محروم وراثت
محمد احسان تحصیلدار کے دونوں بچے محسن اور رضیہ تھے تو حقیقی بہن بھائی، مگر نہ معلوم احسان کس طبیعت کا باپ تھا کہ اس کی وہی نظر محسن پر پڑتی تو محبت میں ڈوبی اور رضیہ پر پڑتی تو زہر ی بجھی۔ سمجھدار پڑھا لکھا، مگر ظالم کی عقل پر ایسے پتھر پڑے تھے کہ دیکھ کر خوش ہوتا نہ سوچ کر نادم، محسن کی تعلیم پر روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا تھا، مگر رضیہ غریب کو استانی بھی میسر نہ تھی، کچھ اس لیے نہیں کہ وہ تعلیم نسواں کا مخالف تھا بلکہ اس لیے کہ وہ اپنی کمائی میں اس کو حقدار نہ سمجھتا تھا، محسن کے پاس جوتی کے آٹھ آٹھ دس دس جوڑے اور رضیہ کے پاس صرف ایک اور وہ بھی مہینوں کی ٹوٹی پھوٹی تونہیں، مگر ٹوٹی سے بدتر، محسن کے پاس ایک نہیں درجن بھر سوٹ اور رضیہ کے پاس انے گنے دو دوپٹے اور لطف یہ کہ جو کچھ بھی رضیہ کو میسر تھا وہ اس کا حق یا باپ کی محبت نہیں صرف صفیہ کا اصرار تھا۔ ورنہ واقعات تو یہی کہتے تھے کہ رضیہ کھلے سر اور ننگے پائوں بھی پھرتی تو احسان کو ملال نہ ہوتا، باپ کی اس لاپرواہی اور بے وفائی پر بھی وقت رضیہ کے ساتھ تھا، صفیہ جہاں شوہر کی اس کمی پر افسوس کر رہی تھی وہاں اس نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمیشہ اس نقصان کی تلافی کی اور جہاں تک بھی ممکن ہو اس کی تعلیم و تربیت میں انتہائی کوشش کرتی رہی۔ رضیہ کی فراست اس کا شوق اس کی سعادت مندی۔ صبر اور خاموشی ماں کے دل میں گڑی جاتی تھی، وہ اس کے یا اس کے باپ کے سامنے نہیں تنہائی میں اکثر روتی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عید کے موقع پر اس لیے کہ کچھ عزیز آنے والے تھے، شاموں شام احسان نے بیوی اور بچے کے لیے سب سامان منگوایا، احسان، محسن، رضیہ چاروں ایک جگہ بیٹھے تھے۔ احسان ایک ایک چیز اٹھا اور دکھاتا جاتا تھا اور متوقع تھا کہ بیوی اور اس کے بچے اس انتخاب کی داد دیں۔ احسان جس وقت ایک چیز دکھانے کے بعد صفیہ، رضیہ اور محسن کی صورت دیکھ کر داد طلب کرتا اس وقت صفیہ اس ڈھیر کو کبھی شوہر کو اس امید پر دیکھتی اور تکتی کہ شاید اس ڈھیر سے یا شوہر کے منہ سے رضیہ کے لیے کوئی چیز رضیہ کے نام نکلے، مگر پوری نو چیزیں چار صفیہ اور پانچ محسن کی ختم ہو گئیں لیکن رضیہ کے نام کی چیز نہ ڈھیری سے نکلی نہ اس کا نام باپ کے منہ سے نکلا۔ محسن نے باپ کی محبت اور کوشش کی داد دی۔ دل کھول کر دی اور پیٹ بھر کر دی۔
مگر صفیہ کے سامنے اس وقت ایک اور ہی سماں تھا۔ وہ اوپری دل سے تعریف کرتی ہوئی اٹھی، ساتھ ہی خیال آیا کہ اللہ غنی مسلمان بچیاں جو ماں کی چوکھٹ پر چند روزہ مہمان ہیں۔ بھائیوں کے مقابلے میں اتنا حق بھی نہیں رکھتیں کہ پانچ کے مقابلہ میں ایک چیز آ جاتی، میں جانتی ہوں کہ رضیہ کے پاس سب کچھ ہے۔ اور میں نے حیثیت سے زیادہ اور ضرورت سے بڑھ کر اس کا سامان کر لیا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یہ سب باپ ہی کی کمائی ہے لیکن اس کے واسطے اگر ایک چیز بھی اس وقت آجاتی تو اس کا دل کتنا بڑھ جاتا۔ باپ اس کی خوشی دو چار روپے میں بھی مول نہ لے سکا، محسن خدا اس کی عمر دراز کرے آگے اور پچھے آج اور کل مالک اور مختار ہے، لیتا ہے اور لے گا، مگر رضیہ کہاں اور یہ گھر کہاں؟
صفیہ شوہر کے پاس سے ایک خفیف بخار دل میں لے کر اٹھی تھی، مگر کمرے تک پہنچتے پہنچتے بلبلا گئی، اور اس خیال کے آتے ہی آنکھوں میں آنسو بھر گئے۔ جانتی تھی کہ آنکھوں میں آنسوئوں کے قطرے تیر رہے ہیں اور چاہتی کہ اس حالت کو ظاہر نہ ہونے دے، مگر اس جذبہ محبت نے جو مامتا کے آغوش میں پلا تھا بے قابو کر دیا اور بچی کی صورت دیکھنے کو منہ پھیرا۔ ایک ساکت مجسمہ تھا جو رضیہ کی صورت میں گم سم باپ کے سامنے بیٹھا زمین کو دیکھ رہا تھا۔ ماں نے بچی کی خاموش صورت دیکھ کر اس کے دل کی کتاب پڑھی اور ٹھنڈا سانس بھر کر آگے بڑھی، احسان بیوی کا یہ رنگ دیکھ کر حیرت میں ادھر آیا اور کہنے لگا۔
’’بس وہی ایک پیٹنا کہ رضیہ کا کچھ نہ آیا، اس کے پاس سب کچھ موجود ہے۔‘‘
بیوی: موجود تو محسن کے پاس بھی ہے۔
میاں: محسن کی اس کی کیا برابری۔
بیوی: کیوں؟
میاں: وہ گھر کا مالک۔ یہ پرایا دھن۔
میاں: اس کے علاوہ کنواری بچی کو جو مل گیا وہ غنیمت ہے۔
(۲)
محسن بی۔اے میں کامیاب ہوا تو رضیہ دسوں انگلیاں دسوں چراغ تھی اور ایک یہی کیا ماں کی توجہ اور کوشش نے انسانیت کے تمام جوہر اس میں کوٹ کوٹ کر بھر دئیے تھے۔ دونوں بہن بھائیوں کی شادی ساتھ ساتھ ٹھہری، مگر اس احتمال سے کہ موروثی جائیداد رضیہ کی سلطنت سے پرائے قبضہ میں نہ جائے۔ احسان نے اس کے نکاح سے قبل قریب قریب تمام جائیداد وقف علی الاولاد کی آڑ میں محسن کے حوالے کی اور رضیہ کو محروم کر دیا۔ صفیہ نے بہترا غل مچایا، مگریہ تو بڑا کام تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بیویوں کی مخالفت کا شوہروں کے مقابلہ میں جو نتیجہ ہو سکتا ہے مسلمان اس راز سے اچھی طرح آشنا ہیں، صفیہ کو بڑا صدمہ یہ تھا کہ اس کی اپنی جائیداد بھی جو میکے سے ملی تھی اس سلسلہ میں فنا ہو رہی تھی۔
مسلمان قلم کی طاقت اور اپنی زبان کے زور سے جھٹلا لیں، مگر ہے کوئی مسلمان جو ایمان سے کہہ سکے کہ بچوں والی بیوی، بہو اور داماد والی یا ہونے والی، شوہر کی اتنی مخالفت کے بعد کہ ایسی دستاویز پر دستخط نہ کرے اس گھر میں خوش رہ سکتی ہے؟ احسان کے پنجرے میں رضیہ ہر چند پھڑپھڑائی مگر معاشرت اسلامی کا موجودہ لاسہ اتنا تیز اور اتنا گہر ا تھا کہ جتنی تڑھی اتنی ہی چپکی، گھر میں ہفتہ بھر قیامت بپا رہی اور اس کے بعد احسان نے اندر کی آمدورفت قطعاً بند کر دی۔ صفیہ برس چھ مہینہ کی بیاہی نہ تھی۔ بیس بائیس برس کی گھر میں نہایت ہی استقلال سے شوہر کا مقابلہ کیا۔ اس حالت اور ایسے موقعوں پر مسلمان مردوں کے پاس نکاح ثانی کا حربہ چلتا ہوا ہتھیار ہے۔ مگر صفیہ اس کو بھی خاطر میں نہ لائی اور میاں سے صاف کہہ دیا کہ گھر اگر موم اورنون کا ہے کہ دھوپ سے پگھلے اور پانی سے بہے، تو میں کہاں تک روکوں گی۔ بسم اللہ آج نہ کیا کل اور کل نہ کیا پرسوں۔
