اس چھوٹے سے شہر کے لئے یہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ جس نے سنا، دوسروں تک یہ خبر پہنچانے میں نہایت تیزی اور تند ہی سے کام لیا۔ نوشاد کوجب اس واقعے کا علم ہوا، اس کا پورا وجود دہل گیا۔ ایک عجیب سناٹا، خوف، سراسیمگی اور ہیبت سے وہ لرز اٹھا۔ پھر اچانک اس کے دماغ میں، ایک کوندا سالپکا اور وہ سوچنے لگا۔۔۔
کل راجیش کی خبر لینی ہوگی۔ آخر وہ اس کا دوست ہے۔ لیکن یہ آرمس؟ پتہ نہیں، یہ کیا چکر ہے۔ حالانکہ وہ خود اپنی تخلیق کردہ تصوراتی دنیا میں خوش تھا۔ اسے فرصت کہاں تھی کہ ان خرافات کے بارے میں سوچتا۔ وقت ملتا، تو فیس بک اور وہاٹس ایپ میں مصروف ہو جاتا۔ ہاں، اس تعلق سے اپنے جذبات راجیش کے ساتھ ضرور شئیر کرتا۔۔۔ لیکن راجیش کی ان ایکٹیویٹی کی اسے قطعی خبرنہ تھی۔ تو کیا راجیش سے کنارہ کشی ہی بہتر ہوگی؟
اسی رات کوئی تین بجے کا عمل رہا ہوگا کہ پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور۔۔۔ اور لیپ ٹاپ، بہت ساری فلاپی، پن ڈرائیو اور موبائیل کے ساتھ اسے بھی اٹھا لے گئی۔۔۔
اس کے پاپا جن کے لئے یہ سچویشن غیرمتوقع، حیرتناک، دردناک اور لرزہ براندام کرنے والی تھی۔۔۔ نہ ایسی کسی صورت حال سے انہیں کبھی واسطہ پڑا تھا، نہ انہوں نے خواب و خیال میں بھی یہ سوچا تھا۔۔۔ دہشت سے ان کی زبان گنگ ہو گئی اور رگوں میں خون جم سا گیا۔ وہ بس دیکھتے رہے۔۔۔ نہ کچھ بول پائے۔۔۔ نہ کچھ کر پائے۔۔۔ یہاں تک کہ پولیس نوشاد کو گاڑی میں بٹھا کر چل دی۔۔۔ اور وہ بے ساختگی کے عالم میں دور تک پولیس کی گاڑی کے پیچھے دوڑتے چلے گئے۔۔۔ اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
اسی وقت مسجد سے نمازکے لئے مؤذن نے اذان کی آواز بلند کی۔
مسجد کو جانے والوں نے دیکھا اور انھیں اٹھایا۔۔۔ اورپھران کے گھر کے آس پاس لوگوں کی بھیڑ جمع ہونے لگی اور چہ میگوئیاں۔۔۔ طرح طرح کی باتیں۔۔۔۔
ان کے گھر سے کچھ دور ہٹ کر ٹاپ ٹیلرنگ ہاؤس کے سامنے، سائبان نما جگہ کے پاس لوگ الگ الگ گروپ میں بٹے، دھیرے دھیرے باتیں کر رہے تھے۔۔۔
’’۔۔۔ نوشادکا دوست راجیش، اسلحہ کے ساتھ گرفتار ہوا ہے، ضروران میں کوئی سازباز رہا ہوگا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ سوچنا بھی زیادتی ہے۔‘‘
’’لیکن حالات تو یہی بتاتے ہیں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ نہیں، میں نوشاد کو خوب جانتا ہوں۔‘‘
’’ہاں اور کیا۔۔۔ وہ کم گو۔۔۔ نہایت نیک اور بزدل قسم کا سیدھا سادا جوان ہے۔‘‘
’’ہاں بھئی، آج کل۔۔۔ پولیس کچھ بھی کر سکتی ہے۔ کوئی محفوظ نہیں۔‘‘
’’خدا جانے۔۔۔ یہ تو عجیب پہیلی ہے۔۔۔‘‘
لوگ باگ استفسار کر رہے تھے اور اضطراب کی کیفیت طاری تھی۔
نوشاد کے پاپا دنیادار آدمی نہ تھے۔ انہیں تو اس بات کابھی سلیقہ نہ تھا، کہ ایسی صورت حال میں، کرنا کیا چاہیئے۔۔۔ بس وہ بیٹھے بیٹھے لوگوں کا چہرہ تک رہے تھے۔
اچانک وحید نے دھیرے سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔
’’آپ پریشان نہ ہوں، یہ ہراساں کرنے کی کوشش ہے اور پولیس کی اس عبث کاروائی سے ہم نپٹ لیں گے۔۔۔ فی الحال آپ آرام کریں۔۔۔ ہم پولیس اسٹیشن چلیں گے۔۔۔ جب تک میں سوسائیٹی کے لوگوں سے باتیں کرتا ہوں۔ ہم مل کر کوشش کریں گے۔۔۔ احتجاج کریں گے۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘
لیکن پولیس اسٹیشن میں تو نوشاد کا کوئی پتہ نہ تھا۔ اسے حراست میں لئے جانے کی کسی بات سے پولیس نے صاف انکار کیا۔
لوگوں نے نوشاد کو حراست میں لئے جانے کا منظر تو دیکھاہی نہ تھا۔۔۔ انہوں نے تو اس کے پاپا امجد علی کو، سڑک پر بے ہوش پایا تھا اور بس۔۔۔ لیکن اس الجھی صورت حال اور معاملے کی نزاکت کو لوگ خوب سمجھ رہے تھے۔۔۔ لہٰذا شام ہوتے ہوتے، لوگوں کی بھیڑ، پولیس اسٹیشن کے سامنے جمع ہو گئی اور احتجاجی ہنگامے۔۔۔ اور نعرے بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔ یہ سلسلہ دو دنوں تک چلتا رہا۔۔۔
پھرا چانک دو دن کے بعد پولیس نے دہشت گرد افراد سے تعلق کا شاخسانہ تراشا اور۔۔۔ اور نوشاد کی گرفتاری ظاہر کی اور اس کے گھر سے برآمد لیپ ٹاپ، موبائیل۔۔۔ فلاپی، پن ڈرائیو کو ہنگامہ خیزانداز میں اور سنگین الزامات کے ساتھ، اسے عدالت میں پیش کیا۔ جہاں سے اسے جیل بھیج دیا گیا۔ حالانکہ معاملہ محض اتنا تھا کہ آرمس کے ساتھ گرفتار راجیش کے موبائیل میں نوشاد کانمبر محفوظ تھا اور فون ریکارڈ کے مطابق دونوں کی تقریباً ہر روز لمبی لمبی گفتگو ہوتی تھی۔۔۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جس روز نوشاد جیل بھیجا گیا، اسی دن راجیش جیل سے باہر آ گیا۔
لوگوں کا خیال تھا کہ بیل ملنے میں کوئی دشواری نہ ہوگی۔ کیونکہ پولیس نے چار جیز تو لگائے تھے، مگر اس کے سپورٹ میں محض دعوے کئے گئے تھے۔ کوئی شہادت کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھے۔۔۔ اس کے علاوہ ،اس کے وارنٹ پر زخم کے بارے میں نہیں لکھا گیا تھا۔ صدر اسپتال میں اس کو دکھاکر لایا گیا تھا، جب کہ وہ زخمی تھا۔ ہیلتھ اسکریننگ کے وقت تذبذب کا شکار، اسے لانے والے سپاہی نے وارنٹ کے پیچھے لکھ دیا۔۔۔
’’چوٹ لگا قیدی جمع دے رہا ہوں۔‘‘
ان حقیقتوں کے باوجود بیل حاصل کرنے میں بےحد دشواری کا سامنا تھا۔۔۔
ایسے میں امجد علی نے کچھ سوچ کر وحید سے کہا۔
’’کیوں نہ ہم سرفراز خاں ایڈوکیٹ سے اس سلسلے ملیں۔۔۔‘‘
’’ہاں, یہ مناسب ہے۔۔۔ وہ، وہ تو آپ کے ہونے والے سمدھی وقار احمدکے صاحبزادے ہیں نا؟ ضرور مدد کریں گے۔۔۔‘‘
’’وحید اور امجد علی کو اپنے گھر پر دیکھ کر غزالہ کا چہرہ متغیر ہو گیا۔
’’ہمیں۔۔۔ سرفراز خاں صاحب سے ملنا ہے۔۔۔‘‘ امجدعلی نے بمشکل کہا۔
’’آپ لوگ بیٹھیں۔۔۔ میں اطلاع کرتی ہوں۔‘‘ غزالہ کی آواز سپاٹ تھی۔
کوئی آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد سرفراز خاں ایڈوکیٹ ان کے سامنے تھے۔
’’کوئی خاص بات ہے کیا؟‘‘ انہوں نے رسان سے پوچھا۔
’’آپ کو تو خبر ہوگی ہی۔۔۔ میں۔۔۔ میں دراصل نوشاد کے بیل کے سلسلے میں۔۔۔‘‘
’’میں تو کریمنل کیس نہیں دیکھتا۔‘‘
’’ہاں، معلوم ہے۔۔۔ مگرمناسب مشورہ دیں، آخر میں کیا کروں؟‘‘
’’مشورہ۔۔۔؟ آپ کوئی بھی کریمنل وکیل کر لیں۔ بہت سارے وکیل ہیں۔۔۔‘‘
’’آخر کسے؟ ستارخان ایڈوکیٹ، فیروز اشرف ایڈوکیٹ۔۔۔ یہ دونام ذہن میں آتے ہیں۔۔۔ آپ بتائیں۔۔۔ کسے؟‘‘
’’دونوں اچھے ہیں۔۔۔ مناسب ہیں۔۔۔‘‘
وحید اب تک خاموش تھے۔ اچانک انھوں نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ شکریہ۔‘‘ اور امجد علی کا ہاتھ پکڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
باہر آکر انہوں نے امجد علی سے کہا۔
’’عجیب آدمی ہیں۔ نوشاد کی گرفتاری سے زیادہ ذلت توان کے رویے سے محسوس ہوئی۔ ﷲکی پناہ۔ امجد بھائی آپ بھی کیسے کیسے لوگوں سے ناتا جوڑے بیٹھے ہیں۔۔۔ سنئے، میں کہتا ہوں۔۔۔ آپ غور کریں۔۔۔ ہم لوگ وکیل کے انتخاب کے سلسلے میں، اب تک ہم قوم ایڈوکیٹ کی ہی بات کرتے رہے ہیں۔۔۔ مگر میں سوچتا ہوں ہوں۔۔۔ شیلندر کمار ایڈوکیٹ بہت مناسب رہیں گے۔۔۔‘‘
’’تم جو مناسب سمجھو۔۔۔ میں تو ذہنی طورپر بالکل خالی ہوں۔‘‘
جس وقت یہ دونوں شیلندر کمار ایڈوکیٹ کے دفتر میں داخل ہوئے، وہ سامنے ریولونگ چئیر پر بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔۔۔ ان کی آمدکی آہٹ سے انہوں نے نظر اٹھائی اور اچانک چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ جوڑ کر امجد علی سے مخاطب ہوئے۔۔۔
’’سر آپ؟ آپ یہاں۔۔۔ میں تو دھنیہ ہو گیا۔‘‘
’’تم۔۔۔ تم؟‘‘
’’ہاں۔۔۔میں شیلندر آپ کا اسٹوڈنٹ۔۔۔ کتنا وقت بیت گیا۔۔۔ میں آج بھی آپ کے اسنیہہ کو محسوس کرتا ہوں۔۔۔ یہ آپ کا آشیرواد ہے کہ میں یہاں، اس جگہ۔۔۔ اس مقام پر ہوں۔‘‘
امجد علی کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ انہوں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔
’’سر۔۔۔ سر۔۔۔ آپ لوگ بیٹھیں۔۔۔ بتائیں، میں کیا سیوا کر سکتا ہوں۔۔۔‘‘ پھر شیلندر کمارنے گھنٹی بجائی۔ چپراسی کے آنے پر، پانی اور چائے کے لئے کہا۔
تمام حالات سننے کے بعد شیلندر کمارنے تاسف ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ جیسے سجن منشیہ کے ساتھ یہ۔۔۔ یہ گھٹنا۔۔۔ شاید بھگوان آپ میں آتم وشواس پیدا کرنا چاہتا ہے۔۔۔ دنیا میں اچھے منشیہ کو ہی کٹھن پرستھیتی جھیلنی پڑتی ہے۔۔۔ خیر آپ بھروسہ رکھیں۔۔۔ میں دیکھتا ہوں، کیا ہو سکتا ہے۔۔۔ آپ بے فکر رہیں۔۔۔‘‘
’’مجھے اطمینان ہو گیا۔ مگر۔۔۔ آپ کی فیس؟‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں، ماسٹرجی۔۔۔ مجھ سے یہ پاپ تو نہ کرائیں۔۔۔‘‘
یہ کہنا شاید عبث ہوگا کہ نوشاد کو بیل ملنے میں کتنا وقت لگا۔۔۔ اصل اور اہم بات یہ ہے کہ وہ جیل سے باہر آ گیا۔ جیل کے ذیلی گیٹ سے جھک کر، وہ باہر نکل آیا۔۔۔ اس نے اپنے چاروں طرف کئی شناسا چہروں کو دیکھا۔۔۔ جو طمانیت اور عافیت کے جذبوں سے چمک رہے تھے۔ مگر وہ خود اپنے اندر طمانیت اور عافیت کی کوئی رمق محسوس نہ کر سکا۔ سب اپنے تھے۔ بظاہر سب کچھ ویسا ہی تھا۔ مگر جانے کیوں اسے اپنے اردگرد اجنبی اجنبی سا ماحول لگ رہا تھا۔۔۔ گویا چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔۔۔ اس کا صاف ستھرا، اجلا اور بےداغ وجود کہیں گم ہو گیا تھا اور ایک نجس، گندا اور کراہیت آمیز پیکر اس کے وجود سے گویا لپٹ گیا تھا، جس نے خوش آئند مستقبل، خوش نما اور دلفریب خواب کو جلا دیا تھا۔ عجیب عجیب خیالوں کے جنگل میں گھرا، لرزاں وخیزاں، وہ گھر آ گیا۔
اس کے لئے لوگوں کی محبتیں کچھ زیادہ ہی دکھائی دے رہی تھیں۔۔۔ وہ سوچنے لگا، شاید وہ اس محبت کا متحمل نہیں۔۔۔ وہ جس محبت کا متلاشی تھا۔۔۔ جس کا سہار ا اور اعتماد، اسے حوصلہ شکن حصار سے باہر لا سکتا تھا۔۔۔ وہ کہاں؟
پھر دھیرے دھیرے لوگ اس کے پاس سے رخصت ہو گئے اور وہ اپنے کمرے میں آگیا۔ ہاں یہ وہی جگہ ہے۔۔۔ جہاں خوف اور سراسیمگی کے مہیب دیونے اس کے وجود کو اپنے شکنجہ میں لے لیا تھا۔ اس کے دل نے دھیرے سے کہا، اسے تحمل سے کام لینا ہوگا اور ہر طرح کے خوف اور وسوسے سے خود کو بچانا ہوگا، مگر۔۔۔ مگر تنہا۔۔۔ وہ تنہا کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔ لیکن وہ تنہا کہاں ہے؟ غزالہ اس کے ساتھ ہے۔۔۔ وہ ہر لمحہ۔۔۔ ہرپل گویا اس کے ساتھ ہے۔۔۔ پھر بھی وہ تنہا ہے۔۔۔ یہ تنہائی کا غار اس کے وجود سے کیوں لپٹ گیا؟
غزالہ اس کے سامنے کیوں نہیں آتی۔۔۔ جیل میں بھی، وہ ملنے نہیں آئی۔۔۔ اس نے حالات کے اس ستم کے باوجود، اس کی خبرگیری نہیں کی۔۔۔ اپنے اعتماد کا اظہار بھی نہ کیا۔ آخر کیوں؟حالانکہ وہ ہر لمحہ، ہرپل، جیل کے اتھاہ اندھیروں میں۔۔۔ تنہائی میں اسے اپنے پاس محسوس کرتا رہا۔۔۔ اٹھتے بیٹھتے۔۔۔ سوتے جاگتے۔۔۔ رگ وپے میں، اس کے وجودکا احساس لئے، وہ جیتا رہا اور مرتا رہا۔ وہ سوچتا تھا، غزالہ اس کے ساتھ ہے، ایک مضبوط سہارا بن کر۔۔۔ وہ چاہتا تھا، اپنی داستان الم اسے سنائے۔۔۔ مگر کیا، وہ سن پائےگی؟
اس نے چاہا، غزالہ کو فون کرے مگر اس کے پاس فون نہ تھا۔۔۔ کمرے میں اس کا لیپ ٹاپ بھی نہ تھا۔ اس کادل غزالہ سے شکوہ کرنے کے لئے مضطرب تھا۔ کیوں اس نے اس کی دلجوئی نہ کی۔ اس کاحال نہ پوچھا، کیا رابطے کی کوئی صورت نہ تھی۔ کسی بھی ذریعے سے کوئی پیغام دیا ہوتا۔ اظہار تاسف تو کیا ہوتا۔ اس اندھیرے میں، اس کے وجودکی کرن، اجالا بن گئی ہوتی۔ وہ اس کی بےگناہی کی گواہ تو بن سکتی تھی۔ وہ جس المناکی سے گزر چکاتھا۔۔۔ اس سے کہیں سوا ہے، اس کی یہ بےاعتنائی۔۔۔ وہ ایسی تو نہ تھی۔۔۔ وہ ایسی تونہ تھی۔۔۔وہ۔۔۔!
پھر گویا صدیاں گزر گئیں۔
غزالہ سے اس کا رابطہ نہ ہو سکا۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ وہ تو ہر لمحہ اس کے رابطے میں تھی۔۔۔ ہر وہ جگہ جہاں وہ ملتے تھے، وہ گیا۔ اس نے ہر اس لمحے کو دوبارہ جینے کی کوشش کی، جب وہ اس کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔
آزاد پارک کے پودوں سے گھرے، اس گوشے میں، جہاں ہری ہری، نرم اور مخملی گھاس بچھی ہوتی، وہ گھنٹوں بیٹھے رہتے۔
ایک شام وہ وہاں اسی جگہ بیٹھا تھا۔ اس طرح گویا غزالہ اس کے سامنے ہے۔۔۔
اس نے دھیرے سے مگر بیتابی سے پکارا۔
’’غزالہ۔۔۔‘‘
اسے نوحہ کرتی ہوئی ایک دلدوز آواز سنائی دی۔
وہ گھبرا گیا۔ اس نے سوچا۔ یہ پارک تو وہی ہے۔ یہ وہی گوشہ ہے۔ مگر آس پاس کے لوگ اجنبی تھے۔ یہ دنیااجنبی تھی۔ اس ناآشناد نیا میں، وہ کہاں نکل آیا؟ یہ اس کا شہر نہیں۔ یہ اس کی دنیا نہیں۔ اس کی فضا میں آشنائی کی کوئی رمق نہیں۔۔۔ کوئی مہک نہیں۔۔۔
لیکن اس احساس کے باوجود، وہ اگلے لمحہ پھرپکار اٹھا۔
غزالہ۔۔۔
امیدوں کو سجانا وہ چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ حالانکہ سپنوں کا کینوس اور برش، سب پتھر بن گئے تھے۔ بےجان۔ استقلال اور ہمت سے خالی۔ بزدل اور بےوفا۔۔۔
اس کے سارے وجود میں ایک کپکپی سی طاری ہو گئی۔
اس نے ایک بار پھر دھیرے سے پکارا۔
غزالہ۔۔۔
غزالہ، تم سن رہی ہو، یہ داستان الم۔
لیکن اس کی آواز گم ہو گئی۔ کہاں کا تکلم اور کیسی گفتار۔۔۔ نہ وہ زندوں میں تھا۔۔۔ نہ مردوں میں، سانسیں جہاں تھیں وہیں رک گئیں، پاؤں جہاں تھے، وہیں تھم گئے۔ اس کے لئے زمین سخت تھی اور آسمان دور۔۔۔
نوشاد کی اپنے آپ میں گم رہنے کی عادت اور اپنوں سے بیگانگی بڑھتی ہی گئی۔ یہاں تک کہ وہ لوگوں کی پہچان بھی بھولنے لگا۔ اسے غزالہ۔۔۔ اس کا نام۔۔۔ اس کے ساتھ گزارے ہوئے ایام تو یاد تھے۔۔۔ مگرا کثر اپنے اردگرد کے ماحول کو بھول جاتا۔۔۔ ایسے میں اس کے اپنے، اس کے گھرکے لوگ۔۔۔ اسے چاہنے والے، سوچنے لگے۔۔۔ وہ نارمل تو نہیں ہے؟ وہ پاگل بھی نہیں ہے۔ لیکن اس کی صحت گر چکی تھی۔ ملازمت ختم ہو گئی تھی۔ وہ سارے سارے دن سراسیمہ اور متوحش خالی خالی آنکھوں سے خلا میں گھورتا رہتا۔۔۔
ایسے ہی عالم بے خودی میں، وہ جئے چلا جا رہا تھا کہ اچانک ایک دن،اس کی نظر ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے نکلتی ہوئی غزالہؔ پر پڑی اور وہ سرعت سے اس کے پاس پہنچ گیا۔
’’غزالہ۔۔۔‘‘ اس نے رقت انگیز لہجے میں پکارا اور وارفتگی کے عالم میں چاہا کہ اس کے دونوں کندھوں کو پکڑ کر اپنے قریب کر لے۔۔۔ مگر غزالہ تیزی سے چند قدم پیچھے ہٹ گئی، غزالہ چند قدم پیچھے کھسک گئی یا۔۔۔ یہ زمین۔۔۔ یہ آسمان تہہ وبالا ہو گئے۔۔۔ !
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.