مولوی صاحب نے اک بڑا سا بوری نما تھیلا جوکہ ڈاک سے آئے خطوط سے بھرا تھا۔ تھا متے ہوئے بددلی سے میگزین ایڈیٹر کی ہدایت کو سنا اور اپنے آفس میں آکر کرسی پر بیٹھ گئے اور تھیلا میز پر دھر دیا۔ ان کا غصہ بےزاری ان کے چہرے سے متر شخ تھا۔ وہ بڑبڑائے۔
’’لاحول ولا کیا ہو گیا ہے لوگوں کو ایک طرف لادینی فحا شی عریانی اور اخلاقی قدروں کا اس قدر زوال اور دوسری طرف اتنے غیر اہم اور چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے لیے سوال پوچھنا گویا ہر کام ہر سانس اسلام کے لئے وقف ہے۔ گویا قوم موسیٰ ہو گئی ہے یہ قوم بھی‘‘۔
ان کا آفس بوائے ان کی بڑبڑاہٹ پر ہنسا: ’’ارے مولوی صاحب آپ کیوں خفا ہوتے ہیں؟ آخر اسی کام کے تو آپ کو دام و شہرت دو نوں مل رہے ہیں آپ تو دعا کیجئے کہ لوگ آپ کو مزید مسائل میں گھر کر خوب سوال بھیجیں‘‘۔
بات تو سچ تھی مولوی صاحب نے خاموشی سے اسے گھورا اور روزمرہ کی ہدایا ت دیتے ہوئے کہا: ’’ اچھا باتیں نہ بناؤ وہ تما م خط بمعہ نام و پتہ اکٹھے کرو جن میں تقریباً ایک سے مسائل و سوال ہیں جن کا جوا ب دیا جا سکے وہ سر ہلا کر اپنے کام میں جت گیا۔ مولوی صاحب خو د بھی خطوط دیکھنے لگے، وہی عام سے روزمرہ کے مسئلے مسائل چھوٹے چھوٹے کاموں اور باتوں پر فتوے طلب کرکے دین کو تنگ کرنے کی آرزو، مولوی صا حب نے کچھ خطوط اور ان کے جواب سمیٹے معاً جو خط ہاتھ لگاکر انہیں کافی دلچسپ لگا انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔
از لاہور
محترم مولوی صاحب
السلام علیکم !
کے بعد عرض ہے کہ میں آپ سے مشورہ طلب کرنا چا ہتا ہوں میرا مسئلہ کچھ ذاتی سا ہے میری بیوی بہت پڑھی لکھی خاتون ہے۔ ایم۔ اے۔ نفسیا ت کر رکھا ہے۔ وہ خوبصورت خوب سیرت عورت ہے۔ سلیقہ مند بھی ہے۔ میرے تما م اہل خانہ کے ساتھ اُس کا سلوک بہت اچھا اور عمدہ ہے اس کے حسن سلوک کے سبھی معترف ہیں۔ مگر جانے کیوں وہ مجھے اپنے حسن سلوک کا اہل نہیں سمجھتی میرے ساتھ اس کا رویہ بہت سرد بلکہ بدسلوکی پر مشتمل ہے۔ وہ میرے ساتھ انتہائی تلخ لہجے میں با ت کرتی ہے۔ میرے پیار و محبت کا جواب انتہائی سرد مہری سے دیتی ہے ازدوا جی ذمہ داریوں کو بس مارے باندھے فرض سمجھ کر سر سے اتار پھینکتی ہے۔ اس کے پاس سب کے لئے سب کچھ ہے اور میرے لیے کچھ بھی نہیں۔
ایسا نہیں کہ وہ بدتمیزی کرے یا میرے کام کرنے میں کوتاہی کرے مگر اس کی زبان آنکھیں اس کا تمام بدن اس کی ناگواری و بدگما نی کی داستان سنا رہا ہوتا ہے۔ اس کی انہی حرکات کی وجہ سے میں نے تما م تر لیاقت کے باوجود اسے جاب کر نے کی اجا زت نہیں دی گوکہ اس پر اس نے کافی واویلا کیا مگر آخر اسے ہار ماننی پڑی، میں خوفزدہ تھا کہ ایسی عورت جو اَب مجھے کچھ نہیں سمجھتی خود کمانے لگےگی تو میرا کیا حال کرےگی؟
میں نے اس کے اس رویے پر بہت غور کیا ہے اسے سمجھا نے کی کوشش کی ہے مگر اس کے مزاج و رویے میں کسی صورت بہتری نہیں آتی۔ یہ صورتحا ل میرے لئے ازحد تکلیف دہ ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں اس کے سا تھ کیا سلوک کروں؟ وہ بچوں کے حق میں بہت اچھی ماں ہے میرے وا لدین کے لئے اچھی بہو، بہن بھائیوں کے لیے اچھی بھابھی مگر مجھے وہ کیوں محبت و حسن سلوک کا حقدار نہیں سمجھتی اور ایسی بیوی کے لئے کیا حکم ہے اور مجھے مشورہ دیجئے کہ میں کس حد تک جاکر سمجھا سکتا ہوں؟ کیا سختی کروں؟ خود سے الگ کر نے میں بھی خاندانی مسا ئل سے دو چار ہوتا ہوں۔ وہ میری با ت کو کسی صورت سمجھنے کو تیار نہیں اس کے رویے سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتی اور مجھے سمجھنا ہی نہیں چاہتی مگر پھر اس کا دیگر افرا د کے سا تھ رو یہ مجھے الجھن میں ڈالتا ہے مجھے مشورہ دیجئے کہ میں اس صورتحال میں کیا کروں اور ایسی عورت کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیے اور اللہ اور اس کے رسو ل ﷺ کی راہنمائی میں بتائیے کہ ایسی عورت کا کیا مقا م ہے۔
والسلام
مخلص
حشمت اللہ
مولوی صا حب خط بلند آواز میں پڑھ رہے تھے آفس بوا ئے خط سن کر ہنسا وا ہ مولا یہ تیرے بندے، بھائی تو خود جو مرضی ہو پر اپنے وا سطے تجھے ایک پیکج میں سب کچھ چاہیے ’’ہاں‘‘۔
مولوی صا حب نے چشمے کے پیچھے سے اسے گھورا منہ ہی منہ میں لاحول اور استغفراللہ پڑھا اور جوا ب لکھنے لگے:
جوا ب: حشمت اللہ صاحب جیسا کہ آپ نے بتایا کہ آپ کی زو جہ محترمہ بہت سے اوصاف کی مالک ہیں خوبصورت و خوب سیرت ہیں اہل خانہ اور بچوں کے معاملے میں بہت عمدہ ہیں۔ آپ غور کیجئے کہ آپ کے سا تھ ان کا رویہ کس بنا پر ناروا ہے۔ ان کی شکا یت کو دور کرنے کی کوشش کیجئے محبت اور نرمی سے معاملے کو سلجھا ئیے کہ عورت میں ٹیڑھ پن پیدائشی و فطرتی ہے اور وہ ناقص العقل ہے۔ اس با ت کو ملحوظ رکھ کر اپنی بیگم صا حبہ کو سمجھا ئیے اور ان کے باقی اوصا ف کو مدنظر رکھ کر نرمی کی کو شش کیجئے اور جو وہ پھر بھی نہ سمجھیں تو آپ سختی بھی کر سکتے ہیں آپ کا ہر حکم بجا لانا ان پر لازم وہ فرض ہے اور ایسی عورت کو چاہے وہ کتنے اوصاف کی مالک کیوں نہ ہو اگر اس کا شوہر اس سے راضی نہیں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کر لے، یہی اللہ اور اس کا رسول ﷺ کہتا ہے کہ، ’’ایسی عورت جنت کی خوشبو بھی نہ پائےگی اور جنتی عورتوں کے لئے بشارت ہے کہ انہیں ان کے شوہروں کو دی جانے والی حوروں کا سردار بنا دیا جائےگا۔ اسی بات سے آپ کی بیوی کو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ نے شوہر کا مرتبہ کتنا بلند رکھا ہے۔ وہ عورت کے لیے اس کے باپ سے بھی زیادہ محترم ہے آپ کی بیو ی کو توبہ کرکے آپ کی تابعداری اختیار کرنی چاہیے‘‘۔
مولوی صاحب نے جواب لکھ لینے کے بعد حسب معمول توبہ استغفار پڑھی اور اس ان دیکھی عورت پر نفرین بھیجی۔ بہت دن گزر گئے بہت سے خطوط آئے اور ان کے جوابات لکھے گئے مولوی صا حب کو بھول گیا کہ کیا سوال تھا کیا جوا ب دیا گیا تھا اور اس سوال کے نتیجے میں کتنے سوالوں نے جنم لینا تھا۔
اس دن بھی مولوی صاحب اپنی ڈھیروں ڈاک کے سا تھ اکتائے ہو ئے اور بولائے بیٹھے تھے۔ یہ ڈاک کا سلسلہ بڑا پرانا تھا اور مولوی صاحب کی سٹاف اور ایڈیٹر بلکہ سابقہ ایڈیٹرز سے بھی اچھی یاد اللہ تھی۔ ان کی سہولت کہ وہ یہاں بیٹھ کر جواب دیں یا گھر لے جائیں۔ وہ آفس میں بیٹھتے عموماً گپ شپ بھی رہتی اور کام بھی سمٹ جاتا۔ اس دن بھی وہ خطوط ان کے جوا با ت کو سمیٹ رہے تھے اور ان کی بڑبڑاہٹوں سے آفس بوائے لطف اٹھا رہا تھا۔ اسی دورا ن ایڈیٹر صا حب بھی وہاں آ بیٹھے۔ مولوی صاحب خط دیکھ رہے تھے کچھ ای میل بھی جواب طلب تھے کہ اچانک ایک خط پڑھ کر غصے سے ان کا چہرہ لال بھبھو کا ہو گیا۔ انہوں نے لاحول پڑھ کر اسے توڑ مروڑ کر پھینک دیا۔ ایڈیٹر نے حیرت سے دیکھا اور پوچھتے ہو ئے وہ خط اٹھا لیا۔
محترم مولوی صاحب
السلا م علیکم!
کے بعد عرض ہے کہ آپ نے میرے شوہر کو چند روز پیشتر جواب دیا تھا جواب کیا تھا جہنم کے تما م دروازوں میں سے بس یہ آخری بند دروازہ بھی مجھ پر کھول دیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ عورت ناقص العقل اور پیدائشی ٹیڑھ پن کی حامل ہے! میں آپ سے کچھ سوال پوچھنا چاہتی ہوں:
1۔ کیا وہ مرد سے زیادہ بلا صلاحیت عقل و فہم اور تعلیم سے آراستہ ہو دینی فہم میں بھی اس سے زیا دہ ہو کیا وہ تب بھی ناقص العقل ہے؟
2۔ اگر وہ بہرحال میں ناقص العقل ہے ہے تو تاریخ میں بےشمار خواتین بشمول عائشہؓ کے پاس لوگ و مرد حضرات بھی دینی فہم پانے کے لئے آتے تھے کیوں آتے تھے؟
3۔ ناقص عقل کا مطلب عقل میں مخصوص کمی اگر حقیقت میں ایسا ہے تو موقع ملنے پر عورت ہر میدان میں مرد کے برابر کیوں کھڑی ہے؟
4۔ بالفرض محال یہ مان لیا جائے کہ عورت ناقص العقل ہے تو کیا دنیا میں کوئی ایسی ناقص مشین ہے جس میں عمدہ ان پٹ ڈالا جا ئے اور عمدہ پروڈکشن حاصل کر لی جائے تو پھر تو مرد کی اپنی عقلی حیثیت مشکوک نہ ہو جائےگی؟
5۔ عورت کا فرض اپنے شوہر کو راضی رکھنا کیا مرد کا فرض نہیں کہ وہ بیوی کو راضی رکھے؟
6۔ اور اگر بیوی کو رضا کی کوئی اہمیت نہیں تو اللہ نے اسے دل و دماغ سے کیوں نوازانا؟ نکا ح میں اس کی رضا کو کیوں اہمیت دی؟
7۔ کیا ناراض بیوی کا شوہر جہنمی نہیں مولوی صاحب؟
8۔ عورت کا فرض کہ وہ مرد کا دل لبھائے پر چائے بنے سنورے تو کیا وہ اپنے مرد سے یہ خواہش نہیں کر سکتی کہ تم اپنے حلیے میں میری پسند کو شامل کرو اور اگر جواب نہیں ہے تو پھر وہ اپنی یہ جائز خواہش کس مرد پر پوری کرے؟
9۔ اور مرد کی دینداری صرف داڑھی، نماز، تسبیح اور کوئی مسئلہ ہونے پر مولوی سے فتویٰ لینے پر ہی مختص کیوں ہے؟ یہ اسلا م آگے بڑھ کر اس کے نفس اور اخلاق میں کیوں داخل نہیں ہوتا؟ وہ عورت کو انسان سمجھنے کا ظرف کیوں پیدا نہیں کر پاتا؟
10۔ ایک عورت اس مرد کے تمام رشتوں کو احسن طر یقے سے نبھا کر اپنے لیے عزت محبت و تکریم کا وہ مقام جس کی اہل ہے مانگے اور مانگنے پر نہ ملے اپنے دل کو تالا لگاکر محبت کی چابی گھما بیٹھے تو پھر وہ دل کا تالا کیسے کھو لے؟
11۔ اک طلاق زبان کی ہوتی ہے اور جب دل نارا ض ہو جائے اور اس مقا م کو چھو آئے جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے تو دل طلاق دے بیٹھتا ہے۔ اس طلاق پر آپ کون سا فتویٰ لگائیں گے؟
12۔ اک سوال یہ بھی ہے کہ عورت اپنی تما م خوبیوں و اوصا ف کے ساتھ محض ایک خامیکی بنا پر دوزخی ٹھہرائی جا رہی ہے تو کیا دنیا میں کوئی ایک ایسا سورما مرد ہے جو بشری کمزوری سے خالی ہو؟
13۔ مولوی صا حب آخری سوال آپ سے یہ ہے کہ عورت کی عظمت آپ کے نزدیک یہ ہے کہ وہ مرد کو دی جانے والی حوروں کی بھی سردار ہوگی لیکن جِس عورت کا شوہر جہنمی ہوگا تو کیا اللہ اس کو جہنم سے نکال کر پھر اسی کے سر پر مسلط کر دےگا؟
میں جانتی ہوں آپ میرے ان سوالوں کا کبھی جوا ب نہیں دیں گے بلکہ مجھ پر کفر کا فتویٰ لگا دیں گے مگر مجھے آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ آج کی تعلیم یافتہ عورت کیسے سوچتی ہے؟!
والسلا م
زینب فاطمہ
ایڈیٹر خط پڑھ کر دل کھول کر ہنسا اور بولا: ’’مولوی صا حب یہ خاتون آپ کو مشکل میں ڈالےگی، دراصل آج کے مرد کی تربیت ہی ذہین عورت کے حساب سے نہیں ہوئی‘‘ مولوی صاحب کا چہرہ غصے سے مزید سرخ ہوا ’’ایسے واہیات اور کفریہ خطوط کا جوا ب دینے کی ضرورت ہی کیا ہے‘‘ ایڈیٹر نے پل بھر کو سوچا، اپنے میگزین کے روشن خیال پہلو کا خیال اور ایسا متضاد خط میگزین کو پر لگ جائیں گے، حساب کتاب مکمل، ایڈیٹر اک اجنبی چہرہ اوڑھ کر بولا: ’’نہیں یہ زیادتی ہوگی آپ اس خط کو لازماً شامل کریں اور جواب دیں‘‘ مولوی صاحب غصے میں بل کھا کر رہ گئے، مگر مجبوری تھی۔ معاشی مجبوری اپنی جگہ اور دینداری اپنی جگہ!
جواب: ’’محترمہ! آپ کے خط کو بعنیہ ہی آپ کے خدشا ت کے برعکس شائع کیا جا رہا ہے۔ آپ کے تما متر سوالات آپ کے مزاج کی شدت اور الحاد کی عکاسی کر تی ہیں۔ آپ دین کے مساوی نعوذ بااللہ اپنا تعبیری نظام لانا چاہتی ہیں اور یہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ مرد عورتوں کے حاکم ہیں انہیں فرماں برداری کا حکم دیا گیا ہے۔ آپ پر آپ کے شوہر کی اطاعت فرض اور ان کی خوشنودی مقدم ہے۔ رہا مسئلہ فتویٰ کا تو فتویٰ عمومی اور ظاہری معاملات پر لگایا جاتا ہے۔ یہ باتیں شاعری و خرافات میں تو اچھی لگتی ہیں دین کا ایسی باتوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں دین تو سچائی راستی اور اطاعت کا نام ہے۔ اپنے عقائد کو درست کرکے توبہ کیجئے وہ اللہ رب العزت آپ کو معاف فرما دےگا۔
یہ خطوط میگزین میں ایک شدت آمیز نئی بحث چھیڑ گئے۔ عجیب و غریب کالز اور دھمکیاں بھی آنے لگیں وہ لوگ جو اس درد کو بھگت رہے تھے ان کے ہمدردی بھرے خطوط۔ ای میلز اور کالز کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا میگزین کی اشاعت میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا۔ اسی بھیڑ بھاڑ میں اسی سلسلے کا تیسرا اور شا ید آخری خط موصو ل ہوا تھا۔ یہ خط بذریعہ ایڈیٹر اس آخری عدالت کو لکھا گیا تھا! ایڈیٹر نے خط پڑھا کچھ دیر سوچا اور پھر اسے اشا عت کے لئے گوشۂ ادب میں بھجوا دیا خط کیا تھا درد میں ڈوبی بلکہ درد سے لتھڑی پکار تھی۔
’’میرے پیارے اللہ سب سلامتیاں اور رحمتیں تیری ہی جانب سے ہیں تو کیوں مجھے لگتا ہے کہ اپنی رحمتوں سے تونے میرے سر پر سے ہا تھ کھینچ لیا ہے۔ آج سے ہزاروں سال پہلے بنی اسرائیل کے اک شخص نے خواہش کی تھی کہ کہ تو آ اُتر کر وہ تیری زُلف سنوارے تیری خدمت کرے اور آج اک بنی اسمٰعیل کی بیٹی بےبس ہوکر تجھے پکارتی ہے کہ اس کا تیرے سوا کوئی نہیں! آج تو اتر کر آ کسی روپ میں کسی حسی شکل میں اور دل مظطر پر مرہم رکھ! بلا شبہ تو اس پر قادر ہے کہ ظا ہر ہوئے بغیر ہی مرحمت کرے مگر آج درد اس قدر سوِا ہے کہ تو مجسم ہو یہ انوکھی خوا ہش دل کی دیواروں سے ٹکرا تی ہے اور میں اپنے سب آنسو دیوار گریہ سمجھ کر تجھ پر بہادوں تیری ذات کا اسم اعظم تھام کر اپنے زخموں پر مرہم رکھ لوں۔
اے اللہ! تیرے بندوں سے سوال کروں تو کفر کا فتویٰ لگتا ہے تو پھر توہی بتا میں اپنے سوال کو کہاں لے کر جاؤں اگر ان سوالوں کی کوئی حیثیت نہیں تو پھر ان کو سوچنے کے لئے یہ صلاحیت کیوں دی تھی؟
اے اللہ! بے عیب تو تونے کوئی ذات پیدا نہیں کی تھی اگر میری ہستی عیب دار تھی کجی اور خامی تھی تو تیری ہی ذات کا تصرف و مظہر اسی عیب دار بدن کے سا تھ میں نے تیرے اذن سے ’’بدن‘‘ کو جنم دیا اور ممتا کی آفاقی حیثیت میں آکر مرد کو اس کی تمام تر خوبیوں خا میوں کے سا تھ قبول ہی نہیں کیا اپنے سر کا تاج بنالیا تو پھر صرف میں کیوں اپنی کسی خامی کی وجہ سے تیرے اس معا شرے میں مصلوب ہوں، کیا مرد کو تونے بے عیب پیدا کیا تھا؟ کیا تونے مجھے شودروں کی طرح اپنے پاؤں سے جنم دیا تھا اور مرد کو اپنے سر سے؟ میرے رب میرے سوالوں کے جوا ب دے ورنہ مجھ سے سو چنے سمجھنے کی صلا حیت چھین لے!
میرے اللہ! میرے حصے میں جو مرد تونے لکھا میں نے اسے اپنا مقدر جان کر من و عن قبول کر لیا۔ تن من سب کچھ وارا۔ اس کا دیا ہر رشتہ جیئا میں نے، میری زند گی کو بسر اس نے کِیا وہ مرد عقل شعور فہم و ادراک و علم میں مجھ سے کمتر ہونے کے باوجود میرا مالک و آقا بنا رہا میں نے اس کو بھی مقدر سمجھ کر سہہ لیا کہ ادراک کے جہنم نما دروازوں نے بہت سی ننگی حقیقتیں بھی مجھ پر منکشف کر دیں ہیں میں جا نتی ہوں کہ عورت جنس و ہوس کے اس بازار میں سب سے ارزاں شے ہے اور زندگی کے اس بدبودار حمام میں خاص و عام یکساں مادرزاد برہنہ ہیں تو پھر کیا ہوا کہ میرے حصے میں بہت عام سا مرد آیا مجھ جیسی عورت جس تعلق کو کِسی بھی حسی رشتے میں محبت کی انتہا پر جاکر گوارا کرنا پسند کرتی ہو وہ خاموشی سے اس کی خواہش پر کئی سالوں سے اس کا بستر بنی رہی کیا میں مورنی سے بھی گئی گزری تھی کہ اس کا مور اس کو لبھانے کے لیے پہلے رقص کرتا ہے؟ ایک ایسی عورت جو شائستہ ہوا علی اطاعت گزار ہو تعلیم یافتہ ہو اچھی ماں و پورے گھر کی نوکرانی ہو تو تونے میرے سچے رب کیوں ایسے مرد کو اس کا مالک بنا دیا؟ صرف اس بناپر کہ وہ اس کی کفالت کرتا ہو اور اگر وہ کفالت کا اہل نہ ہو تو؟ میرے رَ ب مجھے بتا تونے کس مصلحت کے تحت ان باتوں کو وا ضح نہیں کیا یا تونے کر دیا تیرے بندوں نے چھپا لیا تو پھر میں کس دروا زے پر جاکر اپنے سوالوں کے زہر میں بجھے تیروں کو پانی پلاؤں؟
میرے اللہ! میرے حصے کی محنت چرا کر تونے مرد کو آج کی طرح مجھ پر مسلط کر دیا؟ میری محنت کیوں ضا ئع کر دی؟ اس کی کوئی قیمت ہی نہیں اس زندگی کے بازار میں! نوکرانی رکھے تو بھی پیسہ دے کر، بچوں کی آیا بھی دھن مانگے رنڈی کے پاس جائے تو بھی پیسہ دے اور یہ سا رے کردار ایک جگہ جی کر اضا فی محبت و وفا دیکر بھی میری ہستی اتنی بےمایہ کیوں کر دی تونے مرد کے ہاتھوں؟
میرے اللہ! یہ سوال میری ذات کے نہیں، تو آج سمجھ کہ حَوا کی بیٹی سائل بنی کھڑی ہے۔ لاکھوں کروڑوں لیل و نہار کی گردش میں اس کائناتی لمحے میں حسی شکل میں اتر کر آ۔جہاں صرف تو ہو اور میں ہوں جب سب کچھ تجھ سے ہی مانگنا چاہیے تو میں نے جانا کہ سوالوں کے جواب بھی کیوں نہ تجھ سے ہی مانگوں؟
اس کائناتی لمحے میں میں دیکھتی ہوں کہ میرے گلے میں لا کھوں کروڑوں سالوں وزنی زنجیریں ہیں میرے پاؤں ان زنجیروں سے بھی وزنی بیڑیوں میں جکڑے ہیں۔ میرا سینہ ان سلاسل پا بندیوں میں ایسے جکڑا ہے کہ میں سانس بھی نہیں لے پاتی۔ میرے رب مجھے ا پنی پناہوں میں لے۔ مجھے بتا کہ میرے وجود کو عورت کے بدن میں تونے قید کیا یا پھر تیرے نام پر بننے والے رسم و رواجوں نے۔
اے میرے مالک! اگر یہ تیرا قانون ہے کہ میں تیری کم عقل حقیر مخلوق ہوں تو تونے یہ سلوک میرے ساتھ کیوں کیا؟یہ کیسا بھونڈا مذاق ہے؟ جیسے ماں بچہ جنم دے کر خود اسے اپنے پیروں سے کچل دے۔ شاید کوئی ماں ایسی شقی القلب ہوتی ہوگی، مگر ماں تو محبت جیسی ہوتی ہے نہ ہر بچے کے لیے درد سہتی ہے ہر بچے سے محبت کرتی ہے اور تو تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنا ہے! میں بھی تو تیری تخلیق ہوں پھر کیوں اس نفرت کا تحقیر کا شکار ہوں وہ نفرت وہ حقارت جو مردوں کے اس معاشرے میں رویوں میں کیفیت میں اعتبار میں اظہار کے ہر رخ میں چھلک چھلک جاتی ہے؟ کیوں میرے رب تو نے مجھے آدم کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا؟ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کرکے احساس کی ہر شدت درست عطا کر دی؟
حالانکہ ادراک کے ادوار ہوئے تو میں نے جانا کہ یہ ٹیڑھ پن تو اس بنی آدم کی بقا کے لئے ضروری تھا کہ یہ ٹیڑھ پن نہیں تھا جذبات کی خاص حدت و شدت تھی جس میں پک کر ہی ممتا کا بدن ڈھلتا ہے۔ آخر بنی آدم کو میرے وجود میں اِک مختصر مدت کے لئے قیا م کرنا تھا، پھر مجھے اسے اپنے خو ن میں سینچنا تھا تو اے میرے رب جس چمن کی آبیاری میں میرا لہو شامل تھا اس چمن کے سارے خار میرے حصے میں کیوں آئے؟ مجھے انسا ن بنایا دل دیا، دماغ دیا با طنی آنکھ کا عذاب بھی کھول دیا تو میری رضا کو کیوں مجھ جیسے کمیوں کجیوں والے مرد کے تابع کر دیا؟
تیری تو جنت بھی رب کریم مجھے تیرے کرم کا نہیں ستم کا اظہار لگتی ہے۔ اے رب رحیم یہ تیری جنت ہے یا پھر خود ستائشی کے زعم میں مارے مرد کی اپنی تخلیق کردہ ہے؟ میرے رب وہ حشر کی گھڑی جب اعمال تو لے جائیں گے جب جزا و سزا کا وقت آئےگا تو میں جو تمام عمر میدان حشر میں ہی کھڑی رہی کیا دوبارہ تو لی جاؤں گی؟ تولی جاؤں گی تو کیا محض وہاں بھی میرے حسب آرزو نہ ملےگا۔ وہاں بھی مجھے وہ دیا جائےگا جو مرد کی آرزو ہوگی وہ سوال جو بندوں سے کرکے میں کفر کی مر تکب ٹھہری مگر اے عا دل عدل تیری صفت ہے۔ اک جنتی عورت کا مرد اگر جہنمی ہو تو تیرا عدل اس کا کیا فیصلہ کرےگا؟ اگر ایک عورت دو یا تین مردوں کے نکا ح میں رہ چکی ہو تو پھر تو روز حشر اس کا مالک کس کو ٹھہرائےگا؟
میرے مالک جب تو مجھ سے راضی ہو گیا تو کیا مجھے بھی حسب آرزو و رضا مل سکےگا؟ تو پھر اے رحیم تو رحم کر ان سوالوں کے بیجوں کو مرد کے دل کی مٹی میں بودے!
(تیری اک عا جز و گنہگار رستم رسیدہ بندی)
ایڈیٹر نے خط ختم کیا تو اس کی آنکھیں جانے کیوں کچھ بھیگی بھیگی تھیں اس نے سگریٹ کا لمبا کش لیکر کھڑکی کو کھول دیا۔ آسمان پر بادل تھے۔ اسے لگا یہ سوال اپنی طا قت پرواز سے اڑ کر بادلوں میں جا ملے ہیں۔ ابر رحمت برسےگا تو منتخب دلوں کی مٹی میں یہ جذب ہو جائیں گے۔ ان بیجوں سے کو نپلیں پھوٹ نکلیں گی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.