Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منگل کی کہانی

ملک راج آنند

منگل کی کہانی

ملک راج آنند

MORE BYملک راج آنند

    کہانی کی کہانی

    ایک بننے والے باندھ اور اس کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی کو بنیاد بنا کر یہ افسانہ لکھا گیا ہے۔ گاؤں میں جب باندھ بننا شروع ہوا تو لوگوں نے اسے دیوی کا قہر مانا اور باندھ کی تعمیر کو رکوانے کے لیے دیوی کی پوجا آرتی بھی کی۔ اس سے جب بات نہ بنی تو گاؤں کے بڑے بوڑھوں اور ایک دو پڑھے لکھے لوگوں نے اپنی اپنی تراکیب آزمائیں۔ متعلقہ شعبے اور سرکار کو خط لکھے گئے۔ انجینئر کو مارنے کے منصوبے بنا ئےگئے مگر سب بے سود۔ بے بس ہو کر انہیں سرکار کی بات ماننی پڑی اور سبھی نے خاموشی کے ساتھ معاوضہ قبول کر لیا۔

    (پچھلے سال میں منگل گیا تھا جہاں پانچ دریاؤں کی سرزمین کے ایک قدمی دریا پر بند تعمیر کیا گیا ہے۔ عجب سہانا اور دلکش منظر تھا۔ دوپہر کے روشن سورج نے گویا نمرود کے پانی میں آگ لگا دی ہو اور تپتی ہوئی زمین سورج کی روشنی میں پگھلا ہوا سونا نظر آ رہی ہو۔ اونچے اونچے بند گویا آسمان سے سرگوشیاں کر رہے ہوں۔ اس دلکش منظر کو دیکھ کر میری زبان سے بے ساختہ گھریلو پنجابی زبان کا ایک جملہ نکلا۔۔۔ ’’جنگل میں منگل ہو رہا ہے‘‘۔ قریبی پاور ہاؤس کے ایک کارندہ نے میرا جملہ سنا اور اس نے شمالی علاقہ کے مہاجر لہجہ میں کیا۔۔۔ عنقریب یہاں ھریالی پھیل جائےگی اور اسے اس آب حیات سے سینچا جائےگا۔ اس کے لب وکہجہ اور جملے کی ساخت سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ وہ یقیناًشاعر ہے اور چند لمحوں بعد میں نے اسے ہیر گنگناتے سنا۔ ہیر اور رانجھا کی مشہور عشقیہ داستان مجھے بہت بھلی لگی اور میں نے اس سے کچھ اور سنانے کی فرمائش کی، اس نے تفصیلاً منگل کی کہانی سنانی شروع کی۔ وہ کہانی میں اس کی زبان میں سنانا چاہتا ہوں، اس کا نام بالی بھاٹ تھا اس نے جس انداز میں یہ کہانی بیان کی اس میں موجودہ دور کی داستان گوئی کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔)

    ہمارے ملک کے تمام دیوی دیوتاؤں میں شکتی (طاقت) کا مقام بلند ترین ہے۔ بلاشبہ سب کچھ شکتی ہے۔ جسم و روح آسمان و زمین اور وہ پانی جو ان کے اتصال سے لہریں مارتا ہے۔

    لیکن کاملی کے گاؤں پر اس حقیقت کا انکشاف کیونکر ہو سکتا؟ اس لیے کہ روح پر جنونی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ اپنی عزیز ترین شے بھی برباد کرنے پر تل جاتی ہے۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت یا بچہ۔ جب اس پر ظلمت کا تاریک اور خوفناک سایہ منڈلاتا ہے تو خوف و ہراس سے گھر کر بھلا کون اپنے مخصوص دیوتا کو تلاش کر سکتا ہے؟ اور جب ظلمت کی قوتیں ہمارے اردگرد کی چیزوں کو دھندلا دیتی ہیں گویا ہمیں دن کے تسلط سے آزاد کرنا چاہتی ہوں تو درحقیقت وہ ہمیں جہنم کی گہرائیوں اور تاریکی اور ملک الموت کے چنگل میں دھکیل دیتی ہیں اور ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ گویا ہم اپنے اندر کسی شے کو تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہوں۔ وہ طاقت حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہوں جس کے سہارے ہم اس مستقبل کا سامنا کر سکیں گے۔ جسے سمجھنے سے ہم قاصر ہیں۔

    آج کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ میرے بھائی کہ ہم میں کارہائے نمایاں انجام دینے کی صلاحیت ہے۔ ممکن ہے میں کسی چیز کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتا ہوں۔ لیکن بجلی کے بارے میں تو میں سب کچھ جانتا ہوں۔ تو میرا خیال ہے کہ یہ عظیم کارنامے ایک اچھی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہیں جو اس لیے عمل میں لائے جا رہے ہیں تاکہ انسان تمام بندشوں سے آزاد ہو جائے۔ ترقی کرے اور اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روشن مستقبل کی داغ بیل ڈالے۔۔۔ لیکن بھلا کوئی روشنی کی کرن مردہ دلوں اور تاریک ذہنوں میں کیونکر پہنچا سکتا ہے؟

    ’’بھلا تمہاری بنائی ہوئی برقی قوت کاملی کی قوت کا کیونکر مقابلہ کر سکتی ہے‘‘۔ گاؤں والے کہتے۔۔۔ کاملی ماتا جن کے نام سے یہ گاؤں منسوب ہے۔ سمنٹ اور لوہے کی یہ دیو قامت عمارتیں جو تم اس بند کے سلسلے میں تعمیر کر رہے ہو۔ درحقیقت ہماری مقدس دیوی کی بےعزتی کرنے کے مترادف ہیں۔ ازل سے اس دیوی نے چاند، سورج اور ستاروں کی گردش کو اپنی گرفت اور اپنے قابو میں رکھا ہے۔ اس سرزمین کا چپہ چپہ کاملی دیوی کے روپ سے جگمگا رہا ہے۔۔۔ ہمارے ہاں بہترین فصلیں ہوتی رہی ہیں افراط اناج ہوتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ تم مہاجر لوگ یہاں پہنچ کر ہمارے غلہ کو نگلنے لگے۔ ہمارے بچوں کے منہ کی روٹی چھیننے لگے! اور اب یہ لوگ۔۔۔۔ جو یہاں برسر اقتدار ہیں یہ کہنے کی حماقت کرتے ہیں کہ ہمارا یہ گاؤں۔ یہ کاملی۔۔۔ اس مصنوعی جھیل میں غرقاب ہو جائےگا جو وہ لوگ یہاں تعمیر کر رہے ہیں اور اس لیے وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم لوگ یہاں سے ہجرت کر جائیں۔ قبل اس کے کہ یہاں پانی پانی ہو جائے۔ اور ان نہروں میں پانی لہریں مارنے لگے۔۔۔ یہ صحیح ہے کہ وہ ہمیں معاوضہ دینے پر تیار ہیں اور چندی گڑھ کے قریب ہمیں قابل کاشت زمین بھی دے رہے ہیں۔ یہاں ان لوگوں نے بیرک نما کوٹھریاں بنا رکھی ہیں۔ اس مقام پر جہاں پہلی بار چندی دیوی دھولادر پہاڑ کی چوٹیوں سے اتر کر میدانوں میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ بدمعاش۔۔۔ غنڈے۔۔۔ نشہ اقتدار میں دھت۔۔۔ جنہیں نہ تو مذہب کی عظمت و احترام کا دھیان ہے۔ نہ دیوی دیوتاؤں کی عزت کا۔۔۔ اور پھر طرفہ ستم یہ ہے کہ اس ملک کا وزیر اعظم خود برہمن ہے۔۔۔دیکھو لوگو۔۔۔ ظلمت منڈلا رہی ہے۔۔۔ اور گو کہ اس بڑے بند کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری رہا اور وہ وقت نزدیک آ گیا جب مصنوعی جھیل۔۔۔ منگل ساگر کا لہریں لیتا ہوا پانی کاملی کے گاؤں کو غرقاب کر دیتا لیکن گاؤں والے وہا ں سے ہجرت کرنے پر راضی نہ ہوئے۔۔۔ اور اس طرح یہاں میری نظروں کے سامنے وہ ڈرامہ کھیلا گیا جس کا خوشگوار انجام تو تم دیکھ سکتے ہو۔ لیکن اس کے مختلف مناظر کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور خود میں آج یہاں بیٹھ کر تمہیں بڑے اطمینان کے ساتھ اس جدوجہد کی کہانی سنا سکتا ہوں۔ لیکن ان اہم لمحات کی تصویر کشی اتنی آسان نہیں۔۔۔ عجیب لمحات تھے وہ میرے بھائی جب گاؤں والے موت، زندگی، آبادی، خوش حالی اور بربادی کی کشمکش میں مبتلا تھے اور جس سے ہم اس لیے کامراں و کامیاب نکل آئے کہ ہم نے اس سے چندے عقل سے کام لیا۔۔۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ غلہ کی قیمت خدا نہیں طے کرتا اور مصنوعی بارش کے ذریعہ قحط سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔۔۔۔ لیکن کاملی دیوی کے مخلص پچاریوں کو ان باتوں پر اعتقاد نہ تھا۔ وہ لوگ تو تقدیر پرست تھے اور اس قسم کی باتیں سن کر دیوی دیوتا کے قہر نازل ہونے کی بددعائیں مانگتے تھے۔۔۔۔ ان لمحات میں جب ان لوگوں کے لب پر بد دعائیں تھیں، گالیاں تھیں اور وہ لوگ موت او زیست کی کشمکش میں مبتلا تھے۔ میرے منہ سے صرف ایک ہی جملہ۔ وہی جملہ جو ہم انتہائی کرب و اذیت کے عالم میں زبان پر لاتے ہیں۔۔۔ ’’اوماتا‘‘۔

    ’’تو میرے پیارے بھائی بالی‘‘ میں نے بات کاٹ کر کہا ’’مجھے اس کشمکش کی داستان تفصیل سے سناؤ‘‘۔

    شاعر نے چند لمحوں کے لیے آنکھیں موند لیں۔ گویا وہ ان تکلیف دہ لمحات کے درمیان سے دوبارہ گزر رہا ہو ان لمحات کا تصور کر رہا ہو۔ جب کاملی کا گاؤں موتی ساگر جھیل کے لہریں لیتے ہوئے پانی میں ڈوبنے والا ہو اور پھر اس نے آنکھیں کھولیں۔ سکندر اعظم کی طرح جس کی ایک آنکھ آسمان کی جانب اٹھی ہوئی گویا آسمانی فہم و فراست سے استفادہ کر رہی ہو اور دوسری آنکھ زمین کی جانب جھکی ہوئی ہو۔۔۔ پھر اس نے کہنا شروع کیا۔

    ’’تم ایک چھوٹے بچے کی مانند حیران و پریشان اور تفصیل جاننے کے لیے بیتاب ہو۔ اگر میری کہانی سن کر تمہارے دل میں انسانوں کے لیے جذبۂ ترحم امڈآئے تومیں اپنی کہانی سناؤں اور نتیجہ تو تم خود بھی اخذ کر سکتے ہو!‘‘

    اس چٹان کے دامن میں جہاں اب موتی ساگر جھیل کا زندگی بخش پانی لہریں مار رہا ہے کاملی کا وہ گاؤں آباد تھا جس کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔ اس کی کل آبادی محض ستر نفوس پر مشتمل تھی۔ ان میں پانچ ایسے افراد تھے جنہیں تم بدمعاش کہہ سکتے ہو۔ لیکن یہ پانچ افراد وہ تھے جن کی باتوں کی اس گاؤں میں جہاں کے رہنے والے تمام جاہل تھے بڑی عزت تھی اور جو کئی ماہ تک گاؤں والوں کو ورغلا کر روشنی سے دور رکھنے میں کامیاب رہے۔ یہ پانچ افراد یوں سمجھو گویا اقتدار ظلمت کے نمائندے تھے۔

    اس ٹولی کا سربراہ جو گاؤں کا زمیندار بھی تھا اور جس کے قبضہ میں کئی بیگھ زمین تھی دیرد تھا۔ تقریباً اسی سال کو بڈھا جو اپنی زمینوں اور خود اپنی طویل زندگی سے جونک کی مانند لپٹا ہوا تھا۔ اس کا ایک بدقماش بیٹا تھا۔ پرکاش۔ جس نے ایک بار اپنی ماں کے زیورات چرا کر انبالہ میں فروخت کر دئیے تھے۔ اسے باپ اور ماں کے ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار نے ناکارہ اور نکمہ بنا دیا تھا۔ اس کی ماں اسے گھڑوں مٹھا اور سیروں مکھن ساگ اور باجرے کی روٹی کے ساتھ کھلایا پلایا کرتی تھی۔ اس بدچلن پرکاش نے ایک بار اپنی چھوٹی بہن یشودھا کو صرف اس جرم میں بہت پیٹا تھا کہ بیچاری میری زبان سے ہیر سننے کے لیے تھوڑی دیر کنویں کی جگت پر رک گئی تھی۔ اس جنگ اور کشمکش کے دوران جس میں کاملی کے گاؤں والے اس وقت مبتلا تھے پرکاش نے وہ قابل نفرت کردار ادا کیا جس کی مثال پنجاب میں نہیں مل سکتی۔

    تباہی اور بربادی کی فوج کا دوسرا سپہ سالار گاؤں کا سنار رام جوایا تھا۔ جس کی پگڑی کا طرہ ہمیشہ ہوا میں پھڑ پھڑاتا رہتا اور خود اس کے جسم کی مانند اکڑا رہتا۔ ا س کے ابرو اور پلکیں اس آگ کی لپٹ سے جل گئے تھے۔ جو اس کی دکان کی بھٹی سے ہمہ وقت نکلا کرتی تھی۔ جہاں وہ بیٹھ کر اس سونے کو گلایا کرتا جو غریب گاؤں والے اس کے پاس رہن رکھ جاتے۔ اس کی آنکھوں پر حرص و آز کی پٹی بندھی ہوئی تھی او رپچپن سال کی طویل عمر کے باوجود اس کا ذہن شرارتوں کی بھٹی بناہوا تھا۔ وہ اتنا چالاک تھا کہ اس کے بائیں ہاتھ تو بھی خبر نہ ہوتی کہ اس کا داہنا ہاتھ غریب گاؤں والوں کا کتنا سونا چرا لیتا ہے یا بہی کھاتہ کی تحریروں کے کرتب سے گاؤں کی کتنی زمین ہر سال ہضم کر جاتا ہے۔ اس کا بیٹا دھرم دیو۔ اگرچہ دیرد زمیندار کے بیٹے پرکاش کی مانند بدمعاش اور۔۔۔ بدچلن نہ تھا لیکن زرد و بدوضع اور بڑا باتونی تھا اور اپنی چھترائی ہوئی مونچھوں کو ہر وقت یوں اینٹھتا رہتا گویا وہ بہت گھنی ہوں۔ میرا تو خیال ہے کہ وہ اپنی مونچھوں کو صرف خود اعتمادی بحال کرنے کی غرض سے اینٹھتا رہتا تھا۔

    ان کے علاوہ ایک چالاک اور شاطر نوجوان تھا جس کا نام تارا چند تھا اس نے۔۔۔ شہر جا کر بی۔اے کی ڈگری حاصل کر لی تھی اور قانون کی تعلیم حاصل کرکے وکیل بننا چاہتا تھا۔ لیکن امتحان میں کامیاب نہ ہو سکا حالانکہ اس نے اس غرض سے اپنی ماں کی زمین بیچ ڈالی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ تارا چند اس لیے تلخ مزاج بن گیا ہے کہ اسے سرکاری ملازمت نہ مل سکی لیکن میرا خیال تھا کہ وہ ایک ایسا انسان ہے جو اپنے مفاد کی خاطر اپنی ماں تک کو بیچ ڈالے اور اگر کوئی فائدے کی امید ہو تو اپنے گاؤں کو بھی آگ لگا دے۔ اسی بےسی سے جس سے اس نے اس گاؤں میں اختلاف کی آگ بھڑکا دی تھی اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ گاؤں والے اس آگ میں جل کر بھسم ہو جائیں گے۔ آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ ہمارے ملک میں جھوٹے پیغامبروں، عطائی معالجوں اور بڑے بڑے وعدے کرنے والوں کی بہتات ہے اور ان کی چرب زبانی کے سامنے ہم لوگ مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔

    ان تینوں کے علاوہ دو کسان تھے جو سگے بھائی تھے۔ ایک کا نام تھا جرنیل سنگھ اور دوسرے کا کرنیل سنگھ۔ دونوں سرکاری فوج سے حوالدار اور لانس نائیک کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ دونوں نے ملازمت کے سلسلے میں دور دراز مقامات کے سفر سے بھی کوئی تجربہ یا عقل حاصل نہیں کی تھی اور دونوں کے لیے اس دوگز زمین کے نقصان کو بھول جانا دشوار تھا جو انہیں تقسیم ملک کے وقت فسادات کی وجہ سے لائلپور میں چھوڑنی پڑی تھی۔ حالانکہ ہزاروں افراد بڑی بڑی جائیداد اور عمارتیں نہر واگہ کے شمال کی جانب کے علاقے میں چھوڑ آئے تھے۔

    ایک نوجوان جس کا نام بھارت رام تھا اور جو شدھی بیوہ کا اکلوتا بیٹا تھا اور جس نے پٹیالہ میں ایک موٹر گیرج میں مستری کا کام سیکھ لیا تھا۔ ان تمام بدمعاشوں کی ٹولی سے الگ تھلگ تھا۔ وہ ہمیشہ عقلمندی کی باتیں کرتا اور گاؤں والوں کو سچائی کی راہ پر گامزن ہونے کی تلقین کرتارہتا۔ اس نے ہمارا ساتھ دیا اور جب میں گیت گاتا ہوا گاؤں میں داخل ہوا تو وہ میرے ساتھ ڈھولک بجا رہا تھا۔ میرے ہونٹوں پر وہ جملے تھے جنہوں نے گاؤں والوں کو تباہی کے غار میں جانے سے بچا لیا۔

    ’’آخر ہوا کیا تھا؟‘‘ میں نے تفصیل جاننے کے خیال سے دریافت کیا۔

    ’’عجلت نہ کرو میرے بھائی‘‘۔ بالی نے جواب دیا۔ ’’بھگت کبیر نے کہا ہے کہ جو کھانا دھیمی آنچ پر آہستہ آہستہ پکتا ہے وہ انتہائی لذیذ ہوتا ہے۔ میں تمہیں پوری کہانی سناؤں گا۔ بشرطیکہ تم صبر و اطمینان سے سننے پر تیار ہو‘‘۔

    ’’اچھا بھائی سناؤ‘‘۔ میں نے کہا۔

    اس نے کہنا شروع کیا ’’ابتدا میں کاملی کے گاؤں والوں کو کچھ معلوم نہ ہوا کہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ لوگ اپنی عادت کے غلام تھے۔ او ران کے مخصوص دیوتا۔ ان کا سب کچھ تھا۔ یہ لوگ رسم و رواج کے بندھنوں میں بندھے ہوئے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ جو چیزیں ان کے آباؤاجداد کے لیے بہتر موزوں اور فائدہ مند تھیں وہی ان کے لیے بھی سودمند تھیں۔ انہیں اس کا بھی احساس نہ تھا کہ درحقیقت ان کی ضرورتیں کیا ہیں وہ لوگ اپنے آباؤاجداد کے دستور اور رواج پر آنکھیں بند کرکے چلنا جانتے تھے اور خود کو مصیبت اور پریشانی میں جکڑا ہوا دیکھ کر حیرت واستعجاب سے آسمان کی جانب دیکھا کرتے تھے۔ لیکن ہمہ وقت آپس میں لڑنے جھگڑنے میں مصروف رہا کرتے۔‘‘

    زمیندار دیرد کا خیال تھا کہ رام جوایا زرگر نے پورے گاؤں کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے اور رام جوایا کو خیال تھا کہ گاؤں کی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار بابو تارا چند بی۔اے۔ ہے جوبڑا باتونی تھا اور پنجابی زبان میں انگریزی الفاظ کی ملاوٹ کر کے باتیں کرتا تھا۔ دوسروں پر رعب جمانے کی خاطر کوٹ پتلون پہنتا تھا اور جو گاؤں کے تمام بزرگوں کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینے کا خواہشمند تھا۔ متوسط الحال کسان جرنیل سنگھ اور کرنیل سنگھ تمام وقت اپنی زمینوں پر کاشت میں مشغول رہتے۔ اس لیے انہیں کچھ سوچنا تو درکنار سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ لیکن جب کبھی انہیں ذرا بھی فرصت نصیب ہو جاتی تو وہ اپنے اس خیال کا اظہار کرتے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ زمیندار دیرد اور زرگر رام جوایا گاؤں کی سربراہی سے دست بردار ہو کر کسی نوجوان کو چودھری بن جانے دیں۔ ان تمام ’’ہوشمندوں‘‘ کو اپنے بیٹوں سے شکایت تھی کیونکہ وہ سب بیوہ شدھی کے بیٹے بھارت رام مستری کے ہمراہ نظر آتے تھے جو انہیں اپنی پھٹ پھٹی پر بٹھا کر سیر کرایا کرتا تھا۔

    اور اس طرح گاؤں کے بوڑھوں کے منہ حیرت و استعجاب سے کھلے رہتے۔ جب وہ بڑی بڑی تیز لائیٹوں کو روشن دیکھتے۔ یہ روشنیاں رات کو زیر تعمیر بند کی حفاظت کی خاطر جلائی جاتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر گاؤں کے بڑے اس زمانے کو کوسنے دیتے جب وہ لوگ گلجگ کے نام سے موسوم کرتے اور جس میں انسان دن اور رات کی تمیز اور فرق کو ختم کر دینا چاہتا تھا اور جب وہ لوگ مستر بھارت رام کو اپنی پھٹ پٹی پر سوار اور پیچھے کی سیٹ پر گاؤں کے کسی نوجوان کو بیٹھا بند کی جانب جاتے ہوئے دیکھتے تو انہیں مستری بھارت رام پر بند کی تعمیر کرنے والوں سے بھی زیادہ طیش آتا اور جب انہیں یہ معلوم ہوتا کہ بند کی تعمیر میں کام کرنے والے مزدوروں کو اس مزدوری سے جو وہ انہیں دیتے آئے ہیں کہیں زیادہ اجرت دی جاتی ہے تو ان کے دلوں میں غیظ و غضب کا طوفان امنڈنے لگتا۔

    ان لوگوں نے یہ کام چرب زبان بابو تارا چند بی۔ اے۔ کے سپر د کیا کہ وہ منگل کے تحصیلدار کے پاس جاکر صورت حال سے آگاہ کرے اور گاؤں والوں کے شدید احتجاج کا اظہار کرے۔۔۔۔۔ افسوس کہ انہیں اس حقیقت کا احساس نہ تھا کہ تارا چند انتہائی خود غرض انسان ہے اور اپنی خود غرضی سے دوسروں کی پریشانی اور مصیبت کا باعث بن سکتا ہے۔

    تارا چند بی۔ اے۔ فخر سے سینہ پھلا کر تحصیلدار سے ملنے گیا اور اپنی فتح پر اکڑتا ہوا واپس آیا۔

    ’’سرکار ہمیں اس گاؤں کو چھوڑ کر چندی گڑھ کے قریب آباد ہونے کے لیے معقول معاوضہ دینے کو تیار ہے۔۔۔ اور میں نے تحصیلدار سے وعدہ لے لیا ہے کہ ہمیں کوہ ہمالیہ کے دامن میں بہترین اور زرخیز قطعہ زمین دیا جائےگا۔۔۔‘‘

    ’’معاوضہ؟‘‘ دیرد نے حیرت بھرے لہجہ میں کہا۔

    ’’اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانے کا معاوضہ‘‘۔ رام جوایا نے طنزاً کہا۔

    ’’چندی گڑھ کے قریب جا کر آباد ہونا‘‘۔ جرنیل سنگھ نے تارا چند پر قہر آلود نظریں ڈالیں۔ الو کے پٹھے۔ کیا تو ہمار جانب سے اس بات پر رضامندی ظاہر کر آیا ہے کہ ہم لوگ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔۔۔ یہ گاؤں۔۔۔‘‘

    ’’یہ گاؤں جس میں دیوی کا اوتار ہے‘‘۔ دیرد نے جملہ پورا کیا۔

    بشرطیکہ چنڈی گڑھ میں دی جانے والی زمین اتنی ہی اچھی ہو جیسی ہم لائل پور میں چھوڑ آئے ہیں۔۔۔ کرنیل سنگھ نے کہا۔۔۔ ’’لیکن یہ پڑھا لکھا جاہل بھلا زمین کی قدرو قیمت کیا جانے ۔۔۔‘‘۔

    ’’دیکھو لوگو! ظلمت منڈلا رہی ہے‘‘۔ رام جوایا نے لقمہ دیا۔ ’’اس بے وقوف نے ہمیں فروخت کردیا ہے اور یہ تو اپنی ماں کو بھی بیچ ڈالے اگر تحصیلدار کوئی منفعت بخش پیشکش کرے‘‘۔

    ’’چاچا!‘‘ تارا چند نے کہا ’’میں نے نہ تمہیں فروخت کیا ہے نہ گاؤں کو نہ خود اپنے آپ کو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں خود تمہارا ہم خیال ہوں کہ اپنے آباؤاجداد کے وطن کو اس خوبصورت گاؤں کو چھوڑ کر جانا گناہ ہے اور وہ بھی چنڈی گڑھ جہاں صبح سے شام تک گرد و غبار کا طوفان اٹھتا رہتا ہے جہاں لوگ مضبوط ترین مکانات بھی خریدنے پر آمادہ نہیں ہیں اس لیے کہ کسی قسم کا مکان بھی گرد و غبار سے پاک و صاف نہیں رہ سکتا۔۔۔ یہ انجینئر دفتر میں بیٹھ کر ٹائپ مشین پر گیہوں کی کاشت کرنا چاہتے ہیں۔ سرپھرے کہیں کے!‘‘

    ’’تو عقلمند بابو‘‘ دیرد نے طنزیہ کہا۔ ’’اسی وقت سرکار کو عرضی لکھ بھیجو کہ فوراً یہاں کی تعمیرات کا سلسلہ بند کر دے اور ہمیں سکھ و چین سے رہنے دے‘‘۔

    ’’ہاں ہاں ٹھیک ہے‘‘۔ رام جوایا نے کہا۔

    ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے‘‘۔ کرنیل سنگھ اور جرنیل سنگھ نے کہا۔

    گو کہ تارا چندبی۔اے۔ چنڈی گڑھ جانا چاہتا تھا اس لیے کہ اسے امید تھی کہ وہ وہاں جا کر سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائےگا۔ لیکن وہ خاموش رہا اور ان بزرگوں کے حکم کے مطابق اس نے ایک عرضی تحریر کی جس میں پرزور االفاظ میں کاملی گاؤں کو مصنوعی جھیل کے پانی میں ڈبو دینے کی اسکیم کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔

    کچھ عرصہ تک وہ لوگ سرکارکے جواب کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن جیسا کہ آپ کو بھی معلوم ہوگا سر کاری دفاتر میں کاغذات عام طور سے ادھر ادھر ہوتے رہتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ دفاتر میں فائلوں کی کثرت ہوتی ہے اور سرکاری ملازمین میں سے کوئی بھی ان فائلوں کی ذمہ داری لینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ کلرک لوگ ہمیشہ درخواستوں پر نوٹ لکھ کر کسی دوسرے کے پاس چلتا کر دیتے ہیں اور اس طرح یا تو وہ درخواست غائب ہو جاتی ہے یا کسی کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ اس پر ایک نظر بھی ڈال سکے اور بیشتر درخواستیں افسر بالا تک نہیں پہنچ پاتیں۔۔۔ اور درخواست دہندہ کو کوئی جواب نہیں ملتا۔ لہذا کاملی کے گاؤ ں والوں کی عرضی کا جواب آنے میں بھی کافی تاخیر ہوئی۔

    اور اس دوران میں بند کی تعمیر کا کام جاری رہا۔ ایک شب رام جوایا اپنی بیوی دھرمی کو ساتھ لے کر کاملی دیوی کی پوجا کے لیے گیا۔ اس نے ایک ناریل اور چاندی کا ایک روپیہ سرخ پتھر کی دیوی پر چڑھایا اور دعا کی کہ دیوی فوراً ظاہر ہو جائے اور اپنی غیر مرئی قوتوں سے زیر تعمیر بند کو تباہ کر دے اور اس گاؤں کو تباہی سے بچائے جو خود اس کے نام سے منسوب تھا۔ گو کہ دیوی ظاہر نہیں ہوئی لیکن دھرمی نے بند کو تباہ کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا اور آدھی رات کو بند کے قریب کی تیز لائٹوں سے بچتی بچاتی بند کے قریب پہنچ کر جادو منتر جگانے لگی اس نے چوراہے پر مٹی کا دیا جلایا اور اس کے اردگرد سواستکا کی شکل میں شکر اور چاول چھڑک دیا۔ کچھ دیر تک وہاں بیٹھ کر منتر پڑھنے کے بعدوہ خاموشی سے گھر واپس چلی آئی۔

    لیکن دوسری صبح بند کی تعمیر کاکام بدستور جاری رہا!

    جب اس کی بیوی نے اسے رات کی بات بتلائی اور اپنے منتر کی ناکامی کا اعتراف کیا تو رام جوایا نے غصے سے دانت پیس لیے اور چونکہ رام جوایا کی بیوی دھرمی نے دیرد زمیندار کی بیوی سے بھی اپنے منتر پڑھنے کا تذکرہ کیا تھا۔ اس لیے اس کی ناکامی کی خبر سن کر دیرد نے لوہے کی وزنی کرین کو شیطانی کرامات کا نام دے کر گالیاں دیں۔

    کرنیل سنگھ اور جرنیل سنگھ بھی آپس میں صلاح و مشورہ کر رہے تھے اور کوئی ایسی تدبیر سوچ رہے تھے کہ جس کے ذریعہ بند کی تعمیر کو تباہ کر دیا جائے اس لیے کہ انہیں یقین تھا کہ تعمیر کا کام ختم ہوتے ہی مصنوعی جھیل میں پانی بھر آئےگا اور تمام گاؤں کو ڈبو دےگا اور انہیں ایک بار پھر ہجرت کرنی پڑےگی۔ لہذا سردار کرنیل سنگھ نے سردار جرنیل سنگھ سے کہا۔ بھائی میرے علم میں ایک ایسا تیزاب ہے جسے ایک بوتل میں بھر کر بڑے انجینئر کے سر پر پٹخ دیا جائے تو انجینئر فوراً ہلاک ہو جائےگا اور اس کے مرنے کے بعد بند کی تعمیر کا کام خود بخود رک جائےگا۔

    گو جرنیل سنگھ نے سر کی جنبش سے اتفاق رائے کا اظہار کیا لیکن اس کے دل میں یہ شبہ بدستور موجود رہا کہ محض انجینئر کے ہٹ جانے سے بند کی تعمیر کا کام نہ رک سکےگا۔ بہرحال اس نے اپنے شبہ کا اظہار کرنا مناسب نہ سمجھا۔

    کرنیل سنگھ اپنی بات کا دھنی تھا لہذا اس نے اگلی شام کو اپنی اسکیم کو عملی جامہ پہنانا چاہا اور اندھیرے میں چھپتا ہوا انجینئر کے بنگلے پر پہنچا۔ اس وقت انجینئر کھانا کھا رہا تھا۔ کرنیل سنگھ ے پوری قوت سے تیزاب بھری بوتل انجینئر کے سر پر کھینچ ماری اور دم دبا کر بھاگا۔ انجینئر کی خوش قسمتی سے بوتل نہیں پھٹی اور اس کا چہرہ مسخ ہونے سے بچ گیا۔

    پولیس نے سرگرمی سے اس واقعہ کی تحقیقات کی اور کرنیل سنگھ کو ہتھکڑی پہنا کر عدالت میں پیش کیا۔ مجسٹریٹ نے سردار کرنیل سنگھ کو اس کے ساتھیوں اور مزید شرارتوں سے باز رکھنے کے لیے اسے انبالہ جیل بھیج دیا۔

    ہمارے ملک کی ایک پرانی کہاوت ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر ایک انسان دوسرے انسان کو برباد کرنا چاہتا ہے لیکن جب خود اسے دوسرے برباد کر دیتے ہیں تو وہ برباد ہو کر دوسروں کو برباد کرنا چاہتا ہے اور جب تک اس کا شیطانی جذبہ ختم نہیں ہو جاتا وہ ہر وقت اسی سوچ اور موقع کی تاک میں رہتا ہے۔

    چنانچہ دیرد، رام جوایا، جرنیل سنگھ اور بابوچندن بی۔اے۔ سرجوڑ کر بیٹھے اور چند گھنٹوں کے غور و خوض کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کرنیل سنگھ کی گرفتاری اور قید کا بدلہ ضرور لینا چاہیے۔ انہوں نے طے کیا کہ بند پر کام کرنے والے تمام مزدوروں کو کام چھوڑ دینے پر مجبور کیا جائے۔ انہوں نے زمیندار کے بیٹے پرکاش، رام جوایا کے بیٹے دھرم دیو اور کرنیل سنگھ کے بیٹے سدرشن اور درشن کو تنبیہ کی کہ وہ لوگ مستری بھارت رام کی پھٹ پھٹی پر سیر کے لیے جانا فوراً بند کر دیں، یہ پھٹ پھٹی جو پورے گاؤں کی نیند خراب کرتی رہتی ہے یقیناً شیطان کی ایجاد ہے۔

    گاؤں کے غریب مزدور جو بند کی تعمیر میں کام کر کے مناسب اجرت پا رہے تھے۔ یہ تجویز سن کر پس و پیش میں پڑ گئے۔ اگر وہ لوگ کام چھوڑ دیں تو اچھی اجرت سے ہاتھ دھونا پڑیں اور اگر کام جاری رکھیں اور گاؤں کے بزرگوں کا کہا نہ مانیں تو ممکن ہے کاملی دیوی انہیں تباہ و برباد کر دے۔ لہذا ان لوگوں نے سوچا کہ چل کر مستری بھارت رام سے جو کرین کا فورمین تھا صلاح و مشورہ کریں۔

    ’’میں جانتا ہوں کہ تم لوگ کس غرض سے میرے پاس آئے ہو‘‘۔ مستری بھارت رام نے انہیں دیکھتے ہی کہا۔ ’’لیکن میں فیصلہ کر چکا ہوں اور میں اس وقت تک کام کرتارہوں گا جب تک بند کا کام مکمل نہ ہو جائے۔ اگر تم لوگ اپنی زندگی آسودگی سے گزارنا چاہتے ہو تو ان بزرگوں کی غلط باتوں پر کوئی دھیان نہ دو۔ دل لگا کر کام کرو اور برے وقت کے لیے کچھ رقم پس انداز کر لو۔ ہاں اگر یہ مشورہ قبول نہیں تو جاکر رام جوایا کے کھیت پر کام کرو اس لیے کہ تم لوگ رام جوایا کے ہاتھوں اپنا جسم اور اپنی روح فروخت کر چکے ہو‘‘۔

    اور تمام مزدوروں نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ لوگ بدستور بند کی تعمیر میں لگے رہیں گے۔

    گاؤں کا چودھری دیرد، رام جوایا زرگر، سردار جرنیل سنگھ اور بابو چند بی۔ اے۔ گاؤں والوں کے فیصلے کی خبر سن کر آگ بگولہ ہو گئے۔ انہیں گاؤں کے غریب مزدوروں کی اس جرأت پر کہ وہ لوگ گاؤں کے معتبر اور بزرگ ہستیوں کی حکم عدولی کریں گے۔ بڑا طیش آیا اور انہوں نے فوراً یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ان باغی گنواروں کا حقہ پانی بند کر دیا جائے۔

    اور حسن اتفاق کہ اسی موقع پر سرکار کی جانب سے گاؤں والوں کی درخواست کا جواب موصول ہوا جس میں انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ لوگ ہجرت کی تیاری کریں اور انہیں متبادل جگہ اور معقول معاوضہ فوراً دیا جائےگا اور ایسے زرخیز قطعات زمین دئیے جائیں گے جہاں وہ لوگ فوراً ہی فصلیں بو سکیں گے۔ قبل اس کے مصنوعی جھیل کے پانی کاملی کے گاؤں کو زیر آب کر دے۔

    اور سرکار نے فوراً ہی اپنے وعدوں کی تکمیل کا انتظام کر دیا۔ منگل کا تحصیلدار ایک لاکھ روپے لے کر کاملی کے گاؤں پہنچا اور اس نے اعلان کیا کہ یہ رقم معاوضہ کے طور پر گاؤں والوں میں تقسیم کی جائےگی۔ اس کا بیشتر حصہ گاؤں کے پانچ بڑوں کو ملےگا اور بقیہ رقم حصہ رسد گاؤں والوں میں تقسیم کی جائےگی۔

    گاؤں کے بڑوں نے آج سے پہلے اتنی بڑی رقم کا ہے کو دیکھی تھی۔ چھوٹے کسانوں اور مزدوروں کا تو تذکرہ ہی بےکار ہے۔ چاندی کے سکوں کی چمک دمک دیکھ کر ان کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ان لوگوں سے بڑی عجلت سے کاغذات پر نشان انگوٹھا لگایا اور معاوضہ کی رقم وصول کر لی۔ سیٹھ رام جوایا نے ہندی میں اور بابوتارا چند بی۔اے۔ نے انگریزی میں دستخط کئے۔

    لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کچے مکانات کا معقول معاوضہ مل جانے کے بعد ان لوگوں کے دل سے وہ جذبہ نفرت فنا ہو گیا جو بند اور اس کی تعمیر کرنے والوں کے خلاف تھا؟ انہیں اس وعدہ پر کوئی بھروسہ نہ تھا کہ نئی جگہ پر زرخیز زمین ملےگی۔ جب تک وہ لوگ اپنی آنکھوں سے چنڈی گڑھ کے کھیتوں میں لہلہاتی ہوئی بالیاں نہ دیکھ لیں۔

    چاندی کے سکوں کو صندوق میں بند کرکے اور صندوق پر وزنی تالا ڈال کر وہ لوگ کاملی دیوی کے مندر میں گئے اور دوزانو ہو کر کاملی دیوی کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی برکت اور مہربانی سے انہیں سرکار پر فتح حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے دعا کی کہ کاملی دیوی کڑکتی ہوئی بجلی کا روپ دھار کر بند کو تباہ و برباد کر دے۔

    اور اس کے بعد وہ لوگ اپنی دعاؤں کے قبول ہونے اور کسی معجزے کے رونما ہونے کا انتظار کرنے لگے!

    لیکن سوج بدستور چمکتا رہا۔ نہ بادل امڈے نہ بجلی چمکی اور تعمیر کا کام پہلے سے زیادہ تیزی سے ہوتا رہا۔ کیونکہ سرکار کی خواہش تھی کہ اپریل کے اختتام تک کام مکمل ہو جائے۔

    اور چونکہ گاؤں کے بڑے سوائے کچی مٹی پر اپنی آمدورفت سے پگڈنڈی کا نشان بنانے کے بند کا اور کچھ نہ بگاڑ سکے اس لیے نوجوانوں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا۔

    ہوا یہ کہ ایک مرتبہ پرکاش نے مستری بھارت رام سے اس کی پھٹ پھٹی سیر کو جانے کے لیے مانگی۔ چونکہ پرکاش کو پھٹ پھٹی چلانا نہ آتا تھا اس لیے بھارت رام نے پھٹ پھٹی دینے سے انکار کر دیا اور پرکاش کوبھارت رام اور بند کے خلاف کاروائی کرنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔

    پرکاش نے زرگر رام جوایا کے بیٹے اور کرنیل سنگھ اور جرنیل سنگھ کے بیٹوں کو اس بات پر اکسایا کہ سب لوگ مل کر بھارت رام کو راستہ میں پکڑ لیں اور زدوکوب کریں اور اس کی پھٹ پھٹی چھین لیں۔

    دھرم دیو نے اس اسکیم میں ان کا ساتھ دینے پر کسی جوش کا اظہار نہ کیا۔ لیکن سدرشن سنگھ نے جس کا باپ کرنیل سنگھ انجینئر پر تیزاب پھینکنے کے جرم میں انبالہ جیل میں قید تھا بدلہ لینے کے ارادے سے فوراً ہی اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔ ان لوگوں کو بھارت رام کی اس حرکت پر بھی غصہ تھا کہ وہ سارا دن کرین پر بیٹھا گاؤں والوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھتا رہتا ہے اور شام کو بھی ان کے ہمراہ سیرو تفریح یا باغ سے آم چرانے کے لیے نہیں جاتا۔

    تینوں لڑکے منہ اندھیرے اٹھ کر جھلملاتے تاروں کی چھاؤں میں بند کو جانے والی پگڈنڈی کے قریب کھڑے ہو گئے۔ انہیں معلوم تھا کہ بھارت رام الصباح ڈیوٹی پر جانے کے لیے وہاں سے گزرےگا۔ جب انہیں دور سے پھٹ پھٹی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی تو وہ سب قریب کی جھاڑیوں کے پیچھے اپنے شکار پر جھپٹنے والے شیر کی مانند چھپ کر کھڑے ہو گئے۔

    لیکن جب مستری بھارت رام کی پھٹ پھٹی ان کے قریب آئی تو قبل اس کے کہ وہ لوگ اس پر حملہ کر سکیں گرد اڑاتی ہوئی پھٹ پھٹی تیز رفتاری سے گزر گئی اور سوائے گالیاں بکنے کے اور خاک پھانکنے کے وہ لوگ اور کچھ نہ کر سکے۔

    احساس ناکامی سے طیش میں آکر وہ لوگ گاؤں واپس آئے اور یہ طے کیا کہ گاؤں کے مزدوروں سے یہ کہہ دیں کہ انہیں بھارت رام مستری نے بتایا ہے کہ آج بند کی تعمیر کا کام بند رہےگا کیونکہ آج تعطیل ہے۔ انہیں یقین تھا کہ اگر گاؤں کے سادہ لوح مزدور ان کے چکمے میں آکر کام پر نہ گئے تو کام بند ہو جائےگا اور بھارت رام کے افسران کو جب یہ معلوم ہوگا کہ مزدور بھارت رام کے بہکانے او ر غلط اطلاع دینے کی وجہ سے کام پر نہیں آئے تو وہ لوگ بھارت رام کو ملازمت سے علیحدہ کر دیں گے۔

    دوسرے دن جب تمام مزدوروں نے بھارت رام سے دریافت کیا کہ اس نے یہ غلط اطلاع کیوں دی تھی کہ کل تعطیل تھی اور کام بند تھا تو بھارت رام جو کم گو قسم کا انسان تھا صرف اتنا ہی کہا کہ اس نے کسی سے یہ نہیں کہا تھا۔

    گاؤں کے سادہ لوح مزدوروں کو نہ جانے کیوں یہ شبہ ہوا کہ بھارت رام جھوٹ بول رہا ہے پہلے تو اس نے غلط اطلاع دے کر انہیں بیوقوف بنایا اور اب انکار کر کے انہیں دھوکہ دے رہا ہے۔ اس شبہ کا فائدہ اٹھا کر نوجوانوں نے گاؤں کے سادہ لوح مزدوروں کے دل میں بھارت رام کے خلاف شدید جذبۂ نفرت بھڑکا دیا۔ جب ماہ کے اختتام پر ان لوگوں کی ایک دن کی اجرت غیرحاضری کی بنا پر کاٹ لی گئی تو وہ لوگ غصہ سے آگ بگولہ ہو گئے اور اس موقع پر پرکاش نے انہیں اکسایا کہ وہ لوگ بدلہ لینے کے لیے کرین کے سائے میں کھڑی ہوئی بھارت رام کی پھٹ پھٹی توڑ ڈالیں۔

    بند کے چوکیدار نے ان لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ لیکن بھارت رام نے سفارش کر کے انہیں آزاد کرا دیا۔

    دنیا میں مختلف قسم اور خیال کے انسان رہتے ہیں لیکن ان میں درحقیقت صرف دو قسم کے کردار ہوتے ہیں اس لیے کہ سوچنے اور محسوس کرنے کے صرف دو ہی طریقے ہیں۔ کچھ لوگ صرف ظاہر پر نظریں ڈال سکتے ہیں اور بقیہ کچھ لوگ باطن پر نظر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارت رام اس خیال کا حامی تھا کہ گاؤں والوں کے گردنوں کو جھکانے سے زیادہ ان کے دلوں کی تبدیلی۔۔۔۔ ضروری تھی۔

    اور عملی زندگی میں باطنی تبدیلی حاصل کرنا زیادہ دشوار ہے۔ بھارت رام نے حالانکہ ان مزدوروں کو آزاد کرا دیا تھا لیکن اس کے اس حسن سلوک کا بھی گاؤں والوں پر کوئی خوشگوار اثر نہ ہوا۔ اس کے برعکس گاؤں والے اور زیادہ طیش میں آ گئے۔ یہ سوچ کر کہ ان پر رحم و کرم کا اظہار کر کے بھارت رام نے لاٹ صاحب بننے کی کوشش کی ہے۔

    لہذٰا ان لوگوں نے گاؤں کے بزرگوں پر زور دیا کہ وہ لوگ بیوہ شدھی اور اس کے بیٹے بھارت رام کو برداری سے خارج کر دیں اور ان کا حقہ پانی بند کردیں۔ چنانچہ گاؤں کی تمام عورتیں یکجا ہوکر گاؤں کے مندرمیں پوجا کے لیے گئیں اور دعا کی کہ شدھی بیوہ مر جائے۔

    منگل بند پر دیوقامت مشین کی گھڑ گھڑاہٹ روز بروز بڑھتی رہی اور ایک دن انجینئر کی جانب سے اعلان ہوا کہ اگلے دس دن کے اندر جھیل میں پانی بھر آئےگا اور کاملی گاؤں زیر آب ہو جائےگا۔ اس بار تحصیلدار کے علاوہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر بھی آئے تا کہ گاؤں والوں کو ہجرت پر راضی کر سکیں اور ان لاریوں میں جو وہ اپنے ہمراہ لائے تھے ان کا سامان لدوا کر انہیں چنڈی گڑھ پہنچا دیا جائے۔ ڈپٹی کمشنر نے ایک طویل تقریر کی اور غالباً اپنی زندگی میں پہلی بار اس نے پنجابی زبان بولنے کی کوشش کی۔ گو کہ گاؤں والے اس کے لب و لہجہ اور غلط تلفظ پر ہنستے رہے لیکن ان پر اس اپیل کا بھی کافی اثر ہوا جو ڈپٹی کمشنر نے وزیراعظم کے نام پر ان سے کی تھی۔ اس نے کہا کہ گاؤں والوں کو چاہیے کہ وہ پورے ملک کے مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح نہ دیں۔

    لیکن کسی نے کچھ کہا نہیں اور ان کی خاموشی سے یہی اندازہ ہوا کہ ابھی ان کے دلوں میں چور ہے۔ صرف سردار جرنیل سنگھ نے زبان کھولی کہ ’’اگر آپ کو ہمارا اتنا ہی خیال ہے تو پھر آپ نے ہمارے بھائی کرنیل سنگھ کو جیل میں کیوں ٹھونس رکھا ہے؟‘‘

    ڈپٹی کمشنر نے فوراً جواب دیا۔ ’’اگر تمہیں صرف یہی ایک شکایت ہے تو میں ابھی کرنیل سنگھ کی رہائی کا حکم دیتاہوں۔ وہ کل ہی رہا کر دیا جائےگا اور اس کی بقیہ سزا کی معیاد معاف کر دی جائےگی‘‘۔

    اور یہ سوچ کر اس نے بازی جیت لی ہے وہ ریسٹ ہاؤس چلا گیا اور بید کی کرسی پر بیٹھ کر وہسکی سے دل بہلانے میں مصروف ہو گیا۔

    دوسرے دن کرنیل سنگھ رہا کر د یا گیا۔ اس کے گاؤں واپس آنے پر گاؤں والوں نے خوب خوشیاں منائیں اور ڈھولک پیٹے۔ افسروں نے سوچا کہ اب گاؤں کے بڑے راضی ہوگئے ہیں اور وہ لوگ پنچائیت بلاکر گاؤں والوں کو حکم دیں گے کہ برگد کے درخت کے نیچے کھڑی ہوئی لاریوں پر اپنا سامان لادنا شروع کریں۔

    لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس گاؤں کے بڑوں نے یہ اعلان کیا کہ کرنیل سنگھ کی غیر مشروط رہائی دراصل ان کے حسن تدبیر کی دوسری فتح ہے جو کاملی دیوی کی مہربانی سے انہیں افسران پر حاصل ہوئی ہے۔

    یہ دیکھ کر ڈپٹی کمشنر اور چیف انجینئر شرما نے حیرت و استعجاب کا اظہار کیا اور مستری بھارت رام کو صلاح و مشورے کے لیے طلب کیا کہ آخر گاؤں والوں کو کیونکر راضی کیا جائے۔

    بالآخر ڈپٹی کمشنر نے اپنی کار منگوائی اور اعلان کیا کہ وہ واپس جا کر مزید پولیس بھیجےگا تا کہ گاؤں والوں کو جبراً لاریوں میں بھر کر چنڈی گڑھ لے جایا جائے۔ یہ سن کر بھارت رام کھڑا ہو گیا اور اس نے ہمت کر کے کہا ’’حضور کیا ہم برائی کا جواب برائی سے دے کر برائی ختم کر سکتے ہیں۔ اس طرح تو ہم بدی کے سلسلے کو طویل کرتے ہیں۔ ایک لمحہ کے لیے مہاتما گاندھی کے اس قول پر غور کیجئے کہ انسان کو دکھ تکلیف کو صبر و سکون سے قبول کرنا چاہیے۔ اس گاؤں میں صرف ایک ہی شخص ایسا ہے جو گاؤں والوں کے دلوں کو تبدیل کر سکتا ہے اور وہ انہیں گاؤں چھوڑنے پر آمادہ کر سکتا ہے اور اس شخص کا نام بالی ہے جو پاور ہاؤس میں ملازم ہے‘‘۔

    ’’بھلا بالی کیونکر کامیاب ہوا جب کہ دوسروں کی تمام کوششیں بےکار ثابت ہو چکی تھیں‘‘ ۔ میں نے بےتابی سے پوچھا۔

    جواب دینے سے پہلے بالی مسکرایا اور اپنی دیہاتی قمیص کے اندر سے چار مینار سگریٹ کی ڈبیا نکالی اور چند لمحوں تک سگریٹ کے تمباکو کا ذائقہ چکھتا رہا۔ میں اس کہانی کا انجام جاننے کے لیے بے تاب تھا۔ اس لیے میں نے دوسری بار کہا۔

    ’’بھائی آگے سناؤ‘‘۔

    ’’بڑی آسان ترکیب تھی‘‘ ۔ بالی نے سگریٹ کا طویل کش لے کر کہا۔

    ’’دوسرے دن ڈپٹی کمشنر کے پاس جا کر میں نے کہا ’’غریب پرور۔ شاید میں یہ معجزہ دکھلا سکوں۔۔۔‘‘

    ’’میں معجزوں کا قائل نہیں‘‘۔ ڈپٹی کمشنر نے سختی سے کہا۔

    ’’معاف فرمائیے حضور۔ غالباً میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے۔ آپ مجھے ایک ڈھولک منگوا دیں اور اس مستری کومیرے ہمراہ کر دیں۔ مجھے یقین ہے کہ میں گاؤں والوں کو چنڈی گڑھ جانے پر آمادہ کر لوں گا۔ آپ شہر کے رہنے والے ہیں اور شاید آپ کو اس امر کا احساس نہیں کہ ابھی پورا ہندوستان محض ایک گاؤں ہے۔ آپ شہری زبان میں گفتگو کرتے ہیں جب کہ گاؤں والے صرف گاؤں کی زبان سمجھ سکتے ہیں‘‘۔

    ڈپٹی کمشنر اور تحصیل دار کو میری باتوں پر اعتبار نہ آیا لیکن چیف انجینئر شرما نے کہا۔۔۔ اچھا۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ تم کیا کر سکتے ہو۔ بھارت رام کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ اگر تم نے کل صبح واپس آکر ہمیں خوش خبری نہ سنائی تو میں تمہاری گردن مروڑ ڈالوں گا‘‘۔

    ’’اور تم نے جا کر یہ معجزہ کر دکھایا؟‘‘۔ میں نے پوچھا۔

    ’’میں نے کوئی معجزہ نہیں دکھلایا بھائی۔ صرف ایک چھوٹی سی ترکیب کام کر گئی‘‘۔ ’’کون سی ترکیب؟‘‘

    ’’بھائی جب زندگی میں الفاظ بے معنی ہو کر رہ جائیں تو کسی مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے نئے طریقے دریافت کرنا ضروری ہو جاتا ہے اور ان نئے طریقوں کو ن یا لباس پہناکر نئی سج دھج سے پیش کرنا پڑتا ہے اور ایک ایسا لب ولہجہ اختیار کرنا پڑتا ہے جو انسان کے دل و دماغ کے بجائے اس کے شکم پر اثر انداز ہو اس لیے ہمارے تمام مہاتما، دھرم آتما اور رشی منی، ہاتھ میں طنبورہ لے کر گاؤں گاؤں اس کے گن گاتے رہے جس نے ان کے تجربے میں ان کے دل و دماغ اور شکم پر یکساں اثر چھوڑا تھا۔

    اور میں تمام رات جاگتا رہا اور چند ایسے نئے الفاظ تلاش کرتا رہا جو میرے دل کی پکار بن کر سننے والے کے دل کو تسخیر کر سکیں اور دوسری صبح میں بھارت رام کو ساتھ لے کر گاؤں کی جانب چل پڑا۔ اس کے گلے سے ہار کی مانند ڈھولک لٹک رہی تھی۔ جب اس نے ڈھولک کی تھاپ سے گاؤں والوں کو خواب سے بیدار کیا تو میں نے اپنا نیا گیت گانا شروع کیا:

    اٹھو۔ اٹھو۔ بھائیو اٹھو۔

    بتوں کی غلامی نے ہمیں کچل کر رکھ دیا ہے۔

    ہمارے گھر کھنڈر بن رہے ہیں اور ہماری راہوں میں کانٹے بچھے ہوئے ہیں۔

    چاروں طرف سے ننگے پاؤں چلنے کی آوازیں اور دل کی وسعتوں سے نکلی ہوئی بددعاؤں کا شور سنائی دے رہا ہے۔

    ڈھولک کی آواز اور میرا دکھ بھرا گیت سن کر گاؤں والے میرے گرد جمع ہو گئے۔

    ’’بھینگی بھینگی والا حرامی، صبح صبح ہماری نیند خراب کر رہا ہے‘‘۔ پرکاش نے کہا۔

    ’’کمینہ، ذلیل بالی، الیکٹریشن‘‘۔ درشن سنگھ نے کہا۔

    ’’سور کا بچہ‘‘۔ سدرشن سنگھ نے کہا۔

    ’’لیکن میرے بچو۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ جو کچھ بالی کہہ رہا ہے اس میں حقیقت اور سچائی گونج رہی ہے‘‘۔ کرنیل سنگھ نے کہا۔

    ’’اس کی آواز میں بلا کا سوز ہے‘‘۔ جرنیل سنگھ نے کہا۔

    ’’ہاں میں نے اسے ہیر گاتے ہوئے سنا ہے‘‘۔ دھرم داس نے کہا ’’اوئے ۔ ہیر سنا‘‘۔

    ۔۔۔۔۔لیکن میں نے ہیر نہیں سنایا بلکہ اپنے اسی گیت کو دہرایا۔

    ’’ارے سن لیا سن لیا ہم نے‘‘۔ ویرو چیخا۔۔۔’’اب کوئی بھجن سنا۔ بھگوان کے گن گا تا کہ بھگوان خوش ہو کر اس گاؤں پر اپنی رحمت کی بارش کرے۔ ہماری کھیتیاں شاداب ہوں اور یہ شیطانی تعمیر کا کام ختم ہو جائے‘‘۔

    ’’ہاں ہاں۔ کاملی دیوی کا شبھ گیت گا، تا کہ ہمیں آسائشیں میسر ہوں‘‘۔

    ’’اچھا، میں دیوی کے گیت گاؤں گا، میں نے کہا اور فی البدیہہ ایک نیا گیت گانے لگا۔

    او۔ دیوی۔ او ان داتا

    ہم پر رحم و کرم کی نظر کر

    اوشکتی دیوی۔ جو کاملی کا اوتار بن کر اس گاؤں میں ظاہر ہوئی

    اور جواب منگل کے بڑے بند کے روپ میں ظاہر ہو رہی ہے۔

    ’’ناستک ہو گیا ہے یہ ‘‘۔ ویرو چلایا۔

    ’’دیوی دیوتاؤں کی برائی کر رہا ہے‘‘۔ رام جوایا چیخا۔

    ’’سالا جھوٹا ہے‘‘۔ تارا چند بی۔ اے۔ نے کہا۔

    لیکن میں ان گالیوں سے بےنیاز ہو کر گاتا رہا۔

    او دیوی۔ اوان داتا

    جو کاملی کے روپ میں اسی گاؤں میں ظاہر ہوئی او ر جو اب سیال روپ میں ہماری تکلیفوں کو دور کرنے کے لیے آئی ہے

    ماتا۔ جو برقی طاقت کا روپ دھار کر بند میں داخل ہو گئی ہے۔

    تم شان سے چلتی ہوئی آہستہ آہستہ آؤگی

    اور بجلی کی قوتوں کو انسان کی بھلائی کے لیے آزاد کر دوگی

    اور تمہارے قدموں میں نئے اکھوے پھوٹیں گے، نئی پتیاں لہرائیں گی

    آموں کے درختوں پر بور آئیں گے

    پھولوں میں نئی خوشبو ہو گی

    بھنورے نیا گیت گنگنائیں گے

    چڑیاں چہچائیں گی

    خوشبو سے لدی بسی ٹھنڈی ہوا

    جھیل کے پانی کو تھپکی دے گی

    اور دھان کے کھیت لہلہا اٹھیں گے

    مسرتوں کو لیے تہوار آئیں گے

    اور عیش و طرب کے راہ کی تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی

    منگل ساگر کے پانی کی لہریں تمام داغ دھبے دھو ڈالیں گی۔

    ’’اوئے۔ واہ۔ واہ‘‘ کرنیل سنگھ فرط مسرت سے چلایا۔

    ’’اوئے۔ بلے ۔بلے‘‘۔ جرنیل سنگھ نے ترنم سے کہا۔

    ’’اس کی آنکھیں بھینگی ہیں لیکن آواز بڑی اچھی ہے‘‘۔ رام جوایا نے کہا۔

    ’’ہمارے درمیان ایک شاعر ہے اور ہمیں اس کا علم بھی نہ تھا‘‘۔ تاراچند بی۔ اے۔ نے کہا۔

    ’’آؤ لڑکو ۔ میرے ساتھ مل کر گاؤ۔ مستری بھارت رام کی ڈھولک کی تھاپ پر زندگی کا گیت گاؤ۔

    او دیوی۔ او ان داتا

    جو کاملی کے روپ میں اسی گاؤں میں ظاہر ہوئی ہے

    اور جو اب سیال روپ میں ہماری تکلیفوں کو دور کرنے آئی ہے

    او شکتی ماتا جو برقی طاقت کا روپ دھار کر منگل بند میں داخل ہو گئی ہے

    اور تمام لڑکے میرے ساتھ لے ملا کر گانے لگے اور رفتہ رفتہ گاؤں کے بڑے بوڑھے بھی ہچکچاتے ہوئے شامل ہو گئے اور خود فراموشی کے عالم میں گانے لگے۔

    ان لوگوں نے نہ صرف میر ی آواز اور لے کا سوز گداز قبول کر لیا بلکہ ان لوگوں نے میر ے گیت کے بول اور اس کے مفہوم کو بھی قبول کر لیا اور میرے ساتھ ڈپٹی کمشنر کے پاس جاکر چنڈی گڑھ جانے پر رضامندی کا اظہار کر دیا۔۔۔ اس لیے کہ انہیں یقین آ چلا تھا کہ جس دیوی نے کاملی کا روپ دھار کر اس گاؤں پر مسرتوں کی بارش کی تھی اب برقی طاقت کا روپ دھار کر منگل بند میں داخل ہو چکی تھی۔

    مأخذ :
    • کتاب : لوح (Pg. 128)
    • Author : ممتاز احمد شیخ
    • مطبع : رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی (2017)
    • اشاعت : Jun-December

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے