مکروہ
بدبودار، بدمزہ اور جان لیوا حد تک مکروہ گوشت کے بے ہنگم لوتھڑے اور سڑاند سے لبریز تہہ دار جھلی کو زبان سے سہلاتے ہوئے اسے محسوس ہوا جیسے کریہہ رقیق مادے کے ننھے ننھے چشمے پھوٹ کر زبان کی پھسلن میں آسانی پیدا کرنے لگے ہیں۔ آج اپنے دل میں کراہت نہ پا کر شاید پہلی مرتبہ اس پر یہ انکشاف ہوا کہ ذائقے کا تعلق صرف زبان سے نہیں ہوتا۔ روٹی کی شدید طلب وہ سیلاب ہے جو سب کچھ بہا لے جاتی ہے۔ اچھا برا، مکروہ پاکیزہ، گناہ ثواب، غیرت بےغیرتی وغیرہ وغیرہ، سب کی جڑیں معدے کے کسی گوشے میں آپس میں گتھی ہوئی ہیں یا شاید ہر دو کی جڑ ایک ہی ہے اور وہ کسی صورت بھی ہمارے معدے سے باہر نہیں ہے۔
اب اس کی زبان اور اس کے ہاتھوں کی حرکات میں ایک لَے اور ایک ترتیب آ گئی تھی۔ شاعری کے وزن کی طرح بحروں کے ساکن اور متحرک پر لفظ خود بخود بیٹھتے چلے جا رہے تھے۔ لڑکے نے معمولی سا سر اوپر کیا اور رئیسہ کو دیکھا لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ زبان کا آہنگ، اس کی ترتیب اور وزن میں بال برابر فرق نہ آئے۔ مادر زاد برہنگی سے اس کی نظر پھسلتی چلی گئی۔ محرابی اٹھانوں کے پیچ سے اس نے دیکھا رئیسہ کا سر پیچھے کو جھکا ہوا تھا۔ اس کا منہ نیم وا تھا۔ جس سے خفیف آوازیں اور سسکاریاں محو پرواز تھیں۔جو کمرے کی فضا کو مزید بوجھل کر رہی تھیں۔ اس کی ٹوٹتی سانسوں میں ایک بےترتیب سا طلسماتی ردھم قائم ہو گیا تھا۔
رئیسہ کے جسم کا تناسب، اس کے پیچ و خم، اس کے زاویے، قوسیں اور جِلد کا چکنا پن ایسا تھا کہ بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر فنا کر دینے کو جی چاہے لیکن لڑکے نے صرف اس بات کا جائزہ لیا کہ کیا وہ انتہائی مہارت کا ثبوت دے رہا ہے؟ رئیسہ اس بَرکھا رت کی کھنکھناہٹ میں کمی یا بیشی تو محسوس نہیں کر رہی؟
آج سے صرف چند دن قبل، اپنے پہلے تجربے کی نسبت وہ کتنا ماہر اور مشاق ہو گیا تھا۔ نہ قے، نہ متلی، نہ سڑاند کا احساس بلکہ اس کی زبان کا ایک ایک خلیہ اور ہر ایک پٹھا ایک تسلسل میں کمال مشاقی سے نشیب و فراز پر رقصاں تھا اور ہاتھوں کا ہمکنا بلا کا فطری معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں بالکل سپاٹ، کسی بھی جذبے سے عاری، کسی بھی نشے سے بےبہرہ، کسی بھی لطف سے بے نیاز کالے سیاہ بالوں کے مختصر ہجوم پر جم گئیں۔ جن کی سرحدیں بھورے رنگ کی تھیں اور ان کے عین اوپر سے پتلی سی معدوم ہوتی سنہری ندی ناف میں گر رہی تھی۔ انہیں دیکھتے ہوئے اس پر منکشف ہوا، جو بال اپنی جڑ میں تنہا تھا وہ پھوٹتے ہی خم کھا جاتا اور کمزور دکھائی دیتا تھا۔ اس کے مقابلے میں جہاں ایک مسام سے دو بال نکلے ہوئے تھے ۔وہ پہلے کی نسبت ذرا اوپر سے خم کھاتے اور مضبوط دکھائی دیتے تھے۔ اس نے سوچا تنہائی اور اکیلا پن ہر چیز کو کتنا کمزور کر دیتا ہے۔ اسے تنہا جڑوالے بال بالکل اپنی طرح یتیم الطرفین اور لاغر محسوس ہوئے۔
رئیسہ نے اس کا سر رانوں میں بھینچ لیا۔ زبان کا ردھم تبدیل ہوا۔ ہاتھوں کا دائرہ کار ممکنہ حد تک وسیع ہو گیا۔ اس کی سپاٹ اور جذبوں سے عاری آنکھیں اب بالوں سے ذرا اوپر ہٹ کر کالے بھجنگ تِل پر جم گئیں۔ رئیسہ کی صاف شفاف چمکیلی جلد سے ذرا سا اٹھا ہوایہ تل کتنا برا لگ رہا تھا۔
اب رئیسہ کے ہر مسام سے جوالا مکھی ابلنے کو تیار تھا۔ اس کا ہر خلیہ، ہر ریشہ خون کی طغیانی سے پھٹا جا رہا تھا۔ رواں رواں وجد کے عالم میں مرتعش تھا اور خلیہ خلیہ نشے سے مخمور تھا۔ اس پر لڑکے کی سنگت کہ ہر ماترا اور ہر سم ٹھیک پڑ رہا تھا۔
جیسے ہی رئیسہ کی حرکات میں تیزی آئی، لڑکے کو احساس ہو گیا کہ لذت و سرشاری کا طوفان تھمنے کے قریب آن پہنچا ہے۔ زبان میں تیزی آئی رقیق مادے کے چشمے ایک آدھ سیکنڈ کے لیے بالکل خشک ہوئے اور پھر ہر طرف چکناہٹ پھیل گئی۔ رئیسہ ڈھیر ہو گئی۔ لڑکے نے رخسار سے، ہونٹوں سے، ٹھوڑی سے، کف اور کریہہ مادے صاف کیے اور لیٹ گیا۔
کچھ دیر بعد پیاس کی شدّت سے اٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر پڑے گلاس میں پانی ڈالنے ہی لگا تھا کہ رئیسہ چلائی ’’گلاس کو مت چھونا غلیظ، مکروہ‘‘۔۔۔ یہ سن کر لڑکے کا رنگ تل کی طرح کالا بھجنگ ہوا اور وہ ندامت سے تنہا جڑ والے بال کی طرح خمیدہ ہو گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.