Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر معلوم ہے، ملازم تھا

اقبال دیوان

میر معلوم ہے، ملازم تھا

اقبال دیوان

MORE BYاقبال دیوان

    اس وقت تک پاکستان میں اسمارٹ فون، تھری جی جیسی ٹیکنالوجی اور واٹس اپ، فیس ٹائم، سنیپ چیٹ، ٹوئیٹر، ٹنڈر، اسنیپ چیٹ جیسی سوشل میڈیا کی ایسی غارت گر ایمان اور اودھم مچانے والی ایپس عام نہیں ہوئی تھیں۔ نہ ہی ہر اللے تللے کی کیمرے والے موبائیل فون تک یوں رسائی تھی، جیسی آج ہے۔اسمارٹ فون عام نہ ہونے کے باعث غریب غرباکی اکثیریت ان کمپنیوں کے پرانے سل بٹوں فون استعمال کرتی تھی جن کے نام اب پاکستانیوں میں غیر معروف ہوچلے ہیں۔مثلاً موٹرولا، ایرکسن۔ گھریلوں ملازمین کے پاس فون کا ہونا اس بات کی علامت تھی کہ وہ سلطان محمود کے غزنوی کے غلام خاص ایاز ہیں یا شہنشاہ محمد غوری کے قطب الدین ایبک والی ولایت خادمانہ کے مرتبے پر فائز ہیں۔

    محرم کے ایام عزا میں امنِ عامہ کی بےحد دگرگوں صورت حال کے باعث جب وزارت داخلہ نے ڈھائی دن کے لیے سیل فون سروس بند کی تو اس کا صدمہ اور نقصان، مختلف ممالک سے تعلق رکھے ہوئے آتنک وادھیوں (ہندی میں تخریب کاروں)، گھس بیٹھیوں (Intruders) اور کروڑوں روپے اپنے ہی بھیجے گئے پیغامات کے پھیلاؤ سے کمانے والی متعدد سیل فون کمپنیوں کو اتنا نہیں ہوا جتنا میرؔ ملازم کو ہوا۔ بیرونی دنیا سے اس کا واحد رابطہ یہ ایک سیل فون ہی تو تھا۔

    پاکستان میں سب سے پہلے اسی نے وزارت داخلہ کی اس پابندی پر دل کھول کر اعتراض کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر کہیں خود کش حملہ ہو تو اس کا کیا مطلب ہے حکومت بولےگی کہ سب عورتیں، بچے پیدا کرنا بند کر دیں۔ بات ہے جٹ (سندھی زبان میں مہمل مطالبہ)ہے۔

    میر نے دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے اپنا یہ تجزیہ ٹی وی کی ایک مشہور اداکارروبی خان کے سامنے پیش کیا۔ وہ س وقت کسی شوٹنگ سے واپس آتے ہوئے، خرید کیے گئے، گھر کے سامان سے لدی پھندی، تھکی ہاری واپس لوٹی تھی۔ میر کو گھر کے باہر، فالتو بیٹھا دیکھ کر گاڑی سے سامان اتارنے کے لیے بلا لیا تھا۔

    اسے بھی میر ملازم کے سیل فون سے والہانہ لگاؤ کا بخوبی علم تھا۔ اس اداکارہ کے بیک وقت دو افیئر ایک ساتھ چل رہے تھے۔ اس کا پہلا افئیر تو اپنے ہی سیل فون کے ساتھ چل رہا تھا اور دوسرا ایک ٹاک شو ’پنڈ دا چوہدری‘ کے اینکر پرسن یعنی لنگرباز ڈی۔ جے۔ چوہدری کے ساتھ ٹیک آف کے مراحل طے کر رہا تھا۔ اپنے اس پہلے افئیر کی بنیاد پر عشق کی آگ میں سلگتی ہوئی اک دوشیزہ ہونے کے ناطے اسے یہ بخوبی علم تھا کہ سیل فون کا عشق کس قدر گہرا اور توجہ کا طالب ہوتا ہے۔

    روبی خان نے میر ملازم کایہ جملہ کاپی رائٹ ایکٹ کی پرواہ کیے بغیر اپنے یار کو فوراً ایس ایم ایس کر دیا۔ ڈی۔ جے چوہدری نے یہ جملہ اپنے ٹاک شو میں مہمانوں کے تعارف سے پہلے اپنے بیان کیا جس پر مہمان اس کی اس دور سے لائی ہوئی کوڑی اور چمکیلی ذہانت سے بہت متاثر ہوئے۔ یہ غالباً آخری ایس۔ ایم۔ ایس تھا جو اس دن پاکستان سے بھیجا گیا۔اس کے فوراً بعد پاکستان بھر میں ڈھائی دن کے لیے سیل فون سروس منقطع ہو گئی۔

    میر ملازم کی کل کائنات یہ ہی سیل فون تھا۔ ایک دن پہلے ہی وہ ایک رنگ برنگا چارجر خرید کر لایا تھا۔ فون کی چارجنگ کے وقت اس میں جلتی بجھتی روشنی کو دیکھ وہ ایسے ہی خوش ہوتا تھا۔ جیسے تیزی سے بوڑھے ہوتے والدین اپنی فرماں بردار اولاد کو جواں ہوتا دیکھ کر ہوتے ہیں۔ پہلی دفعہ اس آر پار دکھائی دینے والے چارجر سے جب اس کے فون پر چارجنگ کی علامات دکھائی دینی لگیں تو وہ بےاختیار کہہ اٹھا کہ ’’انگریز کی بھی سائیں کیا قدرت ہے پہلے تو بغیر تار کا فون بنایا پھر ایک ایسا چارجر بنایا کہ اندر سے سب دکھائی دیتا ہے‘‘۔

    یہ چارجر اس وقت تک شہر میں کہیں اور دستیاب نہ تھا۔ سامنے والے علاقے پارک لین کے کسی بنگلے میں ہنزہ کا ایک باشندہ مبارک، بطور کک ملازم تھا۔ وہ کراچی سے موسم گرما میں چھٹیاں گزارنے اپنے گھر ہنزہ جاتا تو کچھ دن کے لیے چین کے شہر ارمچی جو قریب ہی واقع تھا، وہاں سے بھی ہو آتا تھا اور واپسی پر بہت سا سستا سامان بھی ساتھ لے آتا جس کی خاصی مقدار وہ کراچی لاکر بیچ دیا کرتا تھا۔ اب کی دفعہ بھی وہ ایسے ایک درجن کے قریب چارجر اپنے سالانہ تفریح اور کاروباری دورے میں لے آیا تھا۔اس کا چارجر کا کرشماتی احوال میر ملازم نے سرجن فاروقی صاحب کی چھبیس برس کی جواں سال ملازمہ، تانی بیگم سے سنا جو مبارک کک والے بنگلے میں بھی جھاڑو پوچا، بیگم صاحبہ کا ہفتے میں تین دفعہ مساج اور چھوٹی موٹی چوریاں بھی کیا کرتی تھی۔

    یہ چھوٹی موٹی چوریاں بیگم صاحبہ کی فیک جیلوری کے آئٹم، کوئی استعمال شدہ لپ اسٹک، پرفیوم کی آدھی پونی بوتل ہوتی تھی یا پھر باہر کی بنی ہوئی پرانی لانژرے، یا پچاس پانچ سو کا نوٹ، جن کی چوری کا اکثر مالکن کو علم بھی جاتا تھا۔ وہ بالخصوص اپنی لانژرے کے غائب ہونے پر بہت اودھم مچاتی تھیں۔

    اس طرح کے زیر جامے وہ یا تو اپنے بیرونی دوروں میں دکان دکان گھوم کر وہاں برپا سیل میں خریدتی تھیں یا ان کی دو عدد بیرونی ممالک میں مقیم بہنیں یا ایک عدد بھابھی آن لائن شاپنگ کرکے انہیں بھجواتی تھی۔ تانی بیگم کے اور مسز منیر جھکی کے جسمانی خطوط تقریباً ایک ہی پیمائش کے تھے۔ تانی بیگم جب یہ لانژرے پہنتی تو وہ اس کے بدن پر ایسے ہی فٹ بیٹھ جاتی تھیں جیسے قیمتی ڈوم پیرے نیوں (Dom Perignon) کی شمپین کرسٹل کے لمبی ڈنڈی والے کرسٹل کے جام میں دھوم مچاتی، بلبلے چھوڑتی، نشے کی دعوت دیتی ہوئی سما جاتی ہے۔

    ان لانژرے کے گم ہونے پر اودھم عام طور پر سر شام اس وقت مچایا جاتا، جب وہ اپنے میاں کے ساتھ کسی پارٹی میں جانے کے وقت تیار ہو رہی ہوتیں۔ اس بناؤ سنگھار میں اپنے وہ زیر جامے باتھ روم کی کھونٹی پر جہاں انہوں نے انہیں، ایک آدھ دن پہلے لٹکایا ہوتا، وہاں سے غائب ملتے تھے۔ یہ وہ قیامت ہوتی جو امریکہ میں آنے والے طوفانوں Hurrican Julia, Hurrican Katrina, Hurrican Ivanka کی مانند قیامت صغری، قیامت عظمی، قیامت سلمی، قیامت لبنیٰ قسم کی ہوتی۔

    ان کا نو دولتیا میاں، منیر ذکی (جسے سب لوگ اس کی بحث کی عادت کی وجہ سے منیر جھکّی کہتے تھے) وہ ایک بڑا بلڈر تھا اور فراڈ کے پلاٹوں اور نیم مکمل تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ کر بے تحاشا مالدار ہو گیا تھا، ان کی اس تکا فضیحتی سے تنگ آکر انہیں سمجھاتا کہ بیگم جس ملک میں وزیر، بڑے سیاسی لیڈر، چھوٹے بڑے اہم سرکاری افسر دن بھر میں عوام کا کروڑوں روپے چراتے ہوں، وہاں نوکرانی نے اگر ان کی پرانی لانژرے چرالی تو ایسا کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اسے تم اپنے حسن دل فریب کا صدقہ سمجھو۔ تم کہو تو میں پاکستان میں وکٹوریہ سیکریٹ کی فرنچائز لے لوں۔ اس کا یہ حربہ، یہ تسلی، یہ پیش کش بیگم صاحبہ کے تاؤ و طیش پر جولائی میں بارش کی پہلی پھوارکا سا کام کرتے۔

    وہ انہیں گلے لگا کر چومتے چومتے جب ہل من مزید کی ضد کرتا تو وہ اپنی تیاری اور میک اپ خراب ہونے کی وجہ سے اسے یہ کہہ کر ٹال دیتی تھیں کہ باقی معاملہ پارٹی سے واپسی پر۔

    انہیں بخوبی علم تھا کہ وصل کی آگ میں جلتے وقت میاں کا حسد نیم شب میں کس قدر خوش رنگ بن جاتا ہے۔ اسی لیے وہ انہیں اک ادائے دل بری سے جتاتی تھی۔ Let there be a pinch of jealousy when other men in the party drool over me(کچھ حسد بھی شامل ہو جائے جب پارٹی میں میرے حسن کے جلوے دیکھ کر کئی مردوں کی رال ٹپکنے لگے)۔ جس پر ان کا اردو میڈیم میاں احمد فراز کا یہ مصرعہ ایک لطف سے پڑھا کرتا تھا کہ ع نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں تانی بیگم نے جب اس طرح کی چوری پہلی دفعہ کی اور اپنے سے سات سال چھوٹے میاں فضل داد جو میٹرک فیل تھا اس کے سامنے اکتوبر کی ایک برستی شب جب ہلکے نیلے آسمانی رنگت کی اس برا اور پینٹی کو پہنا تو اس رات وحشتوں اور طلب کا عجیب منظر تھا، دھوبی کی دھلی ہوئی ہلکی گلابی چادر پر وہ تہمد پہنے اپنے محنت سے پلے ہوئے کسرتی بدن کے ساتھ نیم دراز، وصال کا منتظر، تخت ہزارے کا رانجھا بنا، نیم دراز تھا۔

    آج رات عجب اتفاق تھا کہ فضل کے والدین بھی گھر پر نہ تھے اور شام کی برسات کے ختم ہونے کے بعد کچھ دیر پہلے ہی بجلی واپس آئی تھی۔ ان کے گھر کے سامنے کی اسٹریٹ لائیٹ کی کرنیں روشن دان کے مٹیالے شیشوں سے چھن کر سیدھی بستر پر پڑرہی تھی۔ بقول شاعر نصیر ترابی کے دھوپ، چھاؤں کا منظر تھا پر جدائی نہ تھی۔

    تانی بیگم جب شاور لے کر بیگم منیر کا چوری کا ڈیوڈرینٹ لگا کر سرقے کی آسمانی رنگت کی اس برا اور پینٹی پہنے کچھ گیلی، کچھ سوکھی، اندھیرے اجالے سے الجھتی غسل خانے سے برآمد ہوئی تو یہ بات نہ تھی کہ اس غسل خانے سے سنی لیون (مشہور کنیڈین نژاد بھارتی ماڈل اور گندی فلموں کی اداکارہ کرن جیت کور وہرہ) اس مقام پاکیزگی سے برآمد ہوئی ہو، پر یہ بھی نہ تھا کہ چھبیس برس کی اس پلی پلائی تانی بیگم پر وہ لباس پھب نہ رہا ہو۔

    فضل داد اپنی منکوحہ کے اس لباس دل فریب کی سجاوٹ، بناوٹ اور دکھاوے کے سحر میں مبتلا ہوکر کافی دیر تک اسے للچا کر تکتا ہی رہا۔ جب وہ ایک ادائے دلبری سے اس کے قریب آن کر براجمان ہو گئی تو وہ اپنی اس سمٹتی پھیلتی، قریب آتی، دور جاتی، آرزوئے وصال میں دہکتی، اپنی تانو ڈارلنگ کے بدن پر ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ اسی اثناء میں اس کے ہاتھ کمپنی کے نام والا لیبل لگ گیا اور وہ اس کی گود میں سر ڈال کر باتھ روم سے باہر آتی روشنی کی مدد سے اس لیبل پر لکھا نام پڑھنے لگا۔

    یہ لیبل ناف کے عین نیچے الٹی پہنی ہوئی پینٹی سے باہر چھلک آیا تھا۔ تانی نے جب پوچھا کہ کیا لکھا ہے تو وہ کہنے لگا ’’رانی وکٹوریہ کا راز(Victoria 's Secret)‘‘ اس پر تانی بیگم شرما کر کہنے لگی ’’فضلو جانی لگتا ہے میں نے آسمان پہن لیا ہے۔ لے تو بھی ٹرائی کر‘‘۔

    جب فضل داد نے اس کی دعوت پر یہ پینٹی اس سے اتروا کر خود پہنی تو اس کے منھ سے بے اختیار یہ جملہ نکلا کہ ’’تانو! مے کوں لگدا جینہیوے میں ملائی پا چھوڑی ہے‘‘ (سرائیکی۔ مجھے لگتا ہے جیسے میں نے ملائی پہن لی ہے) تانو نے شرارت سے اس کی طرف اپنی برا بھی اچھال دی کہ وہ بھی پہن لے۔جھینپ کر جب اس نے وہ بھی پہن لی تو تانو اس پر ٹوٹ پڑی اور کہنے لگی ’’وے فضلا اج تو توں میری زال، تے میں تیرا مرس(شوہر)‘‘ اس رات دونوں کے پیار نے غربت، چوری اور جوانی کی وحشتوں سے لدی پھندی اس Cross -Dressing نے نت نئے روپ دھارے۔

    اس حوالے سے اصل ہنگامہ اس وقت ہوا جب تانی بیگم نے مسز منیر ذکی کی بہن کی ایک بے حد مختصر برا اور پینٹی اپنی کسی پرانی سستی دیسی پینٹی اور برا کے نیچے، چرانے کی غرض سے پہن کر چھپا لی۔ یہ وہ اپنے باتھ روم میں دھلنے کی غرض سے چھوڑ آئی تھیں۔ مسز ذکی کی بہن کا یہ لباس ایسا تھا کہ اگر آپ کو ہندوستان سے ایک زمانے میں چھپنے والے مشہور ادبی رسالے’بیسویں صدی‘ کے اوراق یاد ہوں تو ان میں ایک بےحد مختصر کہانی بھی شائع ہوتی تھی جس کی لوح پر ہمیشہ بطور تعارف یہ لکھا ہوتا کہ ’مختصر مختصر کہانی، انہیں دو صحفات میں مکمل‘۔ تانی بیگم کے چرائے گئے یہ زیر جامے اس سلسلے کی بہترین توضیح تھے۔

    تانی بیگم جب اگلے دن کام پر واپس آئی تو مسز منیر اور ان کی بہن نے اس چوری کے حوالے سے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔جس پر تانی بیگم نے اپنی صفائی یہ کہہ کر پیش کی کہ ’’بیگم صاحبہ آپ کے باتھ روم کی صفائی تو بھنگن آن کر کرتی ہے۔ ہم غریب لوگ چرائیں تو کوئی مال، نقدی، سونا چرائیں۔ آپ کے یہ کپڑے ہمارے کس کام کے، ہمارے میاں نے ہمیں پوری طرح سے کبھی دیکھا بھی نہیں۔ ہمارے کمروں میں تو ٹھیک سے نماز پڑھنے کی جگہ نہیں، ہم یہ سب پہن کر کیا اپنے ساس سسر کو دکھائیں گے۔ میرا میاں فضل داد تو راج مستری ہے۔ وہ آپ کے مردوں کی طرح پیار تھوڑی کرتا ہے۔ وہ تو مجھے بھی دیوار سمجھ کر پلستر کرتا ہے۔ ہمارے لیے ڈالر، دھرم(وہ درہم کو دھرم کہتی تھی) کچھ کام کے ہوتے ہیں جو آتے جاتے کوئی مہمان دے جائے۔ آپ کے یہ کپڑے ہمارے شامیانے جیسے بدن کے کس کام کے‘‘۔ اس کی یہ بات سن کر مسز منیر اپنی بہن بینا جسے وہ پیار سے بی نو کہتی تھیں، کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے جملے اور محرومی کا لطف لیتے ہوئے کہنے لگیں Well she will never admit and she is always with these corny filmi excuses (یہ اپنی چوری کبھی بھی نہیں مانےگی اس کے پاس ہر وقت اس طرح کے مضحکہ خیز فلمی بہانے ہوتے ہیں)۔

    مبارک نے جب تانی کو یہ نیا چارجر دکھایا تو وہ بھی انگریزوں کی طرح سے سیانی بن گئی۔ وہی انگریز جنہیں رانس کا جرنیل اور شہنشاہ نپولین دکان داروں کی قوم The nation of shop keepers کہا کرتا تھا۔ نوکرانیوں کی اس ایسٹ انڈیا کمپنی کو کوئی اور تو نہ ملا بس میر کاسیل فون کا ذوق جنوں نظر میں رہا۔ میر اس کی زبانی سیل فون کا ذکر سن کر ایسے ہی مچل گیا جیسے نوجوان مولوی، سورہ الواقعہ میں حوران فردوس کے حسن و جمال اور اوصاف و اطوار سن کر شرائط اعمال صالح کے لازمے بھول بھال کر وارفتہ ہو جاتے ہیں۔ میرؔ نے تانی بیگم کو خاص طور پر تاکید کی کہ وہ جب کام کے لیے وہاں جائے تو اسے بھی ساتھ لے جائے۔

    ہنزہ کے مبارک کک کی مرضی تو یہ چارجر پانچ سو روپے میں فروخت کرنے کی تھی مگر جب میر ملازم نے اسے شرم دلائی کہ حکومت تو پہلے ہی بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا بڑھا کر غریب عوام کو لوٹتی ہے، د وسری طرف غریب عوام بھی یہ کام کرنے لگیں گے تو پھر وہ بھی سب کچھ چھوڑ کر دھاڑیل (ڈاکو) بن جائےگا۔ مبارک ملازم کے علاقے شکش کاٹ۔ ہنزہ میں جرائم کی شرح بےحد کم تھی۔ اس نے سوچا کہ شاید اس طرح ڈیڑھ سو روپے کی رعایت سے کراچی کے حالات میں بھی بہتری آ جائے۔ اسے بھی اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ملک کے تمام بڑے اس معاملے میں اپنی راتوں کی نیند حرام کیے بیٹھے تھے۔ وہ تین سو روپے تک اسے فروخت کر سکتا تھا مگر پچاس روپے تانی بیگم کے کمیشن کے تھے لہذا اس ٹرانسپرینٹ چارجر کا سودا ساڑھے تین سو روپے پر ڈن ہوا۔

    اس دن تانی بیگم نے میر ملازم سے ڈھائی انکشافات کیے تھے۔ ایک انکشاف تو اس چارجر کے بارے میں تھا جو میر ملازم کی فوری طور پر سمجھ میں آ گیا اور اس نے اس کو اسی دن عملی جامہ بھی پہنا دیا۔ اس چارجر کی خریداری اس کی خوشیوں میں بےحد اضافے کا باعث بنی۔

    دوسرا انکشاف یہ تھا کہ تانی بیگم کو کو کسی ملازمہ نے ریٹائرڈ رئیر ایڈمرل احمد علی نقوی صاحب کے گھر پر کام دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے ہاں نئی شادی ہوئی تھی۔ بہو عاطفے کوئی ایرانی لڑکی تھی جس سے ان کے بیٹے نے پسند کرکے شادی کی تھی۔ تانی بیگم سے بہو کی ملاقات اس کے بیڈروم میں ہوئی جہاں وہ ایک نائیٹی پہنے بستر پر دراز تھی۔۔۔ تنخواہ میں کمی اور کام کی کثرت کے باعث بات نہ بن پائی۔وہ مساج بھی کرانا چاہتی تھی۔ اس کے تانی بیگم نے علیحدہ سے دو سو روپے فی سیشن مانگے تھے اور کھانا بھی۔

    عاطفے نے جب اس کو جتایا کہ ’’دن کے ساڑھے گیارہ بجے کھانے کا کون سا وقت ہوتا ہے؟ تو وہ کہنے لگی کہ’’ ہم غریب لوگوں کا کھانے کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ جب بھی ملے کھا لیتے ہیں۔ کھانے کے وقت تو صرف امیروں کا ہوتا ہے۔

    جس دن تانی بیگم نے میر ملازم کو اس چارجر کے بارے میں بتایا اور وہ اس کے لیے چائے بنا کر لے آیا تو وہ اسے ایک اور آدھے راز سے اور بھی آشنا کر بیٹھی۔ ان ڈیڑھ رازوں تک میر ملازم کے تخئیل کو رسائی تک نہ تھی۔ ایک راز تو یہ تھا کہ وہ ایرانی لڑکی عاطفے اتنی گوری ہے کہ رات کو کمرے میں ٹیوب لائٹ جلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی اس جھپ میں تانی نے اسے آدھا راز اور بھی بتایا کہ ’’میرا میاں تو رات کو مجھے ڈھونڈتا ہی رہتا ہے‘‘۔

    ’’وہ کیوں تو رات کو گھر پر نہیں سوتی کیا؟‘‘ میر ملازم نے معصومیت سے پوچھا۔

    تانی بیگم نے شرما کر کہا ’’سوتی تو ہوں پر دکھائی نہیں دیتی‘‘

    ’’کیوں تو رات کو جن بن جاتی ہے کیا؟‘‘میر ملازم نے پھر اسی معصومیت کا سہارا لے کر دریافت کیا۔

    ’’ہاں بعد میں‘‘ تانی بیگم نے آنکھ مارکر کہا۔

    ’’بعد میں بولے تو‘‘ میر ملازم جس نے جملہ کا ’بولے تو‘ والا حصہ یہ بیگم صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی شایان سے بمشکل سیکھا تھا اور اب وہ اسے باآسانی استعمال بھی کرنے لگا تھا۔

    ’’اسی لیے تو میں نے بوڑھے ماموں کو چھوڑ کر بھاگ کر اس کے بہنوئی کے سب سے چھوٹے بھائی فضل داد سے شادی کی۔ وہ مجھ سے پورے سات سال چھوٹا ہے، صرف انیس برس کا ہے‘‘۔

    رات کی ان وحشتوں کو میر ملازم کو کچھ اندازہ نہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ صرف فون کو ہی چارج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے انسانوں کو چارج نہیں کرنا پڑتا۔

    اس کی اس مہمل گفتگو سے تنگ آن کر میر ملازم اونٹوں کی بات کرنے لگا جن کے درمیان اس نے اپنی عمر عزیز کے پورے پندرہ سال گزارے تھے۔ ’’ہمارے ہاں چار طرح کے اونٹ تھر پاکر چھاچھرو میں ملتے ہیں: دھاتی۔ کھرائی۔ لاری جس کو ہم سندھی بھی بولتے ہیں اور سکاری ابھی کوئی زمیندار پنجاب سے کالا چٹا اور مریچا کی نسل بھی لائے ہیں مگر وہ کامیاب نہیں‘‘۔

    تانی بیگم کو اونٹوں میں کوئی دل چسپی نہ تھی وہ کہنے لگی ’’یہ تیرے کھاکھرو کے اونٹوں کو گولی مار۔ کراچی میں اب لوگ سوزوکی اور پراڈو میں گھومتے ہیں‘‘۔ ’’اڑے الو کھاکھرو نہیں چھاچھرو ‘‘تانی بیگم کی بات اس نے جھڑک کر کاٹ دی توہ جھوٹ موٹ روٹھ کر جانے لگی تو میر ملازم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس اپنے پلنگ پر بٹھا لیا۔ ’’میرے میاں فضل داد کو اگر پتہ چلے کہ تونے میرا ہاتھ پکڑا تھا تو وہ تیرے ٹوٹے کر دےگا۔ تو نے میری خاص بات تو سنی بھی نہیں ‘‘میر ملازم کی توجہ اس نے ایک دفعہ پھر سے اپنے انکشافات کی جانب مبذول کرائی۔ ’’وہ کیا بھلا؟‘‘ ’’وہ یہ کہ اس ٹیوب لائیٹ کے بیڈ روم میں پوری چھت پر ایک ہی بڑا سا آئینہ لگا ہے۔ پہلے کمرہ بن گیا تھا ان کی نوکرانی نے مجھے بتایا۔ پھر یہ چھوری باہر سے آئی تو اس نے دروازہ اور کمرے کی دیوار تڑوائی اور آئینہ چھت پر فٹ کرایا‘‘۔

    ’’چھت میں آئینہ۔ اڑے مجھے لگتا ہے تو چریا ہو گئی ہے؟‘‘ میر نے اسے پاگل قرار دیتے ہوئے اپنی حیرت کا اظہار کیا۔

    ’’پوری چھت، ایک آئینہ اور ساری رات۔ سوچ تو سہی‘‘ تانی بیگم نے مشہور ادیب مظہر الاسلام کی کتابوں کے ناموں گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی ‘اور’ خط میں پوسٹ کی ہوئی دوپہر کی طرز پر ایک جملہ داغ دیا۔ اپنی ہی بات کا لطف لیتے ہوئے ہوئے وہ آگے کی طرف جھک کر زور زور سے ہنسنے لگی۔ اس ہنسی کی وجہ سے اس کے باہر کی طرف جھانکتے سینے کی مست و رقصاں تھرتھراہٹ، میر کو بہت اچھی لگی۔ اسے لگا کہ اس کے علاقے چھاچھرو میں چھاجوں مینہ برسا ہے اور کسی بہت دنوں کے سوکھے تالاب میں بارش کا بھرا پانی ہوا کے تیز جھونکوں سے خوشی سے لہروں کے گول گول دائرے بنا رہا ہے۔ میر نے اس دلفریب منظر کو ایک مشاق فوٹو گرافر کی طرح سے کچھ دیر تو نگاہ جماکر دیکھا اور دل ہی دل میں اس منظر سے کھیلتے کھیلتے ایک مناسب لمحے میں اس منظر کو ہمیشہ ہمیشہ دل کی کیمرے میں محفوظ کرنے کے لیے شٹر ریلیز بٹن دبا دیا۔

    میر کی اس دیدہ دلیری کا لطف لیتے ہوئے اس نے یہ شوخی بھر ا نکشاف کیا کہ ’’میر ا میاں فضل داد جب میں ایسے ہنستی ہوں تو تیری طرح اندر جھانک کر کہتا ہے’’ تانی تیرا یہ رقصِ خربوز وے مار سٹیا‘‘ (سرائیکی میں مار ڈالا)

    ’’تیرے میاں کی اردو اچھی ہے میں تو بس چھ جماعت سندھی پاس ہوں مجھے یہ رقص خربوز جیسے مشکل اکھر (سندھی میں الفاظ) نہیں آتے ویسے بھی کراچی میں جس کو پناہ گیر (مہاجرین) لوگ خربوز بولتے ہیں اس کو ہمارے سندھ میں گدڑو بولتے ہیں‘‘۔ میر نے اپنی جھینپ اور خفت مٹاتے ہوئے کہا۔

    ’’اچھا اب میں فضل داد کو بتاؤں گی کہ وہ اس کو رقص گدڑو بولے‘‘۔ تانی بیگم جس کا آج میر کی میزبانی کا مکمل لطف اٹھانے کا تھا، اسے ہنس کر جتلانے لگی۔

    میر کے دماغ میں گو رقص خربوز نے ایک پسندیدہ خلل ڈالا تھا مگر اصل میں اس کا ذہن اب بھی چھت پر عاطفے بیگم کا آئینہ لگانے کی گتھی سلجھا رہا تھا اپنی معصوم روانی میں پوچھ بیٹھا۔ ’’کیا وہ بیگم لیٹ کر کپڑے بدلتی اور میک اپ کرتی ہے؟‘‘

    ’’تو نے وہ گانا سنا ہے ہر طرف تیر ہ جلوہ۔ اسے خود کو دیکھنے کا بہت شوق ہے‘‘۔ تانی بیگم نے اس سے سوال بھی پوچھا اور جواب بھی دے دیا۔

    ’’اڑے اپنے آپ کو دیکھنے کا شوق ہے تو دیوار پر آئینہ لگالے‘‘۔ میر نے اپنی منطق جھاڑی۔

    ’’تو ان باتوں کو نہیں سمجھےگا میرے ویر‘‘ تانی بیگم کا اپنا نسوانی تجسس بھی اسے اس بات پر اکسا رہا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ اس کے سینے کی اس تھر تھراہٹ اور چھت میں آئینہ لگانے والی بات نے، میر میں کس نوعیت کی کھوج کو اور ذہنی خلفشار کے تاروں کو چھیڑ دیا ہے۔

    ’’تونے بھی اس کی دیکھا دیکھی، چھت میں آئینہ لگایا ہے؟‘‘ میر نے ایک ذاتی سوال اپنی روایتی معصومیت سے پوچھ لیا۔

    ’’نہیں میں اور فضل جب بستر میں ہوتے ہیں تو رات کو بتی بھی نہیں جلاتے‘‘۔ تانی بیگم نے بہت تاسف سے کہا۔

    ’’وہ کیوں؟‘‘ میر نے پوچھا۔

    ’’بجلی کا بل بہت آتا ہے۔ میں فضل کو بولتی ہوں ہتیجی (احمد پور شرقیہ کی ایک نواحی بستی) کے سوم، کچھ نہیں تو ایک موم بتی ہی بال لے (جلا لے)۔ اس سے کھانا کھاتے وقت اور پیار کرتے وقت ماحول ہی رنگین جائےگا‘‘۔ تانی اپنی بات میں ایک جہاں کی محرومی سمیٹ کر کہنے لگی۔

    ’’ہاں تو بولتی تو پتے کی بات ہے، پھر وہ کیا کہتا ہے‘‘؟ میر نے اب اپنی کھوج کا رخ تانی بیگم کی راتوں کی جانب کر دیا۔

    ’’فضل داد، میرا نان مٹرک پاس راج مستری بولتا ہے کہ میری تانی رانی، پلاسٹک کے پرانے برتنوں میں رات کو مونگ کی دال اور بے چپڑی روٹی کھانے سے ماحول رنگین نہیں بنتا۔ رات کو دن بھر کی محنت سے تھکے ہارے بدن پیار میں لپٹ تو سکتے ہیں۔ ماحول رنگین نہیں کرسکتے‘‘۔ تانی کی آواز میں وہی پرانا تاسف قائم تھا۔ میر کی ہمدردی کا اس نے ایک چالاکی بھرا جائزہ لیا۔

    میر ملازم کی آنکھیں اس انکشاف پر بند ہو گئیں تو تانی بیگم جس کے اپنے علاقے احمد پور شرقیہ میں بھی اونٹ بکثرت پائے جاتے تھے نوٹ کیا کہ اس کی پلکیں بھی اونٹ کی پلکوں کی طرح عام انسانوں کی پلکوں سے زیادہ لمبی تھیں۔ ویسے بھی وہ جسمانی خدو خال کو زیادہ ہی نوٹ کرتی تھی جب ہی تو اس نے عاطفے کی رنگت کو ٹیوب لائٹ سے تشبیہ دی تھی۔ اس کی خاموشی سے قائم سکوت توڑنے کے لیے تانی بیگم نے میر ملازم سے فرمائش کی کہ ’’اگرتیرے صاحب کی کوئی سگریٹ پڑی ہے تو اٹھالا مجھے پینی ہے۔‘‘

    ’’تو بہت خراب ہو گئی ہے‘‘۔میر نے اس کی فرمائش سن کر کہا ’’خراب تو وہ ہوتا ہے بابو جی جو کبھی اچھا ہو‘‘۔ تانی بیگم نے انڈین اداکار ہ سوناکشی سنہاکی نقل کرتے ہوئے کندھے اچکا کر میر کو چھیڑا۔

    میر چپ چاپ اپنے مالک کے کمرے میں گیا اور ان کی سگریٹ کی ڈبیا سے دو سگریٹیں نکال لایا۔ گھر پر اس وقت صرف شایان بی بی تھی جو اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے ڈیک پر بلند آواز میں میوزک سن رہی تھی۔ تانی بیگم کی طرف لوٹتے ہوئے اس نے کچن سے ماچس کی ڈبیا بھی اٹھا لی۔

    جب تانی نے سگریٹ سلگا کر ایک لمبا کش لیا اور اس کا دھواں میر کی جانب چھوڑا تو وہ ہاتھوں سے اس دھوئیں کو ادھر ادھر دھکیلتا ہوا اس پوچھنے لگا تو خالی سگریٹ پیتی ہے یا کچھ اور بھی؟!

    ’’اتوار کے دن میں اور میرا فضلو گھر پر دونوں اکیلے ہوتے ہیں اور اس کے بڈھا بڈھی رشتہ داروں سے ملنے چلے جاتے ہیں تو ہم دونوں چترال کی ٹافی بھی کھاتے ہیں۔‘‘ تانی نے ایک اور راز پر سے پردہ ہٹایا۔

    ’’وہ زیادہ میٹھی ہوتی ہے کیا؟‘‘میر نے پھر اپنے تجسس کا اظہار کیا۔

    ’’ویر میرے شہد سے بھی زیادہ میٹھی۔ سگریٹ میں بھر کر پینے میں بہت مزا آتا ہے۔ تجھے معلوم ہے ہم لوگ چترال کی ٹافی چرس کو بولتے ہیں۔پھر ہم پیار کرتے کرتے بلیوں کی طرح لڑتے ہیں‘‘۔ تانی نے ایک مرتبہ اور آنکھیں مٹکا کر جواب دیا۔

    ’’اڑے ہمارے چھاچھرو میں بلیاں رات کو لڑتی ہیں تمہارا شہر عجیب ہے یہاں بلیاں دن میں بھی لڑتی ہیں‘‘۔ میر نے اس کی بات سن کر حیرت کا اظہار کیا۔

    تانی کہنے لگی ’’غریبوں کی بلیاں جب بھی چانس ملے لڑلیتی ہیں۔ ساس سسر اور دوسرا کوئی گھر پر نہ ہوں تو بلیوں کو لڑنے میں بہت مزہ آتا ہے۔ ایک بات سن لے ساری دنیا تیرے کھاکھرو، چھاچھرو کے حساب سے نہیں چلتی۔ دنیا موقع محل کے حساب سے جیتی ہے۔ تیرے حساب سے نہیں۔ پچھلے ہفتے میری مالکن کے ہاں کوئی پارٹی تھی۔ پیچھے کوئی مہمان شراب کی دو آدھی بوتلیں چھوڑ گیا مالکن نے مجھے کہا کہ تانی ان کو پھینک دے۔میں نے تھیلی میں ڈال لیں اور بولا بیگم صاحب یہاں سیکورٹی والے پکڑلیں گے۔ آپ جب باہر نکلوگی تو مجھے گیٹ پر اتار دینا۔ میں سیدھی یہ کہہ کر ان کو گھر لے آئی کہ ہماری طرف کی کچرا کونڈی پر کچھ بھی پھینکو، کوئی نہیں پوچھتا۔بچے تو اکثر لوگ وہیں پھینک جاتے ہیں۔ بیگم صاحب نے مجھے کہا بھی تانی تو اور میرا میاں مت پینا اس سے بہت گنا ہ ہوتا ہے۔ میرے دل میں تو بہت آیا کہ ان کو پوچھوں کہ کل رات جب آپ کے گھر پر مہمانوں نے شراب پی تھی تو ان کو بھی گناہ ہوا تھا کہ نہیں؟ میرا فضلو بولتا ہے تانی کسی امیر کو جواب مت دو۔ ان کو اچھا نہیں لگتا کہ غریب لوگ ان کی غلطی بتائیں۔ ہم نے اور فضلو نے ایک بوتل ایک اتوار اور دوسری کل ختم کی۔ بہت سواد آیا۔‘‘

    اس کے نشے سے میر کو کوئی خاص دل چسپی نہیں تھی لہذا وہ پوچھ بیٹھا کہ ’’یہ مساج کیا ہوتا ہے؟‘‘ میر ملازم کو یاد آیا کہ تانی بیگم نے فی سیشن اس کے دو سو روپے علیحدہ سے عاطفے بی بی سے طلب کیے تھے۔

    ’’ارے یہ بیگم صاحب لوگ کوئی کام دھندہ تو کرتی نہیں کہ بدن ہماری طرح تندرست، مضبوط اور لچکیلا رہے۔ یہ مالش کراتی ہیں تاکہ بدن بندھا رہے‘‘ تانی بیگم نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا اور ساتھ ہی پوچھ لیا کہ کچھ کھانے کے لیے فرج وغیرہ میں موجود ہو تو بتا دے کیوں کہ وہ آج ہنزہ والے مبارک کی طرف نہیں جائےگی۔

    ’’کیوں؟‘‘ میر نے پوچھا۔

    ’’مبارک کک نے میرے ساتھ ایک زیادتی کی ہے‘‘ تانی نے اسے بتایا۔ ’’کل بیگم صاحبہ مساج کے لیے کپڑے اتار کر بستر میں پرانی چادر بچھا کر لیٹ ہی رہیں تھیں کہ اچانک ان کی دو سہیلیاں آ گئیں۔ ان کو زبردستی گھسیٹ کر سنیما میں فلم دیکھنے لے گئیں۔ میں بھی نہا کر تولیہ پہن کر مساج کے لیے تیار ہورہی تھی۔ مجھے کیا پتہ کہ بیگم صاحب چلی گئی ہیں اور ان کی جگہ مبارک چڈی پہن کر اور چادر اوڑھ کر ان کے بستر میں لیٹ گیا ہے۔ میں جب مساج کرنے لگی، تب مجھے پتہ چلا کہ یہ تو مبارک کک ہے۔ میں نے کہا چلو مزدوری تو مجھے مل ہی گئی ہے۔ میں نے اس کا مساج شروع کر دیا مگر اس نے بڑا ظلم کیا اور میرے ساتھ دوسرا کام بھی کر لیا‘‘۔

    ’’پھر؟ ‘‘میر ملازم نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’رات کو مجھے لگا کہ فضل داد میرا میاں ناراض ہو گیا وہ کہنے لگا تانو آج تو جن نہیں بستر میں بھیگی بلی کیوں بنی ہوئی ہے میں کیا جواب دیتی۔مجھے بہت دکھ ہوا۔‘‘

    میر ملازم اس کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے اٹھا اور پلاؤ کی جو پلیٹ کک نے اس کے لیے علیحدہ کرکے رکھی تھی وہ لا کر اسے دے دی ویسے بھی اسے چاول کھانا اچھا نہیں لگتا تھا۔

    میر ملازم نے پوچھا کہ ’’کیا مبارک بھی اسے کھانا کھلاتا ہے؟‘‘ تو وہ بتانے لگی کہ وہ چکن قورمہ اور ہری جیلی والا کسٹرڈ بہت عمدہ بناتا ہے اور جب یہ ڈش بنتی ہے تو وہ مجھے فون پر گونگی کال مارتا ہے تو میں کھانے چلی جاتی ہوں۔ میر ملازم نے اس حوالے سے صرف ایک سوال پوچھا کہ ’’کیا وہ اس حرکت کے بعد بھی اسے مس کال مارے گا تو وہ جائے گی؟‘‘ تانی بیگم کھانا ختم کرکے اپنی انگلیاں چاٹ رہی تھی۔ اس کے نزدیک کھانا سنک میں گرانا گناہ تھا۔

    ’’ہاں چکن قورمہ اور ہری جیلی والا کسٹرڈ کھلائےگا تو ضرورجاؤں گی‘‘۔ تانی بیگم نے فیصلہ کن انداز میں اپنا ارادہ ظاہر کیا۔

    میر ملازم نے جس کا ذہن کھانوں کی رنگت اور دوسرے کام کی تفصیل اور تانی بیگم کے عاطفے سے سوال جواب کی بھول بلیوں میں بھٹک رہا تھا پوچھا کہ ’’احمد علی صاحب کی بہو عاطفے نے مساج کے لیے دو سو روپے اور کھانے کا مطالبہ سن کر کیا کہا؟‘‘۔ وہ کہہ رہی تھی ’’فی سیشن سو روپے دیں گی اور کھانا۔ مرد نوکر تو شاید اس بھی کم پیسوں پر ان کا مساج کر دیں‘‘۔

    ’’پھر کیا بولی تو؟‘‘ اس نے سوال کیا۔

    میں نے بولا ’’وہ پھر دوسرا کام بھی کرتے ہیں۔ آپ کیا کروگی‘‘۔

    ’’یہ دوسرا کام کیا ہوتا ہے؟‘‘ میر ملازم کا ذہن پھر سے بھٹکنے لگا۔

    ’’تیر ی شادی ہو گئی ہے؟‘‘ تانی بیگم نے جواب دینے کی بجائے الٹا اسی سے سوال کر دیا۔

    ’’نہیں‘‘۔ میر ملازم نے قطعیت سے جواب دیا۔

    ’’پھر تو کیسے سمجھے گا کہ دوسرا کام کیا ہوتا ہے؟‘‘ تانی بیگم نے اس موضوع پر اس کی بے چارگی پر مہر لگا دی۔

    ’’اچھا یہ بتا تو پہلا کام کس کو کہتی ہے تو میں دوسرا کام خود ہی سمجھ لوں گا‘‘۔ میر نے اپنی سمجھ داری کا ثبوت دیا۔ ’’تو مجھے اب کی دفعہ سندھی بریانی اور گجریلہ جو تو نے عید پر کھلایا تھا وہ شام کو کھلائےگا تو شام کو میں جب تیری بیگم صاحب اپنے پارلر پر جاتی ہیں تو تجھے میں پہلا اور دوسرا کام بھی سمجھا دوں گی‘‘۔ تانی بیگم نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔

    وہ ایک یاسیت سے کہنے لگا ’’شام کو میں کوئی کام نہیں کرتا بس ٹی وی دیکھتا ہوں مجھے سونی ٹی وی کا سی۔ آئی۔ ڈی۔ اور ساس بھی کبھی بہو تھی والا ڈرامہ بہت پسند ہے‘‘۔

    ’’اس کا مطلب ہے تو مجھے مس کال بھی نہیں مارےگا اور سندھی بریانی اور گجریلہ بھی نہیں کھلائےگا۔ سوچ لے پھر تیری سمجھ میں یہ پہلا اور دوسرا کام بھی نہیں آئےگا‘‘۔تانی نے اسے جتلا دیا۔

    اونٹوں کے درمیان پرورش پانے کی وجہ سے میر ملازم کی نہ صرف چال ڈھال اونٹوں جیسی ہوگئی تھی بلکہ اس کی عادات و اطوار بھی کم و بیش انہیں جیسی تھیں۔ تانی بیگم کی گفتگو اس کی سمجھ سے اب باہر ہو گئی تو اس نے تانی کو بھگانے کے لیے یہ بہانہ کیا کہ اسے سمیر میاں کے کپڑے استری کرنے ہیں۔ اسے بخوبی علم تھا کہ سمیر میاں جو اس کے مالک کے چھوٹے صاحب زادے تھے ایسے کپڑے نہیں پہنتے تھے جن کو استری کی ضرورت ہوتی۔ ان کا لباس زیادہ تر جینز، ٹی شرٹس اور برمودا نیکروں تک ہی محدود تھا۔

    میرؔ ان دنوں جس گھر میں ملازم تھا وہ ایک بہت محفوظ علاقہ تھا۔ وزارت دفاع کے جس سویلین سیکرٹری نے اس علاقے کو سن ساٹھ کی دہائی میں منتخب کیا، وہاں اس نے سوچا کہ چند دنوں کی بات ہے روسی گرم پانیوں کی تلاش میں آبنائے ہرمز کو کنٹرول کرنے کے لیے بلوچستان تک آجائیں گے۔ان کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکیوں کو بھی پاکستان میں دفاعی اڈوں کی تلاش ہوگی۔ بہتر ہے کراچی کے اس علاقے میں کچھ ہینگرز بنا لیے جائیں۔ تب تک کراچی بمشکل پل سے ذرا پرے باتھ آئی لینڈ تک آتا تھا۔ ان ہینگرز میں ان کے کون وئیر B-58 Hustler اور گرومین F-14 Tomcat, قسم کے طیارے باآسانی پارک ہو سکیں گے۔ ان کا پلان تو بہت اچھا تھا مگر کوئی دس سال بعد روسی تو افغانستان میں دھنس گئے اور وزارت دفاع نے کچھ سوچ بچار کے بعد اس جگہ پر ایک رہائشی اسکیم اپنے اعلیٰ درجے کے افسران کے لیے منظور کر لی۔ تھوڑے بہت ہینگر جو وہاں پہلے ہی تعمیر ہو چکے تھے۔ اس طرح نجی رہائش گاہوں میں تبدیل ہو گئے۔ نئے گھر جو بنے وہ ملک کے دوسرے حصوں میں مقیم افسران نے مہنگے داموں سویلین افراد کو فروخت کر دیے۔ اب ان میں سے اکثر گھر سویلین افراد کی ملکیت تھے۔

    کالونی کے اردگرد ایک فصیل نما دیوار نے حفاظت کا ایک علیحدہ بندوبست کر رکھا تھا۔ اس کے دو بڑے گیٹس کے ساتھ ہی چوکیاں بنی تھیں۔ ان میں بندوق بردار سنتری ہر وقت چاک و چوبند ڈیوٹی پر موجود رہتے تھے۔ یہ ہر آنے جانے والے کی کار کو اچھی طرح سے آگے پیچھے سے جانچتے تھے کہ کہیں کوئی اسلحہ یا خود کش جیکٹ یا بارودی مواد لے کر تو اند ر نہیں جا رہا۔ وہاں کام کرنے والی ملازماؤں کی تھیلیوں کی اور ان کی اپنی بھی جامہ تلاشی ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ آپ کوئی بڑی ڈاڑھی یا حجاب اور عبایا پہن کر امریکہ کے کسی ائیر پورٹ پر اتر گئے ہیں جہاں کی سیکورٹی فورس آپ کی اسٹرپ سرچ کر رہی ہے۔ وہاں آنے والے مہمانوں کا خیال تھا کہ آپ فرانس کی بنی ہوئی کسی آگوسٹا آب دوز میں تو زیر آب چھپ چھپا کر نظر بچا کر داخل ہو سکتے تھے پر اس کالونی کے گارڈز سے بچ کر اندر داخل ہونا نا ممکن تھا۔

    کالونی کی خدمت گار ملازماؤں کے دل میں یہ خیال بھی اب ایمان کا درجہ حاصل کر گیا تھا کہ یہاں بسنے والے مردوں کا دل چرانا تو بہت آسان تھا پر ان کے گھروں سے سامان چرانا تقریباً ناممکن امر تھا۔

    اس کالونی میں ایک چھوٹی سی مارکیٹ بھی تھی۔جس میں ایک سپر اسٹور جہاں بازار سے دس فیصد کم نرخ پر اشیا فروخت ہوتی تھیں۔ سبزی، گوشت، مچھلی، دھوبی، دودھ کی بھی دکانیں تھیں اور خواتین کے لیے ایک بیوٹی سیلون بھی تھا جس کا نام لیزلی (Lesliy) بیوٹی پارلر تھا جسے وہاں کے نوجوان لڑکے لیس اگلی (Less-Ugly) بیوٹی پارلر کہتے تھے جس سے اس کی مالکن بہت نالاں تھی۔ وہ اپنے ہنر اور کام پر بہت نازاں تھی۔

    کم داموں وہاں کی آسودہ حال، فربہ اندام خواتین جن پر محنت سے جان چرانے اور کھل کر کھانے کی وجہ سے بے تحاشا چربی چڑھ گئی تھی ان کی سجاوٹ اور سنگھار پر وہ بہت جانفشانی سے محنت کرتی۔ اب سامنے والا ہی حسین دکھائی دینے پر راضی نہ ہو تو وہ بےچاری کیا کرے۔ اس کے علاوہ۔

    وہاں ایک مجاہد ہیئر کٹنگ سیلون بھی تھا جس سے بال کٹواکر آپ کا دل فوراً قومی نغمے گنگنانے اور بھارت پر چڑھ دوڑنے کو کرتا تھا۔

    میر کی شادی کے بعد جب یہاں مقیم خواتین نے اپنی ایک تنظیم Colonial Sisters for Common Causes بنائی تو ریٹائرڈرئیر ایڈمرل احمد علی صاحب کی ایرانی بہو عاطفے نے اس کا ترجمہ ’ہمشیرگانِ اشتراک عامہ‘ کر دیا۔ خواتین نے فیصلہ کیا کہ اس لیزلی (Lesliy) بیوٹی پارلر کو اپ گریڈ کر دیا جائے۔ اس میں آنے والی سوسائٹی کی ممبر خواتین سے پچاس فیصد معاوضہ لیا جائے اور باہر سے آنے والی خواتین سے بازار سے بیس فی صد کم اجرت لی جائے اور یہ اضافی رقم سوسائٹی کے فنڈز میں فلاح و بہبود کے منصوبوں میں لگا دی جائے۔ میر کی دلہن سلطانہ کو بھی یہیں پر حسینی بیگم کی زیر نگرانی تیار کیا گیا تھا۔

    میر کی زندگی ایک دھیمی رفتار سے گزر رہی تھی۔ یہ گھرانہ جہاں وہ ملازم تھا پانچ نفوس پر مشتمل تھا۔ ایک ریٹائرڈ بریگڈئیر صاحب جنہوں نے اپنی سویلین پوسٹنگ کے آخری سال میں بہت رقم بنائی اور پھر گتہ بنانے کا ایک کارخانہ اس پلاٹ پر ایک کچی بستی میں بنا لیا۔ یہ کارخانہ انہوں نے اس بستی کے ایک بڑے سے پلاٹ پر بنایا تھا۔ اس پلاٹ پر انہوں نے اپنی ملازمت کے اس آخری برس میں ہی لڑ جھگڑ کا اپنا تسلط قائم کیا تھا۔ دو تین قبضہ مسلک سوئیلین سرکاری افسروں کے درمیان یہ پلاٹ بہت عرصے سے باعث چپقلش بنا ہوا تھا۔ ان افسران کی اس حوالے سے انکوائریاں ان کی میز پر پڑی کی پڑی رہ گئیں اور ان کی رخصت کے بعد عدم توجہی اور حالات میں تبدیلی کی وجہ سے بند کر دی گئیں۔ اس کے علاوہ بیگم صاحب تھیں جن کا اپنا بیوٹی پارلر تھا جہاں وہ تین بجے دوپہر چلی جاتی تھیں۔ ان کا بڑا بیٹا عمیر خان جو اب قطر کی کسی یونی ورسٹی میں استاد تھا۔ دوسرا بیٹا سمیر خان جو کچھ دنوں میں برطانیہ بی بی اے کرنے کے لیے جانے والا تھا اور بیٹی شایان خان جو لڑکیوں کے کسی کالج کی طالبہ تھی۔ اس کے علاوہ یہاں تین ملازم بھی تھے۔ میر ملازم اوپر کے کاموں کے لیے، کک عبدالکریم اور ڈرائیور تمیز خان۔ سرونٹ کوارٹر ایک ہی تھا۔ جس میں ڈرائیور تمیز خان کا قیام تو دن دن میں ہوتا تھا۔ وہ صبح ساڑھے سات بجے آ جاتا تھا۔ اس آبادی سے ملحق جو کچی آبادی نیلم کالونی تھی اس میں اس کا گھر تھا۔ اس کوارٹر میں ایک بستر میر ملازم کا تھا اور دوسرا بنگالی کک عبدالکریم کا۔ گھر میں دولت کی خاصی ریل پیل تھی۔

    گھر کے مالک ریٹائرڈ بریگڈئیر سرفروش خان صاحب کے بس دو ہی شوق تھے۔ اپنے کاروبار کو سلیقے سے چلانا اور دوسرا بلا ناغہ گالف کھیلنا۔ گالف کے وہ دیوانے تھے۔دفتر سے آن کر سیدھے وہ کلب چلے جاتے اور شام سات بجے تک گالف کھیل کر واپس آتے، کھانا کھاتے۔ بیگم صاحبہ سے گپ لگاتے اور شاہد مسعود کا شو دیکھتے دیکھتے ہی اپنے صوفے پر بیٹھے بیٹھے خراٹے لینے لگتے۔ انہیں یوں سوتا دیکھ کر بیگم صاحبہ ان کا ہاتھ تھام کر انہیں بستر میں آرام سے دھکیل دیتی تھیں۔ میر ان کا گالف کا کٹ بیگ جب گاڑی میں رکھ رہا ہوتا تو روز آنہ اس کا ڈرائیور تمیز خان سے ایک ہی مطالبہ ہوتا کہ ’’چل پٹھان بھائی۔ ڈکی کھول میرے کو گال۔ لف رکھنی ہے‘‘۔ بریگڈئیر سرفروش خان صاحب جب ایک آدھ پیگ لگا کر ذرا موڈ میں ہوتے تو اس کی میر ملازم کی بجائے گال۔ لف صاحب کہہ کر پکارتے تھے جو بیگم صاحب کو میر ملازم دونوں کو ہی بہت اچھا لگتا تھا۔

    میر ملازم کو اپنے سامان میں اگر اپنے سیل فون کے علاوہ کوئی اور چیز عزیز تھی تو وہ ا س کی سندھی ٹوپی تھی اس طرح کی رنگ برنگی ٹوپیوں کی ایک وافر تعداد اس کے پاس موجود تھی۔ جن وہ اپنے موڈ کے حساب سے سر پر سجا لیتا تھا اور اس ٹوپی کی وجہ سے بہت معتبر اور بردبار لگتا تھا۔

    یوں بھی وہ ایک سنجیدہ، شاکر اور ایمان دار ملازم تھا جو سال میں ایک آدھ دفعہ ہی باپ کے بہت ضد کرنے پر اس سے ملنے چلا جاتا تھا۔ وہاں تھر پارکر کے اپنے آبائی گاؤں میں اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ ماں سوتیلی تھی اس سے میر کی ذرا بھی نہیں بنتی تھی۔ دو تین بعد اس کا اپنی ماں سے کسی معمولی سی بات پر جھگڑا ہو جاتا تو وہ ناراض ہوکر باپ کو بتائے بغیر واپس کراچی لوٹ آتا تھا۔ وہ اپنی یہ سندھی ٹوپی صرف سوتے وقت اتارتا تھا یا کسی ملازم یا ملازمہ کی کوئی ایسی بات سن کر جسے اس کا ذہن فوری طور پر قبول کرنے پر تیار نہ ہوتا وہ ’گھوڑا رے گھوڑا‘ (سندھی زبان میں تاسف اور حیرت کے کلمات)۔میر ملازم گاتا بھی اچھا تھا۔ اس کی لے کاری اور الاپ بہت اچھا تھا۔ ہر وقت وہ کام کرتے وقت دھیمے سروں میں اپنے علاقے کا کوئی نہ کوئی گنگناتا رہتا۔ تین بجے کے بعد جب وہ استری کر رہا ہوتا تو یہ سر ذرا اونچے ہو جاتے تھے۔ گھر کے سب لوگ جب ذرا موڈ میں ہوتے تو فرمائش کرکے اکثر اس سے گانا سنتے تھے۔ گانا گاتے وقت وہ یہ ٹوپی اتار دیتا تھا۔ وہ چونکہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر کے اسی علاقے کا باشندہ تھا جہاں کی مشہور لوک گلوکارہ مائی بھاگی تھی۔ دوتین ہندوستانی گانے بھی اسے ادھورے یاد تھے۔جن کو وہ بہت موڈ میں آتا تو کبھی کبھار گا لیتا تھا۔

    پانچ دن پہلے سامنے والے کمانڈر حسینی کی بیگم صاحبہ کسی شادی سے لاہور سے واپس آئیں تو ان کے ساتھ سولہ سترہ برس کی ایک بے حد سجل اور من موہنی ملازمہ سلطانہ بھی ساتھ تھی۔

    کے اس Gated-Community نیم عسکری، نیم بحری محلے خیابان ضرب ال مثال میں اس کا آنا جانو کہ گاؤں میں بجلی کا آنا تھا۔ وہ حالانکہ کہ کوئی معمولی قسم کی بجلی نہ تھی اس کے آنے سے مختلف شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ماسیوں کے روپ میں جو پرانے پول ماؤنٹیڈ ٹرانسمیٹر (P.M.T.) تھے وہ بھک سے اڑ گئے۔ ان ملازماؤں سے کئی تھکے ماندے، سرکاری ملازمت سے اخراج زدہ افسران کے شوق کم خرچ پر پورے ہو جاتے تھے۔ بیگمات کو بھی پتہ تھا کہ یہ ادھڑے مرد اور گھر یلو بلے کب ایک گھر کے ہوتے ہیں۔ وہ انہیں گھر کے ایک کونے میں پڑا جنس کا ڈسٹ بن سمجھ کر اگنور مارتی تھیں۔ سلطانہ کی آمد سے انجمن خدمت گزاران افسران و باشندگان کالونی میں حسد کا، مشترکہ بھانبھڑ جل اٹھا۔

    کالونی کی بیگمات نے تو اس کی بھرپور جوانی کی وجہ سے خائف ہوکر اپنے آخری اوورز کی گیند جیسے خاوندگان آسودہ اور مستانے سانڈ جیسے ملازمین اوکی خصوصی نگرانی شروع کر دی۔

    سلطانہ گھر سے ذرا کم ہی باہر نکلا کرتی تھی۔یوں کسی کو فوری طور پر اس سے شکایت کا کوئی موقع نہ مل پایا۔ تانی بیگم نے البتہ میر ملازم کو بتایا کہ یہ سلطانہ ان کے احمد پور شرقیہ والے علاقے ہت ایجی کے ساتھ ہی کی بستی نذیر آباد کی لڑکی ہے۔ اس کی ماں میراثی تھی۔ وہ بھی دیکھنے میں بہت سندر تھی پر کیریکٹر ڈھیلا تھا۔ سلطانہ اس طرف کے کسی جاگیر دار کی اولاد لگتی ہے۔

    سلطانہ کی پہلی شادی تیرہ برس کی عمر میں گاؤں کے ہی کسی مالدار بڈھے عمر دین سے ہو گئی تھی۔ ایک ہفتے میں اس ناگن نے اسے ڈس کر مار ڈالا۔

    میر ملازم نے اس کے دفاع میں پہلی مرتبہ زبان کھولی کہ’’تو بولتی ہے تیرا پنجاب امریکہ سے بھی اچھا ہے، ہمارے جوگی تو ناگ کا علاج کر لیتے ہیں تم لوگ کے پاس آدمی مر جاتا ہے۔ یہ کیسا پنجاب ہے؟‘‘۔

    ’’اڑے بدھو۔ ناگن اس عورت کو بولتے ہیں جو اپنے میاں کو ڈس لے‘‘۔ تانی بیگم نے ہشیاری جھاڑی۔

    میر جس کا سانپوں کا علم تانی بیگم سے بہتر تھا کہنے لگا۔ ’’تم پنجاب کے جو لوگ ہو ان کو سانپ کا کوئی پتہ نہیں۔ ایسا ہو تو ایک بھی مرد سانپ نہ زندہ بچے۔ وہ بڈھا آدمی ہا رّٹ کے فیل ہونے سے مر گیا ہوگا تو اس سے جلتی ہے لہذا اس کو ناگن بول رہی ہے‘‘۔

