مسلمانوں کو اسپین پر حکومت کرتے صدیاں گزر چکی تھیں۔ کلیساؤں کی جگہ مسجدوں نے لے لی تھی۔ گھنٹوں کی بجائے اذان کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ غرناطہ اور الحمرا میں وقت کی چال پر ہنسنے والے وہ قصر تعمیر ہوچکے تھے، جن کے کھنڈرات اب تک دیکھنے والوں کو اپنی گزشتہ عظمت کااندازہ کروادیتے ہیں۔ عیسائیوں کےباوقارمرد اورعورتیں مسیح کا دامن چھوڑ کر اسلام کے سایہ میں پناہ لے رہے تھے اور مورخ اس بات پر حیران ہیں کہ اب تک وہاں عیسائیوں کا نام و نشان کیونکر باقی رہا۔جو عیسائی رہنما مسلمانوں کے سامنے اب تک سر نہ جھکاتے تھے اور اپنےملک کی آزادی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک سوداگر داؤود بھی تھا۔ داؤد باحوصلہ اور روشن دماغ تھا۔ اپنے علاقہ میں اس نے اسلام کو قدم نہ رکھنے دیا تھا۔ بےآسرا اور غریب باغی عیسائی ملک کے کونہ کونہ سے بھاگ کر اس کی پناہ میں آتے اور وہ بڑی فراخدلی سے اس کی غور وپرداخت کرتا۔
مسلمان داؤود سے خائف رہتے تھے۔ وہ مذہبی فوقیت سے اس پر بس نہ چلتا دیکھ کر قوت کے بل پر اسے جیتنا چاہتے تھے۔ لیکن داؤد کبھی اس کاسامنانہ کرتا۔ ہاں جہاں عیسائیوں کے مسلمان ہونےکی خبر پاتا، آندھی کی طرح اڑکر وہاں پہنچتااورانہیں اپنے مذہب پر مضبوط رہنےکی تلقین کرتا۔ آخر میں مسلمانوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر کر گرفتار کرنے کی ٹھانی۔فوجوں نے اس کے علاقے کا محاصرہ کرلیا۔ داؤود کو زندگی بچانے کے لئے اپنے ساتھیوں سمیت بھاگناپڑا۔ وہ گھر سے فرار ہوکر مسلمانوں کی راجدھانی غرناطہ میں آگیا اوربالکل الگ تھلگ رہ کراچھے دنوں کے انتظارمیں زندگی بسر کرنے لگا۔ مسلمانوں نے اس کی تلاش میں دن رات ایک کردیے۔ بھاری انعام مشتہر کئے گئے۔لیکن کہیں بھی سراغ نہ مل سکا۔
ایک دن تنہائی کی وحشت سے اکتا کر داؤد باغ میں گھومنے نکل گیا۔ شام ہوچکی تھی۔ مسلمان نیچی قبائیں پہنے بڑے بڑے عمامے سر پر باندھے کمر سے تلوار لٹکائے روشوں پر ٹہل رہے تھے۔ عورتیں سفید برقعے اوڑھے زری کی جوتیاں پہنے بنچوں اور کرسیوں پر بیٹھی تھیں۔ داؤد سب سے الگ ہوکر ایک طرف ہری ہری گھاس پر لیٹا سوچ رہا تھا۔ کہ وہ دن کب آئے گا۔ جب ہمارا ملک ان سفاکوں کے پنجہ سے چھوٹے گا۔ اس کے تصور میں وہ اترتا آرہا تھا، جب عیسائی عورتیں اور مرد ان روشوں پر آزادانہ ہلتے ہوں گے۔ جب یہ خطہ عیسائیوں کے باہمی میل جول اور ربط ضبط سے گلزار ہوجائے گا۔
اچانک ایک مسلمان نوجوان اس کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ سرتا پا گستاخ نگاہوں سے اسے دیکھ کر بولا، ’’کیا ابھی تک تمہارا دل اسلام کی روشنی سے منور نہیں ہوا؟‘‘
داؤد نے انتہائی شانتی سے کہا، ’’اسلام کی روشنی اونچی چوٹیوں کو روشن کرسکتی ہے۔ گہری غاروں میں سے اس کا گزر نہیں!‘‘
اس نوجوان کا نام جمال تھا۔ اتنا گہرا طنز سن کر تیکھے انداز میں بولا، ’’اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘
داؤد، ’’میرا مطلب یہی ہے کہ عیسائیوں میں جو لوگ اونچے درجہ کے ہیں وہ جاگیروں اور سرکاری عہدوں کی ترغیب اور سزا کے خوف سے اسلام قبول کرسکتے ہیں۔ لیکن کمزور اور مفلس عیسائیوں کے لئے اسلام میں وہ آسمانی بادشاہت کہاں جو حضرت مسیح کے دامن میں انہیں نصیب ہوگی۔ اسلام کی تیغ تلوار کی نوک سے ہوئی ہے۔ خدمت کے جذبہ سے نہیں۔‘‘
جمال اپنے مذہب کی توہین سن کر بھنا اٹھا۔ گرم ہوکر بولا، ’’یہ بالکل غلط ہے۔ اسلام کی قوت اس کی رواداری اور مساوات ہے۔ تلوار کی طاقت نہیں۔‘‘
’’اسلام نے مذہب کے نام پر جس قدر خون بہایا ہے۔ اس میں اس کی سبھی مسجدیں غرق ہوسکتی ہیں۔‘‘
’’تلوار نے ہمیشہ سچ کی حفاظت کی ہے۔‘‘
داؤد نے اس انداز میں جواب دیا، ’’جس کو تلوار کا سہارا لینا پڑے وہ صداقت ہرگز نہیں ہوسکتی۔‘‘
جمال قومی غرور سے بے قرار ہوکر بولا، ’’خدا کی قسم۔ اگر تم نہتے نہ ہوتے تو تمہیں اسلام کی توہین کرنے کا مزا چکھا دیتا۔‘‘
داؤد نے اپنے سینے میں چھپی ہوئی کٹار نکال کر کہا، ’’نہیں! میں نہتا نہیں ہوں۔ مسلمانوں پر جس روز اتنا اعتبار کروں گا۔ اس روز عیسائی نہ رہوں گا۔ تم اپنے دل کے ارمان نکال لو۔‘‘
دونوں نے تلواریں سونت لیں۔ ایک دوسرے پر لوٹ پڑے۔ عرب کی بھاری تلوار عیسائی کی ہلکی کٹار کے سامنے سست پڑ گئی۔ ایک سانپ کی طرح پھن سے چوٹ کرتی، دوسری ناگن کی مانند اڑتی۔ ایک لہروں کی طرح لپکتی تھی تو دوسری بالکل مچھلیوں کی مانند چمکتی۔ دونوں لڑاکوں میں کچھ دیر تک چوٹیں ہوئیں۔ یکبارگی ناگن لپک کر عرب کے سینہ میں پاپہنچی۔ وہ زمین پر گرپڑا۔
جمال کے گرتے ہی چاروں طرف سے لوگ دوڑ اٹھے۔ وہ داؤد کو گھیرنے کی کوشش کرنے لگے۔داؤد نے دیکھا۔ لوگ تلواریں لئے لپکے آرہے ہیں۔وہ جان بچاکر بھاگا لیکن جس طرف جاتا، سامنے باغ کی دیوار آکر راہ روک لیتی۔ دیوار اونچی تھی اور اسے پھاندنا بے حد مشکل۔ یہ زندگی اور موت کی جدوجہد تھی۔ کہیں پناہ نہیں مل سکتی اور نہ ہی چھپنے کے لئے کوئی جگہ۔ ادھر عربوں کے انتقام کا جذبہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جارہا تھا۔ یہ محض ایک قاتل کو سزا دینے کا سوال نہ تھا بلکہ قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ مفتوح عیسائی کی یہ ہمت کہ عرب پر ہاتھ اٹھائے۔۔۔ ایسا ظلم۔۔۔‘‘
جس طرح تعاقب کرنے والے کتوں کے سامنے گلہری ادھر ادھر دوڑتی ہے۔ کسی درخت پر چڑھنے کی بار بار کوشش کرتی ہے۔ لیکن ہاتھ پاؤں پھول جانے کے باعد ہر مرتبہ گرپڑتی ہے۔ یہی حالت داؤد کی تھی۔
دوڑتے دوڑتے اس کا سانس پھول گیا۔ پاؤں من من بھر کے ہوگئے۔ کئی بار دل میں آیا۔ پلٹ کر سب پر ٹوٹ پڑے۔ اور جتنی گراں زندگی دے سکتا ہے، دے۔ لیکن دشمن کی تعداد دیکھ کر حوصلہ گرجاتا۔
لینا۔ پکڑنا اور دوڑنا کا شور برپا تھا۔ کبھی کبھی تعاقب کرنے والے اس قدر قریب آجاتے کہ جنگ ختم ہوتی نظر آتی۔ تلوار کا وار پڑتا نظر آتا۔ لیکن پاؤں کی ایک ہی زفند اور چال اسے خون کی پیاسی تلواروں سے بال بال بچالیتی۔
داؤد کی اس لڑائی میں کھلاڑیوں کا سا لطف آنے لگا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی زندگی نہیں بچ سکے گی۔ مسلمان رحم کرنا نہیں جانتے۔ اسی لیے اسے ان داؤ پیچوں میں مزا آرہا تھا۔ کسی وار سے بچ کر اب اسے اس بات کی خوشی نہ ہوتی کہ اس نے قاتل کو کیسا چکمہ دیا۔
اچانے اسے اپنی دائیں طرف باغ کی دیوار کچھ نیچی نظر آئی۔ آہ! یہ دیکھتے ہی اس کے پاؤں میں نئی قوت عود کر آئی۔ رگوں میں نیا خون دوڑنے لگا۔ وہ ہرن کی طرح اس طرف دوڑا اور ایک جست میں دیوار پھاند کر باغ کے اس پار جاپہنچا۔ زندگی اور موت میں صرف ایک قدم کا فاصلہ تھا۔ پیچھے موت تھی اور ایک قدم آگے زندگی کا وسیع میدان۔۔۔ تاحد نظر جھاڑیاں ہی جھاڑیاں نظر آتی تھیں۔ زمین پتھریلی اور اونچی نیچی تھی۔ قدم قدم پر پتھر کی سلیں پڑی تھیں۔ داؤد ایک سل تلے چھپ کر بیٹھ گیا۔
ایک لمحہ میں تعاقب کرنے والے وہاں بھی آپہنچے اور ادھر ادھر جھاڑیوں میں درختوں پر، گڑھوں میں، سلوں تلے تلاش کرنے لگے۔ ایک عرب اس چٹان پر آکھڑا ہوا۔ جہاں داؤد چھپا بیٹھا تھا۔ داؤد کا سینہ دھک دھک کر رہا تھا۔ اب جان گئی۔ عرب نے ذرا نیچے کو جھانکا اور زندگی ختم! تقدیر کے الٹ پھیر پر ہی اس کی زندگی کا انحصار تھا۔ داؤد نے سانس روک لی۔ سناٹا طاری ہوگیا۔ ایک نظر پر ہی اس کی زندگی کا دارومدار تھا۔ لیکن عربوں کے لئے اس قدر وقت کہاں کہ اطمینان سے سلوں تلے جھانکتے پھریں، وہاں تو ہتھیار تھامنے کی جلدی تھی۔ داؤد کے سر سے بلا ٹل گئی۔ وہ ادھر ادھر دیکھ بھال کر آگے چل دیے۔
اندھیرا ہوگیا۔ آسمان پر تارے نکل آئے اور ان کے ساتھ ہی داؤد بھی سل سے باہر آگیا۔ لیکن دیکھا تو اس وقت بھی ہلچل مچھی تھی۔ عرب بھاری تعداد میں مشعلیں لیے ادھر ادھر جھاڑیوں میں گھوم رہے تھے۔ باہر نکلنے کے تمام راستے مسدود ہوچکے تھے۔ اب جائے تو کہاں جائے۔۔۔؟ داؤد ایک درخت تلے کھڑا ہوکر سوچنے لگا کہ اب جان کیونکر بچے۔ اسے اپنی جان کی زیادہ پروا نہ تھی۔ وہ زندگی کے دکھ سکھ سبھی کچھ اٹھا چکا تھا۔ اگر اسے زندگی سے پیار تھا تو صرف یہی دیکھنے کے لئے کہ اس لڑائی کا نتیجہ کیا ہوگا؟ میرے ہم وطن حوصلہ چھوڑ دیں گے۔ یا ثابت قدمی سے لڑائی میں لگے رہیں گے۔
جب رات زیادہ گزر گئی اور دشمن کی منتقمانہ ہوس کسی طرح بھی کم ہوتی نظر نہ آئی تو داؤد خدا کا نام لے کر وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔ اور دبے قدموں درختوں کی آڑلیتا۔ آدمیوں کی نظر بچاکر ایک طرف کو چلا۔ وہ اب ان جھاڑیوں میں نکل کر آبادی میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ویرانہ کسی کو بھی نہیں پناہ دے سکتا۔ بستی کی رونق بجائے خود آسرا ہے۔
کچھ دور تک تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئی۔ جنگل کے درختوں نے اس کی حفاظت کی۔ لیکن جب وہ ان جھاڑوں سے نکل کر صاف دھرتی پر آیا تو ایک عرب کی نگاہ اس پر پڑگئی۔ اس نے للکارا۔ داؤد بھاگا۔۔۔ قاتل بھاگا جاتا ہے۔۔۔ یکبارگی یہ آواز ہوا میں گونجی۔ اور ایک لمحہ میں ہی چاروں طرف سے عربوں نے اس کا پیچھا کیا۔ سامنے بہت دور تک آبادی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ کافی فاصلے پر ایک مدھم سا دیا ٹمٹما رہا تھا۔ کسی طرح میں وہاں پہنچ جاؤں۔ وہ اس طرح اڑا جارہا تھا۔ جیسے دئے کے قریب پہنچتے ہی وہ بالکل محفوظ ہوجائے گا۔ امید اسے بھگائے لئے جارہی تھی۔ عربوں کا ہجوم پیچھے رہ گیا۔ مشعلوں کی روشنی بھی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ محض تارے ہی اس کے تعاقب میں بھاگے چلے آرہے تھے۔ آخر وہ اس امید پر دئے کے قریب آہی گیا۔ ایک چھوٹا سا پھونس کا مکان تھا۔ ایک بوڑھا عرب سامنے قرآن رکھے چراغ کی مدھم روشنی میں اسے پڑھ رہا تھا۔ داؤد آگے نہ جاسکا۔ اس ہمت نے جواب دیا۔ وہ تھک ہار کر وہیں گرپڑا۔ راہ کی تھکن گھر پہنچنے پر معلوم ہوتا ہے۔
عرب نے پوچھا، ’’تو کون ہے؟‘‘
’’ایک غریب عیسائی، مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ اب آپ ہی پناہ دیں تو میں بچ سکتا ہوں۔‘‘
’’خدا پاک تیری مدد کریں گے۔ تجھ پر کیا مصیبت پڑی ہے؟‘‘
داؤد نے لجاجت سے کہا، ’’ڈرتا ہوں۔ اگر میں نے کہہ دیا۔ تو کہیں آپ بھی میرے خون کے پیاسے نہ ہوجائیں۔‘‘
’’جب تو میری پناہ میں آگیا ہے۔ تو تمہیں مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم مسلمان ہیں۔ جسے ایک مرتبہ پناہ میں لے لیتے ہیں۔ اس کی زندگی بھر حفاظت کرتے ہیں۔‘‘
’’میں نے ایک مسلم نوجوان کو قتل کردیا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی عرب کا چہرہ بگڑ اٹھا۔ بولا، ’’کیا نام تھا اسکا؟‘‘
’’اس کا نام جمال تھا۔‘‘
عرب سر تھام کر بیٹھ گیا اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ گردن کی رگیں تن گئیں۔ چہرہ پر غیر معمولی جلال دوڑ گیا۔ نتھنے پھڑکنے لگے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے ذہن میں خوفناک کشمکش جاری ہے اور وہ پوری قوتوں سے ذہنی مدوجزر کو دبا رہا ہے۔ دو تین منٹ تک وہ اسے یونہی بت بنا بیٹھا تاکتا رہا۔ پھر مبہم سے لہجہ میں بولا،
’’نہیں نہیں۔ پناہ میں آئے ہوئے کی حفاظت کرنی ہی پڑے گی۔ آہ ظالم! تو جانتا ہے۔ میں کون ہوں؟ میں اسی نوجوان کا بدقسمت باپ ہوں۔ جسے تونے بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تو جانتا ہے۔ تونے مجھ پر کس قدر ظلم کیا ہے تو نے میرے خاندان کا نشان مٹا دیا۔ میرا چراغ گل کردیا۔ آہ! جمال میرا اکلوتا بیٹا تھا۔ میری زندگی کی سبھی تمنائیں اسی سے وابستہ تھیں۔ وہی میری آنکھوں کا اجالا مجھ اندھے کا سہارا۔ میری بے خول زندگی کی روح اور میرے بوڑھے جسم کی زندگی تھا۔ ابھی ابھی اسے قبر کی گود میں سلاکر آیا ہو۔ آہ! میرا شیر آج خاک تلے سورہا ہے۔ ایسا دلیر ایسا فیاض ایسا سجیلا میری قوم میں اور کوئی ودسرا نہ تھا۔ ظالم! تجھے اس پر تلوار چلاتے ذرا بھی ترس نہ آیا۔ تیرا پتھر کا سینہ ذرا بھی نہ پسیجا؟ تو جانتا ہے۔ مجھے اس وقت تجھ پر کس قدر غصہ آرہا ہے؟ میرا دل چاہتا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے تیری گردن دبوچ کر اس زور سے دباؤں کہ تیری زبان باہر آجائے اور آنکھیں کوڑیوں کی طرح نکل پڑیں۔ لیکن نہیں۔ تونے میری پناہ لی ہے۔ اس وقت فرض میرے ہاتھ باندھے ہوئے ہے۔ رسول پاک کی ہدایت کے مطابق پناہ میں آئے پر ہاتھ اٹھانے سے قاصر ہوں۔ میں نہیں چاہتا۔ کہ نبی پاک کے حکم کو توڑ کر دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی عاقبت بھی بگاڑ لوں۔۔۔ دنیا میں نے تباہ کی۔ عاقبت اپنے ہاتھوں کھودوں، نہیں۔۔۔صبر کرنا مشکل ہے۔ لیکن صبر کروں گا۔ تاکہ نبی کے سامنے آنکھیں نیچی نہ کرنی پڑیں۔ آ۔۔۔ گھر میں آ۔۔۔ تیرے پیچھے آنے والے وہ بھاگے آرہے ہیں۔ تجھے دیکھ لیں گے تو میری ساری منت سماجت بھی تجھے نہ بچا سکے گی۔ تو نہیں جانتا کہ عرب لوگ خون کبھی نہیں معاف کرتے!‘‘
یہ کہہ کر عرب نے داؤد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور اسے گھر لے جاکر ایک کوٹھڑی میں چھپا دیا۔ وہ گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ عربوں کا ایک گروہ اس کے مکان کے سامنے آکھڑاہوا۔
ایک آدمی نے پوچھا، ’’کیوں شیخ حسن! تونے ادھر سے کسی کو بھاگتے دیکھا ہے؟‘‘
’’ہاں! دیکھا ہے۔‘‘
’’اسے پکڑ کیوں نہ لیا؟ وہی جمال کا قاتل تھا۔‘‘
’’یہ جان کربھی میں نے اسے چھوڑ دیا۔‘‘
’’ایں! غضب خدا کا۔ یہ تم نے کیا کیا؟ جمال حساب کے روز ہمارا دامن پکڑے گا۔ تو ہم کیا جواب دیں گے؟‘‘
’’تم کہہ دینا کہ تیرے باپ نے تیرے قاتل کو معاف کردیا۔‘‘
’’عرب نے کبھی قاتل کا خون معاف نہیں کیا۔‘‘
’’یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ میں اپنے سر کیوں لوں؟‘‘
عربوں نے شیخ حسن سے زیادہ حجت نہ کی اور قاتل کی تلاش میں دوڑ پڑے۔ شیخ حسن پھر چٹائی پر بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگا۔ لیکن اس کا دل پڑھنے میں نہ لگ سکا۔ دشمن سے بدلہ لینے کی خواہش عرب کی فطرت کا حصہ ہے۔ خون کا بدلہ خون ہے۔ اس کے لئے لہو کی ندیاں بہہ جاتی تھیں۔ قبیلے کے قبیلے مر مٹتے تھے۔ شہر کے شہرو یران ہوجاتے۔ اس عادت پر قابو پانا شیخ حسن کو ناممکن نظر آیا۔ بار بار پیارے بچے کی صورت آنکھوں میں آجاتی۔ اس کے دل میں بار بار یہ خواہش پیدا ہوتی۔ کہ ابھی داؤد کے خون سے دل کی آگ بجھائے۔
عرب بہادر ہوتے ہیں۔ ان کے لئے مارنا اور کاٹنا کوئی نئی بات نہ تھی۔ مرنے والے کے لئے آنسو کی چند بوندیں بہاکر وہ پھر اپنے کام میں لگ جاتے۔ وہ متوفی کی یاد کو صرف اسی صورت میں ذہن نشین رکھتے تھے جب اس کا بدلہ لینا ہوتا تھا۔ آخر میں شیخ حسن بھی برقرار ہوا ٹھا۔ اس کو اندیشہ ہوا۔ کہ اب میں خود پر قابو نہیں رکھ سکوں گا۔ اس نے تلوار میان سے نکالی اور دبے پاؤں دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا۔ جس میں داؤد چھپا ہوا تھا۔ تلوار کو دامن میں چھپاکر اس نے آہستگی سے کواڑ کھولے۔ داؤد ٹہل رہا تھا۔ بوڑھے کے منتقمانہ چہرہ کو دیکھ کر داؤد اس کے دلی جذبات بھانپ گیا۔ اسے بوڑھے سے ہمدردی سی ہوگئی۔ اس نے سوچا۔ یہ مذہب کا قصور نہیں۔ میرے بچے کی اگر کسی نے ہتیا کی ہوتی۔ تو میں بھی یونہی ا س کے خون کا پیاسا ہوجاتا۔ انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے۔‘‘
عرب بولا،’’داؤد! تمہیں معلوم ہے۔ بیٹے کی موت کا غم کس قدر گہرا ہوتا ہے؟‘‘
’’محسوس تو نہیں ہوسکتا۔ البتہ اندازہ کرسکتا ہوں۔ اگر میری زندگی سے اس غم کا کیا جزو بھی مٹ سکے۔ تو لیجئے۔ یہ سر حاضر ہے۔ میں اسے شوق سے آپ کی نذر کرتا ہوں۔ آپ نے داؤد کا نام سنا ہوگا؟‘‘
’’کیا پیٹر کا بیٹا؟‘‘
’’جی ہاں! میں وہی بدنصیب ہوں۔ میں محض آپ کے بیٹے کا قاتل ہی نہیں اسلام کا بھی دشمن ہوں۔ میری جان لے کر آپ جمال کے خون کا بدلہ ہی نہ لیں گے اپنی قوم اور مذہب کی حقیقی خدمت بھی کریں گے۔‘‘
شیخ حسن نے متانت سے کہا، ’’داؤد میں نے تمہیں معاف کیا۔ میں جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے ہاتھوں عیسائیوں کو بہت سی تکالیف پہنچی ہیں۔ مسلمانوں نے ان پر بے شمار ظلم کئے ہیں۔ ان کی آزادی چھین لی ہے۔ لیکن یہ اسلام کا نہیں مسلمانوں کا قصور ہے۔ فتح کی نخوت نے ان کی عقل اور احساس چھین لئے ہیں۔‘‘
ہمارے مقدس نبی نے یہ تعلیم نہیں دی تھی۔ جس پر ہم آج کل چل رہے ہیں۔ وہ خود رحم اور فیض کا معیار ہے۔ میں اسلام کے نام کو بٹہ نہ لگاؤں گا۔ میری سانڈنی لے لو۔ اور رات بھر میں ہی یہاں سے بھاگ جاؤں۔۔۔ بھاگو۔۔۔ کہیں ایک لمحہ کے لئے بھی نہ رکنا۔ عربوں کو تمہاری بو بھی مل گئی تو تمہاری خیر نہیں، جاؤ! خدا پاک تمہیں گھر بخیریت پہنچائے۔ بوڑھے شیخ حسن اور اس کے بیٹے جمال کے لئے خدا سے دعا کرنا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.