Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میری

سلمی صنم

میری

سلمی صنم

MORE BYسلمی صنم

    وہ ایک سڑک جودل سے دماغ تک جاتی تھی میری اس پر کنفیوژ سی کھڑی تھی آج اس نے پھروہی خواب دیکھا تھا کہ ماں میری کی گود خالی ہے اور وہ چرچ میں اکیلی اداس دلگرفتہ سی سر جھکائے کھڑی ہیں۔کیوں؟ کیوں دیکھتی ہے وہ یہ خواب۔ بار بار لگاتار کہتے ہیں جو خیال شدید ہوتے ہیں وہ نیندوں میں بھی ابھر کر آتے ہیں اور یہ سچ تھا۔ یہ خیال یہ شدید خیال، یہ اپنی خالی گود کا خیال، یہ خیال ہر لمحہ میری کو مضطرب رکھتا تھا۔ نور کی وہ ایک ننھی سی کرن جو بالکل مصنوعی طریقے سے اس کے وجود میں داخل کی گئی تھی وہ کسی سورج کی طرح اس کے اندر روشن تھی اور اس کے طلوع ہونے کے دن جیسے جیسے قریب آ رہے تھے ’’میری‘‘ کولگ رہا تھا اس کی گود خالی ہونے والی ہے۔

    دنیاکی بہت ساری عورتیں ماں بنتی ہیں تواس قوی احساس کے ساتھ کہ ان کی کوکھ میں پروان چڑھ رہا ہے وہ ان کا اپنا ہے لیکن میری جس کو جنم دے رہی تھی وہ اس کا نہیں تھا، بھومیکا کا تھا۔ جارج کہتا ہے یہ سروگیسی ہے جس کی ایک بھاری رقم انہیں بھومیکا اور اس کے پتی روی سے ملنے والی ہے۔ لعنت ہو ایسی رقم پر۔ یہ جارج نے کیا کر دیا تھا؟ اس کی کوکھ کا بیوپار کیوں کیا تھا؟ ’’گاڈ مجھے معاف کر دو، میں گناہ گار ہوں، مجھے بخش دو‘‘ وہ سینے پر صلیب کا نشان بناکر اپنی مغفرت کی دعا کرنے لگی کہ دفعتاً اس کو لگا وہ اس کی کوکھ میں مچل رہا ہے۔ اکثر یہی ہوتا تھا وہ اس کی کوکھ میں مچلتا تھا، ہمکتا تھا، لپکتا تھا، بلکتا تھا، تڑپتا تھا، اف؛ وہ اس کی ہر سوچ، ہرخیال سے کس قدر ہم آہنگ تھا۔ وہ جس کسی جذبے کے زیر اثر ہوتی تھی وہ بھی اسی جذبے سے متاثر نظر آتا تھا۔ یہ اٹوٹ ناطہ، یہ لازوال رشتہ، یہ لافانی بندھن، اتنی کشش، پھر بھی وہ بھومیکا کا ہے، کیوں؟؟

    یہ سائنس کا کون سا مذاق ہے۔

    ’’جارج‘‘ اس نے بہت چپکے سے جارج کو اپنا ہم خیال بنانا چاہا

    ’’کیا یہ ضروری ہے کہ بچہ ہم روی صاحب کے حوالے کر دیں‘‘

    ’’کیوں؟وہ سوالیہ نشان بن گیا۔

    ’’اس کوہم پالیں گے‘‘ وہ پورے اطمینان سے بولی۔

    ’’یہ میرا بچہ نہیں ہے میری۔۔۔ وہ غرایا میں زندگی بھراس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘

    ’’جارج‘‘ میری کے دل کو ٹھیس سی لگی۔ وہ جس کے پیار کی خاطر سارا عالم کھو بیٹھی تھی آج وہی اس کی ذرا سی بات ماننے سے صاف انکار کر رہا تھا۔ جذباتی نہ بنو میری ‘‘جارج نے شاید اس کی آنکھوں سے اس کے دلی جذبات کا انداز لگا لیا تھا۔ فوراً ہی ٹھنڈا پڑتے ہوئے نرم سی آواز میں بولا تم اس بچے کیا کروگی۔’’ اپنی گندی اور غلیظ دنیا میں لے جاکر اس کو وہی بناؤگی جو تم تھیں۔ ‘‘اف!! وہ نہر و نگر کے کچراپٹی علاقے کی تنگ سی گندی سی غلیظ سی گلی۔۔۔ وہ لمبی لمبی نالیاں جن میں ہمہ وقت کیچڑ بھرا ہوا۔ پاس ہی ادھ کھلا گڑجہاں سے سارا فضلہ باہر بہنے کو اتاولا۔ وہ مٹی کی چھوٹی چھوٹی دیواروں پر گھاس پھوس کی چھتوں والی بےشمار جھگی جھونپڑیاں وہ ان کے آگے بیٹھے ادھ ننگے نہاتے مرد۔ وہ گلی میں گندگی پھیلا تے بچے۔ وہ آوارہ گھومتے پھرتے خارش زدہ کتے۔ وہ ان ہی کے ساتھ اپنے تین چار کالے ننگ دھڑنگ بھائی سمیت لوٹ پوٹ کر جوان ہوئی تھی۔‘‘

    اس کا باپ اپنی ننگی پیٹھ پر سورج اٹھائے دن بھر ٹھیلا کھینچا کرتا تھا اور رات کو داروپی کر کسی نالی میں لڑھک جاتا تھا۔ اس کی ماں نکڑپر بیٹھی گرے پڑے، کٹے پھٹے پھل، جن پر بےشمار مکھیاں بھنبھناتی رہتی تھیں۔ قریب کے مارکیٹ سے چن کر بیچتی تھی اور ان سب کے پیٹ کا دوذخ بھرتی تھی۔ اور وہیں کسی دن منجوناتھ کی ٹین کی چھت والے چائے خانہ میں جہاں ہمہ وقت ایک ٹوٹا پھوٹا ریڈیو گلا پھاڑ ا کرتا تھا اس کی ملاقات جارج سے ہوئی تھی۔ جو جانے کہاں سے آکر اس چائے خانہ میں ملازم ہوا تھا۔ ہٹا کٹا صحت مند جارج اس کی زندگی میں کیا آیا بہار آ گئی۔ میری کی مہبوت آرزوئیں، بےزبان خواہش گنگ، خواب، لافانی مسرتوں میں تبدیل ہو گئے۔ اس کا وجود ایک مہکتا ہو ا نغمہ بن گیا۔ وہ دونوں روز ہی ملتے تھے اور مستقبل کے سہانے خواب دیکھتے تھے۔ لیکن فقط خواب دیکھنے سے تو مستقبل سنور نہیں سکتا تھا۔ اس کے لئے تو روپیہ درکار تھا۔۔۔ روپیہ تو جارج کے پاس بھی نہیں تھا جس سے وہ پیار کرتی تھی۔ روپیہ جس کے لئے وہ بہت ترسی ہوئی تھی۔ بچپن سے روپیہ جو اس کی اور جارج کی آنے والے خوش آئند زندگی کے لئے ضروری تھا۔ وہ روپیہ ان کے پاس نہیں تھا۔ پھر جارج نے روپئے کو حاصل کرنے کی ایک انوکھی سی راہ سجھائی اور وہ سسروگیسی تھی۔ اف! اس قدر بھاری سی ذمہ داری اور وہ نہرونگر کی گندی سی غلیظ سی گلیاں۔ وہ ایک سڑک جو دل سے دماغ تک جاتی تھی میری اس پہ کنفیوز سی کھڑی تھی۔ آج اس نے پھر ایک خواب دیکھا تھا کہ سیپ کا منہ کھلا ہوا ہے اور ابر نسیاں کا وہ قطر ہ جو گوہر آب دار بن چکا ہے وہ بھومیکا لے گئی ہے اور خالی سیپ سامیری کا وجود تہہ درتہہ سمندر کی گود میں اتر رہا ہے اور چرچ میں اکیلی اداس دلگرفتہ سی سر جھکائے اپنی خالی گود لئے ماں میری نہیں وہ کھڑی ہے!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے