میں اور زمین
الف آغاز ہے اور الف ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ زبان کے اتھاہ ذخیرے سے وہ پہلا اور رخشاں حرف چننا جو قرن ہا قرن چمکتا رہے، کوئی آسان بات نہیں اور مبرا ہے شک سے یہ حقیقت کہ تنہا انسان کے ہر نطق کا کل حاصل پہلا اور رخشاں حرف ہے۔ ہر خواب اور ہر ستیہ اور ہر قوتیہ اور ہر اصولیہ اور ہر کہانی اور ہر خواب ایک ایسی زبان کا حرف ہے جو اب تک ترجمہ نہیں ہو سکی۔ یہ بیکراں راتوں کی خاموشی دانائی کی زبان ہے اور ابدیت کی بےقاعدہ بےقانون زبان ہے۔۔۔ زمین، محدود وسیع و عریض ہے اور زمین کے ساتھ سب چیزیں محدود وسیع و عریض ہیں، آسمان شکار عمارت بھی اور تکبر شعار آدمی بھی اور گھاس کی خاکسار پتی بھی۔ ذہن اور روح اجازت دیں تو آنکھ ہر شے کو کئی گنا بڑا کر کے دیکھے اور ذہن وقت کو تباہ کرنے کی قوت رکھتا ہے اور ذہن موت کا بھائی ہے اور یاد رکھو زندگی کا بھائی بھی۔۔۔ اور ان سب سے زیادہ جو وسیع و عریض ہے وہ انا ہے۔ انسانیت کا جرثومہ جس سے کائنات کا تعین ہوا اور جنت و جہنم کو نام ملے اور زمین اپنے مدار پر قائم ہوئی اور انسان کا چہرہ پہچانا گیا، میرا چہرہ اور تمہارا چہرہ اور تمہاری آنکھیں اور میری آنکھیں۔۔۔
میں ایک بوڑھے شہر میں رہنے والا نوجوان آدمی ہوں۔ ابھی چند لمحے پیشتر، صبح کا جھرنا رات کی سل چیر کر پھوٹا ہے اور افق افق پھیل گیا ہے اور میں اپنی آنکھوں میں شب زندہ داری کا خمار لیے اپنے حجرہ شاہ مقیم میں کھڑا ہوں اور حجرے شاہ مقیم کی اس لکھت بیٹھک کے قریب کھڑا ہوں جس پر کھردرے پیلے کاغذوں کا ایک ڈھیر پڑا ہے۔ میری استطاعت یہی کھردرے پیتے سستے کاغذ ہیں اور یہ سب کاغذ خالی ہیں جس طرح میں پیدائش سے پہلے زندگی کے لیے خالی تھا اور جس طرح موت کے بعد بھی زندگی کے لیے خالی ہو جاؤں گا۔ ان کاغذوں پر ابھی تک زبان نہیں لکھی گئی اور حرف نہیں ابھارے گئے اور میں کہ ایک جواں سال لکھت کار ہوں یا یوں کہہ لو کہ ایک جواں سال خدا ہوں، ان کاغذوں پر موت اور زندگی لکھنا چاہتا ہوں، اپنی لکھت کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ اپنی آئندہ موت زندگی لکھت کا پہلا رخشاں حرف لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ آج ہفتہ ہے اور دسمبر کی چوبیسویں تاریخ۔ صاحب وجود ہونا اور ابھی تک صاحب وجود رہنا اتنا اچھا ہے کہ بے اختیار حمد وثنا کرنے کو جی چاہتا ہے، معلوم اور نامعلوم کائنات کے چپے چپے پر خود اپنے سامنے سجدہ کناں ہونے کو جی چاہتا ہے۔
میں ایک بوڑھا آدمی ہوں اور میں کئی گلیوں سے گزرا ہوں اور میں نے کئی شہر دیکھے ہیں اور میں راتوں اور دنوں کے کئی راز جانتا ہوں اور پراسرار فرشتوں کے کئی اسرار مجھ پر آئینہ ہیں او ر میں نے فلک الافلاک کی لوح محفوظ کئی بار پڑھی ہے اور میں نے باغبانی صحرا کے قوانین مرتب کئے ہیں اور اب گھوم پھر کر اپنے حجرے شاہ مقیم میں اپنے پاس آ گیا ہوں اور اس چھوٹے سے حجرے شاہ مقیم کی دیوار پر میرے مرحوم باپ کی تصویر آویزاں ہے اور میں زمین سے اس کا چہرہ اور اس کی آنکھیں لے کر اگاہوں اور اپنی زبان میں وہ کچھ لکھ رہا ہوں جو کچھ وہ اپنی زبان میں لکھتا اور ہم دونوں ایک ہی ہیں۔۔۔ بس صرف اتنا فرق ہے کہ ایک چہرہ زندگی دیکھتا ہو اور دوسرا چہرہ موت کی کتاب پر جھکا ہوا۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ زندگی کے صحیفے اور موت کی کتاب میں کتنا اور کیا فرق ہے؟
میں شدید کرب اور اضطراب کی کپکپاہٹ میں ہوں کہ یہ لمحہ میرے لیے بہت عظیم اہمیت رکھتا ہے اور اس لیے سب کے لیے بہت عظیم اہمیت رکھتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے کہ میں خالی کاغذ پر زبان لکھنے والا ہوں اور اپنی زبان لکھنے والا ہوں اور مجھ پر پہلے آدم کا تپ لرزہ طاری ہے۔ مجھ پر وہ بوجھ رکھا گیا ہے جو فرشتوں نے اٹھانے کی کوشش کی تو ان میں سے ایک نفی کی خاردار عبا پہننے پر مجبور ہوا اور دوسرے مارے خوف کے سجدے میں گر گئے اور یہ وہ بوجھ ہے جس کو اٹھانے سے پہاڑ معذرت خواہ ہوئے۔۔۔ میں کپکپاہٹ میں ہوں۔ دور کہیں گھنٹیاں مسلسل گنگنا رہی ہیں۔ کاش کوئی ہوتا کہ قدیم کتابوں کے حوالے سے میری کپکپاہٹ کی تصدیق کرتا اور جان لو کہ یہ کپکپا ڈالنے والا بوجھ، پہلا اسم جاننے کا بوجھ ہے اور پہلا حرف لکھنے کا بوجھ ہے اور میں پہلا حرف غلط نہیں لکھنا چاہتا اور میں اپنی زبان کے ساتھ عیاری نہیں کرنا چاہتا چونکہ اپنی زبان کے ساتھ عیاری کرنا اپنے ضمیر کے ساتھ اور اپنے شعور کے ساتھ عیاری کرناہے۔۔۔ میں اس خوف بوجھ کے نیچے کانپ رہا ہوں اور خائف ہوں۔۔۔ میں زندگی میں کبھی عیاری نہیں کر سکا اور اب جبکہ میں ایک ایسی محنت کے سامنے کھڑا ہوں جو خود زندگی سے عظیم تر ہے تومیں سچ کے سامنے سے کیسے ہٹ جاؤں۔۔۔ چنانچہ عجزانا کے اس برتر لمحے میں کسی قیمت پر بھی میں اپنا کردار ضائع نہیں کروں گا کہ کردار کا زیاں جھوٹے حرف لکھواتا ہے۔
لوگ مجھے کہانی کار کہتے ہیں، جیسے مجھ سے پہلے والوں کوکاہن کہا گیا اور شاعر کہا گیا، میں پناہ مانگتا ہوں کہانی کار ہونے سے اور کاہن ہونے سے اور وادیوں میں سرگرداں پھرنے والے شاعر ہونے سے۔ میں تو ایک بے دعویٰ شخص ہوں، لیکن میری بغل میں ایک کتاب ہے اور اس کتاب میں ایک لکھت ہے۔۔۔ زمین پر مجھ انسان کی لکھت، سادہ سی لکھت۔ یہ سادہ سی لکھت میں اپنے اسلوب میں لکھنا سنانا چاہتا ہوں اور عامی زبان کے تمام شعبدے او ر معنوعی صرف و نحو کے تمام اصول بھول جانا چاہتا ہوں۔
میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور گذرے ہوئے نبیوں کی طرح نہیں بولنا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ گزرے ہوئے نبیوں کا بولنا اب قدیم اور طاق پر رکھ دیا جائے اور اب میرا بولنا سنا جائے اس لیے کہ میں ستیہ قوتیہ بولنے والا ہوں اور لمحاتی کلیوں پر یقین نہیں رکھتا۔مجھے صرف مجھ انسان سے دلچسپی ہے۔ میں زندگی سے محبت کرتاہوں اور موت کے سامنے عاجز نہیں ہوں۔ میں موت کی عاجزی کیوں اختیار کروں کہ سرتا سر جسمانی اور غیرحقیقی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ میرا باپ اب تک زندہ ہے اور میں بھی زندہ ہوں اور ہم دونوں زندہ ہیں اور میرے سانس میں انسان کا پورا ماضی زندہ ہے اور میں تشدد سے نفرت کرتا ہوں اور ان سے جو تشدد پھیلاتے ہیں اور تشدد پر عمل کرتے ہیں۔ ایک زندہ انسان کی چھنگلیا پر لگائی جانے والی خراش کو میں انسان کی طبعی موت سے زیادہ تباہ کن اور زیادہ خوفناک سمجھتا رہوں گا اور جب تک جنگوں میں لاکھوں انسانوں کو موت کی ایذا دی جاتی رہےگی، میرا غم دیوانگی کی حدیں چھوتا رہےگا اور میں غصے سے نامرد ہوتا رہوں گا۔ میرا واحد ہتھیار زبان ہے لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ یہ ہتھیار ہر ہتھیار سے زیادہ کاری ہے، میں اداس ہوں چونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں تنہا تباہی کے اس شعلے کو نابود نہیں کر سکتا جو مذہبیوں نے اور سائنسیوں نے اور فلسفیوں نے انسان کے ذہن میں بھڑکا رکھا ہے اور میں صرف ایک لکھت کار ہوں اور اپنی اس لکھت میں انسان کو اس کے وقار اور ملائمت پر بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں انسان کو اس کے وجود پر بحال کرنا چاہتا ہوں اور اس کو ابلیس جیسے ہجوم شور سے نکال کر روح بدن کی خدا جیسی خاموشی اور سکون میں لے جانا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ انسان تاریخ کے عفونت بھرے ملبے سے اٹھے اور اپنی روح کے پرسکون خواب میں چلا جائے کہ یہی خواب اس کی سچی تاریخ ہے۔ انسان کا گھر اس کا اپنا وجود ہے۔ ریوڑ کی صورت رہنا صرف مویشیوں کے لیے تجویز ہوا تھا۔ پھر انسان کیوں مویشیوں کی طرح رہنے لگا۔ جب ایک انسان کی روح اس سے چھین لی جاتی ہے اور اس کو ہجوم کا ایک فرد بنا دیا جاتا ہے تو خدا کا بدن دکھنے لگتا ہے۔
اور میں عامی پن کے خلاف ہوں اور اوسط درجے کے خلاف ہوں۔ اگر کوئی عام درجے یا اوسط درجے کا عقل مندہے تو میں اس کی عزت نہیں کرسکتا، لیکن ایک برتر درجے کے پاگل سے میں ہمیشہ محبت کروں گا۔ میری اب تک کی پوری زندگی روایات کا اور آداب کا مذاق اڑاتے گزری ہے اور میں زندگی بھر قوانین پر ہنستا رہا ہوں۔ انسان جیسی حیرتناک شے پر کوئی قانون کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟ ہر طرز کی زندگی ایک نیا تضاد ہے اور ایک نئی صداقت ہے اور ایک نیا معجزہ ہے۔ میں اپنے اس حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا کہ میں اپنی تردید کر سکتا ہوں۔ ہر انسان کو اپنی تردید کرنے کا حق حاصل ہے۔ مثلا میں نے کبھی کہیں کہا تھا کہ میں سب مشینوں کو کاٹھ کباڑ سمجھتا ہوں لیکن قلم بھی تو ایک مشین ہے اور میں قلم کی عبادت کرتا ہوں اور اب میں اس لکھت کی طرف آتا ہوں، جو میں لکھنے چلا تھا۔ یہ انسان کی لکھت ہے اور میری لکھت ہے اور میرے قلم کی لکھت ہے اور شاید ایک معمولی اور غیراہم لکھت ہے، اگر آپ کو پرلطف اور دلچسپ کہانیاں پڑھنی ہیں تو کسی بھی رسالے میں پڑھ سکتے ہیں۔ یہ رسالے محبت کی اور نفرت کی اور تشدد کی اور خوشیوں کی اور مایوسیوں کی او رکیف ومستی کی کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ان کہانیوں میں آپ کو پلاٹ اور کردار اور ماحول اور موڈ اور اسلوب بھی ملےگا اور اس کے علاوہ وہ سب کچھ بھی جو ایک من موہنی کہانی کے لیے ضروری ہوتا ہے، اس سے آپ یہ نہ سمجھئے کہ میں کہانیوں کی توہین کرنا چاہتا ہوں اور اپنی کہانی نہیں سنانا چاہتا اور آپ سے کوئی چالاکی کرنا چاہتا ہوں۔
میں جن کہانیوں کی توہین کرنا چاہتا ہوں وہ کہانیاں اور وہ مرد اور وہ عورتیں او روہ بچے جو ان کو پڑھتے ہیں ہمارے عہد کی سب سے دردناک دستاویزیں ہیں، جیسی سوقیانہ تفریحی فلمیں اور وہ لوگ جو اپنی زندگیوں کا غالب حصہ یہ فلمیں دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ میں بھی فلمیں دیکھنے جاتا ہوں اور فلم بینوں کے ہجوم سے جذبات کا جو سیلاب ابل رہا ہوتا ہے اس کو دیکھ کر بہت آزردہ ہوتا ہوں۔ خصوصاً نیوز ریلیں دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ سیلاب کے اور الٹی ہوئی ٹرینوں کے اور جنگوں کے اور سیاستدانوں کی فریب آلود تقریروں کے منظر میں روئے بغیر نہیں دیکھ سکتا۔ لہذا میری لکھتوں اور ان کہانیوں کے فرق سے غلط مطلب نہ نکالیے۔ میں کوئی طنز نگار نہیں ہوں اور فی الحقیقت طنز کرنے کے لیے کچھ ہے بھی نہیں۔ ہر تصنع اور ہر فریب اپنا طنز آپ ہے۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں ایک لکھت کار ہوں۔ میں ہمیشہ لکھتا رہتا ہوں اور لکھتا چلا جاتا ہوں، جیسے ملک کے تمام رسائل و جرائد میری لکھتیں چھاپنے کے لیے بےچین ہوں اور مدیران گرامی میری تحریروں کے بڑے بڑے معاوضے پیش کرنے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے ہوں۔ حالانکہ میں جو اپنے حجرے شاہ مقیم میں بیٹھا سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا ہوں اور اپنی اپنی یہ لکھت لکھ رہا ہوں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس بازارمیں جہاں مدیر اپنے اپنے رسائل و جرائد کی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں، میری لکھت اپنی ہم عصر کہانیوں کے مقابلے میں ایک اٹی قیمت بھی نہ پائےگی۔ تو میں ایک لکھت کار اپنے قلم کی عبادت کیوں کرتا ہوں اور اس عبادت کا مجھے کیا اجر ملتا ہے اور لکھتیں لکھ کر مجھے کونسی شانتی ملتی ہے؟
اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں مظلوم بن رہا ہوں۔ میں نہ مظلوم ہوں اور نہ جذباتی اور نہ شہید میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ ملک کاکونسا جریدہ منڈی کے کس گروہ کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ میں یہ سب جریدے پڑھتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ کس طرز کی کہانیاں لکھ کر خود کو بڑا کہانی کار بنایا جاتا ہے۔ یہ اسرار و رموز جاننے کے باوجود میں ایسی لکھتیں لکھتا ہوں جو شاذونادر ہی شائع ہوتی ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں وہ کہانیاں نہیں لکھ سکتا جو طلب و رسد کے تقاضے پورے کرتی ہوں؟ نہیں میرے بھائی نہیں۔ میں ہر طرح کی کہانی لکھ سکتا ہوں لیکن مجھے اپنی شناخت بہت عزیز ہے اور میں اپنی اس شناخت کو محفوظ رکھنا چاہتا ہوں اور اگر اس کے لیے یہ ضروری ٹھہرے کہ میرل لکھت چھپ نہ سکے تو بھی مطمئن ہوں۔ میں شہرت پر اس طرح یقین نہیں رکھتا جس طرح عموماً رکھا جاتا ہے۔
مگر جان لو کہ مجھ ایسا لکھت کار ہونے کے لیے آخری درجے کا مصاحب انا اور مذہبی اور سوشلسٹ بیک وقت ہونا ضروری ہے۔ مجھ لکھت کار ہونے کے لیے اتنی قوت چاہیے کہ خدا پہلے تو حیران ہو اور پھر خود بھی ایک چھوٹا سا مرکزہ بن کر اس قوت میں شامل ہو جائے اور جان لو کے لمحے اور سال اور صدیاں وقت کے لاانتہا میں پتہ نہیں کب تک سرگرداں رہتی ہیں۔ تب مجھ ایسا لکھت کار انسانی وجود کی گرفت میں آتا ہے۔ اس لیے میں حرف لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے ہر نوجوان کو اس طرح لکھنے کا مشورہ نہیں دیتا جس طرح میں لکھتا ہوں۔ میں شعوری ادیب نہیں ہوں اور میں نے جب سے لکھنا شروع کیا ہے، لکھنے کے اصولوں سے بغاوت کرتا چلا آیا ہوں۔ میں تو صرف ایک بوڑھا اور نوجوان لکھت کار ہوں اور اس لیے لکھتا ہوں کہ لکھنا ہی سب سے زیادہ مہذب اور نیک عمل ہے۔
اور کیا تم جانتے ہو کہ میرے ذہن میں ہیئیت اور اسلوب کے الگ الگ خانے موجود نہیں ہیں؟ میں ایسے کسی اسلوب اور ہیئیت کو نہیں جانتا جو صرف نظم کے لیے مخصوص ہو اور جس میں صرف کہانی لکھی جا سکتی ہو اور جس پر صرف ناول پورا اترتا ہو۔ میری آشنائی صرف ایک اسلوب اور صرف ایک ہیئت سے ہے اور اس کا نام انسان ہے۔ باقی سب فریب ہے اور میں اپنی اس لکھت میں اس انسان کی لکھت لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، جو میں ہوں اور اس زمین کی لکھت جو مجھے اٹھائے خلا میں رقصاں ہے اور جس کو میں اٹھائے لاانتہا کے سفر میں ہوں۔
میری یہ تمام باتیں شاید بے محل اور وقت کا زیاں سمجھی جائیں لیکن میں ایسانہیں سمجھتا۔ اس لیے کہ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ میں اگر دن بھر میں صرف سوگز کا فاصلہ طے کرنا چاہتا ہوں تو سو گز کا فاصلہ ہی طے کروں گا۔ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ میں چند لمبی لمبی قلانچیں بھر کر یہ فاصلہ ایک منٹ میں طے کرلوں تو اس کو چاہیے کہ میری یہ لکھت اٹھا کر ایک طرف پھینک دے اور کوئی تفریحی تحریر پڑھنا شروع کر دے۔ میں نے کسی کو مجبور نہیں کیا کہ وہ میری لکھت پڑھے یا سنے اور جو پڑھ رہے ہیں یا سن رہے ہیں انہیں میں نے کوئی صلہ دینے کا وعدہ نہیں کیا۔ میں تو اپنے حجرے شاہ مقیم میں بیٹھا اپنی زندگی گزار رہا ہوں اور قلم کی عبادت کر رہا ہوں۔ میرے سامنے میرا باپ موجود ہے اور وہ کئی سال پہلے اس زمین پر زندہ رہنا ترک کر چکا ہے اور میں ہر دو یا تین منٹ بعد اس کے اداس چہرے کی طرف دیکھ لیتاہوں اور اس کے چہرے کو دیکھنا آئینے میں دیکھنا ہے اور آئینے میں ہر شخص ہمیشہ خود کو دیکھتا ہے۔ آج میری عمر اتنی ہی ہے جتنی اس وقت میرے باپ کی تھی، جب اس نے اپنی یہ تصویر کھنچوائی تھی۔ قلم کے بعد اگر میں نے کسی کو چاہا ہے تو وہ میرا باپ ہے۔ میں اسے ساری زندگی چاہتا رہا ہوں۔ جب ہم دونوں اس زمین پر زندہ تھے تومیں اتنا کم عمر تھا کہ اس سے ایک حرف کا تبادلہ بھی شعوری طور پر نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن جب سے شعور میں آیاہوں اس سے طویل اور خاموش گفتگوئیں کرتا رہتاہوں۔ میں اس سے کہتا ہوں: اے ایک رئیس گھرانے کے اداس باغی! تیری زندگی کتنی اچھی اور کتنی قابل رشک تھی! اور وہ ملائمت سے جواب دیتا ہے: ہاں میرے بیٹے! لیکن عجز اختیار کر اور خدا کی جستجو کر!
میرا باپ بھی ایک لیکھک تھا لیکن اس کی کبھی کوئی تحریر شائع نہیں ہوئی۔ اس کے تمام عظیم مسودے خطوں اور یاداشتوں کی صورت میں میرے پاس محفوظ ہیں۔ اب ان مسودوں کی روشنائی اتنی مدھم ہو چکی ہے کہ ان کو پڑھنا ممکن نہیں رہا۔ لیکن میں سال میں دو تین مرتبہ یہ مسودے نکالتا ہوں اور ان کو گھنٹوں دیکھتا رہتا ہوں اور ان کی پرانی خوشبو سونگھتا رہتا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ شائع نہ ہونے کے باوجود یہ مسودے ادب میں اضافہ ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ میری طرح میرا باپ بھی باغی تھا اور اداس تھا۔ اس کی اداسیاں اس کی یاداشتوں کے ورق ورق پر بکھری پڑی ہیں۔ ایک یاداشت میں اس نے لکھا ہے: میں رائل انڈین نیوی میں کمانڈر ہوں اور آجکل بمبئی میں ہوں۔اس شہر میں مجھ پر ہمیشہ دو کیفیتں طاری رہتی ہیں۔ ایک کیفیت اداسی کی کیفیت ہے اور دوسری کیفیت بھی اداسی کی کیفیت ہے۔ دراصل وہ بمبئی میں تنہا تھا اور ایک ایسی ملازمت کر رہا تھا جس میں وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا تھا۔ وہ انگریزی کا عالم تھا اور شیکسپیئر اور بائرن اس کو ازبر تھے اور بدقسمتی سے وہ انقلابی بھی تھا۔ چنانچہ اس نے رائل انڈین نیوی میں بغاوت کی خوشبو بکھیرنی شروع کر دی اور کچھ ہی عرصے کے بعد بغاوت کی یہ خوشبو شعلہ بن کر بھڑک اٹھی اور اسے گرفتار کرکے سزائے موت سنا دی گئی۔ وہ فرار ہو کر ہارون آباد چلا گیا جہاں اس کے باپ کی زرعی زمینیں تھیں۔ ہارون آباد کے جنوب میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ وہ اسی گاؤں میں رہتا تھا۔ اس عرصے میں اس نے جو یادداشتیں لکھیں ان میں دھوپ کا اور وسعت کا اور گندم کی خوشبو کا اور گنے کے رس کا اور انگور کے گچھوں کا اور مالٹے کی کلیوں کا ذکر ہے اور یوں وہ زمیندار بن گیا لیکن وہ ایک ناکام زمیندار تھا۔ وہ کتابوں کا آدمی تھا اور علم کا جویا تھا اور اس کو بہترین لباس پسند تھا اور وہ آرام و آسائش سے محبت کرتا تھا اور میری طرح اس کو مشینوں سے نفرت تھی۔
جو سال گزر گیا، اس میں کئی ماہ ایسے گزرے ہیں کہ میں اپنے باپ سے اور زمین سے اور قلم سے جدا رہا اور میں کچھ بھی نہیں رہا اور اگر کچھ رہا تو ایک غیر زندہ سانس لیتا انسان رہا اور کائنات کے ڈراؤنے خواب میں ڈولتا ہوا ایک غیر نمایا ں سایہ رہا اور جب خدا نے مجھ میں اپنا سانس اتارا تھا تو اس سانس کی خوشبو کا پہلا اعلان یہ تھا کہ زندہ انسانوں کے لیے مردہ اور بے نام زندہ رہنا کفر کی بات ہے اور تذلیل کی بات ہے اور مفقود الخبر ہونے کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پھر میں نے اپنے باپ کا دامن تھام لیا ہے اور اپنے پاؤں زمین پر لٹکا لیے ہیں اور قلملیے میں روشنائی بھر لی ہے اور اپنے قریب کھردرے کاغذوں کا ڈھیر رکھ لیا ہے اور اپنے حجرے شاہ مقیم میں بیٹھ گیا ہوں اور حجرہ شاہ مقیم تمباکو کے دھوئیں سے بھر گیا ہے اور میں ققنس کی طرح اپنی راکھ سے دوبارہ پیدا ہو گیا ہوں۔ سنو کہ میں زندگی سے محبت کرتاہوں اور زندہ حواس سے محبت کرتا ہوں اور کام کرتے ہوئے دماغوں سے محبت کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ زندگی ہر اس انسان سے تخلیق پاتی ہے جس کے سینے میں خدا کا سانس ہو اور ہر انسان اپنا شعور خود تخلیق کرتا ہے اور اپنے اندازے اور اپنے قیاس خود بناتا ہے، اس لیے کہ شعور اور اندازے اور قیاس بالذات موجود نہیں ہوتے۔ صرف کنفیوژن اور گناہ اور بدصورتی بالذات موجود ہوتی ہیں۔ کاغذ پر قلم کی سرکتی ہوئی آواز نے مجھے ایک بار پھر یقین دلایا ہے کہ میں زندہ ہوں اور اس زندگی کے احساس نے میری جھولی میں عجز کا وہ کوہ نور ڈال دیا ہے جو کسی کسی شاہجہان کو نصیب ہوتا ہے۔ پس اے شاہجہاں! اپنے تاج میں عجز کا یہ کوہ نور لگا اور یقین کے تخت طاؤس پر بیٹھ! اور جہانبانی کر! صدیوں کو اور قرنوں کو اور زمانوں کو اور سالوں اور مہینوں کو اور دنوں کو اور لمحوں کو اجازت دو کہ تاابد خود کو دہراتے رہیں اور تم اپنے حجرے شاہ مقیم میں بیٹھے رہو اور حرفوں میں اپنے ہونے کے سچ کا اعلان کرتے رہو اور بے معنویت سے اور کثافت سے حقیقتوں کا جوہر اخذ کرتے رہو اور اس لمحے کا ہونا کبھی نہ مٹایا جا سکےگا کہ یہ لمحہ وقت سے آگے نکل گیا ہے۔
مجھے تجارت سے اور تجارتی سرگرمیوں سے نفرت ہے۔ میں وہ نوجوان ہوں جس کی جیب پیسوں سے خالی رہتی ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چھوٹی سی رقم، اپنی قوت خرید کی وجہ سے مجھ ایسے نوجوان کے لیے بڑی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ اس لیے تجارت اور تجارتی سرگرمیوں سے متنفر ہونے کے باوجود میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں پیسے کا ایک حد تک احترام کرنے پر مجبور ہوں۔ میں چاہوں گا کہ میرے پاس اتنا پیسہ موجود رہے کہ میں سادگی سے زندگی بسر کر سکوں اور زندگی لکھ سکوں۔ اگر میرے پاس پیسہ نہ ہوتا تو میں یہ قلم نہ خرید سکتا اور یہ قلم میں نے پیسے سے خریدا ہے۔ پہلے پہل یہ شے جو قلم کہلاتی ہے میرے لیے ایک عجیب و غریب چیز تھی اور جب یہ قلم کاغذ پر سرسراتا تھا تو مجھے اس سرسراہٹ سے وحشت ہوتی تھی اور رات کے خاموش لمحوں میں تو یہ سرسراہٹ میرے لیے خاصی پریشان کن ہوتی تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، یہ آواز نوائے سروش بنتی گئی اور میں قلم سے محبت کرنے لگا اور اس سے میری وہ وابستگی ہو گئی جو ایک موسیقار کو اپنے ساز سے ہوتی ہے۔ میرے قلم نے مجھے کبھی دھوکہ نہیں دیا، کاغذ کی سطح چاہے ہزار کھردری ہو۔ اے میرے قلم میں تیرا احترام کرتا ہوں!
اور تب ایک دن یوں ہوا کہ شکستگی اور نراس کے عالم میں اس چھوٹی سی مشین کو میں نے اپنی جیب میں رکھا اور شہر چلا گیا وہاں میں نے اس کو ایک شناسا کے پاس رہن رکھا اور کچھ روپے جیب میں ڈال کر شہر کی سڑکوں پر نکل آیا۔ میں اپنی مفلسی سے اور اپنی امارت سے تنگ آ چکا تھا۔
سب سے پہلے میں بوٹ پالش کرنے والے ایک بوڑھے آدمی کے پاس پہنچا اور اپنے جوتوں پر پالش کروائی۔ جب کوئی بوٹ پالش کرنے والا میرے جوتے چمکاتا ہے تو میں اس کو اپنی جگہ کھڑا کر دیتا ہوں اور پھر زمین پر بیٹھ کر اس کے جوتے پالش کرتا ہوں۔ یہ میرے لیے انکسار اور عجز کا ایک تجربہ ہے۔
اس کے بعدمیں ایک پکچر ہاؤس پہنچا اور لوگوں کے درمیان بیٹھ کر اپنے آ پ کو سلولائیڈ پیکروں میں دیکھنے لگا۔ میں بیٹھا رہا اور خوبصورت عورتوں کے چہرے دیکھ دیکھ کر خواب دیکھتا رہا۔ یہاں سے میں ایک ریستوران میں چلا گیا اور مینو کے تمام کھانے تھوڑے تھوڑے منگوا کر کھاتا رہا۔ ویٹر یہ سمجھا کہ میرا دماغ چل گیا ہے۔ وہ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتا رہا۔ لیکن میں بل اور ٹپ دے کر باہر نکل آیا اور شہر کے تاریک کوچوں میں چلنے لگا۔ وہ کوچے جہاں تاریکی کے ساتھ عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ میں اپنی مفلسی سے تھک چکا تھا۔ کوئی بھی، حتیٰ کہ مجھ ایسا بڑا لکھت کار بھی لمحہ در لمحہ مفلس رہنے کا اور امیر رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
لیکن ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ مجھے اپنے باپ کی آواز سنائی دینے لگی، وہ زمین کے اندر سے بول رہا تھا۔ تب دوبارہ میرے وجود نے قلم کا مطالبہ شروع کر دیا اور دوبارہ میرے حرف کاغذ پر اترنے کی تمنا کرنے لگے۔ میں نے چاہا کہ میں دوبارہ کچھ کہوں اور دیکھوں اور الف لکھوں اور قلم کو رہن سے چھڑا لاؤں۔
بس یہی میری لکھت ہے اور جان لو کہ میری لکھت اجزا کا کل ہے اور جان لو کہ جب کوئی اجزا سے گذر کر کل تک پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنے باپ کو اور اپنی زمین کو اور اپنے خود کو رہن سے چھڑا لیتا ہے اور الف لکھنا شروع کر دیتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.