میراث
پڑوسن کا ہزار اصرار، ہزار خوشامدیں بھی کل رات ماں کو ڈھولک کی محفل میں شریک ہونے پر رضامند نہ کر سکیں۔ برابر آدھی رات تک وہ میرے سرہانے بیٹھے ادھر ادھر کی باتوں سے میرا دل بہلانے کی کوشش کرتی رہی اور میں کنپٹیوں پر ہتھوڑیاں سی چلاتی ہوئی ڈھولک کی آواز پر چھٹپٹاتا رہا۔ ایک عرصہ سے میں بیمار ہوں۔ میرا مرض مہلک ہے۔ ڈاکٹروں نے ہدایات دے رکھی ہیں کہ میرے نزدیک کسی قسم کا شور نہ کیا جائے۔ اونچا بولنے تک کی منائی ہے لیکن ان عورتوں کو بھلا کون سمجھائے؟
رات میرا سر، میری کمر، میری ٹانگیں دباتے ہوئے، میرے دل بہلاوے کی خاطر ماں اکثر کہہ اٹھتی، دوکل کی چھوکریاں ہی تو ہیں، اتنا بھی نہیں جانتیں کہ تال بے تال ہو رہا ہے۔ ڈھولک کی آواز میں تو ایک جادو ہوتا، یک نشہ اور کبھی کبھی تو کچھ اس قدر جھنجھلا اٹھتی، جانے ابھی ایک ہی جست میں وہاں جاپہنچے گی اور ڈھولک کو سنبھال کر اس ترتیب اور آہنگ سے سر باندھنے لگے گی کہ ساری محفل عش عش کر اٹھے مگر وہ میرے سرہانے سے اس وقت تک نہیں ہلی جب تک کہ ڈھولک کی محفل برخاست نہ ہو گئی اور گڑ بتاشے لے کر واپس گھروں کو لوٹتی ہوئی محلے والیوں کا گلی میں سے گزرتے ہوئے ہاہی، ہنسی ٹھٹھول اور فلاں لڑکی کی آواز بہت باریک ہے، اے توبہ! وہ آواز تھی یا گھڑے میں کوا ڈکرا رہا تھا وغیرہ، اونچی نیچی آواز میں بالکل ہی معدوم نہ ہو گئیں۔ لیکن آج۔۔۔
آج گلی گوانڈ کی عورتیں بھی ہمارے ہاں آدھمکیں اور اماں سے کہنے لگیں کہ آج تو وہ کسی صورت بھی اسے نہ چھوڑیں گی۔ رات کو اس کی عدم موجودگی سے سارا مزا کرکرا ہو گیا یا پھر پڑوسن کے اس کہنے پر کہ اس کا یہی تو ایک نونہال ہے اور یہ دن بار بار آنے کا تو ہے نہیں، اس روز تو روٹھا ہوا بھگوان بھی من منوتی کر لیتا ہے یا شاید رات ڈھولک کی ہو چکی ہ بے حرمتی کو ناقابل برداشت سمجھ کر ماں نے مان لیا اور مجھے جلد ہی لوٹ آنے کا یقین دلاتی ہوئی ان کے ساتھ اٹھ گئی۔
اور اس وقت میں تنہا چارپائی پر پڑ اہوں۔
ڈھولک پر ہاتھوں کی تھپک، اس پر ٹھیکری کی چوٹ کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہے۔ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر آنکھیں بند کرکے دم سادھ لیتا ہوں، کروٹیں بدلتا ہوں لیکن کسی پہلو چین نہیں پڑتا۔ کمرے کے دروازے، کھڑکیاں، روشن دان بند کروا لیے تھے لیکن اس اودھم کو اندر آنے سے کیوں کر بند کراؤں۔ اب ہاتھ کی تالیوں نے اس ہنگامے میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اب تھوڑی دیر کے بعد پیروں میں گھونگھرو باندھ کر کوئی منچلی ناچنا بھی شروع کر دےگی۔ شادی میں ابھی ایک ہفتہ اور ہے اور اگر ڈھولک کی یہی گت رہی تو اس جادو، اس نشے کے زیر اثر شاید جس روز پڑوسن کے یہاں ایک نئے فرد کو چوکھٹ میں تیل ڈال کر خوش آمدید کہا جائےگا، ہمارے یہاں لکڑیوں پر گھی ڈال کر ایک پرانے فرد کو الوداع۔۔۔
رام دھن۔۔۔ یعنی یہ لڑکا جس کی شادی کی خوشی میں دو ہفتوں سے ڈھولک پٹ رہی ہے، میرا ہم عمر ہے اور ہم جماعت بھی۔ دونوں کا لڑکپن اکٹھے کھیل کود میں گزرا لیکن انٹرنس کر چکنے کے بعد اس نے اپنے باپ کی کباڑ کی دکان سنبھال لی اور میں جو ایک بہت بڑا ادیب بننے کے خواب دیکھتا تھا، گھر کی حالت کے پیش نظر کلرکی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ میرے والد تو پھوٹی کوڑی بھی میرے لیے نہیں چھوڑ گئے۔ سنتا ہوں دادا بڑی حیثیت دارتھے۔ گاؤں میں پکی حویلیاں تھیں۔ آس پاس کے سب دیہاتوں میں وسیع لین د ین تھا۔ اپنے پیچھے ہزاروں کی جائیداد چھوڑی لیکن بعدمیں والدنہ جانے کن کن چکروں میں پھنس گئے کہ جائیداد تو ایک طرف، ان کا بال بال قرض میں بندھ گیا۔ ماں بتاتی ہے کہ وہ بھی اسی مرض کے مریض تھے۔۔۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ کسی طرح سر چھپانے کویہ چار اینٹیں بچ رہیں ورنہ۔۔۔
کباڑیے کا کباڑخانہ اب لوہے کے پکے مال کی دکان میں تبدیل ہو چکا ہے لیکن میری تنخواہ ساٹھ سے اکسٹھ نہیں ہوئی اور اگریہی حالات رہے تو رام دھن جلدہی کیل بنانے کا کارخانہ جاری کرنے کے اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنائےگا اور میں ہمیشہ بیمار رہنے اور زیادہ چھٹیاں لینے کی پاداش میں بغیر کسی نوٹس کے برطرف کر دیا جاؤں گا۔ اس کی شادی اب میرے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے لیکن ددسال پہلے جب میری شادی ہوئی تو۔۔۔
اپنی بہو، یعنی میری بیوی سے ایک مرتبہ ماں نے کہا کہ بہو تجھ میں نویلاپن تونام کو نہیں۔ چٹا ڈوپٹہ اوڑھے رہتی ہو۔ آج کل کے لڑکے تو رنگ روغن، ٹیپ ٹاپ کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ تو جواب میں کہنے لگی، نہیں ماتا جی۔۔۔ اگر میں آج کل کی لڑکیوں کی طرح گھر کی طرف نہ دیکھوں تو ساٹھ روپے میں خالی میری سرخی پوڈر ہی چلے۔۔۔ کس قدر فریب کن اور حسرت ناک جواز تھا۔ وہ جانتی ہے میں دق کا مریض ہوں۔ وہ ایک دق کے مریض کی بیوی ہے۔ ساٹھ روپے کی آڑلے کر اس نے۔۔۔
ماں اس بات پر کتنا خوش ہوئی تھی۔ وہ سمجھتی ہے بہوبہت سوجھ بوجھ کی مالک ہے لیکن یہ تومیں ہی سمجھ سکتا ہوں۔۔۔ لیکن میرے سمجھنے یا نہ سمجھنے سے حاصل۔۔۔ خیریونہی سہی۔ اس کاتویہ مطلب ہوا کہ وہ ساٹھ روپے میں روکھی سوکھی چلائےگی۔ ہوگا، ذراتندرست ہولوں، وہ رنگ جماکر رکھوں گا کہ دانتوں تلے انگلیاں داب لےگی۔ میرے پاس دو سو روپے نقدبینک میں جمع ہیں۔ اگروہ بیماری میں نہ اٹھ گئے تو کھاٹ چھوڑتے ہی کچھ پیسے ادھر ادھر سے بٹور کر ایک ہفتہ وار پرچہ نکالوں گا۔ اس وقت تک حالات بھی کچھ سدھر جائیں گے، پھر کیا ہے! خرچ ٹھہرا کاغذ اور چھپائی کا۔ نظمیں اور مضامین تو مفت میں آنے کی چیزیں ٹھہریں۔
کبھی کبھار اگر کوئی خستہ حال شاعر یا ادیب بہت زور مارے تو دودن کے سگریٹ، پان کا خرچ بخش دیا جائے۔ نہیں تو ایسا کیا ہے جو ملا معاوضہ دے اور احسان مند ہو، اسے آئیے آئیے اور جو معاوضہ طلب کرے اسے سنائیے، قبلہ مہنگائی کا زمانہ ہے۔ کاغذ کو تو جیسے آگ لگ گئی ہے۔ اندازہ فرمائیے (فرمائیے کہنا سونے پر سہاگہ ہوگا) ایک صفحے پر ہمارا اپنا خرچ چالیس سے کم نہیں اٹھتا۔ اپنا گھر بھی پورا نہیں پٹتا۔ پھر بھی خود کو گھاٹے میں رکھ کر ادب کی خدمت کئے جا رہے ہیں۔ خدا کا واسطہ دینے کے بجائے دنیا کے امن کی دعا کیجئے۔ ادیبوں، شاعروں کی دعائیں بڑی کارگر ہوتی ہیں۔ جونہی وقت اپنی اصلی حالت پر آئےگا، آپ کی سب کسریں گن گن کر پوری کر دی جائیں گی۔
خدانخواستہ اگر کوئی ڈھیٹ قسم کا انسان یہ کہنے پر اتر آئے کہ جناب آج سے دس برس پہلے بھی آپ لوگ یہی کہا کرتے تھے، کبھی پھوٹی کوڑی کا منہ نہ دکھایا تھا تو گڑھا گڑھایا جواب اپنے پاس ہے ہی کہ حضرت وہ زمانہ، وہ نظام اور تھا۔ وہ رسائل، وہ مالک اور تھے یعنی تب کچھ اور تھا اور اب سب کچھ اور ہے۔
سرمایہ داروں کی تصویریں چھاپنے، ان کی تعریف کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے تک ملانے سے گریز نہ کیجئے۔ بوقت ضرورت کسی سیاسی شہسوار کا راز فاش کر دینے کی دھمکی دیجئے اور اگلے دن سرب مہر کھنکھناتی تھیلی لے کر مسکرا دیجئے۔ بس پھر کیا ہے، اپنا پتنگ آسمان سے جا لگا۔ آپ کے اعزاز میں دعوتیں دی جا رہی ہیں۔ ملک کی نامور ہستیوں کے تعریفی خطوط چلے آ رہے ہیں اور بینک بیلنس ہے کہ روز افزوں ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ادھر آپ ہیں کہ ملک اور ادب کی خدمت کے سلسلے میں ٹانگ پر ٹانگ ٹکائے دفتر میں بیٹھے جمائیاں لے رہے ہیں اور پاس پان کی گلوریاں جبڑوں میں بھرے کوئی ادھورا شاعر اور پورا فنکار اونچے نیچے سروں میں اپنا تازہ کلام گاکر سنا رہا ہے۔ زیادہ مصروفیات کی وجہ سے کچھ ہرج نہ ہوگا، اگرایک عدد ایڈیٹر بھی رکھ لیا جائے۔ بہت دم مارےگا تو تیس چالیس پرتان ٹوٹ جائےگی۔ آخر کام بھی کیا ہے۔ مفت میں آئے ہوئے مضامین پر سرسری نگاہ ڈالنا، دن میں دو تین بار چھاپے خانے اور کاتبوں کے گھروں کے چکر کاٹنا اور پروف پڑھنا۔ گھر میں زیورات بن چکے، اعلیٰ قسم کا فرنیچر خریدا جا چکا، نوکر چاکر ادھر ادھر مٹرگشت کر رہے ہیں اور بنگلے کے باہر موٹر کو جھاڑتا پونچھتا شوفرہم اندر والوں کا انتظار کر رہا ہے اور میں جھنجھلا جھنجھلاکر کہہ رہا ہوں، ’’کمال کر رہی ہو۔ شاپنگ کایہی وقت ہے اور مجھے ابھی پارٹی میں بھی جانا ہے۔‘‘
لیکن بیوی صاحبہ ہیں کہ ان کی ڈریسنگ ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتی۔ خدا خدا کرکے پوشاک چننے اور پہننے کا مرحلہ طے ہوا کہ غازے پوڈر پرپل پڑیں۔ تب دل ہی دل میں اس سے پوچھنے لگتاہوں، کہو، اب تو کئی ساٹھ روپے اس میک اپ کے لیے ناکافی ہیں نا اور وہ ناخن پر مالش کرتے ہوئے ہونٹوں ہی ہونٹوں میں مسکراکر آنکھوں کی پتلیاں نچانے لگتی ہے۔
لیکن ماں ابھی تک کیوں نہیں آئی؟ اسے اب تک آجانا چاہئے تھا۔ خدا کی مار اس ڈھولک کی محفل پر۔ یہ تو میری جان لے کرہی دم لےگی۔ دن کے وقت بھی جب کبھی آنکھ لگنے پاتی ہے، پڑوسن کی برادری کے لڑکے بالے ننھی منیاں ڈھولک سے برسرپیکار ہو جاتے ہیں۔ رات کی محفل میں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو سکتی۔ غالباً یہی سبب ہے کہ دن کے وقت موقع بہ موقع بےاختیار ان کے ہاتھ ڈھولک کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ آخر انہیں بھی تو ڈھولک کی خوشامد منظور ہے۔۔۔ وہ جادو، وہ نشہ!
گانا بٹھانے سے پہلے پڑوسن نے محلہ بھر میں شکرپارے بٹوائے تھے۔ شکرپاروں کو قبول کرنے کی صور ت میں کم از کم دو روپے شگن میں دینا لازم ہو جاتا ہے۔ چند ایک جہاں دیدہ عورتوں نے صلاح و مشورہ کیا کہ اپنی ذات برادری سے نپٹارا نہیں، دوسرے سمبندھی کیوں کر بنائے جائیں۔ پھر یہ لوگ ٹھہرے کرایہ دار اور کرایہ داروں کا کیا ٹھکانہ۔ آٹھ دس آنے کی شکر شیرنی بھجوائی اور دو روپے کھرے کر لیے۔ لیکن زاں بعد سب نے مل کر پڑوسن کے سبھاؤ کی حلیمی اور ملن برتن کی تعریف کرتے ہوئے بدھائی دے کر شکرپارے جھولیوں میں ڈلوا لیے۔
کل جب حسب معمول وہ میرا حال پوچھنے آئےگی تو میں اسے کہوں گا۔۔۔ چاچی، تم یہاں اپنا مکان کیوں نہیں بنوا لیتیں۔ اب تو خدا کا دیا سب کچھ ہے۔۔۔ لیکن اسے مجھ پر کیوں ذرا بھی رحم نہیں آتا؟ وہ کیوں اس نام نہاد خوشی کو مجھ پر قربان نہیں کر دیتی۔ مجھے بھی تو وہ اپنا بیٹا ہی کہتی ہے۔ جیسا رام دھن ویسا منوہر لال، رام دھن اور منوہر لال میں کوئی فرق نہیں۔ کئی مرتبہ میری ماں کے ساتھ بیٹھ کر میری جوانی، میری بیوی کی تشنۂ تکمیل خواہشات، میرے ہونے والے بچے کے حسرتناک نصیبوں پر آنسو بہا چکی ہے۔ دعائیں دے چکی ہیں کہ میں جلد از جلد نو بہ نو ہو جاؤں۔ ابھی کل ہی غمگین نگاہوں سے میرے چہرے کی طرف دیکھتی ہوئی ماں کو دلاسہ دے رہی تھیں۔ بھگوان۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ لیکن اے بھگوان کی نیک بندی آج تم۔۔۔
ڈھولک بظاہر بےجان ہے مگر اس میں سے کیسی کیسی آوازیں نکلنے لگتی ہیں۔ ایک جنی ہاتھوں کی تھپک دیتی ہے۔ دوسری ٹھیکری کی چوٹ سے اپنی آواز میں نیا رنگ بھرتی ہے۔ باقی سہیلیاں تالی بجا بجاکریا ناچتے گاتے اپنی اپنی شخصیت کا جوہر پیش کرتی ہیں اور وہ کہ جنہیں کوئی بھی ہنر نہیں آتا، چپ چاپ بیٹھی رہتی ہیں اور ٹکرٹکر دیکھتی ہیں۔ کیا کریں نظام ہی ایسا ہے۔ اس نظام کے خلاف۔۔۔ اس ایک طرفہ نظام کے خلاف کوئی لفظ، کوئی کلمہ ان کی زبان پر نہیں آ سکتا۔ وہ جرأت ہی نہیں کر سکتیں اور یہ گیت۔۔۔
دگدی رائے رادی ڈھولا۔
دگدی اے راوی ماہی دے وچ پتا چلائی داڈھولا
میں نہ جمدی ماہی وے، توں کتھوں ویائی داڈھولا
یعنی راوی دریا میں چولا ہی کا پتہ بہے جاتا ہے۔ میرے بالم اگر میں پیدا نہ ہوتی تو ہمارا بیاہ کیوں کر ہوتا۔
بیاہ۔۔۔ ہونہہ، گویا سچ مچ ہی اس کے پیدا نہ ہونے سے۔۔۔ لیکن پھر دوسری عورت بھی یہی گیت گا سکتی تھی۔ ٹھیک ہی تو ہے۔۔۔ اپنے بالم کی اے نٹ کھٹ دلہن تمہارے پیدا نہ ہونے سے اس کا بیاہ نہ ہو سکتا تھا۔
ادھی راتیں مارپئی۔۔۔ ہائے مارپئی۔
بھن چھڈیاں ہائے نی بھن چھڈیاں ملوک جھہیاں ہڈیاں۔
کیا خوب! اب کیوں روتی ہو۔ آدھی رات کے وقت مجھے پیٹا گیا۔ اس نے میری نرم و نازک ہڈیاں توڑکررکھ دیں۔۔۔ اب کہو اگر تم پیدا نہ ہوتیں تو کون اپنی ہڈیاں تڑواتا۔ اب تم بھی بار بار کہہ رہی ہوگی کہ تم پیدا نہ ہوتیں۔
اپنی آواز میں کس قدر سوز بھر لیتی ہیں یہ عورتیں۔ کوئی مسئلہ، کوئی موضوع ایسا نہیں جو انہوں نے گیتوں کے سانچے میں نہ ڈھال رکھا ہو۔ میری بیوی بھی آج یہاں ہوتی تو اس کی زبان سے بھی نہ جانے کیسے کیسے گیت نکلتے۔ ان دنوں وہ میکے گھر میں ہے۔ بالم اور گیتوں کی دنیا سے دور۔۔۔ لیکن وہاں بھی تو پڑوس میں کسی نہ کسی کے ہاں بیاہ رچ رہا ہوگا۔ یہی تو وہ رت ہے جب گھر گھر سا ہے چمک اٹھتے ہیں۔۔۔ بیاہ۔۔۔ بیاہ سے قبل، بیاہ کے بعد۔۔۔ لیکن سبھی خاوند میری طرح دق کے مریض تو نہیں ہوتے۔ ان کی بیویوں کو اپنے آپ پر، اپنے خاوندوں پر بجا طور سے ناز ہوتا ہے۔ ان کے کنوارے سپنوں کا ماحصل۔ تندرست اور برسرروزگار خاوند۔۔۔ نہ جانے میں کب اس چارپائی سے اٹھوں گا۔ اس مرض سے میری خلاصی کب ہوگی۔۔۔ کون سی بھسم ہے جو میں نے نہیں چاٹی۔ کوئی معجون ایسا نہیں جو میرے حلق سے نہ اترا ہو لیکن میری حالت دن بدن گرتی ہی جارہی ہے۔ مجھ میں اٹھ کر بیٹھنے تک کی سکت نہیں رہی اور یہ ڈاکٹر اور حکیم۔۔۔ یہ تو ہمیشہ یونہی کہتے رہیں گے، فکر کی چنداں ضرورت نہیں۔۔۔ بس پرہیز چاہئے۔
ہر قسم کا پرہیز یا پھریہ رنگ رنگ کی دوائیاں پیتے چلے جاؤ۔ اس نسخے میں مردے کو کھڑا کر دینے کی شکتی ہے۔ ان دوائیوں کے بھی کیا کیا عجب رنگ ہوتے ہیں۔ سرخ، سفید، مٹمیلے، کالے، نیلے، پیلے۔۔۔ لیکن اصل میں ان کا اپنا رنگ کوئی بھی نہیں۔ یہ مستعار کے رنگ بھلا کسی کو کیا فائدہ بخش سکتے ہیں۔ مجھے ان دوائیوں، ان رنگوں سے چڑ ہے، خدا واسطے کا بیر ہے۔۔۔ یہ مجھے کوئی فائد ہ نہیں پہنچائیں گے۔ لیکن اس نفرت اور بیزاری، اس لایزال ناامیدی کے باوجود میں نے کبھی ناغہ نہیں کیا بلکہ دن بھر کی تمام دوائیں ایک ہی مرتبہ پی جاتا ہوں کہ شاید۔۔۔ شاید۔۔۔
پاس پڑوس کی تمام عورتیں باری باری بہو کو بلا بھیجنے کے لیے ماں سے کہہ چکی ہیں۔ آدمی کا کیا بھروسہ۔۔۔ بھگوان نہ کرے۔۔۔ مگر ماں ہمیشہ یہی کہہ کرٹال دیتی ہے کہ اس کے آجانے سے بدپرہیزی ہو جائےگی۔ شاید، شاید ایک حد تک یہ درست بھی ہو، مگر میرے خیال میں وہ اسے اس لیے بھی نہیں بلوا بھیجتی کہ پہلی پیدائش میکے ہی میں ہونی چاہئے اور جیسا کہ ناتی اپنا آپ ظاہر کرتے ہیں، اس موقع پر بہت کچھ آنے کی توقع ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ بہو کو بلواکر ہاتھ آنے والے مال متاع کو نظرانداز کر دیا جائے۔ آخر دستور بھی تو کوئی چیز ہے۔۔۔ آگے ہی گھر میں بیماری ہے، اس پربہو کا بوجھ کون جھیلےگا۔ میں اکیلی جان کس کس کی سدھ لوں گی۔ بھگوان بھلا کریں گے بھگوان۔۔۔ ماں شاید جانتی ہے کہ اس مرض کا روگی برسوں ایڑیاں رگڑتا ہے۔
میرے والد بھی تو پورے چار برس تک ہڈیاں چٹخاتے رہے تھے۔۔۔ اور جب کبھی نمناک آنکھوں سے میری طرف دیکھتی ہوئی ماں کہنے لگتی ہے۔۔۔ بیٹا تیرا داد کتنا بھاگیہ وان تھا، اس نے تیرے پتا کو کیا نہیں دیا۔۔۔ تو میری آنکھوں میں خاندا ن کی تاریخ پھر جاتی ہے۔ پتاجی دادا کی چھوڑی ہوئی جائیداد کو سنبھال کرنہ رکھ سکے اور ایک دن تو قسمت ہی پھوٹ گئی جو ان کا دیوالہ پٹ گیا۔۔ اور میں سوچنے لگتا ہوں کیا سچ مچ ہی وہ دیوالیہ تھے۔ میرے لیے چھوڑنے کو ان کے پاس کچھ نہ تھا اور ایک تکلیف دہ احساس میرے ذہن پر چوٹیں لگانے لگتا ہے۔ میرے خوابوں کے محل ڈھے جاتے ہیں اور کہیں دور سے میری بیوی کا افسردہ اور اندوہناک چہرہ ابھر آتا ہے اوروہ اپنے ننھے کو اٹھائے میری طرف بڑھتی چلی آتی ہے اور میرے کانوں میں کچھ غیرواضح سے الفاظ گونجنے لگتے ہیں اور ان الفاظ کی بازگشت کائنات کے ذرے ذرے میں لرزنے لگتی ہے۔ تیرے پتا جی۔۔۔ تیرے پتاجی! ننھے! ننھے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.