‘’شاید آپ لوگوں کو مریض کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔’‘
ڈاکٹر بابوجی کو چیک کرکے ان پربھڑک اٹھا۔
‘’ان کو ایڈمٹ کرنا بےحد ضروری ہے۔ ان کا فوراً خون، شوگر، یورین ٹیسٹ کیجئے، سٹی اسکین کرنےکی ضرورت ہے۔ بدن کی سونو گرافی اور چھاتی کےایکسرےکی رپورٹ آنے کے بعد صحیح طور پر علاج کرنا ممکن ہوگا۔ میں ابتدائی علاج شروع کروادیتا ہوں۔’‘
ڈاکٹر نے کہتے ہوئے دو تین پرزے ان کی طرف بڑھا دئے۔
اور مڑ کر اپنے پاس کھڑی نرسوں کو ہدایتیں دینے لگا۔ نرسوں نےوارڈ بوائز کو آواز دی اور اس کےبعد وارڈ بوائز کی ہلچل شروع ہو گئی۔
وہ ایک اسٹریچر لے آئے اور پیروں پر چل کر اسپتال آنے والے بابوجی کو اسٹریچر پر ڈال کر لے جایا جانے لگا۔
‘’ڈاکٹر جنرل وارڈ میں جگہ نہیں ہے۔’‘ ایک نرس نے آکر اطلاع دی۔
‘’ٹھیک ہےمریض کو کسی پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دو۔’‘ ڈاکٹر نے حکم دیا۔
‘’افسوس ڈاکٹر کوئی پرائیویٹ روم بھی خالی نہیں ہے۔’‘ نرس بولی۔
‘’اوہو! مریض کو ایڈمٹ کرکے اس کا علاج کرنا بہت ضروری ہے, ٹھیک ہے! کسی اے۔ سی روم میں ہی شفٹ کر دو۔’‘ ڈاکٹر بولا
ڈاکٹر کی بات سن کر نرس اس کا منہ دیکھنے لگی۔
‘’اس طرح میرا منہ کیوں دیکھ رہی ہو؟’‘ ڈاکٹر چِڑ کر بولا۔
‘’اے۔ سی۔ روم کے چارجز! آپ مریض کے رشتہ داروں سےبھی تو پوچھ لیجئے!’‘ نرس رک رک کر بولی ‘’اب پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟’‘ ڈاکٹر غصہ سےبولا۔ ‘’مریض میرا ہے، میں مریض کی پوزیشن اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ یہ لوگ مریض کا علاج کرنے کے لئے یہاں آئے ہیں۔ اگر وہ فوراً اس سلسلےمیں کوئی فیصلہ نہیں کرتے ہیں تو مریض کی جان کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔’‘
کہتا وہ تیز تیز قدموں سےایک طرف چل دیا۔
وہ سب ایک دوسرےکا منہ دیکھنے لگے۔
اِس درمیان وارڈ بوائز بابوجی کو لےکر پتہ نہیں کہاں چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر کے چلے جانے کے بعد انھیں ہوش آیا کہ ابھی تک انھیں اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ بابوجی کو کہاں ایڈمٹ کیا گیا ہے۔ تو وہ گھبراکر ایک طرف دوڑ پڑے اور انھوں نے ایک نرس کو روک کر پوچھا۔
‘’سسٹر! ہمارےبابوجی کو کہاں ایڈمٹ کیا گیا ہے؟’‘
‘’بابوجی کو اوپر والے فلور پر اے۔ سی روم نمبر ٠١ میں ایڈمٹ کیا گیا ہے۔ دو اسپشلسٹ ڈاکٹر آئے ہیں اور وہ آپ کے بابوجی کی جانچ کر رہےہیں۔ ابھی آپ ان سےنہیں مل سکتے، ان کا علاج شروع ہو چکا ہے۔’‘ نرس بولی۔ نرس کی بات سن کر وہ سب ہکا بکا رہ گئے۔
‘’ہے بھگوان! انھیں کیا ہو گیا ہے؟ ابھی تک تو اچھے بھلے تھے۔“ ماں نےاپنا دل تھام لیا۔
اور وہ یہ طےنہیں کر پا رہا تھا کہ بابوجی سچ مچ اچھے تھے یا ان کی حالت اتنی غیر ہوگئی تھی کہ اگر وہ تھوڑی دیر اور انھیں یہاں نہیں لاتے تو ان کی جان کو خطرہ پیدا ہو جاتا؟
دو دن سےبابوجی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔
ویسے وہ جب سےریٹائر ہوئے تھے، تب سےہی ان کی طبیعت نرم گرم رہتی تھی۔ اِس بار بھی طبیعت خراب ہوئی تو اسی ڈاکٹر کی دوائی شروع کی تھی جس کا وہ علاج کرنے آئے تھے۔
سویرے بابوجی نے بتایا۔
‘’اس بار مجھےکوئی فرق محسوس نہیں ہو رہا ہے۔ تکلیف بڑھتی جا رہی ہے، سانس لینےمیں دشواری ہو رہی ہے، سر درد سے پھٹا جا رہا ہے، بار بار آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا جاتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔’‘ بابوجی کی بات سن کر اس نے ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر سے بات کی۔
‘’دیکھئے عمر کا تقاضہ ہے۔ اس طرح کی بیماریاں اور شکایتیں تو ہوں گی، اس کی وجہ کوئی بڑی بیماری بھی ہو سکتی ہے۔ اچھا ہے آپ کسی بڑے اسپشلسٹ کو دکھا دیں۔ میں ایک ڈاکٹر کے نام چٹ لکھ دیتا ہوں، وہ مرض کو بہت جلدی پرکھ لیتا ہے۔’‘
اور وہ بابوجی کو اس ڈاکٹر کے پاس لے کر آئے تھے۔
پورے تین گھنٹے تک لائن میں بیٹھ کر انھوں نے اپنی باری کا انتظار کیا تھا۔
جب ان کا نمبر آیا تو آدھےگھنٹے تک ڈاکٹر نے طرح طرح کے آلات سے بابوجی کو اچھی طرح سےچیک کیا تھا اور ان سے اور بابوجی سےسیکڑوں سوالات کئے تھے۔
اور اس کے بعد فیصلہ صادر کر دیا تھا۔
بوجھل قدموں سے چلتے وہ اوپر کےفلور پر آئے اور روم نمبر ٠١ کے سامنے ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ ماں زار و قطار رو رہی تھی۔ پونم اور ودیا اسے تسلی دے رہی تھیں۔
‘’ماں جی! آپ اپنےآپ کو سنبھالئے، بابوجی کو کچھ نہیں ہوا ہے، وہ جلد ٹھیک ہوج ائیں گے، ان کی تکلیف دور کرنے کے لئےہی تو ہم انھیں اسپتال میں لائے ہیں۔ ایک دو دن میں وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔’‘
وہ اور اشوک ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ چاہ کر بھی ایک دوسرے سے کچھ کہہ نہیں پا رہے تھے۔
سوچا کہ رینوکا اور وشاکھا کو بھی بابوجی کی حالت سےمطلع کیا جائے۔
لیکن ماں نےانھیں منع کر دیا۔
‘’بابوجی کی بیماری کی خبر سُن کر دونوں پریشان ہو جائیں گی اور بال بچوں کو چھوڑ کر دوڑی آئیں گی۔ وشاکھا تو خیر ٠١ کلومیٹر دور رہتی ہے، لیکن رینوکا ۱۰۰ کلومیٹر دُور رہتی ہے۔۔۔ انھیں پریشان نہ کیا جائے۔’‘
‘’ماں تمہارا کہنا درست ہے، لیکن بعد میں وہ ہم پر الزام لگائیں گی کہ بابوجی کی طبیعت اتنی خراب ہو گئی اور ہم نے انھیں مطلع بھی نہیں کیا۔’‘ پونم اور ودیا بولیں
اور ان کےچہروں کو کچھ اس طرح تاکنے لگیں، جیسے ان سے سوال کرر ہی ہو کہ اِس بات کی روشنی میں وہ دونوں فوراً کوئی فیصلہ لیں۔
اندر ایک گھنٹےتک پتہ نہیں کیا کیا چلتا رہا۔ کبھی کوئی نرس باہر آتی تو کوئی اندر جاتی، کبھی کوئی ڈاکٹر کسی نرس کو ہدایتیں دیتا باہر آتا تو کبھی دوسرا کوئی ڈاکٹر نرس سے باتیں کرتا کمرے میں جاتا۔
ڈیڑھ گھنٹے کےبعد جب انھیں بابوجی کو دیکھنےکی اجازت ملی تو بابوجی کو دیکھ کر ان کا کلیجہ دھک سے رہ گیا اور ماں تو دہاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔
بابوجی بےہوش پلنگ پر لیٹے تھے۔ ان کی ناک پر ماسک لگا ہوا تھا۔ آس پاس ایک دو مشینیں لگی تھیں، جن کے وائر ان کے دماغ اور دل کےقریب کے مقامات سے جڑے تھے۔ مشینوں پر ایک برقی رو بجلی سی لہرا رہی تھی۔ دونوں ہاتھوں میں سرنج لگی تھی۔
‘’شش! ماں جی آپ شور مت کیجئے، مریض کو تکلیف ہوگی، آپ انھیں دیکھ کر چلے جائیے۔ ان کی دیکھ بھال کرنے کے لئے ہم موجود ہیں۔’‘ نرس نے ماں کو پیار سے ڈانٹا۔ انھیں زیادہ دیر بابوجی کے پاس رکنے نہیں دیا گیا۔
ایک نرس دواؤں کی ایک لمبی لسٹ اسے تھما گئی۔
‘’یہ دوائیں فوراً لے آئیے۔ نیچے میڈیکل میں مل جائیں گی۔’‘
اس نے وہ لسٹ اشوک کی طرف بڑھا دی۔ اشوک دوائیں لانے کے لئے نیچے چلا گیا۔
آدھے گھنٹے بعد وہ واپس آیا۔
‘’کیا بات ہے؟’‘ اس نے اشوک سے پوچھا ‘’دوائیوں کا بل ساڑے چار ہزار روپیہ ہوا ہے۔“ اشوک بولا۔ ‘’اور میری جیب میں اس وقت صرف تین ہزار روپے ہی ہیں۔’‘
اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسےنکالے اور ۵۱ سو روپےگن کر اشوک کی طرف بڑھا دئے اشوک کےجانےکےبعد ایک نرس ایک چٹھی لےکر آئی۔
‘’آپ مسٹر دیانند بھارگو کے بیٹےہیں ؟’‘
‘’جی ہاں!’‘
‘’آپ ٥١ ہزار روپےکیش کاؤنٹر پر جمع کرا دیں۔ اس اسپتال میں مریض کو داخل کرنے کے ساتھ ٥١ ہزار روپے پیشگی جمع کرنا ضروری ہوتا ہے۔’‘
‘’لیکن میں تو اتنے پیسے لےکر نہیں آیا ہوں؟’‘ وہ ہکلایا۔
‘’تو گھر جاکر لے آئیے۔ ہمار کیش کاؤنٹر رات میں ٢١ بجے تک کھلا رہتا ہے۔’‘
‘’لیکن سسٹر رات کے٠١ بج رہےہیں، اتنی بڑی رقم گھر میں تو موجود نہیں ہو سکتی جو میں جاکر لے آؤں؟ کل بینک کھلنے پر رقم میں لاکر جمع کرا دوں گا۔’‘ وہ بولا۔
‘’دیکھئے! آپ کا مریض ایڈمٹ کر لیا گیا ہے، اس لئے اصولوں کےمطابق پیشگی رقم جمع کرانا بہت ضروری ہے۔ آپ کسی سے ادھار لے آئیے، سویرے اسےلوٹا دینا۔ اگر ممکن نہیں ہے تو آپ ڈاکٹر سے بات کریں۔’‘ نرس کہہ کر چلی گئی۔
نہ تو گھر میں اتنی بڑی رقم تھی اورنہ ہی اتنی بڑی رقم کا انتظام ممکن تھا۔
اس نے اس سلسلے میں ڈاکٹر سے بات کرنی ہی مناسب سمجھی۔ ڈاکٹر سے اس نے جب اس سلسلے میں بات کی اور یقین دلایا کہ سویرے گیارہ بجے تک وہ ٥١ ہزار روپے لاکر جمع کرا دےگا تو ڈاکٹر نے اسے رعایت دے دی۔
ایک گھنٹے کے بعد انھیں گھر جانے کے لئے کہا گیا۔ نرسوں کا کہنا تھا کہ مریض کے پاس کسی کو بھی رکنے کی ضرورت نہیں۔ مریض کی دیکھ بھال کے لئے وہ ہیں۔ لیکن جب انھوں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو وہ اس بات کے لئے راضی ہو گئے کہ چاہے تو وہ یا اشوک رات کو اسپتال میں بابوجی کے پاس رک سکتے ہیں۔
اشوک نے اسے گھر جانے کے لئے کہا۔ وہ بابوجی کےپ اس رک گیا۔ وہ، پونم، ودیا اور ماں گھر واپس آ گئے۔
ماں بابوجی کے پاس رکنے کے لئے ضد کر رہی تھی۔ بڑی مشکل سے انھوں نے اسے سمجھایا۔
دوسرے دن ٢١ بجے کے قریب وہ پیسوں کا انتظام کرکے اسپتال گیا۔ اس نے ٥١ ہزار روپے کیش کاؤنٹر پر جمع کرا دئےاور اشوک سے بابوجی کی طبیعت کے بارے میں پوچھا۔
‘’رات بھر تو بےہوش رہے یا سوتے رہے، کچھ سمجھ میں نہیں آ سکا۔ سویرے ہوش آیا تو ان کا سٹی اسکین اور سونو گرافی اور ایکسرے لیا گیا، خون وغیرہ تو رات میں ہی ٹیسٹ کر لیا گیا تھا۔ سب کی رپورٹ شام تک آ جائےگی۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ شام کو وہ ان رپورٹوں کی بنیاد پر صحیح طور پر بتا سکےگا کہ بابوجی کو کیا بیماری ہے؟’‘
”ٹھیک ہے اب تم گھر جاؤ میں بابوجی کے پاس رہتا ہوں۔’‘ اس نے اشوک سے کہا۔
‘’گھر جاکر بھی کیا کروں گا ؟’‘ اشوک بولا۔ ‘’آج تو آفس سےچھٹی ہی لینی پڑی۔ دوپہر تک رکتا ہوں۔’‘
اسے بھی آفس سے چھٹی کرنی پڑی تھی۔ جب تک بابوجی اسپتال میں ہیں تب تک آفس جانے کے بارے میں وہ دونوں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
سویرے وشاکھا اور رینو کا کو بھی بابوجی کی بیماری کےبارے میں مطلع کر دیا گیا تھا۔
شام تک دونوں بھی آ گئیں۔
رات کو ایک بار پھر پورا خاندان اسپتال میں جمع ہو گیا۔ بابوجی اس وقت سو رہےتھے، دوپہر میں جاگے تھے۔ اس سے ایک دو باتیں بھی کی تھیں لیکن پھر شاید دواؤں کے غلبہ سے پھر انھیں نیند آ گئی۔
رات میں ڈاکٹر رپورٹ دینے والا تھا۔
دس بجے کے قریب ڈاکٹر انھیں خالی ملا تو سب نے اسے گھیر لیا۔
‘’ہاں مجھے سب رپورٹیں مل گئی ہیں۔ دراصل آپ کے بابوجی کے دماغ میں ایک گانٹھ ہے جس سے ان کے دماغ کو خو ن کی سپلائی رک جاتی ہے۔ اگر اس کا وقت پر علاج نہیں کیا جاتا تو اس سے برین ہیمریج ہونے کا بھی خطرہ تھا۔ اس کی وجہ سےآپ کے بابوجی کو یہ تکلیفیں تھیں۔ ہم نے علاج شروع کر دیا ہے۔ بھگوان نے چاہا تو آپ کےبابوجی آٹھ دس دِن یہاں رہنے کے بعد ٹھیک ہو جائیں گے۔’‘
اور دو دن کس طرح گذرے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ گھر کا ہر فرد اسپتال کےچکر لگاتا تھا۔ بابوجی کبھی بےخبر سوئے رہتے کبھی ہوش میں آتے تو چیخنے لگتے۔
‘’تم لوگوں نےمجھے یہاں کیوں ایڈمٹ کر رکھا ہے؟ میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھے گھر لے چلو۔‘‘
تیسرےدن نرس نے تین دِنوں کے اخراجات کا بل اسے تھما دیا۔ اس کےمطابق اس وقت تک کل ٩١ ہزار روپے بل ہو چکا تھا۔ ابھی مریض کو اور آٹھ دس دن اسپتال میں رہنا تھا۔ اس لئے وہ فوراً اور ٥١ ہزار روپے جمع کر دیں۔ اس نے حساب لگایا اس وقت تک ٤٢ ہزار سےزائد خرچ ہو چکا تھا اور آٹھ دس دِن رہنا ہی، اس کے حساب سے جو حاصل جمع خرچ آیا۔ اُسے دیکھ کر اسےچکر سے آنے لگے۔
ادھر بابوجی نے سارا اسپتال اپنےسر پر لے لیا تھا۔
وہ یہی کہتےتھے۔
‘’میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھےکچھ نہیں ہوا ہے۔ تم لوگ میری جان کے دشمن بنے ہوئے ہو، تم مجھےمارنے کے لئے یہاں لے آئے ہو۔ مجھے فوراً یہاں سےنکال کر گھر لے چلو۔’‘
خرچ اور بابوجی کی ضد کو دیکھتے ہوئے انھوں نے بابوجی کو اسپتال سےگھر لے جانے کا فیصلہ کر لیا۔
لیکن ڈاکٹر نے صاف کہہ دیا کہ وہ مریض کو ایسی حالت میں گھر لے جانےنہیں دےگا۔ اگر مریض کو کچھ ہو گیا تو اس کا دمہ دار کون؟
چِڑکر اس نے اشوک سےکہہ دیا کہ ساری ذمہ داری وہ اپنے سر لیتے ہیں۔
اس کے پاس اتنا مہنگا علاج کرنے کے لئے اور پیسہ نہیں ہے۔ اگر ڈاکٹر نے زبردستی بابوجی کو اسپتال میں رکھا تو وہ اب ایک پیسہ بھی بل ادا نہیں کر سکتے۔
ان کی دو ٹوک بات سن کر ڈاکٹر نے بابوجی کو اسپتال سے ڈسچارج کر دیا۔
بابوجی گھر آئے تو بھلے چنگے تھے۔
وہ دونوں اس بات کا حساب لگا رہے تھےکہ بابوجی کے علاج پر جو پیسہ خرچ ہوا ہے، انھوں نے کتنے دنوں میں ایک ایک پیسہ جوڑ کر جمع کیا تھا۔
ایک دن پھر بابوجی کی حالت خراب ہوئی۔
پھر بابوجی کو ایک ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا۔
‘’شاید آپ لوگوں کو مریض کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے؟’‘ ڈاکٹر بابوجی کو چیک کرکے ان پر بھڑک اٹھا۔ ‘’ان کو فوراً ایڈمٹ کرنا بےحد ضروری ہے۔ ان کا فوراً خون، شوگر، یورین ٹیسٹ کیجئے۔ سٹی اسکین کرنےکی ضرورت ہے۔ بدن کی سونوگرافی اور چھاتی کے ایکسرے کی رپورٹ آنے کے بعد ہی صحیح طور پر علاج کرنا ممکن ہو پائےگا۔ میں ابتدائی علاج شروع کروا دیتا ہوں!’‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.