میوہ فروش
سیٹھ فاروق بمبئی کے مشہور تاجروں میں تھے۔ ان کے مال و متاع کا اندازہ مشکل تھا۔ ان کے مقدر کی قسم کھائی جاتی تھی۔ مٹی میں ہاتھ ڈالتے تو سونا ہو جاتی۔ وہ بمبئی کی سب سے بڑی جہازراں کمپنی کے مالک اور ایک بین الاقوامی بینک کے سب سے بڑے حصہ دار تھے۔ بمبئی کے علاوہ ان کی ایک کپڑے کی مل احمدآباد میں بھی تھی اور وہاں کا مشہور ترین دیا سلائی کا کارخانہ انہیں کے روپے سے چل رہا تھا۔ سیٹھ صاحب یوں تو بمبئی کے روشن خیال طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر بخیل اور متکبر مشہور تھے۔ ایک پیسہ بھی خیرات نہ کرتے۔ خدا کے غریب اور تادار بندوں کا ان کے یہاں گزر نہ تھا۔ اس کے برخلاف نورانہ، سیٹھ صاحب کی بیوی بڑی دین دار اور مخیر تھی۔ یوں تو وہ ایک غریب گھرانے کی بیٹی تھی۔ مگر بہت کشادہ طبیعت۔ کبھی کسی کو مصیبت میں نہ دیکھ سکتی تھی۔ گھر کے اخراجات میں سیٹھ صاحب بہت تنگ دل تھے۔ نورانہ گھر میں تنہا تھی۔ کوئی بات کرنے والا نہ تھا۔ میاں بیوی کے مزاج میں بعدالمشرقین تھا۔ انس و محبت کا پتہ نہ تھا۔ میاں بیوی ایک ستار کے دو ایسے تار تھے۔ جو ہم آہنگ اور ہم ساز نہ ہو سکتے تھے۔
2
جنگ یورپ کو ختم ہوئے ابھی چند مہینے ہی گزرے تھے۔ دنیا اقتصادی الجھنوں میں گرفتار تھی۔ بڑے بڑے زبردست بنکوں کی بنیادیں ہل رہی تھیں اور نئی نئی قسم کے کاغذی سکے جاری ہو رہے تھے کہ یکایک سیٹھ فاروق کے بین الاقوامی بینک کا دوالہ نکل گیا۔ ساری ملیں اور کارخانے اسی میں ہضم ہو گئے۔ تمام جائیداد ہاتھ سے نکل گئی اور جو شخص تاجروں کا بادشاہ کہلاتا تھا، وہ آن کی آن میں فقر۔ ہو گیا۔
چار روز سے سیٹھ فاروق کا پتہ نہیں۔ سارے بمبئی میں کہرام مچ رہا تھا۔ کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اکثر لوگوں کا ٰخیال یہ تھا کہ وہ مطالبات پورے نہ کر سکتا تھا، اس لیے روپوش ہو گیا۔ لیکن حقیقت یہ نہ تھی۔ مطالبات کی پوری رقم ادا ہو جانے کے بعد ایک مکان بچ گیا تھا۔ نورانہ پر تمام واقعات کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ مال و متاع کے جانے کا اسے غم نہ تھا کہ اس نے اس نعمت کی کبھی بہار نہ دیکھی تھی۔ اسے جو کچھ غم تھا، وہ سیٹھ صاحب کی روپوشی کا تھا۔ نورانہ اور سیٹھ صاحب کی شادی کو بیس برس سے زیادہ ہو گئے تھے۔ آپس میں محبت نہ تھی، لیکن کوئی خاص اختلاف بھی نہ تھا۔ مدت کے ساتھ سے ایک قسم کی ہمدردی اور رفاقت بھی موجود تھی۔ خلاف امید جدائی نے عورت کے سینے مین محبت کے خاموش جذبات کو مشتعل کر دیا۔
نورانہ پچھتا رہی تھی: ’’میں نے ان کی قدر نہ جانی۔ میں نے ان کی کوئی خدمت نہ کی۔ گھر میں سکھ اور چین نصیب ہوتا تو وہ آج اس طرح خود کو دنیا میں تنہا سمجھ کر کہیں چلے نہ جاتے۔ میں بغیر ان کے اس گھر میں کویں رہوں۔ در و دیوار کھانے کو آتے ہیں خدا جانے وہ کب آئیں گے۔ ممکن ہے میرے منہ میں خاک، وہ کبھی نہ آئیں۔ اب کیا کروں اور کہاں جاؤں۔۔۔ نہیں، میں اپنے شوہر سے جدا نہ رہ سکوں گی۔ ان کا پتہ کس سے پوچھوں؟ مگر پتہ کی کیا ضرورت ہے تلاش اور طلب کو پتہ کی ضرورت نہیں۔ پردہ! اب پردہ کس کے لیے کروں؟‘‘
3
اس واقعے کو پانچ سال ہو گئے۔ لوگ سیٹھ فاروق کا نام بھی بھول گئے۔ گویا وہ دنیا میں تھا ہی نہیں۔ رات بھر کی بارش کے بعد صبح نمودار ہوئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سبک اور ہلکی ہلکی لطیف ہوا نہا کر آ رہی ہے۔ سورج کی کرنوں نے شام پور کے بازاروں کی دیواروں پر ایسا ملمع کر دیا تھا کہ جس میں زندگی کی جھلک معلوم ہوتی تھی۔ ایک میوہ فروش میلا سا تھیلا لٹکائے، ہا تھ میں انگوروں کی پٹاریاں لیے ’’کابل کا میوہ‘‘ بیچتا پھرتا تھا۔ اس کے چہرے پر مسرت اور راحت کا اثر نمایاں تھا۔ یہ سیٹھ فاروق تھا۔۔ فاروق نے اس قصبے میں اپنا نام بدل دیا تھا۔ داڑھی بڑھا لی تھی۔ اس کو ’’عارف‘‘ کے نام سے قصبہ کا بچہ بچہ جانتا تھا۔ وہ دن میں دو گھنٹے پھل اور مختلف میوہ جات گلیوں میں پھیری لگاکر فروخت کرتا تھا۔ اول اول اسے چار پانچ گھنٹے تک گشت لگانا پڑا، لیکن اب اس کے گھر سے نکلتے ہی لوگ جوق در جوق ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اور وہ بہت جلد سودا فروخت کر کے اپنی جھونپڑی میں داخل ہو جاتا ہے۔ میوہ فروشی سے جو نفع حاصل ہوتا ہے۔ وہ اس کے گزارے کے لیے کافی تھا۔
عارف کو سچی راحت نصیب تھی۔ اس کی سادہ زندگی مسرت اور شادمانی سے ہم کنار تھی۔ لیکن اب تکلیف دہ خیال نے اس کی خوشی کو ملال سے بدل دیا تھا۔ وہ نورانہ کے لیے بےچین تھا۔ اسے رہ رہ کر خیال آتا تھا: ’’میں نے کم سخن نورانہ پر ظلم کیا ہے۔ وہ میرے ساتھ کبھی آرام و آسائش سے زندگی بسر نہ کر سکی۔ اور وطن چھوڑتے وقت بھی میری خود غرضی نے مجھے اس کی طرف متوجہ نہ ہونے دیا۔‘‘ عارف ایک مرتبہ بھیس بدل کر بمبئی گیا بھی تھا۔ لیکن وہاں نورانہ کا کچھ پتہ نہ چلا۔ صرف یہ معلوم ہوا کہ سیٹھ فاروق کے غائب ہو جانے کے بعد وہ بھی کہیں چلی گئی۔
4
ایک روز کا ذکر ہے کہ عارف میوہ فروش صبح کے وقت اپنی جھونپڑی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت میلے اور پیوند لگے کپڑے اور ایک پرانی چادر اوڑھے گھو نگھٹ نکالے ہوئے آئی اور گڑگڑاکر کہا: ’’عارف، خدا نے تیری دعا میں اثر دیا ہے، تو خدا کا نیک بندہ ہے۔ میں دکھیاری ہوں۔ میرا خاوند پانچ برس سے لا پتہ ہے۔ تو خدا سے دعا کر وہ مجھے میرے عزیز شوہر سے ملا دے۔ یہ عورت نورانہ تھی۔ عارف نے نورانہ کی آواز نہ پہچانی۔ شاید یہ ہو کہ مصیبتوں کے ہجوم نے نورانہ کی آواز پر بھی کچھ اثر کیا ہو۔
مگر اتنا ضرور ہوا کہ عارف کے دل پر چوٹ سی لگی اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ وہ کہیں کھو گیا ہے۔ آخر اس نے اپنے جذبات پر قابو پا کر کہا: ’’بی بی تم کون ہو۔ کہاں کی رہنے والی ہو۔ تمہارے خاوند کا کیا نام ہے۔ وہ کیوں چلا گیا؟‘‘
نورانہ نے یہ آواز ضرور کہیں سنی ہے۔ وہ جھکیا مگر پھر سنبھل کر بولی: ’’خدا کے نیک بندے، میرے خاوند کا نام سیٹھ فاروق ہے۔‘‘
عارف: ’’کون! کیا تو نورانہ ہے؟ نورانہ! نورانہ! جسے تو عارف میوہ فروش سمجھ رہی ہے خود تیرا بچھڑا ہوا خاوند فاروق ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.