Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مہربان

ارشد منیم

مہربان

ارشد منیم

MORE BYارشد منیم

    افسانے کی آخری لائن ٹائپ کرنے کے بعد فیاض نے کمپیوٹر پر فائل محفوظ کی،دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت والی انگلی سے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے ایک لمبی سانس لے کروہ بڑبڑایا۔

    ”ہو گیا یہ افسانہ بھی ٹائپ.......طویل افسانہ تھا،پتہ نہیں لوگ اتنے لمبے لمبے افسانے کیسے لکھ لیتے ہیں،مجھے تو پڑھنے میں ہی کوفت محسوس ہونے لگتی ہے۔بھئی افسانچے لکھو،چھوٹی تحریر میں بات مکمل.......یہ تو اپنے دوست فیروز کی محبت میں اُس کی کتاب ٹائپ کرنے لگا،ورنہ میں کہاں.......!!“

    تبھی اسے باہر گلی میں فلمی گانوں کی آواز سنائی دی۔وہ پریشان سا ہو کر بولا۔

    ”ہو گیا تاجو شرابی شروع..... اب پوری رات یہی تماشہ رہے گا۔“

    پھر فیاض آنکھوں کو راحت دینے کی غرض سے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپا کر ٹیبل پر تھوڑا جھک گیا۔کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد اُس نے اپنے چہرے کو ہاتھوں کی قید سے آزاد کیا۔ٹیبل پر پڑے اپنے موبائل کو اُٹھا کر ٹائم دیکھا۔رات کا ایک بج رہا تھا۔اُس نے ایک نگاہ کمرے میں دوڑائی۔ٹیبل لیمپ کی مدھم سی روشنی پورے کمرے میں اپنے وجود کا احساس دلا رہی تھی۔اس کے دونوں بچے اور بیوی زاہدہ بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے۔زاہدہ کے زور دار خراٹے بچوں کی نیند میں خلل ڈالنے کی ڈیوٹی بڑے اچھے طریقے سے سر انجام دے رہے تھے۔گرمی کی شدت اور اپنی ماں کی میوزیکل نیند کی وجہ سے دونوں بچے بے خوابی میں کروٹیں بدل رہے تھے۔اپنی ٹانگوں کو کھجاتے ہوئے فیاض کے چھوٹے بیٹے نے کہا۔

    ”مما پیاس لگی ہے......“

    نیند کی مضبوط گرفت میں قید زاہدہ کروٹ بدل کر غصّہ سے بولی۔

    ”وہاں واٹر کولر پڑا ہے.....گلاس اس کے اوپر رکھا ہے،اُٹھ کر خود پانی پی لے۔“

    فیاض کا ٹیبل بالکل بیڈ کے ساتھ ہی لگا تھا۔وہ زاہدہ کو کندھے سے پکڑ کر ہلاتے ہوئے دھیمی آواز میں بولا۔

    ”اُٹھ کر تم خود منّے کو پانی پلاؤ.....اندھیرے میں کہیں اسے چوٹ نہ لگ جائے.....!!“

    زاہدہ بیڈ کی بیک کا سہارا لے کر اُٹھتے ہوئے بڑبڑائی۔

    ”ہائے رے میری قسمت.......سارا دن گھر کے کام کاج میں کمر ٹیڑھی ہو جاتی ہے.....رات کو بھی آرام نصیب نہیں ہوتا۔پوری رات کبھی ان کو شُو شُوکبھی پانی کے چکر میں گزر جاتی ہے۔“

    بیٹے کو پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے وہ بولی۔

    ”اس ائیر کولر کی بھی نہ جانے ہم سے کیا دشمنی ہے.....ہوا تو دیتا ہی نہیں....کتنی بار کہا ہے کہ اسے بدل لو....مگر میری کوئی سنے تب نا.....!!“

    فیاض مسکراتا رہا۔زاہدہ نے بیٹے سے گلاس پکڑ کر واپس رکھا اور بیڈ پر لیٹتے ہوئے فیاض سے مخاطب ہوئی۔

    ”اب یہ لیمپ کب بند ہوگا.....؟! اس کی روشنی نے میری نیند حرام کر رکھی ہے.....بند کریں اسے اور سو جائیں آپ بھی......رات بہت ہو گئی ہے....!“

    فیاض پھر دھیرے سے بولا۔

    ”جو حکم آپ کا میڈم جی،ابھی کرتا ہوں بند....آپ نیند کے مزے لو.....“

    وہ جلدی سے ٹیبل لیمپ کا سوئچ آف کرتے ہوئے ہنس کر بڑبڑایا۔

    ”اس کے خطرناک خراٹوں نے پورے محلے کی نیند حرام کر رکھی ہوگی اور یہ کہتی ہے کہ اس لیمپ کی وجہ سے اس کی نیند حرام ہوئے جا رہی ہے۔کمال کی عورت ہے یہ بھی.....!!“

    لیمپ بند کرکے وہ کمپیوٹر سکرین کی طرف دیکھ کر خود سے ہمکلام ہوا۔

    ”دو افسانے رہ گئے ٹائپ ہونے سے پھر فیروز کی کتاب مکمل ہو جائے گی۔اس کے بعد اپنے افسانچوں کی کتاب کی سیٹنگ کروں گا۔چلو فیروزکا نیا افسانہ کل ٹائپ کرنا شروع کروں گا۔“

    کہتے ہوئے اس نے کمپیوٹر بند کیا اور موبائل و ہیڈ فون اُٹھا کر اپنے بستر پر آگیا جو زمین پر لگاہوا تھا۔فیاض تقریبََا پچھلے دو سال سے زمین پر ہی سوتا تھا کیونکہ سروائیکل کی وجہ سے ڈاکٹر نے اسے سخت جگہ پر سونے کی ہدایت کی تھی۔ہیڈ فون اپنے کانوں میں لگا کر اُس نے موبائل پر فیس بک اوپن کر لی۔یہ اُس کا معمول تھا رات کو سونے سے پہلے وہ ایک گھنٹہ سوشل میڈیا پر دنیا کی سیر کرتا۔ ایک افسانچہ اس کے سامنے آیا تو وہ پڑھنے میں مشغول ہو گیا۔پورا افسانچہ پڑھنے کے بعد اس کے منہ سے نکلا۔

    ”کیا بکواس افسانچہ ہے۔آجکل لوگ معیار کی پرواہ کئے بغیر تھوک کے بھاؤ افسانچے تخلیق کرکے اپنے آپ کو بڑا ادیب ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انگلی کی حرکت سے اس نے اگلی پوسٹ کا رُخ کیا تو اُس کے سامنے ایک ویڈیوآگئی۔جس میں بھگوا رنگ کے کپڑے پہنے ایک آدمی اپنی نیتا گری چمکاتے ہوئے زہر اُگل رہا تھا۔

    ٍ ”بھائیو آپ فکر نہ کریں جلد ہی ہمارا دیش ہندو راشٹر بننے جا رہا ہے.......“

    اس کی زہر آلودہ باتیں جاری تھیں۔فیاض کے منہ سے ایک موٹی سی گالی نکلتے نکلتے رکی۔وہ اس ویڈیو کو آگے نکالتے ہوئے بڑبڑایا۔

    ”سیاست بھی کتنی گندی ہو گئی ہے۔ایک وقت تھا جب لوگ خدمت کے جذبہ سے سیاست میں آتے تھے اور آج کل،سب کے سامنے صرف اپنا مفاد ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر یہ کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔اب اسے ہی دیکھ لو ہندو مسلمان اور ہندو راشٹر کا راگ الاپ رہا ہے۔پتہ نہیں یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارا بھائی چارا صدیوں پرانا ہے اسے کوئی نہیں توڑ سکتا۔ مگر یہ نیتا لوگ اپنی فطرت سے باز نہیں آتے۔ اب تو یہ لوگ اپنی نیتا گری چمکانے کے چکر میں اتنے گر گئے ہیں کہ مذہبی کتابوں تک کو نہیں بخشتے۔آئے دن کہیں نہ کہیں قرآن شریف یا گورو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کی خبریں اخبارات کی زینت بنی ہوتی ہیں۔“

    فیاض فیس بک بند کرتے ہوئے بولا۔

    ”اُف....اس بھگوا دھاری نے تو موڈ ہی خراب کر دیا۔چلو اب رات بہت ہو گئی ہے اور تھکاوٹ بھی محسوس ہو رہی ہے،بہتر یہی ہے کہ اب سویا جائے۔“

    کہتے ہوئے وہ موبائل پر فجر کی اذان کے ٹائم کا الارم لگانے لگا۔تبھی اسے باہر گلی میں کچھ لوگوں کے دوڑنے کی آواز سنائی دی،ساتھ ہی ایک آواز گونجی۔

    ”رُک جاؤ سالو.....بھاگتے کہاں ہو۔؟تاجو ڈان سے تم لوگ نہیں بچ سکتے۔رکو.....رکو سالو۔تاجو سے بچنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔“

    فیاض اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔

    ”یا خدا.....اسے رات میں بھی چین نہیں،اور.....اور یہ کمبخت محلے کے لڑکے بھی تاجو شرابی سے پنگا لئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔کر دی ہو گی کسی نے اس کے ساتھ شرارت،اب یہ گالیاں بکتا پھرے گا۔“

    باہر شور سن کر زاہدہ بھی ایک دم سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔اُس نے گھبرا کر فیاض سے پوچھا۔

    ”کیا ہوا جی.....؟!یہ.....یہ باہر شور کیسا......؟!!“

    فیاض موبائل ہاتھوں میں گھماتے ہوئے بولا۔

    ”وہی تاجو شرابی......کر دی ہو گی لڑکوں نے چھیڑ خانی۔اب اُن کو ثواب پہنچاتا پھر رہا ہے۔میں تو حیران ہوں محلے کے ان لڑکوں سے پتہ نہیں کیا حاصل کر لیتے ہیں اسے پریشان کرکے.....؟!پوری رات ہلڑ بازی کرتے رہتے ہیں،نا سوتے ہیں ناہی سونے دیتے ہیں۔کمال تو یہ ہے کہ ان کے ماں باپ بھی دھیان نہیں دیتے ان کی طرف،اوپر سے اس شرابی نے تو جینا حرام کر رکھا ہے۔“

    زاہدہ نے ایک بھر پور انگڑائی لی اور اُٹھ کر پانی پینے لگی۔واپس بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولی۔

    ”میں تو ڈر ہی گئی تھی.....!اس حرامی نے تو میری نیند ہی خراب کر دی۔“

    فیاض نے موبائل پر الارم لگا کر ایک طرف رکھا اور اپنے بستر پہ لیٹتے ہوئے طنزکرتے ہوئے بولا۔

    ”لعنت ہو اُس پر جو ہماری میڈم کی نیند خراب کرے۔“

    تاجو ان کے محلے میں رہنے والا ادھیڑ عمر کا شرابی تھا۔وہ اکیلا ہی رہتاتھا۔کیونکہ شراب کی لت کی وجہ سے اس کی بیوی بہت پہلے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ایک بچہ تھا وہ اسے بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی تھی۔پیشہ سے وہ آدھا دن رکشہ چلاتا۔اُس کے بعد شراب کے نشے میں دھت رہتا۔دن میں وہ کہیں نہ کہیں شراب کے نشے میں چھومتے ہوئے مل جاتا۔کبھی وہ گندے پانی کے نالے یا کبھی گندگی کے ڈھیر پر گرا ہوا ملتا۔رات کو بھی اسے چین نہیں تھا،شراب پی کر رات بھر پورے محلے میں اونچی آواز میں فلمی گاتے ہوئے گھومتا رہتا۔اس کے بدن پر ہمیشہ میلے کپڑے ہی ہوتے جن سے عجیب قسم کی بدبوآتی رہتی۔اس کے ہاتھ میں اکثر ایک ڈنڈا ہوتا۔محلے کے شرارتی لڑکے اس کے ساتھ شرارتیں کرتے اور اسے پریشان کرتے رہتے۔کوئی اس کا پیچھے سے قمیض کھینچ کر بھاگ جاتا تو کوئی اس کی دھوتی کھول کر بھاگ جاتا۔وہ ان کے پیچھے ڈنڈا لے کر دوڑتا اور گالیوں کی برسات کر دیتا۔کبھی کبھی وہ گلی کے درمیان اپنی دونوں بانہیں پھیلا کر کھڑا ہو جاتا اور ڈائیلاگ بولنا شروع کر دیتا۔

    ”آگیا تاجو ڈان.....کون ہے مائی کا لال سامنے آئے تاجو ڈان سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے......تاجو ہے سب کاباپ.....تاجو ڈان سے کوئی نہیں بچ سکتا۔“

    ان ڈائیلاگ کے ساتھ ہی وہ گندی گالیاں بکنا بھی شروع کر دیتا۔گالیوں کی وجہ سے محلے کے کئی اوباش لڑکوں کے ہاتھوں اس کی پٹائی بھی ہو جاتی۔تب اسکی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی۔دو تھپڑ پڑتے ہی اس کے اندر کا ڈان دم دبا کر بھاگ جاتا۔وہ ہاتھ جوڑ کر ان کے قدموں میں بیٹھ جاتا اور گڑگڑاتے ہوئے کہتا۔

    ”آپ لوگ میرے بڑے بھائی ہو،مجھے معاف کر دو۔مائی باپ.....معاف کر دو مجھے.......“

    کہتے ہوئے وہ ان کے قدموں میں لیٹ ہی جاتا۔ان لڑکوں کے جاتے ہی پھر اس کے اندر کا ڈان جاگ اُٹھتا۔ پورے محلے والے اس سے دکھی تھے۔ہر کوئی اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔فیاض کو پہلے تو اس سے ہمدردی تھی۔اس نے کئی بار تاجو کو سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی کہ شراب بری چیز ہے۔اس سے صحت اور پیسہ دونوں برباد تو ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی شرابی آدمی کی سماج میں کوئی عزت نہیں رہتی۔تاجو یہ سب سن کر چھومتے ہوئے انگلی کھما کر کہتا۔

    ”چھوڑو بابو ان باتوں کو.......میں مزے میں ہوں اور شان سے اپنی زندگی گزار رہا ہوں۔بھاڑ میں جائے عزت۔تاجو کی شان کسی راجہ سے کم ہے کیا....؟ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی میرے سامنے کچھ نہیں۔!“

    فیاض کے کئی بار کوشش کرنے کے بعد بھی جب تاجو اپنی عادتوں سے باز نہ آیا تو فیاض کی اُس کے تئیں ہمدردی نفرت میں بدل گئی تھی۔

    موبائل پر الارم بجتے ہی فیاض نیند کی آغوش سے باہر آگیا۔اُس نے جلدی سے موبائل اُٹھا کر الار م بند کیا۔اس کی بیوی اور بچے گہری نیند میں تھے۔فیاض نے موبائل ٹیبل پر رکھ کر ٹوپی اُٹھائی اور کمرے سے باہر آگیا۔چاروں طرف اذان کے مقّّدس بول فضا میں روحانی کیفیت پیدا کر رہے تھے۔رات کے اندھیرے اپنا طویل سفر طے کر کے صبح کے اجالے کی بانہوں میں سما جانے کو بے قرار بڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے تھے۔مندروں سے بھجن و گھنٹیوں کی آوازیں اوردور کہیں سے گورودوارے کے پاٹھی کے بول۔

    ”اک اوم کار.....ست نام.....کرتا پورکھ.....نربھّو.....نِر ویر.....اکال مورت.....اجونی سہ بھنگ.....گورپرساد......محلہ پنجواں....پوڑی تیجی.....“

    روحانی ماحول کو دوگنا بنا رہے تھے۔فیاض نے وضو بنایا،سر پر ٹوپی پہنی اور اپنے گھر کا مین گیٹ کھول کر باہر نکلا۔گیٹ لاک کرکے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے وہ محلے کی مسجد کی طرف چل دیا۔ہلکی ہلکی ٹھنڈک کا احساس ہو رہا تھا۔موسم میں تبدیلی آنے کی وجہ سے ان دنوں فجر کے وقت رات کی گرمی سے کچھ راحت ملنا شروع ہو گئی تھی۔محلے میں رہنے والے آٹو چالک اپنی اپنی آٹو رکشہ لے کر ریلوے سٹیشن کی طرف نکلنا شروع ہو گئے تھے۔پرندے بھی گھونسلوں سے باہر نکل رہے تھے،ان کی مدھر چہچہاہٹ قدرت کے خوبصورت مناظر کو موسیقی کا رس گھول کر اور بھی دلکش بنا رہی تھی۔فیاض ذکر الٰہی میں مگن مسجد کی طرف بڑھ رہا تھا۔کچھ قدم چلنے کے بعد اس کی نظر ایک جگہ کھڑے محلے کے چھ سات آدمیوں پر پڑی،جو آپس میں گول دائرہ بنائے کھڑے باتوں میں لگے ہوئے تھے۔فیاض اُنھیں حیرانی سے دیکھتے ہوئے سوچنے لگاکہ یہ اس وقت یہاں کیا کر رہے ہیں؟!یہ تو پکے نمازی ہیں اس وقت تو انھیں مسجد میں ہونا چائیے تھا۔!خیریت تو ہے؟!سوچتے ہوئے فیاض تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا اُن کے پاس پہنچ گیا۔وہ کافی فکر مند دکھائی دے رہے تھے۔فیاض نے ان سے سوال کیا۔

    ”کیا ہوا....؟آپ لوگ اس وقت یہاں ایسے کیوں کھڑے ہیں....؟!!“

    ان میں سے ایک آدمی نے بغیر کچھ بولے نیچے زمین کی طرف اشارہ کر دیا۔فیاض نے نیچے دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔زمین پر تاجولیٹا ہوا تھا۔اُس کے چہرے اور پورے جسم پر چوٹوں کے کافی نشان تھے،جن سے خون بہہ رہا تھا۔اُس نے قرآن شریف کو دونوں بانہوں میں سنبھال کرمضبوطی کے ساتھ اپنی چھاتی سے لگا رکھا تھا۔وہ نیم بیہوشی کی حالت میں بڑبڑائے جا رہا تھا۔

    ”اپنے جیتے جی تو میں تمھیں قرآن کی بے حرمتی نہیں کرنے دوں گا۔رُک جاؤ سالو...تاجو ڈان سے تم نہیں بچ سکتے۔مر جاؤں گامگر قرآن کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔“

    اس کے پاس ہی ڈنڈا پڑا تھا جس پر خون لگا ہوا تھا۔فیاض تاجو کے قریب بیٹھ گیا۔تبھی مسجد سے ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور اُن سبھی کے پاس پہنچ کر وہ سہما ہوا سا بولا۔

    ”میں ابھی مسجد کے سی سی ٹی وی کیمروں کی فٹیج دیکھ کر آیا ہوں۔وہ دو آدمی تھے۔تاجو نے بڑی دلیری کے ساتھ اُنھیں قرآن شریف شہید کرنے سے روکا ہے۔“

    فیاض نے تاجو کے ماتھے پر ہاتھ رکھااُسے زمین پر پڑا تاجو واقعی میں کوئی ڈان محسوس ہونے لگا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے