مولوی قاسم بہت مصروف ہے
مجھے کئی دن سے اتنی فرصت بھی میسر نہیں ہے کہ میری اپنے آپ سے ایک ادھوری ملاقات ہو جائے۔ مکمل ملاقات کا امکان تو عرصہ ہوا معدوم ہو چکا۔ میں نے اپنی مصروفیات کچھ اس طرح ترتیب دے رکھی ہیں کہ مہینے میں ایک دن کُھل کے رو لینے کے لیے نکال لیتا ہوں لیکن گزشتہ ماہ ایسا زندگی کی بھیڑ میں گم ہوا کہ رونے کے لمحات ہاتھ سے نکل گئے۔ میں نے سوچا چلو اگلے مہینے اپنا معمول پورا کر لوں گا۔
لیکن دوسرے مہینے بھی زندگی کی مصروفیات نے الجھائے رکھا۔
رونے کا عمل ترک ہونے سے ایسا لگا جیسے زندگی نے کوئی ٹکڑا کاٹ کے وجود کو اپاہج کر دیا ہے۔ اپاہج زندگی گزارنا آسان کام ہے کیا۔۔۔؟ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے موجودہ نسل مکمل اپاہج ہو چکی ہے۔ وقت کے گھومتے پہیے نے انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہر انسان بےسمت گھوم رہا ہے۔ وہ رات میں جب اپنے بستر پر آ کے گرتا ہے تو اسے یاد آتا ہے یہ تو وہی بستر ہے جسے صبح دم اس نے چھوڑا تھا۔ انسان بہت مصروف ہے۔ وہ سوچتا ہے اور بھاگتا ہے۔ فاصلہ ہی کتنا ہے، قبر تک ہی تو جانا ہے وہ پھر بھی برق رفتار ہے اسے اپنی ذات کے لیے بھی ایک لمحہ میسر نہیں۔ وہ اپنے ساتھ ایک مکمل دن گزارنے کی خواہش تو رکھتا ہے لیکن دن تو کیا اسے ایک ساعت بھی نصیب نہیں۔ ایسے میں وہ اپنی تھکن اتارنے کو کسی روز اکیلے بیٹھ کے جی بھر کے رونا چاہتا ہے۔
مجھے مولوی قاسم بہت یاد آ رہا ہے۔ مولوی قاسم سے جب میری ملاقات ہوئی وہ وقت کے پہیے سے باہر کھڑا تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ زمین پر ایک انسان تو ایسا ملا جسے ابھی وقت کے پہیے نے اپنی لپیٹ میں نہیں لیا۔ مولوی قاسم سیدھا سادا ایک دینی مدرسے کا مدرّس تھا۔ قناعت، خوش اخلاقی، ملنساری اور مہمان نوازی اس نے اپنے آباء سے ورثے میں پائی تھی۔ عصر کی نماز پڑھ کے وہ اکثر مسجد کی مغربی سمت ٹیوب ویل پر آ بیٹھتا، میں بھی اپنی مصروفیات سمیٹ کر اس کے پاس آ بیٹھتا۔ ہم بہت سے موضوعات پر بات کرتے، ہمارے پاس سے چرواہا اپنے ریوڑ لے کر گزرتا، جوائے خیل برادری کا محمد شیر اپنی بھینسوں کی پیٹھ تھپتھپاتا روزانہ اپنی بھینسیں نہلانے نہر پر لے جاتا۔ ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے اور مولوی قاسم کا بیٹا مٹی کے دو کٹورے اور تام چینی کی چینک میں گڑ والی چائے رکھ جاتا۔ اس چائے کا ذائقہ ابھی تک زبان پر تروتازہ ہے۔
کبھی کبھی جب مجھے تنہائی کاٹتی یا مسائل کے کانٹے اپنے وجود سے چنتے چنتے میری پوریں زخمی ہو جاتیں میں شام کے بعدمولوی قاسم کے گھر، جو ٹیوب ویل کے ساتھ تھا، کا دروازہ کھٹکھٹاتا، مولوی قاسم کے ساتھ تام چینی کی چینک میں گڑ والی چائے بھی آ جاتی اور ٹیوب ویل کے ملگجے اندھیرے میں ہم باتیں کرتے رہتے، دل کے ساتھ آنکھیں بھی اپنا دکھ بانٹ لیتیں، باوضو آنکھوں سے ہم جدا ہوتے تو روح شانت اور سرشار ہوتی۔
ایک دن وقت نے پہیے کو زور سے گھما دیا۔
پہیہ گھومتے گھومتے رکا تو مجھے سکتہ ہو گیا۔۔۔!
میں بنجر کھڑا تھا۔
مولوی قاسم کو پہیہ گھما کر کسی اور گاؤں لے گیا۔
میں ٹیوب ویل کے کنارے اپنے آنسوؤں سمیت تنہا رہ گیا۔
بہت سال گزر گئے۔
ایک روز میں نے اپنی مصروفیات کو تالا لگایا، ذمہ داریوں کو زنجیر ڈال کے ایک طرف پھینکا اور مولوی قاسم کی تلاش میں نکلا۔ مسافت قطع کر کے جب میں مولوی قاسم کے گاؤں پہنچا، دوپہر ڈھل رہی تھی۔ مولوی قاسم اسی خلوص اور تپاک سے ملا۔
چائے آ گئی لیکن چینی والی۔۔۔
میرے من میں بہت سی باتیں تھیں۔
ہم ایک زمین کے وسیع کھیت میں چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔ میں تھا، مولوی قاسم اور اس کا بیٹا۔۔۔!
چارپائیوں کے ساتھ موٹر سائیکل کھڑا تھا۔
مولوی قاسم کو قریبی شہر میں ایک ضروری کام سے جانا تھا۔
اس نے موٹر سائیکل سٹارٹ کیا۔
پہیہ گھوما۔۔۔ موٹر سائیکل کا، یا وقت کا۔۔۔؟
پہیہ گھومتے گھومتے رکا تو مجھے سکتہ ہو گیا۔۔۔!
میں ٹیوب ویل کے کنارے اپنے آنسوؤ ں سمیت تنہا کھڑا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.