مٹی کی خوشبو
گرمی کی دوپہر نے قبرستان کو مزید ویران بنا دیا تھا۔ قبرستان کافی بڑا اور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اکا دکا قبریں پختہ تھیں مگر بیشتر قبریں کچی مٹی کی تھیں۔ بیشتر قبریں دھنس گئی تھیں جنہیں جھاڑیوں نے چھپا لیا تھا۔ قبروں پر اگی ہوئی ہریالی، گرمی میں جھلس گئی تھی جس نے ویرانی میں اضافہ کردیا تھا۔ قبرستان کے چاروں طرف بلند و بالا مکانات کا سلسلہ تھا جہاں لوگ آباد تھے۔ زندوں کی آبادی سے گھرا ہوا مردوں کا شہر خموشاںآباد تھا۔ شہر کے قلب میں واقع یہ قبرستان کافی اہم تھا، اس لئے کہ شہر کے بیشتر لوگ امیر ہوں یا غریب، ڈھائی گز زمین اسی شہر خموشوں میں پاتے تھے۔ قبرستان کے پھاٹک سے متصل ایک مسجد اور چند کمرے بنے ہوئے تھے جو کسی صاحبِ خیر نے بنوائے تھے۔ ایک سیدھے سادے مولوی صاحب وہاں امام تھے اور ان سے بھی زیادہ مفلوک الحال ایک شخص نے بتایا کہ وہ یہاں کے مؤذن تھے۔ اس سے پَرے کوٹھریوں میں گورکن اور ان کے خاندان کے لوگ آباد تھے۔ امام صاحب نے مجھے بتایا کہ قبرستان کے گرد جو بلند و بالا عمارتیں ہیں، وہ سب قبرستان کی زمین پر غصباً بنائی گئی ہیں۔ گویا زندہ لوگوں نے مردوں کی بےبسی کا فائدہ اٹھاکر ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ امام صاحب نے بتایا کہ کچھ لوگوں سے زمین خالی کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے برجستہ جواب دیا تھا کہ ’’زندوں کو رہنے کی جگہ نہیں ہے تو مردوں کے لئے کہاں سے آئےگی‘‘۔ بظاہر بات منطقی تھی مگر انہوں نے یہ نہیں سوچاکہ مرنے کے بعد وہ کہاں جائیں گے۔
میرے ایک عزیز کی موت ہو گئی تھی اور میت اسی قبرستان میں آنی تھی، اس لئے میں وہاں چلا آیا تھا۔ مگر شاید میں جلد آ گیا تھا۔ مرحوم کا آخری سفر بڑی سست رفتاری سے طے ہو رہا تھا اور ابھی تک قبرستان تک نہیں پہنچا تھا۔ میں مسجد کے برآمدے میں کھڑا امام صاحب سے بےمطلب کی باتیں کر رہا تھا اور گرمی سے پریشان تھا۔ سورج شعلے برسا رہا تھا۔ مگر غنیمت یہ تھا کہ ہوا چل رہی تھی، گرم ہی سہی۔
اچانک دو تین کاریں آکر رکیں اور ان کے پیچھے تین چار موٹر سائیکلیں بھی آکر رکیں اور آٹھ دس لوگ مسجد کے برآمدے میں آ گئے۔ ایک کار پر لال بتی لگی ہوئی تھی اور ایک صاحب کے ساتھ ساتھ مسلح گارڈ بھی اندر آ گیا تھا۔ ظاہر ہے وہ کوئی اہم شخص ہی تھے، ورنہ قبرستان میں مسلح گارڈ کے ساتھ آنے کی ضرورت کیا تھی۔ مردوں سے کیسا خوف ؟
سارے لوگ برآمدے میں آکر کھڑے ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک بولا: ’’دو بج گئے، میت کو تو پہنچ جانا چاہئے تھا۔‘‘
دوسرے نوجوان نے لقمہ دیا: ’’میت کیا خود سے چلی آتی۔ لانے والے دیر کر رہے ہیں‘‘۔ کچھ لوگ جواب سن کر مسکرا دیئے۔
’’گرمی کی دوپہر میں تدفین رکھنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ لال بتی والی کار میں آنے والے نے کہا اور رومال سے پسینہ پونچھنے لگا۔
’’ظہر بعد رکھنا ضروری تھا کیا؟ عصر بعد بھی رکھا جا سکتا تھا‘‘۔ دوسرے نے لقمہ دیا۔
’’تدفین میں تاخیر کرنا مناسب نہیں ہوتا‘‘۔ ایک بزرگ نے بڑی متانت سے کہا۔
’’جلدی کا مطلب یہ تو نہیں کہ مردوں کے لئے زندوں کو بھی لو میں مار دیا جائے‘‘۔ لال بتی والی کار پر آنے والے نے کہا۔
’’حجور کو میٹنگ میں بھی جانا ہے‘‘۔ مسلح گارڈ نے حجور کو مطلع کیا۔
’’ہاں! مجھے یاد ہے۔ بس میت آ جائے، لوگوں سے مل لیں، پھر چلیں گے۔ اس نے جواب دیا۔
’’تو کیا مٹی دینے تک نہیں رکیں گے؟‘‘ ان کے ساتھی نے پوچھا۔
’’نہیں، دیر ہو جائےگی۔ اور پھر مٹی دینے نہ دینے سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔ انہوں نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
’’مرحوم میرے رشتہ دار تھے، اس لئے برادری نباہنا ضروری تھا۔ ہم آ گئے، ورنہ اس دوپہر میں آنا ممکن نہیں تھا۔‘‘
’’یہ بات تو ٹھیک ہے۔ لوگوں کو وقت کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔ شام کو تدفین رکھنے میں کیا دقت تھی؟‘‘
ابھی گفتگو ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک ایمبولنس آکر رکی جس میں میت رکھی ہوئی تھی۔ ساتھ میں بیس پچیس لوگ بھی دندناتے ہوئے صحن میں آ گئے جو ایمبولنس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں میں آئے تھے۔ لوگ ایک دوسرے سے علیک سلیک کرنے لگے اور اچانک ماحول بدل سا گیا۔ ایسا لگا جیسے لوگ کسی تقریب میں حصہ لینے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ اسی دوران ایک صاحب بولے :
’’ایمبولنس دھوپ میں کھڑی ہے، جنازہ بھی دھوپ میں ہے۔ یہاں لاکر رکھئے‘‘۔ انہوں نے مسجد کے صحن کی طرف اشاہ کیا۔
’’ارے کوئی ضرورت نہیں۔ جو مرگیا سو مر گیا۔ اب دھوپ اور چھاؤں کے اثر سے وہ آزاد ہو گیا‘‘۔ ایک صاحب نے بہت ہی سنجیدگی سے کہا اور آہستہ سے دوسری طرف چلے گئے۔
’چلئے، جنازہ اندر لے چلئے۔ اب دیر کیا ہے؟‘‘ ایک آواز آئی۔
’’قبر ابھی تیار نہیں ہے‘‘۔ دوسری آواز آئی۔
’’کیوں؟‘‘ ہم نے تو سویرے ہی خبر کر دی تھی۔ یہ گور کن بدمعاش ہو گئے ہیں۔ اپنی من مانی کرتے ہیں‘‘۔ ایک صاحب خفا ہوکر بولے۔
’’بات یہ نہیں ہے۔ ایک ہی گورکن ہے۔ وہ صبح سے تین قبریں کھود چکا ہے۔ یہ چوتھی قبر ہے۔ وہ بھی آدمی ہی تو ہے۔ کیسے کرےگا؟‘‘ مؤذن نے گورکن کی دفاع میں کہا۔
’’تو مزید گورکن رکھنے چاہئیں‘‘۔ تیسرے صاحب نے رائے دی۔
’’روز ایسی ضرورت تو نہیں ہوتی۔ کسی دن ایک بھی میت نہیں آتی اور گورکن بیکار بیٹھے رہتے ہیں بے چارے۔ ان کی روزی روٹی کا بھی تو سوال ہے؟‘‘ امام صاحب نے بحث ختم کرنی چاہی۔
اچانک بھیڑ میں ہلچل ہوئی او رآواز آئی۔ ’’اندر چلئے، قبر تیار ہے‘‘۔
اور پورا مجمع میت کے ساتھ قبرستان میں داخل ہو گیا۔ قبرستان میں نیم کے درخت کے سایے میں قبر تیار تھی۔
دو نوجوان قبر میں اتر گئے تاکہ جسدِ خاکی کو آرام سے اتارا جائے۔ لوگوں نے قبر کو گھیر رکھا تھا۔ پھر ہدایتوں کی بوچھار ہونے لگی۔
’’دیکھئے، داہنے سے اٹھائیے...‘‘۔ ایک آواز آئی۔
’’نہیں نہیں بائیں سے...‘‘۔ دوسری آواز آئی۔
’’سنبھل کے آہستہ سے اٹھائیے۔‘‘
’’میت کو چوٹ نہ لگے۔‘‘
’’ٹھیک سے پکڑیئے‘‘۔
قبر میں کھڑے دونوں نوجوان الجھن میں تھے کہ کس کی سنیں اور کس کی نہ سنیں۔
’’دیکھئے.... منھ پچھم کی طرف کیجئے۔‘‘
’’کفن کا بند کھولئے...‘‘
’’دیکھئے کمر والا بند نہیں کھولنا ہے۔ صرف پیر والا بند کھولنا ہے۔‘‘
دوسرے نے تردید کی... ’’نہیں نہیں، پیر والا نہیں کھولنا ہے، کمر والا کھولنا ہے۔
’’آپ نہیں جانتے.... آپ نہیں جانتے‘‘۔ دو لوگوں میں بحث ہونے لگی۔ آپ شریعت نہیں جانتے ہیں‘‘۔ ایک نے کہا۔
’’آپ نہیں جانتے ہیں۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔ بحث آگے چلتی مگر اس دوران قبر پاٹی جاچکی تھی اور اب مٹی ڈالنے کا وقت آ گیا تھا۔
’’باری باری مٹی ڈالئے اور ہٹ جائیے۔ دوسروں کو موقع دیجئے‘‘۔ اعلان ہوا۔
میرے پاس کھڑے میرے بھتیجے نے مجھ سے پوچھا۔ ’’مٹی ڈالنے میں کیا دعا پڑھتے ہیں؟‘‘
میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔
’’ابھی تم عربی کی دعا یاد نہیں کر سکوگے۔‘‘ دعا کا مفہوم ہے کہ :
’’تمہیں مٹی سے بنایا گیا، تمہیں مٹی کے ہی سپرد کردیا گیا اور روزِ قیامت مٹی سے ہی اٹھائے جاؤگے۔‘‘
تم اردو میں ہی یہ کہہ کر مٹی ڈال دو۔ لوگ جلدی جلدی مٹی ڈال کر ہاتھ یوں جھاڑ رہے تھے جیسے بہت بڑی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے ہوں۔ چند منٹوں میں قبرستان خالی ہو گیا۔ چند قریبی لوگ رہ گئے تھے۔ میں بھی درخت کے نیچے چبوترے پر بیٹھا گورکن اور اس کے کمسن سے بیٹے کو دیکھ رہا تھا جو قبر پر مٹی چڑھا رہا تھا۔ لڑکے نے پیلی ٹی شرٹ اور نیلی جینز پہن رکھی تھی۔ وہ کہیں سے گورکن نظر نہیں آ رہا تھا، اس لئے کہ گورکن کے تصور سے وہ بالکل الگ تھا۔ میں سوچنے لگا کہ زندگی میں ہم اپنے عزیز کو ہوا سے بھی بچاتے ہیں اور مرتے ہی اسے مٹی میں دفن کرکے بھول جاتے ہیں۔
گورکن قبر پر پانی ڈال کر قبر کو ٹھیک کر رہا تھا۔ خشک مٹی پر پانی کی چھینٹ پڑتے ہی ایک عجیب سے سوندھی سوندھی خوشبو ہوا میں پھیلنے لگی۔ اسے ہی ’’عطرِ گل‘‘ کہا گیا ہے۔ مٹی کا عطر، مٹی کی خوشبو۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے سب کچھ مٹی ہی تو ہے۔ یہ قبرستان، یہ زمین، اس پر بسنے والے لوگ اور زیرِ زمیں دفن کئے جانے والے.... سب مٹی ہی تو ہیں۔ گویا مٹی ہی حقیقت ہے اور باقی سب کچھ.... کچھ بھی نہیں.... اچانک میرے کانوں میں دُعاء کا مفہوم گونجنے لگا :
’’ہم نے تمہیں اسی مٹی سے بنایا۔ پھر ہم نے تمہیں اسی مٹی کے سپرد کردیا۔ اور ہم پھر روزِ قیامت تمہیں اسی مٹی سے اٹھائیں گے۔‘‘
میں نے اپنے کان بند کرنے چاہے مگر آواز رک نہیں سکی۔ میں نے خامشی سے ایک مٹھی مٹی اٹھاکر قبر پر ڈال دی اور تیزی سے قبرستان سے باہر آ گیا۔
باہر کی گرد آلود فضا میں تپش تھی مگر میرے جسم کے اندر سے مٹی کی خوشبو آ رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.