Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

موچی

MORE BYاحمد ندیم قاسمی

    چمڑے کے دو ٹکڑے مونج کی موٹی سی رسی سے سلے ہوئے تھے۔ نادر نے مونج کی سیون کو بھگوکر چھرے سے کاٹتے ہوئے کہا، ’’تم کہتے ہو یہ چمڑا کسی بڈھے بھینسے کا ہے اور پہلے ہی قدم پر باجرے کی روٹی کی طرح ادھ بیچ سے دو ہوجائے گا۔ پر پیارے۔۔۔ چمڑے کو ذرا سا بھیگ کر سوکھنے دو۔ پھر دیکھنا یہ کیسے تمہاری گھروالی کی طرح چیاں چیاں بولتا ہے۔‘‘

    پیارے نے ہنستے ہوئے ایک پراناجوتا اٹھایا اور نادر کے پیٹ پر دے مارا، ’’الو کو ان دنوں گھر والیوں کے سوا کوئی بات ہی نہیں سوجھتی۔‘‘

    ’’شادی میں یہی کوئی دس دن باقی ہوں گے۔ کیوں نادرے؟‘‘بابا اللہ بخش نے پوچھا۔

    ’’دس دن چھوڑ دس گھڑیاں باقی ہوں۔‘‘ نادر بولا، ’’پر بابا۔ تمہیں کیا۔ شادی تمہاری تو نہیں۔ میری ہے۔ تمہارے موچی کی۔‘‘

    ’’ہت تیری موچی کی۔‘‘ بابا اللہ بخش نے مصنوعی رعب میں تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا اور پھر بے اختیار ہنسنے لگا۔ نادر نے پیار کے پھینکے ہوئے جوتے کو اپنی گود سے ہٹایاتک نہیں۔ بولا، ’’قصور کے جس سوداگر سے یہ چمڑا خریدا ہے، وہ کہتا تھا کہ اس چمڑے کے تلے کا جوتا پہن کر گھر سے نکلو اور ولایت جاکر واپس گھر آجاؤ۔ تو گھس گھساجاؤ تو ہمارا ذمہ نہیں، پر یہ تلا نہیں گھسے گا۔‘‘

    ’’اس کا مطلب یہ ہوا۔۔۔‘‘ بابا اللہ بخش نے پیارے کو آنکھ مار کر کہا، ’’کہ جس بھینسے کا یہ چمڑا ہے وہ فولاد کا کشتہ کھاتا تھا۔‘‘

    پیار اٹھاہ ٹھاہ ہنسنے لگا اور بابا اللہ بخش ذرا ہنس کر اور بہت سا کھانس کر اٹھا اور دروازے میں جاکر گلی میں تھوک دیا۔ نادر سکڑے ہوئے ہونٹوں میں پھوٹتی ہوئی مسکراہٹ سمیٹے مونج کی سیون کاٹتا رہا۔ ایک ٹکڑے کو الگ کرکے اسے سامنے کے صاف ستھرے چوکور پتھر پر اس زور سے بجایا کہ بابا اللہ بخش ’’ہت تیری کی‘‘ کہہ کر رہ گیا اور باہر منڈیروں پر بیٹھی ہوئی چڑیوں پر جیسے بندوق چل گئی۔ لمحہ بھر کے لیے کچھ ایسا سناٹا چھاگیا جیسے چمڑا نہیں بجاتھا، گولہ چھوٹا تھا۔

    ’’بالکل گولا سا چھوٹا۔‘‘بابا اللہ بخش نے ہتھیلیوں میں تمباکو ملتے ہوئے کہا۔

    ’’کیوں بھئی گولے بھی چھوٹیں گے؟‘‘پیارے نے نادر سے پوچھا۔

    اور نادر نے چمڑے کے ٹکڑے پر بھیگی دھجی پھیرتے ہوئے کہا، ’’گولے نہیں چھوٹیں گے تو کیا بین ہوں گے! میری شادی ہو رہی ہے کوئی تمہارے باپ کا جنازہ تونہیں اٹھ رہا۔‘‘

    پیارے نے دوسرا جوتا اٹھاکر نادر کے پیٹ پر دے مارا۔

    بابا اللہ بخش اب کے سنجیدہ ہوگیا، ’’جب سے آیا ہوں بک بکائے جارہے ہیں، جیسے جوانی سارے جگ میں بس انہی دو پر ٹوٹ پڑی ہے۔ ہنسی مذاق میں کسی کے مرنے کی بات نہیں کرتے۔ فرشہ سن لیتا ہے۔‘‘

    ’’ہم دونوں یار ہیں بابا۔‘‘ پیارا بولا، ’’ہمارا مذاق چلتا ہے۔‘‘

    ’’ضرور چھوٹیں گے گولے۔‘‘ نادر جو زبان پر آئی ہوئی بات اب تک منھ میں سنبھالے بیٹھا تھا، بول اٹھا۔ ’’جمعہ کہہ رہا تھا کہ اب کے لاہور سے بڑے بڑے نئے ڈیزائن کی آتش بازی سیکھ کر آیا ہے۔ کہتا ہے پہلے ایک چنگاری چمکتی ہے، پھر ایک دم ایسا لگتا ہے جیسے آدھی رات کو سورج کودنے لگا۔ چنگاریوں کا چھاجو مینہ برس پڑتا ہے۔ کہتا ہے آتش بازی بجھنے سے پہلے چنگاریاں آپس میں جڑ کر آگوں آگ پری بن جاتی ہیں اور جب یہ پری قہقہہ مار کر ہنستی ہے تو آتش بازی بجھ جاتی ہے۔‘‘

    ’’لاہور، لاہور ہی ہے۔‘‘پیارے نے داد دی۔

    اب تک کسی نے کونے میں دبکے ہوئے نور دادا کو نہیں دیکھا تھا۔ دراصل وہ ذرا سا اونگھ گیا تھا۔ نسواڑ کی ڈبیا میں سے تین انگلیوں کی چٹکی بھر کر وہ نسوار کو پوپلے منھ کے دور دراز کے کونوں کھدروں میں چھڑک آیا اور بولا، ’’اے نادرے چپلی کا ودّھر مرمت کرکے دینا ہے تو دے۔ جب سے آیا ہوں آتش بازیاں چھوڑ رہا ہے گدھا۔‘‘

    ’’دادا۔‘‘ نادرے نے بڑی متانت سے پوچھا، ’’یہ بتا ایمان ایمان سے کہ جب تیری شادی ہوئی تھی تو کیا تونے اپنا جنازہ پڑھا تھا؟‘‘

    ’’جنازہ پڑھوں تیری ماں کا۔‘‘نور دادا کڑکا، ’’ہم نے تو وہ لڈی ناچی تھی کہ ڈھولکیے نے ہاتھ جوڑ دیے تھے اور کہا تھا بس مالکو۔ مجھے بخش دو، تم تو نہیں تھکے پر میرا ڈھول بجنے کی جگہ چھینکنے لگا ہے۔‘‘

    ’’دادا۔۔۔‘‘ پیارے نے نتھنوں اور مونچھوں میں سے تمباکو کا گاڑھا دھواں نکال کر چلم کو نادر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’سنا ہے تیرے سر پر جو سونے کا سہرا بندھا تھامانگے کا، تو اس کی دوپتریاں توڑ کر تونے ٹیبک میں اڑس لی تھیں۔‘‘

    نادر اور پیارا اندھا دھند ہنسنے لگے اور جب ہنس چکے تو نوردادا نے بڑی ہی متانت سے بڑے ہی نرم لہجے میں کہا، ’’برخوردار و! تم دونوں نادرے سے لے کر پیارے تک، ایک سے لے کر سوتک، بڑی ہی ولایتی قسم کے حرام زادے ہو۔‘‘

    ایک بار پھر گولہ چھوٹنے کے بعد کی سی خاموشی چھا گئی کیونکہ نادر تو خیرموچی ہونے کی وجہ سے گالی پی گیامگر پیارا موچی نہ تھا۔ وہ نور داد کی طرح گاؤں کے سب سے بڑے راجہ خاندان کا بھی فرد نہیں تھا مگر وہ بابا اللہ بخش کی طرح کسان تھا اور وہ گالی مفت میں نہیں کھا سکتا تھا۔ دے کر کھانے کی اور بات ہے۔

    بابا اللہ بخش نے سہرے کی پتریوں کی چوری کے ذکرپر منھ پرہاتھ رکھ لیا تھا اور صرف گٹکنے پر اکتفا کی تھی۔ اس لیے نور دادا کے ہلے سے بچ گیا تھا مگر پیارے کے بگڑتے ہوئے تیور دیکھ کر اپنی بزرگی کے مدنظر اس نے صورتِ حال کو سنبھالنا اپنا فرض سمجھا۔ بولا، ‘‘ دیکھ دادا۔ تو راجہ ہے تو اپنے گھر میں راجہ ہے۔ راجہ شیر خاں اگر تیرا کوئی دور نزدیک کا بھانجا بھتیجا ہے تو ہوا کرے۔ اس پر موچی لڑکے سے سارے گاؤں کو بڑا پیار ہے اورتیرا بھی تو پرانا خدمت گار ہے۔ آٹھ دس دن میں اس لڑکے کی شادی ہے۔ اس عمر میں تو شادی کے خیال ہی سے ایسا ہوجاتا ہے جیسے کوئی گدگدائے جارہا ہے۔ سواگر لڑکے چہک رہے ہیں تو چہکنے دے۔ میں بھی تو تیری عمر کے لگ بھگ کا ہوں دادا۔ مجھ سے بھی تو یہ چہلیں کر رہے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے۔ یہ ہمارے بچے ہیں اور نادرا موچی ہے تو کیا ہوا؟ یہ بڑی چھوٹی بات ہے کہ جو تمہیں جوتا گانٹھ کردے، اس سے یہ بھی کہو کہ اب جوتا چاٹو بھی۔ زمانہ بڑا بدل گیا ہے دادا۔ بڑے بڑوں کی عزتیں ٹکے سیر بک رہی ہیں۔ گالی نہ دیا کر۔‘‘

    نوردادا نے نسوار بھر العاب یہاں سے وہاں تک تھوک کر کہا، ’’میں موچی کی دکان پر آیا ہوں۔ مسجدمیں نہیں آیا۔‘‘

    بابا اللہ بخش نے جیسے بالکل بے بس ہوکر کہا، ’’یہ تم راجوں کے دماغ خدا جانے ہمیشہ آسمان پر کیوں رہتے ہیں۔ چاہے گھر میں پھوٹا کٹورا بھی نہ ہو۔‘‘

    نوردادا بولا، ’’لڑائی کی بات کرنی ہے تو اپنے بیٹوں کو میرے بیٹوں کے پاس بھیج دے۔ دو دو ہاتھ ہوجائیں تو تیری بھی تسلی ہوجائے گی۔‘‘

    بات بڑھ گئی تھی، اس لیے سنجیدگی بھی بڑھ رہی تھی۔ نادر نے بجلی کی سی تیزی سے نور دادا کی چپلی اٹھائی اور آن کی آن میں ودّھر مرمت کردیا۔

    اور جب نوردادا چلا گیا تو نادر بولا، ’’میں تو سمجھا کہ اگر اب ودّھر نہیں گانٹھتا تو نور دادا مار ڈالے گا۔ اور شادی سے پہلے بس منگنی کرکے مرجانا تو ایسا ہی ہے جیسے پیاسا شربت بھرے کٹورے کو باہر سے چاٹ کر چلتا بنے۔‘‘

    ’’اس کی بات چھوڑ۔‘‘بابا اللہ بخش بولا، ’’جب سے راجہ شیرخاں سے ڈپٹی کمشنر ملنے آیا ہے، سب راجوں کے دماغوں کو کچھ ہوگیا ہے۔ چاہے ہل چلاتے چلاتے ایڑیوں میں چپہ چپہ بھر دراڑیں پڑگئی ہوں۔ یہ بتا۔ اب تک کچھ سامان بھی تیار کیا ہے کہ اپنے آپ کو ہی تیار کر رہا ہے؟‘‘

    بجھا ہوا پیاراپھر سے چمک اٹھا، ’’بیوی سے ادھار کرلے گا۔ کہہ دے گا پہلے شادی کرلے، پھر زیوروں کا بھی دیکھ لیا جائے گا۔‘‘

    ’’زیور تو بنے رکھے ہیں۔‘‘ نادر بالکل بچہ سا نظر آنے لگا، ’’اماں پر کیسے کیسے برے وقت پڑے، پر مجال ہے جو ایک چھلا بھی بیچا ہو۔ کہتی ہے شادی کے ایک سال بعد جو زیور اتارا ہے تو یہ کہہ کر اتارا ہے کہ اب بہو ہی پہنے گی۔ بیٹا برسوں بعد ملا، پربہو کا کنگن چوڑا پہلے سے تیار رکھا تھا۔ زیورہے تو سب گلٹ کا۔ پر گلٹ بھی تو دھوپ میں چمک ہی جاتا ہے اور کنگن تو چاندی کے ہیں۔ میں نے ایک دن پہنے تھے۔ میرے پہنچوں پر بھی کھلے تھے۔ اماں کہتی ہے تیری منگیتر بڑے ہڈ کاٹھ والی ہے۔ اسے پورے آجائیں گے۔ پر پیارے سوچتا ہوں اگر اس کے پہنچے ہی یہ یہ ہوئے تو بازو کتنے ہوں گے! وہ تو مجھے مارے گی۔‘‘

    پیارا ہنسنے لگا۔

    ’’بیوی بے چاری کیا مارے گی۔‘‘بابا اللہ بخش بولا، ’’ویسے نادرے زیور تو ہوگیا، پر کپڑے کاکیا کیا؟ ان دنوں کپڑا تو کنجوس کا پیسہ ہو رہا ہے کہ ملا ملا نہ ملا نہ ملا۔‘‘

    نادر کے چہرے پر بہت سی اکٹھی رونق آگئی۔ ’’وہ تو بابا چھ سات سال سے جو آپ مالکوں کی خدمت کر رہا ہوں تو کچھ نہ کچھ ہوتا ہوا تاہی رہا۔ ایسے ایسے رنگ رنگیلے کپڑے رکھے ہیں کہ جی چاہتا ہے، سب گھنگھریاں لگی لنگوٹیں بناڈالوں اور ساری دنیا سے کبڈی کھیلتا پھروں۔ عام کپڑا چھونے سے میلا ہوتا ہے، وہ دیکھے سے میلے ہوئے جارہے ہیں۔‘‘

    نادر ذرا سا رک گیا، پھر کچھ اداس سا ہوکر بولا، ’’بس ایک مصیبت مارے ڈال رہی ہے۔ اب جب ہم نے کوڑی کوڑی لگادی ہے اور ادھر پیارے کے باپ سے سوروپیہ قرض بھی لے چکے ہیں تو لڑکی والوں نے کہلا بھیجا ہے کہ دولہا کے کپڑے بھی تمہی بنواکے لاؤ۔ پر کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے کہ تم لائے ہو۔ لاؤ اور ہمیں دے دو۔ ہم نکاح کے بعد ان کپڑوں کو اپنا کہہ کر دولھا کو پہنائیں گے۔‘‘

    ’’انکار کردو۔‘‘ پیارے نے مشورہ دیا۔

    ’’انکار تو کریں یار پر وہ کہتے ہیں کہ انکار کرنا ہے تو وہیں گھر میں بیٹھے رہو، برات نہ لانا۔ برات لاؤگے توگاؤں بھر کے کتے چھوڑدیں گے۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘ بابا اللہ بخش نے پوچھا۔

    ’’پھر کیا بابا۔‘‘ نادر نے بھیگی ہوئی دھجی کو مٹھی میں مسلتے ہوئے کہا، ’’پیسہ پیسہ جمع کیا تا کہ ذرا گولے وولے چلائیں ولائیں گے۔ پر ان سے ایک ریشمی لنگی۔۔۔‘‘

    ’’ریشمی لنگی؟‘‘ بابا اللہ بخش نے ڈانٹنے کے انداز میں پوچھا۔

    ’’نواب نادر علی کی شادی ہے نا بابا۔‘‘پیارے نے طنز کیا۔

    ’’نہیں یار۔‘‘ نادر بولا، ’’یہ بات نہیں۔ لڑکی والے کہتے ہیں کہ کپڑے بڑھیا ہونے چاہیے۔ کہتے ہیں کپڑوں کے ساتھ جوتا بھی ہو اور جوتا زری کا ہو۔ نوک سے ایڑی تک زری سے لپا تھپا ہوا ہو۔ اندر تلے پر بھی زری کی بیلیں ہوں اور آج کل تم جانتے ہو، ایسا لگتا ہے کہ زری زمین پرنہیں بنتی، سورج سے لانی پڑتی ہے۔ قسم خدا کی، یہ جو چمڑہ کاٹا ہے تو زری لپا جوتا ہی تو بنانے چلا ہوں۔ انہوں نے کہلا بھیجا ہے کہ کپڑے جوتے ایسے ویسے ہوئے تو برات کو خالی ڈولی چلتا کردیں گے۔‘‘

    ’’بڑے بدذات ہیں۔‘‘بابا اللہ بخش بولا۔

    ’’آخر کمینے ہیں۔‘‘پیارے نے فقرہ کسا۔

    اور نادر بالکل مرجھا سا گیا۔ ’’ایسا نہ کہو پیارے۔ کمین تو میں بھی ہوں پر قسم خدا کی، خدا جھوٹ نہ بلوائے، کمینہ نہیں ہوں۔ سب کمین کمینے نہیں ہوتے پیارے۔ پھول گھورے پر بھی اُگ آتے ہیں۔‘‘

    پھر وہی گولہ چھوٹنے کے بعد کا سناٹا چھاگیا۔

    نادر نچلے ہونٹ کے ایک گوشے کو اپنے دانتوں سے جیسے چبانے لگا۔ بابا اللہ بخش اور پیارا زمین کو گھورنے لگے اور نادر نے سامنے رکھے ہوئے چمڑے کے بھیگے ہوئے ٹکڑے پر نظریں جمادیں۔ اس وقت تینوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ گلی میں سے ایک روتا ہوا بچہ ایک ہنستے ہوئے بچے کے پیچھے بھاگتا ہوا اور گالیاں دیتا ہوا گزر گیا۔ نادر کی بوڑھی ماں سر پر گھڑا رکھے دکان کے دروازے کے سامنے سے ہانپتی ہوئی گزری اور پھر ایک لمحے کو صحن کے دروازے میں سے دکھائی دی۔ چڑیوں کا غول ایک پل کے لیے منڈیروں پر اترا اور ذرا دیر کو دھماچوکڑی مچاکر کہیں غائب ہوگیا۔

    نادر اس تکلیف دہ سناٹے کو توڑنے کے لیے مٹی کے ایک برتن کو کھسکا کر اس میں سے تمباکو نکالنے لگا کہ اچانک پیارا بولا، ’’نہیں یار تو رہنے دے، میرے پاس بھی تمباکو ہے۔ تیرا تو آج کل ایک ایک پیسہ سو سو روپے کا ہے۔‘‘

    جلدی سے چلم کو تمباکو سے بھر کر پیارے نے ایک دوکش لگائے اور حقہ بابا اللہ بخش کو تھمادیا۔ اس نے یوں پھیکا سا کش لگایا جیسے رسم ادا کر رہا ہے۔ پھر دونوں اٹھے اور ’’اچھا بھئی نادرے‘‘ کہہ کر کچھ اس تیزی سے باہر نکلے جیسے ذرا سا رکے تو کوئی واردات ہوجائے گی۔

    نادر ایک لمحے تک دروازے میں سے باہر گلی میں دیکھتا رہا۔ پھر اس نے پانی میں انگلیوں کی پوریں ڈبوئیں اور ان کو جھٹک کر چمڑے کے ٹکڑے پر پھوار سی برسادی۔ پھر اس پر دھجی دوڑائی اور بسم اللہ الرحمن کہہ کر تلے کی حد بندی کرنے لگا۔

    ’’بسم اللہ کردی۔‘‘ ماں نے صحن والے دروازے میں سے پوچھا۔

    ’’کردی اماں۔‘‘وہ بڑے بے جان انداز میں بولا۔

    ماں اس کے لہجے سے چونک کر اندر آگئی اور دونوں ہاتھوں کو اس کے دونوں گالوں پر رکھ کر اس کے چہرے کو اوپر اٹھایا۔ نادرے کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں اور وہ ضبط کرنے کی کوشش میں نچلے ہونٹ کا ایک گوشہ چبائے جارہا تھا۔

    ’’تھپڑ ماروں گی۔‘‘ماں نے ایک ہاتھ تان کر کہا، ’’اتنی گزرگئی۔ اب ذرا سی باقی ہے تو آنسو نکلے پڑ رہے ہیں۔ یہ جوتا جلدی سے تیار کرلو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔ خدا کی ذات بڑی بے پروا ہے بیٹے، پر اتنی بے پروا بھی نہیں کہ اپنے موچی کی شادی عزت سے نہ ہونے دے۔ دیکھ لینا۔ روؤمت بیٹے، آنسوؤں میں بینائی جاتی ہے اور زری کے مہین تار کے کرتب دکھانے والوں کی بینائی جارہے تو بھیک بھی نہیں دیتا۔ کہتے ہیں اندھا نہیں ہے اندھا بنتا ہے۔ مفت کی ٹھونس ٹھونس کر اَپھر گیا ہے سنا؟ رومت۔‘‘ اور جب نادر نے ماں کی طرف دیکھا تو وہ آنسوؤں سے اپنی ساری جھریاں چمکائے بیٹھی تھی۔ پھر وہ جیسے گھبراکر اٹھی اور صحن میں چلی گئی۔

    زری کا یہ جوتا تیار کرنے میں نادر نے دن رات ایک کردیے۔ صبح سے لے کر شام تک ’’پنّا‘‘لیے روشنی کا تعاقب کرتا رہتا اور جہاں بھی ذرا زیادہ چمک دکھائی دیتی، بیٹھ جاتا اور پتلے کاغذ ایسے چمڑے پر زری چڑھانے میں یوں ڈوب سا جاتا، جیسے زمین سے سل کر رہ گیا ہے۔ سوئی کی سی باریک آرچرچر کرتی چمڑے میں گھستی۔ نیچے سے اس کا سرا اوپر آتا اور زری کے تار کو نیچے لے جاتا پھر آر اور دھاگے کی سوئی آپس میں الجھ کر ہٹ جاتی اور یوں زری کے باریک بخئیے کی ایک منزل طے ہوتی۔ راتوں کو وہ کڑوے تیل کے چراغ کے پاس گھس کر بیٹھ جاتا اور جب آدھی رات کو کمہاروں کاگدھا پہلی بار رینکتا تو ماں منھ پر سے لحاف ہٹاکر کہتی، ’’اب سوجاؤ بیٹے۔ آدھی رات گزرگئی۔ گدھا بولا ہے۔‘‘

    اور نادر ماں کو باتوں میں لگا لیتا، ’’ماں یہ گدھے ٹھیک آدھی ہی رات کو کیوں بولتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے جیسے راجہ شیر خاں کے بیٹے کی طرح ان کے پاس بھی گھڑیاں ہیں کہ وقت دیکھا اور رینکنے لگے۔‘‘

    ’’شریر کہیں کا۔‘‘ ماں کہتی۔ وہ بہل جاتی یا اپنے آپ کو بہلالیتی۔ بہرحال وہ کروٹ بدل لیتی لیکن نادر کو بار بار ٹوک کر اس بات کا ثبوت پیش کرتی رہتی کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ پھر جب پہلا مرغ بانگ دیتا تو وہ کہتی، ’’بیٹے آج کل رمضان شریف ہوتا تو اس وقت میں سحری کے لیے اٹھ بیٹھتی۔ اب سوجاؤ۔ اب نہیں سوؤ تو دن کو کون آکر زری چڑھائے گا بھولے بادشاہ۔‘‘ پھر وہ سوجاتا اور صبح ہوتے ہی پھر وہی چکر شروع ہوجاتا۔

    اور جس روز جوتا مکمل ہوگیا اور نادر نے اس میں لکڑی کے کالبوت ٹھونس کر اسے دھوپ میں رکھا تو بڑھیا دیوار سے لگی بیٹھی چنگیر میں مہندی کی پتیاں ڈالے تنکے چن رہی تھی۔ جوتے کو دیکھا تو بلبلا اٹھی، ’’انہیں میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹالو بیٹے۔‘‘وہ چلائی۔

    نادر لپک کر دروازے میں آگیااور منھ پھاڑے دم بخود کھڑا ہوگیا۔

    ’’ہٹالو بیٹا۔‘‘وہ بولتی گئی، ’’نہیں ہٹاؤگے تو میری پتلیاں تڑاخ سے ٹوٹ جائیں گے۔ اتنی عمر ہوگئی، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو زری کے سو دو سو جوتے اپنے ہاتھوں سے گزار چکی ہوں، پر قسم کھلوا لو جو ایسی چمک کسی دوسرے جوتے کی زری میں دیکھی ہو۔ ایسا لگتا ہے سورج دو ٹکڑوں میں بٹ کر کھڑکی میں ا تر آیا ہے۔ زری چمکتی ہے، کرنیں نہیں چھوڑتی، پر یہ زری تو کرنیں چھوڑ رہی ہے۔ یہاں مجھ تک آرہی ہیں کرنیں۔ یہ تونے کیا کیابیٹے؟ اتنی سی عمر میں ایسا ہنر تو بڑے سے بڑے موچی سے بھی تمہارے ہاتھ چموالے۔‘‘ پھر وہ بھاگی بھاگی آئی۔ دونوں جوتے دونوں ہاتھوں سے اٹھائے اور انہیں ایک ایک بار چوم کر وہیں رکھ دیا۔ پھر اس نے نادر کے ہاتھ چوم لیے اور بولی، ’’آخر میرے حلالی بیٹے ہونا۔‘‘

    ’’پر اماں۔۔۔‘‘ نادر بولا، ’’اب دیکھو کیا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’ہوتا کیا ہے۔۔۔‘‘بڑھیا یوں بولی جیسے بیٹے کامذاق اڑا رہی ہے، ’’پرسوں برات کا تماشہ دیکھنے والوں کی نظریں بندھ کر رہ جائیں گی۔ تمہارے پاؤں سے چمڑا تو کہیں سے دکھائی نہیں دیتا۔ لگتا ہے جوتا خالص سونے کا ہے۔ موچی نے نہیں بنایا سنار نے سانچے میں اتارا ہے۔ انصاف کی بات ہے۔‘‘

    ’’دعا کرو اماں۔‘‘ نادر پھر اسی لہجے میں بولا۔

    ’’پگلا۔‘‘بڑھیا نے اس کا ہاتھ پیار سے جھٹک دیااور دیوار کے پاس جاکر مہندی کی پتیوں پر جھک گئی۔

    اس روز دن ڈھلے جب نادر نے جوتوں سے کالبوت نکالے تو بڑھیا بولی، ’’اب ذرا سا پہن کے تو دکھاؤ۔‘‘

    جوتا پہننے سے پہلے نادر پر کچھ عجیب ڈراؤنی کیفیت طاری ہوگئی، پھر اس نے جوتا پہنا تو بڑھیا بولی، ’’دشمن زیر، سجن ڈھیر، کاٹتا تو نہیں۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’تو پھر ٹھیک ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک تو ہے پر۔۔۔‘‘

    اور پھر نادر چنگیر میں جوتا رکھے اور جوتے پر ریشمی رومال پھیلائے گھر سے نکلا تو بڑھیا نے دروازے پر سے کہا، ’’فی امان اللہ۔‘‘

    نادر رک گیا اور پلٹ کر بولا، ’’اماں، اگر وہ نہ مانا، پھر؟‘‘

    ’’پھرکیا؟‘‘بڑھیا بولی، ’’تو کیا اب اللہ اپنے موچی کی شادی بھی نہیں ہونے دے گا؟‘‘

    ایک گلی میں سے گزرا تو ادھر سے پیارا کندھے پر ہل رکھے، ایک نہایت منھ زور بیل کی رسی پکڑے بیل کے پیچھے گھسٹتا ہوا اڑا آرہا تھا۔ وہ اس کے پاس سے تیزی سے گزرتے ہوئے بولا، ’’مجھے پرسوں کی تاریخ یاد ہے نادرے۔ میں کل آؤں گا تمہارے پاس۔ کوئی کام وام ہو تو بتانا۔ اچھا۔‘‘

    ’’جیو پیارے۔‘‘ نادر بولا۔

    ’’اور یہ کیا اٹھائے لیے جارہے ہو؟‘‘اس نے بہت آگے جاکر پوچھا اور پھر تیزی سے دوسری گلی میں جاکر مڑگیا۔

    اگلی گلی کے نکڑ پر بابا اللہ بخش ایک مجمع لگائے بیٹھا تھا، ’’یہ کیا اٹھائے لیے جارہے ہو نادرے؟‘‘ اس نے نادر کے چپکے سے کھسک جانے کے ارادے پر خاک ڈال دی، ’’کہاں چلے؟‘‘

    ’’بس یہیں تک بابا۔‘‘ نادر نے گول مول جواب دے کر بات ٹالنی چاہی۔

    ’’یہ کیا اٹھارکھاہے؟‘‘بابا نے پوچھا۔

    ’’جوتا۔‘‘ نادر سچ بول دیا اور پھر گھبراکر جانے لگا۔

    ’’وہی جوتا؟‘‘بابا اللہ بخش نے آواز دی۔

    ’’ہاں بابا۔‘‘ نادر تیز تیز چلنے لگا، جیسے بابا اللہ بخش اس سے جوتا چھیننے آرہا ہے۔

    ’’شادی والا؟‘‘ بابا کی آواز بلند ہوگئی۔

    نادر دور نکل آیا تھا، اس لیے کچھ نہیں بولا۔

    ’’ارے کوئی کام وام ہو تو بتانا۔‘‘بابا پوری شدت سے پکارا۔

    نادر چوپال کی طرف مڑگیا۔

    اور بابا اللہ بخش نے ایک موچی چھوکرے کے ہاتھوں بھرے مجمعے میں اپنی بھد ہوتے دیکھ کر ساری بات کو قہقہوں میں اڑانے کی ٹھانی وہ بولا، ’’شادی سے کچھ دن پہلے آدمی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے۔ شادی کے وقت اصلی گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور شادی کے بعد خود گھوڑا بن جاتا ہے۔‘‘ لوگ بے تحاشا ہنسنے لگے۔

    نادر جب چوپال پر پہنچا تو راجہ شیر خاں پلنگ پر کچھ یوں پھیل کر لیٹا ہوا تھا کہ اگر دوسرا پلنگ بھی ساتھ لگادیا جاتا تو یہ پھیلاؤ اس کا بھی احاطہ کرلیتا۔ آس پاس لوگوں کا ہجوم تھا اور بات نئے تھانیدار کی خطرناک دیانت داری کی ہو رہی تھی۔ نور دادا کہہ رہاتھا، ’’قتل کو بالکل ننگا کرکے رکھ دیتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ قتل بھی کوئی کھولنے کی چیز ہے۔ پھر یہ تھانیدار تو یہ بھی نہیں دیکھتا کہ قاتل کس خاندان سے ہے اور کہیں اس کی دس بیس مربع زمین تو نہیں۔ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکتا ہے۔ تھانے کا خدا ہے۔‘‘

    ’’اس کا مطلب تو یہ ہوا۔۔۔‘‘راجہ شیر خاں بولا، ’’کہ دشمن چاہے تمہارے سامنے ڈنڈ پیلتا پھرے، تم اسے ٹھکانے نہیں لگاسکتے۔ ٹھکانے لگاؤگے تو خود ٹھکانے لگ جاؤگے۔ چاہے تمہارے پاس سرکاری خدمات کی کتنی ہی سندیں کیوں نہ ہوں۔ اب کے بڑے کپتان کو آنے دو۔ میں اس کے کان میں یہ بات ڈال دوں گا کہ تھانے دار بے شک اپنا فرض بجالائے، پر یہ تو دیکھ لے کر ملزم خاندانی آدمی ہے کہ کمین ہے۔‘‘

    اچانک راجہ شیرخاں کی نظریں نادر پر پڑیں لیکن وہ ڈھکی ہوئی چنگیر سے چونکا نہیں۔ راجہ شیر خاں کے ہاں نیا جوتا جب بھی سل کر آیا، اسی ڈھب سے آیا۔

    ’’لے آئے بھئی موچی۔‘‘اس نے پوچھا۔

    ’’جی۔‘‘ نادر بولا۔

    ’’لارکھ دے۔ پہنا۔‘‘راجہ شیرخاں نے اپنے پھیلاؤ کو سمیٹا۔

    ’’ایک عرض ہے۔‘‘ نادر نے ہولے سے کہا اور اس کا چہرہ زرد پڑگیا۔

    ’’بول۔‘‘راجہ بولا۔

    ’’ادھر مالک ذرا ایک طرف بات کرنی ہے۔‘‘ نادر کے چہرے کی زردی کی نیلاہٹ نمودار ہونے لگی۔

    ’’اچھا!‘‘راجہ شیرخاں زری کے پرانے جوتے کی ایڑیوں کو اپنی ایڑیوں سے روند کر انہیں سلیپر کی طرح گھسیٹتاہوا چوپال کی کوٹھری کی طرف جانے لگا، ’’تم بھی پردے میں بات کرنے کی عمر کو آپہنچے؟‘‘ اس نے نادر سے پوچھا اور پھر پلٹ کر داد طلب نگاہوں سے مجمعے پر نگاہ ڈالی۔ لوگ یہاں سے وہاں تک مسکرانے لگے۔

    ’’اس کی شادی ہے ناکل پرسوں۔‘‘ نور دادا بولا، ’’اسی لیے نخرہ بڑھ گیا۔‘‘

    نادر کے سر پر جیسے نور دادا نے پیچھے سے دھول جڑدی اور دہلیز پر سے ٹھوکر کھاکر کوٹھری کے ا ندر لڑکھڑاکر جاپہنچا۔

    اس نے چنگیر پر سے رومال ہٹادیا اور جوتے کو یوں ہولے سے دوانگلیوں کی پوروں میں اٹھاکر مونڈھے پر بیٹھے ہوئے راجہ شیر خاں کے سامنے لے گیا جیسے ذرا سا جھٹکا لگا تو جوتا کرچی کرچی ہوجائے گا۔

    ’’واہ!‘‘راجہ شیر خاں تڑپ اٹھا، ’’دیکھنے میں تو تحفہ ہے۔ بڑا باریک کام کیا ہے تو نے موچی۔ بالکل مشین کا کام لگتا ہے، جیسے سونے کی پتری ٹھپا لگاکر چڑھادی ہے۔ واہ اب پہنا بھی تو۔‘‘

    نادر نے راجا کو جوتا پہنایا۔ راجہ اٹھ کر چند قدم ادھر ادھر چلا اور مونڈھے پر بیٹھ گیا، ’’اچھا ہے بھئی موچی۔ بہت اچھا ہے۔ بہت پسند آیا۔‘‘

    ’’راجہ جی۔‘‘ نادر نے سمٹ کر، بالکل ذرا سا ہوکر کہا۔

    ’’کہو۔‘‘

    ’’پرسوں میری شادی ہے۔‘‘وہ بولا۔

    ’’وہ تو ابھی ابھی نور دادا نے جو بتایا ہے۔‘‘

    ’’میں نے راجہ جی آپ کی بڑی خدمت کی ہے۔‘‘ نادر جیسے حتی المقدور اپنے مقصد کو ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا۔

    ’’پھر؟‘‘

    ’’میرے باپ نے تو آپ کے اور بڑے راجہ جی کے قدموں میں عمرگزاردی۔‘‘ نادر نے کہا۔

    ’’ہاں اچھا مِٹا ہوا کمین تھا۔‘‘ راجہ نے کہا۔

    ’’بات یہ ہے جی۔۔۔‘‘ نادر رک رک کر بولنے لگا، ’’میں نے زیور کپڑا، سب کچھ تیار کرلیا۔ آج کتنے برسوں سے میں اور میری ماں محنت کر رہے ہیں۔ کوڑی کوڑی کرکے جو کچھ جمع کیا وہ لگ گیا۔‘‘

    ’’لگ گیا ہوگا۔ پہلے روپیہ بچتا تھا۔ اب لگتا ہے۔‘‘راجہ شیر خاں بولا۔

    ’’اب جی۔۔۔‘‘نادر کی آواز سرگوشی کی حدتک گرگئی، ’’لڑکی والے کہتے ہیں کہ دولھا کے کپڑے بھی ہمیں تیار کرائیں اور کسی کو پتہ ہی نہ چلے کہ ہم نے تیار کرائے ہیں۔‘‘

    ’’کمین لوگ لڑکی دینے لگیں تو ایسی ہی کمینی باتیں کر تے ہیں۔‘‘راجہ شیر خاں نے افلاطونیت چھانٹی۔

    ’’وہ کہتے ہیں۔۔۔‘‘ نادر بولا، ’’کپڑے ایسے ویسے بھی نہ ہوں۔ بہت اچھے ہوں اور جوتا بھی ہوزری کا۔‘‘

    ’’زری کا جوتا؟‘‘راجہ نے پوچھا۔

    ’’جی۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’پھر جی۔۔۔‘‘نادر نے راجہ شیر خاں کے چہرے پر سے نظریں ہٹالیں اور اس کے نئے جوتے پر گاڑدیں، ’’پھر جی اگر آپ کا یہ جوتا ایک دن کے لیے مل جائے تو ناک رہ جائے میرے گھر کی۔‘‘

    ’’وہ؟‘‘ راجہ شیر خاں نے پرانے جوتے کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’جی یہ۔‘‘ نادر نے نئے جوتے کی نوک چھولی۔

    ’’یعنی تم میرا یہ نیا جوتا پہنوگے؟‘‘راجہ گرجتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور پھر دروازے پرجاکر جیسے ہجوم کے سامنے تقریر کرنے لگا، ’’یہ موچی چھوکرا میرا جوتا اپنے پاؤں میں پہننا چاہتا ہے یارو۔ کہتاہے میری شادی ہو رہی ہے، ذرا سا پہن لینے دو کہ ٹھاٹھ رہ جائے۔ بدذات۔‘‘

    ہجوم پر گولہ چھوٹنے کے بعد کا سناٹا چھاگیا۔

    راجہ شیر خاں اپنے پلنگ کی طرف جانے لگا اور نادر کوٹھری کے دروازے میں سے نکل کر دیوار کے ساتھ جیسے جم گیا۔ راجہ بولتا چلا گیا، ’’میرا جوتا میرے پاؤں اور ان کمینوں کے سروں کے لیے ہوتا ہے۔‘‘ وہ پلنگ پر جاکر پھیل گیا، ’’جی چاہتا ہے اسی جوتے سے چمڑی ادھیڑ ڈالوں اس کی۔ کتا، کمینہ۔‘‘ پھر اس نے مڑ کر نادر کی طرف دیکھا اور کڑکا، ’’ادھر مر۔‘‘

    نادر آہستہ آہستہ چلتا ہوا پلنگ کے پاس آگیا۔

    ’’پھر ایسا حوصلہ کیا تو چرواکے ڈال دوں گا۔‘‘راجہ نے گھڑکا۔

    ذرا سے وقفے کے بعد نادر بولا، ’’قصور ہوگیا مالک۔‘‘

    ’’چل ہٹ یہاں سے۔‘‘راجہ گرجا۔

    نادر بولا، ’’اگر اس جوتے کے دام مل جاتے تو میں جلدی جلدی سے اپنے جوتے کا کوئی انتظام۔۔۔‘‘

    ’’دام؟‘‘راجہ شیر خاں کی آواز گونجنے لگی، ’’یعنی نقد دام مانگتا ہے؟ آج تک راجہ شیر خاں سے کسی نے نقد دام مانگے ہیں جو تو مانگنے چلا ہے۔ غضب خدا کا۔ دو پیسے کاجوتے گانٹھنے والا اور ساٹھ روپے کا جوتا پہنے بغیر ناک کٹی جارہی ہے۔ چل دفع ہو یہاں سے۔ منشی جی۔ لکھ لو۔ اگلی فصل پر اس موچی کو پندرہ بیس روپے کی گندم تلوادینا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے