عظمیٰ چیخ سن کر پلٹی تو دیکھا کہ اس کی سات سالہ بیٹی کا چہرہ سفید پڑ رہا ہے۔ بہت عرصے بعد آج صبح ہی اُس نے نوٹ کیا تھا کہ عُنّاب کے رخسار پہلی بار گہرے گلابی نظر آنے لگے تھے۔
کیا ہوا بِٹیا؟ عظمیٰ مختصر سے پتھریلے زینے پر ٹھہر گئی اور پلٹ کر عنّاب کی طرف دیکھا تو عناب بھاگ کر اُس کے گھٹنوں سے لپٹ گئی۔
وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ مجسمہ چلنے لگا ہے امی۔ وہ میرے پیچھے پیچھے آ رہا ہے۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔ عُنّاب پر کپکپی طاری تھی۔
نہیں بیٹے۔۔۔ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ عظمیٰ نے جھک کر اس کے آنسو پونچھے۔ اس کے ماتھے پر آ رہے بالوں کو ایک ہاتھ سے سنوارا اور دوسرے ہاتھ سے اسے لپٹائے رکھا۔ مگر اُس کا ہاتھ اس کے رخسار کے قریب ہی ٹھہر گیا اور وہ خود کسی پتھر کے بت کی طرح اُس منظر کو دیکھتی رہ گئی، جسے اُس کی عقل کسی صورت بھی قبول کرنے پر تیار نہ تھی۔
اس دن بچے جھیل کی سیر کے بعد بیحد اداس تھے۔عظمیٰ انہیں کِسی ایسے مقام پر لے جانا چاہتی تھی جہاں ان کا جی بھی بہل جاتا اور ان کے تجسس کی تسکین بھی ہو جاتی۔ عظمیٰ خود کو ان کا مجرم سمجھ رہی تھی۔ مگر اس کا بھی کوئی قصور نہ تھا۔
وہاں کی جھیلیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔ عظمیٰ نے انہیں سفر کرنے سے کئی دن پہلے سے جھیلوں اور وادیوں کی بہت سی باتیں بتائی تھیں ۔
بٹکل لیک جیسی۔۔۔ ؟ عنّاب نے پوچھا تھا۔
نہیں بیٹے۔۔۔ یہ تو مصنوعی ہے۔۔۔ سیاحوں کو attractکرنے کے لیے سرکار نے بنوائی ہے۔
تو کیا وہاں کی ساری جھیلیں Natural ہی ہیں ۔ عظمیٰ کا دس سالہ بیٹا راحیل بولا۔
ہاں بیٹے۔جھیلیں تو قدرت کی ہی بنائی ہوتی ہیں۔ اب چونکہ انسان جھیلیں خود بھی بنا سکتا ہے اس لیے اب بہت سی مصنوعی جھیلیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ مگر ہمارے وہاں کی جھیلیں دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کا پانی اتنا شفاف ہوتا ہے جیسے۔۔۔ جیسے۔۔۔
جیسے مِنرل واٹر؟ دو میں سے کسی نے کہا تھا۔
ہاں بیٹا۔۔۔ ایسا شفاف کہ بس۔۔۔ کوئی دس سال پہلے آپ کے ابّو کے ساتھ گئی تھی میں وہاں۔۔۔ جھیل کی سیر کو۔۔۔ شکارے میں بیٹھ کر۔ پانی اتنا صاف تھا کہ جھیل کی تہہ میں اگی آبی گھاس صاف نظر آتی تھی۔ لمبی لمبی۔۔۔ پانی کی سطح تک آتی ہوئی۔ ذرا سا جھانکو تو ہری ہری گھاس میں روپہلی مچھلیاں ادھر ادھر پھرتی نظر آتیں۔ چھوٹی، بڑی بے شمار۔ آپ دیکھیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔ جھیل کے کناروں کے قریب جہاں پانی کی نسبت مٹی زیادہ ہوتی ہے وہاں گلابی رنگ کے نیلوفر یعنی۔۔۔ کنول کے بڑے بڑے پھول کھلا کرتے ہیں۔۔۔ اگست کے مہینے میں۔ اُن کے پتے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ عناب کے چھوٹے سے سرکا چھاتا بن سکتے ہیں۔ عظمیٰ نے عناب کا سر ہاتھ میں تھام کر ہولے سے ہلا دیا۔ دونوں بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
پھر ان مچھلیوں کے شکاری بھی نظر آتے ہیں۔ جانتے ہو کون؟
کون؟
نیل کنٹھ۔۔۔ اور کون۔۔۔ نیلے، سرخ، نارنجی پروں والے۔ لمبی لمبی چونچوں والے۔ پانی کے بالکل قریب اڑتے ہوئے اچانک گردن تک پانی میں ڈبکی مار کر جھٹ سے کسی مچھلی کو دبوچ کر ’’پھر‘‘ سے اڑ جاتے۔
بیچاری۔۔۔ مچھلی۔۔۔ عناب نے اداس سا ہو کر کہا۔
یہ تو Food Chain ہے۔۔۔ کوئی نہ کوئی Living Beingکسی نہ کسی دوسرے Living Being کو کھاتا رہتا ہے۔ راحیل نے عناب کو دیکھ کر سمجھانے کے انداز میں کہا تھا۔
عظمیٰ کی مسکراہٹ میں محبت جھلکنے لگی۔
یہ تو ہم شہر کی جھیل کی بات کر رہے تھے۔ وہاں کے قصبوں میں اور بھی بہت سی مشہور جھیلیں ہیں جن کے حسن کا جواب ہی نہیں۔۔۔ ایک تو دنیا کی شفاف ترین جھیلوں میں دوسرے نمبر پر آتی ہے۔
پہلی صاف جھیل Supreme Lake ہے نا امی؟ راحیل نے سر ہلا کر کہا تھا۔
ہاں بیٹا۔
بچوّں ہی کی طرح عظمیٰ خود بھی بےقرار تھی۔
کوئی دس برس ہو گئے تھے۔۔۔ اس نے ان گلیوں کو نہیں دیکھا تھا جہاں وہ کھیلی تھی۔ وہ خوابوں میں خود کو ان راستوں پر ٹہلتا دیکھتی جہاں سے گزر کر وہ سکول، کالج، یونیورسٹی گئی تھی۔ اُسے اس ہوا کی خوشبو یاد آیا کرتی جس کی ٹھنڈک اُس کے جسم و جاں کو تر و تازہ رکھتی تھی۔
کیا دن تھے وہ۔۔۔
وہ ہاتھوں کی محراب سی بنا کہ منھ پر رکھ لیتی اور اپنے کمرے کی درمیانی کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوئی منھ سے کک کک کک۔۔۔ کک کک کک آوازیں نکالتی۔۔۔ جانے کس درخت کی کون سی ٹہنی پر ننھے ننھے کیڑوں کو کھوجتا کوئی ہُدہُد اُس کی آواز میں آواز ملا دیتا۔ کبھی وہ بولتی، کبھی ہُدہُد بولتا۔
کھڑکی کے قریب ایک پُرانا پیڑ بھی تھا۔ جس پر سیاہی مائل سرخ شہتوت اُگا کرتے تھے۔ اُس کی شاخوں میں چڑیوں نے گھونسلے بنائے تھے۔ ان کی چہکار سے ہی اکثر وہ بیدار ہوا کرتی تھی۔
ایک دفع جب کرم کشی والوں نے ہر سال کی طرح، ریشم کے کیڑوں کے چارے کے لیے شہتوت کے درخت کی پتوں سے لدی ساری شاخیں اُتار لی تو چڑیا کا ایک گھونسلہ جانے کیسے دو ٹہنیوں کے درمیان ٹکا رہا تھا۔ مسہری پر کھڑے ہو کر عظمیٰ کو سارا منظر صاف دکھائی دیا کرتا تھا۔ چڑیا اپنے بچوّں کے حلق میں چونچ ڈال کر اور سر جھٹک جھٹک کر دانہ اُنڈیلتی۔ اور بچے پنکھ پھڑپھڑاتے للچائی للچائی سی چہکار چھیڑے رکھتے۔ عظمیٰ پہروں اُنہیں سنا کرتی، گھنٹوں دیکھا کرتی۔ چڑیا نے کیسے اڑنا سکھایا تھا اپنے بچوّں کو۔۔۔ قدم بہ قدم۔۔۔ جیسے عظمیٰ نے راحیل اور عُنّاب کو چلنا سکھایا تھا۔ جس طرح اس کی ماں نے اسے سکھایا ہوگا۔
چڑیا ایک بار پھدک کر بچے کو دیکھتی تو وہ بھی ویسی ہی کوشش کرتا۔ مگر کبھی ایک پنکھ کھولنا بھول جاتا کبھی عدم توازن کی وجہ سے گر پڑتا۔ یا پھر بس۔ چڑیا کی طرف چونچ کیے رہ جاتا۔
چڑیا کے بچوں نے جب پہلی انفرادی اڑان بھری تھی تو اس کے کمرے کے درمیان میں لٹک رہے چھوٹے سے فانوس پر آ بیٹھے تھے۔ وہاں کمروں میں سیلنگ فین کم ہی ہوا کرتے تھے بلکہ ہوا ہی نہیں کرتے تھے۔ ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
وہ چوکھٹ پر دانہ بکھیر دیا کرتی تھی۔ بچےّ شاید اس کی موجودگی سے کبھی خائف نہ تھے۔
فانوس کی تار کے ارد گرد سوکھی ہوئی چکنی مٹی سے دو ابابیلوں نے سیلِنگ سے لگا کر ایک گھونسلہ بھی بنا رکھا تھا۔ خدا جانے یہ مخصوص مٹی کس مخصوص ندّی کے کنارے سے لاتی تھیں یہ ابابیلیں ۔ایک گھونسلے کے لیے ان گنت بار مٹی ڈھونا پڑتی اور مٹی بھی ایسی جیسے اس میں گوند ملا دیا گیا ہو۔ بھری ہوئی چونچ کی ساری مٹی گھونسلے سے چپک جاتی اور ایک ذرہ بھی نیچے نہ گرتا۔کبھی اتوار کو عظمیٰ جب دیر سے بیدار ہوتی تو سیلینگ کے قریب سے یاقوت جیسی چار آنکھیں چمکا کرتیں ۔ چپ چاپ دیکھتی ہوئی۔ ابابیلوں نے کبھی اسے جگانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ مگر جب وہ اُٹھ بیٹھتی اور کھڑکی کا پردہ سرکاتی تو وہ لطیف سی چہکار چھیڑ دیتیں۔ جیسے ایک ایک ماترا پر گایا جانے والا کوئی غیر یقینی نغمہ۔۔۔ جن دنوں عظمیٰ اپنے اس کمرے میں اکیلی سونے لگی تھی تو ابابیلوں کی موجودگی نے اکیلے ہونے کا احساس تک اُس کے پاس نہ آنے دیا تھا۔
سفید سینوں اور کالے کالے لمبے پنکھوں والی ابابیلیں ۔جیسے خمیدہ کمر والی ضعیفاؤں نے سفید لباس پر بڑے بڑے سیاہ اوور کوٹ پہن رکھے ہوں۔
کتنی یادیں کتنے سکھ وابستہ تھے اس جگہ کے ساتھ۔ دکھ بھی وابستہ ہوں شاید۔۔۔ مگر اسے یاد نہ تھے۔
مگر ہم جائیں گے کب امی۔۔۔عناب نے مچل کر کہا تھا تو راحیل کی آنکھوں میں سوالیہ سی چمک جگمگائی تھی۔
آج آپ کے ابو ٹکٹ لے آئیں گے۔۔۔ بس آپ اپنی اپنی پیکنگ مکمل رکھئے۔ کل یا پرسوں ہی نکلنا ہوگا۔۔۔ گھنٹے بھرکی اڑان۔۔۔ اور ہم اپنے شہر میں۔۔۔
جب وہ شہر پہنچے تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ایرپورٹ سے نکل کر سڑک پر آئے تو سفیدے کے لمبے چھریرے درخت دیکھ کر عظمیٰ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
یہ سفیدے کے درخت ہیں بیٹا۔
گاڑی کی پچھلی نشست پر اپنے دائیں بائیں بیٹھے بچوّں سے اس نے کہا۔
اور وہ بید کے۔۔۔ یعنی Willow۔
فیروز نے ہاتھ سے سڑک کے کناروں سے ذرا دور باغوں کی طرف اشارہ کیا۔
ان کی ایک قسم Weeping Willows کہلاتی ہے جو زیادہ نمی والی زمین میں اچھی طرح پنپتی ہے۔
Weepingکیوں ابو۔۔۔
وہ بیٹا اس لیے کہ اُن کی ساری شاخوں کا جھکاؤ زمین کی جانب ہوتا ہے۔ جیسے کسی پہاڑی سے کوئی جھرنا بہہ رہا ہو۔ ان کو بیدِ مجنوں بھی کہتے ہیں۔۔۔
برگد کی طرح؟،جس کی جڑیں اوپر سے نیچے لٹکتی رہتی ہیں۔راحیل نے کہا۔
ہاں۔ کچھ کچھ۔
لوگ کتنے گورے ہیں۔۔۔ وہ دیکھئے امّی۔ راحیل نے سڑک کے کنارے کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں بس سٹاپ پر کچھ طلبا بس کے منتظر تھے۔
اور Red, Red بھی۔ عُنّاب نے کہا۔
آپ یہاں رہیں گے تو آپ بھی ایسے ہی سرخ و سفید ہو جائیں گے۔ یہاں کی ہوا تازہ جو ہے۔۔۔ پہاڑوں پر ایسی ہی تازگی نظر آیا کرتی ہے۔۔۔ جب ہم یہاں سے گئے تھے تو راحیل کے رخسار سیب ایسے سرخ تھے۔ عظمیٰ نے اُس کے رخسا ر پر ہاتھ پھیرا۔
اور میرے امّی۔۔۔
آپ تو پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں۔ Metro Polis اور گرم آب و ہوا میں رہ کر ہم سب ہی سانولے سلونے ہو گئے۔۔۔ عظمیٰ ہنس دی۔
چھٹیاں مہینے بھر کی تھیں۔ ہفتہ بھر رشتہ داروں سے ملاقاتوں میں گزر گیا۔
دوسرے ہفتے کوئی چھ روز ہڑتال رہی کہ کسی دکاندار کوکسی سرکاری محافظ نے محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر گولیوں سے بھون دیا۔ اس کے بعد شہر میں اِدھر ادھر بم دھماکے ہونے لگے۔ ضروری کاموں کے لیے لوگ قدرت کے بھروسے نکل جاتے مگر گھومنے پھرنے کے خیال سے کہیں جانا۔۔۔؟ بات کچھ بنتی نہ تھی۔
پھر یوں ہوا کہ ان کی رہائش ہی کے باہر بارودی سرنگ میں دھماکا ہوا۔۔۔ دھماکے والے بھاگ گئے۔ راہگیروں کو پکڑا گیا۔ گھروں کی تلاشیاں ہوتی رہیں۔
تین دن پہیہ جام رہا۔۔۔ اور آخیر ہفتہ بس سوچوں میں گزر گیا۔
واپسی میں دو دن رہ گئے۔ اب تو کہیں جانے کا پروگرام بنانا ہی تھا۔ بچےّ جھیل کی سیر کے لیے بیقرار تھے اور ان سے زیادہ عظمیٰ اور فیروز۔
جھیل تک کا راستہ کچھ زیادہ طویل نہ تھا۔ ان دنوں اس راستے میں پانچ چھ سرکاری پارک ہوا کرتے تھے۔ اب صرف ایک بچا تھا۔ باقیوں میں قطار در قطار نئے نئے کتبے کھڑے تھے۔ اکثر پر درج عمریں ۱۵ اور ۳۰ برس کے درمیان تھیں۔
وہ لوگ جب جھیل کے قریب پہنچے تو موسم نہایت خوشگوار تھا۔
جھیل کا باندھ کئی جگہ سے ٹوٹ چکا تھا۔ کناروں کے پانی میں چھلے ہوئے بھٹے اور Wafers کے خول تیر رہے تھے۔ پانی گدلا تھا۔
یہ تو گندی ہے امی۔۔۔ عُنّاب نے ماں کی طرف دیکھ کر بے یقینی کے سے تاثرات لیے کہا۔
یہ کنارہ ہے نا۔۔۔ آگے آگے بالکل شفاف ملے گی جھیل۔عظمیٰ نے کچھ سوچتے ہوئے جیسے اپنے آپ سے کہا۔ فیروز شکارے والے سے بات کر رہا تھا۔
ہم شکارے میں بیٹھ کر وہاں تک جائیں گے۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ دور جو چھوٹا سا جزیرہ ہے نا۔۔۔ جس میں چنار کے چار درخت ہیں۔۔۔ وہ وہاں۔۔۔ وہاں جاتے ہوئے ہمیں راستے میں بےشمار ننھی ننھی مچھلیاں، ہری ہری آبی گھاس۔۔۔ نیل کنٹھ اور سب کچھ دیکھنے کو ملےگا۔ عظمیٰ نے ہاتھ سے دور اشارہ کر کے بچوں سے کہا۔
ہری بیلوں اور بڑے بڑے سرخ پھولوں والے پردوں اور نرم ربر کی کشادہ سیٹوں والا ایک شکارہ کنارے کے زینے سے لگا ان کا منتظر تھا۔۔۔ شکارے کا نام لیک برڈ (Lake Bird) تھا۔
بچے گاؤ تکیوں سے لگ کر بیٹھ گئے۔ عظمیٰ اور فیروز آگے والی نشست پر بیٹھے اپنے اطراف دیکھ رہے تھے۔۔۔ کوئی دو ایک شکارے دور دور نظر آ رہے تھے۔
رونق کتنی کم ہو گئی ہے۔ عظمیٰ نے رونق کے غائب ہونے کی جگہ رونق کم کہا تو فیروز کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
کشتی کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ عظمیٰ کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی۔
کتنی یادیں وابستہ تھیں اس جھیل کے ساتھ۔۔۔ وہ اپنے ابوّ امّی اور بہن بھائیوں کے ساتھ ایک بڑی سی گھر نما کشتی میں، عمدہ پوشاک پہنے، سامانِ خورد و نوش سے لیس جھیل کی سیر کو نکلی ہے۔ کناروں پر مغل باغات کی سیر بھی کی جائےگی۔۔۔ ابوّ کتنی مصروفیت کے باوجود چھٹی کے روز سب کو سیر پر لے جاتے تھے۔
اب ابو بھی نہیں رہے۔۔۔ میلے کا سا سماں ہوا کرتا تھا۔ مقامی لوگوں سے لدی کشتیاں، ملکی اور غیر ملکی سیاح۔۔۔ کوئی موٹر بوٹ پر جھیل کے پانی میں زور و شور سے لہریں پیدا کرتا ہوا جا رہا ہے کوئی Water Skiing کر رہا ہے۔ ہنی مون پر آئے جوڑے شکاروں کے پردے برابر کیے عہد و پیمان میں مصروف ہیں، کہیں پیراکی ہو رہی ہے، کہیں کسی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے۔۔۔ کسی پھولوں سے لدی کشتی کو کوئی گل رخ حسینہ کھیتی ہوئی پھول بیچ رہی ہے۔ ان پھولوں میں گلِ نیلوفر اپنے حسن و جسامت کی بنا پر سب پھولوں کا بادشاہ معلوم ہوتا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ گلاب، نرگس، گیندا، موگرا، چمیلی اور جانے کون کون سی قسم کے پھول ماحول کو معطر کیے ہوئے ہیں۔ کسی کشتی پر پھلوں اور سبزیوں کی بہا رہے۔ جھیل میں تیرتے باغیچوں میں اگی سبزیاں اور ایک سبزی جو پانی میں اگا کرتی ہے۔ نیلوفر کے پھول کا موسم ختم ہو جانے پر اُس کے درمیان کا حصہ جہاں ننھی ننھی پتیاں اگی ہوتی ہیں ، رفتہ رفتہ پروان چڑھتا ہے اور کمل ڈوڈہ کہلاتا ہے۔ جس میں نرم و نازک لذیذ گریاں ہوتی ہیں اور اسی نیلوفر کی ڈنڈی بڑی ہوکر، کمل ککڑی، بھیں یا ندور کہلاتی ہے۔ جو ایک مرغوب سبزی ہے۔ جھیل کے کناروں پر ہی ایک مخصوص قسم کی گھاس بھی اگتی ہے جس کی شاخیں نہیں ہوتیں۔ اس کی چٹائیاں بُنی جاتی ہیں۔ ان چٹائیوں پر مٹی بچھا کر اسے قابل کاشت بنایا جاتا ہے۔ ان تیرتے ہوئے باغیچوں میں اُگی سبزیاں حیاتین سے پر ہوتی ہیں۔ عظمیٰ نے سنا تھا کہ اس طرح کے تیرتے ہوئے باغ وادی کے علاوہ دُنیا میں صرف جنوبی امریکہ میں ’پیرو کی ٹٹیکا‘ جھیل میں پائے جاتے ہیں لیکن وہ قدرت کے بنائے ہوئے جزیروں پر انسان نے لگائے ہیں، جانے کیسے تیرتے ہوں گے وہ جزیرے۔ ان پر بھی سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔ مگر وادی کی جھیلوں، ڈل، وُلر وغیرہ پر تیرنے والے باغیچے انسان کے ہاتھوں کا کرشمہ ہیں۔۔۔ آج پھلوں پھولوں والی کوئی کشتی نظر سے نہیں گزی ابھی تک۔
عظمیٰ سوچتی۔۔۔
یہ ملاح کتنی سست رفتاری سے نیّا کھے رہا ہے۔ جیسے اداس ہو۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ، پرجوش ملاحوں کی کشتیوں میں بیٹھنا ایک الگ ہی لطف دیتا تھا۔
کہیں کیوں نظر نہیں آ رہی تھیں آج یہ سب چیزیں۔؟۔ ۔ ۔ کیوں ۔ ۔ ۔ ؟ ہاں وہ جانتی تھی کیوں ۔ مگر سمجھنے سے قاصر تھی۔ دور کنارے پر کہیں کنول کے پھول کھِلے ہوئے تھے۔
عظمیٰ حیرت سے دیکھنے لگی۔
یہ تو اگست میں کھِلا کرتے تھے۔ جون میں ہی کیسے۔۔۔ ہاں کرۂ ارض کی حرارت بڑھ جو گئی ہے۔۔۔ اسی لیے۔۔۔ اس دفع دوپہریں کچھ گرم بھی تھیں۔۔۔ عظمیٰ کو کئی بار خیال آیا تھا کہ یہاں بھی گرمی سے نپٹنے کا کوئی انتظام کیا جانا چاہیے۔ نئے مکانوں میں اسی لیے اب سیلِنگ میں پنکھے لگائے جا رہے ہیں۔۔۔ بھٹے، اخروٹ وغیرہ جو اکتوبر میں پکا کرتے تھے۔۔۔ فروخت ہو رہے ہیں۔۔۔ ساری دنیا ہی بدل رہی ہے۔۔۔ عظمیٰ آسمان کو دیکھنے لگی۔
مگر جھیل تو نہیں بدلی۔۔۔ اسے یکلخت خیال آیا تو وہ جھک کرپانی کو دیکھنے لگی۔ کشتی کنارے سے خاصی دور آ گئی تھی۔۔۔ مگر پانی۔۔۔
عظمیٰ کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا اور ریزہ ریزہ بکھر گیا۔ وہ پانی کو دیکھتی چلی گئی۔ پانی مسلسل ویسا ہی نظر آ رہا تھا جیسا کناروں کے قریب تھا صرف اس میں اس وقت اسے چھلے ہوئے بھٹے اور ویفرس کی خالی تھیلیاں نظر نہیں آ رہی تھیں۔
جھیل کا پانی پہلے سے اتنا مختلف تھا کہ اسے محسوس ہوا وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔۔۔ کوئی ڈراؤنا خواب جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اس کے چاروں طرف میلا گدلا پانی تھا۔۔۔ دور دور تک پھیلا ہوا۔۔۔ جیسے پانی میں سیاہی جیسی کوئی چیز گھل گئی ہو۔ گلی سڑی گھاس کے تنکے پانی میں تیر رہے تھے۔ پانی کسی کم گاڑھے دلدل کی طرح معلوم ہوتا تھا۔محض انچ بھر گہرائی کے بعد،پانی کے اندر کچھ واضح نہ تھا کہ کنارے پر بنے ہوٹلوں اور آبی گھروں کی آلودگی کا نکاس جھیل میں ہی ہوتا اور صفائی کا انتظام نہ کے برابر۔ کہیں کوئی مچھلی نہیں تھی۔۔۔ نہ ہی کوئی نیل کنٹھ۔ بچے اس سے جانے کیا کیا سوال کر رہے تھے۔ فیروز انھیں تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ شاید اپنے اندر کوئی بکھراؤ سا محسوس کر رہی تھی کہ خود کو سمیٹ کر کسی سے بات کرنا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔
کیا صدیوں پہلے کی طرح آج کوئی حکیم سویہ نہیں پیدا ہو سکتا۔ کیا پھر سے کوئی معرکہ سر نہیں ہو سکتا۔ کتنا مشہور ہے کشمیر کی تاریخ میں سُویہ کا کارنامہ۔ صدیوں پہلے کا کارنامہ۔ ۔ ۔ نویں صدی کے ایک راجہ اونتی ورمن کے راج میں ایک دانا درباری حکیم سُویہ ہوا کرتا تھا۔ جہلم جو اُن دنوں وِتستا کہلاتا تھا، گرمی کے موسم میں اکثر و بیشتر طغیانی پر ہوتا کہ دھوپ کی تمازت سے پہاڑوں کی برف پگھل کر وادیوں کی طرف بہہ نکلتی تھی۔ اور کناروں پر بسے گاؤں، شہر سیلاب کی زد میں آ جاتے تھے۔ خطے کے شمالی علاقوں میں ایک حصہ ہر برس جب سیلاب کا شکار ہونے لگا تو سویہ نے رعایا سے محبت کرنے والے راجہ اونتی ورمن کے خزانے سے اشرفیاں لے کر دریا میں پھینکی جنھیں پانے کی خواہش میں لوگوں نے دریا کی تہہ سے ّمٹی نکال کر دریا کو گہرا اور کناروں کو اونچا کر دیا جس سے سیلاب کا خطرہ جاتا رہا۔۔۔ لوگ سُویہ کے اس کارنامے کی وجہ سے اسے حکیم سویہ پکارنے لگے کہ اُس کی حکمت سے وہ ایک بہت بڑی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو گئے تھے۔ اس مقام کا نام سُویہ پور رکھا گیا جو رفتہ رفتہ سوپور ہو گیا۔۔۔ عظمیٰ افسردگی سے سوچتی رہی۔۔۔ کیا آج کوئی ایسا حکیم۔۔۔ کوئی حاکم۔۔۔ کوئی ہمدرد۔۔۔ کوئی۔۔۔
کشتی کو ہلکا سا جھٹکا لگا تو اس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ کشتی کنارے سے لگ چکی تھی۔ بچے بجھے بجھے سے تھے۔ فیروز خاموش۔۔۔ اور وہ بےحد اداس۔ فیروز کو کہیں جانا تھا۔
عظمیٰ کی نظر بچوّں کے چہروں کی طرف اُٹھ گئی۔
عجائب گھر دیکھیں۔۔۔؟۔۔۔ Museum?۔
پتہ نہیں اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ جیسی کوئی شے کہاں سے آ چپکی۔
ایک دم پرانے زمانے کی چیزیں۔۔۔ جو آپ نے کبھی نہ دیکھی ہوںگی۔۔۔ اس نے تاثرات میں اشتیاق پیدا کیا۔
جی امی۔۔۔ رحیل نے آہستہ سے کہا۔
ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔ عناب ہلکے سے مسکرائی۔
میوزیم جہلم کے کنارے ایک روح پرور باغ سے لگا ہوا نہایت پرسکون معلوم ہو رہا تھا۔ پھاٹک کے قریب ریت کے تھیلیوں میں محفوظ پہرے دار نے ان کی شناختی پرچیوں کا معائنہ کیا۔۔۔ میوزیم میں داخل ہوتے ہی بچےّ ہشاش بشاش نظر آنے لگے۔
احاطے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک پرانے وقتوں کی توپ نے ان کا استقبال کیا۔اُس کے بعد مہاتما بدھ کا ایک قدیم مجسمہ نظر آیا۔ داہنی طرف چھوٹا سا زینہ اتر کر باغیچے کے کنارے سے لگا ہوا ایک بہت بڑا پتھر تھا جو کوئی کتبہ معلوم ہوتا تھا۔ دوسری طرف بغیر سرکی ایک مورتی تھی جس کا جسم نہایت خوبصورتی سے تراشا گیا تھا۔
عمارت کے اندر جانے کا راستہ مختصر تھا اور پتھر کی پتلی لمبی سلوں کو ساتھ ساتھ رکھ کر بنایا گیا تھا۔۔۔ سلوں کے درمیان جا بجا ہری ہری گھاس اگ آئی تھی۔
عمارت میں داخل ہوتے ہی ان کی نظر سرسوتی کے ایک پر شکوہ مجسمے پر پڑی، جس کے قدموں کے پاس لکھی عبارت پر دوسری صدی کی کوئی تاریخ درج تھی۔ سرسوتی کا مجسمہ آنکھیں بند کیے پراسرار سے انداز میں مسکرا رہا تھا۔ شیشے کے ایک بڑے شوکیس میں ایک اور مورتی تھی۔۔۔ یہ مورتی درگا کی تھی جو ایک بہت بڑے دروازے میں جڑی ہوئی تھی۔ غالباً کسی مندر کا حصہ رہی ہو گی اور کھدائی میں دریافت ہوئی تھی۔ اس کے گرد لگے دائرے میں ماتا درگا کے مختلف روپ لیے کئی چھوٹے چھوٹے مجسّمے تھے۔۔۔ اور یہ سب ایک ہی پتھر کو تراش کر کسی عظیم فن کار نے نہایت مہارت سے بنایا تھا۔
یہ چھٹی صدی میں رائج تھا۔۔۔ تانبے کاہے۔ بجھے بجھے سے گائڈ نے عجائب خانے کی سیر کو آئے اکلوتے سیاح کنبے کو بتایا۔ یہ سکہ مجسمے کے بالکل سامنے شیشے کی چھوٹی سی صندوقچی میں لگا تھا۔
دوسری طرف بھگوان مہاویر کا بہت بڑا مجسمہ جیسے کہ صدیوں سے مراقبے میں بیٹھا تھا۔ کونے میں کالی کی پر جلال مورتی تھی۔اُس کا ترشول اس کے پیروں کے پاس پڑے کسی ظالم کے سینے میں پیوست تھا۔
ہال کا آخری سِرا ایک مستطیل کمرے کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔۔۔ جس میں چھوٹے سے دروازے سے گزر کر ہی داخل ہوا جاتا۔
اس کمرے میں مختلف اوزار اور ہتھیار تھے۔ شیشے کی الماریوں میں بند۔جن کے کونوں پرسن، حاکم کا نام وغیرہ درج تھا۔
راحیل اور عناب انھیں نہایت دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
چھ چھ فٹ لمبی بندوقیں۔۔۔ ذرہ بکتر۔کچھ ہاتھی دانت کے دستے والی تلواریں تھیں۔ مخصوص امراء وزراء کی۔ کچھ پر دھات میں چِھلائی سے گل بوٹے بنے ہوئے تھے۔
قافلہ دوسرے ہال میں داخل ہوا۔۔۔ وہاں کی اشیاء بالکل مختلف تھیں۔ مغلوں کے زمانے کے غالیچے۔پشمینے کے قالین۔۔۔ شاہ توس کی ایک بڑی سی چادر پر مہاراجہ رنبیر سنگھ کے وقت کے شہر کا ایک نقشہ۔ مکمل تفصیل سے بنا ہوا۔ جس میں جھیلیں، بستیاں، کوہ، دریا سب مختلف رنگوں کے ریشمی دھاگوں سے کاڑھے گئے تھے۔
مغلیہ، شاہی پوشاکیں، رومال وغیرہ۔ پیرماشی اور اخروٹ کی لکڑی سے بنی دستکاریاں مختلف دھاتوں کے برتن۔ ہاتھ دھلوانے والا تانبے کا قلعی کیا ہوا بہت بڑا ّمنقش کوزہ اور آفتابہ۔
اسے کیسے استعمال کرتے ہوں گے امّی؟ راحیل نے پوچھا۔
کئی کئی لوگ اٹھاتے تھے دونوں کو۔۔۔ بیک وقت کم سے کم چھ چھ آدمی۔گائڈ نے اسے بتایا۔
شیشے کے ڈھکن والی لمبی سی میز کے اندر مختلف دھاتوں کے ہاتھ سے بنے زیورات تھے۔ ان میں کچھ اب بھی رائج ہیں ۔ عظمیٰ نے سوچا۔ جیسے کانوں کے بڑے بڑے بالے۔ اتنے بھاری جھمکے کہ ایک دوسرے سے ایک زنجیر کے ساتھ جوڑے گئے تھے۔وہ زنجیر سرکے اوپر آنچل کے اندر رہتی اور کانوں پر بوجھ نہ پڑتا۔
دھات اور پتھروں سے بنی پازیبیں، مالائیں۔۔۔ کچھ برتن۔کچھ قدیم کتب کے قلمی نسخے۔۔۔ مغل بادشاہ اور نگ زیب کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن پاک۔ کچھ قدیم ریاستی معاہدے۔۔۔
اتنی دلچسپ اور اہم اشیاء کو دیکھ کر عظمیٰ اور بچے کچھ کھِلے سے مطمئن سے نظر آ رہے تھے اور پراشتیاق ہر شے کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
اس کے بعد کے ہال کو ایک راہداری کے ذریعے دوسری طرف کے ہال کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔بچے اگلے ہال کی طرف جا چکے تھے۔
عظمیٰ جب وہاں پہنچی تو بچے نہایت انہماک سے وہاں نسب مجسّموں کو دیکھ رہے تھے۔ یہ مجسمے ریاست کے تینوں خطوں میں رہنے والے لوگوں کے مختلف ملبوسات میں ایستادہ ڈمی کی طرح بنائے گئے تھے۔ مگر قدیم لباس میں۔ بغیر زیورات کے۔ سادہ۔سادہ سے۔
اپنے بچپن میں بھی عظمیٰ نے انھیں اسی جگہ پر ایسے ہی نسب دیکھا تھا۔ ان کے کپڑے اب بوسیدہ ہو چکے تھے۔ گو کہ نلکیوں کے ذریعہ تمام الماریوں تک پرزرویٹو گیس (Preservative Gas) پہنچائی جاتی تھی مگر یہ مجسّمے الماریوں میں نہیں رکھے گئے تھے۔
سامنے کا دروازہ ایک بڑے ہال میں وا ہوتا تھا۔ اس میں عنقا اور موجود، دونوں قسم کے بہت سے پرندوں اور جانوروں کی کھالیں حنوط کر کے اس مہارت سے اصلی شکل میں منتقل کی گئی تھیں کہ نقل کا گماں تک نہ ہوتا تھا۔
شیر۔ چیتا۔ تیندوا۔ مارخور بکرا جس کے سینگ خمدار ہوتے ہیں اور جو بڑے شوق سے سانپ کھاتا ہے۔ اود بلاؤ۔ نیولا۔ بھالو وغیرہ۔ اور اس کے علاوہ وادی میں پائے جانے والے پرندے، چیل۔کوّا۔ گدھ۔ کبوتر۔ ُسن چچُر جو مور سے مشابہ ہوتا ہے کہ اس کے سر پر تاج تو ہوتا ہے مگر دم نہایت مختصر۔ مختلف قسم کی بطخیں، راج ہنس، بگلے، طوطے، مینا، کستوری، کئی طرح کی بلبلیں اور دیگر اقسام کی چڑیاں۔
اسی ہال میں دوسری طرف اکبر بادشاہ کا چھوٹا سا آدھے دھڑ کا مجسمہ تھا۔ عظمیٰ کو یاد آیا کہ جب وہ بہت چھوٹی سے تھی تو اس کے چچا نے بنایا تھا۔چچا بہت لگن سے مجسمے بناتے تھے۔ انھوں نے اکبر کے تاج پر سونے کے گھول سے نقاشی کی تھی۔پھر بازو کی تکلیف کی وجہ سے انھوں نے اپنا یہ مشغلہ چھوڑ دیا تھا۔ چچا نے اپنی ایک چہیتی بیوی کا مجسمہ بھی بنایا تھا۔ وہ ان کی دوسری بیوی تھی۔ وہ مجسمہ اب بھی ان کی آبائی حویلی کے کسی گوشے میں محفوظ ہے۔
یہاں کئی مجسمے چچا کے ہاتھوں کے بنے تھے۔ اونی پھرن اور ٹوپی پہنے حقہ پیتا ہوا آدمی۔ سماوار سے پیالی میں چائے انڈیل رہی تِلّے کی کڑھائی والے گریبان کا پھرن پہنے خاتون۔ ہل چلاتا ہوا کِسان۔ دودھ بلوتی ہوئی گرہستن وغیرہ، کانچ لگی الماریوں میں محفوظ تھے اور اب بھی ان کی چمک جوں کی توں قائم تھی۔ ویسی ہی جیسے عظمیٰ نے اپنے بچپن میں دیکھی تھی۔
مگر ٹوٹے کانچ کی الماریوں کے اندر کی چیزوں میں کوئی جاذبیت باقی نہیں تھی۔یعنی حال کی طرح ماضی بھی اجڑ سکتا ہے کہ یہاں کی بھی دیکھ بھال ٹھیک طرح سے نہیں ہو رہی تھی۔ عظمیٰ نے ایک گہری سانس لی۔
گائڈ دوسرے ہال تک ساتھ آ کر لوٹ گیا تھا۔
وہ اداس اداس سی آگے بڑھتی رہی۔۔۔ ایک ایک چیز کو غور سے دیکھتی ہوئی جانے کیا کیا سوچتی ہوئی۔
ہال کے آخری سرے پر جہاں سے برآمدہ نظر آتا تھا، ایک قدِ آدم مجسمہ ایک پرانی چھوٹی سی میز پر ٹکا ہوا تھا۔ جیسے کسی ایسی بیمار لڑکی کی مورت، جو کھڑی رہنے سے تھک کر ذرا سا میز پر بیٹھ گئی ہو۔ سوکھی لکڑی سے ہاتھ پاؤں۔۔۔ گڈھوں میں دھنسی آنکھیں۔۔۔ عظمیٰ نے یہ مجسمہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ عظمیٰ سوچنے لگی۔ کس قدر عظیم فن پارہ۔۔۔ کسی بلند درجہ فنکار کا بنایا ہوا مجسمہ۔۔۔ وہاں کی ادھیڑ عمر کنواریوں کا ہو بہو عکاس۔ عظمیٰ اس شاہکار کو انگشت بدنداں دیکھتی رہ گئی۔
واہ۔۔۔
جانے مجسمے کی آنکھوں میں کیا بات تھی کہ دل میں درد سا بھر جاتا۔۔۔ اس کی نظریں باہر برآمدے والے راستے پر گڑھی تھیں جیسے وہ کسی کی راہ تک رہا ہو۔
عظمیٰ عش عش کر اُٹھی۔ اور بچوّں کو بلاتی ہوئی عمارت سے باہر نکل آئی۔ راحیل اس کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔
عنآب نے پکار کر کہا کہ آ رہی ہے۔۔۔
عجائب خانے کے کراہتے ہوئے سکوت میں اُس کی آواز گونج اٹھی۔۔۔ اونگھتے ہوئے محافظ نے چونک کر اِدھر ادھر دیکھا تھا۔
عظمیٰ آگے بڑھ گئی۔ ابھی اس نے پہلے ہی زینے پر قدم رکھا تھا کہ اسے عناب کی چیخ سنائی دی۔ عناب کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔
ادھیڑ عمر کنواری لڑکی کا لاغر مجسمہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا ہوا انہی کی طرف چلا آ رہا تھا۔
عظمیٰ دم بخود اسے دیکھتی رہ گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.