    اصل میں قصہ یہ تھا کہ عمر دین جس کی یہ چوتھی شادی تھی ہر شادی سے پہلے ایک خطیر رقم سے اپنے لیے بھاولپور کے ایک حکیم سے خصوصی مردانہ کشتہ تیار کراتا تھا۔ دوسری بیوی تک تو اس کی مردانگی کے بارے میں گاؤں کی عورتوں میں بہت چہ مگوئیاں ہوتی رہیں۔ تیسری بیوی جو چالیس برس کی بیوہ تھی مگر اکلوتی ماموں زاد جو بیوگی کے بعد اسے اس لیے مل گئی کہ اس کے حصے کی ایک مربع زمین بھی نکاح نامے کے ساتھ ہی نتھی تھی۔۔۔ گھر کی اس مرغی کی کی باری عمر دین نے کوئی کشتہ نہ کھایا۔ یوں یہ چہ مگوئیاں آہستہ آہستہ دم توڑ گئیں۔ یکے بعد دیگرے اس کی دو بیویوں کا انتقال ہو گیا۔

    ان دونوں بیویوں کے انتقال کے بعد اس کی مالی حالت میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی۔ اب وہ زمینوں پر اپنے بھتیجے کے ساتھ اپنی نئی نویلی موٹر سائیکل پر جاتا تھا۔۔۔ کوئی دو تین ایسے سرکاری افسر جن کو علاقے میں سرکار کی طرف سے مفت زمین ملی تھی وہ اسے اپنی زمین، سستے داموں بیچ گئے۔ ایک پرانا ٹریکٹر بھی اس نے کہیں سے سستے داموں خرید لیا۔ خوش قسمتی سے ان نئی خرید کردہ زمینوں کے نیچے زیر زمین پانی کے ذخائر بھی موجود تھے۔ اس وجہ سے ایک ٹیوب ویل بھی اس نے لگا لیا جس سے اس کی آمدنی میں خاصا اضافہ بھی ہوا۔

    سلطانہ کی ماں جو اپنے میاں رحیم بخش کے ساتھ شادی کر کے احمد پور شرقیہ میں رہ رہی تھی۔ وہ سلطانہ کے معاملے میں رحیم بخش سے ڈرتی تھی۔ کسی حوالے سے اس کی عمر دین کی ملاقات ہوئی تو سلطانہ کا سلسلہ جنبانی چل نکلا۔ عمر دین کو بھی سلطانہ بہت اچھی لگی۔ بارہواں سال چھ ماہ پہلے ہی پورا ہوکر تیرھواں بھی آدھا ہو گیا تھا۔ جوانی پور پور سے جھلکتی تھی۔ عمر دین کی پچھلی بیویاں ایسی کم سن اور سجل نہ تھیں۔

    اب سوچو تو وہ مرحوم بیویاں بغیر تڑکے کی دال اور بن چینی کی چائے لگتی تھیں۔ اس نے فوراً سلطانہ کو دیکھتے ہی بیوی بنانے کا فیصلہ کر لیا اور اس کی ماں کو دس ہزار روپے بیعانے کے بھی فوراً ہی ہاتھ میں تھما دیے۔ یوں سودا پکا ہو گیا۔۔۔ اس کی ماں کو بقایا رقم کی ادائیگی کرتے کرتے چھ ماہ اور لگ گئے اور وہ پورے لاکھ روپے دے کر تیرہ برس کی سلطانہ کو بیاہ کر لے آیا۔

    عمر دین جب اسے احمد پور شرقیہ رقم ادا کرنے اور سلطانہ سے شادی کی تاریخ طے کرنے پہنچا تو وہ یزمان منڈی کا بھی دورہ لگے ہاتھوں کر آیا۔ وہ وہاں گیا تو ایک خاندانی حکیم احمد علی سلیمانی صاحب کے پاس تھا۔ جن کے نسخے وہ بڑی باقاعدگی سے پہلے بھی استعمال کرتا رہا تھا۔

    اب کی دفعہ مگرمسئلہ یہ ہوا کہ قبلہ بڑے حکیم صاحب تو دو ماہ قبل اللہ کو پیارے ہو گئے تھے، ان کا نوجوان بیٹا جو طبیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل تھا، اب ان کی مسند حکمت پر براجمان تھا۔ عمر دین پڑھا لکھا نہ تھا ورنہ ان کے نئے بورڈ پر فخر شفایابی، قدیم نسخے، جدید علاج اور امنگوں بھرے شباب کی رفاقت کے لیے شرطیہ پلنگ توڑ علاج قسم کے نئے اضافے پڑھ کر چونکتا ضرور۔ قبلہ نئے حکیم صاحب خوش گفتار تھے۔ پرانے حکیم صاحب کچھ رسم و رواج کے مارے تھے۔

    اس جانشین کے پاس رش یوں بھی زیادہ تھا کہ یہ دیہاتیوں کو oxycodone, fentanyl and buprenorphine قسم کی انگریزی درد بھگانے والی ادویات حکیمی نسخوں میں ڈال کر دیتا تھا۔ فوری آرام ان پین کلر کی وجہ سے آ جاتا تھا۔ دیہات میں مرنا علاج کی ناکامی نہیں مگر عزرائیل علیہ سلام کی جلد بازی سمجھا جاتا تھا۔ نسخہ ناکام ہوکر ان کو لمبا لٹا دیتا تو پر سے پ ریہ بس حق ہویا کہہ کر چپ ہو جاتے۔ اس شیطان نے کہیں سے دوران طالب علمی پڑھ لیا تھا کہ چین کے ایک کسان نے Horny Goat Weed اس وقت دریافت کرلی تھی جب اس کے اس ریوڑ میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا یہ فراوانی ان بکروں کی وجہ سے ممکن ہوئی جو ان چراگاہوں میں چرنے لگے جہاں یہ بوٹی اگا کرتی تھی۔ کراچی کے ایک بریلوی مسلک کے مولانا صاحب جن کا چینی جنسی دواؤں کا بڑا بیوپار تھا ان سے وہ یہ بوٹی منگواتا تھا۔ یہ اسے دیسی حکیمی کشتوں سے سستی پڑتی تھی۔ کم آمدنی والے دیہاتی دولہاؤں میں ان ادویات کی بڑی مانگ تھی۔

    قبلہ نئے حکیم صاحب نے عمر دین کے کوائف بہت توجہ سے پوچھے۔یہ بھی معلوم کیا کہ وہ کتنے عرصے سے اپنی بیویوں سے دور رہا ہے۔ عمر دین کو اس کے نجی سوالات اور بلاوجہ کی کھوج کچھ اچھی تو نہ لگی۔ ان سوالات کے وقت اس نے اپنے نوجوان بھتیجے کو بھی مطب سے باہر بھیج دیا مگر یہ سوچ کر کہ دائی سے پیٹ کیا چھپانا، اس نے تمام سوالات کے جوابات بہت صبر اور سچائی سے دیے۔

    حکیم صاحب نے اس کشتے کی تیاری کے لیے ایک ہفتے کا وقت اور دس ہزار روپے مانگے۔ بہت رد و کد کے بعد رقم میں دو ہزار روپے کی کمی کی گئی۔ سلطانہ کو لینے جو برات بھاولپور سے آئی اسے میں عمر دین یزمان منڈی سے آن کر احمد پور شرقیہ میں شامل ہوا۔ کشتے کی ڈبیا اس کے بوسکی کے کرتے کی جیب میں طلب وصل کی ہمراہی میں کھلبلا رہی تھی۔ اکیس ہزار روپے مہر معجل کے عوض سلطانہ اس کے حبالہء نکاح میں آ گئی۔

    سہاگ رات کو حجلۂ عروسی میں تیرہ برس کی سلطانہ اپنے شوہر نامدار پچپن برس کے عمر دین کی منتظر تھی۔ جواں بدن، بڑی بڑی شربتی آنکھیں، ماں نے اسے سامنے کی طرف جھک کر بیٹھنے کی تلقین کی تھی۔ اس اہتمام میں مزید رنگ بھرنے کے لیے سینے پر سے دوپٹہ ہٹا کر گھونگٹ صرف آنکھوں تک کھینچ کر ریشمی کھیس پر بٹھا دیا۔ گلے میں پھولوں کے ہار کو بھی شانے پر کلپ لگا کر اس طرح سے پھیلا دیا تھا کہ وہ کسی طرح سینے پر امڈتی ہوئی دو گولائیوں کی دیدہ دلیری میں رکاوٹ نہ بنے۔ یوں آگے کی طرف جھک کر بیٹھنے کی وجہ سے سے سلطانہ کے تندرست، گورے سینے کی گولائیاں آدھے چاند بن کرکرتی کے باہر کی جانب امڈ پڑی تھیں۔ سلطانہ کا گھونگٹ اٹھا کر عمر دین نے جو بےتابی سی اسے زور لگا کر سینے سے چمٹایا تو ایک ہلکی سی آہ اس شعلہء جوالا کے الائچی سے مہکتے منھ سے نکلی۔عمر دین کو عین اسی وقت اندازہ ہو گیا کہ اس فلک نوخیز کو ابھی تک اس جیسے کسی دل جلے سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔

    سلطانہ کو وہ کپڑے اتارنے کی تلقین کرکے خود بہانے سے باتھ روم میں گیا اور کشتے کی ڈبیا نکال کر خوراک کی مقدار اپنی ایک عرصے کی دوریوں کو مدنظر رکھ کچھ زیادہ ہی منھ میں ڈال لی۔ کشتے کی کڑواہٹ دور کرنے کے لیے اس کی سابقہ بیوی جو زعفران اور شہد والے دودھ کر گلاس میز پر برفی کی ڈلیوں کے ساتھ رکھ کر گئی تھی وہ بھی بغیر ڈکار لیے ایک ہی سانس میں پورا پی گیا۔ سلطانہ کی بھرپور عریانگی جو بستر پر تھام کر دراز کی تو وہ اسے سورج مکھی کے پھولوں کا ایک ایسا قطعہ اراضی لگی جس کا سورج، ان جھولتے جگمگ کرتے پھولوں کا بلاشرکت غیرے، اس کی اپنی ذات تھی۔

    سلطانہ کی جوانی کے اس عریاں پھیلاؤ اور انجان کسمساہٹ میں مبتلا اس کے رسیلے وجود اور ایک بے پناہ احساس تسلط اور اختیار نے اس کے عرصے سے موقوف بے تاب ذوق جنوں کو کچھ ایسی ہوا دی کہ مولوی صاحب سے جو اس نے اولاد صالح پیدا کرنے کا وظیفہ یزمان منڈی سے آتے وقت یاد کیا تھا وہ بھی کم بخت بھول گیا۔ وظیفۂ زوجیت تو سلطانہ کی گھٹی گھٹی سسکیوں، دبی دبی چیخوں اور اس کی اوں آہ کی رفاقت میں ادا ہو گیا مگر سامنے والی کی جوانی نے اس کی ہڈیاں چٹخا دیں۔ وہ براحال ہوا کہ کھیس تان کر اس کے عریاں بدن پر ہی ساری رات بانہوں میں، نچڑا ہوا ٹیڈی بئیر بن کر، ساری رات پڑا رہا۔ سلطانہ اس کے بدن کے بوجھ تلے ساری رات کسمساتی رہی مگر ماں کی ہدایت تھی کہ شادی کی پہلی رات میاں بادشاہ ہوتا ہے اس کی ہر بات مانو تاکہ ساری عمر اس کے دل اور گھر پر راج کرسکو۔ بےچاری کادل تو لاکھ چاہا کہ بڈھے ننگے بےخود پڑے عمر دین کو ایک طرف دھکیل کر خود کچھ کپڑے پہن کر دوسری طرف ہوکر سو جائے پر اس کی ناراضگی کے خوف اور ماں کی ہدایت کی روشنی میں وہ صبر کرکے اپنی راج دھانی کے آئندہ بندوبست کے سپنے بقیہ ساری سوتی جاگتی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔

    ایک ہفتے تک ہر رات عمر دین کا یہ ہی معمول رہا۔ کشتے کی خوراک تو چوتھی رات ختم ہو گئی مگر عمر دین کا جذبۂ تسلط کسی طرح کنارے نہ لگا۔ عمر دین نے وصل اور زندگی کی آخری رات سلطانہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلی دوپہر کو اسے لاہور لے جائےگا۔ وہاں اسے فجے کے پاوے بھی کھلائےگا۔ بانو بازار اور مینار پاکستان بھی دکھائےگا اور انارکلی سے شاپنگ بھی کرائےگا۔ رات کو جب وہ پیار کرکے اس پر ڈھیر ہو گیا اور سلطانہ اس کے ساتھ بنائے ہوئے پروگرام کے سپنے بنتی سو گئی۔ نیند میں ڈوبی سلطانہ کو پتہ بھی نہ چلا کہ اس کا شوہر نامدار عمر دین جہان فانی سے کس وقت رخصت ہو گیا اور وہ یک لخت ودھوا (ہندی میں بیوہ) ہو گئی۔

    اس کی موت پر بڑا واویلا ہوا۔ خود اس کی ماں کو یقین نہ آیا کہ یہ کیسے ممکن کے اس کی موت کا سلطانہ کو بھی پتہ نہ چلا ہو۔ اس کی موت کا ذمہ دار سلطانہ نہ تھی، جسے گاؤں کی عورتوں نے جن میں عمر دین کی پہلی بیوی پیش پیش تھی فوراً ہی سلطانہ کو پچھل پہری، چڑیل، ڈائن، ناگن، منگلک، ابھاگن کے القابات سے نوازنا شروع کر دیا۔

    احمد پور شرقیہ ان بے چاری سادہ لوح اور بدزبان عورتوں کو یہ علم نہ تھا کہ اس میں اس بےچاری جواں سال سلطانہ کا کوئی قصور نہ تھا۔ وہ تو سات کی سات راتوں تک تیار لہللاتی فصل بنی دستیاب رہتی تھی، اب پرانا ٹریکٹر عمر دین ہی دوران کٹائی، فصل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منھ موڑ لے تو اس میں فصل کا کیا قصور۔

    وہاں وہ اگر تفتیش کا بازار گرم کرتیں تو انہیں علم ہوتا کہ عمر دین نے جو کشتہ ہد بدا کر سہاگ رات سے منھ میں ڈالا تھا اس کشتے میں سنکھیا، پارے اور جست ( arsenic, mercury, and lead) کی ضرورت سے زیادہ مقدار شامل تھی۔ حکیم صاحب نے اس کی خوراک اسے چاول کے دانے کے برابربتائی تھی پر بھلا ہو سلطانہ کی چھلکتی چھاتیوں کا جن کی اس رات جگمگاہٹ دیکھ کر وہ اصل مقدار بھول کر پوری چائے کی چمچی کھا گیا۔۔۔

    دوائی کی اس کثرت کا اس کے دل ناتواں نے بہت برا مانا اور سہاگ کی ساتویں رات بالآخر اس کی آخری خواہش پوری کرکے نیند کے دوران ہی کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس کی موت کے تیسرے دن بعدجب سوئم کا کھانا ختم ہوا تو سلطانہ کی ماں اسے آن کر واپس احمد پور شرقیہ لے گئی۔

    ایک ماہ بیس دن بعد جب اس اس کی ماں نے یہ تصدیق کر لی کہ سلطانہ پچھلی شادی کے نتیجے میں حاملہ نہیں، تو اس نے یہ بریکنگ نیوز فیصل آباد کے اناج کے عمر رسیدہ آڑھتی ظہیر الدین محمد بابر کو دی جس سے اس کی سلطانہ کی شادی کی بات چیت اپنے میاں رحیم بخش کی معرفت اس کے بیوہ ہونے کے دوسرے ہفتے سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ آڑھتی ظہیر الدین محمد بابر مزید تصدیق کے لیے انہیں ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس بھی لے گئے وہاں سے بھی جب این او سی مل گیا تو ایک مولوی صاحب کے فتوے کی روشنی میں عدت کو مختصر کرکے اس کی شادی میاں ظہیر سے کر دی۔

    وہاں سے اسے پورے تین لاکھ روپے ملے۔ مہر بھی پچاس ہزار روپے طے ہوا تھا۔ سلطانہ خوش تھی۔فیصل آباد میں اسے ایک چھوٹا سا گھر ملا تھا۔وہ ہفتے میں دو بار اس کے پاس آتا۔اس کے چونچلے اٹھاتا اور پھر چلا جاتا تھا۔ جب آڑھتی میاں ظہیر کہیں مال وغیرہ خریدنے گیا شہر سے باہر گیا ہوتا تو سلطانہ کی ماں بھی اس کے پاس اکثر آ جاتی تھی۔

    جس محلے میں سلطانہ رہتی تھی وہاں لڑکوں کو ایک نیا شغل ہاتھ لگ گیا تھا وہ اپنی بھرپور جوانی کا پچاس برس کے میاں ظہیر سے کرتے تو اپنے اندر صرف دولت کی واحد کمی پاتے تھے جو ان کے نزدیک کوئی ایسا بڑا عیب نہ تھا۔ ان کی بڑی کوشش رہی کہ سلطانہ اپنی جوانی کو سوا نیزے پر رکھ کر ان کے آوارہ انفاس میں بھی محبت کے تاج محل قائم کرے مگر سلطانہ ان کے دام فریب میں نہ آئی۔

    شادی کے چوتھے مہینے ظہیر الدین محمد بابر کی کار سڑک کے کنارے کھڑی کسی ٹریکٹر ٹرالی سے شام کے دھندلکے میں ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں ڈرائیور اور سلطانہ کا میاں دونوں ہی مر گئے۔ گھر کرائے کا تھا۔ سلطانہ کی ماں کے نزدیک اب سلطانہ کا فیصل آباد میں رہنا بے سود تھا یوں بھی محلے کے لڑکے اس کے پیچھے لگے رہتے تھے جن میں ایک بدمعاش بھی تھا۔ وہ اسے لے کر لاہور آ گئی جہاں اس کا مرد پہلے ہی کمانڈر حسینی کی سالی کا ڈرائیور لگا ہوا تھا۔ دوسرے میاں کی موت کے بعد سلطانہ اپنے علاقے احمد پور شرقیہ کی بستیوں ٹبی گھلوان، میانی جھنڈا اور کوٹلہ شیخاں میں منگلک (ہندو عقیدے کے حساب سے پیدائش کے وقت مریخ کا سیارہ اگر پہلے، چوتھے، ساتویں، آٹھویں یا بارہویں گھر میں ہو تو وہ فرد منگلک یعنی منحوس ہوتا ہے اور اپنے شوہر یا بیوی کے لیے بھاگوان نہیں ہوتا) مشہور ہو گئی۔ عورتیں اس کا نام سن کر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی تھیں۔ اس کے دونوں میاؤں کی موت کا ذمہ دار اسے ٹہراتی تھیں۔

    تین ماہ بعد جب کمانڈر صاحب کی بیگم صاحبہ کسی شادی میں شرکت کے لیے لاہور آئیں تو انہیں سلطانہ اپنی خدمت اور مزاج کے دھیمے پن کی وجہ سے بہت اچھی لگی اور وہ اسے لے کر کراچی آ گئیں۔

    میر ملازم کو سمیرخان کے برطانیہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جانے کا علم اس وقت ہوا جب اس کے کمرے سے بڑا سا سوٹ کیس، بیگم صاحبہ نے اس کے کمرے سے، میر کو نچلی منزل پر لاؤنج میں لاکر رکھنے کو کہا۔ ان کا دوسرا حکم یہ تھا کہ وہ تانی بیگم کو ڈھونڈھ کر لائے اور اس کے ساتھ مل کر ڈرائینگ روم کی صفائی کردے۔آج ان کی ماسی زاہدہ نہیں آئی تھی۔ تانی بیگم نے اس کے ساتھ مل کر ڈرائینگ روم میں جھاڑ پونچھ کر دی۔اسی دوران مہمان آنا شروع ہو گئے۔ سب سے پہلے بیگم صاحبہ کی دونوں بہنیں آئیں پھر سمیر خان کے کالج کے دوست آنے لگے۔ انہیں میں فرخندہ بھی تھی جو سمیر خان کی بہت گہری دوست تھی۔ پہلے تو عبایا بھی پہنتی تھی مگر ایک سال سے اوپر ہوا اب سر پر صرف اسکارف باندھتی تھی جینز بھی پہنتی اور ٹی شرٹس بھی۔

    سمیر نے ہی اسے بتایا تھا کہ تین ماہ بعد وہ بھی برطانیہ آ جائےگی۔ وہ یونی ورسٹی کے پاس جس بنگلے میں اپنے گورے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ رہےگا۔ وہ اس کے ساتھ ہی ٹہرےگی۔ میرملازم کو اس کی بات سن کر بہت حیر ت ہوئی اس نے معصومیت سے پوچھ لیا ’’چھوٹے سائیں ایک کمرے میں؟‘‘۔ جس پر سمیر خان نے اسے تقریباً جھڑکتے ہوئے کہا ’’میر وہاں لڑکا لڑکی ایک کمرے میں رہتے ہیں۔ بغیر شادی کے؟‘‘ میر کے لیے یہ انکشاف بطور ایک رواج اور بھی اچھنبے کی بات تھی۔

    ’’ابے جاہل وہاں ہم پڑھنے جا رہے ہیں شادی کرنے نہیں‘‘۔ تو چھوٹے سائیں باجی فرخندہ کے عبایا اور اسکارف اس کا کیا ہوگا؟ ‘‘میر نے حیرت سے دریافت کیا۔’’ وہ جب یہاں واپس آئیں گی تو پہن لیں گی۔ سمیر خان نے چڑ کر جواب دیا۔ اس دوران اس کی بہن شایان بھی کمرے میں آ گئی۔ اس نے پوچھا کہ ’’فرخندہ واپس آن کر کیا کرےگی؟‘‘۔ ’’ہم دونوں ایک پراٹھا اور شیشہ بار کھولیں گے اس میں بہت کمائی ہے۔ بھائی نے جواب دیا شایان کہنے لگی ’’اس کا ڈیکور (آرائش) میں کروں گی بالکل گوتھک۔ (پرانے یورپین طرز) اس کا نام بھی ہم Sun of the Witch رکھیں گے‘‘۔ اس پر سمیر نے اپنی بہن کو جتایا کہ ’’فرخندہ نے اس کا نام معطم ال نرگیلا ( نرگیلا عربی زبان میں شیشے کو کہتے ہیں) پہلے ہی سوچ رکھا ہے۔ جس پر اس کی بہن چڑ کر کہنے لگی کہ’’ ہے نا سالی عالمگیر روڈ کی اردو میڈیم۔ اس سے کہو کہ وہ اس کا نام بیگم کا دسترخوان رکھ لے۔ سمیر خان کو اپنی منگیتر کو اردو میڈیم کہنا اچھا نہیں لگا مگر اس سے پہلے کے لڑائی کوئی اور رخ اختیار کرتی ان کی خالہ کمرے میں آ گئیں۔

    میر ملازم کو شبہ تھا کہ فرخندہ، سمیرخان سے پیار کرتی ہے۔ میر ملازم اس وقت کمرے میں ہی موجود تھا جب سمیر نے اس سے پوچھا کہ وہ برطانیہ کب آ رہی ہے۔فرخندہ کو گھر کی جانب سے اس بارے میں رکاوٹ کا سامنا تھا۔ وہ دہلی کے ایک اردو بولنے والے تجارت پیشہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ ان کے ہاں لڑکیوں کو شادی سے پہلے تعلیم کے لیے باہر بھیجنے کا کوئی رواج نہ تھا۔جب اس نے اپنی مشکل بتائی تو ساتھ ہی یہ کہا کہ اس کے والدین کو وہاں مخلوط طرز رہائش پر اعتراض۔ بالفرض محال اگر اسے وہاں آنے کی اجازت مل بھی جائےگی تو گھر والے اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ایک ایسے گھر میں رہے جہاں طالب علم لڑکے لڑکیاں مل جل کر قیام پذیر ہوں۔ سمیر خان کا اس بارے میں یہ کہنا تھا کہ وہ ساتھ رہیں گے تو شادی سے پہلے ایک دوسرے کو بہتر طریقے پر جان پائیں گے۔

    فرخندہ نے کہا وہ دونوں ایک دوسرے سے اسکول کے زمانے سے واقف ہیں۔ اس حوالے سے مزید ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کے بارے میں دی جانے والی دلیل اس کے والدین کے لیے قابل قبول نہ ہوگی۔ اس کی امی تو صرف ایک جملہ کہہ کر موضوع کو ختم کر دیں گی کہ شادی سے پہلے بیوی کا ایکسرے کرنا ضروری نہیں۔ میر کو یہ جملہ یاد رہ گیا اور اس نے سوچا کہ اس کی وضاحت وہ ڈرائیور تمیز خان سے مانگ لےگا۔ اسے وہ کافی سیانا سمجھتا تھا۔ فرخندہ کی یہ بات سن کر سمیر خان چڑ گیا اور اپنی بہن کا کچھ دیر پہلے ادا کیا ہوا جملہ دہرا دیا کہ ’’ہے نا سالی عالمگیر روڈ کی اردو میڈیم‘‘۔

    فرخندہ اس کی یہ بات سن کر گیسٹ باتھ روم میں جانے کا بہانہ کرکے اٹھی اور چپ چاپ گیٹ سے باہر نکل کر اپنی کار میں بیٹھ کر گھر واپس چلی گئی۔ وہ اسے ائیر پورٹ چھوڑنے بھی نہیں آئی۔میر ملازم نے یہ ساری واردات ڈرائیور تمیز خان کو بتائی تو وہ کہنے لگا کہ ملک سے باہر جاکر زیادہ دیر قیام کرنے سے بہت خرابیاں آتی ہیں۔ ہم لوگ کے علاقے کے بہت لوگ ادھر ادھر دولت کمانے گئے مگر گھر میں بہت خرابی آئی۔کسی کی اولاد بگڑ گئی تو کسی کی بیوی۔

    وہ بتانے لگا کہ یہاں آنے سے پہلے وہ جن کے ہاں ملازم تھا ان کی لڑکی کالج کی تعلیم کے بعد باہر پڑھنے گئی۔ وہاں اس کو کسی چالیس سال کے بینڈ باجا بجانے والے حبشی سے پیار ہوگیا۔ پیٹ میں بچہ آیا تو اس کو شادی کا خیال آیا۔ شادی والے دن بہت تھوڑے لوگ آئے تھے۔ مولوی صاحب کو پتہ نہیں چلا کہ لڑکی کے پیٹ میں کالے آدمی کا شادی سے پہلے کا بچہ ہے ورنہ وہ نکاح نہیں پڑھاتا۔ ام کو معلوم تھا۔ ہم نے اس کو گھر میں ٹی شرٹ میں دیکھا تھا۔ اس کا پیٹ تھا۔ ہمارا بھی دو بیوی ہے ام کو پتہ ہے بغیر بچے کی عورت کا پیٹ کیسا ہوتا ہے۔ فرخندہ بی بی کا والدین غیرت مند لوگ ہے۔ اس لیے ان کا کہنا ٹھیک ہے کہ بچی کو شادی سے پہلے باہر مت بھیجو۔ عورت لوگ کا کمائی میں ویسے بھی کون سا برکت ہوتا ہے۔ اس نے اپنی دقیانوسی فلاسفی سے میر ملازم کو قائل کر دیا۔

    شام تک کافی لوگ اور بھی آ گئے۔ ان میں اکثر تو سمیر خان کے دوست تھے اور کچھ قریبی عزیز۔ بیگم صاحب نے بہت ضد کی کہ سمیر خان اپنے سفر کے دوران سوٹ اور ٹائی پہنے۔ اس نے ایک سفید ٹی شرٹ اور ملٹری کپری پینٹ پہن رکھی تھی جب ریٹائرڈ بریگڈیئر سرفروش خان صاحب نے بھی اپنی بیگم کی تائید میں اسے نیلا سوٹ پہننے کی ضد کی تو وہ کہنے لگا کہ Dad! I am going to a free country. Let me dress like a free man. I am not going to World Bank meeting.(ابو جی میں ایک آزاد ملک میں جا رہا ہوں۔مجھے آپ ایک آزاد باشندے کے مانند کپڑے پہننے دیں۔میں کوئی ورلڈ بینک کی میٹنگ میں نہیں جا رہا)۔ وہ اس کی یہ بات سن کر بجھ سے گئے۔

    گھر سے چلتے وقت میر ملازم اپنے سامان میں سے ایک نئی سندھی ٹوپی نکال لایا اور اس کے سر پر اس دعا کے ساتھ رکھ دی کہ چھوٹے سائیں اب جلدی سے ڈاکٹر بن کر آؤ اور غریبوں کا مفت علاج کرو۔ سمیر خان چونکہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کرنے جا رہا تھا لہذا اس کی بات پر ایک زبردست قہقہہ پڑا۔ وہاں موجود اس کی کسی دوست لڑکی نے کہا .How Sweet and innocent. I wish all men were like him جس پر وہاں موجود لڑکے نے کہا Yes. Indeed. With loads of money

    سمیر کے رخصت ہو جانے کے بعد گھر کو ایک عجیب سی اداسی اور بے لطفی نے آن گھیرا۔

    میر ملازم کی سلطانہ سے بات چیت اس کی آمد کے تیسرے دن ہوئی اور وہ اس کی جوانی اور اس کا حسن بےپرواہ دیکھ دل تھام کر رہ گیا۔ بیگم حسینی نے اس کالونی کی مارکیٹ سے سودا لانے کو بھیجا تھا اور گھر سے نکل کر کالونی میں واقع چھوٹی سی مارکیٹ کی تلاش میں بھٹک رہی تھی اسے مارکیٹ کے محل وقوع کا کوئی علم نہ تھا۔۔۔ میر کو، کک عبدالکریم نے ایک گھنٹے پہلے دہی لانے کا کہا تھا۔ جب اس نے سلطانہ کو گھر سے نکلتے دیکھا تو وہ بھی دو منٹ بعد اس کے پیچھے چل پڑا۔ جب سلطانہ نے اس سے اس مارکیٹ کا پتہ پوچھا تو وہ اسے الٹی سمت میں لے کر چل دیا اور چار پانچ گلیاں گھما کر اسے باتیں کرتا کرتا مارکیٹ لے آیا دونوں نے اپنا اپنا سودا خریدا اور پھر اسی طویل راستے سے گھر لوٹے۔

    راستے میں سلطانہ نے میر ملازم سے پوچھا کہ اس کے پاس پتلی پن والا سیل فون چارجر ہے تو وہ اتار کر کہنے لگا کہ اس جیسا چارجر تو اس پوری کالونی میں کسی کے پاس نہیں۔وہ اپنا فون دےگی تو اس کو چارج کر دےگا۔ گھر پہنچ کر سلطانہ بھاگ کر اپنا فون لائی اور اس کے حوالے کر دیا۔ سلطانہ کا فون جیسے ہی مکمل طور پر چارج ہوا تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس کے فون سے اپنے فون پر ایک مس کال ماری جس کی وجہ سے سلطانہ کا نمبر اس کے فون پر آ گیا۔ اس نے ڈرائیور تمیز خان کو یہ فون نمبر سلطان بھائی کے نام سے محفوظ کرنے کا کہا تو وہ مذاق کرنے لگا کہ یہ سلطان بھائی سچی میں کوئی ہے یا مس کال سے وہ کوئی لونڈیا پٹا رہا ہے۔ یہ سلمان خان کی فلم دبنگ۔ ٹو کی ریلیز سے بہت پہلے کی بات ہے۔ اس وقت تک کسی نے کرنیہ کپور کا فیوی کول والا آئٹم نمبر بنانے کا نہیں سوچا تھا۔ مشہور لنگر باز یعنی اینکر پرسن ڈی۔ جے چوہدری ہو یا اس دھماکہ خیز گانے کے تین گیت کار واجد، ساجد اور اشرف علی اسی طرح غریبوں کے اوریجنل خیالات کو کاپی کرکے دولت سمیٹتے ہیں۔ سلطانہ سے میر ملازم کو عشق تو دیکھتے ہی ہو گیا مگر شادی کا فیصلہ ذرا دیر سے ہوا۔ اس کی ماں کی تو مرضی تھی کہ اسے پھر کسی مالدار بوڑھے کو بیچ دیتی مگر کمانڈر حسینی صاحب کی بیگم یہ کہہ کر آڑے آ گئیں کہ لڑکی کی بھرپور جوانی ہے۔ اس کے بھی ارماں ہوں گے۔ لڑکی کوئی سی این جی کی ایجنسی تو نہیں کہ اسے مالدار اور با اثر و رسوخ لوگوں کو بیچا جائے۔

    جب تک میر کی شادی کا فیصلہ ہوتا یہ دونوں عشق کے دریا پار کرتے رہے۔ فون پر دونوں نے بات چیت کے لیے سستے پیکج ڈلوا لیے تھے۔ گفتگو کرنے میر ملازم چھت پر چلا جاتا اور سلطانہ اپنے سرونٹ کوارٹر میں۔ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہتے۔ میر ملازم اب بھی اسے لمبے راستے سے مارکیٹ لے جاتا تھا۔ دونوں سودا خریدنے کے بعد کبھی تو آئس کریم کھاتے اور کبھی فانٹا پیتے تھے۔

    ایک دن سلطانہ نے کہا بھی کہ مارکیٹ تک جانے کے لیے ایک قریب کا راستہ بھی ہے جو اسے بیگم صاحب نے سمجھایا تھا مگر اس نے سلطانہ کو بتایا کہ اس میں سے ایک گلی میں انگریز لوگوں کے بڑے بڑے کتے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہمارے ڈرایؤر تمیز خان کو ایک نے کاٹ لیا تھا تو پیٹ میں بیس انجکشن لگوانے پڑے تھے۔ تمیز خان پاگل ہوتے ہوتے بچا۔ جس پر سلطانہ نے کہا کہ جس طرح وہ اسے، دو تین نوکرانیوں اور سونیا خان کو ایکس رے کرنے کے انداز میں دیکھتا ہے لگتا ہے کہ اس کا علاج ٹھیک سے نہیں ہوا۔ میر ملازم نے کہا سونیا خان تو خود بھی ٹی وی ڈراموں میں آتی ہے اس کا ایکسرے حلال ہے۔ اسے کالونی کا لمبا چکر دلاتے ہوئے ایک سنسان سڑک پر میر ملازم نے اسے اپنا پسندیدہ اردو گیت بھی دل پر ہاتھ رکھ کر ساتھ والے پارک میں گاکر سنایا جو اس نے اسٹار ٹی۔ وی کے کسی ایوارڈ شو میں دیکھا تھا۔ وہ گیت یہ تھا۔

    تم سا کوئی پیارا کوئی معصوم نہیں ہے

    تم جان ہو میری تمہیں معلوم نہیں ہے۔

    کیا چیز ہو تم خود تمہیں معلوم نہیں ہے

    یہ ہونٹ، یہ پلکیں، یہ نگاہیں، یہ ادائیں

    ٍ مل جائیں خدا مجھ کو تو میں لے لوں بلائیں۔

    سو چاند بنے تو بنا یہ چاند سا چہرہ

    بحریہ کے نام پر چڑھی اس نیم فوجی کالونی میں دن کے وقت خواتین اور ملازم لوگ گھر کے اندر ہوتے تھے۔ کالونی کا چونکہ بیرونی سیکورٹی کا نظام بہت مضبوط تھا اور کوئی بھی شخص بغیر شناخت کے اندر نہ آ سکتا تھا لہذا اندر کے پارکوں کی نگرانی کا کوئی بندوبست نہ تھا۔میر نے جب دل پر ہاتھ رکھ کر اداکار گوندا کی طرح نقل کرتے ہوئے یہ گیت گایا تو سلطانہ بھی ایک آدھ دفعہ کرشمہ کپور کے انداز میں رکی، بل کھائی اور لہراکر شرمانے لگی۔

    غالباً یہ ہی وہ لمحہ تھا جب اسے میر ملازم سے پکا پکا عشق ہو گیا۔ اسے یاد آیا کہ عمر دین نے تو اسے پہلی رات برہنہ ہونے کا حکم بھی ایسے دیا تھا جیسے اپنے پونا لاکھ روپے وصول کر رہا ہو۔ اس کی زوجیت کی آخری تین راتوں میں جب کشتے کی خوراک ختم ہو چکی تھی اور سلطانہ کے سامنے اس کے دور شرمندگی کا آغاز ہو چکا تھا اس نے محض اس کی دل جوئی کے لیے آخری رات اسے لاہور لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔

    آڑھتی ظہیر الدین بابر کے ہاں یہ نزاکتیں اور ناز برداریاں فضول کی حرکت تھیں۔ کمرے کی تنہائی میں وہ اس کے قریب ایسے آتا تھا جیسے کوئی سودا مارکیٹ میں ڈن کرنے آیا ہو۔ اس کے پیار کے انداز بھی بہت کاروباری سے تھے۔ سلطانہ کو لگتا تھا کہ وہ اپنے ظہیر میاں کے نزدیک ایک ایسی منافع بخش کاروباری ڈیل ہے جس کا مکمل پرافٹ صرف وہی سمیٹ لیتا ہے۔ جواں محبت کا سواد اور ارمانوں کی آسودگی کا سلطانہ کو پہلی دفعہ اندازہ ہوا۔

    اسے یہ احساس ہوا کہ عورت مرد کے تعلق میں بدن تک آنے سے پہلے بھی کچھ دلفریب مراحل ہوتے ہیں جن سے اس کے خریدار شوہروں نے اسے کبھی بھی آشنا نہ کیا۔ میر نے یہ راز دل نشین اسے کئی بار مارکیٹ تک لمبی واک، اپنی سادہ لوح گفتگو اور اس دن دوپہر ساڑھے گیارہ بجے دنیا کی نگاہوں سے چھپ کر پارک میں سمجھا دیا۔ ماں بھی اس کی ضد کے ہاتھوں مجبور ہوئی۔ یوں بھی وہ کراچی میں اپنے میاں کے ساتھ نئی نئی آئی تھی اور اب تک سلطانہ کے لیے کوئی مناسب خریدار شوہر سے اس کی ملاقات نہ ہو پائی تھی۔

    میر ملازم کی شادی کا سارا خرچہ اس کی بیگم برگیڈیر صاحبہ نے اٹھایا۔ لڑکی کے جوڑے البتہ تین مختلف گھروں سے آئے۔ایک جوڑا اس انگریز بیگم صاحبہ نے بھی دیا جو سلطانہ اور کمانڈر حسینی کی بیگم صاحبہ خاص طور پر اسی کے ساتھ جاکر ایک بوتیک سے خرید لائیں۔ میر ملازم کی مالکن نے کہا بھی کہ جوڑا سلطانہ کے حساب سے مہنگا ہے مگر کمانڈر حسینی کی بیگم صاحبہ نے (جنہیں میر ملازم حسینی بیگم کہتا تھا اور ساری کالونی میں وہ اب اسی نام سے مشہور ہو رہی تھیں) یہ کہہ کر انہیں خاموش کر دیا ہے کہ ’’بہن ہزار پندرہ سو ڈالر کی ان موئے فرنگیوں کے ہاں کیا وقعت ہے۔باہر سے جو یہ اپنے کتوں کی خوراک منگواتے ہیں وہی ہر ماہ چھ سات ہزار ڈالر کی ہوتی ہے‘‘۔

    میر ملازم کے باپ نے بھی اس شادی میں ایک خاطر خواہ رقم اپنی دو گائیں بیچ کر ادا کیں اور میر کو جتلا دیا کہ اب اس کا موروثی جائداد میں کوئی حصہ باقی نہیں رہا۔ اسی رقم سے میر ملازم کا سادہ سا ولیمہ بھی نکاح والی رات کو ہی ہو گیا۔

    کالونی کی مسجد والے مولوی صاحب نے اس پر دبے الفاظ میں اعتراض بھی کیا کہ نکاح اور ولیمے میں ایک رات کا وقفہ لازم ہے، مگر ان عورتوں کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔ ان عورتوں نے ولیمے کا وقفہ ڈالنے کے لیے نکاح کے بعد مہندی کی رسم رکھ دی تھی تاکہ ناچنے گانے اور کالونی میں مقیم سفارت کاروں کی بیگمات کو امپریس کرنے کا موقعہ مل جائے۔

    مولوی شجاع الدین کو اپنی نوکری عزیز تھی۔مسجد کے بورڈ پر آدھے باوردی درست افسر تھے۔ ان میں آپس میں بہت تال میل تھا۔صرف جمعے عید اور تراویں پر دکھائی دینے والے ریٹائرڈ بریگڈیئر سرفروش خان بھی مسجد کے انتظامی بورڈ میں شامل تھے۔ مولوی کو فائدہ دکھائی دے تو وہ بھی قندیل بلوچ اور وینا ملک کو دین سکھانے اور جاتی امرا کے جنازے پڑھنے چلے جاتے ہیں سو شجاع الدین نے فقہہ حنفیہ میں اجتہاد کی نقب لگائی اور نکاح اور ولیمے کے درمیان میں مہندی کے دو تین گھنٹے وقفہ جان کر برداشت کر لیا۔ ہمارے جیسے ایک آدھ سہل پسند صوفی نے بھی سمجھا دیا کہ یہ ایک فاسٹ ٹریک شادی ہے۔ زمان و مکان سے ذرا پرے۔جس طرح اہل معرفت کو سیر الارض کی سہولت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقام پر بیٹھے بیٹھے ہی دنیا گھوم لیتے ہیں۔ کعبہ ان کو طواف کرانے کے لیے خود ان کے پاس آ جاتا ہے اسی لیے تو بہزاد لکھنوی نے کہا تھا کہ منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے۔

    کالونی والی مسجد کے مولوی شجاع الدین جو تصوف کے اور اردو شاعری کے بہت گرویدہ تھے ان کی بات کو میر ملازم کی غربت اور مجبوری کا دکھ جان کر مان گئے۔ انہوں نے پھر بھی ضد کی کہ دولہا دلہن کو کچھ دیر کے لیے تنہائی میں چھوڑ دیا جائے تاکہ فقہہ حنفی کی یہ لازمی شرط پوری ہو سکے۔ اس کی خاطر سلطانہ اور میر ملازم کو اس سرونٹ کوارٹر میں لے جایا گیا جہاں عام حالات میں اس کا، عبدالکریم کک کا اور ڈرائیور تمیز خان کا بسیرا ہوتا تھا۔ کسی نے تجویز دی کہ اس کے لیے بیگم حسینی اپنا ڈرائینگ روم کھول دیں مگر ان گھروں میں ملازمین کو مالکان کے برابر اسٹیٹس دینے کا کوئی چال چلن نہ تھا۔ بیگم مولی تھامسن نے اپنا ڈرایئنگ روم کھولنے کی پیشکش کی تو حسینی بیگم نے کہا اس تجویز کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہماری بچی غیرمسلموں کے گھر سے رخصت نہیں ہوگی۔ مختلف اقسام کے دروس اور دینی پروگراموں میں شرکت کرکے وہ کچھ سخت دل سی ہو گئی تھیں۔

    سرونٹ کوراٹر کی تنہائی میسر آئی تو سلطانہ نے گفتگو کی ابتدا ایک فرمائش سے کی کہ وہ اسے گانا سنائے، میر کی مرضی تو کچھ اور کرنے کی تھی مگر سلطانہ نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ میک خراب ہوگا تو مولوی صاحب کو، بیگم مولی تھامسن کو، میری ماں کو اور حسینی بیگم کو پتہ چل جائےگا۔

    میر ملازم، مولوی صاحب کا احترام کرتا تھا اور سلطانہ کی ماں سے ڈرتا تھا لہذا اپنے ارادوں کو تکمیل کا روپ دینے سے باز رہا۔ جب سلطانہ نے اس سے دوبارہ فرمائش کہ وہ گانا سنائے کوارٹر میں کوئی اور نہیں، دروازہ بھی بند ہے اور اس سے میک اپ بھی خراب نہیں ہوگا۔ میر نے اسے شادی کے بعد سلطانہ کی پہلی فرمائش سمجھ کر مائی بھاگی کا مشہور گیت کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ھیکلی شروع کیا تو اس نے درمیان میں ہی یہ کہہ کر روک دیا کہ نہیں وہ پارک والا گانا۔ میر کی مرضی تھی کہ وہ یہ گیت اپنے الآصف اسکوائر کے عارضی حجلہء عروسی میں سنائےگا مگر اس نے سوچا کہ سلطانہ کو اگر یہ گیت اچھا لگتا ہے تو وہ یہ ہی فرمائش سہراب گوٹھ پہنچ کر بھی کرےگی لہذا اس نے فلم خود دار کا گیت ع

    تم سا کوئی پیارا کوئی معصوم نہیں ہے

    تم جان ہو میری تمہیں معلوم نہیں ہے۔

    کیا چیز ہو تم خود تمہیں معلوم نہیں ہے

    یہ ہونٹ، یہ پلکیں، یہ نگاہیں، یہ ادائیں

    مل جائیں خدا مجھ کو تو میں لے لوں بلائیں۔

    سو چاند بنے تو بنا یہ چاند سا چہرہ

    سنا دیا اسے یوں انہماک سے گاتا دیکھ کر سلطانہ اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بوسوں کے لیے تھر تھراتے ہونٹوں کو قریب لاکر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یوں دیکھنے لگی کہ میر کی اصلی لمبی پلکیں اور سلطانہ کی نقلی پلکیں جو اسے شایان بی بی نے دی تھیں ایک دوسرے سے بے تابی سے الجھنے لگیں۔ قریب تھا کہ میر کے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں پیوست ہو جاتے، باہر ڈرائیور تمیز خان کی آواز گونجی ’’دولہا دلہن لوگ ڈرامے کا شاٹ بریک ختم، ابھی واپس چلو‘‘۔ اس کی آواز سن کر سلطانہ علیحدہ ہو گئی اور پھر دونوں دھیمے قدموں سے قریب ہی لگائے گئے پنڈال کی جانب چل پڑے نکاح کی تقریب تو سادہ سی تھی مگر مہندی میں جوانگریز بیگم نے اپنے گھر پر رکھی تھی اس میں کافی لوگ شرکت کرنے آئے۔ ان میں بڑی تعداد بیگم مولی تھامسن کی معرفت آنے والی غیر ملکی مہمان خواتین کی تھی، جن میں سفارت خانوں کے کچھ افسران کی بی بیاں بھی آئیں تھیں۔ ان کے لیے یہ بڑی انوکھی اور ثقافتی نوعیت کی تقریب تھی۔ عاطفے، شایان بی بی اور انگریز بیگم مولی تھامسن اور انہیں میں سے شریک خواتین اس رات خوب ناچیں بھی۔ مردوں میں صرف دولہے میاں میر ملازم کو شرکت کی اجازت تھی۔

    اس سارے ہنگامے میں نکاح والے دن تک کسی نے نہ سوچا کہ میر ملازم رخصتی کے بعددلہن کو لے کر کہاں جائےگا۔ حسینی بیگم نے کہا بھی کہ سمیر خان والا کمرہ دو تین راتوں کے لیے اس نوبیاہتا جوڑے کے حوالے کردیں یوں بھی یہ بند ہی پڑا رہتا ہے مگر ریٹائرڈ بریگڈیئر سرفروش خان صاحب ملازمین کو گھر کے اندر مالکوں جیسی سہولتیں فراہم کرنے کے حق میں نہ تھے۔ کسی سستے ہوٹل میں اس طرح کا بندوبست ان دونوں کی سادہ لوحی کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب نہ گردانا گیا۔ جب معاملہ بہت پیچیدہ ہو گیا تو ڈرایؤر تمیز خان نے پیش کش کی کہ اس کے بہن بہنوئی ان دنوں علاقہ غیر میں اپنے گاؤں درہ آدم خیل گئے ہوئے ہیں ان کا سہراب گوٹھ پر واقع پختونوں کا ال آصف اسکوائر والا اپارٹمنٹ دستیاب ہے چوں کہ یہ جوڑا اس کی معرفت وہاں تین راتوں کا مہمان ہوگا لہذا اس حوالے سے کسی قسم کے خطرے کی کوئی بات نہیں۔

    کمانڈر حسینی نے جن کی کنجوسی ویسے تو ضرب المثل تھی اس موقعے پر اسے دو ہزار روپے دیے کہ وہ جاکر سر شام کسی کے ذریعے پھول وغیرہ سے دولہا۔ دلہن کی سیج سجا لے۔ وہی رخصتی کے بعد گھر کی گاڑی میں انہیں ال آصف اسکوائر والے اپارٹمنٹ چھوڑ کر آیا۔ راستے بھر وہ میر ملازم کو دولہا اس رات کیا کچھ کرتا ہے سمجھاتا رہا۔ گھونگٹ میں پچھلی سیٹ پر سمٹی دلہن بنی سلطانہ اس کی باتیں سن کر ہولے ہولے ہنستی رہی۔ میر ملازم کی یہ ضرور پہلی شادی تھی مگر وہ تو ان معاملات میں بلیک بیلٹ تھی۔ رات میر ملازم نے اسے گانے بھی بہت سنائے اور پیار بھی بہت کیا۔ میر کا اناڑی پن اور اس کا سابقہ تجربہ رفیق وصل بنا تو پیار نے رنگ بھرے سو جال بچھائے۔ میر ملازم نے بھی جسم و جاں کے عذاب بھی دھوئے اور اپنے سب خواب بھی چھو کر دیکھے۔

    دن کے کوئی ایک بجے کے قریب یہ دونوں جاگے۔ میر نیچے سے جاکر کھانا لے آیا۔ کھانا وغیرہ کھاکر ان کا پروگرام بنا کہ کالونی میں چل کر بیگم صاحب کو اور ریٹائرڈ بریگڈیئر سرفروش خان صاحب، سلطانہ اپنی بیگم صاحب کو بھی منھ دکھا لےگی کہ وہ کتنی خوش و خرم ہے۔ سلطانہ جب باتھ روم سے نہاکر برآمد ہوئی تو میر ملازم مچل گیا اور اس سے لپٹ کر بہت دیر تک پیار کرتا رہا۔ اولیں ہچکچاہٹ اب لطف بھرے برتاؤ میں بدل گئی تھی۔ دیر تک نڈھال پڑے رہنے کے بعد دونوں ایک دفعہ اور غسل کرکے تیار ہو گئے۔ میر نے بو سکی کا شلوار کرتا زیب تن کیا اور سلطانہ نے گلابی رنگ کا سلک کا چوڑی دار پاجامہ اور لمبا ڈھیلا کرتا پہن کر اس پر ایک زری والا لمبا سا دوپٹہ بھی پہن لیا۔ دونوں ہی کے چہرے پر ایک عجیب سا اطمینان اور جگمگاہٹ تھی۔

    نیچے آن کر میر ملازم نے ایک رکشہ لیا اور یہ دونوں کلفٹن آنے کے لیے اس میں سوار ہو گئے۔ گلشن اقبال سے گزرتے ہوئے میرزا ابوالحسن اصٖفہانی روڈ پر ایک بڑی سی بیکری دیکھ کر میر کے دل میں خیال آیا کہ مالکوں کی طرف شادی کے بعد خالی ہاتھ جانا مناسب نہیں لگتا۔ سلامی میں انہیں پانچ ہزار روپے ملے تھے۔ جس میں تین ہزار کے قریب تو ان گوری عورتوں ہی نے دیے تھے۔ اس نے سوچا کہ دونوں گھروں کے لیے ایک ایک کیک لے لیتے ہیں۔ سلطانہ کو بھی اپنے میاں کی یہ تجویز اچھی لگی۔

    رکشہ والے نے اس خیال سے کہ بیکری کے عین سامنے جاکر رکنے سے سیدھی سڑک سے واپس موڑنے میں بہت لمبا چکر پڑ جائےگا سو، اس نے میر کو تجویز دی کہ وہ سڑک کر اس کے سامنے چلا جائے اور کیک لے کر آ جائے۔ وہ اور اس کی بیوی یہیں پر اس کا انتظار کریں گے۔ میر ملازم عام حالات میں تو شاید بھروسہ نہ کرتا مگر رکشہ والا ایک بوڑھا نیک دکھائی دینے والا پٹھان تھا۔ جب یہ رکشہ میں بیٹھے تھے وہ سامنے کی مسجد سے نماز پڑھ کر برآمد ہوا تھا۔ بڑی سی ڈاڑھی بھی تھی، لہذا اس کی بات کو بہتر مشورہ جان کر دوسری طرف مڑکر کیک لینے چل دیا۔اسی دوران وہاں تڑ تڑ فائرنگ کی آواز گونجی اور ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔ رکشے والے کو چونکہ میر ملازم پہلے ہی اپنا اگلا ٹھکانہ ٹھیک سے سمجھا بیٹھا تھا لہذا وہ بھی گولیوں کی زد سے بچنے کے لیے رکشہ بھگا کر چل پڑا۔

    سلطانہ کو تشویش میر ملازم کی تھی جانے وہ کس حال میں ہو۔ یہ بات اس کے وہم و گمان سے بھی پرے تھی کہ ایک گولی سیدھی میر کو سر میں لگی ہے اور وہ اب دنیا میں موجود نہیں رہا۔ جب وہ سرپٹ رکشہ دوڑا کر چلا جا رہا تھا میر کے بارے میں اس نے رکشہ والے اپنی پریشانی بیان کی جو اس سے پوچھ رہا تھا کہ کیا اس کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ وہ کہنے لگا ’’ہم تو بوڑھا انسان ہے تم ہم کو طالبان بولو یا کچھ اور۔۔ مگر ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ تم ایک جوان لڑکی ہو ایسے حالات میں جب کہ چاروں طرف فائرنگ ہو رہی ہے یہاں رکنا بہت نقصان اور خطرے کی بات ہے‘‘۔

    اس نے سلطانہ کو اس وقت اور بھی سختی سے سمجھایا جب کچھ دور آگے جاکر اس نے رکشہ روک کر اپنے میاں کا انتظار کرنے کی ضد کی۔وہ یہ کہہ کر انکار کر بیٹھا کہ ’’اس علاقے میں حالات بہت زیادہ اور بہت جلدی خراب ہو جاتے ہیں۔ ہم کو پٹھان دیکھ کر کوئی گولی مار دےگا اور تم کو گاڑی میں بٹھا کر بھگا کر لے جائےگا تو تم کیا کرےگا۔ ام روز ایسا تماشا دیکھتا ہے۔ ام کو سب معلوم ہے ادھر کیا ہوتا ہے؟‘‘۔ سلطانہ اس کی یہ باتیں سن کر گھبراگئی اور بس اتنا پوچھا کہ اس کو کیا اس جگہ کی خبر ہے جہاں کا پتہ اس کے میاں نے رکشہ میں سوار ہوتے وقت اسے بتایا تھا۔ اس نے بتایا کہ ’’فکر کی کوئی بات نہیں دو تلوار پر پہنچ کر کالونی کا نام پوچھیں گے تو کوئی نہ کوئی بتا دےگا۔ بعد میں ادھر پہنچ کر تم اس کو فون کرنا کہ تم خیریت سے گھر پہنچ گیا ہو۔ وہ خود ہی آ جائےگا‘‘۔

    سلطانہ نے اس کہا بھی کہ ’’چلو فائرنگ کی وجہ سے بھاگنا تو ٹھیک ہے مگر میر اس کی مس کال کا جواب کیوں نہیں دے رہا۔ آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس نے مس کال کی ہو اور میر نے فوراً اسے کال بیک نہ کیا؟‘‘۔ رکشہ والا کہنے لگا ’’بابا ایسے حالات میں فون پر کون جواب دیتا ہے، کراچی میں تو لوگ فون چھین نے کی خاطر گولی مار دیتے ہیں تمہارا میاں سمجھ دار انسان خود بھی چھپ گیا ہوگا اور فون بھی چھپالیا ہوگا‘‘۔ اس کا دل تو نہ مانا مگر یہ سوچ کر کہ یہ آدمی سارا دن اس طرح کے واقعات کا سامنا کرتا رہتا ہے اس کی بات ہو سکتا ہے ٹھیک ہو۔

    سلطانہ نے حسینی بیگم کے گھر آن کر بیسیوں دفعہ، میر ملازم کے فون پر کال کی مگر فون مسلسل بند مل رہا تھا۔ اس کی یہ بات سن کر کمانڈر حسینی کی بیگم صاحبہ کو بھی تشویش لاحق ہوئی۔ رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب ریٹائرڈ بریگڈیئر سرفروش خان صاحب کے فون پر ایک سرکاری نمبر سے فون کال آئی مگر نیند کے ماتے خان صاحب نے اسے در خور اعتناء نہ سمجھا اور فون سائلینٹ پر کرکے سو گئے۔

    اگلے دن دفتر میں انہیں تھانہ گلشن اقبال سے ایک اے۔ ایس۔ آئی کا فون آیا کہ ان کے ہاں سے کسی کی گمشدگی کی اطلاع ہے۔ کمانڈر حسینی کی بیگم صاحبہ نے تب تک میر ملازم کے مالکان کو سلطانہ کی گھر آمد اور میر کے غائب ہونے کی کوئی خبر نہ دی تھی لہذا وہ اس کی گمشدگی سے بالکل لا علم تھے۔ سہ پہر کو جب بیگم صاحبہ اپنے پارلر جانے کے لیے نکل رہی تھیں انہیں سلطانہ دکھائی دی جس سے انہوں نے میر کے بارے میں پوچھا تو اس نے پوری روداد سنا دی۔انہیں تشویش ہوئی تو انہوں نے سرفروش خان کو سیل فون پر کال کیا۔ اس وقت وہ گالف کھیلتے ہوئے اپنا ڈبل ایگل شاٹ ٹرائی کر رہے تھے۔ ویسے بھی وہ گالف کھیلتے وقت اپنا سیل فون کار میں ہی چھوڑ دیتے تھے۔ انہیں میر کی گمشدگی کا اصل احوال بیگم صاحبہ کی واپسی پر چلا۔ اگلی صبح انہوں نے ڈرایؤر تمیز خان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ شایان بی بی کو کالج چھوڑ کر گلشن اقبال تھانے جاکر پتہ کرے کہ انہوں نے کس کی گمشدگی کے بارے میں انہیں فون کیا تھا۔ دفتر جاکر انہوں نے دو ایک فون اپنے ہم پیشہ حاضر سروس دوستوں کو بھی اس حوالے سے کیے۔ تب تک میر ملازم کو دنیا سے رخصت ہوئے ڈھائی دن سے اوپر اور لاوارث لاش کے طور پر دفن ہوئے پورے چوبیس گھنٹے ہو چکے تھے۔

    دو گھنٹے بعد ان کے اپنے ذرائع نے انہیں بتایا کہ اس دن تین لوگوں کی فائرنگ سے تھانہ گلشن اقبال کی حدود میں ہلاکت ہوئی تھی۔ ان میں سے کوئی ایک نامعلوم شخص تھا جس کی جیب سے ان کا کارڈ برآمد ہوا تھا اس لیے انہیں فون پر اسی رات اطلاع دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ نامعلوم شخص کو ایدھی ٹرسٹ والوں نے دفنا دیا ہے۔ یہ شکل سے کوئی سندھی لگتا تھا۔ جیب سے کچھ اور برآمد نہ ہوا۔ اس کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے۔

    سلطانہ نے یہ سن کر مسز سرفروش کو بتایا کہ میر ملازم کے پاس سیل فون بھی تھا اور تین ہزار روپے بھی، اس نے نیا نویلا بوسکی کا سوٹ پہنا تھا اور نئی سندھی ٹوپی بھی۔ہو سکتا ہے مرنے والا کوئی اور شخص ہو۔

    بریگیڈئیر صاحب نے جب اپنے ذرائع کو یہ بات بتائی تو انہیں بڑی حیرت ہوئی۔ ان کا اصرار تھا کہ ان کا بزنس کارڈ اسی لاوارث شخص کی جیب سے برآمد ہوا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ میر ملازم کے علاوہ کوئی اور فرد ہو۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کو فون پر کہا کہ How can they steal clothes from a dead body ?(وہ لاش کے کپڑے کیسے چر اسکتے ہیں۔جس پر مردان سے نو تعینات شدہ کرنل صاحب نے کہا Sir if they can stuff a dead body in a jute bag then every thing is possible (سر اگر وہ ایک لاش کو بوری میں بند کر سکتے ہیں تو ہر چیز ممکن ہے ) بے چارے کرنل صاحب کو یہ اس وقت تک اس طریق کار کا علم نہ تھا کہ لاش کو بوری میں بند نہیں کیا جاتا بلکہ ایک زندہ وجود کو شدید تشدد کے بعدبوری میں بند کرکے بیٹ اور سریوں سے مارکر لاش بنا دیتے ہیں )جب تھانے سے تصدیق کی گئی تو انہیں بتایا گیا کہ جو ا ے۔ ایس۔ آئی۔ اس سلسلے میں ضروری کاروائی کے لیے لاش کو مردہ خانے لے گیا تھا کل اسے بھی کسی نے گولی ماردی ہے۔ اب اس حوالے سے مزید تفتیش ممکن نہیں، مثل مقدمہ اسی کے پاس تھی۔وہ بھی چوری ہو گئی ہے۔

    سلطانہ نے میر ملازم کی موت کی خبر آنسووں کی بہتی جھڑی کے پار سے سنی اور نوکرانیوں میں تانی بیگم نے ایک دفعہ اور یہ بات پھیلا دی کہ ’’موئی ناگن ہے۔ تیسرا میاں بھی کھا گئی۔ موئی منگلک کہیں کی۔ میں نے میر کو کہا بھی تھا اس سے شادی نہ کر۔ میں تیری خاطر فضل داد کو چھوڑ دوں گی مگر وہ نہ مانا۔ سیانوں کی بات نہ مانو تو یہ ہی کچھ ہوتا ہے‘‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے