Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مرد

MORE BYمشتاق احمد نوری

    وہ بےحد خوبصورت تھی۔

    نہیں نہیں، اس کے حسن کی انتہا نہیں تھی۔

    مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ الفاظ میری گرفت میں نہیں آ رہے ہیں جن سے اس کے حسن کی سچی تعریف کی جا سکے۔

    آپ ایسا کریں، اسے بےحد حسین مان ہی لیں تاکہ میری تسلی ہو جائے۔ رہی خدوخال کی بات تو اس کی تعریف مجھ سے ممکن نہیں۔ بغیر دیکھے تو ایک سے ایک خدوخال تراشا جا سکتا ہے، لیکن اس کا فیگر دیکھنے کے بعد الفاظ سامنے آنے سے کترانے لگتے ہیں۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ اسے جی بھرکے دیکھنا بہت مشکل تھا۔ یہ کم بخت نگاہ ایک جگہ ٹکتی ہی نہ تھی۔ بار بار پھسل جاتی ۔ اتنی پھسلن میں نے کسی کا یا میں نہیں دیکھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کے پورے جسم میں چٹکی بھر گوشت بھی کہیں فاضل نہیں ہے۔

    اس کا حسن تو جان لیوا تھا ہی، لیکن اس نے اپنے ڈانس سے لوگوں کو مبہوت کر رکھا تھا۔ وہ جب ڈانس کرتی تو دیکھنے والوں کی سانس رک جاتی۔کبھی کبھی تو لوگ سانس لینا اور تالیاں بجانا بھی بھول جاتے۔ بعد میں جب لوگ اس کے سموہن سے آزاد ہوتے تو تالیاں بجانے لگتے۔

    بہت سے تجربہ کار لوگوں کا کہنا تھا کہ اس ڈانس کے ریاض نے ہی اس کی کایا کو کہیں سے مسکنے نہیں دیا ہے۔ وہ روزانہ گھنٹہ دو گھنٹہ ریاض کرتی۔ اس نے اپنی عمر کو بھی برسوں سے ایک ہی محور پر رکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کی عمر پچیس سال سے کم نہیں رہی ہوگی، لیکن وہ گزشتہ دس برسوں سے ۲۵ کی ہی لگتی تھی۔

    میں آپ کے تجسس کو محسوس کر رہا ہوں۔ عمر کا سن کر اس کی شادی کی بات سوچنا لازمی بھی ہے۔ جی ہاں شادی تو بیس سال کی ہی عمر میں ہوئی تھی اور صرف پانچ سال بعد وہ اس بندھن سے آزاد بھی ہو گئی۔ اب یہ اس کے منگل دوش کا اثر تھا یا اس کی بدنصیبی، اس پر بحث سے کیا فائدہ؟

    ایسا قیامت خیز پیکر کسی پنجرے میں بند ہونے کے لئے تھوڑے ہی ہوتا ہے۔ اس کی اڑان بھی کافی اونچی تھی۔ تنہائی کا درد کسی نے بھی اس کے چہرے پر محسوس نہیں کیا۔

    اسے اپنے تنہارہ جانے کا افسوس بھی کب تھا؟ وہ تو ہمیشہ مردوں میں گھری رہتی ۔ لوگ باگ طرح طرح کی باتیں کرتے۔ اب کس کس کی بات پر دھیان دیا جائے اور کس کس کی زبان پکڑی جائے اور ان باتوں پر بحث کرنے سے فائدہ بھی کیا؟

    ارے ہاں، ابھی تک اس کے نام اور کام کا ذکر تو آیا ہی نہیں۔ ویسے ایسا پیکر تو صرف اپنی قیامت خیزی سے پہچانا جاتا ہے اس کا نام شفالی رائے تھا، لیکن اس کے دوست جب اسے شغو کہہ کر پکارتے تو وہ انہیں یوں اپنی ترچھی نظروں سے دیکھتی کہ ان کا نروس بریک ڈاؤن ہو جاتا۔

    کام تو اس کا عمدہ تھا۔ وہ ایک ایڈمنسٹریٹو آفیسر تھی۔ جی ہاں اپنے کام کے معاملہ میں اس کا بہت نام تھا اپنے محکمہ میں، وہ جس محفل میں ہوتی وہ تو گلزار ہو جاتی۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ جہاں بھی رہتی، وہیں محفل جم جاتی۔ کیا سینئر کیا جونیئر آفیسر سب اسے گھیرے رہتے۔ وہ جسے چاہتی گھاس ڈالتی، جسے چاہتی لات مارتی۔

    ویسے تجربہ کار لوگ اسے زیادہ راس آتے۔ اس کے سامنے تو امیدواروں کی کیو رہتی اور جس کی باریابی ہوتی، مانو اس کی لاٹری ہی نکل آتی۔

    ایک بار وہ بہت موڈ میں تھی۔ اپنے محکمہ کے دو چار آفیسر بیٹھے نان ویج لطیفہ سنا رہے تھے اور وہ بے تحاشہ داد دے کر لطف اندوز ہو رہی تھی نہ جانے مجھے ایسا کھلاپن راس نہیں آیا اور میں نے کہا:

    ’’مردوں کے درمیان ایسے لطائف سے لطف اندوز ہونا۔۔۔‘‘ میری بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس نے بات اچکتے ہوئے کہا:

    ’’انور صاحب، آپ کس مرد کی بات کر رہے ہیں۔ میں نے تو اچھے اچھے مردوں کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘ اس کی کھلکھلاہٹ میں بھی قدرے بے حیائی کا احساس ہوا۔ میں نے ناگواری سے کہا:

    ’’جنہوں نے گھنٹے ٹیکے۔ وہ مرد نہیں ہجڑے رہے ہوں گے۔‘‘

    ’’تو مرد کیسا ہوتا ہے جناب۔۔۔؟‘‘ اس نے قدرے شوخی سے کہا۔

    ’’مرد انور جیسا ہوتا ہے۔‘‘ میں نے بھی پورے مردوں کی لاج رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’اچھا۔۔۔!۔۔۔!۔۔۔! اس نے اچھا کے الف کو قدرے کھینچتے ہوئے بات جاری رکھی:‘‘

    ’’تو مسٹر انور۔ رہی شرط۔ ذرا آپ کے گھٹنے کی بھی آزمائش کر لی جائے۔‘‘

    اس نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا اور میں نے بھی جوش مردانگی میں اس کی شرط قبول کر لی۔ بات آئی گئی ہو گئی۔

    میں دراصل ایسے ویسے لفڑوں سے دور ہی رہتا ہوں۔ دس پندرہ سال ضلع ضلع بھٹکنے کے بعد حال ہی میں میری پوسٹنگ ہیڈکوارٹر میں ہوئی تھی جہاں شغالی رائے پہلے سے موجود تھی۔ اسے ایک نظر دیکھ کر منھ پھیرنا بہت مشکل تھا۔ چوری چھپے ہی سہی، میں بھی نظر ماری کر لیا کرتا تھا، پھر دھیرے دھیرے ایک دوسرے کے چمبر میں آنا جانا ہونے لگا اور بقول شخصے میں بھی کیو میں لگا ہوا تھا۔

    میں گرچہ اپنے کام میں ہی کافی مصروف رہتا تھا، اس لئے اس کی محفل میں زیادہ شامل نہیں ہو پاتا، لیکن اس دن بات بات میں ہی میں نے ایک مصیبت اپنے گلے میں ڈال لی اور آبیل مجھے مار والی کہاوت یاد آ گئی۔ کچھ دن بعد میں نے محسوس کیا کہ میڈم شفالی کی دلچسپی مجھ میں بڑھنے لگی ہے۔ وہ بہانے بھی ایسا بناتی کہ میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ دراصل ان کے ذمے ادبی شعبے کی ذمہ داری تھی۔ وہ کویتا، کبھی کہانی، لے کر آ جاتی۔

    ’’دیکھئے انور صاحب۔ ان چیزوں پر آپ بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ چونکہ آپ ادبی ذوق کے آفیسر ہیں، اس لئے میری رہنمائی بھی ہو جائےگی۔‘‘

    میں کیا کرتا۔ کبھی کبھی اپنا ٹفن لے کر آ جاتی اور بعد میں شیئر کرنا پڑتا۔ کبھی اس کا آڈرلی آکر حکم سناتا۔

    ’’میڈم چائے کے لئے بلا رہی ہیں!‘‘مرتا کیا نہ کرتا۔

    کبھی کبھی تو ڈسکشن کے نام پر وہ مجھ پر اتنا جھک جاتی کہ اس کی زلفیں مجھے پریشان کرنے لگتیں اور اس کے بلاوز کا گہرا کٹا ؤ مجھے کھائی میں ڈھکیلنے لگتا اور یہ سب اتنا فطری ہوتا کہ اس پر کوئی الزام بھی نہیں آتا۔

    ایک بار میرے سکشن آفیسر زماں صاحب نے کہا:

    ’’سر میڈم کی عنایتیں کچھ زیادہ ہی بڑھنے لگی ہیں، ایسا نہ ہو کہ آپ بھی اس جال میں پھنس جائیں۔‘‘

    ’’نہیں بھائی۔ میں وہ پتھر نہیں جس میں جونک لگ جائے۔‘‘

    ’’سر میں نے پچپن سال کے صوفی کو بھی پھسلتے دیکھا ہے۔‘‘

    ’’گھبرایئے نہیں۔ میں صوفی نہیں ہوں۔‘‘

    زماں صاحب کے جانے کے بعد میں نے غور کیا تو ان کی بات میں دم نظر آیا۔ یہ معاملہ کہیں نہ کہیں پیچیدہ ہوتا جا رہا تھا۔ میڈم کا برتاؤ کبھی کبھی پریشان کن تو ضرور محسوس ہوتا تھا، لیکن میں اپنے آپ کو خود میں سمیٹے ہوئے تھا۔ ویسے بھی میں اکسٹرا میرٹیل افیئر کا قائل نہیں رہا ہوں۔ اب تک تو بچ بچا کے چلتا رہا تھا، لیکن یہاں پانی پاؤں کے نیچے آگیا تھا، لیکن بہاؤ میں ابھی اتنی شدت نہیں تھی کہ قدم لڑکھڑانے لگتے۔

    میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ اپنا درد بھی مجھ سے بہت سنجیدگی سے شیئر کرنے لگی تھی۔ اپنا پہلا عشق۔ پھر شادی۔ پھر لگاؤ۔ وہ یہ ساری باتیں مجھ سے کہہ گئی تھی۔ اس کی گفتگو میں سنجیدگی اتنی تھی کہ میں نے اس کی پلکوں کے بھاری پن کو بھی محسوس کیا تھا، لیکن کمال ضبط سے وہ اپنے جذبات پر قابو پا لیتی۔ اس کے درد شیئر کرتے کرتے میں بھی اس کی ذات میں دلچسپی لینے لگا۔

    پھر اتفاق یہ ہوا مجھے بھی اسی بلاک میں ایک فلیٹ الاٹ ہو گیا جس کے تیسرے منزلے پر وہ رہتی تھی اور چوتھے پر کونے والا فلیٹ مجھے مل گیا۔ کبھی کبھار ان کا آنا جانا ہونے لگا۔ بیوی بچوں سے مل کر وہ اپنی خوشی کا اظہار بھی کرنے لگی۔

    ایک بار تو اس نے ایک ایسا واقعہ مجھ سے شیئر کیا کہ میں دنگ ہی رہ گیا۔ اس دن اچانک وہ میرے چمبر میں آئی اور میرے سامنے کی فائل بند کرتی ہوئی بولی: ’’آج میں آپ سے ایک ایسا واقعہ شیئر کرنا چاہتی ہوں جو شاید میں اپنی کسی سہیلی سے بھی شیئر نہ کر سکوں۔‘‘ میں چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔

    ’’میں گزشتہ دنوں حیدرآباد ایک انٹرویو دینے گئی تھی اور فرینکلی بتاؤں کہ یہ سوچ کر گئی تھی کہ اس سفر میں اپنے کسی پسند کے مرد سے سیکس شیئر کروں گی۔ ‘‘ اس نے میری طرف دیکھا اور میری نظر نیچے جھک گئی۔

    ’’دیکھئے ۔ اسے ادروائز نہ لیجئے ۔ پوری بات سن کر ہی فیصلہ کیجئےگا‘‘ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔

    ’’میں جس ہوٹل میں ٹھہری تھی اس میں مجھے ایک شکار مل گیا۔ چالیس سے اوپر کا رہا ہوگا۔ میں انے اسے ترچھی نظروں سے گھائل کر کے تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا۔ دوسرے دن انٹرویو سے فارغ ہو کر پوری تیاری سے نکلی کہ آج شکار کر ہی لینا ہے۔‘‘ میں دم سادھے آنے والے واقعہ کا انتظار کر رہا تھا۔

    ’’دیکھئے انور صاحب میں یہ کیوں کر رہی تھی اس پر بحث بےکار ہے لیکن ہاں میںیہاں سے ہی یہ ارادہ کر کے گئی تھی ۔ ہوٹل کے ٹیرس پر اس سے ملاقات ہو گئی اور اس نے بہت مہذب انداز میں مجھے چائے پینے کی دعوت دے دی۔ میں تو منتظر تھی ہی اس کے پاس جاکر شکریہ ادا کرتے ہوئے گفتگو کرنے لگی۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ بنگال کیندر کا آئی ایس آفیسر ہے۔ وہ مجھے اپنی شیریں زبانی سے مرعوب کرنے لگا اور میں اس کے جال میں پھسنے کا بہانہ کرنے لگی۔ وہ گھڑی میری منتظر تھی جس کے لئے میں پوری طرح تیار تھی۔

    تھوڑی دیر بعد اس نے کہا:

    ’’ہم لوگ کمرے میں چل کر چائے پیتے ہیں۔‘‘

    ظاہر ہے اسی آفر کا تو میں انتظار کر رہی تھی اور اس کے آفر کو مجھے فورا منظور کر لینا چاہئے تھا، لیکن ایک عجیب سی بات ہو گئی ۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ میں نے بڑے عزم کے ساتھ کہا۔

    ’’نو۔ تھینکس۔‘‘ یہ کہہ کر میں بالکل مطمئن تھی، پھر اس نے رک کر میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا:

    ’’میں جس لمحے کے لئے تیار تھی جب وہ سامنے آیا تو میں نے انکار کیوں کر دیا؟‘‘ اب میں اسے کیا کہتا۔ میں ا سے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ اس نے پھر اپنی بات جاری رکھی۔

    ’’دیکھئے انور صاحب۔ اس واقعے کو شیئر کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں ایک مرد سے سیکس کی خواہش کا اظہار کر رہی ہوں۔ آپ مرد کے علاوہ چونکہ میرے دوست بھی ہیں، اس لئے میں نے اپنی یہ نفسیاتی گتھی آپ کے سامنے رکھ دی۔‘‘

    میں نے اپنے طور پر اس کی اس حرکت کی توضیح پیش کرنے کی کوشش کی۔ کچھ کچھ اس نے مان بھی لیا، لیکن اس کے جانے کے بعد میں جلدی جلدی اپنی پیشانی کا پسینہ پوچھنے لگا۔

    وہ اکثر بلا جھجھک مجھ سے بہت کچھ شیئر کرتی۔ دراصل میری بےباکی اور الفاظ کے دو معنی استعمال پر وہ کھل کر داد دیتی اور کھل کر اس بات کا اظہار کرتی کہ مجھ سے گفتگو کر کے ذہن کا سارا غبار دھل جاتا ہے۔

    ایک بار کسی میگزین میں شمپو کا پرچار تھا۔ ایک بےحد خوبصورت بالوں والی حسینہ کی تصویر تھی۔ میڈم نے مجھے دکھاتے ہوئے کہا۔

    ’’دیکھئے انور صاحب۔ لمبے بال آپ کی کمزوری ہیں۔ ذرا اس حسینہ کی زلف کی داد دیجئے۔

    میں نے تصویر دیکھ کر اس سے کہا:

    ’’میڈم بالوں کے بارے میں میری رائے قدرے مختلف ہے۔‘‘

    ’’ذرا ہم بھی تو سنیں۔‘‘ اس نے شوخی سے کہا۔

    ’’عورتوں کی زلف اتنی گھنی اور لمبی ہو کہ اسے شیمپو کے بعد خشک کر دیا جائے اور عورت بالکل نیوڈ بیٹھ جائے تو اس کی زلف اس طرح پورے جسم پر بکھر جائے کہ بدن کا ایک بھی حصہ نظر نہ آئے۔‘‘

    ’’اف مائی گارڈ۔‘‘ اس نے ایک سسکی لی۔

    ’’آپ نے یہ تصوریوں پکچرائز کر دیا کہ پورا دن ہی اس سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ ‘‘ پھر اس نے اٹھلاتے ہوئے کہا:

    ’’ناچیز کی زلفوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔‘‘

    ’’وہ تو دیکھنے پر ہی پتہ چلےگا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے بات ختم کر دی۔

    کئی ہفتہ بعد ایک چھٹی کے دن سہ پہر کو اس کا فون آیا۔

    ’’کیا ہو رہا ہے جناب۔‘‘

    ’’کچھ نہیں۔ ایک ناول پڑھ رہا ہوں۔‘‘

    ’’کبھی کبھار آدمی بھی پڑھنے کی کوشش کیجئے۔‘‘

    ’’وقت آئےگا تو دیکھا جائےگا۔‘‘ میں نے بھی لطف لیتے ہوئے بات ختم کر دی۔

    پھر اس نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔

    ’’آپ بس تھوڑی دیرکے لئے میرے کمرے میں آ جائیے۔ دروازہ کھلا ہے میں اٹھ کر آپ کا استقبال نہیں کر سکوں گی۔ کچھ مجبوری ہو گئی ہے۔‘‘

    میں نے سوچا کس مصیبت میں گرفتار ہو گئی۔ یہ نہ اٹھ پانے کا مطلب کہیں پاؤں تو نہ تڑابیٹھی یا پھر پاؤں میں موچ آ گئی۔ میں نے تیسرے فلور پر اس کے فلیٹ پر حسب عادت دستک دی۔

    دروازہ کھلا ہے اندر آ جایئے۔ میں اس کے ڈرائنگ روم کی طرف مڑا تو اس کی آواز آئی۔

    ’’میں ادھر ہوں جناب۔‘‘

    میں نے اس کے بیڈروم میں جھانکا اور میری سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رک گئی۔

    میڈم پوری طرح ننگی تھی، لیکن اس کے جسم کا ایک بھی حصہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کے بال بھی کافی لمبے اور گھنے تھے۔ شیمپو کے بعد وہ کالے اور ملائم بال پوری طرح اس کے بدن کا احاطہ کیے ہوئے تھے۔

    میں جہاں تھا وہیں ساکت ہو گیا اور میڈم نے بڑی شوخی سے کہا:

    ’’دیکھئے انور صاحب۔ آپ نے جو تصور پکچرائز کیا تھا میں نے اسے کس طرح زندہ جاوید کر دیا ہے۔‘‘ پھر اس نے کھنکتی ہوئی آواز میں کہا:

    ’’اب آپ اجازت دیں تو اٹھ کر آپ کا استقبال کروں؟‘‘

    میں نے محسوس کیا کہ میں انگارے پر کھڑا ہوں۔ میری دونوں کنپٹیاں جلنے لگیں۔ میرے دل کی دھڑکن حلق میں آکر اٹک گئی اور نگاہیں یوں ہو گئیں کہ مجھے لگنے لگا کہ آج گھٹنے ٹیک ہی دوں گا۔ پھر میں سنبھلا اور الٹے پاؤں بھاگا۔ اپنے کمرے میں آکر میںیوں ہانپنے لگا گویا میلوں دوڑ کر آیا ہوں۔ وہ تو اچھا تھا کہ بیگم مائکے گئی ہوئی تھی، ورنہ میں انہیں جواب ہی نہ دے پاتا۔

    تھوڑی دیر بعد فون کی گھنٹی لگاتار بجتی رہی اور میری ہمت نہ ہوئی کہ میں اس طرف دیکھوں بھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ ادھر کون ہے۔

    دوسرے دن میں دفتر میں میڈم سے کٹا کٹا رہا، لیکن شام میں مڈبھیڑ ہو ہی گئی۔ اس نے صرف ایک لفظ کہا:

    ’’بزدل۔‘‘

    اس کے بعد میں دفتر میں قدرے محتاط ہو گیا۔ آدمی ہر وقت خود پر قابو ہی پالے یہ ضروری تو نہیں، اس لئے بہتر یہی ہے اپنے دائرے میں ہی محدود رہا جائے، لیکن معاملہ دفتر کی بجائے گھر تک آ گیا۔

    ہر سال گرمی کی چھٹیوں میں بیگم بچوں کے ساتھ مائکے چلی جاتی اور میں تنہا رہ جاتا۔ ایک بار دروازے پر دستک ہوئی۔ سامنے میڈم ایک بار یک نائٹی پہنے کھڑی تھی۔

    ’’میرے پاس فریج نہیں ہے۔ سوچا ٹھنڈا پانی آپ سے ہی مانگ لوں۔‘‘ میں نے ایک نہیں دو بوتل دے کر جان بچائی۔

    میڈم کی دلبرانہ عنایتیں بڑھتی جا رہی تھیں اور میرے لئے راہ فرار بھی محدود ہوتی جا رہی تھی، لیکن میڈم کا چیلنج بھی مجھے یاد تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میری مردانگی بھی اوروں کی طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔

    ایک شام گرمی بہت تھی۔ امس بھی بڑھ گئی تھی لیکن بادلوں کے گھر آنے سے تسلی ہو رہی تھی کہ رات خوشگوار گزرےگی۔ ایک رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ سامنے میڈم کھڑی تھی۔ وہ باریک میکسی میں نہیں تھی بلکہ بےحد خوبصورت ساڑی پہن رکھی تھی اور اس کے بال کھلے تھے جو اس کے چوڑھے گداز کو لہوں پر اٹھکہلیاں کر رہے تھے۔ اس سے قبل کہ میں انہیں بلاتا انہوں نے شوخی سے کہا:

    ’’اب اندر آنے کی اجازت بھی نہیں ملےگی کیا؟‘‘

    ’’ارے آیئے آیئے۔‘‘ نہ جانے کیوں میں اس کے سامنے بچھ سا گیا۔ اس کے جلوے مجھے پست کئے دے رہے تھے۔ آج ساری حدیں ٹو ٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ مسکراتی ہوئی بیٹھ گئی اور میں نے اس کے سامنے میگزین رکھتے ہوئے کہا:

    ’’بس دو منٹ۔‘‘

    میں نے جلدی سے کافی تیار کی اور اس کے سامنے رکھتے ہوئے اس کے حسن میں غوطہ زن ہونے لگا۔ وہ کافی سپ کرتی ہوئی بولی:

    ’’اجازت ہو تو کچھ عرض کروں۔‘‘

    جی میں آیا کہوں کہ آج آپ کی نہیں میری عرضی کی باری ہے، لیکن مسکراتے ہوئے کہا:

    ’’آج آپ کو اجازت کی ضرورت ہی نہیں۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔‘‘

    وہ تھوڑا سا مسکرائی پھر پوری سنجیدگی سے بولی:

    ’’انور صاحب۔ میں عورت ہوں جو اندر سے شرمیلی ہوتی ہے، لیکن آپ کے معاملے میں میں نے ساری حدیں توڑ دیں۔ کبھی کھل کر کبھی اشارے کنائے میں اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ کی وائف مہینے بھر سے نہیں ہیں۔ آپ کو بھی۔۔۔ ہوگی۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘

    وہ مجھے حیرت میں ڈالتے ہوئی گویا ہوئی:

    ’’انور صاحب۔ آج میں یہ اعتراف کرنے آئی ہوں کہ واقعی آپ مرد ہیں۔ آپ نے سچ کہا تھا مرد کبھی گھٹنے نہیں ٹیکتا۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ تیر کی طرح میری نظروں سے اوجھل ہو گئی اور میں ہونقوں کی طرح دیکھتا رہ گیا۔ پھر میں اپنے آپ میں لوٹا اور ایک بے حد طویل سانس لیتے ہوئے سوچا۔

    ’’کیا واقعی میں مرد ہوں؟‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے