موہ
میں جب اپنے دوستوں کو یہ واقعہ سناتا ہوں توان میں سے اکثر اس کے اصل حصے پر یقین ہی نہیں کرتے۔ اس بات پر اعتبار کرنے کو تو وہ دل سے راضی ہوتے ہیں کہ اس کا برتاؤ ویساہی رہا ہوگا جیسا میں بیان کرتا ہوں لیکن اس پر انہیں قطعی یقین نہیں آتا کہ میرا برتاؤ بھی میرے بیان کے مطابق رہا ہوگا۔ دبی زبان سے سنائے ہوئے اس قسم قصوں کوسننے کے لئے جس تجسس کی ضرورت ہوتی ہے، اتنے ہی تجسس کے ساتھ اس شام کی واردات سن لینے کے بعد وہ گردن ترچھی کرکے کچھ ایسی خباثت اپنے چہرے پر لے آتے ہیں کہ مجھے ان کے دلی مقصد کے بارے میں کوئی شبہ ہی نہیں رہ جاتا۔
میرے بعض دوستوں کو میری کہانی ناقابل یقین تو نہیں لگتی لیکن میرا اس دن کا برتاؤ انتہائی احمقانہ لگتا ہے اس بات پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہ میری جگہ وہ خود نہیں تھے، وہ مجھے کہتے ہیں، ’’ارے زندگی میں کبھی نہ حاصل ہونے والا ایسا سنہرا موقع تم نے کھو دیا۔ کیا آدمی ہو تم بھی!‘‘
عورتوں کے حد سے گذر جانے کے قصے میں نے بہت سن رکھے تھے لیکن اس دن سے پہلے اس قسم کے برتاؤ کا مشاہدہ کرنے کا موقع مجھے کبھی نہیں ملا تھا۔ دوستوں کے حلقے میں بیٹھ کر اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہوئے آوارگی جتانے میں ہم بھی کچھ کم نہیں۔ اس طرح کا سکہ جمانے کا ہوگا مجھے بھی ہے۔ اسی لئے کچھ دوست مجھے ڈھونگی تو کچھ بیوقوف کہتے ہیں اور سچ تویہ ہے کہ اول درجے کے گناہ کے سلسلے میں میرے خون ہی میں پرہیز اور خوف سمایا ہوا ہے۔ بچپن ہی سے میں نے کچھ شریف لوگوں کی آنکھیں دیکھی ہیں، کچھ اچھی کتابیں پڑھی ہیں اور ان کی تعلیمات کو یکسر بھلا دینا میرے لئے اب تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
اس شام میں نے جو کچھ کہا اور جو کچھ نہیں کر سکا، اس کے لئے اکثر مجھے دلی بےچینی کا احساس ہوتا ہے۔ مجھے پتا ہے کہ عقلی بحث کرنے والا کوئی پروفیسر یا مدیر مجھ جیسا برتاؤ ہرگز نہ کرتا لیکن انٹر سائنس پاس کرکے میں نے ماہم میں ایک چھوٹا سا دھندا شروع کیا اور اس دن سے عقلیت پسندی سے میرا ناطہ ہی ٹوٹ گیا۔ گناہ کا موہ سامنے آتے ہی تحفظ پسندی کے تحت فوراً وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے کی میری عادت تب سے اور بھی پکی ہو گئی۔ سارے پروفیسر اور ادیبوں کو یاد کرکے میں جب گناہ کی دہلیز پر ٹھٹکتا ڈگمگاتا اور گناہ کا پکا ارادہ کرکے واپس لوٹتا ہوں، تب تک وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ ایک دم اچانک الٹی سیدھی پینگیں لینے والے کا دل پنڈولم تھم چکا ہوتا ہے۔ پہلے تو میں خود موہ سے گھبراکر دور بھاگتا ہوں، پھر موہ خود مجھ سے اکتاکر دور بھاگ جاتا ہے۔
آج تک میں اسی طرح محفوظ رہ پایا ہوں۔ اس دن بھی یہی ہوا۔
انٹر سائنس تک تو میں اور وسو ہم جماعت رہے ہی تھی۔ اپنے اپنے میدان میں ابتدائی کاروباری جدوجہد کے دوران ہم سائیگی ودوستی کے فرائض کی ادائیگی میں بھی باہم ایک دوسرے کو دلاسہ دینے کا عہد بھی ہم ایک عرصے سے نبھا رہے تھے۔ پھر وسو کا دواخانہ ماہم میں نہ چل سکا اور گانو دیوی منتقل ہو گیا البتہ میرا’’اچارلمیٹیڈ‘‘ کا کارخانہ ماہم میں چل نکلا۔ تب سے اس کی اور میری ملاقاتوں اور گپ شپ میں کھنڈت پڑنے لگی۔ ماہم میں وسو کی ناکامی کے بعد اس کے گانو دیوی منتقل ہونے سے قبل ہفتے میں کم از کم ایک بار ملاقات کامعاہدہ ہم نے کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو طرفین نے اس معاہدے کی پابندی کی پھر فتح یابی کے لئے تیرہویں پٹن کو میرے کارخانے کے خاص اچار مہیا کرنے کا کنٹریکٹ مجھے ملا اور میرے لئے دم لینے کی فرصت نکالنا محال ہو گئی۔ اب مجھے بھرپور پیسے ملنے لگے، لیکن باہر کی دنیا سے میرا سمبندھ گویا ٹوٹ ہی گیا اور میں ’’اچارلمیٹڈ‘‘ میں پوری طرح رم گیا۔
معاہدہ توڑنے پر گالیاں دینے کے لئے وسو چند ہفتے میرے ہاں پابندی سے آتا رہا پھر اس کا آنا بھی رفتہ رفتہ بند ہو گیا۔ مجھے لگا اس کا دھندا بھی اب چل نکلا ہوگا اور کافی مہینوں بعد وہ ایک دن مجھے بس میں ملا۔ اس وقت اس نے بتایا کہ اس کی ڈاکٹری خوب چل رہی ہے۔ دھندے کی لکیر پر میری زندگی کی گاڑی سیدھی جارہی تھی۔ سپر ٹیکس بچانے کے لئے اپنے اچاروں کے اشتہارات پر میں خوب پیسہ خرچ کیا کرتا تھا۔ غالبا میری کامیابی کی اس شہرت کے نتیجے میں میرے وجود کا نوٹس تک نہ لینے والے میرے بہت سے پڑے دوست اب میرے آفس پر میرے ساتھ گپ شپ کرنے کے لئے آنے لگے۔
ان میں سے کوئی بے غرض خدمت خلق کے نظریے کے تحت چلائے جانے والے کالج کے پروفیسر تھے، تو کوئی فلموں کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے، تو کوئی کسی نہ بکنے والے ہفتہ وار کے مدیر تھے۔ ان میں سے ہر ایک کو سو پچاس روپوں کا قرض اور اچار کا نمونہ دینے میں میں نے ذرا بھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا تھا۔ اس کے عوض وہ مجھے میری تعریف کرکے اور نت نئی دلکش ورنگین باتیں مجھے سنایا کرتے اور کافی دیر تک میرا دل بہلانے کے بعد پرامید انداز میں مجھ سے شادی یا گناہ کرنے پر اصرار کرنے لگتے۔
میں گپ ہانکنے میں ان سے پیچھے بھی نہیں تھا۔ اپنے خیالی عشق کی گرما گرم داستانیں سناکر میں بھی انہیں ایک دم ٹھنڈا کر دیا کرتا تھا۔ گناہ کے لئے میرے من میں بھی موہ تو تھا اور میں نے سن رکھا تھا کہ پیسے سے دنیا میں ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔ پھر بھی پیسے کمائے جائیں اور زیادہ سے زیادہ پیسے کماکر ان سے مزید کیریاں، کروندے ٹماٹر اور امرود خریدے جائیں، اس سے پرے پیسوں کا استعمال میں نہیں جانتا تھا میں اور عورتوں ان دونوں کا اچار سے قریبی تعلق ہونے کے باوجود اچار کے مہیا کر لینے پر میرا کسی بھی عورت سے کسی قسم کا گٹھ جوڑ نہیں ہوا تھا۔ اپنے کاروبار میں سب سے آگے تھا مگر صنف نازک سے متعلق نازک نفسیات کے میدان میں میں ایک دم پھسڈی تھا۔ محض گپ بازی اور خیال آرائی سے جذباتی بھوک مٹاتے مٹاتے میں بھی تنگ آ گیا تھا مگر اس کا کوئی علاج نہ تھا۔
اس قسم کے دھندے کرنے کے لئے اپنا پھیلتا ہوا کاروبار ترک کرنا میرے لئے ممکن نہ تھا اور میرا کاروبار ہی ڈوب جائے تو پھر میرے لئے دوسری باتیں بھی ناممکن ہو جائیں گی، یہ مجھے معلوم تھا کہ یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے میں اپنی حالت سے ناخوش تھا لیکن اکثر اس بات پر مجھے افسوس ضرور ہوتا تھا کہ میری کوئی سماجی زندگی نہیں تھی۔ آج بھی مجھے ملنے والی بےحد حساب دولت، اپنی جکڑبندیوں اور یکسانیت کی شکارزندگی اورمرتبانوں کے کارخانے کی شروعات کے بارے میں بڑی بے دلی ہی سے سوچ رہا تھا کہ اتنے میں مہینوں بعد وسو کا فوری فون آیا۔
’’کیا کر رہے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’تلملا رہا ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’بس اتنا ہی؟‘‘
’’نہیں! مرتبانوں کے کارخانے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’دیکھوفی الحال اچار اور سوچ بچار دونوں کے مرتبان بند کر دو۔‘‘
’’اور کیا کروں؟‘‘
’’آج شام کو میرے ہاں کھانے پر آؤ۔‘‘
’’شام کو؟ لیکن شام کو میرے ہاں۔۔۔‘‘
’’قطعی آنا ہے۔‘‘ میرا آخری لفظ ادا ہونے سے پہلے ہی وہ بول پڑا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’طے!‘‘
جنگ عظیم کے بعداپنے اچار زیادہ سے زیادہ مقدار میں ہندوستانیوں کے گلے سے اتارنے کے لئے چلائی گئی مہم کے ایک حصے کے طور پر مجھے ناناچوک اور کھوٹے فٹ پاتھ کے پاس اشتہار لگانے کے لئے دو دیواریں دیکھنا تھیں۔ ان کا معائنہ کرکے میں ہاروے روڈ پر اتر پڑا اور وسو کے گھر پر لگی اس کے نام کی تختی پڑھتے ہوئے میں نے کال بیل کے بٹن پر اپنی انگلی دبا دی۔ ایک منٹ تک میں گھنٹی بجاتا رہا تب ہمیں دروازے کے پیچھے سے دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی اور دروازہ کھلنے کے بجائے اس پرلگی جالی کے پیچھے کی چکتی سرکائی گئی اور جالی میں سے دوآنکھیں مجھے گھورنے لگیں۔
’’وہ آنکھیں وسوکی نہیں تھیں اور نہ ہی بھابھی کی تھیں وسو کی آنکھیں کرنجی ہیں۔ جالی کے پیچھے سے میرے کسی زمانے میں نہایت تروتازہ لگنے والے چہرے پر مرکوز ہو جانے والی وہ آنکھیں کاجل سی کالی تھیں وہ آنکھیں ضرورت سے زیادہ دیرتک مجھ پر ٹکی رہیں۔ مجھے لگا کہ ان آنکھوں سے وہی بے جھجک جذبات جھلک رہے ہیں جوکسی کی لاعلمی میں اسے دیکھنے والے کی آنکھوں میں تیرنے لگتے ہوں گے۔ کسی کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آئے اور صرف آنکھیں گھورتی دکھائی دیں اور وہ آنکھیں بھی کسی انجان عورت کی ہیں اس کا یقین دل کو ہو جائے تو آدمی کو بڑا عجیب سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ کاجل کی ان اتھاہ جھیلوں پر میری نگاہیں بھی کچھ دیر کے لئے ٹکی ر ہیں اور پھر اندر سے چوڑیوں کی کھنک اور بولٹ سرکانے کی آواز کے ساتھ دروازہ کھول دیا گیا۔ میرے سامنے نہائی ہوئی اور اپنے بالوں کو سفید براق کپڑے میں لپیٹے ہوئے ایک نوجوان عورت کھڑی تھی اور مجھ سے کہہ رہی تھی، ’’میں غسل خانے میں تھی، اس لئے دروازے کھولنے میں کچھ دیر لگ گئی۔‘‘
موتیا کے رنگ کی کہیں کہیں بھیگی ہوئی پانچ گزی ساڑی، غسل کے بعد زیادہ ہی نکھری ہوئی جلد، گلاب کے گچھے پر بیٹھے ہوئے بھونروں کی سی سیاہ آنکھیں اور ویسے ہی بالوں کا، سفید کپڑے میں جوں توں کرکے چھایاہوا بھرپور خزانہ۔ میری آنکھوں نے بڑی تیزی سے اپنا فرض ادا کیا۔ میرے مشام کو کسی عمدہ صابن کی خوشبو نے متاثر کیا اور میرے دل نے مجھ سے کہا، ’’اس لڑکی کو اس سے قبل میں نے وسو کے ہاں کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’اندر آئیے نا۔۔۔‘‘ وہ مجھ سے کہہ رہی تھی۔
’’وسو کہاں ہے؟‘‘ میں نے قدرے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’کھار گئے ہیں۔ ان کے ایک دوست حادثے کا شکار ہو گئے ہیں۔ میاں بیوی دونوں ہی گئے ہیں۔‘‘
’’یعنی گھر میں کوئی نہیں؟‘‘
’’میں جوہوں۔ مجھے کیوں کوئی میں شمار نہیں کرتے آپ؟‘‘
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر کوئی خاص تاثر یا جھجک نہیں تھی جب میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بات کروں تو میں سامنے آئینے کی طرف دیکھنے لگا میں یقیناً کسی ’’اچارلمیٹڈ‘‘ سے متعلق آدمی جیسا نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے دوبارہ اس کی طرف دیکھا، مجھ پر ٹکی ہوئی نظریں جلدی سے ہٹاتی ہوئی مجھے نظر آئی۔ اس کی بدلی ہوئی نظروں میں بھی مجھے ایک غیرمعمولی روشنی دکھائی دی۔ اپنے لہجے کو ممکنہ حد تک کاروباری اور چہرے کو ممکنہ حد تک پتھریلا بناتے ہوئے میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے، میں چلتا ہوں۔‘‘
’’چائے پئے بناہی؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’اپنے لئے چھوڑا ہوا پیغام بھی نہیں پڑھیں گے۔ آپ کے لئے وشواس راؤ نے ایک خط لکھ چھوڑا ہے۔‘‘
’’دیکھیں۔‘‘
وہ تیزی سے نکل کر اندر چلی گئی اس کے جوان اعضا انتہائی صحت مندتھے پھر بھی اس کی چال ڈھال ایک لپکتی ہوئی ہرنی کی طرح چنچل تھی۔
’’میں نے چائے چڑھا دی ہے۔‘‘ میرے ہاتھ میں چٹھی دیتے ہوئے وہ چڑانے والے انداز میں بولی۔
جلدی میں لکھی ہوئی وسوکی چٹھی میں میر ے سامنے کھڑی جوان لڑکی کا ذکر محض ’’بیوی کی مہمان‘‘ کے طور پر کیا گیا تھا اور کھار کے اپنے دوست کا ٹیلی فون نمبر درج کرکے ناگہانی طور پر ملاقات نہ ہو سکنے پر افسوس ظاہر کیا گیا تھا اور پھر تاکید کرتے ہوئے اس نے لکھا تھا کہ میں بغیر کسی جھجک کے گھر پر اس کا تھوڑی دیر انتظار کر لوں، میں بڑی آہستگی سے اس چٹھی کی آڑی ترچھی تہیں کرنے میں لگا ہوا تھا کہ اس لڑکی نے شیشے کی ایک چھوٹی سی میز پر چائے کی دو پیالیاں لاکے رکھ دیں اور کرسی کھینچ کر خود بھی میرے سامنے بیٹھ گئی۔
’’آپ آئیں تو آپ کا ٹھیک سے سواگت کرنے کی تاکید کی تھی ڈاکٹر صاحب نے اور آپ ہیں کہ پرائے پن کے ساتھ جھجک رہے ہیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔‘‘ میں نے جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔
اسی لمحے میزکے نیچے اس کے پیر میرے پیروں کو چھونے لگے اور اس سے پہلے کہ میں سنبھل کربیٹھ جاؤں، چائے کی پیالی میرے سیدھے ہاتھ سے پھسل کر الٹے ہاتھ پر اوندھی گر پڑی۔ میری سمجھ میں سارا حادثہ آنے سے قبل اس نے ’’اوئی ماں، ہاتھ جل گیا‘‘ کہہ کر کرسی چھوڑ دی اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر وہ اسے رومال سے پونچھنے لگی۔
میرے ذہن پر بیک وقت اندھیرا اور اجالا چھا گیا اور میرا دل بیک وقت خبردار اور بےخبر ہوتا گیا۔ اس کے چہرے پر اب بھی کوئی خاص تبدیلی دکھائی نہیں دی لیکن اس کی آنکھوں کی چمک بےانتہا بڑھ چکی تھی اور اس کے ہاتھ کی گرفت بڑھتی جانے والی گرفت کا مطلب بہت صاف تھا۔ اس گرفت کو ہٹانے کی ایک کمزور سی خواہش میرے دل میں تھی، لیکن اس گرفت کو ایک دم سے دور کرنا میرے بس میں نہیں تھا۔ کانپتے ہوئے لہجے میں میں نے کہا، ’’وسو کو فون کرکے دیکھتا ہوں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ ہونٹ کو دانتوں سے دباکر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ بولی اور میں نے اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
نمبر ڈائل کرکے میں نے رسیور کو کان سے لگایا اور وسو کیا کہتا ہے یہ سننے کے بہانے سے وہ مجھ سے بالکل لگ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کے بدن کی خوشبو میری ناک میں پہنچ رہی تھی اور اس کی سانسیں کسی پرکی طرح میرے گالوں کو چھو رہی تھیں۔
’’ہیلو، ہیلو، وسو۔۔۔‘‘ میں ہانپتا ہوابولا۔
اب وہ مجھ سے اور بھی چمٹ کر کھڑی ہو گئی تھی اور اس کاچہرہ میرے چہرے سے اور بھی قریب ہو گیا تھا۔
’’سنو باپو، No thing very serious لیکن آج کی رات ہم دونوں یہیں۔۔۔ وسو کی آواز قدرے دھیمی پڑ گئی اور اس نے کسی سے دریافت کیا، ’’تو پھر طے ہو گیا نا؟‘‘ اور میری چھاتی کی دھپ دھپ کے درمیان اس نے کہا، ’’آج کی رات یہیں رہنا لازم ہے۔‘‘
میں نے رسیور نیچے رکھ کر گردن اٹھائی۔ اتنے میں خوشبوار نم ریشم کی دھاریں ماتھے پر بکھر گئیں۔ اس کی ایک بےچین حرکت کے نتیجے میں اس کے بال کھل گئے تھے اور بھرے ہوئے پستول کے سے لہجے میں وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی، ’’آج رات کو وہ دونوں بھی نہیں آئیں گے یہاں؟‘‘
وہ اب تک مجھ سے لگ کر کھڑی تھی۔ میرے سارے بدن سے شعلے پھوٹ رہے تھے، جسم لرزنے لگا تھا۔ وہ لمحہ انتہائی موہ کا تھا اس کا مجھے احساس ہو چکاتھا۔ میرے دوست کی بیوی کی مہمان سارے حدود توڑکر مجھے بھرما رہی تھی، کالج میں ایک ساتھ کھینچی ہوئی ہم دونوں کی تصویر سامنے کی دیوار پر سے میری مدہوشی کا نظارہ کر رہی تھی۔ جس لمحے مجھے احساس ہوا کہ میرا موہ اپنی چوٹی کو پہنچ چکا ہے، اسی لمحے گناہوں سے دور بھاگنے والی میری تحفظ پسندی جاگ اٹھی اور اسے بانہوں میں لینے کے لئے پھیلائے ہوئے ہاتھوں ہی سے اسے دور دھکیل کرمیں دروازے تک پہنچ گیا۔
لیکن بجلی کی سی سرعت سے وہ مجھ سے پہلے دروازے تک پہنچ چکی تھی اوردروازے کی چوکھٹ پر ہاتھ رکھ کرعجیب ڈھنگ سے چمکنے والی آنکھوں کے ساتھ مجھ سے کہہ رہی تھی، ’’آپ کھانا کھائے بنا ہی چلے جائیں گے؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’بادل گھر آئے ہیں، راستے میں بھیگ جائیں گے۔‘‘
’’مجھے جانا ہی ہوگا۔‘‘
’’یہاں مجھے بڑا اکیلاپن محسوس ہوگا۔‘‘
’’لیکن مجھے جانا ہی ہوگا۔‘‘
میری قوت سے پرے کوئی کٹھورتا کے ساتھ میں بول رہا تھا۔ یہ سب کہتے ہوئے میری جان تک ہانپ رہی تھی۔ دروازے کی چوکھٹ پرسے ہاتھ ہٹائے بغیر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ دو چار لمحے میری طرف یوں ہی دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں شعلے آخری مرتبہ لپکے، اس کے نازک نتھنے ہلکے سے کپکپائے اور پھر اس کی نظریں سرد ہو گئیں۔ ملول انداز میں اس کا ہاتھ چوکھٹ پرسے نیچے سرکا اور ایک لفظ کہے بغیر اس نے دروازے کے بولٹ پر انگلی دباتے ہوئے اسے نیچے کھینچ لیا۔
اس حسین عمارت کی ایک مخصوص کھڑکی سے آنے والی روشنی کی طرف دیکھتا ہوا میں نیچے راستے پر بت بناکر کھڑا تھا۔ آسمان میں بادل امڈ آئے تھے، ٹھنڈی ٹھنڈی تیز ہوائیں چلنے لگی تھیں پھر بھی میرا بدن جل رہا تھا۔ میں نے جو کچھ کہا۔۔۔ اس ک اردعمل میرے دل پر شروع ہو چکا تھا۔ اس کے صحت مند بھرے بھرے جسم کی کھڑکی کے پردے پر ابھرتی اور پھسلتی ہوئی پرچھائیں مجھے رہ رہ کر نظر آ رہی تھی۔ اندھیرا بڑھ رہاتھا۔ شام اب رات میں ڈھل رہی تھی اور راستے کی بتیاں مزید روشن ہوتی جا رہی تھیں۔ اس کی پرچھائیں کی چند اور حرکات میں نے پردے پر دیکھیں اور میرے بےقابو من نے بالکل مخالف سمت میں پینگ لی۔ تیر کی طرح میں دوبارہ اس عمارت میں گھس گیا۔ جوش کے ساتھ دو منزلے طے کئے اور کال بیل بٹن پر انگلی دبائے رہا۔
اس نے دوبارہ دروازہ کھولا اور ذراسی بھی حیرت یا خوشی کا اظہار کے بغیر سنگریزے کی نظروں سے گردن اٹھاکر میری طرف دیکھا۔ اس نظر سے میں محجوب سا ہو گیا اور جھجکے ہوئے بولا، ’’Sorry to disturb you لیکن مجھے لگتاہے میں اپنا رومال یہاں بھول گیا ہوں۔‘‘
میرا رومال تلاش کرنے کے لئے اس نے اندر کو دوڑ نہیں لگائی۔ وہ رومال مجھے واپس کرنے کے بہانے میرے ہاتھوں کو چھو لینے کا موہ اسے نہیں ہوا۔ یہ تو لمحات کے کھیل ہوتے ہیں۔ اس کے من نے بھی ایک دم الٹی پینگ لے لی تھی اطمینان کے ساتھ وہ دروازے میں سے ایک طرف کوہٹی اور میز پر پڑے چرمرائے ہوئے رومال کی طرف اس نے انگلی سے اشارہ کر دیا۔ میں بلا وجہ ہی اس کمرے میں منٹ بھر کے لئے رکا ہوا تھا اور وہ پتھر کے مجسمے کی طرح مجھ سے دور کھڑی رہی۔
روما ل تہہ کرکے جیب میں رکھنے کے بہانے سے میں کچھ دیر اور رک گیا اور اس کی پیشانی پر بل پڑنے لگے، اس کا چہرہ دیکھتے ہی صرف پانچ منٹ قبل ایک دم تنے ہوئے میرے اعضا بالکل ٹھنڈے پڑگئے اور مجھے پسینہ چھوٹنے لگا۔ نیزے سے حملہ کئے جانے پر پسپا ہو جانے والے وحشی جانور کی طرح پیچھے ہٹتے ہوئے میں نے دروازے تک پہنچ کر اسے کھولا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔ میرے حلق میں کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا اور میری پشت پر گویا آنکھیں اگ آئی تھیں۔ میرے پہلا زینہ اترنے تک وہ اسی طرح بےحس و حرکت کھڑی تھی۔ پھر وہ تیزی سے دروازے تک آئی اور دانت سے ہونٹ کاٹتے ہوئے اس نے دھڑسے دروازہ بند کر دیا۔
میرے موہ کی اور میری حماقت کی ببانگ دہل اعلان کرانے والی اس کی صدائے بازگشت نہ جانے کتنی دیرتک میرے کانوں میں گونجتی رہی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.