Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منزل

MORE BYصغیر افراہیم

    وہ سوچتا ہے ’’میں اپنی زندگی کا مالک ہوں۔ جب چاہوں اسے مٹا سکتا ہوں‘‘ لے۔۔۔ کن۔۔۔ لیکن وہ کون ہے میرے اندر جو اس عمل کو کرنے سے روکتا ہے۔۔۔کیا یہ زندگی سے پیار ہے۔۔۔ یا بیرونی کوئی دباؤ۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں شاید۔۔۔ ہماری سرشت میں داخل وہ علم۔۔۔ کہ زندگی تمہاری نہیں۔۔۔ ایک امانت ہے۔۔۔ ایک ایسی قوت جو دکھائی نہیں دیتی۔۔۔ یا وہ طاقت کہ جو دکھائی دیتی ہے۔۔۔ عزیزو اقارب کی صورت میں۔۔۔ ہو سکتا ہے کوئی ایسا جذبہ جو ’’مرنے‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہو۔۔۔ مگر مرتا نہ ہو۔۔۔ ایک نئی زندگی عطا کرتا ہو اور جب وہی نئی زندگی۔۔۔ کسی مایوسی یا حرماں نصیبی کا شکار ہوتی ہے تو پھر موت ہی یاد آتی ہے۔۔۔ بھلے ہی بزدلی کا قدم ہو۔۔۔ مگر اٹھانے کے لیے جرأت اور ہمت کی ضرورت ہے۔۔۔ پھر اس کے خیالات کے تانے بانے منتشر ہو گئے۔ آخر اس نے اپنی بےربط، ٹوٹی پھوٹی سانسوں کے خاتمہ کا فیصلہ کر ہی لیا۔ اپنے اس فیصلہ سے اب وہ مطمئن بھی نظر آ رہا تھا۔ اس اطمینان کے بعد اس کے قدم تیزی سے بڑھنے لگے۔ اس کی آنکھوں میں کچھ دیر پہلے جو وحشت اور ویرانی تھی وہ ختم ہو چکی تھی۔ ذہن میں جو انتشار اور بےچینی کی لہریں موجزن تھیں ان میں ٹھہراؤ آ چکا تھا دل پرسکون اور مطمئن تھا۔ پل کے قریب آکر وہ ٹھہر گیا۔ ایک پل کے لیے اس نے کائنات کی خوبصورت فضاؤں اور پھولوں کی رعنائیوں کا جائزہ لیا لیکن دوسرے ہی پل اس کے مزاج کی کڑواہٹ نے تصوّر کے حسین احساس کو چکناچور کر دیا۔ زندہ رہوں۔۔۔ تو کیوں؟ اور کس کے لیے! کوئی بھی تو ایسا نہیں جو اس کے دکھ سکھ کا شریک ہو، اس کے لیے بےچین و بیقرار ہو، اس کا ہم نفس وہم نوا ہو ۔ آخر اس بےمصرف زندگی کا مقصد ہی کیا ہے۔ اس وجود کو، دھرتی کے بوجھ کو مٹا دینا ہی بہتر ہے۔ کائنات سمٹ کر اس کی آنکھوں میں سما چکی تھی۔ پل کے نیچے دور بہت دور سورج سمٹتا ہوا خون کے آنسو رو رہا تھا اور پتھروں پر پھیلی ہوئی سرخی اس کی نگاہوں میں داخل ہو رہی تھیں۔ وہ چھلانگ لگانے ہی والا تھا کہ کسی کے ہاتھوں نے اس کا دامن تھام لیا۔ اس نے بے یقینی کے انداز میں دیکھا۔ ایک ننھی سی پریشان حال بچی اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے سرخ آنکھوں سے دیکھا۔ لہجہ میں کڑواہٹ تھی۔

    وہ گم صم کھڑی تھی۔۔۔ سہمے ہوئے انداز میں بولی ’’بابا، بھوک لگی ہے۔‘‘

    لبوں پر لفظ ’’بابا‘‘ کی فریاد نے ایک ہی لمحے میں اسے خود ’’بابا‘‘ کے دو زانو پر بیٹھا دیا تھا۔۔۔ بابا اسے کتنا چاہتے تھے، ہر پل اپنے ساتھ رکھتے تھے۔

    اسی لمحے اس نے بچی کو اٹھاکر اپنی گود میں بٹھا لیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پلکیں موند لیں۔ ماضی کے کھنڈرات میں ایک کچا مٹی کا گھروندا نمودار ہوا جس میں اس کی سانسوں کی خوشبورچی بسی تھی۔ بابا آم کے باغ کی پاسبانی کیا کرتے تھے اُس میں کٹہل کے بھی کئی درخت لگے ہوئے تھے لیکن اسے کٹہل سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ بابابھی آم کے درختوں پر ساری توجہ دیتے تھے۔ فصل کے ختم ہونے پر وہ چاروں طرف کی منڈیر بنایا کرتے، باغ کو سجایا سنوارا کرتے، وہ سوچتا۔ بڑا ہوکر بابا کا سہارا بنوں گا۔ اچھے اچھے باغ لگاؤں گا اور سب کو خوب آم کھلاؤں گا۔ لیکن اسے بابا کی ایک بات اچھی نہیں لگتی تھی کہ اسے نشہ کی عادت تھی اور پھر نشے کی ترنگ میں وہ اماں کو پیٹتا رہتا۔ اماں سسکتی رہتی بابا سے منتیں کیا کرتی۔ وہ مان جاتا، اچھی اچھی باتیں کرتا۔ مجھ کو چومتا، توبہ کرتا لیکن موقع ملتے ہی وہ پھر اسی میں غرق ہو جاتا۔ نشے کی لت کو بابا چھوڑ نہیں سکا۔ آخر ایک دن اس لعنت نے اسے نگل لیا۔ پھر نہ جانے کیا آفت آئی کہ اماں اسے شہر لے آئی محنت مزدوری کرتی پر اس سے پڑھنے کو کہتی۔ لیکن پڑھائی میں اس کا دل نہیں لگتا۔ دوستوں کے ساتھ یا پھر اکیلے ہی دن دن بھر اسکول کے پاس باغیچے میں گذارتا۔ ندی میں نہانے چلا جاتا۔ آخر اماں نے اسے موٹر کی دکان پر بٹھا دیا۔ وہ اچھا مکینک تو بن گیا لیکن دھیرے دھیرے اسے بھی بابا کی لت کا چسکا لگ گیا۔ اماں اُس سے پیار سے کہتی! چھوڑ دے بیٹا اسے چھوڑ دے۔ اس نشے نے ہمارا سب کچھ لوٹ لیا۔ تیرے بابا کو ہم سے چھین لیا۔ اب تیری زندگی میرے لیے بڑی قیمتی ہے۔ میری بات مان لے۔ اماں کو میرا یہی غم کھا گیا۔ دمہ کا اس پرایسا دورہ پڑا کہ اس کا دم ہی لے گیا۔ بےگور و کفن پڑی لاش لعنت و ملامت کر رہی تھی۔ وہ اس کے اکڑے ہوئے جسم کو گھورے جا رہا تھا۔ ایک حرماں نصیب کی لاش جو اپنے ارمانوں سمیت دنیا سے اٹھ گئی تھی۔ اس کے خوابوں کے رنگ بکھر گئے تھے۔ ارمانوں کا محل جووہ اس کے بل بوتے پر تعمیر کرنا چاہتا تھا اب اس کے مزار کی شکل میں تبدیل ہونے والا تھا۔ گھنٹوں بعد جب وہ اسے منوں مٹی تلے دباکر واپس آیا تو ہر طرف ایک سناٹا، خلا سا محسوس کیا۔ اجنبیت کے اس ماحول میں اسے اپنے آپ سے، اپنے وجود سے وحشت ہونے لگی۔۔۔

    ’’کیا ہوا بابا، آپ کیا سوچ رہے ہیں‘‘؟ بچی نے معصومیت سے استفسار کیا۔

    ’’کچھ نہیں۔۔۔ کچھ بھی نہیں‘‘ چونکتے ہوئے جیسے کسی نے ذہن کے تار جھنجھوڑ دیے ہوں۔

    ’’تمہارا نام کیا ہے‘‘؟

    ’’امینہ‘‘۔

    ’’امینہ‘‘۔۔۔

    کیا امینہ کی وجہ سے ارادے میں لغزش آ رہی ہے؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔۔۔ نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا یا پھر۔۔۔ نہیں نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ دو زانو بیٹھے بیٹھے وہ ہانپنے لگا۔ اس کی سانس پھولنے لگی۔ جسم پسینے سے بھیگ گیا۔ ریلنگ کے کنارے پتھریلے چبوترے پر تھوڑی دیر کے لیے ٹیک لگاکر اُس نے نیچے نظر دوڑائی۔ سورج اپنی شعاعوں کو سمیٹتا ہوا کالے پردے میں داخل ہو رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف منہ کرکے لمبے لمبے سانس لیے اور ٹھنڈی اور تازہ ہوا کا احساس کیا اور یکایک اُٹھ کر تیزی سے چلنے لگا۔ امینہ بھی اس کے ہمراہ ہولی۔ کبھی وہ اس کے آگے، کبھی پیچھے اور کبھی ساتھ ساتھ چلنے لگتی۔ چلتے چلتے نہ جانے کیوں وہ ٹھٹھک گیا۔ غور سے امینہ کو دیکھا۔ انجانے میں اس کا ہاتھ امینہ کے سر پر چلا گیا۔ میلے کچیلے بالوں پر انگلیاں پھیرتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ شام کا دھواں چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ چڑیوں کے چہچہانے سے فضا میں ایک خوش آہنگ شور بکھر رہا ہے۔ ہر پرندہ اپنے اپنے مسکن کی جانب رواں دواں تھا۔ اس نے امینہ کو گود میں اٹھا لیا۔ ننھے ننھے ہاتھوں نے اس کے چہرے کو چھوتے ہوئے اپنی معصومیت کا احساس دلایا۔ اس کے دل

    و دماغ کا غبار بیٹھتا چلا گیا۔ فضا میں ٹھہراؤ سا آ گیا۔ مسجد کی میناروں سے مغرب کی اذان بلند ہوئی۔ امینہ کے معصوم لمس اور بھولی بھولی باتوں نے یک لخت اسے سکون بخش دیا۔ اس بےسہارا کو گود میں اٹھانے سے جیسے اسے خود کو سہارا مل گیا۔

    پل صراط کی ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد اس نے دائیں جانب نظر اٹھائی۔۔۔ آم کے باغ میں بور آیا ہوا ہے۔۔۔ اس نے سوچا اللہ کے کرم سے فصل اچھی۔۔۔بہت اچھی ہوگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے