مثالی شوہر
گھر میں جب رجنی کے بیاہ کاذکرہونے لگا تورجنی نے اپنے ہونے والے شوہرکے بارے میں سوچناشروع کیا۔ وہ سوچتی تھی کہ شوہرکوخوبصورت بھی ہوناچاہئے، قابل بھی اور تعلیم یافتہ بھی۔ رفتہ رفتہ اس کے دل میں اپنے شوہر کاایک پیکرابھرتاگیا۔
اسکول میں بھی لڑکیوں کاسب سے اہم موضوع یہی ہوتا تھا کہ ایک مثالی شوہرکیساہو! پدماکشی کووکیل بہت پسندتھے اوراس نے جب بھی اپنے جیون ساتھی کے بارے میں سوچا، اس کے تصورمیں ہمیشہ ایک وکیل ہی ابھرتاتھا۔
پدماکشی کے برخلاف نلنی کوپولیس انسپکٹرمیں بڑی رومانی کشش محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے جب کبھی ایک آئیڈیل شوہرکاذکرہوتاتووہ پولیس انسپکٹر کی خوبیاں خوب بڑھاچڑھاکربیان کرتی تھی۔
لیلاوتی کا جی چاہتا تھا کہ وہ ایک جج کی بیوی بنے اور اسی لیے جب کبھی جج کی قابلیت کا ذکر ہوتا تھا تووہ ایک جج کی بیوی کی طرح ہی اپنے دلائل سے سب کو قائل کر دیتی تھی۔ اپنے اپنے پسندیدہ شوہروں کا ذکر کرتے وقت وہ کبھی کبھی لڑنے لگتیں۔ کیونکہ ہر لڑکی اپنے ہی آئیڈیل کو دوسروں پر فوقیت دینے کی کوشش کرتی تھی اور اس بحثابحثی میں انہوں نے اپنے اپنے دیوتاؤں کو واضح روپ میں دیکھنا شروع کر دیاتھا۔ ایک بار اسی ذکر پر نلنی نے سہیلیوں سے کہا کہ پولیس انسپکٹر کو دیکھتے ہی سب کانپنے لگتے ہیں۔
’’مگر جج تو مجرم کو پھانسی کی سزا بھی دے سکتا ہے۔‘‘
لیلاوتی نے جواب دیا۔
’’لیکن اگر وکیل نہ ہو تو جج اور انسپکٹر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ پدماکشی نے ان دونوں کی بات کاٹ کر کہا۔
آخر میں سروجنی کہتی تھی۔
’’میرے شوہر تو اتنے قابل، خوبصورت اور تعلیم یافتہ ہوں گے کہ ان کے آگے سب کتوں اور کیڑوں کی طرح لگیں گے۔ ان کی تو ہر طرف عزت ہوا کرےگی۔‘‘
بہرحال اس بارے میں ساری سہیلیاں متفق تھیں کہ شوہر کو خوبصورت تو ضرور ہونا چاہئے۔
ان سب میں سب سے پہلے نلنی کی شادی کی بات چیت شروع ہوئی۔ اگرچہ اس نے یہ بات اپنی سب سہیلیوں سے چھپار کھی تھی۔ مگرجب اس کے بیاہ کی تاریخ مقرر ہوئی اور اس نے پڑھائی چھوڑ دی تو اس کی جوشیلی سہیلیوں کو معلوم ہوا کہ نلنی دلہن بننے والی ہے۔
معلوم ہواکہ نلنی کا ہونے والا دولہا کسی فیکٹری میں تیس روپے کمانے والا منیم ہے اور وہ صورت شکل کا بھی کوئی خاص نہیں ہے۔
بیاہ کے دن لیلاوتی، سروجنی، پدماکشی وغیرہ سب سہیلیاں آئیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ اپنا آئیڈیل نہ ملنے پر نلنی بہت رنجیدہ ہوگی مگر اس کے برخلاف نلنی بےحدخوش و خرم تھی۔ انہوں نے سوچا کہ شاید نلنی بچاری اس وقت’’پوز‘‘ کر رہی ہے۔
آخر لیلاوتی نے پوچھ ہی لیا۔
’’یہ بتاؤ نلنی کہ اس فضول سے منیم کی بیوی بننا تمہیں پسند بھی ہے یا نہیں؟‘‘
نلنی نے کہا۔ ’’اپنی پسند کہاں ملتی ہے اور پھر جیسا بھی شوہر قسمت میں لکھا ہو، میں تو اس کو ہنسی خوشی قبول کر لوں گی۔‘‘
’’تمہیں پولیس انسپکٹر بھی مل سکتا تھا احمق۔ مگرتم تو ایک منیم کوہی قبول کرنے پر تیار ہو گئیں۔‘‘
پدماکشی نے نلنی سے کہا۔
کچھ اداسی کے ساتھ نلنی نے کہا۔
یہ سب قسمت کا کھیل ہے۔ ہم سوچتے کچھ ہیں اور ہو کچھ ہو جاتا ہے۔‘‘
یہ سن کر سروجنی کوغصہ آ گیا۔
’’قسمت کو کیوں کوستی ہو۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔۔۔ ’’ہم جو کچھ چاہتے ہیں یقیناً وہ کر سکتے ہیں لیکن انتظار کرنے کے لیے تھوڑے سے صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ تم دیکھنا میں تو اپنی مرضی کے مطابق ہی شادی کروں گی۔‘‘
یہ سن کر نلنی اداس سی ہو گئی اور بولی۔
’’میں تو ان ہی حالات سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرو ں گی۔‘‘
نلنی اپنے پیا کے گھر چلی گئی اور وہ سب سہیلیاں رخصت ہو گئیں۔
۲
نلنی کے بیاہ کے بعد بھی جب وہ سہیلیاں آپس میں ملیں تو انہوں نے یہی بحث کی کہ شادی ہمیشہ اپنے پسندیدہ انسان ہی سے کرنی چاہئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ نلنی کی طرح ہار نہیں مانیں گی۔ ان سب میں پدماکشی زیادہ سمجھدار تھی، اس لیے وہ کہتی۔
’’نلنی نے حالات کو دیکھتے ہوئے ٹھیک ہی کیا۔ کیا ضروری ہے کہ ہمارے سب خواب پورے ہی ہوں گے۔‘‘
یہ سن کر سروجنی کو غصہ آ گیا۔ وہ چڑکر بولی۔
’’پدماکشی کیسی حماقت کی باتیں کرتی ہے تو۔ ہمارے پاس کس با ت کی کمی ہے۔ ہمار ے پاس دولت اور خوب صورتی سب کچھ تو ہے۔‘‘
سروجنی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے لیلاوتی نے کہا۔
’’اور ہماری اس خوبصورتی اور طاقت کے آگے ہماری یہ خواہش کون سی بڑی بات ہے!‘‘
’’اب طاقت اور خوبصورتی کو کون پوچھتا ہے اس دنیا میں۔۔۔‘‘
پدماکشی نے بڑے طنز کے ساتھ کہا۔ ’’دنیا صرف دولت کو دیکھتی ہے۔ سب پیسے کو چاہتے ہیں۔ جس کے پاس پیسہ ہے اس کے پاس بہت کچھ ہے۔ ہم سے زیادہ خوبصورت اور عقل مند لڑکیاں کنواری بیٹھی ہیں۔‘‘
یہ سن کر سروجنی کو طیش آ گیا۔ اس نے غصہ میں کہا۔
’’ہاں تو خودبہت دولت مند ہے نا۔ اس لیے تجھے دولت پر اتنا ناز ہے۔ بس ہر وقت روپے کا ہی ذکر لے بیٹھتی ہے۔‘‘
’’ہم غریب ہیں تو کیا ہمیں اپنی خواہشوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ ہماری خواہش پوری نہ ہوئیں تو ہم ساری زندگی کنواری ہی رہیں گی۔‘‘
سروجنی کی بات سن کر پدماکشی بچاری چپ ہو گئی۔
سروجنی نے دل ہی دل میں سوچ لیا کہ اگر کسی وکیل نے مجھے پسند نہیں کیا تو میں بھی کسی دوسرے کو پسند نہیں کروں گی۔
کبھی کبھی سروجنی آنکھیں کھولے سپنوں میں کھوجاتی۔ وہ اپنے مثالی شوہرکے خواب دیکھنے لگتی تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ لوگ ہم دونوں کا بےحد ادب کریں گے۔ وکیلوں کے پاس لوگ طرح طرح کے مسائل لے کرآتے ہیں۔ کبھی کبھی جب میرا وکیل شوہر نہیں ہوگا تومیں انہیں اپنے مشورے دیا کروں گی۔ پولیس انسپکٹر میرے شوہر کے آگے سر جھکائیں گے۔ عورتیں انہیں دیکھ کر حسد کریں گی۔ مگر ان تک کوئی نہ جا سکےگا۔ ان کا پیار تو صرف میرے ہی لیے ہوگا۔ سروجنی سوچتی تھی کہ میری شادی ہونے پر میری سہیلیاں بھی میرے آگے سرجھکایا کریں گی۔
ایک سال بیت گیا۔
ان تینوں نے ہائی اسکول پاس کرلیا۔ وہ سب چاہتی تھی کہ کالج میں داخلہ لیں مگرسروجنی اورلیلاوتی کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں تھے کہ کالج کے اخراجات برداشت کیے جاسکتے۔
سروجنی کا باپ ایک معمولی سا کسان تھا جوسخت محنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کو سنبھال رہا تھا۔ اب تو سروجنی کے دو بھائی بھی ہائی اسکول میں پہنچ گئے تھے۔ اس کے باپ میں اب اتنی سکت نہ تھی کہ تین بچوں کی پڑھائی کا بار اٹھا سکے۔
سروجنی کے ماں باپ سوچتے تھے کہ لڑکی میٹرک پاس ہو گئی ہے۔ اب اور پڑھنے سے کیا فائدہ؟ اس کی شادی کر دینی چاہئے۔ مگر سروجنی کے باپ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی خوبصورت بیٹی کا بیاہ بڑی دھوم دھام کے ساتھ کسی وکیل سے کرےگا۔
مگر سروجنی کی ماں کہتی تھی کہ اتنی بڑی بڑی باتیں نہیں سوچنا چاہئے۔ کوئی بھی موزوں لڑکا مل جائے تواس فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔ ماں کی باتیں سن کر سروجنی دل ہی دل میں کڑھنے لگتی تھی اور طے کر لیتی کہ میں تو ہرگز کسی معمولی سے آدمی کو منہ نہ لگاؤں گی۔
پدماکشی کے والد ایک مالدار آدمی تھے وہ اپنی لڑکی کو اعلیٰ تعلیم دلوا سکتے تھے مگر پھر بھی انہوں نے پدماکشی کے لیے لڑکا ڈھونڈنا شروع کر دیا اور بڑی جلدی اس میں انہیں کامیابی بھی ہو گئی۔ انہوں نے ایک خوبصورت انجینئر کا انتخاب کیا اور جب وہ نوجوان پدماکشی کو دیکھنے آیا تو اس کے اچھے برتاؤ سے سب ہی متاثر ہوئے۔
اتفاق سے اسی دن سروجنی اور لیلاوتی بھی پدماکشی سے ملنے آئی تھی۔ ان سب نے بھی پدماکشی کے لیے اس لڑکے کو پسند کیا۔ لیلاوتی کو بھی وہ نوجوان اچھا لگا۔ پھر اس نے سروجنی کی رائے جاننے کے لیے اس سے پوچھا تو وہ کچھ نہ بولی۔
پھر لیلاوتی نے کہا۔۔۔ ’’پدماکشی ایک وکیل کے خواب دیکھتی تھی مگر اسے انجینئر مل گیا۔ وہ کتنی خوش قسمت ہے۔‘‘
’’اس میں کون سی خوش قسمتی کی بات ہے؟‘‘ سروجنی نے چڑکر کہا۔ ’’ہمیں بھی اس سے اچھا شوہر ملےگا۔‘‘
اس کے بعد وہ دونوں پدماکشی کے ہاں سے چلی گئیں۔
گھر جاکر سروجنی نے سوچا کہ پدماکشی کا ہونے والا دولہا چاہے کتنا ہی قابل ہو، بڑا آفیسر ہو۔ مگر صورت شکل میں کتنا معمولی ساہے۔ میرا دولہا تو اس سے بھی اچھا اور خوبصورت ہوگا۔ اس جیسا شوہر میری کسی سہیلی کو نہیں مل سکتا۔
سروجنی رات دن اپنے دولہا کے خوابوں میں کھوئی رہتی تھی۔ کبھی وہ دیکھتی کہ کوئی خوب صورت سا نوجوان اسے بڑی محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اس کی جانب بڑھنے لگتی تووہ اچانک غائب ہو جاتا۔ وہ خواب میں پکار اٹھتی۔ تب ہی اس کی آنکھ کھل جاتی تھی۔ زندگی کی تلخ حقیقتیں اسے چاروں طرف سے گھیر لیتیں۔۔۔ وہ پھر آنکھیں بند کر لیتی اور اس خواب کے پیکر کو ڈھونڈنے لگتی۔ تصورمیں وہ پھر اس کی طرف بڑھے جاتی تھی۔
پدماکشی کا بیاہ بڑی دھوم دھام سے ہوا۔
سسرال جاتے وقت وہ سروجنی کے گھر کے سامنے سے گزری تو سروجنی اپنے دروازے کے سامنے ہی کھڑی تھی۔
پدماکشی اپنے شوہر کے ساتھ ایک مغرور ہنس کی چال چل رہی تھی۔ سروجنی کے لیے یہ منظر ناقابل برداشت تھا۔ پدماکشی سروجنی کے پاس آئی اور جانے کی اجازت لیتے وقت اس نے بھی خواہش کی کہ سروجنی کے خوابوں کا ساتھی اسے جلد مل جائے۔
سروجنی نے صرف ’’ہونھ‘‘ کی اور جب پدماکشی چلی گئی تو اس کی آنکھوں سے آنسو کے دو قطرے ڈھلک پڑے۔
۳
اب سروجنی کا ایک ہی کام تھا۔ ایک خوبصورت نوجوان کے خوابوں میں کھوئے رہنا۔
اسے اپنی خوبصورتی کا بےحد احساس تھا۔ اس لیے کھانا بنانے کا جھنجھٹ اس نے کبھی مول نہیں لیا۔ کھانا تیار ہو جانے پر ہی وہ چولھے کے پاس جاتی تھی۔ دن بھر بناؤ سنگار میں مصروف رہتی۔ نہا دھوکر بندیا لگانے کے لیے آئینہ ہاتھ میں لیتی تو خود ہی اپنے حسن کے احساس سے مغرور ہو جاتی۔ بڑی دیر تک آئینہ دیکھ دیکھ کر جب اس کا جی بھر جاتا تو پلنگ پر لیٹ کرکوئی انگریزی کتاب ہاتھ میں لے لیتی۔ مگر اس کادل کسی اور ہی جانب دوڑے جاتا تھا۔
اس کی پڑوسن کبھی کبھی سروجنی کی ماں سے کہتی۔
’’بیٹی کو کام نہیں سکھاؤں گی تو شادی کے بعد کیا ہوگا!‘‘
’’وہ پڑھی لکھی ہے۔ شادی کے بعد خود ہی سب کچھ سیکھ جائےگی۔‘‘ اس کی ماں جواب دیتی۔ ’’وہ اپنے باپ کی بڑی لاڈلی ہے۔ میں اس سے کام کرواؤں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں‘‘
کچھ مہینے یوں ہی بیت گئے۔ سروجنی کے کئی پیغام آئے۔ ایک پیغام کسی بیمہ کمپنی کے ایجنٹ کا تھا۔ ایک عدالت کے پیش کار کا تھا اور ایک تاجر کا بیٹا تھا۔ سروجنی کے ماں باپ نے ان تینوں پیغاموں کو خوشی خوشی قبول کیا اور بیٹی سے کہا کہ ان تینوں میں سے کسی ایک کو پسند کر لے۔
مگر سروجنی کو ان میں سے کوئی پسند نہیں آیا۔
چند دن بعد اس کے پیغام آنا بند ہو گئے۔ سروجنی نے اپنی ماں سے کہا۔۔۔ ’’ماں، اگر اس طرح کے لوگوں سے میرا بیاہ کروگی تو میں جان دے دوں گی۔‘‘
سروجنی کے گھر کے قریب ایک پرائمری اسکول تھا۔ وہاں ایک نئے ٹیچر کا تقرر ہوا۔ اس کا نام تھا ایم۔ آر۔ موٹم۔ اخباروں میں اس ٹیچر کی نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ آج کل وہ سروجنی کے پڑوس میں آکر رہ رہا تھا۔ جب سروجنی نہا دھوکر جاتی تو وہ سروجنی کو دیکھے جاتا تھا۔ کبھی کبھی سروجنی کی بھی اداس نظر اس پر پڑ جاتی تھی۔
ایک شام موٹم سروجنی کے گھر آیا اور سروجنی کی ماں سے بات کرنے لگا۔ سروجنی بھی اس سے باتیں کرنے لگی۔
اس نے اپنی کچھ نظمیں بھی سنائیں۔ اس کی نظمیں گہرے اور رومانی جذبات کا اظہار تھیں۔ سروجنی نے اس کی بہت تعریف کی۔ اب وہ ٹیچر اکثر اس کے گھر آنے لگا اور رومانی گیتوں کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار کرنے لگا۔ ٹیچر کو محسوس ہوا کہ محبت کی نظموں سے سروجنی بہت متاثر ہوتی تھی۔
رفتہ رفتہ اس ٹیچرنے محبت کے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں۔ اس نے اپنی نظموں میں دکھایا کہ محبت خوبصورتی کا چشمہ ہے۔ وہ آزادی کا دروازہ ہے۔ امن کی پکار ہے۔ خدا کی قدرت کا وسیلہ ہے۔
یہ باتیں سروجنی کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں مگر پھر بھی ان نظموں کو سننے کی اسے خواہش تھی۔
ایک دن سروجنی نے ٹیچر سے پوچھا۔
’’کیا کبھی ان دیکھے آدمی سے بھی محبت ہو جاتی ہے؟‘‘
اس نوجوان نے سروجنی کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’ہاں خدا کی عنایت سے کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔!‘‘
سروجنی نے کہا۔۔۔ ’’ایک آدمی کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوئے بھی اس سے محبت ہو سکتی ہے؟‘‘
’’کیوں نہیں۔۔۔‘‘ ٹیچر نے کہا۔۔۔ ’’یہ بھی ممکن ہے۔ کیونکہ محبت ہی ہمارے دلوں کو روشن کرنے والی آگ ہے۔ وہ خدا کی دین ہے۔‘‘
سروجنی نے گہری محویت سے کہا۔
’’تو مجھے یہ بھی بتاؤ کہ کسی کو دیکھے سنے بغیر محبت کا انجا کیا اچھا ہو سکتا ہے؟‘‘
’’کیوں نہیں‘‘ ٹیچر نے جواب دیا۔ ’’میری ہی مثال موجود ہے۔‘‘
’اچھا۔۔۔؟‘‘ سروجنی نے تعجب کا اظہار کیا۔
’’یعنی آپ نے کسی کو دیکھا نہیں، اس کے بارے میں کچھ سنا نہیں اور پھر بھی اس سے محبت کرتے ہیں اور آپ کی محبت کامیاب ہوئی ہے؟‘‘
ٹیچر بےحد خوش ہو گیا۔
’’ہاں میری محبت ابھی ابھی کامیاب بھی ہو گئی ہے۔۔۔‘‘
’’دیکھنے اور سننے سے پہلے ہی مجھے تم سے محبت ہو گئی تھی اور آج مجھے یقین ہے کہ مجھے کامیابی بھی ہو گئی ہے۔ یہ سب خدا کی مہربانی ہے۔‘‘
یہ سن کر سروجنی کو بےحد غصہ آیا۔ اس نے چلاکر کہا۔
’’بکواس بند کرو۔ مجھے تم سے بالکل محبت نہیں ہے۔‘‘
ٹیچر حیران ہو گیا۔ اس نے بڑی نرمی سے کہا۔
’’سروجنی خدا کی اس دین کی اور اس سچی محبت کی توہین مت کرو۔‘‘
سروجنی نے کہا۔۔۔ ’’میں محبت کی توہین نہیں کر رہی ہوں۔ لیکن میرا آئیڈیل کوئی اور ہے، تم نہیں ہو۔۔۔‘‘
’’وہ کون خوش قسمت ہے؟‘‘ ٹیچر نے پوچھا۔
’’وہ سچ مچ ایک خوش قسمت ہے۔ تعلیم یافتہ ہے۔ نرم مزاج ہے۔ اہم آدمی ہے۔ کہاں وہ اور کہاں تم بچارے۔‘‘
’’بس میں یہی جاننا چاہتا تھا۔‘‘ کھسیانی ہنسی کے ساتھ ٹیچر نے کہا۔
’’مگر نہ تو میں نے اسے دیکھا ہے اورنہ اس کے بارے میں کچھ سنا ہے۔‘‘
سروجنی نے کہا۔
’’تب تمہاری محبت ضرور کامیاب ہوگی۔‘‘ ٹیچر نے قہقہہ مارکے ہنستے ہوئے کہا اور چلا گیا۔ دھیرے دھیرے اس نے سروجنی کے یہاں آنا جانا ختم کر دیا۔
۴
پانچ سال گزر گئے۔
سروجنی اپنے خوب صورت، نازک مزاج اور تعلیم یافتہ محبوب کے خیالی پیکر کو سامنے رکھے بیٹھی رہی۔ وہ اپنے اس تخیلی محبوب کا ہاتھ پکڑے آہستہ آہستہ چلتی رہی۔۔۔ جب وہ کہیں سے واپس آتا تو سروجنی سر جھکائے اس کے سامنے کھڑی ہو جاتی۔
پھر وہ دونوں میٹھی میٹھی باتوں میں کھو جاتے۔۔۔
اس کا شوہر سروجنی کی ساری اداسیوں کو چوم لیتا۔
وہ اس کی بانہوں میں سما جاتی۔۔۔ مگر آنکھیں کھولنے پر زندگی کی تلخ سچائیاں اس کے سامنے آ جاتیں اور اس کا محبوب کہیں دھندلکے میں کھو جاتا تھا۔
مگر آنکھیں بند کرتے ہی وہ پھر اس کے پاس آ جاتا۔
یہ سروجنی کی خیالی دنیا تھی جس میں وہ مست رہتی۔
اب سروجنی کے ماں باپ بھی اس سے نفرت سی کرنے لگے تھے کیونکہ وہ ان کے سینے کا بوجھ بن گئی تھی۔ کنواری لڑکی کووہ بٹھائے رکھیں تو دنیا بھی کیا کہےگی! اس لیے ایک دن اس کی ماں نے سروجنی کے باپ سے کہا۔
’’آخر کب تک اسے رانیوں کی طرح بٹھائے رکھوگے؟ ہمارے پاس تو اسے کھلانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ آپ دونوں کسی جج کا انتظار کر رہے ہیں۔ آخر اس انتظار کی کوئی حد بھی ہے یا نہیں۔۔۔؟ ویسے میری بات آپ نے کبھی مانی ہی نہیں اس لیے میں کچھ نہیں کہوں گی۔‘‘
آخر اس کے ماں باپ بھی ہار گئے۔ اب بھی وقت تھاکہ اس بیمہ ایجنٹ سے اس کی شادی ہو سکتی تھی۔ وہ پیسے والا تھا۔ صحت مند تھا اور دیکھنے میں بھی برا نہیں تھا۔ منیم میں بھی کوئی برائی نہ تھی مگر لڑکی کویہ رشتے پسند نہیں تھے۔
مگر اب توکوئی بھی نہیں آ رہا تھا۔۔۔
ماں باپ کی یہ باتیں سن سن کر سروجنی بھی اداس سی رہنے لگی تھی۔ ہرطرف سے مایوسی نے اسے آ گھیرا تھا۔ اب وہ نئے کپڑوں اور پھولوں، ہر ہر چیز کے لیے ترسنے لگی تھی۔ اس کی ماں اس پر خفا ہوتی رہتی تھی مگر باپ کچھ نہ کہتا۔ صرف خاموش رہتا تھا۔
سروجنی کے گھر کی غریبی بڑھتی جا رہی تھی۔ اب اسے نہانے کے لیے بھی صابن نہیں ملتا تھا۔ کریم پاؤڈر کے بدلے چولہے کا دھواں اس کے گالوں پر جمنے لگا تھا کیونکہ اب ماں اس سے کام لینے لگی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹ چکے تھے۔ کھانا پکانا اسے بالکل پسند نہیں تھا مگر اب جب مجبوراً اسے چولہے کے پاس جانا پڑا تو وہ خود بھی چولہے کی لکڑیوں کے ساتھ جلتی۔ وہ توصرف خیالوں کی دنیا میں رہنے اور خیالی محبوب کے تصور میں ہر وقت غرق رہنا چاہتی تھی۔
کام کرتے کرتے آہستہ آہستہ اسے احساس ہونے لگاکہ زندگی کیوں خواب اور تخیل نہیں ہو سکتی! وہ تو پتھر سے بھی زیادہ سخت تھی۔ اس حقیقت کو سروجنی کی سہیلیوں نے سمجھ لیا تھا۔
تبھی تو اپنے من میں لیے ہوئے خیالی شوہر کی بجائے نلنی نے منیم کو قبول کر لیا تھا اور پدماکشی نے ایک انجینئر سے شادی کر لی۔ البتہ لیلاوتی کے بارے میں سروجنی کو کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ بعض وقت وہ ان پیغاموں کے بارے میں سوچتی جو خود اس کے لیے آئے تھے۔ مگر اب کوئی فائدہ نہ تھا۔ وہ ان سب میں کسی کی بھی بیوی بن جاتی تو وہ اسے خوش رکھتے، پیار کرتے۔ یہ سوچ سوچ کر وہ کبھی کبھی رونے لگتی تھی۔ ماں نے سروجنی سے کہا کہ وہ ہر سوموار کو برت رکھا کرے۔ شاید اسی طرح بھگوان اس کی منزل آسان کر دے۔
اب سروجنی ہر سوموار کو مندر جاکر پوجا کرنے لگی۔ ایک سوموار کو اس نے دیکھا۔۔۔ لیلاوتی ایک نوجوان کے ساتھ آئی ہے۔ ان دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھ کر سروجنی حیران سی ہو گئی۔ لیلاوتی نے سروجنی کا ہاتھ پکڑ کے معافی مانگتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’معاف کرنا۔ دھوم دھام کے بغیر ہی شادی ہو گئی۔ اس لیے تمہیں اپنی شادی کا دعوت نامہ نہیں بھیج سکی۔‘‘ سروجنی نے جواب دینے کی بجائے بڑی محبت سے لیلاوتی کو اپنے پاس کھینچ لیا۔ تھوڑی دیر بعد لیلاوتی چلی گئی۔ جاتے وقت اس نوجوان نے بڑی فتح مندانہ مسکراہٹ کے ساتھ سروجنی کی جانب دیکھا تھا۔
۵
اس کے سارے خوابوں کو کچل کر بےدرووقت زندگی کو آگے کی طرف کھینچ رہا ہے۔
سروجنی اب ۳۲ سال کی ہو گئی تھی۔
ایک دن بڑے غور سے سروجنی نے آئینہ میں اپنی صورت دیکھی اور اپنے آپ کو دیکھ کر وہ چلا پڑی۔۔۔ ’’ہے بھگوان۔۔۔!‘‘
جیسے تیل ختم ہو جانے پر چراغ کی بتی سکڑکر رہ جاتی ہے۔ کچھ ویسی ہی جھریاں سروجنی کے چہرے پر پڑ گئی تھیں۔
رات کو جب سب سو گئے، وہ ایک نوجوان کے خیالوں میں کھوئی سی بیٹھی تھی کہ اس وقت چائے کی دکان والا کونتی اندر آیا۔۔۔ وہ اس گھر میں کسی بھی وقت آ جاتا تھا کیونکہ گھر والوں کو اس پر اعتبار تھا۔
کونتی اکیلاہے۔ اس نے شادی نہیں کی ہے۔ سروجنی نے جب سے ہوش سنبھالا تھا وہ کونتی کو چائے کی دکان پر بیٹھے دیکھ رہی تھی۔ پان کھاتے کھاتے اس کا چہرہ اور بھی بھدا ہو گیا تھا۔ جب کونتی سے پوچھتا کہ اس نے شادی کیوں نہیں کی تو وہ کہتا۔ ’’تم سب شادی کرکے خوش رہو۔ میرے لیے یہی خوشی کی بات ہے۔‘‘
سروجنی کے پاس بیٹھ کر کونتی نے پوچھا۔
’’چراغ کے سامنے بیٹھی کو ن سا خواب دیکھ رہی ہو سروجنی۔۔۔؟‘‘
’’نیند نہیں آتی۔۔۔ اس لیے یوں ہی بیٹھ گئی تھی۔‘‘ سروجنی نے جواب دیا۔۔۔ ’’ماں کو بلا لوں؟‘‘
’’نہیں نہیں۔۔۔‘‘ وہ آنگن میں پیک تھوک کر بولا۔
’’آپ کب تک یوں ہی اکیلی رہیں گی سروجنی۔۔۔؟‘‘
بات کا مطلب سمجھتے ہوئے بھی سروجنی نے لاپروائی سے کہا۔
’’اب اکیلی نہیں بیٹھوں گی۔ بس لیٹنے جا رہی ہوں۔‘‘
اس نے پھر اصرار کیا۔۔۔ ’’اکیلے رہنا اچھا ہے کیا۔۔۔؟‘‘
سروجنی نے کہا۔ ’’تم بھی تو اکیلے رہتے ہو۔۔۔؟‘‘
اس بات سے کونتی کو دکھ ہوا۔ تھوڑی دیر چپ رہ کر اس نے کہا۔ ’’میری بات اور ہے۔‘‘
سروجنی بولی۔ ’’میری بھی بات اور ہے۔ یہ سب قسمت کا کھیل ہے۔‘‘
تھوڑی دیر دونوں چپ رہے۔ سروجنی کی ساری امیدیں اور آرزوئیں آنسوبن کر بہنے لگیں۔ وہ بڑے دکھ سے بولی۔
’’یہ سب میرے لیے قدرت کا کھیل ہے کونتی بھیا۔‘‘
’’ہاں یہ سب قسمت کا کھیل ہے۔‘‘ اس سے آگے کی بات کونتی کے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔
یورپ کی جانب چاندپوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ دونوں اس طرف دیکھنے لگے۔ کونتی نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر الفاظ اس کے منھ میں ہی اٹک گئے۔
’’کیا کہہ رہے تھے۔۔۔‘‘ سروجنی نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’رات کتنی بیت گئی۔۔۔؟‘‘
’’بارہ بج گئے۔۔۔‘‘
’’بارہ بج گئے۔۔۔؟‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘
وہ اٹھا۔۔۔ایک گہری سانس لے کر کچھ کہنے والا تھا۔ مگر کہہ نہ سکا۔
سروجنی نے پوچھا۔۔۔ ’’کیوں۔۔۔؟‘‘
’’کچھ نہیں۔۔۔ جاکر سو جاؤ۔۔۔‘‘
’’میں سونے جاتی ہوں۔ اب آپ جائیے۔‘‘
’’جب تم لیٹ جاؤگی تو میں چلاجاؤں گا۔ رات میں اکیلا بیٹھنا اچھا نہیں ہے۔‘‘
وہ چراغ لے کر کھڑی ہو گئی۔ کونتی نے ایک گہری سانس لی۔
کمرے میں آکر اس نے دروازہ بند کر لیا۔ مگر وہ چراغ تھامے کھڑی رہی۔ گہری خاموشی تھی۔۔۔ عجیب سا ناامیدی کا احساس۔۔۔ اور ناقابل برداشت اکیلاپن۔۔۔ چراغ بجھ گیا۔۔۔
سروجنی نے دروازہ کھولا۔۔۔ کونتی مورتی کی طرح چپ چاپ کھڑا تھا۔ سروجنی نے دھیمے لہجہ میں پوچھا۔
’’ابھی تک گئے نہیں۔۔۔؟‘‘
’’ابھی تک تم نہیں لیٹیں۔۔۔؟‘‘ اس نے پوچھا۔
پھر خاموشی چھا گئی۔
سروجنی نے پھر کہا۔ ’’جانا نہیں ہے کیا۔۔۔؟‘‘
’’لیٹنا نہیں ہے کیا۔۔۔؟‘‘
پھر خاموشی چھا گئی۔
وہ ذرا سا آگے بڑھا۔ دایاں پیر آگے بڑھاکر نیچے کر دیا۔
سروجنی نے کہا۔
’’جانا نہیں ہے کیا۔۔۔؟‘‘
’’اوہوں۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔
’’لیٹنا نہیں ہے کیا۔۔۔؟‘‘
’’اوہوں۔۔۔‘‘ سروجنی نے جواب دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.