Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مردم گزیدہ

مشتاق مومن

مردم گزیدہ

مشتاق مومن

MORE BYمشتاق مومن

    وہاں جہاں پان کی شکل میں جھونپڑوں کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا ہے، جس کی گرفت میں ایک چھوٹی سی پہاڑی بھی ہے اور جس کی کھوہ میں بہت سارے بدجانور بسیرا کیے ہوئے ہیں، اسی پہاڑی کی کھوہ میں ایک بےحد معمولی گھٹنا ہوئی۔ ایک عورت نے، جس کی شادی نہیں ہوئی تھی، ایک بچے کو جنم دیا اور خود مر گئی۔ پڑوسیوں کو اس کی اطلاع ہرگز نہیں ہوئی لیکن ہنگامہ اس طرح شروع ہوا کہ پہلے۔۔۔

    نوزائیدہ بچہ رویا۔

    پھر اس کے بعد اس کی ماں روئی۔

    پھر دائی روئی اور اس کے بعد بہت ساری عورتوں نے رونا شروع کیا اور جب تمس زور سے چیخا تو بےخبر سوئے ہوئے لوگ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھے۔ تمس بچے کی دونوں ٹانگیں چیر کر پھینک دینا چاہتا تھا۔

    کس لیے؟

    ناظرین باتمکین!

    بات بالکل سیدھی ہے۔ چندرنا نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔ لڑکا ایسا ناگ نکلا کہ سب سے پہلے اپنی ماں کو ہی ڈس لیا۔ اب تمس جس کی دونوں ٹانگیں پتلی پتلی ہیں، اس کو کماکر کون کھلائےگا؟ چندر ناکس طرح کماتی تھی، اس میں بتانے جیسی کوئی بات نہیں، سمجھنے کی بات ہے۔ تمس بار بار بچے پر جھپٹتا اور بار بار دائی اسے دھکیل دیتی۔ بچے پر بس نہ چلا تو تمس نے چندرنا کی ٹین کی پیٹی اٹھاکر پھینک دی۔ ٹوٹی ہوئی پیٹی بالکل ٹوٹ گئی اور ساری کائنات باہر آ گئی۔

    پلاسٹک کے گھنگھنے۔

    ربڑ کی ایک گڑیا۔

    کالے دھاگے میں پروئے ہوئے موتی۔

    ایک ربڑ کی چسنی۔

    تمس نے ان تمام چیزوں کو پاگلوں کی طرح دیکھا، پھر بچوں کی طرح رویا اور اس کے بعد اس کا قہقہہ کوئتے کی طرح فضا کو چیرتا چلا گیا۔

    اس واقعے کو دس بیس دن گزر گئے۔ تمس کی حالت میں کچھ تبدیلی ہوئی۔ اس حدتک کہ وہ اپ چندرنا کے نوزائیدہ بچے کی جان کے درپے نہیں تھا۔ نفرت ختم تو کیا ہوتی، کم ضرور ہو گئی تھی۔

    صبح سویرے جھونپڑیوں میں رہنے والے ٹاٹ کی گونیاں لے لے کر ردیاں اور خالی بوتلیں، ڈبے، پلاسٹک اور پی وی سی کے ٹوٹے ہوئے چپل بٹورنے کے لیے چوطرف نکل جاتے اور بچے گندگی میں لوٹتے، کتے، بلیوں اور بد جانوروں کے بچوں کے ساتھ اودھم مچاتے رہتے۔ چندرنا کی منہ بولی بہن کنتی بچے کو اوپر کا دودھ پلاتی۔ ایک پھڑکے میں اسے لپیٹتی اور تمس کی گود میں ڈال دیتی۔ ہاں جانے سے پہلے اتنا ضرور کہتی، ’’اس گل گوتھنے بچے کو سنبھال، میت پڑے، تیرے برے دنوں میں یہی تیرے کام آئےگا۔ تیرا آدھا جسم تو سڑا ہوا ہے۔‘‘ دوسرے لوگ بھی تمس کو سمجھاتے اور آہستہ آہستہ یہ بات تمس کی کھوپڑی میں سماگئی کہ واقعی مستقبل میں اسے ایک خزانہ ملنے والا ہے۔ لوگ باگ جوان لڑکیوں اور کم سن لڑکوں پر کچھ زیادہ ہی نظر کرم کرتے ہیں۔ ایک ہی بات ہے، چندرنانہ سہی اس کا بچہ ہی سہی، لڑکی نہیں تو لڑکا ہی سہی۔

    روزانہ مالش، وقت وقت پر دودھ، پنگوڑا، وٹامنز، پاؤڈر، چیچک کا ٹیکہ، پولیو کا ڈوز اور وہ تمام لوازمات جن پر بچوں کا حق ہے، چندرنا کا بچہ ان سب سے محروم ہی رہا۔ سخت دھوپ، کڑاکے کی سردی، بمبئی کی بارش، دھول، مٹی اور کیچڑ اور جراثیم جو بچوں کے حق میں مضر ہیں، سب اس بچے کے حصے میں آئیں۔ پھر بھی اس نے چند مہینوں میں ایسے ہاتھ پاؤں نکالے کہ خود چندرنا بھی اسے دیکھتی تو شاید پہچان نہ پاتی۔ نہ جانے اس میں اتنی قوت اور مدافعت کہاں سے آگئی تھی۔ وہ بالکل اپنے باپ پر گیا تھا۔

    چند مہینوں میں ہی وہ گھٹنوں کے بل چلنا سیکھ گیا۔ دن بھر ادھر ادھر گھومتا رہتا۔ جو کچھ الم غلم ملتا اسے منہ میں ڈال لیتا۔ اب اسے بھوک بھی زیادہ لگنے لگی تھی۔ کبھی کبھار وہ تمس کے پاس بھی جاتا مگر گھڑکی کھاکر لوٹ آتا۔ کنتی جاتے وقت اس کے پاؤں میں رسی باندھ کر اس کا ایک سرا کھاٹ سے باندھ دیتی۔ اب بچہ ایک عام انسان کی طرح ایک مختصر اور مخصوص دائرے میں گھومتا رہتا۔

    اس دن شہر میں بھیانک قسم کا فساد پھوٹ پڑا۔ بستی بھی اس کی لپیٹ میں آ گئی۔ فسادات کی شدت کا اندازہ صرف اس ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ اندھا رجس شور و ہنگامہ سن کر اپنی جگہ سے اٹھا بھی نہ تھا اور ابھی اس کے منہ سے یہ دو لفظ کہ ’’کیا ہوا؟‘‘ادا بھی نہ ہوئے تھے کہ اس کی شہ رگ پر استرا پھیر دیا گیا۔ اس د ن پورا شہر شعلوں میں گھرا ہوا تھا۔ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ چند بوڑھی عورتیں اور بوڑھے مرد جھری دار چہرے اور پوپلے منہ لیے کبھی آسمان کی سمت دیکھتے اور کبھی زمین کی طرف اور کیچ بھری آنکھیں مچکا مچکاکر نہ جانے کیا کیا سوچتے۔

    بچہ اس دن رسی سے بندھا ہوا تھا اور اس کے اطراف کوئی بھی نہ تھا۔ قریب چار گھنٹوں سے وہ بھوکا تھا اور روتے روتے اس کی آواز بیٹھ گئی تھی۔ کھاٹ کے قریب کنتی کی پالتو کتیا بھربھری زمین پر ایک گڑھا بناکر پیر پسارے لیٹی تھی۔ سرخی مائل سیاہ تھنوں سے دودھ بہہ رہا تھا۔ گلابی گلابی گھنڈیوں میں سے کچھ پلوں کے منہ میں تھیں اور پلے جھومتے اور چہلیں کرتے دودھ پی رہے تھے اور بچہ ٹکٹکی باندھے حیران نظروں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ پلے ایک تھن کو چھوڑتے اور دوسرے میں منہ لگا دیتے۔ بچہ آہستہ آہستہ قریب آیا۔۔۔ پھر اور قریب، دودھ کی میٹھی خوشبو اسے بلا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ ایک دم قریب آ گیا اور پھر اپنائیت سے منہ تھن سے لگاکر چسر چسر دودھ پینے لگا۔

    کتیا نے ایک نظر اسے مڑکر دیکھا اور آسمان کی طرف سر اٹھاکر رونے لگی۔ جب تک کرفیو رہا، بستی میں افراتفری رہی۔ پھر جب اخبار اور ریڈیو کی خبروں کے مطابق حالات قابو میں آ گئے تو۔۔۔

    لیکن اب بچے کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔ اسے اب جب بھی بھوک لگتی، وہ بلاتکلف کتیا کی چھاتی سے منہ لگا دیتا اور سیراب ہو جاتا۔ کبھی تو ایسا ہوا کہ بچہ رات میں کنتی کے پاس سویا لیکن صبح پلوں کے درمیان سوتا ہوا پایا گیا۔ تمس جب بھی اسے پلوں کے درمیان دیکھتا، بے تحاشہ دھلائی کرتا۔ قیاؤں قیاؤں کرتے پلے تو بھاگ جاتے لیکن بچہ گم سم بیٹھا رہتا کہ کدھر جائے؟

    پھر جیسے ہی وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا، تمس نے اس کے ہاتھ میں تام چینی کا پیالہ تھما دیا۔ بچہ جو اب ڈاگی کے نام سے مشہور ہو گیا تھا، بھیک مانگنے چپ چاپ چلا جاتا لیکن اکثر راستہ بھول جاتا اور جب واپس آتا تو اپنے کٹورے میں پیسوں کی جگہ بسوں کے ٹکٹ، چھوٹے موٹے رنگین پتھر، ہری ہری خوش نما پتیاں اور جنگلی پھول جمع کرکے لاتا اور پھر بے تحاشہ مار کھاتا۔

    مارکھانے کے بعد وہ چاک اور کوئلوں کے ٹکڑوں سے عجیب عجیب تصویریں بنانا شروع کر دیتا۔ ان تصویروں کو دیکھنے کے بعد کبھی لگتا کہ جیسے چمتکا ہوا سورج ہے یا جیسے چھوٹے جھونپڑے، کھانا کھاتے ہوئے بچے، گھنی گھنی جھاڑیاں اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔ کبھی کبھار تو وہ بھیک مانگنے کے لیے جانے سے ہی انکار کردیتا اور تمس کی مار پر مار کھاتا، پٹتا اور چلاتا، ’’نہیں جاؤں گا، ہرگز نہیں جاؤں گا۔‘‘

    کنتی اسے سمجھاتی تو وہ چپ چاپ چلا جاتا۔

    مگر نہ جانے کیوں اسے بھیک مانگنے میں اتنا مزہ نہیں آتا تھا جتنا لوگوں کی جھڑکیاں اور ڈانٹ پھٹکار سن کر لطف آتا۔ کوئی اس میں دس بیس پیسے ڈال دیتا تو اسے مایوسی ہوتی لیکن اگر کوئی بھیک نہ دیتا تو اس کے پیچھے پیچھے جانے اور جھڑکیاں کھانے میں اسے بڑا مزا آتا۔

    ایک دن تمس کومعلوم ہوا کہ ڈاگی بھیک مانگنے کی بجائے کتوں کے ساتھ کھیل رہا ہے تو اسے بہت غصہ آیا۔ بیساکھی سنبھال وہ اس کی پٹائی کرنے کے لیے چل پڑا۔

    ہلاؤپل کے نیچے جہاں چار راستے آپس میں ملتے ہیں، موتری کے قریب ڈاگی کتوں اور بستی کے بچوں کے ہمراہ ایک عجیب و غریب کھیل کھیل رہا تھا۔ ایک طرف کچھ بچے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ ان کا رخ ایک طرف تھا۔ دوسری طرف کچھ بچے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ ان کا رخ دوسری طرف تھا۔ پھر ان کے درمیان ایک بچہ سانپ کی طرح رینگتا اور کھڑا ہوتا۔ وہ ان کے پیروں میں لپٹتا۔ بچوں کے منہ کھل جاتے۔ زبان باہر نکل آتی۔ سانپ بنا ہوا بچہ سانپ کی طرح ان کی زبان پر ڈنک مارتا۔ جڑے ہوئے ہاتھ نکل جاتے۔ پھر سانپ کی طرح رینگتا ہوا وہ بچہ دوسری طرف جاتا اور ایسا ہی ان کے ساتھ بھی کرتا۔ سینوں پر بندھے ہوئے ہاتھ کھل جاتے۔ پھر دونوں آمنے سامنے ہوجاتے اور اچھلتے کودتے، نعرے لگاتے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جاتے۔ ایک دوسرے کو کاٹتے، جھنجھوڑتے، تڑپتے اور پھر زمین سونگھنے لگتے۔

    گونجیلی آوازیں۔

    جلدی جلدی چلتی ہوئی سانسیں۔

    تنی ہوئی رگیں۔

    بدلی ہوئی نگاہیں۔

    سب کچھ کتنا سچ اور حقیقی تھا۔ چاروں طرف سے لوگ انہیں گھیرے ہوئے تھے۔ وہ ان کا کھیل دیکھتے، خوش ہوتے، تالیاں بجاتے اور پیسوں سے ان کا سواگت کرتے۔ تمس نے جب یہ منظر دیکھا تو اس کے دل کو ٹھنڈک پہنچی۔

    تھوڑے ہی دنوں میں ڈاگی شیطان کی طرح مشہور ہو گیا۔ ہر عمر اور ہر طرح کے لوگ اس کے چاہنے والوں میں تھے۔ بچے وہاں سے گزرتے تو چلا چلاکر اور ہاتھ ہلا ہلاکر ڈاگی کو بلاتے اور وہیں پہاڑ کے آخری سرے پر بیٹھا ڈاگی شاہانہ انداز سے مسکراکر ان کے گارڈ آف آنر کو قبول کرتا اور اس کے ساتھی کتے اچھلتے کودتے اس کے قدموں میں لوٹ جاتے اور پھر ایک دن یوں ہوا، جب کہ یوں نہیں ہونا چاہیے تھا، اسی دن کرفیو مکمل طور سے ختم ہوا تھا۔۔۔ اس شام ڈاگی کے ساتھی کتوں میں سے ایک منہ میں ہڈی لیے سڑک پار کر رہا تھا کہ اچانک ایک کار برق رفتاری سے سامنے آ گئی۔۔۔ کھٹاک سے کتے کا سر گاڑی سے ٹکرایا اور ربڑ کی گیند کی طرح ہوا میں اچھل گیا۔ بریک لگنے کی دل خراش آواز سنائی دی۔ کار ایک دھچکے کے ساتھ رکی۔ اسپرنگ پر دو تین ہچکولے کھائے اور تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ ٹائروں کے گھسنے سے سڑک پر دور تک سیاہ پٹیاں بن گئی تھیں۔

    کتا کار کے نیچے نہیں آیا تھا بلکہ کار سے ٹکراکر دو چار فٹ دور جاگرا تھا۔۔۔ دو تین منٹ کے بعد کتا اٹھا تو سہی لیکن سیدھا جانے کی بجائے ایک ہی جگہ گول گول چکرانے لگا۔ ہڈی اس کے منہ سے نکل گئی اور وہ گول گول ایک دائرے میں گھوم رہا تھا۔ لوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنسنے لگے۔ کھڑکی سے جھانکتے ہوئے لوگوں کی ہنسی چھوٹ پڑی۔ کتا نہ آگے آتا تھا نہ پیچھے جاتا تھا۔ بس گول گول چکرائے جا رہا تھا۔ لوگ بڑھتے گئے، تماشہ بڑھتا گیا۔ دو ایک شرارتی بچوں نے کتے کو پتھر مارے۔

    ’’ارے ہٹو۔۔۔ دور ہٹو۔۔۔ بچو اس سے۔ کتا پاگل ہو گیا ہے۔‘‘

    ’’پاگل کتا بہت خطرناک ہوتا ہے۔‘‘

    ’’یہ جسے کاٹ لے وہ بھی پاگل ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’مارو اسے۔‘‘

    ’’اسے جان سے مارڈالو۔‘‘

    بہت سی آوازیں آئیں۔ ساتھ ہی دوتین پتھر بھی پڑے۔ بس پھر کیا تھا۔ چاروں طرف سے پتھر برسنے لگے۔ دھپ، دھپ کھٹ، کھٹاک۔۔۔ کتے پر متواتر اینٹ اور پتھر برستے رہے اور وہ بڑی دردناک آواز میں قیاؤں قیاؤں کرتا رہا۔۔۔ ڈاگی اوپر پہاڑی کے نچلے سرے پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ زخمی کتے نے ایک نظر۔۔۔ بس ایک نظر خون آلود آنکھوں سے ڈاگی کی طرف دیکھا۔۔۔ نہ جانے ڈاگی کو اس کی آنکھوں میں کیا نظر آیا کہ اس کے اندر طوفانی موجیں سر اٹھانے لگیں۔ اندر سے باہر آنے کے لیے کوئی زور لگانے لگا۔ ایک تڑپ سی پیداہوئی۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دونوں ہاتھ خود بخود زمین پر جا ٹکے۔ بدن کی رگیں خیموں کے طنابوں کی طرح تن گئیں۔ سانس جلدی جلدی چلنے لگی۔ نگاہیں بدل گئیں۔ تیوری چڑھ گئی۔

    آنکھیں ڈراؤنی ہو گئیں۔

    منہ کا دہانہ بانچھوں کی طرح چر گیا۔

    سفید سفید دانت نظر آنے لگے۔

    منہ میں کف بھر آیا۔ پھر اس کے منہ سے ایک بہت تیز اور طویل غراہٹ نکلی اور پھر غراتے ہوئے ڈاگی نے شیر کی طرح پتھر مارنے والوں پر چھلانگ لگا دی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے