منشی اندرمنی کی آمدنی کم تھی۔ اور خرچ زیادہ۔ اپنے بچے کے لئے دایہ رکھنے کا بار نہ اٹھاسکتے تھے۔ لیکن ایک تو بچے کی مناسب پرورش کی فکر۔ دوسرے برابر والو ں سے کمتر معلوم ہونے کا خدشہ انہیں دایہ رکھنے پر مجبور کررہا تھا۔ بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا۔ ہر وقت اس کے گلے سے چمٹا ہی رہتا۔ اس لئے وہ اور بھی ضروری معلوم ہوتی تھی۔ لیکن شاید ان سب سے بڑا باعث یہ بھی تھا کہ اخلاقی کمزوری اور مروت کے پیش نظر وہ اسے جواب دینے اور علیحدہ کرنے کی جرأت ہی نہ کرسکتے تھے۔
بڑھیا ان کے ہاں تین برس سے ملازم تھی۔ اس نے ان کے اکلوتے لڑکے کی غورو پرداخت کی تھی۔ اپنا کام انتہائی محنت اور مستعدی سے کرتی تھی۔ علیحدگی کرنے کا کوئی بہانہ ہی نہیں تھا۔ اور یونہی عذر اور حیلے پیش کرنا ان جیسے آدمی کے لئے بہت مشکل تھا۔ لیکن سکھدا اس معاملہ میں اپنے خاوند سے متفق نہ تھی۔ اسے شک تھا کہ دایہ انہیں لوٹ رہی ہے۔ جب وہ بازار سے لوٹتی تو وہ دالان میں چھپ جاتی کہ دیکھوں کہیں آٹا وغیرہ چھپاکر تو نہیں؟ لکڑی ادھر ادھر تو نہیں کرلیتی؟ اس کی لائی ہوئی چیزوں کو گھنٹوں دیکھتی اور پوچھ گچھ کرتی رہتی۔ بار بار دریافت کرتی۔ اتناہی کیوں؟ کیا بھاؤ ہے؟ کیا اس قدرمہنگا ہوگیا؟ وہ کبھی تو ان شکوک سے لبریز استفسارات کا جواب نرمی سے دے دیتی اور کبھی بہوجی کی زیادتی پر کڑا لہجہ اختیار کرلیتی۔ حلف اٹھاتی۔ صفائی کی شہادتیں پیش کرتی۔ بحث مباحثہ گھنٹوں جاری رہتا۔ ہر روز تقریباً یہی حال ہوتا اور عموماً دایہ کے آنسوؤں پر ہی یہ کھیل ختم ہوتا۔ اس کی اس قدر سختیاں اور کڑا برتاؤ سہہ کر بھی ان کی ملازمت سے چمٹے رہنا سکھدا کے شک کو اور بھی مضبوط کردیتا تھا۔ اسے یہ وشواس ہی نہ ہوتا تھا۔ کہ بڑھیا محض بچے کی محبت کے لئے ہی ان کے ہاں رکی ہوئی ہے۔ وہ دایہ کو اس قدر حساس اور پیار سے بھری نہیں سمجھتی تھی۔
شومئے تقدیر سے ایک دن دایہ کو بازار سے لوٹنے میں ذرا دیر ہوگئی۔ وہاں دو کنجڑیوں میں ہنگامہ خیز معرکہ جاری تھا۔ ان کا دلچسپ جنگ۔ آتشیں سوال جواب۔ دل چھیدنے والے طنز اور جملے سبھی حیرت انگیز تھے۔ زہر کے دو دریا تھے یا جوالا کے پہاڑ جو دونوں طرف سے امڈ امڈ کر واپس میں ٹکرا رہے تھے۔ فقروں میں کیا بہاؤ تھا۔ پھبتیوں میں کیسی روانی تھی؟ ان کی نئی نئی ترکیبیں۔ اچھوتی تشبیہیں، پر لطف ا ستعارے دکھتی رگیں، پکڑنے کی جدید کوششیں سبھی ایسی تھیں کہ کوئی بھی شاعر ان پر فدا ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ ان کی متانت اور سکون دونوں تعجب انگیز تھے۔ تماشائیوں کا اچھا خاصہ ہجوم تھا۔ شرم کو بھی غرقِ خجالت کرنے والے اشارے، وہ پست طعنے اور فقرے جو ذلالت کی انتہائی گراوٹ کے مظہر تھے۔ سینکڑوں سننے والوں کے لئے تفریحِ طبع کاسامان مہیا کر رہے تھے۔
وہ بھی رک گئی۔ کہ دیکھوں کیا معاملہ ہے؟ تماشہ اس قدر تفریحی تھا کہ اسے وقت کابالکل دھیان ہی نہ رہا۔ یکایک جب نو کے گھنٹہ کی آواز کانوں پر پڑی تو چونک اٹھی اور گھبراکر گھر کو لپکی۔
سکھدا بھری بیٹھی تھی۔ دایہ کو دیکھتے ہی خشمگیں ہوکر بولی، ’’کیا بازار میں کھوگئی تھی؟‘‘
دایہ آہستہ سے بولی، ’’ایک جان پہچان کی کہارن سے ملاقات ہوگئی تھی۔ اس سے باتو ں میں لگ گئی۔‘‘
سکھدا اس جواب سے اور بھی چڑ گئی، ’’یہاں دفتر جانے میں تاخیر ہورہی ہے اور تمہیں سیر سپاٹے کی سوجھ رہی ہے۔‘‘
دایہ نے اس وقت دب رہنے میں ہی خیریت سمجھی۔ بچے کو گود میں لینے لگی۔ لیکن سکھدا نے جھڑک کر کہا۔ رہنے دو۔ تمہاری بغیر وہ بیتاب نہیں ہوا جارہا۔ ا س نے اس حکم کی تعمیل ضروری نہیں سمجھی۔ بہوجی کا غصہ فرد کرنے کےلئے اسے اور کوئی ترکیب نہ سوجھی۔ اس نے رودر منی کو اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلائے لڑکھڑاتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔ دایہ نے اسے گود میں اٹھالیا اور دروازہ کی طرف بڑھی۔ لیکن سکھدا عقاب کی طرح جھپٹی اور بچہ کو اس کی گود میں سے چھین کر بولی، ’’تمہارا یہ فریب اورمکاری کئی روز سے دیکھ رہی ہوں۔ یہ تماشے کسی اور کو دکھانا میں تو سَیر ہوچکی ہوں ان سے!‘‘
دایہ رودر پر جان چھڑکتی تھی۔ اور سمجھتی تھی کہ سکھدا اس بات سے بخوبی واقف ہے۔ اس کے خیال کے مطابق اس کے اور سکھدا کے مابین یہ ایسا قوی تعلق تھا۔ جسے معمولی جھٹکے توڑ نہ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے کڑے الفاظ سن کر بھی اسے یقین نہ ہوا تھا۔ کہ وہ مجھے نکالنے پر تلی ہوئی ہے۔ لیکن سکھدا نے یہ باتیں کچھ ایسی سختی سے کہیں اور رودر کو اس طریقہ سے اس کی گود میں سے چھینا کہ دایہ برداشت نہ کرسکی اوربولی، ’’بہوجی! مجھ سے کوئی اتنی غلطی تو ہوئی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ پاؤ گھنٹے کی دیر ہی ہوئی ہوگی۔ اسی پر آپ اتنا بگڑ رہی ہیں۔ تو صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ دوسرا گھر تلاش کرو۔ بھگوان نے پیدا کیا ہے تو کھانے کو بھی دے گا۔ مزدوری کا کچھ قحط تو نہیں۔‘‘
سکھدا نے کہا، ’’تو یہاں تمہاری پرواہی کون کرتا ہے۔ تم جیسی لونڈیاں دربدر ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں۔‘‘
دایہ بولی، ’’ہاں! بھگوان آپ کو بخیریت رکھیں۔ لونڈیاں اور دایاں آپ کوبہت ملیں گی۔ مجھ سے جو کچھ قصور ہوا۔ معاف کیجئے گا۔ میں جاتی ہوں۔‘‘
’’جاکر مردانے میں اپنا حساب صاف کرلو۔‘‘
’’میری طرف سے رودر بابو کو ان کی مٹھائی منگوادیجئے گا۔‘‘
اتنے میں اندرمنی بابوبھی باہر سے آگئے۔ پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘
دایہ بولی، ’’کچھ نہیں۔ بہوجی نے علیحدہ کردیا ہے۔ گھر جارہی ہوں۔‘‘
اندرمنی خانہ داری کے جال سے ایسے بچتے تھے۔ جیسے کوئی برہنہ پاؤں کانٹوں سے احتراز کرے۔ انہیں دن بھر ایک جگہ ہی کھڑے رہنا گوارا تھا لیکن کانٹوں میں قدم رکھنے کی ہمت نہ تھی۔ رک رک بولے، ’’بات کیا ہوئی آخر؟‘‘
سکھدا نے جواب دیا، ’’کچھ نہیں۔ اپنی مرضی۔ نہیں جی چاہتا۔ نہیں رکھتے۔ کسی کے ہاتھوں بِک تو نہیں گئے۔‘‘
اندرمنی نے جھنجھلاکر کہا، ’’تمہیں بیٹھے بٹھائے ایک نہ ایک شوشہ مل ہی جاتا ہے۔‘‘
سکھدا نے تنگ آکر کہا، ’’ہاں! مجھے تو اس کا خبط ہے کیا کروں۔ فطرت ہی ایسی ہے۔ تمہیں یہ بہت عزیز ہے تو لے جاکر گلے میں باندھ لو اسے۔ میرے یہاں کچھ ضرورت نہیں اس کی۔‘‘
دایہ گھر سے نکلی۔ تو آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ دل رو در منی کے لئے تڑپ رہا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ ایک مرتبہ بچہ کو چھاتی سے چمٹا کر پیار کرلوں۔ لیکن یہ خواہش سینہ میں تھامے ہی اسے گھر چھوڑنا پڑا۔
رودرمنی دایہ کے پیچھے پیچھے دروازہ تک آیا۔ لیکن جب اس نے باہر سے دروازہ بند کردیا۔ تو وہ مچل کر زمین پر لوٹنے لگا۔ اورانّا انّا کہہ کر رونا شروع کردیا۔ سکھدا نے پچکارا۔ پیار کیا۔ گود میں لینے کی کوشش کی۔ مٹھائی دینے کا لالچ دیا۔ میلہ دکھانے کا وعدہ کیا اور اس سے بھی جب کام نہ چلا۔ تو بندر، سپاہی، ہوّا اور دوسری کئی چیزوں کی دھمکی دی۔ لیکن رودر نے اس قدر شدید رویہ اختیار کیا کہ کسی طرح بھی خاموش نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ سکھدا غصہ میں آکر بچہ کو وہیں پٹخ گھر کے کام دھندے میں مشغول ہوگئی۔ روتے روتے اس کے گال اور منہ لال ہوگئے اور آنکھیں سوج گئیں۔ وہیں زمین پر ہی سسکتے سسکتے سوگیا۔ سکھدا نے سمجھا تھا کہ بچہ تھوڑی دیر میں ہی رودھوکر خاموش ہورہے گا۔ لیکن اس نے آنکھیں کھولتے ہی انّا انّا کی رٹ لگانی شروع کردی۔
تین بجے اندرمنی دفتر سے لوٹے۔ بچے کی یہ حالت دیکھتی تو بیوی کو غضب ناک نگاہوں سے گھورتے ہوئے اسے گود میں اٹھالیا۔ آخر میں جب اسے یہ یقین ہوگیا کہ وہ مٹھائی لینے گئی ہے تو اسے کچھ اطمینان اور سکون نصیب ہوا۔ لیکن سورج کے مغرب کی طرف جھکتے ہی اس نے چلانا شروع کیا، ’’انّا! مٹھائی لا۔‘‘
اس طرح دو تین دن بیت گئے۔ رودر کو انّا کی رکاوٹ لگانے اور رونے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں تھا۔ وہ سدا چپ رہنے والی بلی جسے طاق پر دیکھ دیکھ کر ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ ناچ اٹھتی تھی اور وہ پروں سے محروم چڑیا جسے وہ لمحہ کے لئے بھی علیحدہ کرنا گوارا نہ کرسکتا تھا۔ سب اس کے ذہن سے اتر گئے۔ وہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھتا۔ انّا جیسی جیتی جاگتی، پیار کرنے گود میں لے کر گمانے پھرانے۔ تھپک تھپک کر سلانے اور گاگا کر خوش کرنے والی ہستی کا مرتبہ اوراہمیت یقینا ان بے جان چیزوں سے بہت بلند تھا۔
وہ اکثر راتوں کو چونک چونک پڑتا اور ہاتھوں سے اشارہ کر کے انّا انّا پکارنا شروع کردینا جیسے اسے بلا رہا ہو۔ اس کی خالی اور سنسان سی کوٹھڑی میں گھنٹوں میں بیٹھا رہتا۔ اسے امید تھی کہ انّا وہاں ضرور آتی ہوگی۔ اس کوٹھڑی کا دروازہ کھلتا۔ تو ا نّا انّا کہہ کر دوڑتا اور سمجھتا کہ انّا آگئی ہے۔ اس کا بھرا ہوا جسم گھلتا جارہا تھا، گلاب جیسا چہرہ سوکھ گیا۔ ماں اور باپ اس کے چہرہ پر مسکراہٹ دیکھنے کے لئے ترس ترس رہ جاتے تھے۔ لیکن وہ کبھی کھلکھلا کر نہ ہنسا۔ اگر کبھی بہت چھیڑنے اور گدگدانے سے ہنستا بھی تو یہ ہنسی کھوکھلی اور مصنوعی ہوتی جیسے وہ محض ان کا دل رکھنے کے لئے ہی ہنس رہا ہو۔
دودھ، مصری، میٹھے بسکٹ۔ میوے اور تازہ امرتیاں کچھ بھی تو اسے نہ بھاتا تھا۔ ان میں لذت اور مزہ بھی تھے، جب انہیں انّا ہاتھ سے کھلاتی تھی۔ اب ان میں ذرا بھی شیرینی نہیں تھی۔ دو برس کا کھلتا ہوا خوبصورت پودا کملا سا گیا۔ وہ بچہ جسے گود میں لیتے ہی نرمی گرمی اوربھاری پن کا احساس ہوتا۔ اب سوکھ کر کانٹا سا ہوگیا تھا۔ ماں اپنے بچے کی یہ حالت دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتی۔ اور اپنی حرکت پر پشیمان بھی ہوتی۔ اندر منی جو بہت شانت فطرت کے آدمی تھے اب رودر کو ایک لمحہ کے لئے بھی گود سے الگ نہ کرتے۔ اسے اپنے ساتھ ہوا خوری کے لئے لے جاتے۔ نت نئے کھلونے لادیتے او رکئی طریقوں سے دلجوئی کی کوشش کرتے۔ لیکن وہ مرجھایا ہوا بچہ تروتازہ نہ ہوسکا۔ دایہ اس کے لئے دنیا کا چمکتا ہوا سورج تھی۔ اس قدر حرارت اور روشنی سے محروم رہ کر گھاس کی ہریالی کی کیا کیفیت ہوجاتی ہے۔ کسی سے پوشیدہ نہیں اس کے بغیر اب رودر کو چاروں طرف گھور اندھیرا اور سناٹا نظر آرہا تھا۔ د وسری انّا تیسرے روز ہی رکھ لی گئی۔ لیکن اس کی شکل دیکھتے ہی وہ اپنا منہ چھپا لیتا۔ جیسے وہ کوئی چڑیل یا ڈائن ہو۔
دایہ کو اپنے سامنے حقیقی شکل میں موجود نہ پاکر اب بچہ اس کے تخیل میں ہی محو رہتا۔ وہاں اس کی انّا چلتی پھرتی دکھائی دیتی تھی۔ اس کی وہی آغوش تھی۔ وہی محبت اسی طرح پیاری پیاری باتیں، ویسے ہی شیریں اور مدھر گانے۔ مزے دار مٹھائیاں، پہلا سارس بھرا عالم اور مسرتوں سے لبریز زندگی! تنہائی میں اپنے تصور کی انّا سے باتیں کرتا۔ انّا! کتا بھونکے! انا! گائے دودھ دے! انّا اجلا اجلا گھوڑا دوڑیں۔
صبح ہوتے ہی لوٹا لے کر دایہ کی کوٹھڑی میں جاتا اور کہتا۔ انّا! پانی۔ دودھ کا گلاس رکھ آتا۔ چارپائی پر تکیہ رکھ کر چادر سے ڈھانپ دیتا اورکہتا کہ انّا سورہی ہے۔ جب سکھدا کھانے بیٹھتی۔ تو کٹورا اٹھااٹھاکر اس کی کوٹھڑی میں لے جاتا اور کہتا، ’’انّا! کھانا کھائے گی؟‘‘ انّا اب اس کے لئے ایک عرشی شے تھی۔ جس کے لوٹنے کی اب سے بالکل توقع نہ تھی۔
رودر کی فطرت میں آہستہ آہستہ طفلانہ چالاکی۔ پھرتی اور بشاشت کی جگہ ایک یاس آمیز سکون اور ایک غمگین سی متانت نظر آنے لگی۔ اس طرح تین ہفتے گزر گئے۔ برسات کا موسم تھا۔ کبھی بے چین کرنے والی لُو۔ اور کبھی سرد سرد ہوا کے گیلے گیلے جھونکے بخار اور زکام زوروں پر تھا۔ رودر کی کمزور طبیعت اس موسم کی تیزی کو برداشت نہ کرسکی۔ سکھدا اسے فلالین کا کرتہ پہنائے رکھتی۔ اسے پانی کے قریب تک نہ پھٹکنے دیتی۔ ننگے پاؤں ایک قدم نہ چلنے دیتی۔ لیکن سردی لگ ہی گئی۔ بچہ کھانسی اور بخارمیں مبتلا ہوگیا۔
صبح کا وقت تھا۔ رودر چارپائی پر آنکھیں بند کئے پڑا تھا۔ ڈاکٹروں کا علاج ناکام رہا۔ سکھدا چارپائی پر بیٹھی اس کی چھاتی میں تیل کی مالش کر رہی تھی اوراندرمنی دکھ کی تصویر بنے بیٹھے اسے گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ادھر بیوی سے وہ بہت کم بولتے تھے۔ انہیں اس سے ایک طرح کی چڑ سی ہوگئی تھی۔ وہ رودر کی اس علالت کا واحد باعث ہی اسے تصور کرتے تھے۔ ان کی نگاہوں میں وہ ایک ذلیل اور کمینہ فطرت کی عورت تھی۔اس نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’آج بڑے حکیم صاحب کو بلا لاتے۔۔۔ شاید ان کی دوا سے ہی افاقہ ہوجاتا۔‘‘
انہوں نے کالی کالی گھناؤں کی طرف دیکھتے ہوئے روکھائی سے جواب دیا، ’’بڑے حکیم صاحب تو کیا، دھنونتری بھی آئیں توبھی اسے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
سکھدا نے پوچھا، ’’تو اب کسی کی دوا نہ ہوگی؟‘‘
’’بس اس کی ایک ہی دوا ہے اور وہ نایاب ہے۔‘‘
’’تمہیں تو بس وہی سوجھتی ہے۔ ایک ہی دھن سوار ہے۔ کیا بڑھیا آکر امرت پلا دے گی؟‘‘
’’وہ تمہارے لئے خواہ زہر ہی ہو۔ لیکن بچے کے لئے امرت ضرور ہے۔‘‘
’’میں نہیں سمجھتی کہ مشیتِ ایزدی اس کے تابع ہے۔‘‘
’’اگرنہیں سمجھتی ہو۔ اور اب تک نہیں جان سکیں تو روؤگی۔ بچے سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔‘‘
’’چپ بھی رہو۔ کیا برے الفاظ منہ سے نکال رہے ہو۔ اگر ایسی ہی جلی کٹی سنانی ہے تو باہر چلے جاؤ۔‘‘
’’لو میں جاتا ہوں۔ لیکن یاد رکھنا۔ یہ ہتیا تمہاری گردن پر ہوگی۔ اگر لڑکے کو تندرست دیکھنا چاہتی ہو۔ تو اسی دایہ کے پاس جاؤ۔ اس کی منت سماجت کرو۔ معذرت طلب کرو۔تمہارے بچے کی زندگی اس کی نگاہ ِکرم کی مرہون منت ہے۔‘‘
’’وہ خاموش رہی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔‘‘
اندرمنی نے ایک لمحہ کے توقف کے بعد پوچھا، ’’کیا ارادہ ہے؟ جاؤں اسے بلا لاؤں؟‘‘
’’تم کیوں جاؤگے۔ میں خود ہی چلی جاؤں گی۔‘‘
’’نہیں تم معاف کرو۔ مجھے تم پر وشواس نہیں ہے۔ نہ جانے تمہاری زبان سے کیا نکل جائے کہ وہ آتی ہو۔ تو بھی نہ آئے۔‘‘
سکھدا نے خاوند کی طرف کڑی اور ترسی ہوئی نگاہ ڈالی اور کہا۔۔۔ ’’ہاں! اور کیا۔ مجھے بچے کی بیماری کا غم اور فکر تھوڑے ہی ہے۔ میں نے شرمندگی اور خجالت کے خوف سے ابھی تک تم سے کہا نہیں۔ لیکن میرے دل میں یہ بات بار بار پیدا ہوتی ہے۔ اگر میں دایہ کی قیام گاہ سے واقف ہوتی تو اب تک اسے کبھی کی مناکر لے آئی ہوتی۔ وہ مجھ سے کتنی ہی ناراض ہو۔ رودر سے اسے دلی محبت ہے۔تم منت سماجت کرنے کے لئے کہتے ہو میں اس کے قدموں پر گرنے کو تیار ہوں۔ اس کے پاؤں آنسوؤں سے دھوڈالوں گی اور جس طرح بھی ہوگا اسے منا لاؤں گی۔‘‘
اس نے بہت سکون اور شانتی سے یہ باتیں کہی تھیں۔ تو بھی اس کی آنکھیں آنسوؤ ں کے سیلاب میں ڈوبتی چلی گئی۔ اندرمنی نے بیوی کی طرف ہمدردانہ نگاہوں سے تاک کر کہا، ’’تمہارا جانا مجھے برا معلوم ہوتا ہے۔ میں خود ہی وہاں جاؤں گا۔‘‘
کیلاسی دنیا میں تنِ تنہا تھی۔ کسی دن اس کا کنبہ گلاب کی طرح پھولا ہوا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کی سبھی پتیاں جھڑتی گئیں۔ اس کی سب ہریالی تباہ ہوگئی اور ااب وہی ایک سوکھی ہوئی ٹہنی اس سرسبز پیڑ کی یاد رہ گئی تھی۔
لیکن رودر کو پاکر اس سوکھی ٹہنی میں جان پڑگئی۔ اس میں ہری ہری پتیاں نکل آئیں۔ وہ زندگی جو بے کیف اور پھیکی تھی۔ اب رس اور شیرینی سے بھرپور ہوگئی۔ اندھیرے میں بھٹکے ہوئے مسافر کو روشنی کی جھلک نظر آنے لگی۔ اب اس کا جینا بے مدعا اوربلامقصد ہرگز نہیں تھا۔
وہ رودر کی بھولی بھالی باتوں پر مائل ہوگیا۔ لیکن وہ اپنی محبت سکھدا سے پوشیدہ رکھنا چاہتی تھی۔ اس لئے کہ ماں کا دل حسد اور رقابت کا مسکن نہ بن سکے۔ وہ اس کے لئے ماں سے چھپاکر مٹھائیاں لاتی اور اسے کھلاکر مسکراہٹوں میں نہا جاتی۔ وہ دن میں دو تین مرتبہ اسے ابٹن ملتی۔ تاکہ وہ ہشاش بشاش اور تندرست رہے۔ وہ دوسروں کی موجودگی میں کبھی اسے کوئی چیز نہ کھلاتی۔ کہ کہیں نظر نہ لگ جائے۔ دوسروں سے ہمیشہ وہ بچہ کی کم خوری کی شاکی رہتی۔ اسے نگاہِ بدسے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیشہ گنڈے اور تعویذ لاتی۔ یہ اس کا پاک تریں پیار تھا۔ اس میں تصنع اور بناوٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔
اس گھر سے نکل کر کیلاسی کی وہی حالت تھی۔ جو تھیئٹر میں دفعۃً بجلی کے قمقموں کے گل ہوجانے سے تماشائیوں کی ہوتی ہے۔ اس کے سامنے وہی دلکش صورت ناچ رہی تھی۔ کانوں میں وہی پیاری پیاری باتیں گونج رہی تھیں۔ اسے اپنا گھر کاٹے کھاتا تھا۔ اس کال کوٹھڑی میں دم گھٹا جاتا تھا۔
جیوں تیوں کر کے رات کٹی۔ صبح گھر میں جھاڑو لگارہی تھی کہ یک بیک تازہ حلوہ کی آواز کانوں میں پڑی۔ سنتے ہی پھرتی سے باہر نکل آئی۔ تب تک یاد آگیا کہ آج حلوہ کون کھائے گا؟ آج آغوش میں بیٹھ کر کون چہکے گا۔ وہی مسرت کی جھلک دیکھنے کے لئے جو حلوہ کھاتے وقت رودر کی آنکھوں، جسم کے ایک ایک حصہ اور ہونٹوں سے جھانکتی تھی۔ کیلاش تڑپ اٹھی۔ وہ بیتاب ہوکر گھر سے نکلی کہ چل کر رودر کو دیکھوں۔ لیکن نصف راہ سے ہی لوٹ گئی۔
رودر اس کے ذہن سے ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں اترتا تھا۔ وہ سوتے سوتے چونک پڑتی۔ جان پڑتا۔ رودر لکڑی کا گھوڑا دبائے چلا آرہا ہے۔ پڑوسیوں کے پاس جاتی۔ تو رودر کا ہی چرچا کرتی۔ رودر اس کی روح اور جسم میں سما چکا تھا۔ سکھدا کے کڑے اور توہین آمیز سلوک کا اسے بالکل دھیان ہی نہ تھا۔ وہ ہر روز ارادہ کرتی۔ کہ آج رودر کو دیکھتے چلوں گی۔ اس کے لئے بازار سے مٹھائیاں اور کھلونے لاتی۔ گھر سے چلتی۔ لیکن راہ میں سے ہی لوٹ جاتی۔ کبھی وہ چار قدم سے زیادہ نہیں بڑھ سکی۔ کون سا منہ لےکر جاؤں۔
جو پیار کو فریب اورمکاری سمجھتا ہو۔ اس کا سامنا کس طرح کروں؟ کبھی سوچتی۔ اگر رودر مجھے نہ پہچانے تو؟ بچوں کے پریم کی حقیقت ہی کیا۔ نئی دایہ سے گھل مل گیا ہوگا۔ یہ خیال اس کے قدموں سے زنجیر بن کر لپٹ جاتا۔
اسی طرح دو ہفتے بیت گئے۔ اس کا دل اکتا گیا۔ من اچاٹ رہتا۔ جیسے کوئی لمبی یاترا کرنی ہو۔ گھر کی چیزیں جہاں کی تہاں پڑی رہتیں۔ نہ کھانے کی سدھ تھی۔ نہ پہننے کی ہوس۔ رات دن رودر کے خیالوں میں ہی ڈوبی رہتی۔ انہی دنوں شری بدری ناتھ کی یاترا کا وقت بھی آگیا۔ محلے کے کچھ لوگ یاترا کی تیاریاں کرنے لگے۔ کیلاسی کی حالت اس پالتو چڑیا کی سی تھی جو پنجرے سے نکل کر پھر کوئی گوشہ تلاش کررہی ہو۔ اسے تمام باتیں او ر رودر کی یاد بھلانے کا اچھا موقعہ مل گیا۔وہ یاترا کے لئے تیار ہوگئی۔
آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ ہلکی ہلکی پھوہار پڑ رہی تھی۔ دہلی اسٹیشن پر یاتریوں کی بھیڑ تھی۔ کچھ گاڑیوں پر بیٹھے تھے۔ کچھ اپنے لواحقین سے وداع ہورہے تھے۔ چاروں طرف ایک ہلچل سے مچی ہوئی تھی۔ دنیاوی پھندے آج بھی انہیں جکڑے ہوئے تھے۔ کوئی اپنی بیوی کو سمجھا رہا تھا کہ دھان کٹ جائے تو تالاب والے کھیت میں مٹر بودینا اورباغ کے پاس گیہوں۔ کوئی اپنے نوجوان بیٹے کو ہدایت کر رہا تھا کہ آسامیوں پر بقایا لگان کی نالش کردینا اور دو روپیہ سینکڑوں سود ضرور کاٹ لینا۔
ایک بوڑھے تاجر اپنے منیم سے کہہ رہے تھے کہ مال میں دیر ہو۔ تو خود چلے جانا اور حاضر مال لینا۔ ورنہ روپیہ پھنس جائے گا۔ لیکن کئی ایسے عقیدت مند بھی تھے جو عبادت میں مصروف تھے۔وہ یا تو چپ چاپ آسمان کی طرف دیکھ رہے یا مالا پھیرنے میں محو تھے۔ کیلاسی بھی ایک گاڑی میں بیٹھی سوچ رہی تھی۔ ان بھلے آدمیوں کو اب بھی دنیا کی فکر نہیں چھوڑتی۔ وہی کاروبار اور لین دین کا تذکرہ۔ رودر اس وقت یہاں ہوتا تو بہت دیر رودر میری گود سے کبھی نہ اترتا۔ لوٹ کر اسے ضرور دیکھنے جاؤں گی۔ ہے بھگوان! کسی طرح گاڑی چلے۔ گرمی کے مارے جان نکلی جارہی ہے۔ اتنی گھٹا امڈی ہوئی ہے۔ لیکن برسنے کا نام نہیں لیتی۔ معلوم نہیں یہ ریل والے کیوں دیر کر رہے ہیں؟ یونہی ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہ جلدی سے گاڑی چلادیں۔ یاتریوں کی جان میں جان آئے۔ یکایک اس نے اندر منی کو سائیکل لئے پلیٹ فارم پر آتے دیکھا۔ ان کا چہرہ اترہوا تھا اورکپڑے پسینہ سے تر۔ وہ گاڑیوں میں جھانکنے لگے۔ کیلاسی محض یہی جتلانے کے لئے کہ میں بھی یاترا کرنے جارہی ہوں۔باہر نکل آئی۔ اندرمنی اسے دیکھتے ہی لپک کر قریب آگئے اور بولے، ’’کیوں کیلاسی! تم بھی یاترا کو چلیں؟‘‘
کیلاسی نے فخر سے بھری ہوئی کمزور آواز میں کہا، ’’ہاں! کیا کروں۔ زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ نہ معلوم کب آنکھیں بند ہوجائیں۔ پرماتما کے ہاں منہ دکھانے کا بھی تو کوئی ذریعہ ہونا چاہئے۔ رودر بابو تو اچھے ہیں نہ؟‘‘
اندرمنی بولے، ’’اب جارہی ہو۔ رودر کا حال جان کر کیا کروگی؟ اسے آشیرواد دیتی رہنا۔‘‘
کیلاسی کی چھاتی دھڑکنے لگی۔ گھبراکر بولی، ’’ان کا جی اچھا نہیں کیا؟‘‘
’’وہ تو اسی روز سے بیمار ہے۔ جس دن تم وہاں سے نکلیں۔ دو ہفتے تو اس نے انّا انّا کی رَٹ لگائی۔ اب ایک ہفتہ سے کھانسی اور بخار میں مبتلا ہے۔ علاج معالجہ سے مایوس ہوچکا ہوں۔ کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ میں نے سوچا تھا کہ چل کر تمہاری منت سماجت کر کے تمہیں واپس لوٹ لے چلوں گا۔ کون جانے تمہیں دیکھ کر اس کی طبیعت سنبھل جائے۔ لیکن تمہارے گھر گیا۔ تو معلوم ہوا۔ کہ تم یاترا کرنے جارہی ہو۔ اب کس منہ سے چلنے کو کہوں۔ تمہارے ساتھ سلوک ہی اتنا اچھا کون سا کیا۔ جو یہ جرأت کروں؟ پھر مذہبی فریضہ میں مداخلت کرنے کا بھی خوف ہے۔ جاؤ۔ اس کا ایشور مالک ہے۔ عمر باقی ہے تو بچ ہی جائے گا۔ نہیں تو بھگوان کی مرضی میں کسی کا کیا بس چلتا ہے؟‘‘
کیلاسی کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ سامنے کی چیزیں تیرتی ہوئی معلوم دینے لگیں۔ دل ناشدنی کے خدشہ سے دھڑکنے لگا۔ دل سے بے ساختہ یہی نکلا۔۔۔ ’’ہے بھگوان! میرے رودر کا بال بیکا نہ ہو۔‘‘ پیار سے گلا بھر آیا۔ خیال آیا کہ میں کس قدر سنگ دل ہوں۔ پیارا بچہ روروکر ہلکان ہوگیا اور میں اسے دیکھنے تک نہ گئی۔ سکھدا کا رویہ اور اس کی فطرت اچھی نہیں۔ لیکن رودر نے میرا کیا بگاڑا تھا۔ کہ میں نے ماں کا بدلہ بیٹے سے لیا۔ بھگوان! میرا قصور معاف کرنا۔ پیارا رودر میرے لئے تڑپ رہا ہے۔ (اس خیال سے ہی وہ کلیجہ مسوس کر رہ گئی۔ آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں) مجھے کیا معلوم تھا کہ اسے مجھ سے اس قدر محبت ہے۔ نہ معلوم بچہ کی کیا حالت ہے۔ مضطرب ہوکر بولی۔۔۔ ’’دودھ تو پیتے ہیں نہ؟‘‘
’’تم دودھ پینے کے لئے کہتی ہو۔ اس نے تو دو دن سے آنکھ بھی نہیں کھولی۔‘‘
’’اوپرماتما۔۔۔ ارے اوقلی۔۔۔ قلی! بیٹا آکر میرا سامان گاڑی سے اتار دینا۔ اب مجھے تیرتھ جانا نہیں سوجھتا۔ہاں بیٹا! جلدی کر۔ بابو جی دیکھو کوئی ایکہ ہو۔ تو ٹھیک کرلو۔‘‘
یکہ روانہ ہوا۔ سامنے سڑک پر بگھیاں کھڑی تھیں۔ گھوڑا آہستہ آہستہ چل رہا تھا کیلاسی بار بار جھنجھلاتی اور یکہ والے سے کہتی، ’’بیٹا! جلدی کر۔ میں تجھے کچھ زیادہ دے دوں گی!‘‘
راہ میں مسافروں کی بھیڑ دیکھ کر اسے بہت غصہ آتا۔ اس کا جی چاہتا کہ گھوڑے کو پَر لگ جائیں۔ جونہی اندرمنی کا مکان قریب آیا۔ اس کا دل اچھلنے لگا۔ بار بار رودر کے لئے نیک آشیرواد نکالنے لگی۔ بھگوان کریں سب خیریت ہو۔ یکہ ان کی گلی کی طرف مڑا۔ دفعۃً اس کے کانوں میں رونے کی آواز آئی۔ کلیجہ منہ کو آگیا۔ سر چکرانے لگا۔ معلوم ہوا ندی میں ڈوبی جارہی ہے۔ جی چاہا۔ یکہ پر سے کود پڑے۔ تھوڑی ہی دیر میں جان پڑا کہ کوئی عورت یکہ سے روانہ ہورہی ہے۔ اطمینان ہوا۔ آخر میں اندر منی کا مکان آیا۔ یکہ رک گیا۔ کیلاسی نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کی طرف دیکھا۔ جیسے کوئی گھر سے بھاگا ہوا یتیم لڑکا شام کو بھوکا پیاسا گھر لوٹ آئے اور دروازہ کی طرف خوف زدہ نگاہوں سے دیکھے کہ کہیں کوئی بیٹھا تو نہیں۔
دروازہ پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ دایہ کو کچھ شانتی ملی۔ گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا۔ نئی دایہ پولٹس بنارہی ہے۔ دل میں کچھ قوت سی پیدا ہوئی۔ سکھدا کے کمرے میں گئی تو اس کا دل گرما کے نصف النہار کی مانند انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔ سکھدا رودر کو گود میں لئے دروازہ کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ وہ دکھ اور غم کی تصویر بنی بیٹھی تھی۔
کیلاسی نے سکھدا سے کچھ نہیں پوچھا۔ رودر کو اس کی گود سے لے کر پیار بھری نگاہیں ڈال کر بولی، ’’بیٹا! رودر! آنکھیں تو کھولو!‘‘
رودر نے آنکھیں کھولیں۔ ایک لمحہ دایہ کو خاموشی سے دیکھتا رہا۔ تب یکایک اس کے گلے سے چمٹ کر بولا، ’’انّا آئی۔۔۔. انّا آئی!‘‘
بچے کا زرد اور مرجھایا ہوا چہرہ کھل اٹھا۔ جیسے بجھتے ہوئے چراغ میں تیل پڑجائے۔ ایسا معلوم ہوا۔ جیسے وہ بڑھ گیا ہے۔
ایک ہفتہ گزر گیا۔ صبح کا وقت تھا۔ رودر آنگن میں کھیل رہا تھا۔ اندرمنی باہر سے آکر اسے گود میں اٹھا پیار سے بولے، ’’تمہاری انّا کو مار کر بھگا دیں گے۔‘‘
رودر نے منھ بناکر کہا، ’’نہیں۔ روئے گی۔‘‘
کیلاسی بولی، ’’کیوں بیٹا! تم نے مجھے بدری ناتھ نہیں جانے دیا۔ میری یاترا کا پنیہ پھل کون دے گا؟‘‘
اندرمنی نے مسکرا کر کہا، ’’تمہیں تو اس سے کہیں زیادہ اچھائی مل گئی۔ یہ تیرتھ تو مہاتیرتھ ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.