میں تجھے چاہتا نہیں لیکن۔۔۔
ہیگل اور مارکس کے تقابلی جائزے پر لیکچر روز کی طرح آج بھی بیزارکن تھا۔ میں کتنی دیر سے دانت بھینچ کر جمائیاں روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک تو موضوع کی سنگینی، اس پر سر احمر کی بیزار سی تھکی تھکی مندی ہوئی آواز۔ وہ ڈائس پر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں بھینچے چابی سے چلنے والے کھلونے کی طرح کوک رہے تھے۔ نہ آواز میں اتار چڑھاؤ، نہ زیروبم۔ سلیبس کی رٹی رٹائی پٹی ہوئی مثالیں۔ جیسے کچھ لوگوں کو اچھا بولنا نہیں آتا، مجھے اچھا سننے کا ملکہ نہیں تھا۔ میں اس قدر ڈل لیکچر سے بچنے کے لیے سر احمر کی آنکھوں میں ذہین طالب علموں کی طرح نظر آتی، ایسے ظاہر کر رہی تھی جیسے ان کا بولا ایک ایک لفظ میرے زرخیز ذہن میں سینکڑوں گنا زیادہ ہو کر چل رہا ہو۔ شیریں بدتمیزی سے چیونگم چبا رہی تھی۔ کبھی دائیں حصے میں، کبھی بائیں میں۔ اس کی گردن بھی اٹھی ہوئی تھی اور سامنے دیکھتی ہوئی۔ اس کے دوسرے ہاتھ پر بیٹھی نزہت البتہ بڑی روانی میں نوٹس لے رہی تھی۔ اختر ملک نے سر احمر سے کسی موضوع پر اختلاف کیا تو شیریں کو چیونگم بانٹنے کا نادرموقع ہاتھ آ گیا، کیوں کہ جب مثال کتابی سلیبس سے ہٹ کر عام بحث کی زد میں آ جاتی تو سر احمر جلدی جلدی تھوک نگلنے لگے تھے۔ اختر ملک Thesis اور Anti-thesis کی گردان میں سر احمر کو پٹخنیاں دے رہا تھا۔ کلاس روم کنٹرول سے باہر ہو گیا اور بحث سے خارج لوگوں نے کشور کمار کے بھونڈے چربے پیش کرنے شروع کر دئیے۔ ایک کونے سے کسی گانے سے پہلے بولے گئے ڈائیلاگ باآواز بلند دہرائے جا رہے تھے۔
’’تم ایک بےغیرت انسان ہو، جسے باتیں بنانے کے سوا کچھ نہیں آتا۔‘‘
پیریڈ ختم ہونے میں پانچ چھے منٹ رہ گئے تھے لیکن کلاس روم ابھی سے سبزی منڈی کی طرح بکھر گیا تھا۔ اس پر عباس نے بدتمیزی کی انتہا کر دی سر احمر ابھی کلاس میں تھے کہ وہ دروازے سے باہر نکل گیا۔ اس کے بعد دوسرا۔ دوسرے کے بعد تیسرا۔ اس طرح سارا گروپ باری باری باہر آ گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب یونیورسٹی دو واضح گروپوں میں تقسیم تھی۔ عمر اٹھ کر گیا تو اس کے گروپ کے لوگ بھی اٹھ گئے۔ بےچارے سر احمر۔ مجھے ان پرہمیشہ ترس آتا۔ ان کے ساتھ ہمیشہ سے یہی ہو رہا تھا۔
’’لوگ بھی اوور ہو جاتے ہیں۔‘‘ نزہت نے تیز تیز قدم اٹھا کر ہمارے ساتھ ملتے ہوئے کہا۔
’’میرا تو سر دکھ گیا۔‘‘ شیریں نے دردِ سر کی گولی کے طور پر دارچینی کی خوشبو والی استعمال شدہ چیونگم، ٹشو پیپر میں لپیٹ کر ڈسٹ بن میں الٹ دی۔
’’لیکن کیا کوئی ایسا ادارہ نہیں جو ان نالائق لوگوں کی یونیورسٹی میں آمد کے سلسلے میں روک تھام۔۔۔‘‘ شبیر ہمیشہ کی طرح گستاخ ہو رہا تھا کہ قیصر نے اسے ٹوک دیا۔
ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اتر کر پھولوں اور سبزے سے بھرے ہوئے برآمدوں کو عبور کرتے ہم لوگ نہر کے کنارے والی جھگی سے چائے پینے جا رہے تھے کہ پارکنگ لاٹ پر رشنا نظر آئی۔ وہ گاڑی لاک کر کے ہماری طرف آ رہی تھی۔
’’آج پھر کلاسز بنک کی ہیں؟‘‘
شیریں اس کا بازو تھام کر رُو داد سناتی آگے چلی۔ باقی ریوڑ پیچھے پیچھے۔
رشنا گروپ میں میری سب سے پیاری دوست تھی۔ وہ ہر طرح سے شان دار تھی۔ لیکن حیدر کو میرا گارجین بننے کا بڑا شوق تھا۔ وہ جب مجھے اور رشنا کو گھلتے ملتے دیکھتا تو تنہائی میں نصیحت کرنے سے باز نہ آتا۔ وہ کہتا تھا، میرے اور اس کے گھر کے ماحول میں بہت فرق ہے اور دولت کا اتنا واضح فرق انسان کی شخصیات بالکل بدل دیتا ہے۔ حالاں کہ یہ سب اس کا پراپیگنڈا ہی تھا۔ وہ بےپروا فطرت کی ہنسوڑ سی خوش کن لڑکی تھی۔ نہ بہت زیادہ گھمنڈی، نہ لوگوں کے آگے بچھنے والی۔ مگر جانے حیدر کو اس سے کیا پرخاش تھی۔ وہ سب کو اپنی گاڑی میں لاد کر پھرتی۔ اس کا ڈرائیور بہت مؤدب تھا۔ اسے چیں چپڑ کی عادت ہی نہیں تھی۔ لیکن رشنا کو جیب خرچ زیادہ نہیں ملتا تھا۔ وہ کہتی تھی، یہ سیٹھوں میں رواج ہے، وہ آپ کو ہر چیز دے سکتے ہیں بس پیسے نہیں۔
پیسوں کی کمی پوری کرنے کے لیے اسے چندہ کرنا پڑتا تھا۔ اس نے مسجد کے چندوں کی رسیدوں کی طرح کی ایک چھوٹی سی رسید بک چھاپ رکھی تھی۔ لوگوں کو لوٹنا اس کا فرض تھا۔ بھیک مانگتے وقت اس کے چہرے پر ایسی مسکینی طاری ہو جاتی کہ جو لوگ اس کو جانتے نہیں تھے پیسے دئیے بغیر رہتے ہی نہ۔ پھر اس کا ڈرائیور ہمیں ’’گوگو‘‘ لے جاتا اور ہم بڑے بڑے بڑک مار کر برگر تین چار لقموں میں ختم کر دیتے۔ اس کی رسیدوں کی آمدنی ان اخراجات کے لیے کافی تھی۔ سب کو اس کی مسکینی پر غصہ آتا لیکن وہ کسی کے کہے میں نہیں تھی۔ روک ٹوک پر مزید اکھڑ جاتی۔ مجھے اس سے خوف آتا تھا۔ میں اسے کسی قیمت پر گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اتنی اناپرست تھی کہ مجھے اس سے خوف آتا تھا کہ اگر میں نے اسے کبھی ناراض کر دیا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھے چھوڑ کر چلی جائےگی۔ وہ صرف میری دوست تھی۔ باقی گروپ سے اس کی مشکل ہی سے بنتی۔ عمر سے اس کا کئی دفعہ اس بات پر جھگڑا ہوا۔ وہ عمر کی موٹر سائیکل پر بیٹھی ہوتی۔ اس کے ہاتھ میں نسخہ ہوتا، اسے ’’فضل دین‘‘ سے دوائیں لینی ہوتی تھیں لیکن درمیان میں وہ ’’ایک منٹ‘‘ کی معذرت کر کے نیچے اترتی اور مال روڈ کے ہنگاموں میں گم ہو جاتی۔ وہ راجہ صاحب کے سامنے کھڑا حیران ہوتا رہتا، آخر راستہ توڑ کر وہ کہاں چلی گئی۔ کچھ دیر اس کا انتظار کرتے کرتے اسے کوفت ہونے لگتی۔ اسے بھی کچھ کام تھے۔ وہ اس کے گھر کا ڈرائیور تو نہیں تھا جو اسے لیے لیے پھرے یا سڑک کے کنارے اس کا انتظار کرتا رہے۔ بہت دیر بعد وہ دکھائی پڑتی۔ گئی تو وہ خالی ہاتھ تھی، واپس آئی تو لدی پھندی۔ کتابیں۔ بال پوائنٹس۔ کاپیاں۔ پین۔ ربڑ۔ جانے کیا کیا الم غلم۔
اس نے آتے ہی ’’کوہ ندا‘‘ عمر کو تھمائی اور اپنے باقی بنڈل سمیت اچک کر پیچھے بیٹھ گئی۔
’’کہاں گئی تھیں تم؟‘‘ عمر کی تیوری چڑھنے لگتی۔
’’فیروز سنز، یہ کتابیں خریدنی تھیں۔‘‘ وہ بلا کی معصومیت سے کہتی۔
’’رسید کہاں ہے؟‘‘ عمر کو شک سا پڑا۔
’’ذرا جلدی چلو نا۔ مجھے کہیں جانا ہے۔‘‘
’’اور وہ نسخہ۔ جو تمہارے ہاتھ میں تھا۔‘‘
’’پلیز۔ جلدی کرو۔‘‘ وہ گھبراہٹ میں کہتی۔
’’اس نے کل پھر فیروز سنز سے چوری کی ہے۔‘‘ اگلے روز عمر اس کی شکایت کرتا۔
’’اور جو کوہ ندا تمہیں دے دی تھی، تمہاری زندگی کسی ایک چیز پر قناعت کرتے نہیں گزر سکتی۔‘‘ وہ الٹا اسی سے جھگڑے پر آمادہ ہو جاتی۔
مجھے اس میں کہیں کوئی خامی نظر نہیں آتی تھی۔ میں نے اس سے چڑ کر کہا، ’’تم اپنی سواری استعمال کیوں نہیں کرتیں۔‘‘
’’لو بھلا۔ یہ کام بھلا کار پر کرنے والے ہیں۔ میں تمہاری ’’سفر نصیب‘‘ لے آئی ہوں۔‘‘
وہ سوغاتیں ایسے تقسیم کرتی جیسے دور دیس کمائی کے لیے گئی تھی۔
پریویس کا فاروق، رشنا کے ارادوں سے ہمیشہ کا بیزار تھا۔ وہ عام طور پر اس کے مذاق کا نشانہ بنتا اور مذاق کا نشانہ بننے والے ہمیشہ ایسے مذاق کو بھونڈا تصور کرتے ہیں۔ فاروق کا تعلق عباس گروپ سے تھا۔ پچھلے الیکشن سے عباس اور عمر گروپ میں اینٹ کتے کا بیر ہو گیا تھا۔ عباس صغیر اور عمر خاکوانی نے پر یویس میں سیکریٹری شپ کا الیکشن لڑا تھا۔ عباس صغیر نے اپنی مسکین سی طبیعت کی بدولت الیکشن تو جیت لیا لیکن اس طرح ہمیشہ کے لیے بھڑوں کے جتھے میں ہاتھ ڈال دیا۔ ہمارے لوگ تھوڑے تھے لیکن خونخوار طبیعت کے مالک تھے۔ مجھے ان لوگوں کی بہت سی باتیں پسند نہیں تھیں لیکن میں گروپ سے وفاداری چھوڑنے پر آمادہ نہ تھی۔ سب لوگ ہر وقت عباس گروپ پر دانت تیز کیے رکھتے۔ کبھی شیریں مظلوم سی بن کر عباس سے بڑا افسوس کرتی۔ ’’کتنی بری بات ہے لوگ شکست تسلیم نہیں کرتے اور روزانہ تمہارا موٹر سائیکل پنکچر کر دیتے ہیں۔‘‘
کبھی اصغر اسے کینٹین میں انوائیٹ کرتا۔ وہ کہا کرتا تھا مجھے دونوں گروپوں میں سمجھوتے کی ایک واضح شکل نظر آ گئی ہے۔ وہ اسے مباحثہ کے لیے کینٹین لے جاتا۔ عباس بےوقوف نہیں تھا، اس نے الیکشن ووٹوں سے جیتا تھا۔ لیکن ہمیشہ کینٹین کا بھاری بل دیتے اسے احساس نہ ہوتا کہ اصغر نے بحث کو متوقع پیریڈ کے خیال سے پھر کسی دن پر ٹال دیا ہے۔
ریحان ایک کمیشن تشکیل دے رہا تھا جو عمر خاکوانی کی شکست پر ایک قرطاس ابیض شائع کرےگا۔ وہ عمر کے گیارہ ووٹوں سمیت سیڑھیوں پر بکھرا ہوا تھا۔
سر عثمان، ہالینڈ کا مشہورزمانہ پائپ منہ میں ڈالتے اور نکالتے سیڑھیاں چڑھتے ان کے پاس سے گزرے۔ ’’ساری زندگی کاہلوں کی طرح گزارو گے۔ تم لوگ کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘
رشنا، جو ہاتھ اٹھا کر اپنا اکلوتا انگریزی گانا الاپ رہی تھی، We had joy, We had fun، سر عثمان کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔
’’سر کیا آپ روسو پر یقین رکھتے ہیں۔ کیا آپ کا سماجی تعلقات پر بھی ایمان ہے۔ پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ہم کچھ نہیں کر رہے؟‘‘ شیریں کا چہرہ ایک بڑا سا سوالیہ نشان تھا۔
عمر ابھی ابھی آیا تھا۔ اس کے ہاتھ سے ہیلمٹ بھی نہیں چھوٹا تھا۔
’’صرف یہی وجہ ہے کہ ہم کیمپس میں ہار گئے ہیں۔ ہمارے پاس لفظوں کے خوب صورت موتی ہیں اور عمل کے بھونڈے گھونگے۔‘‘ وہ شاید اعترافات کے موڈ میں تھا لیکن رشنا اس کی مٹی پلید کرنے پر تل گئی۔
’’یہ شاعری تمہیں سوٹ نہیں کرتی عمر۔ تم بین الاقوامی تعلقات کی بنیادی فلاسفی کی بات کرو۔ ڈپلومیسی پراپیگنڈا آن مکس اور طاقت۔ تم طاقت کا استعمال کرو۔ شاعری حیدر کے لیے رہنے دو۔‘‘
سارے میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگے۔ مجھے بہت برا لگا۔ رشنا اسی طرح کیا کرتی تھی اور وہ اپنی شوخیوں کے اظہار میں یہ بھول جاتی تھی کہ کوئی بھی بات کسی کے لیے کتنی رسوائی کا سبب بن سکتی تھی۔ میں سیڑھیوں کے ساتھ ریلنگ سے ٹکی ہوئی تھی اور حیدر مجھ سے دو سیڑھیاں نیچے۔ وہ خجل ہو کر انگوٹھے کے ناخن کا کونا دانتوں میں گھسنے لگا۔ میں کچھ کہتی نہیں تھی لیکن میرے لیے عمر ہمیشہ ایک ڈھال بن جاتا۔ اس نے رشنا کو بری طرح جھڑک دیا۔
’’چپ رہو۔ تمہارا کوئی کوئی مذاق بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔‘‘
’’تکلیف دہ؟‘‘ رشنا نے مصنوعی حیرت سے آنکھیں پھیلائیں، ’’اور یہ مذاق کس کے لیے تکلیف دہ تھا، تمہارے لیے؟‘‘
مجھے لگا بگل بج گیا ہے۔ عمر اور رشنا دنگل کے لیے اکھاڑے میں اتر آئے ہیں۔ وہ دونوں کوئی بھی موقع ایک دوسرے کو زک پہنچانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور اس وقت تو وجۂ تنازع بھی میں تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے نگاہ اٹھائی۔ میں ان دونوں میں سے کسی کو ناراض نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن غنیمت ہوا کہ عمر، سر عثمان کے ساتھ چل پڑا۔ لیکن رشنا کی آنکھیں کچھ انجانے خوف کھوج رہی تھیں۔
میں رشنا سے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ کبھی سنجیدہ نہ ہوتی۔ لوگ اس سے نالاں تھے۔ وہ ڈیپارٹمنٹ کے لیے تشہیر کا باعث تھی۔ وہ ابھی نچلی سیڑھیوں پر ہوتی تو اس کی وہسل کی گونج اوپر تک سنائی دینے لگتی۔ ٹیچرز اس سے بیزار تھے اور چیئرمین اس کی شکایتیں سن سن کر اور باز پرس کر کر کے عاجز۔ سر احمر کو وہ سر احمق کہتی تھی، وہ سفارشی تھے۔ انگریزی سے ان کی جان نکلتی تھی اور رشنا ان سے اردو بولنے پر آمادہ نہ ہوتی۔ وہ اردو میں جواب دیتے۔ ہوں ہاں پر اتر آتے۔ جب ان کے پسینے چھوٹنے لگتے تو رشنا پرس میں ہاتھ ڈال کر ایک چاکلیٹ نکالتی۔ اس کا خوب صورت ریپر اتار کر بڑی تمیز سے کہتی،’’یہ کھائیےگا؟‘‘
چیئرمین کے پاس لے جاکر جڑنے کے لیے اور کچھ نہ ہوتا تو وہ بھنا جاتے اور چاکلیٹ دے کر شکایت لگاتے کہ ایک خاتون طالب علم مجھے چاکلیٹ دیتی ہیں۔ چیئرمین کبھی تو رشنا کو تنبیہ کر دیتے اور کبھی سر احمر پر چڑھ دوڑتے کہ وہ کلاس میں ایڈمنسٹریشن قائم رکھنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ ہاں ڈاکٹر صابر تشفی کرتے کہ کسی لڑکی کا چاکلیٹ پیش کرنا تو اچھا شگون ہے۔
اس روز مجھے کتنی دیر اپنی ویگن کا انتظار کرنا پڑا۔ عمر ٹولنٹن مارکیٹ جا رہا تھا۔ اس نے جو مجھے درختوں کے نیچے ہراساں دیکھا تو میرے پاس چلا آیا۔
’’اکیلی کھڑی ہو۔ کہاں گئے سب لوگ؟‘‘ اس کے انداز میں ہمیشہ بزرگوں والی تشویش ہوتی اور اس کی اسی تشویش سے بڑی تسلی ہوتی تھی۔
’’شیریں وغیرہ تو کب کی مال گئیں رشنا کے ساتھ اور اس کا ڈرائیور پریشان ہو رہا ہے۔‘‘
عمر کی تیوری پر ہلکی سی شکن آ گئی۔‘‘ اور تم منع بھی نہیں کرتیں؟‘‘
وہ رشنا کے مال پر جانے کا سبب اچھی طرح سمجھتا تھا۔ وہ اس مشن پر ہمیشہ عمر سے چھپ کر جاتی تھیں۔
’’بیٹھو!‘‘ اس نے سر کے اشارے سے پچھلی سیٹ سنبھالنے کو کہا۔
’’ابھی ویگن آجاتی ہے۔‘‘ میں ہچکچانے لگی۔
’’بیٹھو نا۔‘‘ اس نے کچھ لاتعلقی سے کہا۔
’’میرا راستہ دوسرا ہے، تمہارا دوسرا۔‘‘ میرا مطلب سڑکوں والے راستے سے تھا لیکن لہجے کی عجیب سی حسرت نے کچھ اور چغلی کھا دی۔ اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا۔ میں کسی معذرت کی، کسی رنگین فقرے یا شعری جملے کی منتظر رہی۔ لیکن وہ ایسا نہیں تھا، میں جانتی تھی۔ اسے لمبے لمبے فقروں یا لچھے دار باتوں سے ذرا دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے اسی بیگانگی سے کہا، ’’میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ یہاں اس طرح اچھا نہیں لگ رہا۔‘‘
میں اس کی بائیک پر بیٹھی تو آنے والی یونیورسٹی بس سے رشنا وغیرہ اتر رہی تھیں۔ وہ سٹارٹ کر چکا تھا اور انہیں لدا پھندا اترتے دیکھ بھی چکا تھا، اس کے باوجود وہ کچھ سننے پر آمادہ نہ ہوا۔ وہ نہر کے کنارے کنارے ہوا سے شرط لگا کر چلتا رہا اور میں پیچھے دم بخود بیٹھی رہی۔ فیروزپور روڈ سے وہ سول پارک جانے والی سڑک پر آ گیا۔ میرے بتائے ہوئے مکان کے سامنے مجھے اتارتے ہوئے اس نے اجازت چاہی، ’’اچھا بھئی۔‘‘
’’ارے امی سے تو ملو۔ وہ کیا سوچیں گی۔‘‘
’’مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘ وہ ٹالنے لگا۔ امی کی طرف سے بھی مجھے پریشانی تھی لیکن اصلی خدشہ تو محلے والوں کا تھا۔ کوئی اجنبی لڑکا اپنی بائیک پر مجھے بٹھاکر لائے اور اس طرح باہر سے باہر چلا جائے، کتنابرا لگتا ہے۔ میں زیادہ اصرار بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ شاید میری کشمکش سے آگاہ ہو گیا تھا۔ دستانے ہاتھوں سے کھینچ کر اس نے چابی نکالی اور میرے ساتھ بیٹھک میں آ گیا۔ امی اس سے بہت اچھی طرح ملیں۔ میں اس کے لیے چائے وغیرہ لینے چلی گئی۔
وہ ہمارے سادہ سے ڈرائنگ روم میں اطمینان سے بیٹھا تھا۔ میں نے چائے اور پاپڑ تل کر رکھے۔ اس وقت گھر میں سوائے پاپڑوں کے اور کچھ تھا بھی نہیں اور اسی وقت پر کیا موقوف۔ ہمارے ہاں مہمانوں کے لیے عام طور پر یہی نکل سکتا تھا۔ دیگچی کھول کر دیکھی تو قیمہ آلو۔ اب کچھ لوگ گائے کا گوشت نہیں بھی کھاتے۔ جانے وہ کھاتا ہوگا کہ نہیں۔ میں نے کھانا رکھنے کا ارادہ بالکل ہی ملتوی کرکے چائے پر ہی اکتفا کیا۔ اس کے سامنے والی تپائی پر چائے رکھی تو امی نے بے ساختہ اعتراض کر دیا، ’’ارے کھانے کا وقت تھا۔ تم چائے اٹھا لائیں۔‘‘
عمر پاؤں پھیلا کر بڑے سکون سے بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھ کر مسکرایا، ’’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا تم جیسی نالائق لڑکی اتنی سگھڑ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ آئل کلاتھ صاف ستھرا تھا اور ٹی کوزی کڑھی ہوئی۔
’’اچھا۔۔۔.؟ نالائق ہے؟‘‘ امی کو فکر سی ہوئی، ’’فیل نہ ہو جائے۔ میں نے تو اس کے ابا سے ایم اے کروانے کی مشکل سے اجازت لے کر دی ہے۔‘‘
عمر، امی کی معصومیت پر پھر مسکرا دیا۔ وہ اسی اطمینان اور سرخوشی میں ایک کے بعد دوسرا پاپڑ کڑ کڑ چبا رہا تھا۔
’’تم ایرے غیروں کو گھر اٹھا لاتی ہو۔ تمہیں کچھ احساس بھی ہے۔ تمہارے ابا کتنا ناراض ہوں گے۔‘‘ مجھے پہلے ہی خوف تھا، وہ عمر کے اٹھتے ہی میری کچھائی کر دیں گی۔ میں امی کو کیا سمجھاتی۔ یہ فیصلہ میرا نہیں تھا۔ میں خود بخود اس فیصلے پر باندھ دی گئی تھی۔
ان دنوں کیمپس کا ماحول بہت زیادہ بدل گیا یا شاید یہ تبدیلی میرے دماغ کی پروردہ تھی۔
امتحانوں کے نزدیک کا وقت تھا۔ عباس گروپ سارا دن کتابوں پر جھکا نوٹس بناتا تھا۔ الماریوں سے زیادہ تر کتابیں ایشو ہو گئی تھیں اور عمر گروپ اور زیادہ کھلنڈرا ہو گیا تھا۔ وہ چھدرے درختوں والے کینٹین کے نیچے سموسوں اور چائے پر فلسفہ بولنے لگے۔ سر عثمان ہم سب سے نالاں ایرن مور کا دھواں اڑاتے اچھے دنوں کے خواب دیکھنے لگے، جب ذہین طالب علم یوں چائے کی پیالیوں میں طوفان نہیں اٹھائیں گے۔ ان دنوں زیر بحث رشنا رہتی۔ رشنا کچھ دنوں سے بہت زیادہ رنجیدہ رہنے لگی تھی اور اس کی وجہ سے سارا ماحول سوگوار ہو گیا تھا۔ ہم اس کے گھریلو حالات سے آگاہ نہیں تھے لیکن اس کی طبیعت کا چڑچڑاپن بالکل ہی نیا تھا۔ حتیٰ کہ وہ مجھ ایسی ہمیشہ کی رازدار دوست کے سامنے بھی نہیں کھل رہی تھی۔ پتا نہیں اس کا کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
شیریں وغیرہ نے کچھ دیر اس کے مزاج سے شناسائی پیدا کرنے کی کوشش کی، پھر وہ علیحدہ علیحدہ ہو گئیں۔ وہ تازہ دم زندگی کے قہقہوں سے اپنا حصہ وصولنا چاہتی تھیں۔ انہیں سوگوار، اداس، غم زدہ چہروں سے اتنی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ لیکن میں، میرے لیے صبر کرنا مشکل تھا۔ مجھے رشنا سے الوہی سی محبت تھی اور رشنا جانتی تھی کہ اس کے اچھے وقت کے کوئی بھی ساتھی ہوں، برے وقت میں وہ صرف مجھ پر ہی بھروسا کر سکتی تھی۔ ان دنوں عمر مجھے روزانہ اپنی موٹر بائیک پر چھوڑنے جاتا تھا اور میرے احتجاج اور نہ نہ پر سخت برا مناتا تھا۔ میرے لیے یہ گھڑی بڑی آزمائش کن تھی۔ میں خود کو خواہ مخواہ کے سکینڈلز میں ملوث نہیں کرنا چاہتی تھی، نہ ہی میری پردے کی پابند امی میری اس شتر بےمہار آزادی کو پسند کرتی تھیں۔ لیکن عمر جیسے ان تمام قیود سے آزاد ہوا جا رہا تھا۔
وہ روزانہ مجھے پوائنٹ کے سٹاپ سے لے لیتا اور میرے سلوک کو ذرا نہ گردانتا۔
رشنا روزانہ میرے گھر جانے کی خواہش کرتی اور مجھے عمر کی و جہ سے اس سے بار بار کترانا پڑتا۔ وہ کہتی تھی کہ میں تمہارے گھر ایک دن گزارنا چاہتی ہوں۔
حتیٰ کہ اس دن وہ مجھے ارادوں میں شکست دینے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کا ڈرائیور چھٹی پر تھا، وہ کلاسز بنک کر کے میرے گھر جانا چاہتی تھی تاکہ چھٹی کے وقت کے آس پاس گھر جا سکے۔ اس کے گھر والوں نے اس کو زیادہ میل جول کی آزادی نہیں دے رکھی تھی۔ اس کا ڈرائیور ساتھ آتا اور تمام وقت باہر کھڑا رہتا۔ لیکن رشنا کو جل دینے میں کمال حاصل تھا۔ ڈرائیور پارکنگ ایریا میں اس کا منتظر ہوتا اور وہ نہر کے سٹاپ سے ویگن میں بیٹھ کر سارا لاہور پھر کر عین چھٹی کے وقت کار کے سامنے آ جاتی اور ویگن نہ بھی لے تو عمر تو تھا ہی خدائی خدمتگار۔
ہم دونوں نہر کے دور والے پل پر جا کھڑے ہوئے، جہاں پاپولر کے اونچے درخت پانیوں کی تہ میں الٹے نظر آتے تھے۔ چند منچلے چیخیں مارتے کشتیاں پلوں کے نیچے سے گزارتے تو سارا منظر دھندلا جاتا۔
مجھے عمر کا خوف بھی تھا۔ میں رشنا کی شوخیوں سے بھی خوف زدہ رہتی تھی۔ کسی بات کے بغیر اس نے سارے شعبے میں میرا اور حیدر کا چرچا کر دیا تھا۔ اب عمر کی کوئی بےتابی اس کے ہاتھ لگ جاتی تو وہ میرا کیا حشر نہ کرتی۔ گویہ ہماری چھٹی کا وقت نہیں تھا لیکن عمر کی عقابی نگاہیں کیا کچھ نہ کھوج لیتی تھیں۔ میں ذاتی طور پر اس بات کے خلاف بھی تھی کہ رشنا سے اپنا یہ رابطہ چھپا کر استوار کیا جائے لیکن یہ عمر کا فیصلہ تھا اور میں خود کو عجیب طریقے پر اس کے فیصلوں کا پابند پاتی تھی۔ لیکن یہ میری بدقسمتی ہی تھی کہ اس نے مجھے دور سے دیکھ لیا۔ رشنا پر اس کی نگاہ نہیں پڑی یا وہ خود رشنا سے ڈرتا نہیں تھا۔ اس نے اپنا موٹر سائیکل ہم دونوں کے نزدیک روکا۔ میں سٹپٹا گئی۔
رشنا میرے بارے میں کیا رائے قائم کرےگی۔ میں ایسی لڑکی ہوں جو اپنی سہیلیوں سے چھپ چھپ کر کلاس فیلوز سے عشق لڑاتی ہیں۔ شاید رشنا بھی دم بخود رہ گئی تھی کیوں کہ پریشانی میں اس کے منہ سے بےربط فقرے نکل رہے تھے، ’’کیوں؟ اب کہہ جو دیا۔ چلے جاؤ۔‘‘
میں ہوش کی دنیا میں واپس آئی تو عمر بھی بڑبڑا رہا تھا۔ گویا میری و جہ سے کوئی حادثہ ہوتے ہوتے بال بال بچ گیا۔
عمر نے کک ماری اور موٹر بائیک نہر کی سیدھ میں کتنے ہی پل پار کر کے نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
کتنی دیر میں رشنا کے متوقع سوالات سے نظریں چرانے کو اِدھر ادھر دیکھتی رہی۔ لیکن اس کا خوب صورت چہرہ کشمکش کے رنگوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ شاید وہ مجھے گھر جاکر سرزنش کرے، میں پھر بھی ڈری رہی۔ ویگن میں اگلی سیٹ مشکل سے خالی ملی اور شمع سنیما کے موڑ سے میرے گھر تک کی پیدل واک نے غالباً رشنا کے مزاج درست کر دئیے۔ اس نے موڑ سے نان مچھلی خریدی۔ وہ بے وقت پہنچ کر امی کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔ حالاں کہ امی کو مہمان کی خاطر مدارات بہت اچھی لگتی تھی لیکن وہ اپنے طور پر بڑی محتاط تھی۔
وہ پہلی دفعہ میرے گھر جا رہی تھی۔ ان دنوں حاصل پور سے چچی جان آئی ہوئی تھیں، مع اپنے بدتمیز بچوں کے۔ بڑی سخت ہڑبونگ مچی ہوئی تھی۔ ویسے بھی اسے پہلی دفعہ اپنے گھر لے جاتے مجھے عجیب سی جھجک محسوس ہو رہی تھی۔ وہ امیر گھر کی لڑکی تھی اور میرے حالات کسی سے پوشیدہ رہنے والے بھی نہیں تھے لیکن وہ تو لوگوں سے بہت ہی پیار سے ملی۔ ایک ایک فرد سے تعارف ہوا۔ بچے بچے سے ہاتھ ملایا گیا۔ تب کہیں جا کر ہمیں کوئی تنہا کونا ملا۔ تب رشنا کو احساس ہوا کہ کوئی کہانی سنانا اور با ت ہے، اس کا اعلان کرنا اور بات ہے۔ وہ الفاظ جمع کرتی، ڈھونڈتی، کچھ کہنے کو منہ کھولتی اور پھر چپ ہو جاتی۔
میں جان گئی تھی، یہ اس کی کسی شکست کا باب ہے۔ وہ اسے آسانی سے نہیں کھول سکتی۔
شکستوں کا اعتراف سخت کوش لوگوں کے لیے سہل نہیں ہوتا۔
میں اس کے ساتھ مچھلی سے کانٹے نکالتی اور قتلے اٹھا اٹھا کر اسے دیتی یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ زندگی میں دوستوں کے سامنے کسی بھی بات کا اظہار کوئی مشکل بات نہیں۔
’’میری جگہ حیدر ہوتا تو بات شعر میں کر دیتا۔۔۔
صاف کہہ دوں کہ ناؤ ڈوب گئی
یا بتاؤں کہ کیسے ڈوبی تھی‘‘
وہ بےتحاشا ہنسنے لگی۔ وہ حیدر کی آڑ میں شکار کھیل رہی تھی۔ میں نہیں ہنسی۔
’’میں تمہارے ساتھ کوئی بددیانتی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ وہ یک لخت سنجیدہ ہوکر ہاتھوں کی انگلیاں مسلنے لگی۔ ’’میں نے تم سے کبھی کچھ نہیں چھپایا۔ شاید یہ بھی نہ چھپاتی۔ لیکن جانے وہ یہ تم سے کیوں؟ سوچو۔۔۔ دراصل وہ۔۔۔‘‘ وہ اٹکی۔
’’کون ہے وہ؟‘‘ میں نے اسے سہارا دینا چاہا، ’’میں اسے جانتی ہوں؟‘‘
’’کون کسے جانتا ہے؟ کسی کو جاننے کا دعویٰ کرنا تو بڑی بات ہے۔‘‘ اس پر اب فلسفیانہ موڈ طاری ہو گیا اور وہ افلاطون کے بچے بچے کی زبان پر چڑھے مکالمے بولنے لگی۔ ایسے وقت میں اس کو سنجیدہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔
’’نطشے کہتا ہے۔ کسی ایک چوٹی سے دوسری چوٹی تک پہنچنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ پہاڑکے سر پر چڑھیں پھر اتریں۔ پھر دوسرے پہاڑ پر چڑھیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ ایک چوٹی سے دوسری چوٹی پر چھلانگ لگا دیں۔ لیکن اس میں ٹانگ ٹوٹنے کا خدشہ ہے۔
اور جو تم المصطفیٰ کی پوچھو تو۔۔۔‘‘
میری جان جل گئی۔ ’’خدا کے واسطے رشنا۔ یہ سر احمر کی نصابی مثالیں تم مجھے مت دیا کرو۔ صرف اتنا بتاؤ، وہ کون ہے اور اس کے ہونے کی تمہیں کیا پریشانی ہے۔‘‘
وہ مسکرا دی، ’’عمر کا تبصرہ تمہارے بارے میں بالکل ٹھیک تھا۔‘‘
مجھے پتا بھی نہ چلاکہ میرا رنگ سرخ ہو گیا۔
’’وہ کہتا تھا، تم دوستوں کی پریشانیاں ماؤں کی طرح گود میں چھپائے پھرتی ہو۔‘‘
محبوب کا ذکر اتنا حیات بخش ہوتا ہے، یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ لوگوں سے آپ کے بارے میں تعریفی کلمے کہتا ہو۔ میرا دل چاہ رہا تھا، اب وہ صرف عمر کی باتیں کرے اور اس نے کس خوب صورتی سے گفتگو کو عمر اور حیدر کی طرف موڑا کہ مجھے شبہ بھی نہ گزرا کہ وہ موضوع سے کتنی دور ہٹ گئی ہے۔یہ کہ ’’حیدر تمہاری عدم توجہی کی وجہ سے بڑا سوگوار ہے۔ وہ بہت اداس رہتا ہے، تم اس سے بات نہیں کرتیں۔ وہ کسی دن تمہاری امی سے ملنے تمہارے گھر آنا چاہتا ہے۔ میں اسے لے آؤں؟‘‘
’’یا اللہ۔ یہ ہوٹل نہیں۔‘‘ میں جل گئی۔ اس رشنا نام کی لڑکی میں عقل نام کی کوئی شے نہیں۔
اور یہ مجھے اس کے جانے کے بعد پتا چلا کہ وہ کس کامیابی سے مجھے جل دے گئی۔ وہ کسی شخص کے بارے میں کچھ کہنے آئی تھی اور کہے بغیر چلی گئی۔
اگلے دن عمر مجھے گھر ڈراپ کرنے سے پہلے کسی اشد ضروری کام سے اپنے گھر کی طرف مڑ گیا۔
میں اتنی بہادر نہیں تھی۔ مجھے کسی کے ساتھ دندناتے پھر نا اچھا نہیں لگتا تھا۔ لیکن وہ شاید دانستہ مجھے وہاں لے آیا تھا، اسے بہ ظاہر تو گھرسے کوئی ضروری کاغذ لےکر کہیں پہنچنا تھا۔ لیکن یہ بعد میں پتا چلا کہ وہ اپنے گھر والوں کو مجھے دکھانے کے لیے بہانے سے لے گیا تھا۔ میں پہلی دفعہ ریما سے ملی۔ ارم کبھی کبھار عمر کے ساتھ کیمپس آ جاتی تھی۔ اسی طرح امی تھیں، میری امی کی طرح ملنسار اور محبت والی۔ عمر کے کاغذ ملنے میں دیر ہوئی تو انہوں نے لپ جھپ کر کے کھانا میرے سامنے رکھ دیا۔ وہاں میرا استقبال وی آئی پی کی طرح ہو رہا تھا۔ عمر کے گھر کے حالات مجھ سے مختلف نہیں تھے۔ وہ بھی میری طرح مڈل کلاس تھا۔ اس کے کارنس پر بھی چینی مٹی کے سستے ڈیکوریشن پیس رکھے تھے۔ پرانی طرز کے بازوؤں والا صوفہ تھا۔ قدم طرز کی تین شیشوں والی سنگھار میزاور بیڈ کی جگہ مسہریاں۔ وہ بالکل ہمارے گھر جیسی باتیں کرتی تھیں۔ مہنگائی کی۔ آلو پیاز کی۔ یوٹیلیٹی سٹورز کی۔
سابق وی سی کے انتقال کی وجہ سے یونیورسٹی اچانک بند کر دی گئی۔ رشنا کو کیمپس میں گھستے ہی پتا چلا اور وہ میرے پیچھے پڑ گئی۔ میرے حواس بحال ہونے سے پہلے وہ مجھے اپنے گھر لے گئی۔ میں یوں لور لور پھرنے کی قائل تو نہ تھی لیکن حالات میرے موافق نہیں جا رہے تھے کہ عمر ابھی یونیورسٹی آیا ہی نہیں یا اسے علم ہو گیا کہ کیمپس بند ہو گیا ہے۔
رشنا کے ہاں میرا استقبال اسی وی آئی پی انداز میں ہوا تھا۔ لیکن وہاں میں گھٹ سی گئی۔ ان دونوں گھروں میں بڑا فرق تھا۔ ہم ایک ڈرائنگ روم سے ہوتے، دوسرے ڈرائنگ روم اور وہاں سے تیسرے میجر ڈرائنگ روم میں پہنچے جو صوفوں اور قالینوں کی یلغار سے دبا ہوا تھا۔ میں سہم گئی۔ عمر مجھے ہمیشہ اپنی کلاس کے لوگوں میں رہنے کی نصیحت کرتا تھا۔ اس کی ممی باتونی تھیں۔ انہیں میرے مڈل کلاس ہونے کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ میں تو خود ہی اپنے کامپلیکس تلے دبی جا رہی تھی۔
وہ باتیں کرتی رہیں۔ ڈائمینڈز کی، کرسٹل کی، شانزے لیزے کے بازاروں کی۔ وہ میری زندگی میں آنے والے تمام دوستوں میں سے واحد ماں تھی جو انگریزی میں بات کرتی تھیں اور کوشش کے باوجود اردو میں رواں نہیں ہو پاتی تھیں ۔میں نروس سی تھی۔ میں ان کی سی روانی سے ان کے جواب نہیں دے پا رہی تھی اور رشنا میری آمد کے سلسلے میں خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔ چائے کے بارے میں ملازم نے اطلاع دی کہ رشنا بی بی کے کمرے میں سرو کر دی گئی ہے۔ رشنا کا کمرا احساس کمتری میں مبتلا ہو جانے کی حد تک خوب صورت تھا۔ اس نے پردے ہٹائے۔ تنومند تو ٹریز اور سرو کے سرسبز گھنے درخت لاہور ہی میں مری کا نظارہ پیش کر رہے تھے۔ اس کے کمرے سے پورچ کا منظر حسین ترین تھا اور چائے ہمارے گھر کے کسی اعلیٰ کھانے سے پرتکلف۔
رشنا پر روزانہ والی رقت طاری نہیں تھی۔ وہ خوش اور مگن تھی۔ وہ اپنے گھر میں میری آمد کا جشن منا رہی تھی کہ اسے ممی نے بلا بھیجا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ اپنی دوست کو کھانا کھائے بغیر جانے نہ دینا۔ میری کچھ مجبوریاں تھیں۔ بجائے اس کے کہ خاتو ن ملازمہ پیغام رسانی کا مستقل ذریعہ بنی رہتی، وہ میری طرف سے معذرت کرنے اٹھ کر ممی کے پاس چلی گئی۔
اس کی واپسی میں تھوڑی دیر ہوئی تو چھت سے لےکر فرش تک پوری دیوارپر پھیلے شیشوں کے ساتھ لگی شیلف سے میں ٹی وی کا کوئی میگزین اٹھا کر پڑھنے لگی۔ ٹرالی پر اسی طرح رکھی اس کی چائے سے بھاپ اٹھتی رہ گئی تھی۔ پورچ میں کسی سواری کے رکنے کی مانوس سی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
یہ کس کا موٹر بائیک ہے؟ میں نہ بھی دیکھتی تو پہچان سکتی تھی لیکن فطرت سے مجبور ہوکر مجھے جھانکنا پڑا۔ میں پھر بھی حیرت زدہ رہ گئی۔
واقعی وہ عمر ہی تھا اور پورچ کے شیڈ میں وہ کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ یہاں سے دیکھنے سے میری نظر قاصر تھی۔ ستونوں پر بوگن ویلیا کی بیلیں چپکی ہوئی تھیں اور دیوار پر کائی کی طرح جمی ہوئی بیل نے اس قدر گھنا سایہ کر رکھا تھا کہ میں عمر کے مخاطب کو دیکھ نہ سکی۔ لیکن ظاہر ہے وہ رشنا ہی تھی۔
لیکن شاید وہ رشنا نہ تھی کیوں کہ رشنا اگر عمر سے ملتی تو کم از کم مجھے آکر کچھ تو بتاتی۔ لیکن وہ اتنی لاتعلقی سے گفتگو کر رہی تھی کہ مجھے شبہ ہوا کہ اتنی دور سے میں نے ٹھیک بھی دیکھا؟ وہ عمر ہی تھا یا کوئی اور؟
اگلے روز سیمینار لائبریری میں ’’خاموش رہیے‘‘ کی تختی کے سامنے وہ روز کی طرح اونچی اونچی آواز میں جھگڑرہے تھے۔ ’’خود کو ڈی کلاس نہ کرو۔‘‘ عمر اسے کچھ رسان سے سمجھا رہا تھا لیکن وہ آپے سے باہر ہوئی جا رہی تھی۔ ’’یہ طبقے کیا ہوتے ہیں۔ کلاسیں ہم نے اپنی سہولت کے لیے بنا رکھی ہیں۔ کسی بھی طبقے کو کبھی بھی زوال آ جاتا ہے۔ دولت زوال پذیر چیز ہے۔ لیکن روح۔۔۔ روح۔۔۔‘‘
میں سمجھ گئی۔ وہ پھر ہیگل اور کارل مارکس کے بکھیڑے میں پڑے تھے۔
کون ہیگل کا طرفدار تھا اور کون مارکس کا نام لیوا۔
ان دونوں کے گھر کے حالات جاننے کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے بحث سنگوا دی۔
’’آؤ بیٹھو۔‘‘ عمر نے اٹھ کر میرے لیے جگہ بنائی، ’’ اتنی دیر سے کیوں آئی ہو؟‘‘
رشنا مجھے میرے مشفقانہ رویہ کی وجہ سے ہمیشہ بڑی آپا کہا کرتی تھی۔ لیکن برتاؤ میں وہ دونوں مجھے ننھے بچوں کی طرح لیتے۔ میں شش و پنج میں تھی۔ ان کے بیچ خاموش بیٹھ کر سوچ رہی تھی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ عمر نے ہمیشہ کی سی محبت سے کہا، ’’چلو چائے پی کر آتے ہیں۔ ہم تمہارا انتظار ہی کر رہے تھے۔‘‘
’’اوں ہوں۔ جوس!‘‘ رشنا نے ہمیشہ کی طرح اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا۔ عمر نے مہربانی سے میرا خیر مقدم کرتے مجھے آگے آگے چلنے کی راہ دی۔
’’کیا کل میں نے سچ مچ کچھ دیکھا تھا اور کچھ دیکھا تو اسے چھپانے کی و جہ؟‘‘
میں لوگوں میں بہت سیدھی مشہور تھی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میری سادگی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر مجھے الو بنایا جائے۔ عمر مجھے چھوڑنے کے لیے اپنی بائیک میرے نزدیک لایا تو میں چڑی ہوئی تھی، ’’عمر، کل تم رشنا کے گھر آئے تھے نا؟‘‘
عمر نے حیرت سے میری جانب دیکھا۔ خدا جانے حیرت میرے فقرے کی تھی یا اپنی چوری پکڑے جانے کی۔
’’رشنا نے تمہیں بتایا؟ میں اس کے گھر تھی۔ اس وقت۔‘‘
’’تم رشنا کے گھر گئی تھیں۔‘‘ وہ الٹا میرے گلے پڑ گیا، ’’کیوں؟ اپنی امی کو بتا کر بھی گئی تھیں یا یونہی جہاں منہ اٹھا۔‘‘
’’اور تم جو اپنے گھر لے گئے تھے۔ تب تم نے امی سے اجازت لی تھی؟‘‘
’’وہاں تمہیں لے جانے کا میرا حق بنتا تھا۔‘‘ اس نے موٹر سائیکل سٹارٹ کی، ’’بیٹھو۔‘‘
’’اور رشنا کے گھر جانے کا بھی تمہارا حق بنتا تھا اور مجھ سے تم چھپاتے پھر رہے ہو۔ یہ بھی تمہارا حق ہے۔‘‘ عمر نے زور زور سے ہنستے ہوئے میرے بالوں پر دھپ مارا۔ ’’تم ہمیشہ اچھی لگتی ہو۔ لیکن اس روپ میں ہمیشہ سے زیادہ اچھی لگی ہو۔‘‘
پھر اس نے بائیک پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اس نے مجھے گھر کے دروازے پر اتارتے ہوئے کہا، ’’حقوق اور فرائض کا عن قریب فیصلہ ہو جائےگا، رشنا کی بڑی آپا۔‘‘
اور یہ فیصلہ اس طرح ہوا کہ عمر کی امی ہفتہ بھر سے پہلے ہی میری امی کے پاس چلی آئیں۔ ان دونوں کے درمیان بہناپا جلدی ہی ہو گیا۔ میں جانتی تھی ایسا ہی ہوگا کیوں کہ ان دونوں کا ماضی اور حال مشترک تھا اور شاید مستقبل بھی جلد ہی ایک ہونے والا تھا۔
میرے لیے یہ خبر رشنا سے چھپانا مشکل ہو رہا تھا۔ شاید عمر بھی اسے کچھ نہ بتاتا۔ تاہم میرے لیے یہ بڑا تکلیف دہ تھا کیوں کہ وہ کبھی میرے ساتھ بددیانت نہیں ہو سکی تھی اور یہ تو وہ تھی جو اپنا اکلوتا عشق بھی مجھی کو بتانے آ گئی تھی۔ کتنے ہی دن میں اس کشمکش میں مبتلا رہی۔ میں یہ بات لوگوں سے خود کہتے تو جھجکتی تھی لیکن میرا خیال تھا عمر تو فخر سے لوگوں سے کہتا پھرےگا اور وہ معصوم سر احمر جن کو رشنا نے ہمیشہ سر احمق کہا، وہ بے دھڑک ہمیں ٹریٹ دیں گے۔ میں کتنے دن لوگوں سے ٹریٹ ملنے کی آس میں خوشی مناتی پھرتی رہی۔ اس دن جانے کس بات پر عمر اور رشنا جھگڑ پڑے۔ وہ سر عثمان کے کمرے میں تھے اور سر عثمان ان کے جھگڑوں کے واحد گواہ بالکل خاموش رہے۔ ساری یونیورسٹی میں ان کی لڑائی کا چرچا ہو گیا۔ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ رشنا کو غصے میں اس طرح پاگل ہوتے دیکھا۔ وہ چیخ چلا رہی تھی اور عمر جواباً خاموش اور پرسکون بیٹھا تھا۔ میں دروازہ کھول کر سر عثمان کے کمرے میں گئی اور حیران رہ گئی کہ اس سنجیدہ بلکہ قدرے سنگین جنگ میں بھی دونوں طبقوں کا اختلاف موضوعِ گفتگو تھا۔ ایک لمحہ کے لیے میری عقل یہ سمجھنے سے قاصر رہی ہے کہ یہ جنگ کسی نصابی موضوع پر تھی یا نجی۔ سر عثمان نے مجھ سے معذرت کرتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر کی طرف جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’آپ تھوڑی دیر کے لیے باہر چلی جائیے پلیز۔‘‘
’’میں؟ میں بھی؟‘‘ میں حیران رہ گئی۔
’’پلیز۔۔۔‘‘ وہ سراپا معذرت تھے۔ میں نے ان دونوں کی طرف دیکھا۔ کسی کی توجہ میری طرف نہیں تھی۔ ان دونوں نے مجھے روکنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ میں نے دروازے سے نکلتے سنا، سر عثمان، رشنا سے کہہ رہے تھے،’’اپنے اندر ہمت پیدا کرو، رشنا بی بی اور مبارک باد دے ڈالو۔‘‘
پھر دروازے کے ساتھ آواز بھی بند ہو گئی۔
عمر خود ایک آہنی دروازہ تھا جسے میں پیٹ پیٹ کر تھک ہار کر بیٹھ چکی تھی۔ وہ کبھی نہ کھلتا تھا۔ لیکن مجھے توقع تھی رشنا مجھ سے کچھ نہیں چھپائےگی۔ ان دونوں کے اختلافات تو چائے کی ایک پیالی پر حل ہو جاتے تھے یا میری شکل دیکھ کر وہ سارا جھگڑا بھول بھال میری خاطر مدارت میں لگ جاتے تھے۔
لیکن یہ کیسی بحث تھی۔ میں ایک مکمل اجنبی کی طرح ریلنگ سے ٹکی، آئی ای آر کی اس مس کو دیکھتی رہی جو کیمپس کے بچوں کی لمبی قطار کو منظم کرنے میں ہراساں ہو رہی تھی۔ اس کا ٹیچر سر پر کھڑا تھا۔ اگر یہ قطار منظم نہ ہوئی تو اس کا ایک سمیسٹر رہ جائےگا۔ جانے میں خود کہاں کہاں منظم ہونے سے رہ گئی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ چہ میگوئیوں میں مشغول تھا۔ سر احمق انگلیاں چٹخا رہے تھے۔ عباس رضا کا گروپ ہاتھ پر ہاتھ مار رہا تھا اور چیئرمین کے کمرے میں تیز تیز آمدورفت کے ساتھ وہ غالباً باہر کی مکمل کارروائی پہنچا رہا تھا۔ ہر طرف دبی دبی آوازیں۔ قہقہے۔گویا کوئی نہایت نجی مسئلہ پبلک پراپرٹی بن چکا تھا۔
عمر یونیورسٹی میں ایک دو دفعہ اکیلے میں میری خیریت ضرور پوچھتا تھا۔ میرا احوال دریافت کرتا یا گھر والوں کے لیے اپنے گھر والوں کا کوئی پیغام دیتا۔ لیکن اب اس نے برق رفتاری سے دروازہ کھولا اور سیڑھیاں پھلانگتا نیچے اتر گیا۔
مجھے دکھ سا ہوا۔ وہ میرے پاس کیوں نہیں آیا۔
اور شاید اچھا ہوا کہ نہیں آیا۔ میں نے ڈوبتے ڈوبتے تنکے کا سہارا لیا۔ ورنہ میں بھی اس سکینڈل کی لپیٹ میں آجاتی۔ عباس گروپ کی لڑکیاں دور کھڑی مسکرا رہی تھیں۔ شیریں ابھی کینٹین سے آئی تھی۔ حیدر جنگ شروع ہوتے ہی خفا ہو کر چلا گیا تھا اور شبیر یونہی عادتاً غیر حاضر۔ پر یویس کی کلاس ہو رہی تھی۔ گویا میں، گروپ کی واحد لڑکی اس صدمے کو جھیلنے کے لیے رشنا ذوالفقار کے انتظار میں کھڑی تھی۔ شیریں ہراساں سی میرے پاس آئی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اب میں کیا بتاتی کہ کچھ پتا ہوتا تو بتاتی بھی۔ میں چپ کھڑی رہی۔
’’یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ تم اکیلی کیوں کھڑی ہو؟ گھر نہیں چلوگی؟‘‘
’’ہاں۔ ذرا رشنا تو آ جائے۔‘‘
’’رشنا۔ وہ تو کب کی چلی گئی۔ میں کینٹین میں تھی تو اس کی گاڑی جاتے دیکھی۔‘‘ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کہا،’’ وہ چلی گئی ہے۔‘‘
پھر رشنا ایسی گئی کہ واپس نہ آئی۔
میں اسے یاد کر کے آنسوؤں سے روتی رہی۔ وہ مجھے اس طرح کیوں چھوڑ گئی تھی۔ اس کے بغیر میرا ڈیپارٹمنٹ میں ایک ایک لمحہ عذاب تھا۔ وہ جانتی تھی میں اس پر کتنا زیادہ تکیہ کرتی تھی۔ میں ایک دفعہ اس کے گھر گئی تھی، لیکن راستے نہیں پہچانتی تھی۔ کہیں غالب مارکیٹ کے پاس اس کا گھر تھا۔ اگر کوئی مجھے وہاں تک لے جاتا؟ میں عمر کی خوشامد کر کر کے ہار گئی۔ لیکن وہ پتھر ہو گیا تھا۔
’’تم نے اسے کیا کہا تھا عمر؟ اس نے یونیورسٹی کیوں چھوڑ دی؟ یہ اس کا فائنل تھا۔ یونیورسٹی کے ساتھ اس نے ہم سب کو چھوڑ دیا۔ اس دن کیا ہوا تھا؟‘‘
میں منت کرتی اور وہ میوزیم میں سجے بت کی طرح چہرے پر رکے ہوئے ایک ہی تاثر کے ساتھ مہربہ لب بیٹھا رہتا۔
’’تم مجھے اس کے گھر لے چلو۔‘‘
’’مجھے اس کے گھر کا پتا نہیں۔‘‘ اس کے ساکت ہونٹ معمولی جنبش کرتے۔
’’تم نے اس کا گھر دیکھا تو ہے۔‘‘
’’بچوں والی باتیں نہ کرو۔‘‘ وہ خفا ہوئے بغیر کہتا۔
حتیٰ کہ روتے روتے آخر کار مجھے اس پر صبر آ گیا۔
انہی دنوں سی ایس ایس کی ڈیٹ آ گئی اور عمر مقابلے کے لیے بیٹھ گیا۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ وہ کامیاب ہو گیا اور ایم اے ادھورا چھوڑ کر اکیڈمی کی ٹریننگ کے لیے نکل گیا۔ اب اسے ایم اے ویم اے سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی بلکہ اس نے امی سے بڑا اصرار کر کے مجھے بھی اٹھوا لیا تھا۔ وہ وہاں سے مجھے جلد سے جلد نکلوانا چاہتا تھا۔ شاید میرے عشق میں وہمی ہو رہا تھا کہ اپنی غیرموجودگی میں اسے میرا وہاں رہنا پسند نہیں تھا۔
جس دن میں نے شعبہ چھوڑ دینے کا پکا پکا فیصلہ کیا، اس دن میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ سر عثمان سے طویل ملاقات کیے بغیر باز نہیں آؤں گی۔ جب تک عمر سر پر سوار رہا، میرا سر عثمان سے تعلق واجبی سا ہی رہا۔ حالاں کہ میں اور رشنا ان پر بڑا بھروسا کرتے تھے۔ جب تک رشنا رہی، ہماری ٹی بریک کے زیادہ تر ذمے دار وہی رہے۔ ان کی بیگم بڑے لذیذ سینڈوچز کا ڈبہ ساتھ روانہ کرتیں جو وہ سارا کا سارا مجھے اور رشنا کو کھلا کر خوش ہو جاتے۔ کبھی عمر اور شیریں بھی آملتے۔ یہ وہی سر عثمان تھے۔ رشنا کے بعد میں ان کے کمرے میں شاذ ہی گئی۔
اس دن سر عثمان چائے کے ساتھ سگریٹ کے کش لگاتے طالب علموں کے سمیسٹرز چیک کر رہے تھے کہ میں نے انہیں جا لیا۔ وہ مجھے دیکھ کر ہمیشہ اخلاقاً اٹھ کھڑے ہوتے، ان کے نزدیک میں ہونہار طالب علم رہی تھی اور وہ رشنا اور شیریں کے مقابلے میں مجھے زیادہ تمیزدار سمجھ کر زیادہ عزت دیتے تھے۔ میں ان کے نزدیکی صوفے پر بیٹھ گئی۔ انہوں نے اپنا سگریٹ ایش ٹرے میں رگڑ کر چائے کی دوسری پیالی میرے نزدیک سرکاتے پوچھ ہی لیا۔
’’سنا ہے آپ ڈیپارٹمنٹ چھوڑکر جا رہی ہیں۔ یہ سیشن کیسی عجیب وبا لے کر آیا ہے۔ پانچ چھے ہونہار طالب علم تو رزلٹ ادھوراہی چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘
وہ پانچ چھے طالب علموں کے نام گنوا رہے تھے کہ ان میں رشنا کا نام سب سے اوپر تھا۔
’’سر اس دن رشنا اور عمر کی کیا لڑائی ہو گئی تھی؟‘‘
’’آپ کو نہیں پتا؟‘‘ سر عثمان نے حیرت سے مجھے دیکھا۔ ان دنوں بھی میرے اور عمر کے معاملے کا کسی کو شاذ ہی علم تھا۔
لوگ یہ سوچتے ضرور تھے کہ ہمارے درمیان کوئی تعلق قلبی ہے لیکن جب ہم عام لڑکے لڑکیوں کی طرح کینٹین میں، کشتیوں پر اور گھنے درختوں کے پیچھے چھپ کر چوری چوری باتیں کرتے نہیں پکڑے گئے تو شاید لوگوں نے فضول قسم کی افواہوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا۔ میرا بھی دل چاہتا تھا کبھی عمر میرا ہاتھ پکڑ کر ببانگ دہل دنیا کو بتا دے کہ پوری یونیورسٹی میں یہ ہے وہ لڑکی جسے میں نے چنا ہے۔ لیکن اس کا انداز تو بالکل مختلف تھا۔ وہ تو میرے گھر بھی آتا تو بھائی لوگوں سے باتیں کر کے بنا مجھ سے ملے یا میرا حال پوچھے چلا جاتا۔ ساری یونیورسٹی میں صرف شیریں ہی جانتی تھی اور وہ کہتی تھی، ’’عمر اس ٹائپ کا نہیں۔ وہ ساری زندگی تم سے خاموش محبت کرتا رہےگا۔ لیکن میں نے تم سے محبت کرتا ہوں جیسا عامیانہ لیکن لازمی فقرہ نہیں بولےگا۔‘‘
اب سر عثمان کو یہ بتانا بھی کیا ضروری تھا کہ عمر سے اس دلی تعلق کے باوجود کبھی اس جھگڑے کا ایک لفظ اس نے نہیں بتایا اور وہ اس معاملے میں اتنا سنجیدہ تھا کہ اس سے جھگڑا کرنا اس کو گنوا دینے کے مترادف تھا۔
’’ہاں۔‘‘ میں نے جھوٹ کا سہارا لیا، ’’پتا تو ہے لیکن تفصیلات کے لیے آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘
وہ کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے۔ میرے ہی استاد تھے۔
’’پرانے جھگڑوں کی تفصیل میں پڑنے سے کیا رکھا ہے۔ آپ نئی باتیں کریں اور یہ بتائیں کہ ڈیپارٹمنٹ چھوڑ کر کیوں جا رہی ہیں؟‘‘
’’میری شادی ہو رہی ہے۔‘‘ میں نے ذرا ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’ارے! اچھا، مبارک ہو۔ کیا موصوف آپ کے ایم اے پاس کرنے کا انتظار نہیں کر سکتے؟’’ وہ خوش دلی سے مسکرا رہے تھے، ’’کس سے ہو رہی ہے؟ میرا مطلب ہے اپنی فیملی میں یا۔۔۔؟‘‘
’’میری شادی عمر سے ہو رہی ہے۔‘‘
ان کے ہاتھ سے کپ چھلکا۔ چائے نے ان کی میز کا فارمیکا گیلا کر دیا اور سامنے پڑے سمیسٹرز کی سیاہی اڑ گئی۔ ان کا رنگِ رخ سامنے پڑے کاغذوں کی طرح بدرنگ اورپھیکا پھیکا تھا۔
’’عمر سے؟‘‘ انہوں نے پریشان ہو کر دہرایا،’’ یہ اپنے عمر خاکوانی سے؟ وہ جو ابھی ابھی سی ایس ایس کے لیے۔ اچھا۔۔۔ مبارک ہو۔‘‘
ان کی مبارک باد رسمی تھی اور چہرے کا رنگ بحال نہیں ہوا تھا۔
مجھے بڑا غصہ آیا۔ وہ عمر کو کیا سمجھتے ہیں۔ کیا وہ میرے قابل بھی نہیں۔ اس کی اتنی توہین۔ میں بھی رسمی سا خدا حافظ ہی کہنے آئی تھی، کہہ کر اٹھ گئی۔ حیدر میرے ساتھ نیچے تک گیا۔ اسے میرے ایم اے کے ادھورا چھوڑ کر شادی کرنے کا بڑا دکھ تھا۔ وہ کہتا تھا، ’’تم عمر کو آزماؤ تو سہی۔ اس کو انتظار کے لیے تو کہو۔ وہ اپنی اناکاڈسا ہوا خود غرض مرد ہے۔ وہ تم سے محبت نہیں کرتا۔ تمہارے حوالے سے اپنے آپ سے محبت کرتا ہے۔ وہ تم سے اس لیے شادی نہیں کر رہا کہ تم اسے اچھی لگتی ہو۔ صرف اس لیے کہ دنیا کو بتا سکے کہ میں کتنا اچھا ہوں۔‘‘
’’اچھا اب بکواس بند کرو۔‘‘ میں سرخ پڑتے چیخ اٹھی، ’’برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور تم بہت بڑھ رہے ہو۔‘‘
وہ میری تلخ کلامی سے خوف زدہ ہو کر مایوس سا ہو گیا۔
شام تک عمر ایک بلا کی طرح میرے سر پر منڈلانے لگا۔ وہ اس بات پر ناراض ہو رہا تھا کہ میں نے لوگوں کو اپنی منگنی والی بات کیوں بتا دی۔
’’کیوں؟ بتانے والی بات تھی بتا دی۔ اس میں کون سی چیز چھپانے کی ہے؟‘‘
لیکن عمر کے تیور بحال نہ ہوئے۔ وہ ٹھنڈے مزاج اور پرسکون طبیعت کا آدمی تھا لیکن میں نے پہلی دفعہ اسے اس طرح کے جلال میں دیکھا۔ وہ غصے کا کھل کر اظہار کرنے کا یا تو عادی ہی نہ تھا یا یہ موقع نہیں تھا۔ آخر وہ میرے ہی گھر بیٹھا تھا نا۔
لیکن اس کی اس حرکت نے میرے دل میں ایک خلش سی چھوڑ دی۔ ساری دنیا ایک دوسرے سے خوف زدہ ہے، جانے کیوں؟
عمر، سر عثمان سے خوف زدہ۔ حیدر، عمر سے خوف زدہ اور میں ان خوفوں کے نتیجے میں نروس نیس کا شکار لیکن پھر عمر نے شادی کی تیاریوں میں جوش و خروش سے شرکت کرکے میرے سارے واہمے دھو دئیے۔
اپنی شادی والے روز میں نے پھر رو دھو کر رشنا کو یاد کیا۔ ان دنوں شیریں ڈاکٹریٹ کرنے لندن گئی ہوئی تھی۔ حیدر کو عمر نے بلوانے سے سختی سے منع کر دیا تھا۔ اس حساب سے میری شادی میں کیمپس کا صرف ایک ہی آدمی شریک ہوا۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ اس سے میری شادی ہو رہی تھی۔ اس شادی میں کوئی روایتی ہنگامہ نہیں ہوا۔ کسی جہیز، بری کے مسئلے پر، حق مہر، سسرال، میکہ، کوئی چیز بھی اختلاف کا باعث نہ بنی حتیٰ کہ میں رخصت ہو کر آ گئی۔
شادی کا پہلا پورا سال ایڈجسٹمنٹ کے مسائل سے الجھتے اور سلجھتے گزرا۔ ہمارا پہلا سال لاہور ہی میں عمر کی امی کے گھر گزرا۔ شادی کے بعد بھی عمر وہی کا وہی تھا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جیسا وہ کیمپس میں میرے ساتھ ہوتا تھا، ویسا ہی اپنے بیڈ روم میں۔ خاموش، پرسکون، ٹھنڈے مزاج والا، بےحس۔ نہ گرم جوشی، نہ محبت کا والہانہ اظہار، وہ محبت بھی کرتا تو ایسے ٹھس انداز میں جیسے خبریں پڑھ کر سنا رہا ہو۔ جب تک عمر کی امی ساتھ رہیں تکلیف دہ گرہیں، آپ ہی آپ سلجھ جاتی تھیں۔ ردا کی پیدائش کے ساتھ ہی ہمارا اٹک ٹرانسفر ہو گیا۔
اٹک آنے سے زندگی کے روز و شب اور بھی جامد ہو کر رہ گئے۔ اس پر تمام ذمے داریوں سے تنہا نمٹنا جس میں ردا کی ضروریات بھی تھیں۔ عمر اور بھی الجھا الجھا رہنے لگا تھا۔ کبھی اسے ردا کے کپڑے صاف نہ لگتے۔ کبھی اسے گھر میں سلیقہ دکھائی نہ دیتا اور کبھی وہ درودیوار کو اجنبی نگاہوں سے گھورے جاتا۔ وہ منہ سے کچھ نہیں کہتا تھا لیکن اس کی آنکھیں تنقید کرتی رہتی تھیں اور میں اپنا آپ مار کر اس کے شایان شان بننے کی کوشش کرتی کہ واقعی کسی سی ایس پی کی بیوی ہونا کوئی معمولی شان و شوکت کی بات تو نہیں! مجھے اس سے تنہا ہی نمٹنا تھا۔ اس کی شخصیت بند گوبھی کی طرح تھی۔ چھپی ہوئی، پرت درپرت۔ کبھی میں عمر کے اندر نہ جھانک سکی۔ ایک کھولو تو دوسری پرت موجود۔ دوسری پرت کھولو تو تیسری پرت موجود۔ وہ ہر روز ایک نیا آدمی بن جاتا۔ وہ شخص جو یونیورسٹی میں ڈیڑھ پونے دو سال رہا تھا، وہ کوئی اجنبی تھا۔ یہ اور اجنبی تھا۔ وہ شوخ تو کبھی بھی نہ تھا لیکن اب تو بالکل ہی سنجیدہ ہو گیا اور میرے سارے احتجاج کے جواب میں ایک فقرہ کہتا، ’’اب ہم بچے نہیں رہے۔ میچور میاں بیوی سارا دن یونیورسٹی کے زمانے کے عشق ڈسکس نہیں کرتے۔‘‘
میرا جی چاہتا اس سے پوچھوں تم بچے کب تھے؟
لیکن اس کی بار عب شخصیت کا خوف کبھی مجھے بھی کھلنے نہیں دیتا تھا۔
میں اور بھی سہمی سہمی مرعوب مرعوب سی رہنے لگی تھی۔ اس کی جاب ہی ایسی تھی۔ وہ گھر بھی شاذ شاذ ہی ٹھہرتا۔ اگر گھر آتا تو رات گئے۔ بہت کم ایسا ہوا کہ ہم ساتھ ساتھ گھومنے نکلے ہوں۔ کبھی موڈ میں ہوتا تو ہمیں ’’کالا چٹا‘‘ لے جاتا۔ وہاں ہم سوپ پی لیتے۔ حلیم کھا لیتے اور باہر رات کی تاریکی میں جھانک کر سیاہ زندگی کے باب گنتے رہتے۔ کبھی ردا رو پڑتی تو یہ تفریح بھی ہاتھ سے جاتی رہی۔ وہ اپنے عہدے سے بڑا کونشئس تھا اور ہر جگہ یہ یاد رکھتا کہ اسے عوام میں گھلنا ملنا نہیں۔ اس لیے میں بھی لوگوں سے دور ہوتی گئی۔ سرکاری رہائش گاہوں میں ویسے ہی آفیسرز کے بنگلے دور دور ہوتے ہیں۔ یوں میں پڑوسیوں سے محروم رہی۔کامرہ میں کچھ عمر کے دوست تھے۔ شروع میں تو ہمیں وہاں لے جاتا پھر آہستہ آہستہ وہ بھی جاتے رہے۔ مجھے دوبارہ الٹیاں آنی شروع ہو گئیں اور عمر بہت ایمبریس ہوتا تھا۔
پھر میں سول ہسپتال اٹک میں ندا کی پیدائش پر تنہا پڑی روتی رہتی۔ ان دنوں عمر سے مجھے جتنی نفرت ہو گئی، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ پرائیویٹ روم دو بستروں کا تھا۔ میں اپنے بستر پر سارا دن اکیلی پڑی آنسو بہاتی رہتی اور میرے ساتھ جو مریضہ داخل ہوئی تھی، اس کے پاس اس کے رشتہ داروں کا تانتا بندھا رہتا۔ وہ مجھے چپ چاپ روتے دیکھتی لیکن کبھی کچھ نہ کہتی۔ عبدل جو یخنی اور پھل وغیرہ لے کر آتا تھا۔اسی طرح پڑا رہتا۔ میرا دل کسی چیز کو ہاتھ لگانے کو نہ چاہتا۔ حیدر شاید سچ ہی کہتا تھا۔ میں عمر کے دروازے پر اب تک دستک دے رہی تھی اور اندر سے بھائیں بھائیں کرتے سناٹے سن رہی تھی۔
وہ تو مجھے کل کے اخبار کی طرح ڈال کر بھول گیا تھا۔ میں وہاں چھے دن داخل رہی۔ اس دوران وہ صرف دو دفعہ آیا اور وہ بھی کھڑے کھڑے۔ وہ کہتا تھا، مجھے رات گئے فرصت ملتی ہے میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا۔ حالاں کہ میں اسے مستقل یقین دلاتی رہی کہ وہ رات کے ایک بجے بھی آئے تو اپنے انتظار میں مجھے جاگتا پائےگا۔ لیکن وہ سستی جذباتیت کا دشمن تھا۔ اسے یہ سستی رومانیت پسند نہیں تھی۔ وہ محبت، انتظار، عشق، جنون، ان باتوں پر ہنس پڑتا تھا۔
’’چھوڑو اب یہ بچوں والی باتیں۔‘‘ وہ بیزاری سے کہتا۔ ’’تمہارے نیبی سن کے انجکشن آئے کہ نہیں؟ کسی وارڈ بوائے کو فالتو پیسے دے کر منگوا لیا کرو۔‘‘
وہ جس طرح آیا تھا اسی طرح چلا گیا مجھے روتا بسورتا چھوڑ کر۔ ساتھ والی مریضہ سیب چھیل چھیل کر کھا رہی تھی۔ سارا ڈرامہ اس کے کانوں سے ہو کر گزر رہا تھا لیکن وہ بالکل انجان سی بنی ہوئی تھی۔ عمر کے جانے کے بعد اس نے میرا چہرہ دیکھا اور رنجیدہ ہو گئی۔ ’’آپ اپنے شوہر سے خفا نہ ہوں۔ ان کا قصور نہیں۔ یہ کم بخت سسرال والے ہی کسی کو بسنے نہیں دیتے۔‘‘
میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، ہسپتال کی ایک اجنبی مریضہ کے سامنے ٹسوے بہانے بیٹھ جاؤں گی۔ لیکن اس کی ہمدردی نے مجھے بے مول خرید لیا۔ ہم دونوں کسی ایک مشترکہ مسئلے پر بے تحاشا رونے لگے۔ ان دنوں کچھ رقّت بھی زیادہ طاری تھی۔ اس کا شوہر اچھا تھا لیکن سسرال بہت بری تھی۔ مجھے قسمت سے سسرال تو اچھی ملی تھی لیکن شوہر؟
’’میں اس کی کسی سے کیا شکایت کروں۔ اس نے ساری زندگی مجھے شکایت کا موقع نہیں دیا۔ کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ کبھی پیسے کی تنگی نہیں دی۔ کبھی کوئی کمینی حرکت نہیں کی لیکن۔۔۔‘‘
’’میری ساس اصل میں بڑی بری عورت ہے۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی، ’’وہ مجھے بسنے نہیں دینا چاہتی۔ میری نند ہے نا۔ وہ کنواری بیٹھی رہ گئی۔ اب اس کا انتقام مجھ سے لینا چاہتی ہے۔‘‘ اس نے آنسو پونچھے، ’’وہ توشکر ہے اللہ کا لاکھ لاکھ کہ یہ بہت اچھے ہیں۔‘‘
ردا میری پائینتی سو رہی تھی اور ندا بھی دودھ پیتی غوں غوں کرتی سو گئی۔ اس کا بیٹا کاٹ میں پڑا تھا اور ہم زمانے بھر کی باتیں کر رہے تھے۔
’’تم اپنی نند کی شادی کرا دو۔ تمہاری ساس بھی خوش ہو جائے گی۔ شوہر تو ہے ہی پیار کرنے والا۔‘‘ ہم بچپن کی بچھڑی ہوئی سہیلیوں کی طرح ایک دوسرے کا دکھ پرونے لگے۔
’’اونہہ۔ اب اس بڈھی پھونس سے کون کرےگا۔ ایک عمر ہوتی ہے شادی کی اور اس کی تو نہ شکل نہ عقل۔‘‘ میں اب اسے کس منہ سے تسلی دیتی۔ میں تو خود محبت کے دو بول سننے کو ترس رہی تھی۔
’’اور میرا میاں۔۔۔ اسے تو میرا گھر ہی پسند نہیں۔ میں نے تو اسی لیے یہاں ہی ڈلیوری کروا لی ہے۔ کون ماں باپ کو دکھ دے۔‘‘
’’اور میری ساس۔۔۔ وہ تو کہتی ہے نند کی ہر جائز و ناجائز مانو اور میاں کو دیکھو، یوں تو بڑے اچھے بڑے پیار کرنے والے، پر بہن کے آگے دم مارنے کی مجال نہیں۔ ایسے کمرے میں بند ہوکر بیٹھے رہتے ہیں جیسے سنتے نہ ہوں۔ اصل میں اسے دورے پڑتے ہیں، پاگل پن کے۔ کبھی ٹھیک ہو جاتی ہے اور کبھی بےحال۔ گھر والے اسے ہسپتال لے جانا نہیں چاہتے۔ ایک پاگل کے ساتھ سارا گھر پاگل ہو رہا ہے۔ یہ اچھی محبت ہے بھئی۔ میری چیزوں کی دشمن ہے۔ میری پرفیوم کی شیشیاں چھپا دیتی ہے۔ سنگھار کی چیزیں برباد کر دیتی ہے اور ڈریسنگ ٹیبل کا شیشہ پیپر ویٹ مار کر توڑ دیا اور کیا کیا بتاؤں۔ مجھے تو اب کامران کی فکر ہے۔ وہ تو کامران کو بھی نہیں برداشت کرنے کی۔‘‘
’’ارے نہیں مسز عرفان!‘‘ میں نے سہم کر ندا کو چمٹا لیا۔ ’’عرفان بھائی اس کی اجازت تو نہیں دیں گے۔ نہ ہی دادی اتنی ظالم ہو سکتی ہے اور۔۔۔ اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے گھر میں ننھا سا بھتیجا دیکھ کر اس کا ذہن بھی بٹ جائے۔ میں نے ایسے بہت سے کیس دیکھے ہیں مسز عرفان! دراصل لڑکیاں دیر تک بیٹھی رہیں تو ایسی ہی ہو جاتی ہیں۔‘‘
وہ اب جھوٹے حوصلوں کے سہارے پرسکون ہو گئی تھی۔ لیکن میری نیند تو کب سے ختم ہو گئی تھی۔ پیروں کی انگلیاں مڑتی تھیں۔ ٹانگ کی رگیں کھنچ جاتی تھیں۔ تکلیف کی شدت سے میں اٹھ اٹھ کر فرش پر ٹہلتی، تب کہیں جاکر پٹھوں کی اکڑاہٹ ختم ہوتی۔
صبح مسز عرفان ڈسچارج ہو گئیں۔ ان کے شوہر انہیں لینے آگئے۔ میں اور مسز عرفان محروم محبت تھے۔ لہٰذا ہمارے درمیان ٹیلی فون نمبرز اور ایڈریس کا تبادلہ ہوا اور ہم رخصت ہو گئے۔ وہ چھاؤنی میں رہتی تھیں اور میرا گھر کالج کے پاس تھا۔ ہم دونوں کے گھروں میں کچھ زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ وہ سچ کہتی تھی بےچاری، اس کے سسرال سے کوئی بھی اسے لینے نہیں آیا۔ نہ ماں، نہ بہن۔ حالاں کہ اپنے گھر سے وہ اس کی ڈلیوری کے لیے آئی تھیں۔ اٹک کا ایک ایک فرد مسز عرفان سے ملنے آیا اور نہ آئیں توساس نند۔ لیکن اس کا شوہر تھا، جو بچے کے گال چوم رہا تھا اور ایک عمر تھا، اسے یہ ساری باتیں سستی جذباتیت لگتی تھیں۔ اس کے پاس تو بڑی مضبوط دلیل تھی۔ محبت کا اتنا عامیانہ اظہار وہ کرتے ہیں جو سچ مچ محبت نہ کرتے ہوں۔
ہر بات کے لیے اس کے پاس کوئی نہ کوئی جواز تھا، کوئی مجبوری تھی۔
میرے پاس نہ مجبوریاں تھیں، نہ دلیلیں۔
دو روز بعد مجھے بھی ڈسچارج کر دیا گیا۔ ردا اورندا کے مل کر کام اتنے بڑھ گئے کہ راتوں کو جاگ جاگ کر اور دن بھر کی بھاگ دوڑ کے باوجود مکمل نہ ہوتے۔ عبدل کام چور اور صاحب کا منہ چڑھا بالکل ہی نالائق ہو کر رہ گیا۔ مجھے تو اب عمر پر غصہ آنا بھی بند ہو گیا تھا۔ وہ لاکھ باہر لے جانا چاہتا، میں انکار کر دیتی۔ میری حالت تھکی تھکی اور چڑچڑی تھی۔ ابھی ردا کی نیپی بدلتی کہ ندا کا چھاپو نکل جاتا۔ اس کے کپڑے بدلتی تو ردا پانی میں گھسی ملتی۔ ردا کو گھسیٹ کر لاتی تو ندا چارپائی سے گرنے لگتی۔ میں سارا دن عمر کو کوستی رہتی اور میرے پاس چارہ ہی کیا تھا۔ وہ مجھے کہتا، کچھ دن کے لیے امی کے ہاں ہو آؤ۔ میں امی کے گھر جاکر تماشا نہیں لگوانا چاہتی تھی۔ پھر وہ کہتا، میری امی سے مل آؤ کچھ دن کے لیے، تھکن اتر جائےگی۔ میں اور چڑ جاتی۔ مصیبت یہ تھی کہ وہ جرم کرتا تھا لیکن انگلیوں کے نشان مٹا ڈالتا تھا۔ میں کون سی شہادت لاتی۔ کون سا ثبوت دیتی؟
ایک دن اس نے بھی مجھ سے بیزار ہو کر کہہ ہی دیا، ’’پہلے تم کلب چلی جاتی تھیں۔ بازار ہو آتی تھیں۔ اب تو دن بھر بچوں کے دکھڑے سنانے کے علاوہ تمہیں کوئی کام نہیں۔ تھوڑی سی سوشل لائف پیدا کرو۔ کوئی زندگی میں رمق لاؤ۔۔۔ کسی سے ملو۔ کسی کے گھر جاؤ۔ کسی کو بلاؤ پھر دیکھنا زندگی کیسی بدل جاتی ہے۔‘‘
میں کہاں سے لاتی دوست احباب؟ میں بستر کی چادر غصہ اتارنے کو زور زور سے جھٹک دیتی۔ اب کون تھا، مجھے یہاں رونے والا۔
اس دن عمر، اٹک کی تحصیلوں کے دورے پر نکلے۔ فتح جنگ، تلہ کنگ، پنڈی گھیپ۔ اس بات کے بھی امکانات تھے کہ دو تین دن لگ جائیں گے۔ پہلی مرتبہ مجھے مسز عرفان کا خیال آیا۔ ان کا ایڈریس پتا نہیں میں کہاں رکھ کر بھولی ہوئی تھی۔ سارا گھر چھان مارا کسی ممکنہ جگہ نہ ملا اور ملا تو ہسپتال سے آئی میری دوائیوں کی شیشیوں کے درمیان۔ اب شام ہو گئی تھی لہٰذا کل پر ٹالنا پڑا۔ کبھی اچھے زمانے میں ڈرائیور نے کار چلانی سکھائی تھی۔ وہ خود تو صاحب کے ساتھ سرکاری دورے پر تھا۔ لیکن اتنی شام پڑے کار لےکر نکلنے کی ہمت نہ پڑی۔ البتہ اگلے روز صبح صبح یہ وزٹ پکا تھا۔ مجھے بھی زندگی سے لطف لینے کا پورا پورا حق ہے۔ عبدل بچیوں کو لے کر پیچھے بیٹھا۔ میں نے ڈرائیو کی۔ اگر اسے فرصت ہوئی تو اس کا ڈرائیور ساتھ لے کر پشاور جائیں گے۔ کپڑا خریدیں گے، عیش کریں گے۔
مسز عرفان کا گھر اپنی حیثیت میں بڑا پراسرار تھا۔ پرانے بیرکس تھے جو اب گھروں میں تبدیل کر دئیے گئے تھے۔ لمبا سا سبز لکڑی کا برآمدہ اور سیدھے سیدھے کمرے۔ سامنے درختوں پر چمگادڑیں الٹی لٹک رہی تھیں۔
مجھے جھرجھری آگئی۔ اس کا بیٹ مین باہر ہی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ مجھے پہچان کر اندر کی طرف لپکا۔ وہ کبھی کبھی ہسپتال آیا کرتا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے ہم بھی اندر چلے آئے۔
’’اوہ۔‘‘ میں جتنے قدم بڑھا چکی تھی، وہیں جم کر رہ گئی۔
دروازے کے کھلے پٹ کے پیچھے وہ بیٹھی تھی۔ اس کے بال الجھے الجھے اور بےترتیب تھے۔ آنکھوں پر عینک ٹکی تھی اور ذہین خوب صورت آنکھیں بےچینی اور وحشت سے اپنے ڈیلوں کے حلقوں میں تیزی سے گھوم رہی تھیں۔
’’رشنا!‘‘ میں بے قرار ہو کر اس کے گلے لگ گئی۔ وہ مجھے وہم سے دیکھ رہی تھی۔ لیکن مجھے فرصت نہ تھی، میں اس کے گلے سے لگی بے تابی سے روئے جا رہی تھی۔ مجھے یوں بلک بلک کر اس نے روتے دیکھا اور خود بھی رودی۔ مسز عرفان ہم دونوں کی اس جنوں خیز ملاقات کا منظر خوف سے دیکھ رہی تھیں۔ وہ سمجھ ہی گئی تھیں۔
اس کے پیچھے ممی تھیں۔’’اوہ۔ ڈارلنگ۔‘‘ انہوں نے مجھے مشکل سے پہچانا۔ وہ خود بھی بوڑھی سی ہو گئی تھیں۔ ان کا دمکتا ہوا رنگ سنولا گیا تھا اور گردن اور آنکھوں پر جھریاں پڑ گئی تھیں۔
’’تم نے مجھے کیسے ڈھونڈا؟‘‘ رشنا کے اعصاب تنے ہوئے تھے۔
’’میں نے کہا ڈھونڈا؟‘‘ میں نے سادگی سے کہا، ’’میں تو مسز عرفان سے ملنے آئی تھی۔ تمہاری بھابی اور ہم ہسپتال میں ساتھ ہی تھے۔‘‘
’’یہ تیری بیٹیاں ہیں۔ اتنی خوب صورت۔‘‘ اس نے دونوں کو سینے سے لگا لیا۔ وہ بڑے سکون سے ہنس رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں وہی شوخی اور چمک دوبارہ ابھر آئی تھی۔ کہاں تو میں مسز عرفان سے ملنے نکلی تھی اور کہاں مسز عرفان بے چاری مجھ سے چھپتی پھر رہی تھیں اور ہم دونوں کمرے میں بند دنیا جہاں کے قصے سنا رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا میری طرح وہ بھی مجھے ترس گئی تھی۔ ہم دونوں سے باتیں کرنے والا جو کوئی بھی نہیں رہا تھا۔ وہ کیمپس کے دنوں کو یاد کر کے قہقہے لگا رہی تھی۔ اسے سارے واقعات ازبر تھے۔ کچھ بھی نہیں بھولا تھا۔ وہ مجھ کہتی،’’ تمہیں یاد ہے نا جب ہم شیریں وغیرہ۔تمہیں یاد ہے نا۔ سر احمق۔ جب ہم سر احمر کو سر احمق کہتے تھے اور کینٹین۔ ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اور سر عثمان۔ یار سر عثمان، ہی ازاے ڈارلنگ۔‘‘ وہ اس طرح تیزی میں اٹھی جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔ الماری کھولے کتنی دیر وہ کچھ تلاش کرتی رہی۔ جب مطلوبہ چیز نہیں ملی تو وہ جھنجلا گئی۔
’’کہاں گئی؟ یہیں تو رکھی تھی۔‘‘
’’کیا چیز؟ کیا ڈھونڈ رہی ہو رشنا؟‘‘
’’کیا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں وحشت تھی اور وہ گھبراہٹ میں گول گول گھوم رہی تھیں۔
’’میں کیا ڈھونڈ رہی تھی؟ میں بھلا۔۔۔‘‘
اوہ۔۔۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا اور سمجھ لیا مسز عرفان ٹھیک کہتی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ ٹریجڈی گزر چکی تھی۔ بڑی عمر کی لڑکیاں جو رشتہ نہ آنے کے سبب۔۔۔
میرے حافظے میں مسز عرفان کے الفاظ تازہ تھے۔ باورچی نے کھانا لگنے کی اطلاع دی۔ وہ میز کے ایک کونے پر آکر ٹک گئی۔ میں اس کے ساتھ ہی تھی۔ لوگ ابھی نشستیں سنبھال رہے تھے۔
’’دیکھو۔ دیکھو۔‘‘ اس نے مجھے ٹہوکا دیا، ’’عذرا بھابی مجھے کتنی حقارت سے دیکھتی ہے۔‘‘
اپنا نام سن کر عذرا نے اسی آنکھیں اٹھائیں اور پلیٹ پر جھکا دیں۔
’’دیکھا!‘‘ اس نے مجھے پھر کہنی ماری، ’’میں کہتی تھی نا!‘‘
میں چپ رہ گئی۔ وہ ایسی تو نہیں تھی۔ اب میں کہتی بھی کیا۔ کسی دوسرے شخص کی طرف داری کا مطلب اس کو اپنا دشمن بنانا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں رعشہ تھا اور تازہ روٹی لاتے بابا کو زور سے ڈانٹا۔
’’کیا بات ہے۔ بار بار کیوں آتے ہو تم؟‘‘
’’میں تو جی روٹی گرم۔۔۔‘‘۔
’’تمہیں کن سوئیاں لینے کا بڑا شوق ہے۔ خبردار۔ میں خود لے آؤں گی۔‘‘
’’وہ بیگم صاحب کا حکم تھا۔ جی۔‘‘
’’خبردار! اگر آگے سے زبان چلائی۔ تمہیں لوگوں نے سر چڑھا لیا ہے۔‘‘ اس نے کن انکھیوں سے عذرا کو دیکھا۔
’’میں تمہیں کھڑے کھڑے نکال دوں گی۔ اچھا، سن لیا؟‘‘ وہ اشتعال میں آکر کھڑی ہو گئی اس کا عضو عضو تن گیا تھا۔ وہ اتنی خوف ناک اور اتنی ڈراؤنی کبھی نہیں لگی تھی۔ وہ نرم نرم سی لو دیتا ٹھنڈی ٹھنڈی مسکراہٹوں کی پھوار میں ڈوبا چہرہ جانے کہاں جا سویا تھا۔ آخر اس کے ساتھ کیا گزری؟ کون مجھے بتائے گا۔
وہ روٹی کے ٹکڑے سے آلو کے قتلے کی غصے میں دھجیاں بکھیر رہی تھی۔ اس کی ممی نے یہ سارا کھڑاگ سنا تھا۔ گرم پانی کی سکائی والی بوتل پیٹ سے لگائے ٹہلتی پھر رہی تھیں۔ ان کے پیٹ میں السر ہو گیا تھا۔ وقت نے انہیں بھی بوڑھا کر دیا تھا۔
’’کیا کروں بیٹی؟‘‘ وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر بولیں، ’’رشنا سب پر شک کرتی ہے۔ سب سے نفرت کرتی ہے۔ تم تو جانتی ہو بیٹی۔ وہ کیا تھی اور کیا ہو گئی ہے۔ اس نے تو مجھے بھی پاگل کر دیا ہے۔ میری ساری زندگی مجھ سے چھین لی ہے۔ وہ تفریحات، آرام، آسائش۔ ‘‘وہ ابکائی کے ایک زور سے نڈھال ہو کر دوہری ہو گئیں۔ پیٹ میں بل پڑنے سے درد کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔
گھر میں پھیلے دہشت ناک سناٹے نے مجھے خوف زدہ کر دیا۔ میں تو رشنا سے بھی ڈر گئی تھی۔ وہ کبھی بالکل ہی ابنارمل ہو جاتی، کبھی ہنس مکھ نظر آنے لگتی۔ جب میرے لیے وہاں بیٹھنا بالکل ہی دشوار ہو گیا تو میں چلی آئی۔
مسز عرفان مجھے ملتجی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ میں ان کا راز نہ کھولوں۔ میں پاگل تو نہ تھی۔
میں اپنے ساتھ رشنا کو بھی لے آئی۔ شاید اسے ماحول کی تبدیلی ہی کی ضرورت تھی۔ وہ شام تک میرے ساتھ رہی۔ ردا اور ندا کے ساتھ کھیلتی، ان کی چہلیں دیکھ کر خوش ہوتی رہی۔ ساری دوپہر اور ساری شام اس نے بہت خوشگوار گزاری تھی۔ البتہ اندھیرا پڑنے کے ساتھ اس کے تیور بدلنے لگے۔ یہ میری بچپن کی دوست تھی لیکن مجھے اس سے خوف آ رہا تھا۔
اس نے میرے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا۔ اسے میرے ماضی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
’’اور رشنا۔‘‘ مجھے کوئی بات کرتے کرتے یاد آیا،’’ اب بھی دکان سے کتابیں اٹھاتی ہو؟‘‘
رشنا کے چہرے پر الجھنوں کا جال تن گیا۔ وہ گہری سوچ میں بولی،’’ میں پوری دکان خرید سکتی تھی لیکن چوری کا مزہ اور وہ سر احمر، سر عثمان۔ وہ زندگی بھی عجیب تھی یار۔میں شاید ساری عمر چوریاں کرنا نہیں چھوڑ سکتی تھی، اگر عمر کا خوف نہ ہوتا۔‘‘
’’اور شیریں کتنی ناراض ہوا کرتی تھی۔‘‘ میں نے یاد دلایا۔
’’لیکن عمر۔ عمر؟‘‘ وہ اٹکی۔
’’رشنا تم نے مجھ سے ایک بات تو پوچھی ہی نہیں۔‘‘
’’عمر۔۔۔‘‘ وہ خلاؤں میں گم ہونے والی کیفیت میں مبتلا ہو گئی۔
’’ایک بات کہوں۔‘‘ اس نے دریچہ پاٹوں پاٹ کھول دیا اور باہر دور تک پھیلے اندھیرے سبزوں کو گھورتے بولی،’’ میں عمر سے عشق کرتی تھی۔ شاید اب بھی کرتی ہوں لیکن عمر نے میرے ساتھ بڑا ظلم کیا۔‘‘ اس کی آنکھیں پھر گھوم رہی تھیں اور ذہن بھٹک رہا تھا۔ میں ساکن رہ گئی۔
’’اس نے مجھ پر زور ڈالنا شروع کر دیا کہ میں الیاس سے شادی کر لوں۔ تمہیں یاد ہے نا الیاس۔ میرا کزن۔ وہ کبھی کیمپس بھی آتا تھا۔ جب میں نے انکار کیا تو اس نے ممی کو صاف جواب دے دیا۔ حالاں کہ ممی بے چاری سمجھتی تھیں، ہم میں انڈرسٹینڈنگ ہے۔ اس نے ممی سے صاف کہہ دیا، میں آپ کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتا۔ میں اور ممی ساری رات روتے رہے۔ پتا ہے۔ اس کو اپنے غریب ہونے کا بہت احساس تھا۔ وہ کہتا تھا جب تک میری کار پر فلیگ نہ لگے، تمہیں نہیں بیاہ سکتا۔ محبت تو ان باتوں سے ماورا ہوتی ہے۔ ہوتی ہے نا یار؟‘‘
میرے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔ باہر رات تاریک تھی اور آفیسرز کالونی کے سارے کتے میرے گھر کی سڑک کے عین سامنے آ کر رونے لگے تھے۔
آج عمر کی کار پر فلیگ تھا۔ آج وہ اپنی اسی کروفر والی پوزیشن میں پنڈی گھیپ گیا تھا۔
میں دہشت زدہ ہو گئی۔
لیکن۔۔۔ عمر میرا ہے۔ اس نے مجھے اس وقت چنا جب رشنا موجود تھی۔۔۔رشنا کچھ نہیں جانتی۔وہ پاگل تھی اور مجھے پاگل کر کے خود بےخبر ہو گئی تھی۔
وہ ساتھ والے کمرے میں تھی۔ شاید بےخبر سو رہی تھی اور میں اس کے غم کا ماتم منا رہی تھی۔ مجھے لگتا تھا میں ہی اس کی قاتل ہوں۔ اس کی مجرم۔
مجھے رشنا سے اتنی محبت تو تھی۔ میں اسے کبھی دھوکا نہیں دے سکتی تھی۔ اگر اس دن وہ اپنی ادھوری بات پوری کر جاتی تو عمر مر کر بھی مجھے نہ پا سکتا تھا۔
میں دونوں ہاتھوں میں سر ڈالے اپنے آپ سے الجھتی رہی۔ عمر نے مجھے اس وقت چنا تھا جب رشنا بھی موجود تھی اور یہ احساس اس وقت کتنا مغرور کرتا تھا کہ باوجود اپنی تمام کج ادائیوں کے میں ہی اس کی توجہ کا مرکز ہوں۔ لیکن اس وقت۔۔۔ اب جب کہ رات بھر میں کبھی اس کے کمرے کی بتی جلتی ہے، کبھی بند ہو جاتی ہے۔ میں اسے کیسے بتاؤں۔ میں اسے کیا سمجھاؤں۔ ندا کے رونے اور میرے چمکارنے کی آواز سن کر وہ پھر میرے کمرے کی چوکھٹ پر آ کھڑی ہوئی۔ وہ دروازے کے فریم میں کسی تصویر کی طرح جڑی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی اور بال شانوں پر چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے۔ وہ ایسے کھڑی تھی اور ایسے بول رہی تھی، جیسے اس کا مخاطب کوئی بھی نہ ہو۔
’’عمر نے اس دن سر عثمان سے کہا۔ یہ بارہ جولائی کی بات ہے؟ ہاں بارہ جولائی کی۔ سر عثمان سے عمر نے کہا۔ میں رشنا سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ (’’جھوٹا!‘‘)
’’اور تمام زندگی کرتا رہوں گا۔ لیکن شادی اس لڑکی سے کروں گا جو میری دسترس کے اندر ہو جس دن میں نے ڈیپارٹمنٹ چھوڑا۔ اس نے مجھے اور سر عثمان کو یہی بتایا تھا کہ میں نے اپنی سطح سے کم درجے کی لڑکی سے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ گو میں اس سے کبھی محبت نہیں کروں گا۔ لیکن وہ کم حیثیتی کی وجہ سے مجھ سے مرعوب رہےگی۔ اس کا خیال تھا وہ لکھ پتی ہو کر بھی میری ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا۔ میری ضرورتیں ہی کیا ہیں۔ تم دیکھو۔
سر عثمان نے اسے بہت سمجھایا کہ تم دو لڑکیوں پر ظلم کر رہے ہو۔ رشنا پر بھی اور اس لڑکی پر بھی جس سے تم شادی کروگے۔ میں بھی پاگل ہو رہی تھی یار۔ سارا دن میں اس کے بازوؤں میں روتی رہی لیکن وہ بالکل نہ پسیجا۔ وہ روتا بھی تھا لیکن کہتا تھا میں اپنی خودداری نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ تو شاید روزروتی تھی لیکن میں شادی کے بعد اتنا کبھی نہ روئی تھی جتنا اس روز رو رہی تھی۔
رشنا اسی بےخبری کی سی کیفیت میں واپس چلی گئی تھی۔ مجھے اپنے کمرے میں تنہا چھوڑکر، کمرا جواب میرا نہیں تھا۔میں تکیوں میں منہ دے کر روتی رہی، سسکتی رہی اور رات آہستہ آہستہ گزرتی گئی۔
رشنا کے کمرے سے مسلسل چیزوں کے رکھنے اور اٹھانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ اپنی اسی بےقراری کی کیفیت میں چیزیں پھر ول رہی تھی، گرا رہی تھی، پھینک رہی تھی۔
وہ رات بھی بڑی بھیانک رات تھی۔ ہم دونوں محروم محبت تھے اور اپنے اپنے عذاب میں مبتلا۔ پھر بھی رات میں کسی وقت مجھے نیند آ گئی۔ دماغ سن تھا اور پپوٹے رت جگے سے بھاری۔ میں کل بھی خود کو مظلوم سمجھتی تھی لیکن کل تک میرا ایک گھر تھا۔ آج تو میں مہاجر بھی تھی۔ میں شاید لمحوں کے لیے سوئی تھی اور پھر اٹھ گئی۔
یا شاید میں ساری زندگی سوتی رہی اور کچھ دیکھ ہی نہ سکی۔ آنکھ کھلی تو آنسو پہلے آ گئے۔ سر بھاری بھاری تھا۔ اٹھنا چاہا تو اٹھا بھی نہیں گیا۔ ردا دودھ کے لیے چلا رہی تھی۔ میں ساری ہمت مجتمع کر کے اٹھی، فیڈر بنایا، ردا کے منہ میں ٹھونسا۔
رشنا کے کمرے کی بتی جلی ہوئی تھی۔ ریخ سے روشنی باہر آرہی تھی۔ میں نے سوچا۔
’’زندگی میں ایک مرتبہ رشنا کے کانوں میں یہ فقرہ تو پڑنا ہی چاہیے کہ محرومِ محبت وہ نہیں۔ عمر نے اس کے ساتھ کیے تمام وعدے نبھا دئیے ہیں اور ان وعدوں کے ایفائی کی واحد اور مضبوط گواہ تو خود میں ہوں۔‘‘
میں نے دروازہ دھکیل کر چوپٹ کھول دیا اور دھک سے رہ گئی۔ سارے کمرے میں مختلف فوٹو گراف اور البم بکھرے ہوئے تھے۔یونیورسٹی کی تصویریں۔ پل کے فوٹو۔ تمام دوستوں کے گروپ فوٹو اور عمر سے میری شادی کی تصویریں۔ یہاں سے وہاں تک۔
اور ادھر سے ادھر تک کھلے تمام دروازے پتا دے رہے تھے، وہ رات ہی میں کسی وقت اٹھ کر کہیں چلی گئی تھی۔ میں نے دروازہ بند کیا پھر پھاٹک بند کیا۔ عبدل تو اسی دن گاؤں گیا ہوا تھا۔
اب چوری ہونے کو رہ بھی کیا گیا تھا۔ میں رشنا کی بکھری چیزوں کے درمیان تو ثابت قدمی لے آئی۔ لیکن پھر بند ہوتی آنکھوں سے وہیں اوندھے منہ پڑی روتی رہی۔ آج سارے حساب بے باق ہو گئے تھے۔ سارے پردے چاک ہو گئے تھے۔ پتا نہیں کتنے پہر گزرے۔
ندا اور ردا حلق پھاڑ پھاڑ کر چلا رہی تھیں۔
باہر دروازے پر کوئی بیل کر رہا تھا۔ میں جانتی تھی۔ یہ عمر کی بیل ہے لیکن آج سے پہلے اس نے اتنی اجنبی، اتنی بری اور روکھی آواز میں تو کبھی نہیں پکارا تھا۔
وہ مسلسل بیل بجا رہا تھا اور وقفوں وقفوں سے دروازے پر مکے مار رہا تھا۔ بیل کے تواتر اور دروازہ پیٹنے کی شدت سے اس کی گھبراہٹ عیاں تھی۔ وہ شاید دروازہ توڑ کر بھی اندر آجائےگا۔ یہ بھی اس کا حق ہے۔ یہ اس کا گھر ہے۔
لیکن میں۔۔۔ میں اب کسی اجنبی کے ساتھ اس گھر میں کیسے رہ سکوں گی؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.