مطالبہ حقوق نسواں کو لغو اور فتنہ قرار دینے والے مسلمان جو کچھ فرمائیں ہمارے سر اور آنکھوں پر، مگر خدارا وہ بتائیں کہ اس موقعہ پر جب احسان نے ہر طرف سے ناکام ہو کر فیصلہ کیا کہ وہ رضیہ کے نکاح ہی کا خاتمہ کردے اور تمام عمر بیٹی کووداع نہ کرے۔ تو صفیہ کیا کرتی؟ اس فیصلہ نے صفیہ کی گردن شوہر کے سامنے جھکوا دی۔ اس کی اکڑ، اس کا استقلال، اس کی ضبط سب فنا ہو گئے اور اب جائیداد اور جائیداد کی تقسیم تو الگ رہی، اس کو نکاح ہی کے لالے پڑ گئے اور یہ سوچ کر کہ میری وجہ سے غریب بچی کی عمر تباہ و برباد ہوتی ہے۔ اس نے کاغذ پر دستخط کیے اور اس طرح رضیہ ماں باپ کی جائیداد سے محروم، وداع ہو کر سسرال رخصت ہوئی۔
(۳)
محسن بی۔ اے۔ کے بعد قانون میں کامیاب ہوا، رضیہ ایک بچہ کی ماں بنی، صفیہ حج سے فارغ ہوئی، احسان پر فالج گرا اور وہ ہلنے کے قابل بھی نہ رہا، اس وقت گھر کا مالک اور سپید و سیاہ کا مختار، جائیداد کا منتظم، محسن تھا اور گو آمدنی معقول تھی۔ اللے تللے نے مقروض کیا اور نوبت یہاں تک آئی کہ جس گھر میں دس پانچ ہزار روپیہ ہر وقت موجود رہتا تھا۔ اس میں سو پچاس بھی مشکل سے نکل سکتے تھے۔ صفیہ کی دوراندیشی تھی کہ کچھ روپیہ اپنے پاس لگا رکھا تھا۔ باقی زیور سے مددلی اور حج کر لیا۔ واپس آئی تو محسن کا یہ رنگ دیکھ کر سناٹے میں رہ گئی مگر جو لڑکا زندہ باپ کو مردہ سمجھ رہا تھا وہ ماں کو کیا خاطر میں لاتا۔ محسن کی بعض دفعہ پریشانیاں اور پریشانیاں ہی نہیں، فضول خرچیاں ماں کو سخت خلجان میں ڈال دیتیں اور وہ اب یہ سمجھ گئی تھی کہ عنقریب یہ مجھ سے روپیہ طلب کرتا ہے۔ اس لیے گھر کی برابر والی مسجد کی تعمیر اس کے واسطے بہت اچھا موقع تھا۔ اس نے فوراً شوہر کے کان میں بات ڈال کر جو کچھ زیور بچا تھا، مسجد کی نذر کیا۔ مگر یہ خبر احسان ور صفیہ دونوں میں سے ایک کو بھی نہ تھی کہ فالج کا دورہ ایسا سخت ہوگا، اور سنگ دل بیٹا محسن، عاشق زاد باپ کو کتے کے ٹھیکرے میں پانی پلا دےگا۔ صفیہ کے پاس ابھی تھوڑی بہت کھرچن موجود تھی، اس کے طفیل اتنا تھا کہ معمولی علاج جاری رہا، ڈاکٹر حکیموں کی فیس نکل رہی تھی اور نسخے بھی آ رہے تھے، ورنہ محسن نے ایک دن کو کیا ایک گھڑی بلکہ ایک لمحہ کو بھی نہ پوچھا کہ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے۔ جب متواتر باپ نے بلایا تو کھڑے کھڑے آیا اور ایک آدھ بات کی اور چلتا ہوا۔
اس کے پندرہ روز اسی طرح گزرے، اٹھ سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا۔ اس موقع پر صفیہ نے ایسی خدمت کی جو شریف بیویوں سے توقع کی جا سکتی ہے اس کو سوا رونے کے اور کوئی کام نہ تھا۔ رات رات بھر اور دن دن بھر پٹی پکڑے بیٹھی رہی۔ اس کی نیند اور بھوک دونوں اڑ چکی تھیں او ر اسی کا صدقہ تھا کہ حکیم ڈاکٹر آ رہے تھے اور علاج ہو رہا تھا۔ بالآخر ڈاکٹر نے بجلی کا علاج تجویز کیا۔ جس کا تخمینہ چار ہزار روپے کے قریب تھا۔ احسان اور رضیہ دونوں کو یہ شبہ بھی نہ تھا کہ محسن باپ ہی کا روپیہ جس کی بدولت وہ نواب بنا پھر رہا تھا۔ باپ کی زندگی اور راحت سے عزیز کرےگا۔
صبح سے بلاتے بلاتے شام ہوگئی دنیا بھر آئی مگر محسن نہ آیا۔ خدا خدا کر کے شام کو لوٹا تو باپ نے اپنے منہ سے ساری کیفیت سنائی اور بغیر جواب دئیے چلا، تو ماں پیچھے پیچھے گئی اور کہا۔
’’میاں پھر بجلی کے علاج کا انتظام کرو۔‘‘
ایک ایسی نظر سے جس میں تعجب اور غصہ دونوں شامل تھے، محسن نے ماں کو دیکھ کر کہا۔
’’تمہاری عقل جاتی رہی ہے۔ اول تو روپیہ ہی نہیں ہے۔ اور اگر ہوتا بھی تو علاج فضول ہے، میں نے معلوم کر لیا ہے کہ موت یقینی ہے، اگر کچھ روز کو بچ گئے تو اور سوہان روح ہونگے۔‘‘
صفیہ کا قدم آگے نہ اٹھ سکا، دہم ہو گئی، زبان سے ایک لفظ نہ نکلا اس کو تو کچھ نہ کہہ سکی مگر اپنے دل میں کہا کہ ایسے ناہنجار لڑکے کی ماں، زمین شق ہو اور سما جائے۔ اب میں جا کر کیا جواب دونگی، کھڑی سوچتی رہی تھی کہ رضیہ کا خط ملا۔
اماں جان!
آداب عرض کرتی ہوں۔
جب سے ابا جان کی بیماری اور ان کی کیفیت سنی ہے دل ہوا ہو رہا ہے، ہائے میرے اباجان کو کیا ہو گیا، میں تو بھلا چنگا چھوڑ کر آئی تھی۔ مجھ بدنصیب کو تو ابھی معلوم ہوا ہے۔ اے اللہ! کیا کروں؟ ڈپٹی صاحب کچہری میں ہیں جس طرح ہوگا آج ہی رات کو یا کل فجر حاضر ہوں گی۔ میرے آنے کا ذکر نہ کیجئے خفا ہوں گے۔ میں سامنے نہ جائوں گی، دور ہی سے شکل دیکھ لوں گی۔
’’اچھی اماں جان! علاج میں کمی نہ کرنا۔‘‘
آپ کی فرمانبردار بیٹی
رضیہ
(۴)
رضیہ علی الصباح میکے پہنچی۔ باپ کی حالت اور مفصل کیفیت سن کر الٹے پائوں واپس گئی رات کے دس بجے تھے، احسان یہ سن کر کہ محسن نے روپیہ دینے سے انکار کر دیا، انگاروں پر مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا تھا۔ مگر مجبور تھا کہ ہلنے کی طاقت نہ تھی۔ اور کوئی دم کا مہمان تھا آنکھیں بند تھیں کہ ایک ہاتھ نے اس کا مفلوج ہاتھ اٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگایا۔ احسان نے آنکھ کھولی تو دیکھا۔ رضیہ سامنے کھڑی ہے اور آنکھ سے آنسو بہہ رہے ہیں۔
وہ یہ سمجھ کر کہ باپ کو میری صورت سے تکلیف نہ ہو ہاتھ جوڑتی ہوئی پیچھے ہٹنے لگی۔ تو صفیہ نے کہا۔
رضیہ یہ چار ہزار روپیہ لائی ہے اور کہتی ہے کہ میں نے جو پانچ ہزار روپے اس کو نقد دئیے تھے اس میں سے یہ لے لیجئے اور علاج کیجئے۔
جس رضیہ کی صورت سے باپ کو نفرت تھی۔ جس پر ایک پیسہ بھی صرف کرنا گراں تھا۔ اس کا سر اس وقت باپ کے قدموں میں تھا۔
اور زبان سے یہ الفاظ نکل رہے تھے۔
’’اباجان یہ آپ ہی کا روپیہ ہے۔ میرا نہیں ہے۔‘‘
آج احسان کو معلوم ہوا کہ بھولی بھالی بچیاں کیا چیز ہیں، اس نے بچی کو بلا کر اپنے سینے سے لگایا اور آنکھ سے آنسو جاری ہو گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.