شہر کے قلب میں واقع مدتوں سے ویران کھنڈر نما حویلی کے دروازے پر ایک تابوت رکھا ہوا ہے۔ سرگرمیاں جو دوپہر کی تمازت کے سبب معطل ہو چکی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ شروع ہو رہی ہیں۔ سڑکوں پر اکا دکا آدمی چلتا دکھائی دے جاتا ہے۔ جب کوئی راہ گیر حویلی کے سامنے سے گزرتا ہے اور دروازے پر رکھے تابوت پر اس کی نظر پڑتی ہے تو وہ ٹھٹھک کر رک جاتا ہے۔ کچھ لمحے غیریقینی انداز میں حویلی اور تابوت کو دیکھتا ہے پھر کچھ متعجب سا آگے بڑھ جاتا ہے۔ جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے۔ ننگ دھڑنگ بچے، فقیر، آوارہ، اوباش لڑکے حویلی کے سامنے اکٹھا ہو گئے ہیں۔ تابوت کی خبر شاید حویلی کے اطراف کے علاقوں میں بھی پھیل گئی ہے۔ کیونکہ اب حویلی والی سڑک پر آمدوروفت معمول سے کچھ زیادہ ہی نظر آ رہی ہے اور حویلی کے سامنے مجمع بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
حویلی اب بھی ہمیشہ کی طرح سنسان ہے۔ کسی کے قدموں کی آہٹ تک سنائی نہیں دیتی۔ آدمی اور آدم کی بات تو الگ رہی لگتا ہے اس میں ہوا کا بھی گزر نہیں۔
اچانک سڑک کے موڑ پر ایک کار موڑ لیتی نظر آتی ہے پھر بڑھتی ہوئی حویلی کے دروازے پر آکر رک جاتی ہے۔ لوگ ہٹ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ کار سے نکل کر حویلی کے اندر کھو جاتے ہیں۔
باہر سٹرک پر کھڑے افراد اب اطمینان کا سانس لیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے واقعی حویلی کے کسی مکین کا انتقال ہو گیا ہے۔
کچھ دیر بعد ایک کا ر پھر سڑک کے افق پر نمودار ہوتی ہے اور اسی طرح بڑھتی ہوئی حویلی کے دروازے پر آکر رک جاتی ہے۔ پھر چند لوگ کار سے باہر آتے ہیں اور حویلی میں کھو جاتے ہیں۔
پھر تو جیسے گاڑیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے کہیں سے چند پھیری والے بھی آ جاتے ہیں۔ باہر کھڑے لوگ اب گاڑیوں سے ٹیک لگائے سگریٹ بیڑیاں پھونکتے ہوئے گپ شپ میں مصروف ہو گئے ہیں۔ گاڑیوں اور لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے اب تابوت دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کوئی نیا آدمی سڑک پر سے گزرتا ہے تو حویلی کے باہر رونق دیکھ کر چونک جاتا ہے اور اسے بتانا پڑتا ہے کہ حویلی کے باہر ایک تابوت رکھا ہوا ہے اور کچھ لوگ ابھی ابھی گاڑیوں سے اتر کر حویلی کے اندر آ گئے ہیں۔
’’لیکن یہ حویلی تو برسوں سے ہم غیرآباد دیکھ رہے ہیں‘‘۔
’’ہاں، یہی تو تعجب ہے۔ اس حویلی میں آخر کون رہتا ہوگا؟‘‘۔
کچھ لوگ حویلی سے باہر آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مجمع میں ہلکا سا شور ہوتا ہے پھر ایک اضطراب آمیز خاموشی چھا جاتی ہے۔
چہرے مہرے اور وضع قطع سے یہ لوگ نوکر پیشہ معلوم ہوتے ہیں۔ وہ تابوت کو اٹھا کر اندر لے جاتے ہیں۔
باہر کھڑے لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس واقعے کا اختتام اب قریب ہی ہے، اس بات پر البتہ انہیں تعجب ہے کہ حویلی کے اندر سے کسی کے رونے کی آواز نہیں آ رہی ہے۔
’’شاید مرنے والے کی عمر کافی زیادہ ہوگی اور اس کے متعلقین کے لیے اس کی موت غیرمتوقع نہیں ہوگی‘‘۔
’’یا ممکن ہے مرنے والا ان لوگوں کا قریبی رشتے دار ہو‘‘۔
گھر میں کوئی عورت بھی نظر نہیں آتی۔
’’اب تک تو ہم صرف ملازمین کوہی دیکھ پائے ہیں‘‘۔
کچھ لوگ حویلی سے نکل کر دروازے کی طرف آتے دکھائی دیتے ہیں اور مجمع کی بھنبھناہٹ بند ہو جاتی ہے۔ احتراماً لوگ سگریٹ بیڑیاں بجھا دیتے ہیں۔ اب وہ جنازے میں شرکت کے لیے تیار ہیں کہ یہ ان کا انسانی فرض ہے۔ وہ اب اس واقعے کے عینی شاہد ہیں اور اس میں پوری طرح ملوث ہو چکے ہیں۔ تمام نسل انسانی ایک کنبہ ہے اور اس کا ہر فرد ان کی محبت اور ہمدردی کا مستحق ہے۔
چار آدمی تابوت کو تھامے ہوئے ہیں۔ ان کے ہونٹ حرکت کر رہے ہیں اور ان کے پیچھے دوسرے آدمی سر جھکائے آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
بچے کھیلتے کھیلتے رک گئے ہیں۔ عورتوں نے پلو سر پر لے لیے ہیں ماحول کی سنجیدگی سب پر اثر انداز ہو گئی ہے۔
باہر آتے ہی لوگ اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف بڑھے ہیں ۔ ان میں ترکی ٹوپی پہنا ہوا ایک بوڑھا جھریوں میں سوچ کی لہریں بسائے کھویا کھویا سا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
’’آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں‘‘۔
- کتاب : لوح (Pg. 698)
- Author : ممتاز احمد شیخ
- مطبع : رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی (2017)
- اشاعت : Jun-December
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.