مغائرت کی مٹی
زیب اذکار حسین۔
سب کچھ سامنے بکھرا پڑا تھاہر شے اپنی قیمت مانگ رہی تھی ،اپنے ہونے کی قیمت۔۔۔ یہ وہی ناول تھا جسکے ابواب آپس میں مدغم ہو جاتے ہیں، خلط ملط ہوجاتے ہیں۔۔۔ یہاں پر الفاظ بھی ایک دوسرے میں جذب ہوتے نظر آتے ہیں۔۔۔ یہ پہلے آیئے، پہلے پائیے کی بنیاد سے کچھ علاقہ نہں رکھتے۔۔۔ اس ناول کے ابواب اپنے نصیب میں ہی کورے ہوتے ہیں۔ کوڑھ مغز، چھوٹی ذات کے ضدی، تن ومند مہروں کی جلن کے مارے ہوئے۔ ان کی بیویاں بھی انکی موت کے بعد جل مرتی ہیں۔ یہ اپنی زندگی میں تو ایک دوسرے سے اچھے ماحول میں مل ہی نہیں پاتے۔جب سامنا ہوتا ہے، بری حالت کا بوجھ سروں پر لدا ہوتا ہے۔۔۔ موت کے بعد بھی مردود ہی ٹہر تے ہیں۔۔۔ ان کے ابواب اور کر دار ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں، ان کے ہر افسانے کا ایک الگ باب ہوتا ہے، انہیں الگ کیا ہی نہیں جا سکتا، اس کے باوجود ان کا ایک دوسرے سے لغّت کے لمحات میں سامنا ہوتا ہی نہیں ہے۔ جب ایسا ہوتا ہی نہیں ہے تو انہیں زیست کے رنگوں میں کیسے رنگا جا سکتا ہے؟ وہ عورت اپنے ہونے کی قیمت اپنے جسم کی نمائش کی صورت چکا رہی تھی۔۔۔ اسے ماڈل کا نام دے دیا گیا تھا اور اسے ایک مخصوص کینوس کے لیئے مخصوص کر دیا گیا تھا۔ اس کا ایکسپوژر بھی ایک خاص کینوس کیلئے ایکسکلوسو (Exclusive ) کر دیا گیا تھا۔ اب اسے کینوس کے مالک کی موت ہی اس ایکسپوژر سے نجات دلا سکتی تھی، بلکہ مالک کی موت کے بعد بھی اسے اسی کا ہوکر رہنا تھا۔ جو جہاں پھنس گیا، وہاں سے نکل نہ سکا۔ اسے کبھی پہناوا نصیب نہ ہو سکا۔ یہ بے لباسی صرف ایک ماڈل کا حصہ نہیں تھی، یہ دوسرے ماڈلز کے ساتھ بھی کہیں نہ کہیں چپکی ہوئی تھی، اس میں شعبہء حیات کی قید نہیں تھی۔۔۔ ان کے اغواء کار ان کی ہیت کو اس طور ان کی زندگی کا مقدر بنا دیتے کہ جسم فروشی کی ہولناک صورتیں بھی ماند پڑ جاتی تھیں۔۔۔ یہاں پر الفاظ منہہ زور ہو گئے تھے، بلکہ بےاختیار ہو چکے تھے۔۔۔ منہہ زوری اور اختیار کی محرومی ایک دوسرے میں گھل مل جائیں تو کسی لفظ کو اپنا نہیں کہا جا سکتا ہے۔۔۔ ایک طرف رنگوں کی بودوباش پر کوئی اختیار نہ رہا تھا تو دوسری طرف لفظوں کی ادائیگی بولتے ہوئے کر دار کی ذمہ داری نہیں رہی تھی۔۔۔ یہ اب اسکی ملکیت نہیں تھی۔۔۔ اب وہ جمے جمائے ڈھنگ سے بولنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
ایک مقام پر الفاظ اس حد تک بااختیار ہوچکے تھے کہ اختیار نامی لفظ ان کے خوف سے تھر تھر کانپتا تھا۔ یہ لفظ تو جیسے ان کے ڈر سے منہہ چھپائے پھر تا تھا، وہ بھری پڑی عبارت سے ہی اجنبی ہو کر رہ گیا تھا۔
سرے سے ایسی کوئی بات نہیں تھی جسے موضوع بحث بنایا جاتا، یہ بھی ایک طر ح کا زبر دستی کا سودا تھا۔ فیلیسیا (Falcia) سے جب بھی ہیلو ہائے ہوتی، وہ ایک ہی بات پوچھتی
’’لٹ می نو اباؤٹ یور افیئرز‘‘
میں ہمیشہ الٹا سوال جڑ دیتا
’’واٹ ڈو یو مین بائی افیئرز‘‘
وہ کہتی
’’یو ر کنٹریز افیئرز‘‘
اس کا دوسرا سوال میری خیریت سے متعلق ہوتا
’’واٹ اباؤٹ یو رسیفٹی اینڈ سیکیورٹی‘‘
وہ خود تو فرانس سے امریکہ جابسی تھی اور اس کا بوائے فرینڈ کانرڈ (Conred )ساؤتھ ہالینڈ سے امریکہ جا پہنچا تھا اس سے شادی رچانے ۔دونوں کی زندگی اب مثالی تھی۔۔۔ ماضی کے قصے بیان کرنے سے کچھ حاصل نہ تھا، ان کا حال بے مثال تھا کہ دو محبت کر نے والوں کا سنجوگ ہو گیا تھا، دونوں کبھی کبھار ایک ساتھ اسکائپ پر آنمودا ر ہوتے اور گھنٹوں اپنی مصروفیات کے بارے میں بتاتے رہتے، ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتے رہتے اور مجھے خواہ مخواہ کانٹوں میں گھسیٹتے رہتے۔۔۔ پاکستان کا ذکر چھڑتے ہی میں چوکنا ہو جاتا کیونکہ انہیں مجھ سے زیادہ یہاں کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات کی خبر رہتی تھی۔ مجھ سے یہاں کے عام لوگوں کی زندگیوں اور دلچسپیوں کے بارے میں پوچھتے رہتے۔ اکثر و بیشتر میں ہوں ہاں میں ٹالتا رہتا مگر جب وہ بعض چیزوں کے بارے میں اسپیفک (specific) ہو جاتے تو طوہاً کروہاً کچھ نہ کچھ جواب دینا پڑتا۔ میں بہت محتاط ہو گیا تھا۔ شروع شروع میں تو میں کچھ خیال نہ کرتا اور خوب خوب بولتا، مگر پھر اچانک ایک دن مجھے یو ں لگا جیسے میں ان کا ایزی ٹارگٹ ہوں اور وہ جب چاہتے ہیں مجھ سے پاکستان کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی میں ان کے ہر سوال کا چبا چبا کر جواب دینے لگا تھا۔ یہ کوئی کھیل تو نہیں تھا کہ میں انہیں ہنسی خوشی پاکستان کے مختلف شہروں میں جاری معاشرتی ابتری کے بارے میں تفصیلات مہیا کرتا رہتا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ وہ کراچی کے مختلف علاقوں میں جاری قتل و غارتگری کی وارداتوں کے بارے میں خاصی معلومات رکھتے تھے۔ وہ مجھ سے ٹارگٹ کلنگز کے واقعات کی تفصیلات یو ں دریافت کر تے جیسے وہ پہلے ہی سے خاؔ صے ’’باخبر‘‘ اور اپ ڈیٹڈ (updated) ہیں۔ میرے چونکنے پر وہ کہتے کہ اس طرح کی خبریں بین القوامی میڈیا کے توسط سے انہیں ملتی رہتی ہیں اور اس سبب سے وہ زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ میرے تعلق سے ان واقعات کے بارے میں بہت فکر مند رہتے ہیں اور تفصیلات جاننے کے خواہاں بھی۔
ان کی چاہت سر آنکھوں پر، مگر ان کا کرید کرید کر ایسی باتوں کا پوچھنا جن کے بارے میں ایک تو مجھے خود زیادہ معلومات حاصل نہیں تھیں اور دوسرے، میں اتنا زیادہ غور و فکر بھی نہیں کرتا تھا کہ ان معاملات کی تہہ تک پہنچوں۔ یہ سب مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا کہ پاور کرائسس اور بلیم گیم پالیٹکس کی اصطلاحات کی روشنی میں اپنے ان غیرملکی دوستوں سے بحث کرنے بیٹھ جاؤں۔۔۔ میں عام طور پر یہی سمجھاتا کہ یہ قابل بحث (debatable) مسئلہ ہے۔ بھلا مجھے عام اشیاء کے مہنگا ہونے کا اتنا قلق کیوں ہوتا کہ میں اسے بری حکمرانی (bad governance) سے تعبیر کر دوں۔۔۔ اور وہ تھے کہ ایسی ہی باتیں پوچھتے رہتے۔ یہ وہ باتیں تھیں جن کے بارے میں بات کرنا تو درکنار، میں تو سوچنا بھی صا ئب نہیں سمجھتا تھا۔ ٹھیک ہے اسٹریٹ کرائمز میں خاصا اضافہ ہو گیا تھا، میں خود کئی مرتبہ اپنا سیل فون چھنوا چکا تھا، چھوٹی موٹی رقم سے بھی محروم ہو چکا تھا، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں تھاکہ ترقی کے عمل کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا، وہ بھی تو ساتھ ساتھ جاری تھا، فیلسیا اور کانرڈ کو تو اغواء برائے تاوان کے واقعات پر بھی گہری تشویش تھی، ان کے خیال میں ملتان میں مختاراں مائی کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر دنیا بھر میں شور مچا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں تو بس ایک ہی ادارہ بچا تھا جو موت سے نبرد آزما افراد کی زندگیاں بچانے میں سر گرم عمل تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے میں نے بھی ایک آدھ بار اس ادارے کا وزٹ کیا تھا۔۔۔ یقیناًً مریضوں کو وہاں جاکر بہت تحفظ کا احساس ہوتا ہوگا۔ البتہ وہاں پر آویزاں ایسے اشتہارات اور پینا فلیکس بینرز جن میں مریضوں کو قبل از مرگ گردے اور دیگر اعضاء عطیہ کرنے کی دعوت دی جاتی تھی، زندگیوں کا محفوظ کرنے کے نئے ڈھنگ کا پتہ دیتے تھے۔ ان دعوت ناموں کی تشہیر در اصل موت کے منہ میں جاتے ہوے مریضوں کو موٹیویٹ (motivate )کرنے کا ایک طریقہ تھا۔۔۔ شاید ایسے اشتہارات عام آدمی یا نارمل اور صحت مند وزیٹرز کیلئے ’’سیف روٹ‘‘ کے تعلق سے کچھ گلیمر رکھتے ہونگے، البتہ خوفناک بیماریوں کے ہاتھوں ہلکان اور ادھ مرے لوگوں کے لیئے تو یہ بھی عدم تحفظ کے بھیانک احساس سے دوچار کر دینے کیلئے بہت تھے، یہ میرا خیا ل ہے ورنہ کیا کہہ سکتا ہوں، دوسرے دوسری طرح سوچتے ہونگے، ان کے شکوک و شبہات کی نوعیت بھی دوسری طر ح کی ہوگی، میں نے ایک بار تو تہیہ کر لیا کہ اب فیلسیا اور کانرڈ سے دعائیہ کلمات کا تبادلہ اور پھر اجتماعی طور پر آمین (amen) کہنے کاسلسلہ ختم کر د ینا چاہئے۔ یہ، یس، نو اور سو سوری کا باب اب بند ہو جانا چاہئے۔۔۔ مجھے کیا پڑی ہے کہ اپنے ہی ملک کا امیج خراب کرتا پھروں، احتیاط علاج سے بہر طور بہتر ہے، اس کے والد محترم کا انتقال پردیس میں ہی ہوا تھا اور پھر لوگوں نے دیکھاکہ میت پاکستان میں لائی گئی۔ پاکستان کے حکمرانوں نے’’میت‘‘ اور ’’پسماندگان‘‘ کو لانے والے جہاز کو نہ صرف سیف روٹ مہیا کیا بلکہ تعزیتی بیانات بھی جاری کئے۔ بعد ازاں ایک اور رہنما کی میت کیلئے بھی سیف روٹ کا اہتمام کیا گیا۔ اس رہنما کی موت تشدد سے واقع ہوئی تھی۔
ان دنوں ملکی حالات بہت خراب تھے، انتہا پسندی اپنے عروج پر تھی۔ اس واقعہ کے رونما ہونے سے برسوں پہلے ایک اور رہنما کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا تھا اور پھر اس کی ’’میت‘‘ کو اس کے آبائی گاؤں تک پہنچانے کیلئے ’’سیف روٹ‘‘ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جہاں تک زبردستی کے سودے کی بات ہے تو۔۔۔ یہاں سے ایک اور باب کا آغاز ہوتا ہے جس میں پتہ نہیں چلتا کہ آگے چل کر کیا ہوتا ہے، کسے خبر ہے، عین ممکن ہے ایک دن قاتل کھل کر سامنے آ جائے، کسی ادارے میں یا ادارتی صفحے پر یا پھر کسی صحت افزاء مقام پر، یا کسی ہسپتال میں۔۔۔ وہاں پر بھی تو حملہ آور خود زخمی ہو کر علان کیلئے آ دھمکتے ہیں۔۔۔ ہسپتالوں کے مالکان کااس میں کیا قصور ہے، آنے والوں کا تعلق بھی تو بادشاہت سے ہوتا ہے یا وزارت سے یا سفارت سے۔۔۔ ھیک سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔۔۔ سو باتوں کی ایک بات، ترقی کا عمل تو جاری تھا، خرابی اافرادمیں تھی اجتماع تو اس سے مبرا تھا۔ اس ناول کا ایک باب ایک افسانے کا باب رکھتا تھا اور اس افسانے کا پہلا باب ایک سیاسی کارکن کی بے معنی مہم جوئی کے قصوں پر مشتمل تھا۔ قسمت کا مارا کارکن اپنی غربت سے تنگ آکر ایک سیاسی جماعت سے وابستگی اختیار کر لیتا ہے اور یہاں سے اسکی شہرت کا ایک ایسا دور شروع ہوتا ہے جس کا خاتمہ دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اب کارکن غور وفکر میں غلطاں ہے۔ اب کارکن نے اپنے جماعت کی ترقی و ترویج کیلئے ایک نیا خیا ل پیش کیا ہے یہ خیال بھی عسرت زدہ ثابت ہوتا ہے اور زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکتا ہے، کارکن کی غربت تو کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، البتہ ناداری کی ناپسندیدہ صورتیں اس کی زندکی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارتا ہے۔ وہ جہاں جاتا ہے، اپنی جماعت، اس کے رہنماؤں اور ان کے منشور کی وکالت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ تب دفعتاً اس کی جماعت کا مرکزی رہنما اس دنیا کو خیر باد کہہ دیتا ہے۔ رہنما کی دوری اسے ایک دوسری جماعت میں شمولیت کی راہ سجھا تی ہے۔ شومئی قسمت کہ نئی جماعت اس کے مشوروں پر زیادہ کان نہیں دھرتی۔ کارکن کا کہنا تھا کہ اس کی تیار کر دہ حکمت عملی، اس کی جماعت کو راتوں رات مقبولیت کے ایک لازوال دور میں داخل کر سکتی تھی مگر یہ نہ ہو سکا۔ یہاں سے کارکن کی بد دلی کا آغاز ہوتا ہے، کارکن ایک مرتبہ پھر ایک نئی جماعت پر اپنی قسمت آزما تا ہے۔
نئی جماعت کی قیادت اسے سر آنکھوں پر بٹھا تی ہے، وہ توقع کر تا ہے کہ اسے اس جماعت میں ایک مرکزی مقام حاصل ہو جائےگا مگر ایسا کبھی نہ ہو سکا اور کارکن نے چاروناچار اس جماعت سے بھی علیحد گی اختیار کر لی، بس پھر کیا تھا، کارکن کو جماعتی تعلق سے بلند شخصیت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اب اس شخصیت کے تجزیوں، رائے اور مستقبل میں رونما ہونے والی سیاسی، معاشرتی حتی کہ سفارتی تبدیلیوں سے متعلق خیالات کو بےحد اہمیت دی جانے لگی۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، یہاں تک کہ ایک روز اس کارکن کی گرفتاری کی خبر ایک اخبار نے شائع کر دی، کارکن نے اپنی گرفتاری کی سختی سے تردید کی اور اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے اعلان کا اگلے چند روز میں اعادہ کیا۔ شاید اس خبر کی اشاعت نے کارکن کو قدرے مایو س کر دیا تھا۔ وہ اکثر و بیشتر ’’زیر زمین‘‘ جانے لگا ۔ اس کے ’’زیر زمین‘‘ جانے کی اطلاع اس کے کچھ قریبی احباب اخبارات کو مہیا کر دیا کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا کہ کارکن کی جان کو خطرہ ہے، لہذا وہ عوام الناس کے سامنے کھلے عام ظاہر نہں ہو سکتا ہے، تاہم کارکن کی مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے اس کے چاہنے والوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی کہ اس کا اعلان اگلے چند روز میں کر دیا جائےگا۔
پھر اک روز اس کا اعلامیہ جاری کر دیا جاتا ہے کہ کارکن نے ایک نئی ابھرتی ہو ئی سیاسی جماعت سے وابستگی اختیار کر لی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نئی جماعت کارکن کی ماضی کی جماعت سے خاصی برگشتہ رہی تھی، البتہ کارکن کا اس نئی جماعت کی حمایت کرنا ہی گویا متعلقہ جماعت کیلئے کسی نیک فال سے کم نہیں تھا۔ اب کارکن اپنی نئی جماعت کیلئے بڑھ چڑھ کر چندہ جمع کر تا پھر تا تھا اور اس جماعت کے سیاسی اور سماجی منصوبوں سے لوگوں کو آگاہ کرتا پھر تا تھا۔ کارکن کے خیال میں اس نے ایک عوام دشمن جماعت سے نجات حاصل کی تھی اور اب اس پر لازم تھاکہ وہ ایک عوام دوست جماعت کی بھر پور طور پر وکالت کر تا رہے۔
پھر اختلاف کی ایک نئی طرح پڑ گئی اور کارکن نے ایک دوسری جماعت سے وابستگی کا اعلان کر دیا۔ گویا ایک بار کا سیاسی اختلاف، ایک بار تک محدود نہ رہا تھا، یہاں تک کہ کارکن نے خود ہی ایک نئی جماعت کی داغ بیل ڈال دی۔ آئندہ کے واقعات میں یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ کارکن کو اپنی نئی جماعت کی قیادت کیلئے با اثرسیاسی افراد کو منتخب کرنا پڑا اور کارکن بہر طور کارکن ہی رہا۔
قیاس کی موت نے تو جیسے ایک نئی دنیا سے روشناس کر ا دیا تھا۔ اس دنیا سے فراریت کسی طور ممکن نظر نہ آتی تھی پانی کا ایک گھونٹ بھی گھٹ گھٹ کر حلق سے نیچے اترتا، گلاس بھی دہائی دینے لگتا ’’بار بار میری ہی گردن کی پیمائش کیوں، اور کوئی برتن ایسا نہیں ہے جو میری کمی پوری کر سکے۔‘‘
کوئی میرے دل سے پوچھتا میں کس منہہ سے صحن میں سمانے پر مجبور تھا۔ دماغ کے بارے میں بیان کیئے گئے سب قصے خواب و خیا ل ثابت ہوئے تھے، کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا، دل اور دماغ میں رابطے کا فقدان تو تھا ہی نہیں۔۔۔ یہ رابطہ ناپید تھا، بلکہ ان دونوں کے بارے میں اس نو ع کے کسی رشتے کا تذکرہ ہی نا مناسب معلوم ہوتا تھا۔ اسے یوں فرض کر لیا گیا تھا جیسے کسی فریضے کو دریافت کیا جاتا ہے اور دریافت تو کبھی بھی ایک فرضی فسانہ ثابت ہو سکتی ہے، دماغ کے بیان میں جو کچھ کہا گیا تھا، اسے ماننے میں بس یہی مضائقہ تھا کہ اگر اس نے ذائقے اور رنگت کی تفریق مٹا دی تو پھر اس بھُس بھرے کو کیا نام دیا جائےگا۔
ٹیبل لیمپ بھی بہت گرمی دکھانے لگا تھا، اس میں اس کا اتنا قصور نہیں تھا جتنا میری بےدلی کا، میں اسے کئی راتوں سے آرام کا موقع نہیں دے رہا تھا۔ میں خود تو جاگتا ہی تھا اسے بھی گھنٹوں جگائے رکھتا تھا۔۔۔گو یا پچھلی کئی راتوں سے ہم دونوں ہی جل رہے تھے۔ اس رات میں نے اسے خاموشی سے آف کر دیا اور اپنے احمقانہ سے کمرے میں موجود ایک دودھیا رنگ کی ٹیوب لائٹ کو آن کر دیا، اس ٹیوب لائٹ کی روشنی کئی دنوں کی غیر حاضری کے بعد طلب کی گئی تھی، اس لیئے اس کی رنگت قدرے تبدیل ہو گئی تھی، ایک تو کمرے کی رنگت گندمی تھی، اوپر سے ٹیوب لائٹ کی رنگٹ دودھیا۔۔۔ مجھے یہ ماحول بہت عجیب سا لگا۔۔۔ میں اس ادارے کے کم و بیش ہر شخص سے قطع تعلق کر چکا تھا، حالات نے کچھ ایسی کروٹ بدلی تھی کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا تھا۔۔۔ میں خود کو اپنے دفتر کے کمرے تک محدود کر چکا تھا۔ یہ وہی ادارہ تھا جس پر میں نے اپنی زندگی کے بیس سال بہت خاموشی سے، بغیر کسی حساب کتاب کے خرچ کر ڈالے تھے، اب حساب کتاب کا وقت آیا تھاتو مجھے یو ں لگا کہ یہ کسی اور کا نہیں بلکہ میرے حساب کتاب کا وقت ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.