Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مرگ

MORE BYمنوچہر خوسرو شاہی

    بہار آتے ہی وہ نمودار ہوگئے تھے۔ شروع شروع میں کچھ بہت زیادہ نہیں تھے، بس کہیں کہیں دکھائی دے جاتے تھے کہ خود کو ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر گھسیٹ کر لیے جارہے ہیں، اور اس میں کوئی کوئی ہلکان ہوکر زمین پر ٹپک پڑتا۔ تم اس کے قریب جاتے تو دیکھتے کہ وہ کس طرح پڑے پڑے بل کھارہا ہے اور اتنی اتنی سی ٹانگیں ہوا میں چلا رہا ہے۔

    میں ان دنوں درخت پر بہت چڑھا کرتا تھا اور ان میں سے جو زمین پر آرہتے تھے ان کو روز دیکھتا تھا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ میں دیر دیر تک کسی ایک کے قریب کھڑا اس کے ہاتھ پاؤں مارنے کا تماشا دیکھتا رہتا۔ اس کی جدوجہد بیکار جاتی اور اسے سنبھلنا نصیب نہ ہوتا۔ ہمیشہ یہی ہوتا تھا۔ جو بھی نیچے ٹپکتا، پہلے تو بڑا زور لگاتا، بل کھاتا، ہاتھ پاؤں پھینکتا، لیکن رفتہ رفتہ سست پڑنے لگتا اور آخر اپنی جگہ پر لمبا لمبا لیٹ جاتا۔ اورٹھیک اس وقت چیونٹیوں کی پہلی کھیپ آپہنچتی، اور میں دیکھتا کہ کس طرح وہ اس کے گرد چکر کاٹ رہی ہیں اور اپنے چھوٹے چھوٹے سینگوں سے چھو چھوکر اس کی جسامت کااندازہ کر رہی ہیں۔

    ان کے پہلے لمس سے اس نڈھال بدن میں دوبارہ جان سی پڑجاتی۔ وہ سنبھالا لیتا اورپھر سے بل کھانے لگتا۔ کئی بار اس کی ٹانگوں کو جھٹکے لگتے، لیکن اب مہلت نہیں مل سکتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چیونٹیاں کسی ان دیکھے مرکز سے ابلتی چلی آرہی ہیں۔ دیکھتے دیکھتے وہ اس کے پورے بدن کو ڈھانپ لیتیں اور سب اسے اپنی اپنی طرف کھینچتیں، اس کا ایک ایک ریزہ نوچ کر لے جاتیں۔ پھر اس بے ہیئت وجود میں نمی کی جو دو ایک بوندیں رہ جاتیں انھیں دھوپ چوس لیتی اور تھوڑی دیر بعد تم دیکھتے کہ کس طرح وہ سوکھا، سیاہ اور نچا کھچا، درخت کے نیچے پڑا رہ گیا ہے۔

    چیونٹیاں بڑی پھرتی سے اپنا کام کرتی تھیں۔ سورج ڈوبتے ڈوبتے چھٹی کر دیتیں اور ان کچلے اور سوکھے ہوئے جسموں میں سے چند ٹیڑھی میڑھی اور ٹوٹی پھوٹی ٹانگوں کے سوا کچھ نہ رہ جاتا۔

    ہاں، یہی ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو میں جب بھی دیکھتا کہ ان میں سے کوئی نیچے ٹپکا ہے تو اس کے قریب پہنچ جاتا اور اس کھیل کو آخر تک دیکھتا تھا، لیکن اس کے بعد ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اگر دنیا بھر کی چیونٹیاں اکٹھا ہوجاتیں تو بھی ان کو ٹھکانے نہیں لگا سکتی تھیں۔

    کبھی کبھی، جب رات کو میری نیند اڑی ہوئی ہوتی، میں بستر میں بیٹھا کان لگائے رہتا۔

    ٹپ۔۔۔ لو، ایک اور۔۔۔

    *

    اس کے بعد مجھے رات رات بھر جاگتے گزرنے لگی، اس لیے کہ یہ آواز مستقل میرے کانوں میں آتی رہتی تھی۔

    ایک رات میں کھڑکی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے ماں کے رونے کی آواز سنائی دی۔ وہ میرے سامنے بار بار روئی تھی۔ میں اس کا رونا پہچانتا تھا، چھوٹی چھوٹی ہچکیاں، اور بین جو سمجھ میں نہیں آتے تھے، جیسے اپنے آپ کو مرثیہ سنا رہی ہو۔ اس رات میں نے اس کا رونا سنا تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے اندر سے کوئی شے چیخ کر الگ ہوگئی۔ میں کپکپا کر رہ گیا اورمجھ کو ساری دنیا گریہ کرتی معلوم ہوئی۔ ماں کی ہچکیوں کی آواز فضا میں پیچ کھاتی اور پھر ان کی ٹپ ٹپ کی آواز میں مل کر ایک ہوجاتی۔ وہ لگاتار ٹپک رہے تھے اورماں رو رہی تھی، روئے جارہی تھی۔

    میں چیخیں مارتا ہوا کمرے سے باہر لپکا، اورٹھیک اس وقت کوئی چیز میرے سر پر گری۔۔۔ ٹپ۔۔۔ پھر مجھے کچھ یاد نہ رہا۔

    *

    ماں کہنے لگی،

    ’’یہ درخت اب کی گرمیوں تک نہیں رہ پائے گا۔ سارے گھر میں چیونٹیاں بھر گئی ہیں، کیڑوں کو لے جانے کے لیے جھنڈ بنا بنا کر آتی ہیں، مگر یہ تو اتنے ہوگئے ہیں کہ چیونٹیوں کے بس کے نہیں رہے۔ دن میں کتنی کتنی بار صحن میں جھاڑو دیتی ہوں، کچھ فائدہ نہیں۔ اب تو کوڑا گاڑی ہمارے یہاں سے بس کیڑے اور چیونٹیاں ڈھونے بھر کی رہ گئی ہے۔‘‘

    ہمارے گھر کا اکیلا درخت کیڑوں میں بدلا جارہا تھا اور چیونٹیاں انھیں اپنے بلوں میں لیے جارہی تھیں۔ اب کے انھیں جاڑوں کی خوراک کی کوئی پریشانی نہیں تھی۔

    وہ انڈے دیتیں اور بہار آتی تو جوان چیونٹیاں بلوں سے رینگتی ہوئی باہر آتیں۔ بہار آتی توہمارا درخت بھی چیونٹیوں کی صورت جوان ہوکر ابھرتا تھا۔

    ہمارے گھر کا اکیلا درخت جو آتے جاتے موسموں کا آئینہ تھا، جاڑوں میں اس کی شاخیں ننگی ہوجاتیں۔ ایسا معلوم ہوتا کہ وہ سردی سے کانپ رہا ہے اور بے مروّت آسمان سے ذرا سی دھوپ کی بھیک مانگ رہا ہے۔ بہار آتی توہری ہری صاف ستھری پتیوں سے خود کو سجا لیتا اورگئی بہاروں کی یاد تازہ کرتا۔ اور گرمیاں۔۔۔ گرمیوں میں تو ہم سبھی اس کے محتاج رہتے۔ وہ اپنی چھاؤں بے دریغ ہم پرلٹاتا اورخود جھلستی دوپہروں کی دھوپ کا جم کر مقابلہ کرتا۔ شام ہوتے جب سورج ڈوبنے لگتا اور درخت کا سایہ دور تک پھیل جاتا تو صحن میں جھاڑو دی جاتی، چھڑکاؤ کیا جاتا اور درخت کے نیچے قالین بچھا دیا جاتا۔ سماور کی سریلی سنسناہٹ اورپیالیوں طشتریوں کی کھنک سنائی دیتی۔ ہڑبڑائی ہوئی ماں جلدی جلدی سب سامان تیار کر کے لگا دیتی، اور میں الکسایا ہوا کمرے سے باہر نکلتا اور سماور کی چوکی کے پاس ا ٓبیٹھتا۔

    گزشتہ گرمیوں تک یہی معمول تھا۔ گزشتہ گرمیوں تک میرا باپ زندہ تھا۔ اس کا تخت اسی درخت کے نیچے بچھایا جاتاتھا۔ ہم دو لوگ اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے لاتے۔ یہیں پر وہ ہلکا چادر اوڑھے لیٹا رہتاتھا۔ ماں اس کا سرہانہ ٹھیک کرتی اور وہ تکیے سے ٹیک لگائے دھیرے دھیرے ہانپتا اور ہمیں دیکھتا رہتاتھا۔ وہ مفلوج تھا۔ موت نے اس پر وار کیا تھا جو کاری نہیں پڑا، وہ فقط اپاہج اور گونگا ہوگیا تھا۔

    معالجوں کا کہنا تھا امید رکھنا چاہئے۔ اگر وہ دوسرے حملے کو بھی جھیل لے جائے۔۔۔ دوسرا وار۔۔۔ میں جانتا تھا کہ وہ دوسرے وار کو نہیں روک پائے گا۔

    کبھی کبھی ایک بڑے میاں، جو ہمارے یہاں آنے جانے والے واحد پڑوسی تھے، میرے باپ کی احوال پرسی کے لیے آ نکلتے اور چائے کے برتنوں کے پاس کچھ دیر بیٹھتے، ان کی ٹھوڑی ہلتی رہتی اورنقلی دانتوں کا ڈھیلا چوکا منھ میں ادھر ادھر ہوا کرتا۔ وہ میرے باپ کے سوکھے ہوئے شانے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتے، ’’کہو بھئی، کیا حال ہے؟ ٹھیک ہو؟‘‘

    پھرتسبیح گھما گھما کر وظیفہ پڑھنے لگتے۔ ماں اپنا چہرہ ڈھانک کر ایک طرف سمٹ جاتی۔ بڑے میاں اس سے بات نہیں کرتے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر چلے جاتے اور گھر پھر سے خالی ہوجاتا۔

    گرمیاں نکل گئیں۔ شروع جاڑوں میں موت نے دوسری اور کاری ضرب لگا ہی دی۔ اب اگر درخت گرمیوں تک رہ بھی جاتا، اگر سارے کیڑے اورچیونٹیاں غائب بھی ہوجاتیں اور یہ کابوس جاتا بھی رہتا، اور پھر سے شام کو صحن میں جھاڑو اور چھڑکاؤ کی ہما ہمی ہونے لگتی اور سماور سے سریلی سنسناہٹ بلند ہوا کرتی، تو بھی میرا باپ نہ ہوتا کہ تخت پر پڑا دھیرے دھیرے ہانپتا رہے اور ہمیں دیکھتا رہے۔

    *

    درخت گرمیوں تک نہیں رہ پائے گا، جیسے میرا باپ نہیں رہ پایا۔ درخت آہستہ آہستہ مرچلا تھا۔ اندر ہی اندربوسیدہ ہو ہوکر کیڑوں کی شکل میں باہر ٹپک رہا تھا اور سیدھا چیونٹیوں کے پُرپیچ، تاریک، رازوں بھرے تہہ خانوں میں پہنچ رہا تھا اور وہاں اس کا انبار لگ رہا تھا۔

    درخت مر رہا تھا اور ہمارا خالی گھر اور بھی خالی ہوا جارہا تھا۔

    آخر چارہ جوئی شروع ہوئی۔ پہلے تو میں نے پڑوس والے بڑے میاں کوبلوا بھیجا جو میرے باپ کے فاتحے کے بعد سے ہمارے یہاں نہیں آئے تھے، البتہ کبھی کبھار گلی میں آتے جاتے ملتے تو صاحب سلامت اور مختصر احوال پرسی کرلیا کرتے تھے۔ وہ غروب کے وقت آئے۔ کچھ شرمندہ، کچھ افسردہ سے تھے۔ ہاتھ میں وہی سی تسبیح دھیرے دھیرے گھما رہے تھے۔ ماں سر سے چادر اوڑھ کر دروازے کے پاس آ بیٹھی۔ بڑے میاں نے آہستہ سے حال پوچھا، وہی ہمیشہ والی احوال پرسی جو میرے باپ سے ہوتی تھی،

    ’’کہو بھئی، کیا حال ہے؟ ٹھیک ہو؟‘‘

    میں نے انھیں معاملہ بتایا۔ اس وقت میں تھوڑا جھنجھلایا ہوا تھا۔ بڑے میاں کسی سوچ میں ڈوب گئے، پھر بولے، ’’چلو، ذرا دیکھیں تو۔‘‘

    میں نے چراغ جلایا اور ہم اندر صحن میں آگئے۔

    درخت بھر پر کیڑوں کے ردّے جمے ہوئے تھے۔ پھر’’ٹپ ٹپ‘‘ کی آوازیں سنائی دیں۔ ماں بولی، ’’ابھی شام ہی کو جھاڑو دے کر باہر پھینک چکی ہوں۔ اسی طرح ٹپکے جارہے ہیں۔ اے اللہ تو ہی کچھ کر۔‘‘

    بڑے میاں کا سر جھکا ہوا تھا۔ وہ منھ ہی منھ میں کچھ بڑبڑا رہے تھے اورکیڑوں کو گھور رہے تھے۔ پھر انھوں نے گردن اٹھائی اور درخت کے تنے اور ٹہنیوں کو دیکھا کہ کوڑھیوں کے بدن کی طرح گل رہے ہیں۔

    پھر ہم کمرے کے اندر آگئے۔ چراغ کی روشنی میں یہ دیکھ کر میں سن رہ گیا کہ ایک کیڑا بڑے میاں کے شانے پر سے ٹپکا اور فرش پر بل کھانے لگا۔ میں نے جلدی سے بڑھ کر اسے مارا اورکمرے کے بیچ میں ڈال دیا۔ ماں لپکی، اسے ایک کاغذ سے پکڑ کراٹھایا اورباہر پھینک آئی۔

    بڑے میاں کہنے لگے، ’’میں سوچ رہا تھا مٹی بدلوادی جائے، لیکن اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ مٹی میں بھی کیڑے پڑ گئے ہیں۔ اب کوئی صورت نہیں۔ لکڑ ہاروں کو بلوانا ہوگا۔‘‘

    دوسرے دن آدمی آگئے۔ بڑے میاں نے انھیں بھیجا تھا کہ درخت کو جڑ سے کھود کر لے جائیں۔

    *

    ماں کمرے کے اندر تھی۔ چادر والیاں اس کو گھیرے ہوئے تسلی دے رہی تھیں۔ ہر طرف رونے کی آواز تھی۔ مرد پہلو والے کمرے میں جمع ہوگئے تھے۔ سب اکتائے ہوئے اور اداس اداس تھے۔ ابھی صبح ہوئی تھی لیکن معلوم ہوتا تھا اندھیرا ہورہا ہے۔ سیاہ، متحرک پر چھائیوں سے کمرے بھرے ہوئے تھے۔ میرا باپ عقبی کمرے میں تخت پر سیدھا سیدھا لیٹا تھا اور مرا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ ڈھک دیا گیا تھا۔ رات سے صبح تک قرآن خواں اس کے سرہانے تلاوت کرتا رہا تھا۔ میں اور میری کھلائی ایک کونے میں سکڑے بیٹھے تھے۔ قرآن خواں نے صبح تک دم بھر کو بھی تلاوت نہیں روکی تھی۔ آدھی رات گئے مجھے نیند آگئی تھی اور میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرا باپ دونوں ہاتھ پھیلائے صحن کے بیچوں بیچ کھڑا ہے اور اس کا سارا بدن کیڑوں سے ڈھکا ہوا ہے۔

    مجھے ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جب بھی ان میں کوئی کیڑا نیچے ٹپکتا ہے، میرا باپ تھوڑا سا سکڑ جاتا ہے۔ لیکن وہ ہنس رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہنس رہا ہے اور ریزہ ریزہ ہوا جارہا ہے۔ میں چیخیں مارتا ہوا اس کی طرف دوڑا، اور میری آنکھ کھل گئی۔ قرآن خواں کی آواز، رات کی سیاہی کو بڑھاتی ہوئی، اندھیرے میں تیرتی چلی جارہی تھی۔ میرا باپ تخت پر سیدھا سیدھا لیٹا ہوا تھا۔ پوشش کے نیچے اس کا بدن چھوٹا سا معلوم ہورہا تھا۔

    روشنی پھیلی، قرآن خواں کی آواز تھم گئی، سیاہ لباس والے آنا شروع ہوئے اور کمرے ان سے بھر گئے۔ پھر اچانک ساری آوازیں بند ہوگئیں اور میں نے سنا کہ میرے باپ کو لے جانے کے لیے لاش گاڑی آگئی ہے۔

    *

    چھکڑا دروازے پر کھڑا تھا۔ درخت جڑ سے اکھڑ چکا تھا اور بیچ صحن میں سیدھا سیدھا لیٹا تھا۔ کیڑوں سے صحن کے فرش کی اینٹیں چھپ گئی تھیں۔ چیونٹیاں بولائی ہوئی سارے میں دوڑتی پھر رہی تھیں، بدحواس ہورہی تھیں، اورآدمی گڑھے کے کنارے کھڑے تھے اور ماتھوں سے پسینہ پونچھ رہے تھے۔ گڑھے کے ایک طرف مٹی کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔

    *

    دو آدمی گڑھے کے اندر کھڑے تھے۔ میت لائی گئی تو انھوں نے اسے ہاتھوں پر سنبھال کر نیچے رکھ دیا۔ سب نے درود پڑھا۔ عورتوں کے بین اور بلند ہوگئے اور مردوں کے شانے زیادہ زور زور سے ہلنے لگے۔ ایک ہٹی کٹی عورت ماں کو چھا پ بیٹھی اور اسے تسلی دینے لگی۔ ماں اس کی توند کے نیچے دبی ہوئی کسی چوزے کی طرح کانپ رہی تھی۔ اب سب میرے باپ کو مٹی دینے لگے۔ وہ گٹھری کی طرح سمٹ کر چھوٹا سا رہ گیا تھا۔ مٹی کے نیچے کہیں کہیں اس گٹھری کی سفیدی نظر آرہی تھی، لیکن یہ سفید دھبے دھیرے دھیرے غائب ہورہے تھے اور ان پر مٹی کی تہہ چڑھتی جارہی تھی۔ رونے پیٹنے کی آوازیں بڑے آہنگ اورباقاعدگی کے ساتھ اونچی ہوتی جاتیں، پھرنیچے آتیں، پھر رفتہ رفتہ اونچی ہوتی جاتیں۔ کوئی کوئی آواز ایسی بھی تھی کہ لمحہ بھر کو کان سے ٹکراتی اور دوسرے لمحے غائب ہوجاتی۔ معلوم ہوتا تھا مدتوں اس کی مشق کی گئی ہے۔

    *

    گڑھا پاٹا جاچکا تھا اور اب اینٹیں چننا تھیں۔ صحن میں چیونٹیاں اورکیڑے اورآدمی بھاگتے پھر رہے تھے۔ صحن کا دروازہ پاٹوں پاٹ کھول دیا گیا تھا اور درخت کو باہر گھسیٹا جارہا تھا اور صحن میں کیڑوں کے گچھے کے گچھے پڑے رہ گئے تھے۔ درخت ہر طرف بیجوں کی طرح کیڑے چھڑکتا ہوا جارہا تھا۔ اسے چھکڑے پر لادا گیا تو اس کی جڑ اوپر تھی اور شاخیں زمین پر رگڑ کھا رہی تھیں۔ دروازے اور کھڑکیوں سے سر نکلے ہوئے تھے، جیسے مٹی کی دیواروں پر پھولدار میخیں ٹھونک دی گئی ہوں۔

    میں دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے کمرے میں بیٹھ رہا۔ ماں بید کی طرح تھرتھرا رہی تھی، آپ ہی آپ بل کھارہی تھی اور چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔ ہٹی کٹی عورت نے اسے چھاپ کر اس کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھے تھے۔ باہر سے کیڑے اور چیونٹیاں کمروں کی طرف بڑھتی چلی آرہی تھیں۔ چیونٹیاں پہلے پہنچیں اور دیواروں اور کھڑکیوں پر ہوتی ہوئی اوپر چڑھنے لگیں۔

    اچانک میں نے دیکھا۔ صحن کے بیچ میں، جہاں پر درخت ہوا کرتا تھا، جہاں پر اب اینٹیں چن دی گئی تھیں، جہاں پر زمین تھوڑی اونچی ہوگئی تھی، ٹھیک اس جگہ، میں نے بڑے میاں کو دیکھا۔ وہ سلاخ کی طرح سیدھے کھڑے تھے اور انہوں نے دونوں ہاتھ پھیلا رکھے تھے اور ان کے سارے بدن پر کیڑے رینگ رہے تھے اور میں نے پھر وہی جہنمی آواز سنی،

    ٹپ۔۔۔ ٹپ۔۔۔ ٹپ۔۔۔

    *

    درخت جاچکا تھا اور اپنی جگہ کیڑے اور چیونٹیاں چھوڑ گیا تھا۔

    مجھے محسوس ہوا کہ میرا مکان گرنے ہی والا ہے۔ اس کی ایک ایک چیز بوسیدہ ہوتی جارہی تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ کیڑے اس کے کھمبوں کے نیچے اس اور نیو کے اندر سے کلبلاتے ہوئے اوپر آرہے ہیں۔ دیواروں میں، چھتوں میں، کھڑکیوں میں، ہر جگہ کیڑے بجبجا رہے تھے۔ مکان گرنے والا تھا، بکھرنے والا تھا، ریزہ ریزہ ہونے والا تھا۔ وہ ہٹی کٹی عورت جس کے نیچے میری ماں چوزے کی طرح لرز رہی تھی اور چیخ رہی تھی، اس کو بھی کیڑے اندر ہی اندر کھائے جارہے تھے۔ میں بھی اور میری ماں بھی، ونوں ریزہ ریزہ بکھرے جارہے تھے۔

    ہم سب کیڑوں کے مل جانے سے بنے تھے، اور اب کیڑے الگ الگ ہورہے تھے اور باہر ٹپک رہے تھے، اور چیونٹیاں انھیں کھینچے لیے جارہی تھیں اورآخر ہم بھی اسی درخت کی طرح چیونٹیوں کے گوداموں میں ذرہ ذرہ انبار ہورہے تھے۔۔۔ ہمارا گھر اپنی تمام یادوں سمیت، تمام قہقہوں، سسکیوں، الجھنوں، کڑوی باتوں، میٹھے بولوں کی نامحسوس جھلکیوں سمیت، اپنی تنہائی بھری فضا سمیت چلا جارہا تھا، ہاتھ سے نکلا چلا جارہا تھا۔

    مجھے خیال ہوامیں نے بیکار ہی میں دروازے اورکھڑکیاں بند کر رکھی ہیں۔ وہ آکے رہیں گے، وہ کمروں کے اندر ہی موجود ہیں، وہ ہمارے رگ رگ میں اتر چکے ہیں۔ وہ ہم کو آہستہ آہستہ، ذرہ ذرہ، کھارہے ہیں۔ وہ ہم کو اندر ہی اندر گلا رہے ہیں۔

    میں اٹھا۔ میں نے کرسی اٹھائی اور پوری طاقت سے کھڑکی پردے ماری، اور خود کو کمرے کے باہر ٹپکا دیا۔

    (فارسی عنوان، ’’مرگ‘‘)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے