ماسٹر صاحب
ماسٹر صاحب کی نوکری سے ریٹائرمنٹ میں ابھی کافی سال باقی تھے مگر وہ سنجیدگی سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کی سوچ رہے تھے۔ اپنی بیٹی فائزہ کی شادی کے لیے انھیں پیسوں کی اشد ضرورت پڑ گئی تھی اور آخری امید ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم ہی تھی۔
فنون لطیفہ کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا اپنی تخلیقات کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے اور ان سوچوں سے اسے دلی مسرت حاصل ہوتی ہے۔اس کی تخلیق کردہ چیزیں چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں، اس کو خوش اور مطمئن رکھتی ہیں۔ یہ ہی حال ماسٹر صاحب کا بھی تھا۔ وہ بھی جب سوچتے تھے کہ ان کے پڑھائے ہوئے بچے زندگی کے مختلف شعبوں میں لگ کر ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہونگے تو ان کو ایک دلی مسرت کا احساس ہوتا تھا۔ کسی کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے اسے ملک و قوم اور خود اس کے لیے مفید بنانا واقعی خوشی اور اطمینان کی بات تھی۔
ان کا شمار ان پرانی قدروں کے لوگوں میں ہوتا تھا جو اپنے پیشے سے بہت زیادہ محبّت کرتے تھے۔ اس کے بدلے انھیں کیا مل رہا ہے اور کیا نہیں، اس میں فائدہ ہے یا نقصان انھیں ان چیزوں کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ زندگی بھر انہوں نے تعلیم کی روشنی پھیلانے کا کام کیا تھا۔ یہ کام کرتے کرتے وہ اس کے اتنے عادی ہوگئے تھے کہ کبھی تو یہ سوچ کر ان کا دم گھٹنے لگتا تھا کہ اگر وہ اسکول کی نوکری سے فارغ ہو گئے تو تعلیم سے تیس بتیس سال کی رفاقت کو کیسے فراموش کریں گے؟
ہر روز اسکول سے فارغ ہو کر وہ شام کو پڑھائی میں نسبتاً کمزور بچوں کو گھر بلا کر بغیر کسی فیس کے ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔ ان کی بیوی اور بیٹی فائزہ بھی اس بات کا خیال رکھتی تھیں کہ ٹیوشن پڑھنے کے لیے آنے والے کسی بچے سے گھر کا کوئی کام نہ کروائیں۔
فائزہ تو اس کام میں ان کا بہت ہی ہاتھ بٹاتی تھی۔ وہ روز صحن میں جھاڑو لگا کر اور پانی کا چھڑکاؤ کر کے جھاڑو لگاتی پھر صاف ستھری دری بچھا کر بچوں کے بیٹھنے کا انتظام کرتی۔ گھڑونچی پر رکھی صراحی میں پانی بھرتی تاکہ پڑھنے والے بچوں کو ٹھنڈا پانی میسر آ سکے۔ وہ خود بھی اتنی بڑی نہیں تھی، مگر اپنے سے چھوٹی عمر کے بچوں کا کام دیکھنا اور ان کو سبق دینا بھی وہ کرلیتی تھی۔
ماسٹر صاحب کی بیوی کو سب بچے ادب سے استانی جی کہا کرتے تھے حالانکہ انہوں نے آج تک کسی کو نہیں پڑھایا تھا۔ وہ بھی ماسٹر صاحب کی طرح ہی نیک نفس اور سیدھی سادھی تھیں۔ وہ بڑی دلجمعی سے گھر کے کاموں میں لگی رہتی تھیں۔
روکھی سوکھی کھائی مگر زبان سے اف تک نہیں کی۔ ان کی واحد اولاد فائزہ ہی تھی۔ ماسٹر صاحب نے اس کی تعلیم پر بھی خاص دھیان رکھا تھا۔
ٹیوشن پڑھانے سے تو انھیں کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ لے دے کے وہ قلیل تنخواہ ہی رہ گئی تھی، جس سے برا بھلا گھر کا خرچ چل جاتا تھا۔ انہوں نے نیک نامی اور عزت تو بہت کمائی مگر وہ اپنا گھر نہ بنا سکے اور نہ ہی ان کا کوئی بینک بیلنس تھا۔
وقت گزرتا گیا۔ بیٹی نے سولہ جماعتیں پڑھ لی تھیں، اس کا ارادہ آگے بھی پڑھنے کا تھا اور دل میں بس ایک ہی خواہش تھی کہ کسی ادارے میں نوکری کر لے اور پھر اپنے ماں باپ کے لیے وہ کچھ کرے جس سے وہ زندگی بھر محروم رہے تھے۔ مگر اسی دوران اس کا رشتہ آگیا۔ لڑکے والے بہت اچھے تھے۔ ماسٹر صاحب کی بیوی کو وہ لوگ پسند آگئے تھے اور ماسٹر صاحب نے بیوی کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوےٴ اس کی بات پکی کردی تھی۔
لڑکے والوں کو شادی کی جلدی تھی مگر ماسٹر صاحب کے پاس تھا ہی کیا کہ کوئی تیاری کرتے۔ لے دے کے وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ والا راستہ ہی باقی رہ گیا تھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں بیوی سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔
ان کی بیوی نے اچھی طرح سوچنے سمجھنے کے بعد ان سے کہا سر دست ہمارے سامنے فائزہ کی شادی اور گھر بنانے کے مسلے ہیں۔ شادی ہو کر وہ تو اپنے گھر چلی جائے گی۔ تھوڑے بہت پیسوں سے ہم گھر کی تعمیر شروع کردیں گے۔ آپ ریٹائرمنٹ لے لیں، ہم دونوں کا گزارہ پنشن سے بخوبی ہو جائے گا۔
وہ بیوی سے مشوره کرتے تھے تو اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے اسکول میں ریٹائرمنٹ کے لیے درخواست دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے ساتھی اساتذہ نے مشوره دیا کہ وہ چند ماہ ٹہر جائیں، جولائی میں تنخواہ میں اضافہ ہو جائے گا، اس کے بعد ریٹائرمنٹ کی درخواست دیں، تاکہ کچھ مزید فائدہ ہوجائے۔ چند ماہ کی تو بات تھی، انہوں نے یہ مشوره بھی مان لیا۔
ہر انسان کی طرح وہ بھی اپنی زندگی پر نظر دوڑاتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی ان کو اس بات پر بہت افسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے اپنی بیوی اور بیٹی کو وہ سکھ نہیں دیا جو ان کا حق تھا۔
ان کی بے وقت ریٹائرمنٹ کا جس کو بھی پتہ چلا اس نے افسوس کا اظہار کیا۔اس معاملے میں وہ بھی بڑے جذباتی تھے۔
کوئی ان کی ریٹائرمنٹ کی ذرا سی بات چھیڑتا تھا تو وہ دل کھول کر رکھ دیتے تھے۔ ان ہی میں احمد کا باپ بھی شامل تھا۔
احمد کبھی اس اسکول میں پڑھا کرتا تھا جہاں پر ماسٹر صاحب برسوں سے پڑھا رہے تھے۔ اس کا تعلق ایک نہایت غریب خاندان سے تھا۔ وہ پڑھائی میں تیز تھا اور ماسٹر صاحب اس کی اس بات کی وجہ سے اسے بہت پسند کرتے تھے۔ وہ ان کے فری ٹیوشن سینٹر میں بھی پابندی سے پڑھنے آتا تھا۔ فائزہ اس سے چند ماہ بڑی تھی اور خود بھی اسی جماعت میں تھی جس میں احمد پڑھتا تھا۔ دونوں میں کافی بےتکلفی بھی تھی اور ان میں نونک جھونک بھی چلتی رہتی تھی۔
ماسٹر صاحب کی بیوی احمد کی اچھی عادتوں کی وجہ سے اور اس کے چہرے کی معصومیت کی وجہ سے اسے بہت پسند کرتی تھیں۔ وہ سوچتی تھیں کہ اگر ان کا کوئی بیٹا ہوتا تو ہو بہو احمد جیسا ہوتا۔ جب وہ ماسٹر صاحب کے پاس ٹیوشن پڑھنے آتا تھا تو ان کی موجودگی میں شرافت کا پیکر بنا رہتا۔ مگر ماسٹر صاحب جیسے ہی نماز پڑھنے یا کسی اور کام سے جاتے، وہ فائزہ اور اس کی ماں کے پاس جا پہنچتا۔ اکثر فائزہ اس کو اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی املی کی چٹنی کھلاتی۔ اس کے بدلے میں وہ اسے آم کی کچی کیریاں اور سوکھے ہوئے املی کے کٹارے لا کر دیتا تھا۔ ماسٹر صاحب کی بیوی کو یہ چیزیں سخت ناپسند تھیں۔ وہ انھیں ڈراتی بھی تھیں کہ ان کے کھانے سے گلے آجاتے ہیں مگر وہ سنتے ہی نہیں تھے۔
احمد نے دسویں پاس کی تو اس کے باپ نے اسے کالج میں داخلہ دلوا دیا۔ ان کے گھر میں اگرچہ غربت کے ڈیرے تھے مگر اس کا باپ چاہتا تھا کہ وہ پڑھتا رہے اور اس قابل ہو جائے کہ گھر کے حالات بدل جائیں۔ احمد گھر کا بڑا لڑکا تھا۔ اس کا باپ سوچتا تھا کہ اگر یہ کسی قابل ہوگیا تو اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ایک راستہ بن جائے گا اور وہ اپنی تعلیم اطمینان سے جاری رکھ سکیں گے۔
احمد کا کالج میں داخلہ ہوگیا تو اپنی پڑھائی کی مصروفیات کی وجہ سے اس کا ماسٹر صاحب کے گھر آنا جانا کم ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے شام سے رات تک ایک شادی ہال میں نوکری کر لی تھی۔ وہ یونیورسٹی گیا تو پڑھائی اور کام کی مصروفیات اتنی بڑھیں کہ ماسٹر صاحب اور ان کے گھر والوں سے اس کا رابطہ بالکل ہی منقطع ہوگیا۔ جب وہ اسکول میں پڑھتا تھا تو کسی نہ کسی کام سے اس کے باپ کے اسکول کے چکر لگتے رہتے تھے اور ماسٹر صاحب کی ان سے دوستی استوار ہوگئی تھی۔ احمد کا جب ماسٹر صاحب کے گھر آنا جانا بالکل ہی ختم ہوگیا تو پھر بھی ان کو احمد کے باپ کے ذریعے اس کی مصروفیات کا علم ہوتا رہتا تھا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد احمد نے مختلف جگہوں پر نوکری کے لیے درخواستیں بھیجنا شروع کردی تھیں اور پھر اس کی محنت رنگ لے آئی۔ اسے دبئی میں ایک بہت اچھی نوکری مل گئی۔ دبئی جانے سے پہلے وہ ماسٹر صاحب اور ان کے گھر والوں سے ملنے بھی آیا تھا۔ فائزہ یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئی تھی۔ اس نے فائزہ سے کہا تھا فائزہ جب تیری شادی ہو جائے گی تو میں دونوں میاں بیوی کو اپنے خرچے پر دبئی بلا کر خوب گھماوں پھراؤں گا۔
اس کی اس فراخدلانہ پیشکش پر فائزہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا تھا۔
اس کے دبئی چلے جانے کے بعد بھی ماسٹر صاحب کی ملاقات اس کے باپ سے ایک دو مہینے بعد ضرور ہو جایا کرتی تھی۔ وہ اس سے احمد کی خیر خیریت ضرور دریافت کرتے تھے۔ احمد کا باپ ان کی بہت عزت کرتا تھا۔ اکثر ان سے کہتا تھا کہ ماسٹر صاحب اگر آپ احمد کی مدد نہ کرتے تو احمد نے میٹرک بھی نہ کیا ہوتا۔ وہ اب بھی در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہوتا۔
ایک روز جب احمد کا باپ ان سے ملنے آیا تو ماسٹر صاحب نے باتوں ہی باتوں میں ان سے اپنی ریٹائرمنٹ کا تذکرہ کیا۔ احمد کے باپ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بیٹی کی شادی کے لیے مجبوراً ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں مگر اس بات سے خوش نہیں ہیں۔
انہوں نے ان کی بات خاموشی سے سن لی اور کسی قسم کا کوئی مشوره بھی نہیں دیا۔
رات کو جب ان کی فون پر احمد سے دبئی میں بات ہوئی تو انہوں نے ماسٹر صاحب کی یہ بات اسے بھی بتائی۔ احمد کی بھی رائے یہ ہی تھی کہ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
اس واقعہ کے چند روز بعد ایک گاڑی ماسٹر صاحب کے دروازے پر آ کر رکی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ ماسٹر صاحب گھومنے والا پنکھا لگائے اسکول کے بچوں کو صحن میں ٹیوشن پڑھا رہے تھے۔ ان کی بیوی شام کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں۔ گھنٹی بجی تو فائزہ نے دروازہ کھولا۔ ماسٹر صاحب کے کانوں میں فائزہ کی ہلکی سی آواز آئی اوے لفنگے تو؟۔
ماسٹر صاحب نے گردن گھما کر دیکھا۔وہ احمد تھا۔ ماسٹر صاحب نے اسے کئی برس بعد دیکھا تھا۔ وہ بڑا ہوگیا تھا۔ فائزہ کا طرز تخاطب انھیں ناگوار گزرا۔ انہوں نے کہا بیٹی۔ ہو تو تم پڑھی لکھی مگر لگتی نہیں ہو۔ احمد اسکول کا طالب علم نہیں رہا نہ ہی وہ تمہارے گھر ٹیوشن پڑھنے آیا ہے۔ گفتگو میں احتیاط برتا کرو۔
فائزہ کو بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس نے باپ سے معافی مانگی۔ احمد نے اندر آکر بلند آواز میں سلام کیا۔ پھر باپ بیٹی کی باتوں کو نظر انداز کر کے فائزہ سے کہا فائزہ تو کیسی ہے۔ خوش ہی ہوگی۔ میں تنگ کرنے کے لیے یہاں موجود جو نہیں ہوں۔
باپ سے ڈانٹ کھا کر فائزہ سر جھکا کر خاموش کھڑی ہوگئی تھی۔ احمد نے اس کی طرفداری میں کہا ماسٹر صاحب ان باتوں کو سننے کے لیے تو کان ترس گئے تھے۔ پھر وہ فائزہ سے مخاطب ہوا دو چوٹیوں والی ابّا نے فون پر بتایا تھا کہ تیری شادی ہونے والی ہے۔ یہ ہی سن کر آیا ہوں۔
ٹیوشن پڑھنے والے سب بچے اس گفتگو سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور منہ نیچے کر کے اور ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر چپکے چپکے مسکرا رہے تھے۔ ماسٹر صاحب نے سب کو جلدی چھٹی دے دی اور احمد کو لے کر اندر آئے۔ ماسٹر صاحب کی بیوی نے احمد کو دیکھا تو اسے بہت دعائیں دی اور صوفے کو صاف کر کے اس کے بیٹھنے کی جگہ بنائی۔
ماسٹر صاحب نے اس کا حال احوال پوچھا۔ اس نے مختصراً انھیں اپنے کام کے بارے میں بتایا۔ ماسٹر صاحب کی بیوی بہت خوش ہوئیں کہ وہ دبئی میں رہ کر ایک اچھی نوکری کر رہا ہے۔
مگر فائزہ نے ذرا گھاس نہیں ڈالی۔ اس نے کہا بوٹی کا کمال دیکھا احمد۔ اگر امتحانوں میں نقل نہ کرتے تو اتنا پڑھتے لکھتے بھی نہیں اور کوئی چپڑاسی کی نوکری بھی نہیں دیتا۔
اس کی اس بات پر ماسٹر صاحب کی بیوی نے اسے ہلکے سے سرزنش بھی کی۔ ماسٹر صاحب مسکرا رہے تھے۔ بولے فائزہ بیٹی یہ تم زیادتی کر رہی ہو۔ احمد پڑھائی میں بہت تیز تھا اور اس کو پڑھنے کا شوق بھی بہت تھا۔ میں نے اسے کبھی چھٹی کرتے نہیں دیکھا تھا۔ فائزہ مسکرا کر خاموش ہوگئی۔
احمد نے فائزہ کی طرف رخ کر کے کہا فائزہ میں آج جو کچھ بھی ہوں ماسٹر صاحب کی بدولت ہوں۔ جس زمانے میں میرے میٹرک کے ایڈمشن کے لیے بورڈ میں فارم جا رہے تھے تو ہماے گھر کے حالات بہت خراب تھے۔ ہمارے گھر میں بہت تنگی ترشی چل رہی تھی۔ ہمارے گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ یہ سوچ سوچ کر امی صدمے سے بیمار پڑ گئیں کہ میرے ایڈمشن کے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ میں نے اگر میٹرک نہیں کیا تو آگے کی پڑھائی کا کیا ہوگا۔ ابّا جان نے بھی ہر جگہ ہاتھ پاؤں مار لیے مگر لوگوں کا ان پر پہلے ہی ادھار چڑھا ہوا تھا، سب نے مزید رقم دینے سے انکار کردیا۔ ہمارے گھر کوئی ایسی چیز بھی نہیں بچی تھی کہ ہم اسے بیچ سکتے۔ ابّا جان نے آخری کوشش یہ کی کہ ماسٹر صاحب سے ملے اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے ساتھ بورڈ آفس چلیں اور وہاں کی انتظامیہ سے کہہ کر فیس کی قسطیں لگوادیں۔ ماسٹر صاحب جانتے تھے کہ ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔ انہوں نے والد صاحب کو تسلی دے کر گھر بھیج دیا اور پھر انہوں نے نہ جانے کیسے کیسے کر کے آٹھ ہزار نو سو پچاسی روپوں کا انتظام کر کے میرے ایڈمشن کے فارم بینک میں جمع کروائے۔ یہ کہتے کہتے احمد کی آواز بھرا گئی۔
اس کی حالت دیکھ کر ماسٹر صاحب خود بھی آبدیدہ ہوگئے۔ انہوں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا احمد یہ پرانی بات ہوگئی ہے۔ اسے بھول جاؤ۔ بعد میں تمہارے باپ نے میری ایک ایک پائی لوٹا دی تھی۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ اچھا برا وقت تو ہر کسی پر آتا ہے۔ ایک اچھی بات مجھے تمہاری یہ لگی ہے کہ اپنے ماضی سے تم شرمندہ نہیں ہو۔
احمد نے کہا بعض احسانات ایسے ہوتے ہیں کہ زندگی بھر نہیں بھلاے جاسکتے۔ میری معلومات کے مطابق آپ نے گھر میں موجود زیورات فروخت کیے تھے۔ وہ زیورات جو استانی جی اپنے ساتھ جہیز میں لائی تھیں۔
اس کی بات سن کر ماسٹر صاحب نے فائزہ کو گھور کر دیکھا تو اس نے گھبرا کر سر جھکا لیا۔
احمد نے کہا آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی تو نیکی اور شرافت زندہ ہے۔ آپ جیسے عظیم لوگ قابل تقلید ہیں۔
تھوڑی دیر میں کمرے کا ماحول ٹھیک ہوگیا۔ ماسٹر صاحب کسی کام سے اٹھ کر باہر گئے تو احمد نے پوچھا فائزہ۔ تو اپنی شادی سے خوش تو ہے نا؟۔
خوش تو ہوں مگر امی ابا میں دل پڑا رہتا ہے۔ وہ اداسی سے بولی۔
احمد ہنس کر بولا یہ وقتی جذبہ ہے۔ وہاں جائے گی تو سب بھول جائے گی۔ ساس کی سختی اور شوہر کی محبّت میں کچھ ایسا جادو ہوتا ہے کہ جو بھی جاتا ہے وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ فائزہ بھی مسکرا کر خاموش ہوگئی۔
ماسٹر صاحب کی بیوی چائے وغیرہ لے آئ تھیں۔ چائے کے بعد احمد اٹھ کھڑا ہوا۔ اب مجھے اجازت دیجیے۔ اس نے ماسٹر صاحب سے کہا۔ ابّا جان نے تین روز پہلے مجھے فون پر بتایا تھا کہ آپ فائزہ کی شادی کے سلسلے میں ارلی ریٹائرمنٹ لینا چاہ رہے ہیں۔ آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر میرا مشوره ہے کہ ایسا نہ کیجیے گا۔
پھر وہ فائزہ کی طرف مڑا ۔ میں کچھ چیزیں لے کر آیا ہوں۔ گاڑی سے نکال کر لاتا ہوں۔
وہ باہر گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا تھیلا تھا۔ وہ اس نے فائزہ کے حوالے کیا۔
احمد بیٹا اس کی کیا ضرورت تھی۔ ماسٹر صاحب کی بیوی نے کہا۔
ماسٹر صاحب بھی تھوڑے سے پریشان ہوگئے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اپنے کسی شاگرد سے کوئی چیز نہیں لی تھی۔ ان کی پریشانی بھانپ کر احمد نے ہنس کر کہا یہ چیزیں میں بہت شوق سے آپ دونوں کے لیے لایا ہوں۔
پھر اس نے جیب سے ایک لفافہ نکال کر فائزہ کو دیا یہ تیرے لیے ہے۔سنبھال کر رکھنا۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ تیری شادی میں شرکت کرسکوں۔ فائزہ نے جھجکتے ہوئے وہ لفافہ لے لیا۔ اس کے بعد احمد رخصت ہوگیا۔
فائزہ نے وہ لفافہ تو میز پر رکھا اور ماں سے بولی امی دکھائیے تو احمد آپ کے لیے اور ابّا کے لیے کیا لایا ہے؟۔
تھیلے میں ماسٹر صاحب اور ان کی بیوی کے لیے قیمتی کپڑوں کے جوڑے، دو گھڑیاں، پرفیوم اور چاکلیٹ کے ڈبے، اور دوسری بہت سی چیزیں تھیں۔ ان کے علاوہ ایک بہت بڑا مخملی ڈبہ بھی تھا جس پر تحریر تھا اپنی ماں جیسی استانی جی کے لیے۔
فائزہ نے ڈبہ کھولا اس میں سونے کے زیورات کا پورا سیٹ تھا۔
ماسٹر صاحب نے کہا احمد نے زیادتی کی ہے۔ ان کی بیوی بہت حیران بھی تھیں اور خوش بھی تھیں۔
فائزہ کو احمد کی لائی ہوئی چیزوں پر ذرا اعتراض نہیں تھا۔ اس کا رویہ ہمیشہ بھائیوں جیسا رہا تھا اس لیے یہ بات اسےعجیب سی نہیں لگ رہی تھی۔
میں بھی تو دیکھوں لفافے میں کیا ہے۔ فائزہ نے کہتے ہوئے لفافہ کھولا۔
لفافہ کھولتے ہی ایک چھوٹی سی چٹ نظر آئی۔ اس پر لکھا تھا اپنی پیاری بہن فائزہ کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے۔ اس نے چٹ ہٹا کر دیکھا۔ نیچے اس کے نام کا دس لاکھ روپے کا ایک کراس چیک موجود تھا۔
(ختم شد)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.