ناکام شاعر ہیں۔ اس کی امی کی سر توڑ کوشش کے باوجود ان کا ہر ایک اسکرپٹ نسوانی موضوعات پر ڈرامے پیش کرنے والے ایک چینل نے ہمیشہ بے دردی سے ان کے جذبات کو کرچی کرچی کرتے ہوئے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا ہے۔ انچولی۔ فیڈرل بی ایریا کے جس گھر میں وہ رہتا ہے وہاں چوبیس گھنٹوں میں اردو ادب پر اتنی گفتگو ہوتی ہے جتنی انجمن ترقیء اردو کے سالانہ اجلاس میں نہیں ہوتی۔’‘
اس کی بات سن کر محاسن نے اپنے پرس سے سگریٹ نکالی اور لائٹر تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگی تو شیری نے جیب سے ماچس نکالی اور سگریٹ سلگادی۔ اس کی یہ خود اعتمادی، محاسن کو اس لیے بھی اچھی لگی کہ یہاں پاکستان میں تو کسی عورت کو سگریٹ پیتا دیکھ کر بڑے اچھے اچھے مرد حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔
‘‘وہ سگریٹ پیتا ہے کیا؟ ‘‘محاسن نے شہر یار مرزا سے پوچھا
جواب ملا ‘‘نہیں’‘۔
‘‘پھر ماچس کیوں رکھتے ہو؟‘‘ محاسن نے پوچھ لیا۔
‘‘کچھ لوگ سگریٹ رکھتے ہیں پر ماچس رکھنا بھول جاتے ہیں۔۔۔ شیری نے اس کو مزید یہ کہہ کر چونکا دیا کہ یہ کسی سے تعارف کا ایک اچھا ذریعہ بھی ہے۔ یوں بھی مجھے سڑک پر اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو گاڑیوں کو آگ لگانے میں بہت مزہ آتا ہے’‘۔ محاسن نے سوچا کہ یہ مکالمہ گاڑیوں کو آگ لگانے والی بات کو منہا کر کے کہیں سنا ہے۔ اسے یاد آیا کہ ہندوستانی فلم اجازت میں ویٹنگ روم میں ریکھا یہ جملہ نصیرالدین شاہ کو اس وقت کہتی ہے۔جب وہ سگریٹ منھ میں لگا کر ماچس تلاش کر رہا ہوتا ہے اور وہ اسے اپنے پرس سے ماچس نکال کر دیتی ہے۔ بطور ایک سابقہ بیوی کے اسے اپنے میاں کی ماچس کھو دینے والی عادت کا بخوبی علم ہوتا ہے۔
اس سے پہلے کہ یہ گفتگو مزید جاری رہتی اسے بیس مینٹ سے کوئی بلانے آ گیا۔ سمیرہ بھی کمرے میں آ گئی تھی۔ وہ چپ چاپ اس پر ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر سیڑھیاں اتر کر واپس اپنا گٹار بجانے پہنچ گیا۔
دعوت دل چسپ تھی۔ سمیرہ نے اپنی دو ایک پرانی دوستوں کو بلایا تھا۔ وہ متجسس تھیں کہ کم سن میاں کیسا ہوتا ہے۔ سمیرہ بتانے لگی کہ یہ جو ذرا کم عمر مرد ہوتے ہیں ان کے پیار میں شدت بھی بہت ہوتی ہے۔ عمر کے ایک قوس( Curve )پر آکر جسم بہت تعریف پسند ہو جاتا ہے۔ جسمانی رفاقت سے بہتر کوئی تعریف نہیں یا کوئی نیوڈز بنائے پینٹر ہو کہ فوٹو گرافر مگر فوٹو والا دھندہ ذرا رسکی ہے۔ جسم کا ایک معاملہ ایسا ہے کہ جسے عورت بہت سینت سینت کر سجا بناکر رکھتی ہے وہ فریب محبت کی وجہ سے اسی تاج محل کے روندے جانے پر خوش ہوتی ہے۔
یہ جو زور آور خان جی جیسے مرد ہوتے ہیں۔ جسمانی رفاقت میں عجلت اور وحشت بھی ہم عمر یا بڑی عمر کے مرد سے زیادہ ہوتی ہے یہ شہ زور توجہ کے بھی بہت طلب گار ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کے مرد کا ذکر کرتے ہوئے اس نے قدرے شرارت سے محاسن کی جانب دیکھا۔ وہ اس کے اکثر رازوں کی شریک تھی۔ فرحان سے محاسن کے تعلقات کا بھی اس سے کبھی ذکر ہوا تھا۔’‘ But a young lover or a young husband is a real fun .If you can handle his wild passions’‘ (لیکن ایک جواں سال عاشق یا شوہر بہر حال بڑا پر لطف ہوتا ہے اگر آپ کو اس کے جذبات سے کھیلنا آتا ہو) سمیرہ نے ٹیپ کا بند سنا کر گفتگو کچھ زنانہ موضوعات کی جانب موڑ دیا۔ دعوت کے اختتام پر گھر واپس آن کر محاسن نے وہسکی کا ایک پیگ بنایا اور سگریٹ سلگا کر اپنے ڈی وی ڈی پلیئر پر فلم لگا دی۔
رات وہ سونے سے پہلے جب تیسری مرتبہ ایک فلم ‘‘بی فو دا سن رائز‘‘ دیکھ کر فرحان سے اپنے پیار کا موازنہ کر رہی تھی اس کے فون پر میسج ٹون سنائی دی۔ یہ فلم وہ دیکھ کر اس فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کے بعد جو فلم بنی ‘‘یعنی بی فور دا سین سیٹ’‘ ا چھی تھی یا پہلے والی۔ نبیلہ کا خیال تھا کہ دوسری فلم بہت عمدہ تھی۔ اس تقابل کے پیچ و خم میں الجھی محاسن جس وقت دونوں فلموں کی خوبیوں اور کمزوریوں کا موازنہ کر رہی تھی اس کے فون پر میسج ٹون سنائی دی۔یہ فلم وہ دیکھ کر اس فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کے بعد جو فلم بنی ‘‘یعنی بی فور دا سین سیٹ’‘ ا چھی تھی یا پہلے والی۔ نبیلہ کا خیال تھا کہ دوسری فلم بہت عمدہ تھی۔ اس میں عورت کے اس عالمی المیے کہ ہر عورت اجڑتی اپنی پہلی محبت کے ہاتھوں ہی ہے اور ہرجگہ پیار کرنے والوں کے یکساں حالات کا بہت عمدگی سے جائزہ لیا ہے۔ محاسن کا خیال تھا کہ دوسری فلم بہت ’’Predictible‘‘ ہے۔ اس میں سنیما بہت کم ہے۔ اس میں ریڈیو ڈرامہ کی تو سب خوبیاں کہی جا سکتی ہیں مگر رومانس اور بےساختگی جو پہلی فلم میں وہ سرے سے اسی سیریز کی دوسری فلم میں مفقود ہے۔ اس کے سین جو کل چار پانچ ہی ہیں وہ غیر ضروری طور پر طویل ہیں۔
میسج ٹون پر اسے پہلے گمان ہوا کہ یہ کم بخت سیل کمپنیاں اور ٹیلی مارکیٹنگ کرنے والے بے وقت پیغامات بھیجتے رہتے ہیں۔ وہ فلم کے آخری سین میں خلل نہ آنے دے۔ پہلی فلم کے آخری سین میں یہ دونوں ٹرین پر سوار ہوتے وقت پانچ سال میں دوبارہ ملنے کا وعدہ کرتے کرتے چھ ماہ میں ملنے کا وعدہ کرتے ہیں اسی جگہ اسی اسٹیشن پر آسٹریا کے شہر ویانا میں۔ پہلی دفعہ اس سین کو دیکھ کر وہ بہت روئی تھی۔ کاش فرحان بھی اس سے کوئی ایسا وعدہ کرکے رخصت ہوتا تو کیسا اچھا ہوتا۔اس نے وہ سین روک کر جب میسج کا جائزہ لیا تو نمبر کی جگہ بھیجنے والے کے نام کے آگے وہی جیل بریک لکھا تھا۔ اسے اپنی یہ نمبر محفوظ کرنے والی پیش بندی اچھی لگی۔
پیغام رومن اردو میں تھا ‘‘اجنبی سی ہو مگر غیر نہیں لگتی ہو’‘
محاسن نے ایک لمحے کو سوچا کہ یا تو وہ اس نمبر پر کال کرے یا پیغام کو نظرانداز کرے مگر پھر جانے کیوں اس نے حقیقت کا کھوج لگانے کے لیے پوچھ لیا۔۔۔’‘۔ تو کیسی لگتی ہوں؟’‘
‘‘آنچ دیتی ہوئی برسات کی یاد آتی ہے’‘۔ بغیر کسی توقف کے جواب بھی آ گیا۔۔۔ محاسن نے اس پر پوچھ لیا کہ ‘‘مسٹر گٹارسٹ یہ پیغام کیوں دیا تھا۔ انچولی میں تو بڑا حسن دل فریب ہے۔ مجھے چھوڑو اور پڑوسیوں کا حق ادا کرو؟’‘
‘‘ایک حسین شام کو دل میرا کھو گیا۔’‘ سامنے سے وضاحت پیش کی گئی۔ محاسن کی نگاہیں اسکرین پر منجمد اس منظر پر جمی ہوئی تھیں جس میں ہیروئین سیلین آخری دفعہ ویانا کے اسٹیشن پر ہیرو جیسی کو چوم رہی ہوتی ہے۔ دل اس کا وہیں فرحان کی یادوں میں اور دماغ اس کم بخت شیری کے پیغام میں الجھا تھا۔ اس نے ریموٹ پر پلے کا بٹن دباکر شرارت کرتے ہوئے پوچھ لیا کہ ‘‘شام زیادہ حسین تھی یا میں؟’‘۔ حالانکہ اسے بخوبی علم تھا کہ وہ سیاہ چوڑی دار پاجامے۔ باریک کرنکل جارجٹ کے گہرے نیلے بغیر آستین کے گہرے نیلے کرتے میں، گلے میں سادہ سا سفائر کا نیکلیس پہنے وہ کوئی بہت اہتمام سے وہاں نہیں گئی تھی۔
‘‘وہ شام آپ کی وجہ سے حسین تھی’‘۔ جواب بھی جلد ہی آ گیا۔ اس نے شیری کو یہ مختصر سا حکم دیا کہ ‘‘کال می’‘ اس کا خیال تھا کہ فون آنے میں زیادہ تاخیر نہ ہوگی مگر جب تین منٹ سے زیادہ ہو گئے تو اس نے فلم کو دوبارہ چلا دیا۔ فلم کا ہیرو ‘‘جیسی’‘ اب اس بس میں سوار تھا جو اسے ائیر پورٹ جا رہی تھی۔ جدائی کے ان لمحات کی اداسی فلم کے اختتام پر آپ کو بری طرح جکڑ لیتی ہے گو اندر سے بھر جانے کا ایک عجیب احساس بھی متوازی طور پر جنم لیتا ہے۔ جب پہلی گھنٹی بجی تو سکرین پر فلم کے کریڈٹس کا ٹائٹل چل رہا تھا۔
فون پر بھی شیری اتنا ہی دل چسپ اور مہذب تھا جتنا روبرو تھا۔ اس نے محاسن کے پوچھنے پر بتایا کہ اس نے ایک جسارت اس سے پوچھے بغیر یہ کی تھی کہ اس کے فون سے اپنے فون پر کال کی تھی جس کی وجہ سے اس کا نمبر وہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ کیا وہ اسے اپنے سے پیار کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ محاسن نے کہا کہ جب اس نے اس کا فون استعمال کرنے کی اجازت طلب نہیں کی تو وہ اس سے پیار کرنے کی اجازت کیوں مانگ رہا ہے۔ وہ اس سے عمر میں بڑی ہے۔عشق کے لیے ساری عمر پڑی ہے بہتر ہوگا وہ اس کی عزت کرے اور اپنی تعلیم پر توجہ دے۔ یہ بینڈ باجا بارات امیر لڑکوں کے چونچلے ہیں۔ نبیلہ نے اسے بتایا ہے کہ اس کے ابو واٹر بورڈ میں ایک چھوٹے سے افسر ہیں۔ وہ پڑھ لکھ لے گا۔اچھی نوکری مل جائےگی تو زندگی میں اسے اپنی ہم عمر اور پسند کی لڑکی بھی مل جائے گی۔اسے پسند نہیں کہ کوئی مرد اسے میسج کرے یا فون پر رابطہ کرکے اس سے عشق جتائے۔ اب اگر اس نے یہ جسارت کی تو وہ یہ سب کچھ اس کے امی ابو کو نبیلہ سے اس کی تفصیلات لے کر بتائے دےگی۔ بعد میں جو کچھ ہو اس کے لیے اسے الزام نہ دیا جائے۔
فروزاں بھی اب فیز فور میں رہنے چلی گئی تھی۔ پشاور سے اس کی ایک بیوہ پھوپھی اس کا چھوٹا بیٹا، بیٹی اور خالہ خالو بھی ساتھ رہنے آ گئے۔
اس کا منجھلا بھائی منیب اپنی بیوی کو طلاق دے کر واپس آ گیا تھا۔ جائداد کے بٹوارے کی بات ہورہی تھی تو منیب نے مطالبہ کیا کہ اس کے ابو کا مکان اسے دے دیا جائے۔ بیوہ کا ترکے میں مکمل حصہ نہیں ہوتا۔ محاسن نے بالآ خر اپنا حصہ چھوڑ دیا اور یوں فروزاں کو اس رقم کے عوض فیز فور ڈیفینس میں ایک گھر خریدنے کا موقعہ مل گیا۔ بھلا ہو فرحان کا کہ ابتدائی دنوں میں جب یہ کمپنی رجسٹر ہوئی تو اس نے اسے محاسن کا حصہ ستر فیصد اور فروزاں کا تیس فیصد رکھا۔ بلکہ اسی کے مشورے سے اس کے ابو نے بلڈنگ میں دفتر بھی ایک علیحدہ سوئیٹ میں قائم کرکے بڑی دور اندیشی کا ثبوت دیا۔ محاسن کے دونوں بھایؤں وقاص اور منیب کو یوں اس کاروبار میں دخل اندازی کا موقعہ نہ مل پایا۔ فرحان کے بارے میں اس کے بھائی اور بھابی نے جو غیر ذمہ دارانہ رویہ رکھا تھا اور اس کے ابو کو ان کی بیماری کی حالت میں اس کے اور فرحان کے تعلقات بارے میں جن غیر ضروری تفصیلات سے آگاہ کیا تھا اس کے بعد وہ دونوں اس کے دل سے اتر گئے تھے۔ اس نے بھائی بھابھی اور منیب سے ملنا جلنا تو ترک نہ کیا مگر وہ بھی عنادل سے ملا ہوا گھر بیچ کر فیز ٹو کے ایک قدیم سے بنگلے میں منتقل ہو گئی۔
اس شفٹنگ میں جب وہ خیابان ہلال سے فیز ٹو کے ایک پرانے مگر کچھ چھوٹے سے بنگلے میں منتقل ہو رہی تھی۔ اس کی شیری اور طفیل خان نے بہت مدد کی۔ طفیل خان کو اب اس نے این جی او سے ملازمت چھڑواکر اپنے ہاں ملازم رکھ لیا تھا۔ اس شفٹنگ میں نہ تو کوئی بلب ٹوٹا نہ کوئی فریم، نہ ہی چھوٹی سی کوئی چیز ادھر سے ادھر ہوئی۔ رنگ روغن کھڑکیوں دروازوں کی تبدیلی بجلی کا کام اور پلمبنگ کی خدمات سب کے سب میں شہر یار مرزا اور طفیل خان نے اس کی بڑی مدد کی۔ گھر اس کے پرانے بنگلے سے چھوٹا ضرور تھا مگر اس کی سجاوٹ اور آرائش میں محاسن کی شخصیت کا پرتو نمایاں تھا۔ بیڈ روم تو اس نے پہلی منزل پر بنالیا البتہ اسٹڈی اس نے گیسٹ روم کے ساتھ ہی بنالی تھی۔ جس میں کہیں سے
شیری اس کے لیے ایک بےحد عمدہ سنگل صوفہ کسی سیل سے خرید لایا جس پر اس نے برگنڈی رنگ کا جرمن کاف لیدر بھی چڑھاوا لیا اور ساتھ ہی ایک عمدہ سے سنگل بیڈ بھی رکھ لیا۔
طفیل خان کو اس نے ایک دن کچن میں جب پستول سے گولیاں نکال کر دراز میں رکھتے دیکھا تو اس نے شیری کو اس کے بارے میں بتایا۔ جس پر وہ کہنے لگا کہ یہ ‘‘جو خیبر پختون خواہ کے لوگ ہوتے ہیں ان کی دو باتوں کے بغیر گزارا نہیں یعنی ہتھیار اور ایمان’‘۔ جس پر وہ شوخی سے کہنے لگی ‘‘ اور تم انچولی والوں کا؟ ‘‘
‘‘ہم ہیں راہی پیار کے ہم سے کچھ نہ بولیے۔’‘ شیری نے بھی ترنت اسی شوخی سے جواب دیا۔
دفتر سے فارغ ہوکر وہ سیدھی جم جاتی اور پھر کبھی کبھار کسی دعوت میں چلی جاتی مگر پھر بھی شام کو خاصی تنہائی رہتی تھی۔ ایک عورت کے اکیلے دل کی اداسی کو نہ کوئی مرد سمجھ سکتا ہے نہ کوئی عورت۔ اس نے اپنا فون نمبر بھی تبدیل کر لیا تھا کہ اس کا پرانافون چوری ہو گیا تھا اور ای میل اکاؤنٹ ہیک ہو جانے کی وجہ سے اپنا ذاتی ای میل ایڈریس بھی بدل گیا تھا۔ اس کی نسوانی انا نے اسے روکے رکھا کہ وہ ان تبدیلیوں کی اطلاع فرحان کو دیتی۔ شیری ایک ذہین اور باسلیقہ نوجوان تھا۔ محاسن کا خیال تھا کہ وہ جلد سمجھ جائےگا کہ سامنے والی بی بی کو اس سے کام لینے میں تو مزا آتا ہے مگر عشق کے کسی سفر پر وہ اس کا ساتھ قبول کرنے پر رضامند نہیں۔ اسے لگا کہ اس سرد مہری کی وجہ سے شیری کی دل چسپی اس میں معدوم ہو جائےگی اور وہ جلد ہی رفو چکر ہو جائےگا۔ پرندے بے برگ درختوں میں گھونسلے کہاں بناتے ہیں۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ شیری کو اپنی اگنور لسٹ پر ہی رکھےگی۔ اس دوران نہ تو اس نے کبھی اسے گھر بلایا نہ ہی اس کے فون کا وہ جواب دیتی تھی کبھی کبھار اس کا اگر کوئی ٹیکسٹ میسج اسے اچھا لگتا تو وہ بھی دو تین پیغامات دے کر کچھ دنوں تک ناغہ کر لیتی تھی۔ کاروباری مصروفیات کے دوران بھی اسے کئی مرتبہ ایسے مردوں سے سابقہ پڑتا تو جو کاروباری تعلقات کو نجی حیثیت دینا چاہتے تھے۔ فرحان چلا گیا تو اس کو کوئی مرد اچھا نہ لگا، سب ہی بے وفا ہوتے ہیں سب ہی اپنے اپنے راز چھپاتے ہیں۔ سب کی انا پیار پر حاوی ہوتی ہے۔ ایسی جنس خود پسند سے کیا پیار کرنا۔ ایک دن اسے شیری کا میسج ملا تو اسے لگا کہ اس میں بےتکلفی اور بےہودگی بہت ہے۔ اس نے فون کرکے اس کو بہت ڈانٹا۔ جس کی وجہ سے وہ کافی دن تک سین سے غائب رہا۔
وہ بھی سمجھ گئی کہ ایک ڈانٹ کے بعد شیری کے ہوش ٹھکانے آ گئے ہیں مگر ایک دن جب وہ جم سے واپس آئی تو اسے اپنے فون پر اس کا یک میسج ملا۔ یہ میسج اپنی سادگی کے باوجود دل کو بہت برمانے والا تھا۔ اس نے لکھا تھا۔’‘ ‘‘Wait for the boy that would do anything to be your everything’‘
وہ شاور کے دوران اس کے لطف بیاں کا جواب اپنے خوبصورت بدن پر گرتے ہوئے قطروں کی صورت میں تلاش کرتی رہی۔ اسے بہت دن پہلے کیٹ ونسلیٹ کی فلم ‘‘دی ریڈر‘‘ یاد آئی جس کی تیس بتیس سال کی ہیروئن ہنا شمڈٹ (کیٹ ونسلیٹ) بھی اپنی زندگی میں ایک پندرہ سالہ لڑکے مائیکل کو شامل کرکے اس کے بہت قریب آ جاتی ہے۔اس نے بہتے پانی کی اس دھار میں اپنی سابقہ احتیاط کو پس پشت ڈالا اور سوچا کہ وہ بھی جائزہ لے کہ یہ محترم شیری آخر اس سے کس قسم کے پیار کے متلاشی ہیں۔
ایک دن وہی نبیلہ والا سہیلیوں کا گروپ محاسن کے گھر اچانک بنے ہوئے پروگرام کی وجہ سے مدعو تھا۔ محاسن کا خیال تھا کہ طفیل خان جو ایک شام پہلے سے اپنی بہن کے گھر اس کی زچگی کی کسی ایمرجینسی میں گیا تھا وہ واپس آ جائےگا۔ وہ نہ آیا تو محاسن نے شیری کو بلوا لیا۔ ان سہیلوں کی مرضی پینے پلانے کی بھی تھی۔
یوں تو شراب کا بندوبست عام طورپر نبیلہ کا ہوتا تھا مگر اس کا بوٹ لیگر (شراب فراہم کرنے والا) کئی دنوں سے غائب تھا۔ کھانے اور شراب کا انتظام جب اس نے شیری کو سونپا تو اس نے یہ سب کچھ بڑے احسن طریقے پر سر انجام دیا مچھیروں کی بستی ابراہیم حیدری سے نہ صرف وہ بہت عمدہ جھینگوں کی بریانی اور تلی ہوئی پمفرے بنواکر لایا بلکہ بش مل کی سولہ سالہ قیمتی وہسکی کی چھ بوتلیں بھی وہ کم قیمت پر لے آیا۔ یہ شراب شہر میں یوں عام دستیاب نہ تھی۔
اس شام محاسن نے اولڈ نیوی کا فیروزی رنگ کا شانے پر باندھی گئی ڈوریوں والا ہالٹر اپنی پرانی اسٹریچ سکنی جینز کے ساتھ پہنا تھا۔ یہ ہالٹر کچھ پیٹ پر آکر رک گیا تھا جس سے اس کی ناف اور پورا دو انچ پیٹ بھی دکھائی دے رہا تھا۔ ورزشوں کا پالا ہوا جواں جسم غسل اور باڈی شاپ کے ونیلا سپائس شمر لوشن کی چمک سے جھلملا رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ شیری کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اسے چھیڑنے کے لیے اور طفیل کے بارے میں اس کے ردعمل کا جائزہ لینے کے لیے محاسن نے اسے کہا کہ وہ اسے جب پیار سے دیکھتا ہے تو طفیل خان کو بہت برا لگتا ہے۔ میں تمہیں ایک بات بتادوں یہ تمہارے دوست طفیل خان کی نگاہیں ہر وقت مجھی پر لگی رہتی ہیں۔میں کسی مرد سے بات کروں تو اسے اچھا نہیں لگتا۔ اگر سچ پوچھو تو جو میں نے نوٹ کیا ہے اسے میرا تم سے بھی بات کرنا ناپسند ہے۔ تم جب میرے ہاں آتے ہو تو یہ بہت بے چین ہو جاتا ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ وہ غصے میں آن کر ایک دن مجھ پر پستول تان لے۔ خیبر پختون خواہ کا جواں مرد ہے ہتھیار ہر وقت اپنے نیفے میں اڑسے رہتا ہے اور ایمان کا مجھے علم نہیں اور تم انچولی والے ’‘ہم ہیں راہی پیار کے ہم سے کچھ نہ بولیے۔’‘ گاتے رہ جاؤگے۔
شیری نے اس کی یہ بات سن کر کچھ دیر توقف کیا اور کہنے لگا ‘‘اگر ایسا ہوا تو ایک بوری اس دن خوشحال خان ایکسپریس کے ڈبے سے ملے گی جس میں گونگے پہلوان استاد طفیل خان کی لاش بند ہوگی۔’‘
‘‘ہائے تم بھی اتنے وائلنٹ ہو’‘۔ محاسن نے یہ بات سن کر اسے جتلایا۔
‘‘صرف تیرے معاملے میں بسنتی’‘۔ شیری شوخی میں آن کر کہا۔
محاسن نے اس سے یہ سن کر پوچھا کہ وہ اس سے کیوں پیار کرتا ہے۔ اپنی کسی ہم عمر لڑکی کو چاہےگا تو اس کو زیادہ مزہ آئےگا۔ شہر میں اس کی ہم عمر لڑکیاں آکسیجن کی طرح دستیاب ہیں۔ وہ تو اس سے پورے آٹھ سال بڑی ہے۔ عین اس وقت محاسن کچن میں اوپر کے شیلف سے خشک میوے کی تھیلیاں اتار رہی تھی اس نے دیکھا کہ شیری کی نگاہیں اس کی صاف شفاف بغلوں پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ شرما کر ایک طرف یہ کہہ ہو گئی کہ میرا ہاتھ نہیں پہنچ رہا۔ شیری نے جب اس کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس کے ہاتھ کی پشت محاسن کے برہنہ بازو کو چھوتی ہوئی سامان اتارنے کے لیے بلند ہوئی۔ محاسن کو اس لمس سے ایک عجیب سی گدگدی کا احساس ہوا۔ وہ کھلکھلاکر ہنس پڑی۔ اس کی اس ہنسی سے شیری کے حوصلوں کو کچھ جلا ملی۔ اس نے ایک شعر پڑھا کہ اس کی باتیں تو، پھول ہوں جیسے باقی باتیں، ببول ہوں جیسے ‘‘تمہارا یہ شعر تمہارے پیار پر میرے اعتراض کا جواب نہیں ‘‘۔ محاسن نے اسے چھیڑا۔
‘‘آپ کے اس اعتراض کا جواب میں دعوت کے اختتام پر جب سب چلے جائیں گے میں دوں گا’‘۔ شیری نے اسے ٹالا۔
‘‘نہیں ابھی دو، اسی وقت یہیں پر’‘۔ محاسن بچوں کی طرح مچل کر مطالبہ کرنے لگی۔
‘‘ایک شرط پر کہ اس بے صبری کا جرمانہ آپ نے دینا ہوگا’‘۔ شیری نے بھی جواب میں ایک مطالبہ داغنے کی سوچی۔
‘‘منظور مگر یہ جرمانہ شریفانہ ہوگا’‘۔ محاسن نے اپنی شرط اس کے سامنے رکھی۔
‘‘یہ سب میں آپ کے کان میں آپ کو گلے لگاکر کہوں گا’‘۔ شیری نے اسے ورغلایا۔
‘‘Just an innocent hug. Nothing more. Promise me.’‘محاسن نے اجاز تیتے ہوئے کہا۔
شیری نے جب اسے گلے لگانے کے لیے اپنی بانہیں پھیلائیں تو وہ بہت خاموشی سے ان میں سمٹ گئی۔اس کا جواں بدن جو فرحان کے ذائقوں کا آشنا اور اب دوسال سے کچھ اوپر اس کی فرقت کی آگ میں سلگ رہا تھا۔ اس کے گلے لگا تو لذتوں نے ایک امنگ بھری انگڑائی لی۔اس آغوش کی کوئی معیاد نہ تھی۔ بس پرانی خواہشوں نے ایک ایسا خواب دکھایا تھا کہ سر تو شیری کے کاندھے پر تھا اور یاد فرحان آ رہا تھا۔
یہ جو عورتیں ہوتی ہیں انہیں لمحات رفاقت میں بھی دھوبی کا حساب، ماسی کی تنخواہ، کسی دوست کی کوئی بات، کسی کی آواز اور کوئی بھولی بسری خوشبو بھی انہیں لمحات میں گھیر لیتی ہے۔جس وقت گیٹ کی گھنٹی بجی محاسن کو اتنا یاد ہے اس سے کچھ دیر پہلے اس کی گردن پر شیری کے ہونٹ کئی گرم بوسے چھوڑ چکے تھے۔ فرحان کے لمس کا آشنا اس کا بدن شیری کی آغوش میں بھی مزید وحشتوں کا تمنائی تھا۔ وہ جس وقت اس سے یہ پوچھ رہا تھا کہ ‘‘وہ وعدہ کرے کہ وہ اس کے دو راز کسی کو بیاں نہیں کرےگی’‘۔ اس وقت شیری اس کے کان کی لو کو دانتوں میں دبائے دھیمے دھیمے زبان سے چھیڑ رہا تھا۔ محاسن نے جواب میں ایک ہلکی سی ‘‘اہوں’‘ کی تو اس نے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ ایک راز تو یہ ہے کہ وہ بہت حسین ہے اور دوسرا راز یہ کہ وہ اسے بہت پسند ہے۔محاسن نے اس کی یہ بات سن کر صرف اتنا کہا ‘‘یو آر ویری ویلکم کلر نمبر ٹو’‘۔
گیٹ پر نبیلہ گروپ سب کا سب ساتھ ہی آیا تھا۔ ان کے اندر آنے کا اہتمام شہر یار نے کیا، محاسن اپنے غسل خانے کے آئینے میں اپنی گردن اور کان کا جائزہ لے رہی تھی۔ کان کی ایک لو تو دوسری سے زیادہ سرخ تھی مگر اسے ہلکے سے چبائے جانے کا ہلکا سا نشان بھی کان کی لو پر نمایاں طور پر موجود تھا۔ محاسن نے جلدی سے دونوں لووں کو چھپانے کے لیے بڑے سے دو فیروزے کے ٹاپس کان میں پہن لیے، جس کی وجہ سے وہ سہیلویوں کی متجسس نگاہوں کی کھوج سے محفوظ ہو گئے۔ عوت کھانا اور شراب سب کو بہت پسند آئے جاتے وقت دو سہیلیاں تو دو بوتلیں ساتھ بھی لے گئیں۔نبیلہ البتہ رات اسی کے پاس ٹہر گئی جس کی وجہ سے شہر یار کو اس سے مزید گفتگو کا موقع نہ مل پایا۔
نبیلہ کو اسکول چھوڑ کر دفتر جاتے وقت سارا راستہ محاسن یہ سوچتی رہی کہ شہر یار مرزا کے ساتھ کل شام جو کچھ ہوا کیا وہ مناسب تھا۔ گناہ اور توبہ کے درمیان ایک باریک سا پردہ ہر وقت حائل رہتا ہے۔ گناہ کے ساتھ اپنے سابقہ عمل کا جواز دل کو بہلانے کے لیے ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ توبہ کا دروازہ اس وقت کھلتا ہے جب یہی دل ندامت کا احساس کرکے اس سے باز رہنے پر آمادگی کا ارادہ کر لیتا ہے۔ توبہ تو پلٹ جانے کا نام ہے۔ محاسن کو ایک خیال تو یہ تھا کہ یہ سب غلط ہوا۔ جانے اب یہ تعلق کیا رنگ لائے۔ وہ اگر شہریار کو اپنے کاموں میں استعمال کرتی تھی تو اس کا وہ ایک معقول معاوضہ بھی ادا کرتی تھی۔ اس کی بڑی بہن کی شادی میں اس نے اس گھرانے کی کافی مالی امداد کی تھی۔ یہ سب کچھ کافی تھا۔ اسے اس حوالے سے کسی احساس خود غرضی میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ دوسرا خیال جس مخمصے میں وہ مبتلا تھی اس حوالے سے یہ تھا کہ وہ شیری سے پورے پورے آٹھ سال بڑی ہے۔ کیا ہوا وہ اگر اس کی قربت کی تاب نہ لاکر کل شام لاکر بےچین ہو گیا تھا۔ وہ تو خود پر کنٹرول کر سکتی تھی۔ فرحان کو جدا ہوئے دو برس ہو گئے تھے۔ فروزاں بھی تو بالآخر اس کی ہم عمر ہے۔ وہ بھی تو اپنی بیوگی کو نبھا رہی ہے۔ کیا اس کا بدن مرد کی قربت کا طلبگار نہ ہوگا۔ انہیں لمحات میں گنہگار دل نے جواز پیش کیا جو اسے اچھا بھی لگا کہ وہ بھی تو فرحان سے پورے پندرہ برس چھوٹی تھی۔ اس نے یہ سب کچھ اس کے ساتھ کیوں کیا اس سے پہلے تو وہ کنواری تھی۔ اس نے تو یہ ظلم بھی کیا کہ حالات کا مقابلہ کرنے اور اسے عنادل سے طلاق کی ترغیب دے کر خود ایک معمولی سے واقعہ کو بنیاد بنا کر اسے تنہا چھوڑ کر دور کہیں چلا گیا۔
فروزاں اس دن دفتر معمول سے ذرا دیر سے آئی اور آتے ہی سیدھی اس کے پاس چلی آئی۔ ادھر ادھر دیکھ کر اس نے آہستہ سے بتایا کہ وہ بینک گئی تھی مگر وہاں اسے فرحان اندر داخل ہوتا دکھائی دیا تو وہ اس کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے اپنی بیٹی گل لالے کی ڈاکٹر کے پاس چلی گئی اور بعد میں بینک آئی تو وہ وہاں سے جا چکا تھا۔ خیر ہوئی کہ اس نے فروزاں کو وہاں داخل ہوتے وقت نہیں دیکھا۔ یہ سب کچھ فروزاں کی زبانی سن کر محاسن کو لگا کہ زمین اس کے پیروں سے نکل کر کہیں دور چلی گئی ہے اور اپنی تنہائی کی خلا میں معلق ہو گئی ہے۔
اگلے دن جب وہ دفتر آنے کے لیے گاڑی سے اتر رہی تھی۔ اسے ان کا پرانا کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ نعیم دکھائی دیا۔ وہ وقاص کے ہاں اپنی پے مینٹ لینے آیا تھا۔ بات چیت کے دوران اس نے پوچھا کہ کیا وہ لوگ فرحان کو ری ہائر کریں گے۔ وہ اسے کسٹم کلیکٹر اپریزمینٹ کے دفتر کے باہر ملے تھے۔ وہ ان کا دوست ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ وہ ابوظہبی سے ایک ماہ ہوا واپس آ گئے ہیں۔ محاسن نے اسے کہا کہ ہاں بات چیت چل رہی ہے۔ چین سے نیا کنسائنمینٹ آنے والا ہے۔ ان کی بہت ضرورت ہوگی مگر یہ ایک کاروباری راز ہے لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ یہ کسی پر ظاہر نہ کرے۔ کلیئرنگ کا کام وہی کرےگا۔
اس دن برسات بھی سر شام شروع ہو گئی۔ مینہ چھاجوں برسنے لگا۔ طفیل خان کی وہی ضد کہ اس کی بہن کی طبیعت خراب ہے۔ بہنوئی بھی اسے چھوڑ گیا ہے۔ گھر بھی نئی جگہ ہے۔ لوگ بھی نئے نئے ہیں وہ اس کے پاس رات کو جاکر رہنا چاہتا ہے۔ صبح لوٹ آئےگا۔ محاسن نے چھٹی دی تو واپسی پر برسات کے پانی کی وجہ سے اسے کار چلانے میں بہت دشواری ہوئی۔ کار ایک دو جگہ سائلنسر میں پانی آنے کی وجہ سے بند بھی ہو گئی۔ گھر پہنچتے پہنچتے اس کے دل کو عجب اداسی، احساس تنہائی اور بے وفائی نے گھیر لیا۔ وہ سوچنے لگی کہ کیا اچھا ہوتا کہ اپنے آنے کی فرحان اسے سب سے پہلے اطلاع دیتا۔ اب تو ہر رکاوٹ دور ہوگئی تھی۔ ان کا ملنا اب پہلے سے بہت زیادہ آسان تھا۔یہ ادھر ادھر سے ملنے والی معلومات نے تو اسے بکھیر کر رکھ دیا۔ وہ سوچنے لگی اب کی دفعہ ممکن ہے کوئی عورت اس کی زندگی میں اس کا خلا بھرنے کو آ گئی ہے۔جب ہی تو اس نے واپس آن کر محاسن سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اس کو پاکستان آئے ہوئے مہینہ بھر ہو گیا۔ سارا راستہ وہ اداسیوں اور اندیشوں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتے کرتے گھر تک بمشکل پہنچی۔
گھر پہنچتے پہنچتے وہ کچھ نڈھال ہو گئی تھی۔ بھوک بھی بہت لگ رہی تھی اور دل کو اچھا کھانے کی بھی بہت طلب تھی۔ اپنے مخصوص ایام کے شروع ہونے سے ایک دو دن پہلے وہ ایسے ہی نڈھال ہو جاتی تھی۔جب تک وہ کنواری تھی اس کے پیروں اور پیٹ میں کریمپس (Cramps) بھی بہت پڑتے تھے۔ فرحان کی وجہ سے ان کیریمپس میں تو بہت کمی آ گئی تھی مگر طبیعت بدستور نڈھال رہتی تھی۔ اس نے میوزک سسٹم آن کیا تو رفیع گا رہے تھے۔تمہیں تھے میرے راہنما، تمہیں تھے میرے ہم سفر، تمہیں تھے میری روشنی، تمہیں نے مجھ کو دی نظر، بنا تمہارے زندگی، شمع ہے اک مزار کی۔۔۔ کہانی کس سے یہ کہیں چڑھاؤ کی، اتار کی۔۔۔یہ کون سا مقام ہے، فلک نہیں، زمیں نہیں، کہ شب نہیں، سحر نہیں، کہ غم نہیں خوشی نہیں، کہاں یہ لے کہ آگئی ہوا تیرے دیار کی۔گھر کے در ودیوار سے لگ رہا تھا بوندوں کے ساتھ اداسی بھی برسی، شام کے مہیب سناٹے اور اس کمرے میں آویزاں آئینوں میں اس کی تنہائی کے یہولے منڈلا رہے ہیں۔۔۔ ہے اسی کی یہ صدا ہے اسی کی یہ ادا۔۔۔ اس نے ایک چیخ ماری کر کہا ‘‘او فرحان تم نے یہ کچھ اچھا نہیں کیا۔۔۔ مجھے کس کے حوالے کر دیا۔’‘
پہلے اس نے سوچا کہ وہ اپنی اداسی دور کرنے کے لیے شیری کو بلالے مگر پھر یہ سوچ کہ دو شام پہلے کی جسارت کی وجہ سے وہ اسے چھونے کی ضد کرے گا اور اس کا کوئی موڈ نہ تھا کہ وہ اس کی مضمحل حالت میں اسے کوئی چھوئے۔ ہمیشہ کی Impusive محاسن نے تب ایک عجیب حرکت کی کہ اس نے عنادل کو فون پر ٹیکسٹ میسج کر دیا کہ ‘‘آئی ہم ہنگری اینڈ آئی نیڈ کمپنی۔۔’‘ اس سے پہلے کے اس میسج کو کرکے اس کو کوئی پچھتاوا دامن گیر ہوتا اس کا جواب آگیا کہ ‘‘گیٹ ریڈی، ٹین منٹس اینڈ آئی ول پک یو اپ فار ڈنڑ’‘ (دس منٹوں میں تیار ہو جاؤ، میں تمہیں ڈنر پر لے جانے کے لیے آ رہا ہوں)۔
وہ اسے ایک ٹونی سے ریسٹورنٹ میں لے گیا اپنے ساتھ Black Estate Chardonnay, Waipara, کی نیوزی لینڈ کی بنی ہوئی سفید شراب کی بوتل پر لے آیا تھا۔ دونوں تلی ہوئی مچھلی کے ساتھ اسے بہت آہستہ آہستہ پیتے رہے، ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر۔ محاسن کو لگا کہ اس نے عنادل کو اس طرح اور خود عنادل نے اتنے چاؤ سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ طور اطوار میں وہ ہمیشہ سے مہذب تھا۔ باتیں وہ پہلے بھی اچھی کرتا تھا، اس شام کو وہ شہر آفاق جاپانی ناول نگار ہاروکی مراکامی کی دو کتابوں بلائنڈ ویلو اینڈ سلیپنگ وومین اور کافکا آن شور کے بارے میں اسے بتاتا رہا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ وہ نوبل انعام کا حق دار ہے مگر اس کے خیالات چونکہ ویسٹرن اسٹیبلشمینٹ سے اکثر متصادم ہوتے ہیں لہذا ممکن ہے وہ یہ انعام کسی چینی ادیب کو یا سلمان رشدی کو اس لیے پکڑا دیں کہ ایک چین کی اسٹیبلشمینٹ کا مخالف ہوگا تو دوسرے کی اسلام کی تحقیر میں بہت شہرت ہے۔یہ نوبل انعام ایک سیاسی ایجنڈا کے حساب سے تقسیم ہوتے ہیں۔ اب وہ اپنی سابقہ علت پر کچھ کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اسے باہر کے ایک دو ماہرین نفسیات نے اور پھر یہاں ایک دو تبلیغی جماعت کے حضرات نے بھی مدد دینا شروع کر دی ہے۔ وہ ان تبلیغی جماعت کے لوگوں سے وہ کئی باتوں میں اتفاق نہیں کرتا۔ ان میں سے اکثر مال ومنال کے بہت دل دادہ ہیں مگر ان میں ایک بزرگ بھی شامل ہیں جو روحانیت کے ساتھ ساتھ حجامہ علاج کے بھی ماہر ہیں۔ یہ انگریزی میں’‘Cupping Therapy’‘ کہلاتا ہے۔ہمارے نبی پاکﷺ نے صحیح بخاری کے حوالے سے اسے بہترین علاج کے طور پر تجویز کیا ہے۔ یہ انہیں معراج کی رات فرشتوں نے تجویز کیا تھا۔ بیرونی دنیا میں اب اس کے فوائد کو بہت تیزی سے تسلیم کیا جا رہا ہے، ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ Gwyneth Paltrow بھی اس علاج کی مداح ہے۔ اس علاج سے اس کو بھی بہت افاقہ ہوا ہے۔
محاسن اس ڈنر میں زیادہ تر خاموش رہی۔ کئی دفعہ اس نے سوچا بھی کہ اس نے عنادل سے طلاق لینے میں کچھ عجلت دکھائی۔ وہ ایک درمیان کا راستہ نکال سکتی تھی۔ چند شرائط کے وہ اس سے یہ بات منوا سکتی تھی کہ وہ گھر سے باہر اپنے راستے پر چلے اور وہ اپنے لورز کا ساتھ نبھاتی رہے۔ یہ گو کہ گناہ کا ایک راستہ تھا مگر اس راستے پر بالآخر وہ چل تو پڑی ہی تھی۔
ریسٹورنٹ سے نکلنے سے پہلے اس نے فروزاں کو فون کر دیا کہ وہ رات اس کے پاس ٹہرے گی۔اپنی کوئی صاف سے نائٹی تیار رکھے۔ گل لالے سے گپ لگائے ہوئے سوتیلی بہن کو بہت دن ہو گئے ہیں۔
جب وہ فروزاں کے ہاں پہنچی تو اس کے خالو فریدوں گل ضمیرخان اسی کی باتیں کر رہے تھے۔ وہ جب جوان تھے ایک روسی فوجی نے ان کے سر پر رائفل کا بٹ اس زور سے مارا تھا کہ ان کی بینائی تیزی سے جانے لگی۔ اب یہ بینائی دس فیصد سے بھی کم رہ گئی تھی۔ اندھیاروں کا ساتھ ہوا تو یہ کمیونسٹ خالو جسے روس کی افغانستان آمد پر شدید اعتراض تھا، اللہ سے لو لگا بیٹھا۔ بینائی تو چلی گئی مگر ایک بصیرت ایسی آگئی کہ انہیں اب مستقبل کہ حوالے سے مناظر دکھائی دینے لگے تھے۔ انہوں نے ہی فروزاں کو اس کے میاں یعنی جمیل سیٹھ کی مزاج پرسی کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یکے بعد دیگرے وہ چند ناپسندیدہ ترجیحات کو اپنانے پر مجبور ہوگی۔ جمیل سیٹھ کر بچنا محال ہے وہ اللہ سے ان کی بخشش کی زیادہ سے زیادہ دعا کرے۔ پیار کرنے والے دو دفعہ مرتے ہیں۔ ایک محبوب کے مل جانے پر دوسرے اس کے جدا ہونے پر۔ اس سے وابستہ دو گھر اجڑنے والے ہیں۔ فروزاں نے ان پیش گوئیوں کو راز ہی رکھا مگر جمیل سیٹھ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے، محاسن کا گھر بھی اجڑ گیا اور گھر کے حوالے سے اسے ایک دکھ بھری پیش کش کو بطور واحد قابل قبول ترجیح کو اپنانے پر مجبور ہونا پڑا۔
جب وہ عشا کے بعد اپنے معمولات سے فارغ ہوئے تو فروزاں، محاسن کو ان کے پاس لے گئی۔وہ اس کی زندگی کے اجاڑ پن سے پریشاں تھی۔ کچھ اس ملاقات کرنے میں محاسن کا اصرار بھی شامل تھا مگر فروزاں کو علم تھا کہ محاسن کو ان باتوں پر کچھ یقین نہیں وہ یہ ملاقات محض جوش تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر کرہی ہے، با صورت دیگر وہ بہت جدید خیالات کی مالک ہے اور اپنی سوچ میں عقلیت، سائنس اور ٹیکنالوجی کو بڑی اہمیت دیتی ہے۔
خالو فریدوں گل ضمیرخان نے جب اس کا ہاتھ تھام کر اس کی انگلیوں کی اوپری پوروں کو چھو کر پوچھنے لگے کہ ‘‘صرف اچھی باتیں بتاؤں یا سب کچھ؟’‘
ڈرپوک اور احتیاط پسند فروزاں نے اس کی جگہ جواب دیا’‘ جس میں اس کی بہتری ہو’‘
‘‘بہتری تو سب کچھ جان لینے میں ہوگی، یہ شاید احتیاط کرنے لگ جائے’‘۔ خالو نے جواب دیا
‘‘تو پھر سب کچھ۔ ا’‘ب کی دفعہ محاسن نے جواب دیا۔
‘‘بہت خون ہے اس کے ہاتھوں پر۔ وہ کیوں؟’‘ خالو نے بہت سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔
‘‘مچھلی کھائی تھی۔ بےچاری کا خون میرے وجود میں چیخ رہا ہوگا۔’‘ محاسن نے شوخی دکھائی اور بات کی کاٹ دار دھار کو کند کرنے کی کوشش کی۔
‘‘ایک دروازہ کھلا ہے۔ وہ آ رہا ہے۔ ہاتھ پکڑ کر دوسرے دروازے سے نکل جائےگا۔ تمہیں اپنے ساتھ بہت دور لے جائےگا۔ سب یہیں رہ جائیں گے تم چلی جاؤگی۔ جانے کی خبر بہت رسوائی کا باعث بنےگی۔ آج ایک دروازہ اور بھی کھولا ہے، مگر اس کی زنجیر کو ہٹاکر اسے اندر بلانا تمہارے بس کی بات نہیں۔ لوگوں سے ملنے جلنے میں احتیاط کرو۔’‘
کھانا کھاکر وہ فروزاں اور گل لالے بہت باتیں کرتی رہیں۔ گل لالے کو اس نے اپنے اور اس کے ابو کی کچھ باتیں بتائیں جو اسے پہلے معلوم نہ تھیں۔ فروزاں کو البتہ اس بات کا قلق تھا کہ اتنے دنوں کے بعد تو محاسن اس کے گھر رات رہنے آئی تھی خالو فریدوں نے یہ کیا ڈراؤنی باتیں کردیں۔ دن بھر کی تھکی فروزاں سو گئی تو محاسن بستر پر لیٹے لیٹے خالو فریدوں کی باتوں کا مطلب نکالنے لگی۔
اسی دوران اس کا ذہن عنادل کی ملاقات کی طرف چلا گیا۔ وہ اچھا آدمی تھا۔ اس پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا۔ بلکہ طلاق کے معاہدے سے بڑھ کر اس نے اسے دو تین ایسی رعایت دیں جو اس کے وکیل کے مشورے کی بالکل مخالفت میں تھیں۔ جوائینٹ اکاؤنٹ کی آدھی رقم بڑی خاموشی سے اس نے اگلے دن اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دی جو اس کی اصل رقم سے زیادہ تھی اور معاہدے کی رو سے اس کا وہ پابند بھی نہ تھا۔ وہ نئی کار جو اس نے کچھ دن پہلے ہی خریدی تھی وہ بھی گھر کے ساتھ اسے دے دی۔ اپنے خاندانی زیورات کو واپس لیتے ہوئے اس نے محاسن کو زمرد کا ایک بےحد قیمتی سیٹ جو ا اس کی فیملی نے ایک نواب فیملی سے خریدا تھا وہ بھی اس لیے تحفے میں دے دیا کہ محاسن نے ایک دفعہ اس سیٹ کی بناوٹ اور اس میں لگے بڑے زمرد کی بہت تعریف کی تھی۔ اس کی ہر سالگرہ پر اسے خاموشی سے ایک قیمتی تحفہ بھی اس کی جانب سے موصول ہوتا تھا۔اس نے محاسن کو ڈنر پر یہ بتا دیا کہ اسے محاسن کے فرحان کے تعلقات کا علم تھا۔ احمد سلمان نے اس کی وہ تصاویر جو چین میں سوئمنگ پول کے پاس دونوں کے بےتکلفی کے لمحات میں کھینچی گئی تھیں اسے بھی ای میل کی تھیں۔ انسان بہت کم زور ہے اللہ کسی کو ہدایت دے تو راہ مل جاتی ہے۔ وہ کہنے لگا ‘‘حضرت رابعہ بصریؒ کی ایک بات اس نے کسی جگہ پڑھی تھی۔ ایک شخص نے آپ کو کہا کہ اس نے توبہ کی تو اللہ نے اسے ہدایت دی۔ آپؒ نے فرمایا کہ اپنا جملہ ٹھیک کر لو تمہیں اللہ نے ہدایت دی تو تم نے توبہ کی۔‘‘
محاسن اس انکشاف پر حیران تو ہوئی مگر اس میں تلخی کی کوئی رمق نہ پاکر اس نے بہت آہستگی سے اس کو جانے دیا اور کسی قسم کے تجسس کا اظہار نہ کیا۔ خود عنادل نے اس را زکو اس وقت کھولا جب وہ ہاروکی مراکامی کے کسی کردار کی کمزوری کو تذکرہ کر رہا تھا۔ یوں یہ بات کتاب سے منسوب زیادہ اور اس کی اپنی زندگی سے وابستہ ایک نادانی کم لگی۔ اس راز کے انکشاف کا زہر اس لیے بھی کم ہو گیا کہ اس نے دین کے حوالے سے بھی انسان کی کمزوری کا انکشاف کیا۔ اسی طرح اس نے حضرت رابعہ بصری کی بات بیان کرکے اس میں ایک بھاری بھرکم روحانی حوالہ ڈال دیا جس سے بات معافی اور بڑے پن کی طرف مڑ گئی۔
اس تمام بات کو اب ہفتہ ہونے کو آیا تھا، غسل پاکیزگی کے بعد اس کے بدن میں پہلے ہفتے عجیب سی جولانی اور جسمانی لذتوں کی طلب اور خواہشات موج زن رہتی تھیں۔ دن میں تو وہ ادھر ادھر گھومتی رہی۔ ایک نمائش میں بھی چلی گئی، کلب میں نبیلہ نے دو ایک دوستوں کو لنچ پر بلایا تھا وہاں جانے سے پہلے وہ بینک گئی۔ اسی کی سفارش پر حسن رمیز کو ملازم رکھا گیا بینک نیا تھا اور نئے اکاؤنٹس کا متلاشی۔ حسن رمیز اسے بینک میں دیکھ کر نہال ہو گیا۔ کافی کے آتے آنے پر اس نے رمیز سے پوچھ لیا کہ کیا جب فرحان صاحب یہاں پچھلے ہفتے آئے تھے تو وہ یہاں موجود تھا۔ جواب اثبات میں ملنے پر محاسن نے دو تین اور بھی سوالات داغ دیے۔ جی ہاں انہوں نے ان کے ہاں نیا اکاؤنٹ کھولا ہے۔ وہ اب اپنا کاروبار ایم۔ ایف۔ اسوشیٹس کے نام سے کر رہے ہیں۔ کوریا سے بالخصوص تشخیصی نوعیت کی میڈیکل مشنری منگوا رہے ہیں۔ ڈی فری بلیٹرز اور ایکسرے گرڈ بشمول ڈی آر سلوشنز کی تو پورے پاکستان کی ایجنسی ان کے پاس ہے۔ ان کے گھر کا پتہ مل سکتا ہے کوئی دعوت بھجوانی ہے۔ فون نمبر بھی۔ احسانات کے بوجھ تلے دبار میز اپنی فائل سے فرحان کو پتہ بھی نکال لایا اور اس کے بزنس کارڈ کی بھی کاپی اسے کراکے دے دی۔ گھر کا پتہ بدستور وہی تھا جہاں اس کے سلگتے ارمانوں پر پیار کا پہلا ساون برسا تھا۔
نبیلہ کے لنچ پر وہ کچھ کھوئی کھوئی تھی فرحان کے بارے میں حاصل کردہ معلومات کے حوالے سے تین سوالات اس کے ذہن میں مسلسل گردش کررہے تھے۔کمپنی کا نام ایم۔ ایف۔ اسو شیٹس اس نے کیوں رکھا ہے؟ کیا یہ محاسن۔ فرحان اسو شیٹس کا مخفف ہے؟ کیا اس کے کمرے کے فریم میں اب بھی اس کی تصاویر جس میں اس کی سیمی نیوڈز بھی تھیں ویسے ہی روشن ہوکر رقص کرتی ہوں گی؟ پریلی کے نیوڈز کلینڈر کے وال پیپر جیسے کمپیوٹر کے اسکرین پر لہراتے ہیں۔ ان دنوں مشہور اطالوی ٹائر کمپنی کے اس کلینڈر میں اس آتش فشاں ماڈل گرل گزل بن شین کی نیم عریاں تصاویر کی بڑی دھوم تھی۔ کیا اس کا وہ کرتہ الگنی پر اسی طرح لٹک رہا ہوگا جیسا وہ اس باتھ روم میں کپڑے تبدیل کرنے کے بعد چھوڑ کر آئی تھی؟
شام کو وہ جم سے واپس آن کر جب غسل کرکے اپنے بال سکھا رہی تھی اسے اپنے بالوں میں ایک سفید بال دکھائی دیا۔ فرحان سے بچھڑنے کے دکھ کی پہلی علامت۔ اب وہ پورے بتیس برس کی ہونے والی تھی۔ دو دن بعد اس کی سالگرہ بھی تھی۔ اس کا دل اس سفید بال کو دیکھ کر اداس ہو گیا۔ وہ سوچنے لگی کہ ڈیڑھ کروڑ کی اس آبادی والے شہر میں ماسیوں اور فقیرنیوں کے چاہنے والے تو موجود تھے پر ڈیفنس فیز ٹو کی اس جواں بدن، دل فریب، تعلیم یافتہ، آسودہ حال خاتون کا کوئی بھی سچا عاشق نہ تھا۔ سفید بال دیکھ کر اس پر ویسا ہی خوف طاری ہوا جو کسی خاتون پر اپنے بیڈ روم میں اچانک پستول لے کر گھس آئے ہوئے مرد کو دیکھ کر ہو سکتا تھا۔ اس نے اپنی اداسی کا حساب لگایا، اپنی تنہائی کا سوچا تو وہ خود کو فروزاں سے بھی اکیلا محسوس کیا جس کے پاس اس کے قریبی عزیز اورگل لالے تھی۔ اس کے دونوں بھایؤں کی اپنی ایک دنیا تھی جس میں اس کا سمانا آسان نہ تھا۔ اس نے سوچا وہ بھی نبیلہ کی طرح اللہ سے لو لگالے یہ دنیا تو یوں بھی لھو لعب کا ایک ہر روز بدلتا تماشا ہے۔ نبیلہ اپنے بیٹے کے ڈرگ پرابلم سے پریشان ہوکر اب فرحت ہاشمی کے لیکچرز میں جانے لگی تھی اور حجاب عبایا بھی اوڑھ لیا تھا۔
انہیں لمحات میں اس نے سوچا کہ ایک رنجور پجاری کی طرح اللہ کے پاس جانا مناسب نہیں۔ وہ تو بالکل ویسے ہی جائےگی جیسی رادھا اپنے شیام کے پاس یہ گاتی ہوئی جاتی تھی کہ جیسے رادھا نے مالا جپی شیام کی، میں نے اوڑھی چنریا تیرے نام کی۔ جانے کیا سوچ کر اس نے نماز پڑھی اور اللہ سے صرف ایک دعا کی کہ میرا فرحان مجھے لوٹا دے۔ میری اس سے شادی کرا دے تو میں اسے اپنا محرم بناکر تیرے دربار میں معافی مانگنے آؤں۔ اس دعا اور نماز سے اس کے دل کو بہت تقویت ملی۔ اس نے گاڑی نکالی اور گل لالے اور فروزاں کو لے کر عنادل والے ریسٹورانٹ میں کھانے پر لے گئی۔
دو دن بعد اس نے اپنی سالگرہ بھی انہیں کے گھر پر منائی۔ اس دن وہ دو وجہ سے اداس تھی۔ عنادل کا تحفہ تو اسے دفتر میں ہی حسب روایت مل گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا پینڈینٹ تھا جو اس نے سنگاپور سے خریدا تھا۔ فرحان کا نہ تو اسے کمپنی ایڈریس پر کوئی پیغام ملا نہ ہی اس کے فون پر کوئی میسج آیا۔ وہ سوچتی رہی کے کیا فرحان کے لیے اس کا نیا فون نمبر ہاتھ کرنا یا ای میل تلاش کرنا مشکل تھا۔ اس نے بھی تو بینک سے اس کے بارے میں سب تفصیلات کامیابی سے حاصل کر لی تھیں۔ وہ بہر حال ایک Resourceful مرد تھا۔ اپنی نئی کمپنی بنا سکتا تھا۔ کاروباری اجارہ داری ڈی فری بلیٹرز اور ایکسرے گرڈ بشمول ڈی آر سلوشنز جیسی مشینری کے معاملے میں قائم کر سکتا تھا تو اس کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنا اس کے لیے کون سا ایسا مشکل کام تھا۔ دوسری بات جس نے اس کا دل کاٹ کر رکھ دیا تھا وہ یہ تھی کہ اس کی بے اعتنائی کو وہ اپنے نسوانی اندیشوں کی مناسبت سے اس بات سے موسوم کر رہی تھی کہ ممکن ہے اس نے شادی کر لی ہو۔ اتنے ہینڈ سم مرد کو ممکن ہے اس سے بہتر اور جواں سال عورت مل گئی ہو۔
انہیں اندیشوں کو دل میں بسائے اس نے شہر یار مرزا کو سالگرہ والے دن دفتر کے نیچے بلایا اور کار میں اسے لے کر فرحان کے گھر پر پہنچی۔ دن کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ اس نے سوچا کہ وہ شیری کے ذریعے یہ پتہ چلائےگی کہ فرحان اب بھی وہیں رہتا ہے۔ وہاں کے کیا حالات ہیں۔ راستے میں شہریار نے اس سے پوچھا کہ وہ یہ سب کچھ کیوں معلوم کرنے کے کی کوشش کر رہی ہے تو اس نے نادانی کی کہ اسے بتا دیا کہ وہ اس کی پہلی محبت ہے اور اس کا دل اس سے دوبارہ تعلق قائم کرنے کا خواہشمند ہے۔ محاسن نے نوٹ کیا کہ اس بات سے شیری کے چہرے پر کرب اور نفرت کے کئی رنگ ایک دم نمایاں ہو گئے تھے۔
وہ تو کار ہی میں بیٹھی رہی اس لیے کہ چوکیدار غلام رسول اور فرحان کے دونوں کتے ڈوبی اور برونو بھی اس سے پہچانتے تھے۔شیری نے معلومات لے کر واپس آنے میں پورے دس منٹ لگا دیے اور آتے ہی اسے کہنے لگا ‘‘میڈم محاسن آپ کے لیے گڈ نیوز اور بیڈ نیوز دونوں ہیں۔ کون سی پہلے سناؤں؟’‘
جو تمہارا دل چاہے وہ سنا دو آخر میں تو بیڈ نیوز ہی نے باقی رہنا ہے۔ محاسن نے بھی ایک احساس شکست کو اپنے پر طاری کرتے ہوئے جواب دیا۔
‘‘ گڈ نیوز تو یہ ہے کہ آپ کے ایکس ابھی بھی یہیں پر قیام پذیر ہیں۔ بیڈ نیوز یہ ہے کہ انہوں نے شادی کر لی شیری تو اس کی کرب ناک حالت اور اپنے لیے نو دریافت شدہ گنجائش کا احاطہ کرتے ہوئے پورے راستے اٹھکیلیاں کرتا رہا۔وہ کہنے لگا ‘‘آج اس کی سالگرہ ہے مگر اس نے اسے مدعو نہیں کیا’‘ جس پر محاسن نے اسے جتلایا کہ ‘‘ وہ سالگرہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ مناتی ہے۔ یوں بھی بتیس برس کی، پیار میں اجڑی ہوئی، تنہا عورت کیا سالگرہ منائےگی۔’‘
‘‘آپ کے ان بتیس برسوں پر تو شہر کی کئی کنواریاں قربان کی جا سکتی ہیں’‘۔شیری نے اپنا وہی اسٹائل اپنائے رکھا جس کی وجہ سے محاسن کے دل میں محرومیوں کے سائے اور گہرے ہو گئے۔
آج رات جب آپ رشتہ داروں سے فارغ ہو جائیں تو اس خاکسار کو کچھ پینے پلانے، میوزک سنانے کے لیے بلالیں۔ مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آپ سے مالدار اور حسین کوئی عورت مل گئی ہوگی تو انہوں نے گھر بسالیا۔ ہو سکتا ہے اس میں ہم جیسے خاک نشینوں کو آپ کی رفاقت کا کوئی انمول لمحہ مل جائے۔ یاد کریں ہم نے آپ کو کبھی کہا تھا۔
‘‘Wait for the boy that would do anything to be your everything’‘ محاسن نے اسے بے چارگی سے دیکھتے ہوئے ایک فیصلہ کیا وہی فلم دی ریڈر کی ہنا شمڈٹ والا فیصلہ کہ وہ آج رات اسے بھی آزمائےگی۔
جس وقت محاسن کے لیے کیک کاٹنے اور کھانا لگانے کا اہتمام ہو رہا تھا اس نے باہر لان میں جاکر میں بیٹھ کر شیری کو دو تین میسج اور ایک چھوٹا سا فون بھی کیا۔ اس کا مطالبہ تھا کہ ایک تو دس بجے اس کے لیے وہ جیک ڈینئل کی سات نمبر وہسکی لے کر آئےگا۔ اسے گٹار پر کشور اور مناڈے کے گیت سنائےگا۔ وہ ڈوبی ڈوبی والے تھری ایڈیٹ کے گیت پر ناچیں گے اور پیار کرتے کرتے سو جائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وہ اس کی خاطر کوئی نارنجی یا جنگل گرین ساڑھی بہت ٹینی وینی، اٹسی بٹسی بلاؤز اور کچھ زیورات کے ساتھ پہن لے۔ عمر میں گو شیری اس سے پورے آٹھ برس چھوٹا تھا مگر اس راز سے وہ کما حقہ آگاہ تھا کہ اگر آپ کے مطالبے پر کوئی حسینہ آپ کے فرمائش کردہ لباس کو زیب تن کرلے تو رفاقت کے باقی مراحل باآسانی طے ہو جاتے ہیں۔ محاسن نے اس کا لباس کا مطالبہ تو مان لیا۔ اس کے پاس شفون کی دونوں رنگوں کی ساڑھیاں موجود تھیں مگر گیت کے مطالبے پر اس نے جواب دیا۔نہیں تھری ایڈیٹس نامی فلم کے ڈوبی ڈوبی پر نہیں بلکہ تلاش کے گانے ظلمی رات ما۔۔۔ ارے اونس اونس۔۔ او کانچا۔۔ آج تو ظلمی رات ما، دھرتی پر ہے آسماں، کوئی رے بن کے چاندنی اترا من کے آنگنا پر اکیلی ناچے گی۔یہ گانا اس نے اس لیے چنا تھا کہ اپنے آئی۔ پوڈ پر چین کے دورے میں فرحان نے اسے کئی دفعہ سنایا تھا۔ اسے موسیقار ایس ڈی برمن بہت پسند تھے۔ آج کی رات اس کے لیے ہم نفسو شب انتقام تھی۔
رات ساڑھے نو بجے فروزاں کے ڈرایؤر نے اسے گھر واپس لاکر چھوڑ دیا، فروزاں اور گل لالے کی ضد تھی کہ وہ رات انہیں کہ پاس رک جائے پرانی باتیں کریں گے۔ محاسن نے کل رات آنے کا وعدہ کیا اور چلی گئی۔
آج شام طفیل خان بدستور اپنی بہن کے گھر چلا گیا تھا۔ دچند دنوں سے وہ اس کے حوالے سے بہت تشویش میں مبتلا تھا۔ مار پیٹ کی وجہ سے اس کی بہن کا بارھویں ہفتے میں اسقاط حمل ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ طبیعت کی خرابی کی شکایت مسلسل کررہی تھی اس نے ایک آدھ دفعہ اسے کہا کہ وہ اپنی بہن کو اپنے ساتھ لا کر بنگلے پر رکھنا چاہتا ہے مگر محاسن ایک پورا گھرانہ اپنے ہاں رکھنے کی حامی نہ تھی۔ وہ اس وجہ سے چھٹی بھی مانگ رہا تھا کہ بہن کو گاؤں چھوڑ آئے۔
اس رات سب کچھ تو ویسے ہی ہوا جیسے طے ہوا۔ وہ اسے مناڈے اور کشور کے پرانے گانے ساتھ بیٹھ کر سناتا رہا۔ اس کی آواز بس واجبی سی تھی مگر سر تال کا اسے بخوبی اندازہ تھا۔ بالخصوص اس نے مناڈے کا وہ گیت کہ کون آیا میرے من کے دوارے پائل کی جھنکار لیے آنکھ نہ جانے دل پہچانے۔صورتیا یہ کیسی۔ یار کروں تو یاد نہ آئے مورتیا یہ کیسی۔جب محاسن کا ایک اور پسندیدہ فلم خاموشی کا گیت وہ شام کچھ عجیب تھی، یہ شام بھی عجیب ہے۔ وہ کل بھی پاس پاس تھی، وہ آج بھی قریب ہے اس نے سنایا تو محاسن کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ گٹار ایک طرف رکھ کر اسے بانہوں میں سمیٹ کر بیٹھ گیا۔
محاسن نے رفاقت اور بوس و کنار کے انہیں لمحات میں اس سے پوچھا کہ ’‘کیا واقعی بابا غلام رسول نے اسے یہ بتایا تھا کہ فرحان کی شادی ہو گئی ہے؟’‘
‘‘نہ صرف آپ کے قبلۂ مقصود نے شادی کر لی ہے مگر ان کی ایک چھ ماہ کی صاحب زادی ہے۔ آپ اس پیار پر فاتحہ پڑھ لیں۔ کم از کم آج کی رات تو حاضر کو حضور سمجھیں’‘۔
‘‘تو تم مجھ سے واقعی پیا ر کرتے ہو؟ ‘‘محاسن نے پوچھا
‘‘بہت۔’‘ اس نے سرگوشی کرتے ہوئے محاسن کے بلاؤز کے ہک پیچھے سے کھول دیے۔
‘‘اور کوئی دوسرا مجھ سے پیار کر دعوےدار ہو تو؟’‘ محاسن نے پوچھا
‘‘وہ اسے جان سے مار دے گا۔’‘ اس نے ایک قاتل کے بھرپور انداز میں جواب دیا۔
‘‘یہ تو تم جانتے ہو کہ ہم کچھ بھی ہو جائے ایک نہیں ہو سکتے’‘۔ محاسن نے اس کے لگاؤ کی شدت کا اندازہ کرنے کے لیے اسے چھیڑا۔
‘‘یہ لوگ جو چاند ستاروں کو چاہتے ہیں، موسیقی پر جان نچھاور کرتے ہیں، لیڈی گاگا (مشہور امریکی گلوکارہ) کے ایک جھلک دیکھنے لے لیے گھنٹوں سردی میں ٹھٹھرتے رہتے ہیں۔ یہ بزرگ لوگ جو اللہ سے لو لگاتے ہیں یہ کیا اپنے منظور محبت کے ساتھ ایک ہو جاتے ہیں’‘۔ اس کے اندر کا ایک فلسفی بول اٹھا۔
‘‘یہ تم ہر وقت مارنے مرنے کی بات کیوں کرتے ہو؟’‘ محاسن نے پوچھ ہی لیا۔
‘‘ہمارے ہاں غداری کی سزا موت ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل نمبر چھ پر صرف ہم عمل کرتے ہیں’‘۔ وہ اترا کر کہنے لگا۔ پانچواں پیگ پی تقریباً مدہوش ہوکر اپنے ادھر ادھر پھسلتے ڈولتے بلاؤز کو درست کیے بغیر جب وہ تلاش کے گانے پر ناچ رہی تھی۔ وہ اسے گانے کے آخری بو ل۔۔۔ کوئی رین کے چاندنی اترا من کے آنگنا پر گھسیٹ کے بستر تک لے گیا۔ ’‘محاسن نے ایک عجیب پیش کش کی کہ ایک شرط پر وہ اسے سب کچھ کرنے کی اجازت دےگی اگر وہ رسی سے باندھ کر اسی کے بیلٹ سے مارنے کی سہولت دے۔’‘
‘‘یہ کونسی مشکل بات ہے۔ آج وہ جو کار لایا ہے اس میں سب سامان موجود ہے’‘۔ گاڑی سے ایک چھوٹا سا سفری تھیلا وہ نکال لایا جس میں رسی، چھری اور ایک کلاشنکوف دو عدد بھرے ہوئے میگزین سمیت رکھی تھی۔
محاسن نے جب پوچھا کہ ‘‘یہ سب سامان وہ اپنے پاس کیوں رکھتا ہے؟!’‘
‘‘پارٹی کی جانب سے کب جانے کہاں سے کوئی ہدایت مل جائے۔ ہمیں کیا پتہ کس کا ٹکٹ آ گیا ہو۔ ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو ہمیں بھی باندھ کر ہمارے سیف ہاؤس میں اذیت دی جاتی ہے’‘۔ شیری بول رہا تھا اور وہ حیرت سے منھ کھولے اسے تکے جا رہی تھی۔
‘‘کون سی پارٹی؟ کیسا ٹکٹ؟‘‘ محاسن نے پوچھا۔
‘‘پارٹی کا نام تو وہی ہے جو شہر کی ہر پارٹی کا ہوتا ہے۔ ہم آج یہاں تو کل وہاں ہوتے ہیں۔ جہاں بھاؤ اچھا وہاں کام بھی اچھا۔ ٹکٹ کا مطلب ہے کسی کو اب آگے بھیجنا ہے؟’‘ شیری نے اپنے جواب میں کچھ راز کھولے تو نشے میں ہونے کے باوجود کچھ چھپا بھی لیے۔
‘‘آگے کہاں؟’‘ ایک معصومیت اور تجسس تھا کہ محاسن کا دامن ہی ان خوف ناک لمحات میں بھی نہیں چھوڑ رہا تھا۔
‘‘اللہ میاں کے پاس اور کہاں سب وہیں جائیں گے تم بھی، میں بھی۔’‘ شیری کچھ کھل کر بولا۔
تو تم اس بےچارے کو کسی کسی کے کہنے پر مار دیتے ہو؟ پارٹی والے مائی باپ ہوتے ہیں ان کا حکم تو ماننا پڑتا ہے
‘‘کبھی شدید اذیت دے کر، تو کبھی تھوڑی سی قلاقند کھلا کر گولڈ لیف کا سگریٹ پلاکر۔ ہم بھی انسان ہیں۔ آخری خواہش کا احترام کرتے ہیں۔’‘
‘‘یہ آخری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ تمہیں دوسروں کو جان سے مارتے ہوئے کوئی لحاظ اور خوف نہیں آتا۔’‘ محاسن نے بھی سوچ رکھا تھا کہ وہ آج شہر کی سیاست کے بارے میں نہ صرف جان لے گی بلکہ یہ سوال جواب اسے دو طرح سے مدد کر رہے تھے۔ ایک تو ان کی وجہ سے وقت گزرتا جا رہا تھا۔ بعض دفعہ طفیل خان جلد آ جاتا تھا۔ وقت گزرنے کی وجہ سے اس کی آمد ہو جائےگی۔ دوسرے وہ اس کے سامنے شیری کے دو روپ تھے۔ ایک تو وہ انتہائی مہذب، لوئر مڈل کلاس، تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے نوجوان کا روپ تو دوسری جانب ایک سفاک قاتل کا۔ وہ اب اس مخمصے میں تھی کہ اس سے جان کس طرح چھڑائے۔
‘‘آخری بات جو تھوڑی سی قلاقند کھلاکر گولڈ لیف کا سگریٹ پلاکر مارنے والی ہے۔ منا باربر ہمارا ساتھی تھا۔ ظالم کے ہاتھ مکھن تھے۔ شیو ایسی بناتا تھا جیسے ہوا کا جھونکا۔ جیسے بالوں پر استرا ایسے چلاتا تھا ویسے ہی گردن پر بھی چلاتا تھا۔ لگتا تھا ہاتھ کم بخت کے کتھک کر رہے ہوں۔ مجھے پتہ تھا اچھا نہیں ہوا۔ وہ مجبور تو بہن کے سسرال والے شادی کی جلدی کر رہے تھے اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔ بس کسی کو اس نے پیسے پکڑ آ خری واردات کے بارے میں بتا دیا۔ سامنے والے ہوشیار ہو گئے۔ تیار بیٹھے تھے۔ منا پیچھے رہ گیا دونوں ساتھی مارے گئے۔ حکم آ گیا منا کو ٹکٹ دے دو۔ اسے لائے تو پرانی دوستی کے حساب سے پوچھ لیا کوئی آخری خواہش ہے تو کہنے لگا۔ آج بہن کی ڈھولکی ہے۔ میں تو زری دیر میں قلاقند لے کر آنے کا کہہ کر نکلا تھا۔ تھوڑی سی قلاقند کھلا دو گولڈ لیف کا سگریٹ پلا کر۔ قلاقند کا آخری ٹکڑا اس کے منھ میں تھا تو راشد بھائی نے سر پر پیچھے سے گولی ماری، منھ سے سفید قلاقند لال شیرے کے ساتھ باہر نکل آئی۔
محاسن کو یہ سب کچھ سن کر لگا کہ وہ الٹی کردے گی۔ تب اسے اندازہ ہوا کہ اس نے شیری پر بھروسہ کرکے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ اس نے نارمل دکھائی دینے کے لیے پہلی دفعہ جب کلاشنکوف کو چھوا تو اسے لگا کہ مردوں کے دل بھی اتنے ہی ہلاکت آمیز ہوتے ہیں۔ یہ وعدہ لے کر کہ وہ اس کے تشدد آمیز رویے پر جواباً کوئی کاروائی نہیں کرےگا۔ یہ وعدہ کر لینے کے بعدمحاسن نے اس کے پیروں اور ہاتھوں کو رسی کے ساتھ باندھ کر خوب مارا۔ اس کی کمر اور کولہوں کی کھال ادھیڑ کر رکھ دی۔ چند دن پہلے اس نے ایک فلم ’‘سیکریٹری’‘ دیکھی تھی جس میں بی۔ ڈی۔ ایس۔ ایم۔ (اذیت، غلبے، سپردگی تحقیر اور جنس کا ایک ایسا عمل جو پاؤلو کولہیو کتاب دی الیون منٹس کا بھی ایک باب ہے اور مغرب کے بعض حلقوں میں اسے جنسی فعل کے دوران قابل قبول عمل سمجھا جاتا ہے) کا پس منظر تھا اس میں ہیروئین کو لمحات وصل میں اذیت پاکر بہت مزا آتا ہے۔ اسے اس وقت تک جنسی تعلق میں سیرابی نہیں ہوتی۔
جب وہ اسے مارتے مارتے تھک گئی تو اس نے سوچا کہ وہ اسے اپنے ساتھ مزید کچھ نہ کرنے دے گی وہ ڈر بھی رہی تھی۔ شیری نے جب اسے حکم دیا کہ وہ رسی کھول دے اور اس کے زخموں پر اسی کے بیگ سے برنال نکال کر لگا دے۔ محاسن نے رسی کھول کر اسے برنال دے دیا۔ اس دیکھ کر بھی محاسن کو گھن اور خوف آ رہا تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ اس نے یہ کیا اینا کونڈا (شمالی امریکہ کا وہ قوی ہیکل، بے زہر سانپ جو اپنے شکار کے گرد لپٹ کر اس کی ہڈیوں کا سرمہ بنا دیتا ہے اور بعد میں اسے پورا نگل لیتا ہے) پا ل لیا ہے۔ خود معمول کے کپڑے بدل کر آ گئی۔ شراب کے نشے میں اس کے اوسان اب بہت حد تک معدوم ہو چکے تھے۔وہ لڑکھڑا رہی تھی۔ طفیل خان اگر گھر پر ہوتا تو شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا مگر جب شیری نے اس پر پستول تان کر اسے بستر پر دھکیل کر اس کپڑے اتارنے شروع کیے تو اس نے بہت قسمیں دیں مگر وہ نہ مانا۔ اسے کہنے لگا کہ وہ جان لے کہ مرنا مارنا اس کے لیے کوئی انوکھا فعل نہیں ابھی وہ فون کرےگا تو قریب پنجاب کالونی سے چھ ساتھ لڑکے آجائیں گے اور پھر یہ گینگ ریپ اسے برداشت کرنا پڑےگا۔ وہ اس کے کہنے پر اسے بعد میں قتل بھی کر دیں گے۔ شہر میں تو کوئی مائی کا لال ایسا پولیس والا ایسا نہیں جو ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ وہ یہ دیکھے کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی سرکاری گاڑی میں گھومتا ہے۔ محاسن کی یہ دھمکی سن کر گھگھی بندھ گئی۔ اس کا سارا نشہ بھی تب تک ہرن ہو چکا تھا۔
وہ ڈر کے مارے ساری رات اس کے ہاتھوں میں مردہ بنی، لٹتی رہی۔ عورت کو یہ وصف بھی اللہ نے دیا ہے کہ وہ اگر رفاقت کے اس پر لطف عمل میں بارضا شریک نہ ہو تو بہت سلیقے سے اپنی روح کو بدن سے جدا کر لیتی ہے۔
محاسن کا بدن دو دفعہ شیری کے تصرف میں ضرور رہا مگر اس کی روح ایک تاریک کونے میں سمٹ کر اپنی نادانی پر آنسو بہاتی رہی دوسری دفعہ تو اس نے دو تین تھپڑ بھی محاسن کو اسے روکنے پر مارے اور پستول کا دستہ بھی مارنے کے لیے سر تک لے آیا۔۔ اس رات تاسف، پچھتاوا۔ ہوس، انتقام، خود سے نفرت کون سا وہ جذبہ تھا جس نے محاسن پر دھاوا نہ بولا۔
نڈھال ہوکر اپنے بستر پر سوئے ہوئے شیری کو دیکھ اس کے دل میں کئی دفعہ خیال کہ وہ اسی کے پستول سے اس غلیظ وجود کا خاتمہ کر دے۔ یہ خیال اس کے دل میں اس وقت اور بھی تقویت پانے لگا جب وہ اپنے نشے کے توڑ کے لیے کچن میں گئی۔ اس نے اورنج جوس کے ایک گلاس کے ساتھ دوپہر کو لایا ہوا سلاد بھی کھا لیا اور ساتھ ہی دو کیلے اور کیلشیئم اور وایٹامن بی سکس کی گولی بھی کھا لی جس سے اس کے اوسان کچھ بحال ہوئے۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کا مارنے اس کی نہ صرف بدنامی ہوگی۔ بلکہ شیری کے بدن پر مار کے نشان، اس کے کمرے میں ہتھیاروں کی موجودگی۔ ایسے کئی شواہد پولیس کے پاس اس کیس میں اس کے ذاتی مدافعت والے اقدام کی مخالفت کریں گے۔ یہ اگر ریپ بھی ہے تو قانونی اصطلاح میں (Consensual Rape) زنا بالرضا ہے۔ اس طرح کا جرم تو امریکہ میں ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے تو پاکستان میں تو صرف اسی کی جگ ہنسائی اور رسوائی کا باعث بنےگا۔ پھر اس قتل کے نتیجے میں ہونے والی ہر کاروائی سے وہ برباد ہو جائےگی۔ اس طرح کے ریپ کے بارے میں اس نے کبھی عورتوں کے کسی انگریزی رسالے میں ایک مقدمے کی کاروائی پڑھی تھی۔ امریکہ میں کسی ہم جماعت اور اس کے دو عدد بڑی عمر کے مرد دوستوں کے ہاتھوں اس کا ڈیٹ پر ریپ ہوا تھا۔ وکیل صفائی نے عدالتی کاروائی کے دوران جرح کرتے ہوئے پوچھا’‘ کیا یہ بات درست ہے کہ اس کے ہم جماعت لڑکے اس راز سے بخوبی واقف ہیں کہ اسے جلد کی رنگت (Beige)کی لانجرے (lin183ge183rie) بہت پسند ہے‘‘۔
اس سوال کے مضمرات پر غور کریں تو وہ ایک طرح سے اس کے کردار کو بھی یہ کہہ کر زیر بحث لا رہا ہے کہ اس کے اندڑویئرز اور براز کے بارے میں اس کی پسندیدگی کا علم بہت سے لڑکوں کو تھا۔
لڑکی نے سر جھکا کر جواب دیا کہ ‘‘یہ بات درست ہے کہ اسے جلد کی رنگت کی لانجرے بہت پسند ہے’‘۔
کیا وہ یہ بتا سکتی ہے ‘‘واردات کی اس رات بھی اس نے اسی رنگت کی لانجرے پہنی تھی؟’‘ وکیل صاحب نے مزید پوچھا۔
‘‘ممکن ہے’‘۔ لڑکی نے آہستگی سے جواب دیا۔
‘‘جیوری اور فاضل جج اس بات کو نوٹ فرمائیں کہ پولیس کو جرم کو ثابت کرنے کے لیے اس لڑکی نے جو ثبوت مہیا کیے ہیں۔ اس میں برا کی رنگت تو واقعی Biege ہے۔ لیکن پینٹی پھولدار ہے۔’‘ وکیل صفائی نے ایک فاتحانہ انداز میں اپنا پوائنٹ رجسٹر کرایا۔
انہیں خیالات میں غلطاں اس نے فیصلہ کیا کہ فی الحال وہ اسے راز کو خاموشی سے نبھائے بعد میں دیکھا جائےگا۔ وہ چپ چاپ اسٹڈی میں آن کر بیٹھ گئی اور جتنی دعائیں اور وظائف یاد تھے پڑھنے لگی۔ گیٹ پر گھنٹی بجی تو گارڈ نے دروازہ کھولا۔
طفیل خان آج صبح معمول سے پہلے ہی لوٹ آیا تھا۔ اس نے فون بجنے کی گھنٹی بھی سنی تھی اور کچن میں شیری کے ناشتے کرنے کی آواز بھی اسے سیٹی بجاتی کیتلی کی وجہ سے آئی تھی۔ اس نے اپنی اسٹڈی کے پردے کی اوٹ سے دیکھا کہ شیری کو طفیل خان گیٹ کے پاس ملا مگر اس کی آنکھوں میں ایک ناپسندیدہ حیرت شیری کے لیے اس لیے تھی کہ اس نے کبھی بھی وہاں رات کو قیام نہیں کیا تھا۔ شیری ایسا لڑکا نہ تھا جس کے لیے کوئی شریف گھرانہ اپنے گھر کا دروازہ کھولتا۔ اس نے طفیل خان کو اشارے سے بتایا کہ اسے فون آ گیا ہے اس لیے وہ جلدی میں جا رہا ہے۔
شیری جب چلا گیا تو محاسن کچن میں ناشتے کے لیے آئی تو اس نے دیکھا کہ طفیل خان کی آنکھوں میں بےچارگی، افسوس اور اس سے ناپسندیدگی کے جذبات بیک وقت موج زن تھے۔ اسے لگا کہ وہ اس کی اس نادانی پر دل ہی دل میں آنسو بہا رہا ہے۔ اس نے اشاروں سے محاسن سے دریافت کیا کہ کیا شیری رات کو اس کے پاس ٹہرا تھا؟ جواب میں محاسن کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تو طفیل خان نے اپنے کرب کا اظہار کیا کہ یہ سب کچھ اس کی غیرموجودگی کی وجہ سے ہوا۔۔۔ اس نے محاسن کے پیر پکڑ لیے اور کاغذ پر لکھ کر بتانے لگا کہ وہ اپنی بہن پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے پہلے ہی بہت پریشان تھا۔ اب اسے لگ رہا کہ اس کے گھر کی دو محترم خواتین کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ اس کی سمجھ میں
نہیں آ رہا کہ وہ کیا کرے۔ وہ اپنا سر دیوار پر مارنے لگا تو محاسن نے اسے پرسکون کرنے کے لیے پانی کا گلاس دیا اور چھت کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگی کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے۔ وہی بدلہ لےگا۔
دفتر پہنچی تو اسے بتایا گیا کہ آج چیمبر میں الیکشنز ہیں۔ ایک صدارتی امیدوار اسے لینے کے لیے اپنے بہنوئی کو روانہ کر چکے ہیں۔ چیمبر کے الیکشن میں بہت گہما گہمی تھی۔ محاسن کو اگر یہ پہلے سے معلوم ہوتا کہ فرحان بھی وہاں آیا ہوا ہے تو شاید وہ وہاں جانے سے اجتناب کرتی۔اس کی ملاقات فرحان سے بہت اچانک ہوئی۔ زبیر صاحب جن کے کہنے پر وہ انہیں ووٹ ڈالنے آئی تھی۔ وہ اسے بالکل بیٹیوں کا درجہ دیتے تھے۔ اس کے ابو کے بھی بہت اچھے دوست تھے۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے ایک گروپ سے ملانے لے گئے۔ فرحان وہاں اس گروپ میں موجود تھا۔ محاسن نے دیکھا کہ وہ اس کو اچانک وہاں موجود پاکر کچھ ہڑبڑا سا گیا مگر جلد ہی سنبھل کر کہنے لگا کہ ‘‘چلو کینٹین میں چائے پیتے ہیں’‘۔ محاسن نے سوچا کہ سچ کو سامنے لانے کا اس بہتر موقعہ اسے شاید پھر نہ ملے۔ وہ اس خیال کو دل میں سمائے اس کے ساتھ جاکر ایک کونے والی میز پر سب کی طرف پشت کرکے کھڑکی کے سامنے بیٹھ گئی۔ کھڑکی کے باہر الیکشن کی بہت ہما ہمی تھی۔ کینٹین میں بہت تھوڑے لوگ تھے۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اسی نے مہر سکوت توڑی۔ اس تمام عرصے میں وہ اس کے جذبات کے چہرے پر جائزہ لیتا رہا۔
‘‘بیگم کیسی ہیں اور بیٹی کا نام کیا رکھا ہے؟’‘ محاسن نے ہمت کرکے سوالات کے اسلحہ میں سے پہلا فائر داغا۔
‘‘بیگم تو سامنے بیٹھی ہیں۔ وہ بتا سکتی ہیں وہ کیسی ہیں مجھے تو ہمیشہ سے اچھی لگتی ہیں؟’‘
‘‘شٹ۔ اپ ‘‘محاسن نے غصے سے کہا
‘‘یہ ہمیشہ کی ہدایت ہے یا صرف موقعے کی رعایت سے حکم دیا گیا۔’‘
‘‘یو آر میریڈ آئی نو ‘‘ محاسن نے جتایا
‘‘میرا خیال تھا کہ آپ کو ہم دونوں کی شادی کایہ اعتراف کرنے میں ہمیشہ تامل رہا۔’‘
‘‘آئی ایم ناٹ یور وائف۔’‘
‘‘دین نو باڈی ایور ول بی آئی ایم پرمیننٹ وڈور۔’‘
‘‘یو آر ناٹ سیریس۔ بیٹی کا نام کیا ہے۔’‘
‘‘بیٹی کا نام وہی ہوگا جو تم رکھوگی۔’‘
جس وقت محاسن نے اس سے یہ کہا کہ ‘‘آر یو شیور یو آر ناٹ میریڈ؟‘‘ اس کے کانوں میں شیری کے وہ الفاظ پگھلا ہوا سیسہ بن کر گھل رہے تھے کہ ‘‘بیڈ نیوز یہ ہے کہ انہوں نے شادی کر لی ہے اور ان کی چھ ماہ کی بچی ہے’‘۔ انتقام کے انہیں جذبات سے مغلوب ہوکر اس نے شیری کو اس رات اپنے بیڈ روم میں مدعو کیا تھا۔ وہ مناظراب ایک ایک کرکے اپنے اصل ترتیب سے تیزی سے اس کی نگاہوں میں گردش کر رہے تھے اسے شیری کا وہ جواب بھی یاد آیا جو اس کے سوال ‘‘کیا واقعی بابا غلام رسول نے اسے یہ بتایا تھا کہ فرحان کی شادی ہو گئی ہے؟’‘
‘‘نہ صرف آپ کے قبلہء مقصود نے شادی کر لی ہے مگر ان کی ایک چھ ماہ کی صاحب زادی ہے۔ آپ اس پیار پر فاتحہ پڑھ لیں۔ کم از کم آج کی رات تو حاضر کو حضور سمجھیں۔’‘ اس انکشاف سے اس کا دل کرچی کرچی ہو گیا تھا۔ جس کا ان نے بہت لطف لیا تھا۔
اسے ایسا لگا کہ چیمبر کی ساری عمارت اس پر گر پڑےگی۔ وہ اسے کہنے لگی پلیز مجھے گھر چھوڑ دو یا اپنے ساتھ کہیں لے جاؤ۔ وہ بہت سلیقے سے اسے تھام کر پچھلے دروازے سے اسے پہلے تو باہر لے آیا اور پھر گاڑی میں بٹھانے لگا تو اس نے کہا کہ وہ پہلے گھر چلے۔ دفتر فون کرکے اس نے گاڑی وہیں گھر پر منگوا لی۔ اپنی ایک دوست کو فون کیا کہ وہ فوراً اپنی سائکاٹرسٹ کو فوری طور پر ملنے کا کہے۔
گھر سے وہ سیدھی وہاں فرحان کے ساتھ پہنچی۔ اسے خیال ہوا کہ بعد میں اگر کبھی اسے اپنی اس ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے تو فرحان کو اس بارے میں پہلے سے علم ہونا ضروری ہے ورنہ بعد میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی تھیں۔ ڈاکٹر جو خود بھی بہت سائشتہ اور ہمدرادانہ رویوں کی مالک تھی اسے محاسن نے سب کچھ اسے مکمل تفصیلات کے ساتھ بتا دیا۔ ڈاکٹر نے جو حال ہی میں باہر سے ایک پین منیجمینٹ کی تربیت اور پاسائکومیٹک میڈیسن کی ڈگر ی امریکہ سے لے کر آئی تھی۔ اس کا ان دنوں شہر میں بہت چرچا تھا۔ ڈاکٹر نے اس کی پوری روداد بہت اطمینان سے سنی اس دوران وہ مسلسل نوٹس بھی لیتی رہی۔ محاسن کو اپنی روداد سناتے وقت اس نے نہ تو کوئی سوال پوچھا نہ ہی اسے درمیان میں کبھی ٹوکا۔ محاسن نے بھی الف سے لے کر یے تک اسے پوری تفصیلات بلا کم و کاست کے سنا دیں۔
ڈاکٹر نے اسے سمجھایا کہ سب سے پہلے تو وہ اس ایک سوال سے نجات حاصل کرے جو اسے بار بار پچھتاؤں کی جانب دھکیلےگا اور اسے ایک مسلسل ڈیپریشن کی مریضہ بنا دےگا کہ ‘‘اس نے شیری پر بھروسا کیوں کیا؟’‘ دنیا میں اکثر جرائم اس لیے وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ ہم سب اپنے آپ کو اپنے حالات کا مکمل کنٹرولر سمجھتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت ہم ملزم کی جرم کرنے کی صلاحیت۔ اس کی جنسی، سماجی اور مالی محرومیاں مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کے ہمارے بھروسے کا بھرپور فائدہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں استعمال کرنے کی موقع پرستی کا ہمیں کوئی ادراک نہیں ہوتا۔ ایک طرح سے ہم خود بھی اس کا شکار بننے کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر پروگرام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ نوجوان جن میں ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہو جیسے کہ شیری میں تھی ان میں اپنی سماجی اور مالی محرومیوں کے دباؤ کی وجہ مجرمانہ صلاحیتیں جلد ابھر آتی ہیں۔ ملک میں تشدد آمیز سیاست نے انہیں قانون کے ہاتھوں سے محفوظ بھی بنا دیا ہے۔ سیاسی پارٹیاں ان کی انہیں محرومیوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل میں کھل کر استعمال کرتی ہیں۔ اسی سرپرستی کی آڑ میں وہ انہیں بدکرداری کی طرف بھی دھکیلتی ہیں۔ ان کا یوں کرمنل ریکارڈ تیار ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے ان کا استحصال کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
اس پس منظر کو بطور تشخیص بیان کرکے اس نے صرف ایک سوال پوچھا کہ ’‘کیا کبھی اسے لگا کہ شیری کا تعلق جرائم کی دنیا سے ہے اور اس میں اپنے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ آنے پر وائلنٹ ہونے کی صلاحیت ہے’‘۔ محاسن نے ذہن پر زور ڈالا تو اسے یاد آیا کہ اس بات کا اشارہ شیری نے کل دو دفعہ دیا تھا ایک تو پہلی ملاقات میں ماچس پیش کرتے وقت اس نے ایک جملہ بطور مذاق کہا تھا کہ یوں بھی مجھے اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو گاڑیوں کو آگ لگانے میں بہت مزہ آتا ہے’‘۔ اس حوالے سے دوسرا اشارہ اسے اس وقت ملا تھا جب شیری کو محاسن نے طفیل خان کی اسے پیار سے دیکھ کر جلنے والی عادت کے بارے میں بتایا تھا اور اس کا رد عمل جاننے کے لیے پوچھا کہ کہیں یہ نہ ہو کہ وہ غصے میں آن کر ایک دن مجھ پر پستول تان لے۔ خیبر پختونخواہ کا جواں مرد ہے ہتھیار ہر وقت اپنے نیفے میں اڑسے رہتا ہے اور ایمان کا مجھے علم نہیں اور تم انچولی والے’‘ہم ہیں راہی پیار کے سے کچھ نہ بولیے۔’‘ گاتے رہ جاؤگے۔
شہر یار مرزا نے اس کی یہ بات سن کر کچھ دیر توقف کیا اور کہنے لگا ‘‘اگر ایسا ہوا تو ایک بوری اس دن خوشحال خان ایکسپریس کے ڈبے سے ملےگی جس میں گونگے پہلوان استاد طفیل خان کی لاش بند ہوگی۔’‘
‘‘ہائے تم بھی اتنے وائلنٹ ہو’‘۔ محاسن نے یہ بات سن کر اسے جتلایا۔
‘‘صرف تیرے معاملے میں بسنتی’‘۔ شہریار مرزا شوخی میں آن کر کہا۔ ڈاکٹر کہنے لگی۔
‘‘ This was not a joke. These were all first tell-tale signs of his criminal behavior and hi nefarious linkages.Every day you hear such stories. People settle their scores by using such criminal elements. You completely ignored this important warning about him.No more regrets now’‘
(یہ سب کچھ محض ایک مذاق نہ تھا۔ یہ اس کی مجرمانہ ذہنیت اور جرائم کی دنیا سے اس کے رابطوں کی واضح نشانی تھی۔ تم تو روزانہ اس طرح کی وارداتوں کا سنتی ہو۔ لوگ اپنے بدلے اسی طرح کے مجرموں کو استعمال کرکے لے رہے ہیں۔اس کے باوجود تم نے اسے باآسانی نظرانداز کر دیا۔ مگر اب اس پر پچھتانے کو کچھ فائدہ نہیں)
محاسن کو اس کی بات سے کچھ دھاڑس بندھی تو وہ اسے کہنے لگی کہ اس کے لیے فوری طور پر تین ہدایات ہیں جن پر وہ عمل کرےگی تو بہتر ہے۔ سب سے پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ اس واردات کے حوالے سے وہ کسی سے کوئی تذکرہ نہ کرے۔ مکمل خاموشی اختیار کرے۔ اس حوالے سے سوائے اپنی ڈاکٹر کے مزید کوئی گفتگو اور راز افشانی کرنے کی ضرورت نہیں۔فرحان کو تو کبھی بھی اس حوالے سے کچھ نہیں بتانا۔ موقع آئےگا تو وہ خود اس معاملے میں اس کی رہنمائی کرےگی۔
دوسرے اس باب میں محاسن کی جانب سے احساس جرم قابل فہم ہے۔ انتقام اور اپنا احساس تنہائی مٹانے کے تحت اس نے شیری کو اپنے گھر بلایا تھا۔ بعد میں جب اسے لگا کہ یہ سب کچھ ٹھیک نہیں تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہ واردات ہر اس خاتون کے ساتھ ہو سکتی ہے جو کسی مرد پر بھروسہ کرتی ہو۔اس جرم کا بڑا حصہ تو وہ ہے جو کسی اجنبی اور کسی سے غیروابستہ عورت یا لڑکی کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے۔ ریپ میں عورت کو مورد الزام ٹہرانا مناسب نہیں۔چونکہ عدالتیں اور تفتیش کاروں کی اکثریت مردوں پر مشتمل ہوتی ہے لہذا وہ یہ بات کبھی بھی نہیں جان پائیں گے۔ وہ خود کو ابھی اسی وقت باور کرائے کہ جو کچھ ہوا اس میں اس کا کوئی قصور نہیں۔
تیسری اہم ہدایت یہ ہے کہ وہ اگر اس سے دوبارہ رابطہ کرے تو وہ نہ تو فون لے نہ اس کے پیغام کا جواب دے وہ اس کا کھویا ہوا اعتماد حاصل کرنے کے لیے معافی مانگنے کا کہےگا۔ اگر اس کا رابطے پر اصرار بڑھے تو وہ ایک سلیقے سے اس کی بڑی بہن جو اس کی مالی امداد کی وجہ سے اپنی گھر کی ہو گئی ہے۔ اس کی خدمات حاصل کرے۔ کسی طور پر بھی اس میں وہ Outside Institutional Intervention (بیرونی ادارہ جاتی مداخلت)۔ لینے کی ضرورت نہیں اس کا بہت فال آؤٹ ہوگا۔ جس کا کنٹرول محاسن کے لیے بہت مشکل ہوگا۔ اس کے اثرات اس کے کنٹرول سے باہر ہوں گے اور راز داری کا جو اہتمام اس پورے معاملے میں لازم ہے وہ اس مداخلت کے بعد ممکن نہ رہےگا۔ کوشش کرے کے اگر وہ اسے تنگ کرتا ہے یا رابطے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کا واردات کا شور Muffle)۔ آواز گھونٹ دینا) کرکے اس کے گھریلو کنٹرولر کو بیان کرے۔ جیسے وہ کچھ ایسے مطالبات کر رہا ہے جو پہلے تو نارمل سمجھے جاسکتے تھے۔ اب چونکہ اس کا منگیتر پاکستان آ گیا ہے لہذا اس سے ملنا جلنا اس کے اور اس کے منگتیر کے آئندہ کے تعلقات پر برا اثر ڈالےگا۔ اس کے سابقہ جرم عینی ریپ کے بارے میں ہرگز اس کی بہن کو نہ بتائے۔ ہماری اگلی ملاقات جب وہ چاہے ہوسکتی ہے۔ اس کی جانب سے وہ مطمئن رہے۔
ڈاکٹر سے مل کر محاسن کو ایک گونہ اطمینان ہوا۔ اس نے سب کچھ سن نے سے پہلے اسے پرسکون بنانے کے لیے دو عدد ٹیبلیٹس بھی دی تھیں جس کا اس کے مزاج پر بہت خوش گوار اثر ہوا۔
وہاں سے باہر آئے تو فرحان ضد کرکے اسے ایک عمدہ کلب میں کھانے پر لےگیا۔ وہ اسے نظر انداز کرنے کا صرف ایک جواب پیش کرتا رہا کہ اس کی مالی حیثیت اور باپ کی ملازمت کا طعنہ اس کی انا کو پاش پاش کر گیا تھا۔ اسے محاسن کے پیار پر پورا بھروسا تھا۔ وہ اسے بہتر حیثیت میں اپنی شریک حیات بنانا چاہتا تھا۔ پانچ بڑے ہسپتالوں اور لیبارٹریوں سے ملنے والے ارڈرز ن نے اس کی مالی حیثیت میں نمایاں تبدیلی کر دی ہے۔ اپنی کمپنی کا نام بھی اس نے محاسن اینڈ فرحان اسوشیٹس رکھا ہے۔ اس کے شناختی کارڈ کی ایک کاپی اس کے پاس موجود تھی جس کی وجہ سے کمپنی میں اسے شراکت دار بنانے پر اسے کوئی دشواری نہ ہوئی۔ یوں بی اس کے تعلقات کی وجہ سے یہ سب کچھ باآسانی ہو گیا۔ وہ اس سے نہ ملنے کے باوجود اس کے کاروبار میں برابر کی شریک ہے۔
محاسن کو اگر اعتراض نہ ہو تو وہ جب چاہے شادی کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے منیب کو تو اپنے ایک دوست کے ذریعے کل ہی پیغام دیا جس کا جواب اسے آج ہی یہ موصول ہوا کہ وہ محاسن اور وقاص سے پوچھ کر بتائےگا۔
محاسن نے سب کچھ فرحان سے پوچھ کر اسے یقین دلایا کہ اسے کوئی اعتراض نہیں۔ دفتر پہنچ کر اس نے طفیل کو گھر جانے کی چھٹی دے دی۔ اب اکثر یوں ہوتا تھا کہ یا تو محاسن شب کو فرحان کے گھر ہوتی تھی یا فرحان محاسن کے پاس رہنے آ جاتا تھا۔ اس بات کو ایک ماہ ہو چلا تھا۔ وقاص بھی مان گیا تھا۔
محرم کا مہینہ اگر شروع نہ ہوا ہوتا تو یہ شادی جلد ہو جاتی مگر پھر سب نے یہ فیصلہ کیا کہ چہلم کے فوراً بعد ایک سادہ سی تقریب میں شادی کر لیں گے۔ شیری نے اس دوران اسے کئی دفعہ فون کرنے اور میسج دینے کی کوشش کی وہ ڈاکٹر کی چیتاونی کی حوالے سے اپنے رویے کے بارے میں شرمندہ تھا۔ وہ اس ملنے کی اجازت دے، وہ آئندہ کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں کرےگا۔
نبیلہ کو محاسن نے جب یہ بتایا کہ شہداء کربلا کے چہلم کے بعد وہ اور فرحان شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔ وہ اب اپنی سابقہ خرابیوں سے دور ہوکر ایک نیک زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ شیری اس بات کو سمجھ نہیں رہا اور اس کا برتاؤ بہت غیر ذمہ دارانہ ہے ان دونوں نے آپس کے مشورے سے کار بھیج کر اس کی بہن کو جس کی شادی میں یہ دونوں پیشپیش تھیں حتیٰ کہ شادی کے لیے لڑکا بھی نبیلہ نے ڈھونڈکر نکالا تھا۔ نبیلہ کے گھر بلایا۔ زیادہ تر گفتگو نبیلہ نے ہی کی۔ بہن نے وعدہ کیا کہ شیری اب کبھی انہیں تنگ نہیں کرےگا اور وہ اسے محاسن سے اب کسی قسم کا رابطہ کرنے سے باز رکھے گی، اس گفتگو کا فوری اثر ہوا اور وہ کچھ دنوں کے لیے غائب ہو گیا۔
یہ دن محاسن کی زندگی کے حسین ترین دن تھے۔ اب وہ دھڑلے سے فرحان کے ہاں جاتی۔ فرحان کی ضد تھی کہ وہ شادی کے بعد اس کے گھر پر رہیں گے۔ محاسن کے ساتھ والا گھر جو بہت دنوں سے خالی تھا اس کو خریدنے کے لیے فرحان نے کوشش شروع کر دی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ بعد میں وہ اپنا گھر بیچ کر بہنوں کا حصہ بھی انہیں دے دےگا اور گھر بڑا ہوگا تو وہ اسے نئے انداز سے سجائیں گے۔ محاسن اپنی شادی کے سامان کی خریداری کے لیے دوبارہ لندن گئی تو ایک ہفتے بعد ہی وہ اسے لینے پہنچ گیا دونوں نے پیرس اور ایمسٹرڈم ساتھ گھوما اور دو ہفتے کی غیرحاضری کے بعد دونوں ساتھ ہی واپس آ گئے۔
وہ رات یوں بھی عجیب تھی کہ طفیل خان جس نے گاؤں سے دو دن پہلے پہنچنا تھا وہ اب تک نہ آیا تھا۔ شام سے برسات بھی بہت تھی۔ فرحان کے ساتھ جب وہ دفتر سے گھر پہنچی تو برگنڈی بھی بیمار بیمار سی لگی۔ دو دن سے ویسے بھی کھانا پینا اس نے کم کر دیا تھا۔ محاسن کی مرضی تھی کہ وہ اسے جانوروں کے کسی ڈاکٹر کو دکھانے لے جائیں مگر بحث و تمحیص میں رات زیادہ ہو گئی فرحان نے اسے یقین دلایا کہ صبح کو پہلا کام وہ اسے ڈاکٹر کو دکھانے کا کریں گے۔ اس رات محاسن اپنی غلطی کے ازالے کے لیے پہلے تو اس کے ایبا گروپ کے مشہور گیت The Day before you came پر مچلتی تھرکتی رہی۔پھر جامنی رنگ کی ساڑھی، کردھانی پہن کر وہ وکٹوریہ سکیرٹ کی برا میں وہی وہسکی کے دو جام چڑھا کر اسی کے پسند یدہ گیت ظلمی رات ما۔۔۔ ارے اونس اونس۔۔۔ او کانچا۔۔ آج تو ظلمی رات ما، دھرتی پر ہے آسماں، کوئی رے بن کے چاندنی اترا من کے آنگنا پر اکیلی ناچتی رہی۔ اس رات وہ پیار کرتے کرتے ایک دوسرے کی بانہوں میں سمٹ کر سو گئے۔
شیری صبح کوئی پانچ بجے تین لڑکوں کے ساتھ آیا۔ سائلنسر لگے پستول سے پہلے تو انہوں نے گارڈ کو قتل کیا۔ ایک گولی اس نے برگنڈی کو بھی ماری، جو پہلے تو ہلکا سا بھونکی تھی مگر اسے سونگھ کر اور پہچان کرچپ ہو گئی تھی۔ بعد میں ان چاروں نے کھڑکی توڑ کر محاسن اور فرحان کو باہر ہی سے گولیاں ماریں۔ چونکہ پستولوں پر سائلنسر لگے تھے لہذا کچھ شور شرابہ نہ ہوا۔ اس کے ساتھ آئے تین لڑکوں کا خیال تھا کہ وہ لائنز ایریا سے گاڑی اور دو لڑکے اور لے آئیں گے اور سامان بھر کے لے جائیں گے تو پولیس قتل کی اس واردات کا تعلق ڈکیتی میں مزاحمت کے شبے سے جوڑ دےگی۔ پولیس کو اس سلسلے میں مناسب طور پر ہدایات دے دی جائیں گی۔ پولیس کا انہیں کچھ خوف نہ تھا مگر میڈیا کو اس لوٹ مار کی وجہ سے آف ٹریک کرنا آسان ہوگا۔ یوں کسی کا دھیان شیری کی طرف بھی نہ جائےگا۔ وہ اسے وہیں چھوڑ کر چل دیے ان کا مشورہ تھا کہ آتے آتے چھ بج جائیں گے لہذا وہ صبح آٹھ بجے تک نئے گارڈ کے آنے سے پہلے پہلے نکل لیں گے۔ وہ کچھ دیر سو لے ان کی جانب سے فون پر مس کال آئے تو وہ گیٹ پر آ جائے۔ چھوٹا گیٹ وہ کھلا ہی چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
طفیل خان بھی ایک رات پہلے گاؤں سے آیا تھا مگر اس نے اپنی آمد کی اطلاع کسی کو نہ دی، نہ محاسن کو نہ شیری کو۔ اس نے اپنے بہنوئی اور اس کی نئی بیوی کو اسی کے گھر میں اسی رات دو بجے قتل کیا جس رات شہریار گروپ نے محاسن اور فرحان کو مارا۔ وہ وہیں بہنوئی کے گھر پر نہایا دھویا۔ اپنے کپڑے تبدیل کیے اور محاسن کے گھر کی جانب چل پڑ۔ جس وقت وہ پہنچا اس نے دیکھا کہ گیٹ پر گارڈ موجود نہ تھا اور چھوٹا دروازہ بھی کچھ اس انداز میں کھلا تھا جیسے کسی کو اس سے باہر نکلتے وقت جلدی ہو اور وہ اسے ٹھیک سے بند کرنا بھول گیا ہو۔ کیاری کی ساتھ والی مٹی پر تازہ تازہ موٹرسائیکلوں کے ٹائروں کے جدا جدا نشان تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ بنگلے میں کوئی واردات ہوئی ہے۔ اسے جنڑیٹر کے پیچھے سے گارڈ کے پیر دکھائی دیے، اپنا پستول ہاتھ میں لیے جب وہ آگے بڑھا تو خون کی ایک دھار نکل کر آگے بہہ رہی تھی۔ گارڈ کے سر میں پیچھے سے گولی ماری گئی تھی۔ برگنڈی بھی اس کے پاس مردہ حالت میں پڑی تھی۔ بنگلے کے اندر وہ کچن کے راستے تالا اپنے پاس موجود چابی سے کھول کر داخل ہوا تو رات بھر کا جاگا شیری پستول سرہانے رکھے سو رہا تھا۔ وہ چپ چاپ اوپر کوئی شور مچائے بغیر گیا تو بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا۔ محاسن کی لاش بستر پر موجود تھی۔
ایک باریک سی جامنی ساڑھی میں لپٹی البتہ اسے لگا کہ ساتھ کی میز سے فون اٹھانے کی کوشش میں فرحان کو گولی اس طرح لگی تھی کہ اس کا آدھا دھڑ بستر پر اور آدھا بستر سے نیچے جھول گیا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس ورادات کا مرکزی کردار شیری ہے جسے فرحان کے آنے پر بادل ناخواستہ محاسن کی زندگی سے جانا پڑا۔ اس نے محاسن اور فرحان سے انتقام لیا ہے۔ یہ سب کچھ سوچ لینے کے بعد وہ بہت آہستگی سے کچن میں آیا اپنے پستول میں نیا میگزین لوڈ کیا اور کسی شور کے بغیر اس نے شہریار کے سر کے عین اوپر جاکر چھ کے چھ گولیاں اس طرح ماریں کہ ہر طرف اس کے دماغ کے لوتھڑے دیوار سے اور صوفے کے کشنز سے چپک گئے۔
فائرنگ کے شور سے پاس پڑوس کے گارڈ اور پولیس والے بھی پہنچ گئے۔ طفیل خان کا سکون اور اطمینان سبھی کے لیے باعث حیرت تھا۔
شناخت میں کوئی دشواری نہ ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.