Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں اور میرا ساتھی

نیلم احمد بشیر

میں اور میرا ساتھی

نیلم احمد بشیر

MORE BYنیلم احمد بشیر

    میرا خوف اور میں... ہم دونوں کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ اس ساتھی نے ہمیشہ میرا ساتھ نبھایا ہے۔ اس کی رفاقت میری زندگی کی چند پائیدار رفاقتوں میں سے ایک رہی ہے۔ ہم ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ یہ ہمیشہ سے ہی مجھے پناہ دیتا آیا ہے۔ میں اور خوف ہم دونوں دوست ہیں، اچھے ساتھی ہیں۔

    بچپن بہت اچھا گزرا۔ میں اور میری چھوٹی بہن چندی دونوں امی ابا کی لاڈلی بیٹیاں تھیں۔ ابا بہت شفیق تھے۔ ڈانٹتے ڈپٹتے نہیں تھے۔ پیار کے خزانے بھر بھر کے لٹاتے تھے لیکن پھر بھی ان کا خوف ذہن پہ تلسط جمائے ہوئے تھا۔ مجھے ان سے بہت ڈر لگتا تھا۔

    امی نے بچپن سے ہی تربیت دی تھی کہ گھر میں صبح سویرے شور نہ مچایا جائے۔ ’’ہم بچے‘ شی‘ شی‘ ابا جی سو رہے ہیں۔‘‘ سرگوشیوں میں کہتے، آہستگی سے چلتے، بےآواز ہنستے اور خاموش قہقہے لگاتے، سکول جانے کی تیاریاں بڑے آرام سے کر لیتے۔ ابا جی کا ڈر تبھی سے میرے دل کے کسی کونے میں دبک کر بیٹھ گیا تھا حالانکہ ابا جی نے کبھی کچھ نہ کہا تھا۔

    مجھے اور چندی کو رات نو بجے ریڈیو پہ نشر ہونے والا ڈرامہ سننے کا بہت شوق تھا۔ امی کہتی تھیں تمہارے ابا پسند نہیں کرتے کہ بچیاں عشق محبت کی باتیں سنیں اور ڈراموں میں بھی واہیات ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں ڈرامہ سننے کی اجازت نہیں تھی مگر برا ہو ہمارے ہمسایوں کا جن کے ابا جی ایسا نہیں سوچتے تھے۔ میں اور چندی رات کو نو بجے ریڈیو پہ نشر ہونے والا ڈرامہ سیڑھیوں میں چھپ کر سانس روکے سن ہی لیتے۔ مکالمے جان کھینچ لیتے تھے۔ جوان لڑکی کی سسکیاں اور لڑکے کی آہیں 133 بیچ میں ظالم سماج، اف نہ جانے دنیا میں کیا کیا ہو رہا تھا اور ہم نہ جانے کیا کیا جاننے سے محروم رہے جا رہے تھے۔ کاش ہمارے ابا بھی ہماری سہیلی کے ابا کی طرح ہمیں ریڈیو ڈرامہ سن لینے دیتے۔ وہ ساری فیملی رات کھانے کے بعد اکٹھے ہو کر یہ کام کرتی تھی۔ جبکہ ہمارے ہاں اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔

    میں اور چندی ڈرامنے کا ایک آدھ کونا پکڑ کر ہی خوشی کے سمندر میں ڈبکیاں لگانے لگتے۔ ہمسایوں کے گھر سے آنے والی آوازیں یوں ہم تک آآ کر ٹکراتیں جیسے کسی سمند کے بیچوں بیچ کھڑے لائٹ ہاؤس کے برج سے رات کی خاموشی میں لہریں ہولے ہولے ٹکراتی ہیں۔

    ایک رات میں نے اور چندی نے ایک ترکیب لڑانے کی سوچی۔ امی ابا تو اپنے کمرے میں ہوا کرتے تھے اور ریڈیو ڈرائنگ روم میں۔ طے یہ پایا کہ آج اپنا سٹیشن لگایا جائے اور اسے سب سے کم والیوم پہ رکھ کر کان اس سے چپکا کر ڈرامہ سنا جائے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ریڈیو بے حد غیر معمولی قسم کا تھا، جسے نانا جی نے تقسیم سے پہلے کسی انگریز سے خرید کرامی کو دیا تھا۔ اسے آن کرتے وقت اس قدر زور سے ’’ٹک‘‘ کی آواز آتی کہ ہمسایوں کو بھی پتہ چل جاتا تھا کہ ہمارا ریڈیو آن ہوا ہے۔

    ’’اگر کسی طرح ٹک کی آوازنہ آئے تو ابا کو پتہ نہیں چل سکتا کہ ریڈیو لگا ہوا ہے۔‘‘ چندی نے کہا

    ’’تم ایسا کرنا کہ جس لمحے میں ریڈیو آن کروں، تم اسی وقت چھلانگ مارنا تا کہ ٹک کی آواز چھلانگ کی دھم میں دب جائے۔‘‘ میں نے تجویز دیتے ہوئے کہا

    ایسا ہی ہوا۔ چندی نے کامیابی سے چھلانگ ماری اور ادھر سے امی آ گئیں۔

    ’’لڑکیو...! یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ امی نے آتے ہی حیرت سے پوچھا

    ’’ کچھ نہیں امی... چندی یونہی اچھل رہی تھی۔‘‘ میں نے صفائی پیش کی۔

    ’’یہ اچھل کود کا وقت نہیں۔ رات کے نو بج گئے ہیں، چلو سو جاؤ۔‘‘ امی ڈانٹ کر چلی گئیں۔ میں اور چندی فاتحانہ مسکراہٹ سے ریڈیو سے چپکے چپکے ڈرامہ سنتے ہوئے کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئے۔ میں ابھی ظالم سماج کے ظلم پہ آنسو بہانے ہی والی تھی کہ اچانک کمرے کے دروازے میں ابا جی کو کھڑے دیکھ لیا۔ خوف نے میری زبان گنگ کر دی، ہاتھ پیر بےجان ہو گئے، گھگھی بندھ گئی لیکن شکر ہے انھیں پتہ نہیں چلا۔

    ابا کا ڈر تب سے اور گہرا ہو گیا جب انہوں نے مجھے میری زندگی کا پہلا تھپڑ مارا۔

    ہوا یوں کہ ہمارے سکول میں اسلام آباد سے ایک بہت حسین لڑکی آئی۔ میری کلاس میں داخل ہوئی۔ سب لڑکیاں اس سے دوستی کرنے کے لیے مری جا رہی تھیں۔ وہ میری دوست بن گئی۔ ایک روز اس نے مجھے اپنی سالگرہ پہ مدعو کیا۔ امی ان دنوں لاہور گئی ہوئی تھیں میں اور چندی ابا اور نوکرانی کے ساتھ کراچی میں ہی تھے۔ میری دوست کا گھر ہاؤسنگ سوسائٹی میں تھا اور ہمارے فلیٹ والی بلڈنگ لارنس روڈ پہ، فاصلہ کافی تھا۔ لیکن سالگرہ پہ جانے کو دل مچل رہا تھا۔

    میں بہت عقل مند تھی۔ تیرہ برس کی تھی مگر بڑی سیانی دادی اماں۔ میں نے سوچا ابا تو شام کو آتے ہیں ہم سکول کے بعد سالگرہ میں شرکت کر کے ان کے آنے سے پہلے کب کے گھر بھی پہنچ جائیں گے اور انہیں خبر تک نہ ہوگی۔

    چندی کو ساتھ لیا ۔چھوٹا موٹا تحفہ خریدا، اپنی دوست کے ہاں سالگرہ منا کر شاداں و فرحاں گھر کو لوٹے ۔پر وہی ہوا جو ایسے موقعوں پر ہوا کرتا ہے۔ ابا جلدی گھر آ گئے۔ بیٹیوں کو گھر نہ پا کر پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر پوچھ تاچھ کی۔ سکول بھی گئے، پھر گھر آئے، ہمسایوں سے دریافت کیا۔ ہم نے کسی کو بتایا ہی نہیں تھا کہ ہم دیر سے گھر لوٹیں گے اس لیے سب نے لا علمی ظاہر کی۔ سر جھکائے گھر میں بیٹھے تھے کہ میں اور چندی مزے سے شام ڈھلے گھر پہنچ گئے۔ پڑوس کے فلیٹوں کے لوگ ہمارے گھر کے ارد گرد کھڑے قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔

    جونہی میں نے خطرہ سونگھا روح کانپنے لگی۔ سب لوگ ہمیں گمشدہ سمجھ کر حیران پریشان تھے اور ہمیں دیکھنے کے بعد جاننے کو بے چین کہ اتنی دیر ہم کہاں رہے تھے۔ گھر میں گھستے ہی میں نے خوف کے کالے سیاہ بادل کو اپنی برف بڑھتا محسوس کیا۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔

    ’’کہاں گئی تھیں؟؟‘‘ ابا غرائے۔

    میں نے بتا دیا۔ سچ کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہ تھا، میں بڑی تھی۔ ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی تھی۔ انہوں نے پہلے بالوں سے پکڑ کر مجھے زور سے جھنجھوڑا اور پھر زناٹے دار تھپڑ میرے گال پہ رسید کر دیا۔ ساتھ میں ڈانٹ ڈپٹ اور لیکچر بھی دے دیا۔ میں اور چندی مجرم بنے خاموش کھڑے رہے، ہڈیوں کے گودے تک میں خوف گھستا چلا گیا۔

    دور دیس کے کسی اجنبی جزیرے پر سند باد جہازی کے کاندھوں پہ ایک بوڑھا سوار ہو گیا تھا۔

    ابا نے کچھ دن ناراض رہنے کے بعد پیار سے سمجھایا کہ ایسی غلط حرکت کا نتیجہ کتنا خطر ناک ہو سکتا ہے اور ہمیں اس طرح بتائے بغیر کہیں نہیں جانا چاہیے تھا لیکن ابا کا خوف مجھ سے جدا ہونے کو تیار نہ ہوا، میرے ساتھ چمٹ کر رہ گیا۔

    مگر وہ بوڑھا سند باد جہازی کے کاندھوں پہ مستقل ڈیرا جمائے رکھنے کا ارادہ رکھتا تھا اس لیے وہ بھی چمٹا رہا۔

    کئی سال بعد جب گھر میں اکلوتا بھائی آیا تو میں نے بڑی بہن بننے کے بجائے اس کی ماں بن جانے کو ترجیح دی۔ وہ اور میں ہر وقت اکٹھے رہتے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ سال بھر کا تھا تو صبح صبح منہ اندھیرے اس کو بھوک لگا کرتی تھی۔ ہم دونوں اکٹھے سویا کرتے تھے اس لیے وہ مجھے ہی جگایا کرتا تھا اور میرے چہرے پہ اس کے ننھے ننھے بوسے ہی مجھے نیند سے بیدار کیا کرتے تھے۔ میں ادھ کھلی آنکھوں سے اٹھتی، تھرماس میں سے گرم پانی لیکر اس کے لیے خشک دودھ بوتل میں گھولتی اور بوتل اس کے منہ سے لگا دیتی۔ وہ غٹا غٹ دودھ پیتا رہتا اور میرا ہاتھ اس کے ننھے منے وجود کو تھپکتا رہتا۔

    دیکھتے ہی دیکھتے اس کے وجود کے آگے میرا وجود نکتہ بن کر سکڑ نے لگا۔ اس نے اب بوتل کی جگہ منہ میں سگریٹ لینا شروع کر دیا تھا۔ اس کا قد مجھ سے لمبا اور شخصیت جاندار اور رعب دار ہو چکی تھی۔ اب ہم اکٹھے سوتے بھی نہیں تھے۔

    ایک بار جب میں نے اسے سگریٹ پیتے دیکھ کر بچپن کی طرح ہولے سے چپت لگانے کے لیے ہاتھ اٹھایا‘ سرزنش کی تو وہ خشمگیں نگاہوں سے مجھے دیکھ کر نا گواری سے بولا۔

    ’’آپا...! آپ اپنے کام سے کام رکھیں‘ میری لائف میرا بزنس ہے‘ میں جو بہتر سمجھوں گا کروں گا۔ میرے معاملات میں دخل نہ دیں۔ ویسے بائی دی وے آپ کا دوپٹہ اتنا چھوٹا کیوں ہوتا جا رہا ہے اور صبح کس سے فون پر ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں۔؟‘‘

    میں نے اپنے سینے کی طرف دیکھا اور اپنے چنے ہوئے دوپٹے کو پھیلانے کی کوشش کی مگر اس کمبخت نے بھی شاید میری شرمندگی کو بھانپ لیا تھا۔ مزید سکڑتا ہوا نیچے جا گرا میں نے خود کو ننگا سا محسوس کیا۔ اسی لمحے میرا ساتھی خوف مجھ سے ایک بچھڑے دوست کی طرح آ چمٹا۔ مضبوطی کے ساتھ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور خود کو محفوظ محسوس کرنے لگی۔

    سند باد جہازی بوڑھے کو کاندھوں پہ اٹھائے چلتا چلا جا رہا تھا اس کے سوا چارہ کوئی بھی نہ تھا۔

    فیصل اور میں کالج کے زمانے سے ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ ہم نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی کا بھی منصوبہ بنا رکھا تھا اور اس سے پہلے کہ ظالم سماج ہمارے درمیان آتا گھر والوں کی رضامندی سے منگنی بھی کر رکھی تھی۔ میں اپنے منگیتر کو بہت چاہتی تھی اور وہ بھی مجھے دنیا کی بہترین عورت سمجھتا تھا۔ میں اس کی محبت پا کر خود کو ساتویں آسمان پہ اڑتا محسوس کرتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ وہ بھی مجھے پا کر اپنے نصیب پہ اتنا ہی رشک کرے جتنا میں کرتی ہوں۔ میری قیمتی محبت کو اپنے سینے پہ اعزاز کی طرح سجا کر پھرے‘ میرے بے انتہاء قدر کرے۔ میری محبت کے جواب میں اپنی محبت کا بھر پور انداز میں ذکر کرے مگر وہ اظہار کے معاملے میں ہمیشہ نالائق اور کنجوس واقع ہوا تھا۔

    میں سراپا اظہار تھی اور وہ سراسر اسرار۔ مجھے محبت کی چھوٹی چھوٹی باتیں رسمیں نبھانے میں بہت مزا آتا تھا اور وہ ان سے اجتناب کرتا تھا۔ لا پرواہ تھا۔

    میں سمجھتی ہوں، محبت کرنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ محبت کے جذبوں میں شدت اور لمس میں حدت اتنی ہو کہ روح تک پگھل جائے۔ آنکھوں میں پیاس اور چاہ مر مٹنے کے ارادے ہوں ‘وعدے ہوں‘ حکایتیں‘ شکایتیں ہوں ‘گلے ہوں‘ شکوے ہوں ‘روٹھنا‘ منانا یہ سب لوازمات محبت میں اگر شامل نہ ہوں تو محبت میں مزا نہیں آتا۔ سٹائل اور اوریجنلٹی بھی محبت کو سجا دیتی ہے مہکا دیتی ہے۔

    میراجی چاہتا تھا جب وہ چھٹیوں میں اپنے گاؤں جائے تو مجھے خوبصورت ہجر و فراق سے بھرے ہوئے شعر لکھ بھیجے۔ میری جدائی میں ‘درد میں ڈوبے خوبصورت خط لکھے‘ جو اتنے زیادہ اور اتنے طویل ہوں کہ میں نپولین کی بیوی جوزیفائن کی طرح انہیں ایک کمرے میں ڈلوانے لگ جاؤں اور گھبرا کر اپنی خادمہ سے کہوں کہ میں کس طرح اتنے خطوں کا جواب دے سکتی ہوں۔ ان پر پرفیوم نہ چھڑکا گیا ہو مگر پھر بھی ان میں سے پیار کی خوشبو آتی ہو۔

    افسوس کہ اس نے مجھے کبھی بھی خط نہیں لکھا۔ سالگرہ یا کسی دوسرے موقعے پہ کارڈ نہیں دیا۔ اس کے باوجود وہ چاہت کا بھر پور مظاہرہ کرتا تو میں اس سے ہر شکایت بھول جاتی۔ پیار میں ڈوب جاتی۔ ایک بار میں نے ہولے سے شکوہ کر دیا تو وہ ناراضگی سے بولا۔ میں مطالبے منوانا ہر گز پسند نہیں کرتا۔

    نرمی اور خلوص کا مجسمہ تڑک گیا اور غصے میں آ گیا۔

    ’’تم مجھ سے گن پوائنٹ پہ محبت کروانا چاہتی ہو۔ استانی بن کر چھڑی سے راستہ دکھانا چاہتی ہو میں جتنی محبت کر سکتا ہوں, اس سے زیادہ کی توقع مت کرو۔ آئی لو یو... کیا یہ کافی نہیں؟‘‘

    سند باد کے کاندھوں کے گرد خبیث بوڑھے نے اپنی سوکھی ہوئی مگر مضبوط لاتوں کا حلقہ تنگ کر دیا تھا۔ سند باد نے اسے پٹخنا چاہا مگر بوڑھے کی گرفت اتنی سخت تھی کہ وہ بےبس ہو گیا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ سند باد اسے اپنے ساتھ ساتھ لیے اس کا بوجھ اٹھائے، نگر نگر بھٹکتا رہا جیسے یہی اس کا مقدر ہو۔

    میرا ساتھی خوف مجھ سے آن ملا۔ یہ خوف مسترد اور نا پسند کیے جانے کا تھا۔ میں نے سوچا اگر میں نے پھر فیصل سے شکوہ کیا تو کہیں وہ مجھ سے محبت کرنا ہی نا چھوڑ دے میں خاموش ہو گئی۔ فیصل نے پیا رسے میرا ہاتھ دبایا اور میں نے بادلوں سے پرے آسمانوں پہ پھر سے دھنک دیکھنی شروع کر دی۔

    شادی ہو جائے تو میں اس کو سیدھا کر لوں گی۔ دیکھوں گی پھر کس طرح یہ مجھے خوفزدہ کرتا ہے۔ پھر تو ہم برابر ہوں گے۔ شریک حیات ہوں گے۔ پھر تو مجھے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہو گی نا۔ سند باد نے بوڑھے کو زور سے پٹخنی دینے کی کوشش کی میں نے دل ہی دل میں سکور برابر کرنے کے منصوبے بنا لیے تھے۔

    یہ ہماری شادی کے پہلے سال کی بات ہے۔ ہم دونوں حسب توقع بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ چندی کی بھی شادی ہو چکی تھی۔ ایک روز ہم دونوں بہنوں نے شاپنگ کا پروگرام بنایا۔ انار کلی میں کپڑے خریدتے ‘چاٹ کھاتے‘ گپیں مارتے‘ ہنستے کھیلتے ہم گھر پہنچے تو پتہ چلا شام کے سوا چھ بچ چکے ہیں حالانکہ میں نے فیصل سے شام چھ بجے تک پہنچ جانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ دیر سے آنے کی وجہ پوچھنے پہ میں نے عقلمندی سے کام لیا۔

    ہنس کر کہا۔

    ’’آپ کو پتہ ہی ہے کہ ہم دونوں آج کل سلو موشن میں چلتے ہیں۔‘‘ ہم دونوں امید سے تھیں اس لیے حال پتلا یعنی کہ موٹا اور چال سست اور بےڈھنگی تھی۔

    ’’یہ دیکھیں میں نئے سوٹ لائی ہوں، کیسے ہیں؟‘‘ میں نے کپڑے دکھانے شروع کر دیئے۔

    فیصل کی داڑھ میں درد تھا ‘روئی کا پھپھولا گال میں سے تھوڑا تھوڑا باہر کو جھانک رہا تھا‘ آنکھیں خشمگیں تھیں اور موڈ زہر یلا۔

    ’’مگر تم دیر سے کیوں آئیں...؟ پورے پندرہ منٹ لیٹ ہو تم۔‘‘

    میں نے بات کو مذاق میں ٹالنا چاہا اور چولہا جلا کر چائے کی کیتلی اوپر چڑھا دی۔

    فیصل نے کیتلی چولہے سے ہٹائی۔ میرا لائے ہوئے سب کپڑے ‘ایک ایک سوٹ جسے خریدنے میں‘ میں نے گھنٹوں صرف کیے تھے لطف اٹھایا تھا گیس کے چولہے کے حوالے کر دیا سب کچھ جلنے لگا۔ میں نے چیخنا چاہا مگر آواز گلے میں گھٹ کر رہ گی۔ میرا محبوب فیصل میرا مجازی خدا بن کر مجھے ڈانٹ رہا تھا۔ میرے نئے نکور سوٹ جل رہے تھے۔ میں اپنی رگوں میں ایک سرخ سیال بہتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ دل دھواں دھواں ہو رہا تھا مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ بےحد ڈر۔

    ’’اور ہاں یہ چندی سے بھی روز روز ملنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ میرے خاوند نے حکم صادر کیا۔

    ’’کیا؟‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ میں حیران ہو گئی کیونکہ انہیں اچھی طرح پتہ تھا کہ چندی میری جند جان تھی، میری دوست بہن تھی۔

    ’’ہر شادی شدہ عورت کو چاہیے کہ صرف اپنے گھر ‘میاں اور بچوں میں دلچسپی لے‘ اسی دائرے میں زندگی بتائے۔ ماں باپ بہن بھائی اتنے اہم نہیں کہ ٓاپ گھر کو نظر انداز کر کے گلچھرے اڑاتی پھریں۔‘‘ وہ گرجا۔

    فوراً ایک بار پھر خوف اور میں ایک دوسرے کے ساتھ گلے میں بانہیں ڈال کر بیٹھ گئے۔ اس نے مجھے ملفوف کر لیا ‘گھیر لیا‘ محفوظ کر لیا۔

    سند باد نے سوچا اس بوڑھے کی قید سے شاید وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکےگا۔ شاید اسے ہمیشہ ہی اس کے ساتھ ساتھ رہنا ہوگا۔ اس کی تنگی‘ گھٹن، تکلیف زبردستی اسے ہمیشہ برداشت کرنا ہوگی، اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی شاید نہیں تھا۔ اس کی قوت مدافعت کمزور پڑتی جا رہی تھی۔

    جب نایاب پیدا ہوئی تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ میں نے ٹھان لیاکہ اس مرد کو میں بناؤں گی۔ اپنے ہاتھوں سے ڈھالوں گی، اس کی تعمیر کروں گی۔ میں سوچ سوچ کر خوش ہوتی رہتی۔ میں اس کی ماں تھی اور وہ میرا محتاج تھا۔

    پھر اس نے سکول میں بھی جانا شروع کر دیا، وقت کو نہ جانے کیا جلدی ہوتی ہے۔ بس دوڑتا ہی چلا جاتا ہے کبھی کبھی نایاب کے پیچھے دوڑتے دوڑتے میں تھک جاتی مگر وہ نہ تھکتا۔ وہ سیماب صفت تھا۔ میں اس کو تکتی رہتی۔ وہ میرا لگایا ہوا پودا تھا ‘میرا اپنا تھا‘ میرا اس پہ اختیار تھا۔ میرے اپنے اپنے آنگن کے پچھواڑے نظر آنے والا میرا ذاتی چاند تھا۔

    رات کو میں اسے لوری سناتی۔ اک میلا چاند، اک میلا تارا اور آخری بار شب بخیر کہنے سے پہلے کتنی ہی بار وہ مجھ سے ’’اچھا بس ایک اور، ایک بار اور‘‘ کہہ کر لوری سنتا چلا جاتا۔ میرے بھائی کی طرح میرے گالوں پہ آخری بوسے دیے جاتا‘ وہ میرا معصوم شہزادہ تھا۔ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سو جاتا اور میں دبے پاؤں اس کے کمرے سے نکل آتی۔

    ہم گاڑی میں باہر جاتے تو وہ پچھلی سیٹوں پہ اپنی ننھی منی کھلونا گاڑیاں زوں ‘زوں اور شوں شوں کر کے تیز تیز چلایا کرتا اور میں بے خبر اپنے کار کے ٹیپ ڈیک سے اٹھنے والی فریدہ خانم‘ نور جہاں اور مہدی حسن کے گانوں کے نشے میں گاڑی اڑائے چلی جاتی۔ وہ گاڑی کے پچھلے حصے میں مصروف ہوتا اور میں اگلے حصے میں۔

    پھر ایک روز ایسا ہوا کہ وہ پچھلی سیٹ سے اٹھ کر اگلی سیٹ پہ میرے ساتھ آ کر بیٹھ گیا اور مجھے خبر بھی نہ ہوئی۔ اس نے اب ڈرائیونگ کے وقت مجھے ہدایات بھی دینا شروع کر دی تھیں مجھے میرے برسوں کے دیکھے بھالے رستوں پر گاڑی چلانا سکھانے لگا جیسے میں کوئی نو آموز ڈرائیور ہوں۔ جیسے میں ان راستوں پہ کبھی چلی ہی نہیں تھی۔

    اب وہ کھلونا ڈنکی کاروں سے کھیلنا بند کر چکا تھا اور اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر بھی بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔

    نہ جانے اسے ڈرائیونگ کب اورکیسے آ گئی تھی؟ اس کے سانولے سلونے نقوش والے چہرے پہ ایک نئی سنجیدگی نے کب سے ڈیرے جما لیے تھے۔ نہ جانے وہ کب اتنا بڑا ہو گیا تھا؟ کب اس کے بھر ے بھرے لبوں کے اوپر ایک ہلکا ہلکا سرمئی سا سایہ نمودار ہو گیا تھا؟ اس نے اتنا قد کاٹھ نکال لیا تھا کہ اب اسے ڈرائیونگ کرتے وقت میری جمائی ہوئی سیٹ کو لیور کے ذریعے پیچھے لے جا کر اپنی ٹانگوں کی لمبائی کی وجہ سے ایڈجسٹ کرنا پڑ جاتا تھا۔

    کچھ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ بےخبری میں کہاں سے کہاں تک آ گیا تھا۔ میں پیچھے رہی جا رہی تھی، یہ کیسی دوڑ تھی؟ سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔

    اب جبکہ وہ ماشاء اللہ سترھویں سال میں قدم رکھ چکا ہے میں اس کی حیثیت کو تسلیم کرنے لگی ہوں۔ اس کو بڑا ماننے لگی ہوں۔ اب جب ہم گاڑی میں بیٹھتے ہیں تو وہ ڈرائیو کرتا ہے اور آرام سے مجھ سے پوچھے بغیر میری اردو گانوں کی کیسٹ نکال کر اپنی انگلش موسیقی کی کیسٹ لگا لیتا ہے۔ جیسے اسے اس کا مکمل حق حاصل ہو۔ میں خاموش رہتی ہوں، کچھ نہیں کہتی۔

    ابھی کل ہی کی بات ہے۔

    بے پناہ رش ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر کئی فٹ پانی کھڑا ہو گیا تھا۔

    میں بچوں کو سکول سے لینے جا رہی تھی۔ پہلے نایاب کو لیا اور پھر چھوٹی بیٹی کو لینے کے لیے گاڑی مین بولیوارڈ گلبرگ پر ڈال دی۔

    ہوم اکنامکس کالج کے پاس پہنچے تو رش میں پھنس گئے۔ چاروں طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں اور پانی ہی پانی۔

    بمپر ٹو بمپر ٹریف میں سبھی لوگوں نے خوا مخواہ گاڑیوں کے ہارن بجانے اور ادھر ادھر سے گاڑیاں نکالنے کی کوشش شروع کر دی۔

    میں بڑی احتیاط سے گاڑی چلا رہی تھی کہ کہیں گاڑی پھنس نہ جائے کہیں انجن میں پانی نہ گھس جائے یا خدانخواستہ کوئی ایکسیڈینٹ نہ ہو جائے، کہ یکا یک نایاب نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

    ’’امی‘‘ پلیز آپ مجھے گاڑی دے دیں۔‘‘

    ’’کیوں؟ کیا ہوا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’آپ سڑک پر پانی کی وجہ سے نروس ہو رہی ہیں۔ ابھی گاڑی کو اگلی گاڑی سے ٹکرانے لگی تھیں۔‘‘

    وہ سکون سے بولا۔

    جی چاہا اپنے بیٹے صاحب کو ایک تھپڑ جڑ دوں۔ آخر اس نے مجھے سمجھا کیا تھا؟ کیا میں نا اہل تھی؟ اس سے کمتر تھی؟ صرف اس لیے کہ وہ مرد ہے اور میں عورت۔ وہ مجھے عقل و شعور میں اپنے برابر نہیں سمجھ رہا تھا۔

    میں اس کے رویئے سے خفا تھی لیکن خاموش رہی۔

    اس سے کچھ نہ کہا 133 کیا خبر اس کا کیا رد عمل ہو؟ کیا خبر یہ بھی مجھے ڈانٹ دے یا ایسی کوئی بات منہ سے نکال دے جس سے میری دل آزاری ہو۔ میرا یہ بھرم قائم ہی رہنا چاہیے۔ مجھے بادلوں کے اس پار دھنک دیکھنے کی امید کی عادت ترک نہیں کرنا چاہیے۔

    سند باد نے اس مکروہ سوکھی ٹانگوں والے بوڑھے کو ایک دن شراب پلا دی۔ نشے کی وجہ سے بوڑھے کی گرفت سند باد کی گردن کے گرد کچھ نرم ہو گئی تھی اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سند باد نے اسے ایسی پٹخنی دی کہ وہ دور جا گرا اور سند باد اس کی قید سے آزاد ہو گیا۔

    مجھے پھر بھی کسی نہ کسی کا‘ کسی نہ کسی بات کا خوف ہمیشہ رہےگا۔ ڈر ہمیشہ میرے ساتھ رہےگا۔ میں اس سے کبھی نجات حاصل نہیں کر سکوں گی۔ میں جانتی ہوں اور اس حقیقت کو قبول بھی کرتی ہوں۔ اس سے سمجھوتہ اپنی مرضی اور خوشی سے کرتی ہوں۔

    ’’اچھا بیٹا... آپ ہی ڈرائیو کریں۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے کو گاڑی کی چابی دی اور باہر گرتی ہوئی بارش کا نظارہ کرنے لگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے