مقدس جھوٹ
کہانی کی کہانی
کہانی ایک بچے کے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے۔ بچہ اپنے ہی گھر میں چوری کرتا ہے اور جب اس کی ماں کو پتہ چلتا ہے تو وہ اس کی پٹائی کرتی ہے، جس کی وجہ سے بچہ بیمار ہو جاتا ہے۔ بیماری کی حالت میں بچے کو اپنے باپ کی سنائی کہانی یاد آتی ہے کہ جب بچپن میں انھوں نے ایک بار چوری کی تھی تو پکڑے جانے پر اپنی غلطی کو قبول کر لیا تھا۔ بچے کو دکھ ہے کہ اس نے اپنی چوری قبول کیوں نہیں کی۔ بعد میں اسے پتہ چلتا ہے کہ ابا نے جھوٹ کہا تھا، انھوں نے اپنی چوری قبول نہیں کی تھی، اس بات سے اسے سکون کا احساس ہوتا ہے۔
اپنے خدا پرست خاندان میں، میں سب سے چھوٹا تھا۔ جب میں چھ سال کا تھا تو اس وقت میرے باپ کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی۔ میرے باپ کو نزلے کی پرانی بیماری تھی۔ اس لیے وہ کچھ گنگنا کر بولتے تھے۔ ان کا دماغ آسانی سے خوشبو اور بدبو میں فرق محسوس نہیں کر سکتا تھا۔ کبھی کبھی ان کی باتوں پر لوگ منہ دوسری طرف کر کے ہنس دیتے تھے۔ میں ہنستا بھی تھا اور افسوس بھی کرتا تھا۔ نزلے کی وجہ سے ان کے سر اور داڑھی کے بال برف کی طرح سفید ہو گئے تھے۔
میرے والد خاندان کے تمام بچوں کو اکٹھا کر لیا کرتے اور ان کے شور سے بچنے کے لیے انہیں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ان کی کہانی عام طور پر ان کی زندگی کے کسی واقعے سے متعلق ہوتی تھی اور اس میں نصیحت کا پہلو ضرور ہوتا۔ کہانی عام طور پر یوں شروع ہوتی تھی۔
’’جب میں چھوٹا سا تھا۔‘‘
ان کے بچپن کی ایک کہانی ہم سب کو بہت پسند تھی۔ ہم بہت سے بچے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے پرتھوی بل کے کھلے صحن میں بیٹھ جاتے اور اپنے بزرگ کی ایک ہی کہانی، ان کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ بار بار دہراتے۔ ایک شرط بہت ضروری تھی اور وہ یہ کہ اگر ہمارا دوست بالم کند کہانی سنائے تو اسی طرح آنکھیں مٹکا کر اور چٹکی بجا کر سنائے۔ میرے باپ کی کہانی تمام بچوں کو اسکول کے پہاڑوں کی طرح یاد تھی اور باسی روٹی کی طرح مزہ دیتی تھی۔ اگر میں اس کہانی کا ایک لفظ بھی بدل دیتا تو دوسرے بچوں کی نظر میں کوئی بہت بڑا جرم کر دیتا تھا۔ ایسے موقع پر میرے چچیرے بھائی بہن ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوتے۔ وہ کہانی چوہوں کے متعلق تھی اور ایک طرح ہمارے خاندان میں ایک گیت بن چکی تھی۔ یہ کہانی اس طرح تھی۔
جب بابا (میرے باپ) اور چاچا دیوا چھوٹے سے تھے تو ان کو ایک بار چوہے پکڑنے کی سوجھی۔ ان دنوں یہاں ہمارے بڑے سے دیو نما پرتھوی بل کے گھر کی جگہ ایک چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا مکان ہوا کرتا تھا جس میں چوہوں کے بڑے بڑے بل تھے۔ چوہے ہر روز پنیر کی ٹکیاں اور بابا کی مزے دار باسی روٹیاں اٹھا کر لے جاتے تھے۔ چاچے دیوے نے ایک بڑا سا پنجرہ لگایا۔ سارے چوہے پھنس گئے، مگر ایک چوہا بھاگ گیا اور سرنگ میں گھس گیا۔ اب تمہیں یہ جاننا چاہیے کہ (بچے اس موقع پر بڑے خوفزدہ ہو جاتے ) سرنگ ایک بہت لمبا چوڑا بل ہوتا ہے جس میں سے گزر کر چوہے جنگل میں اور پھر اپنے مکان میں آ جاتے تھے۔ بابا نے اس سرنگ کے منہ پر ایک پنجرہ رکھ دیا اور اس کو شہتوت وغیرہ کے پتوں سے ڈھک دیا۔ آنے والی صبح کو چاچا دیوے کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ پنجرے کے پاس جائے۔ اس لیے بابا اکیلے ہی گئے۔ اکیلے (دہراتے ہوئے ) بابا اس وقت چھوٹے سے بچے ہی تو تھے!
انہوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ پنجرے پر سے پتے ہٹائے تو دیکھا کہ اس میں ایک چوہا تھا۔ بھورے رنگ کا پورے قد کا!
مٹکتا ہوا اور لٹکتا ہوا۔۔۔ لٹکتا ہوا اور مٹکتا ہوا۔
بابا اس قدر گھبرائے۔ اس قدر گھبرائے کہ بھاگتے ہوئے جوتوں سمیت چوکے میں گھس گئے۔ (ہمارے لیے کہانی کا یہ حصہ سب سے زیادہ حیرانی پیدا کرنے والا تھا۔) جوتوں سمیت بھاگتے ہوئے چوکے میں چلے گئے۔ (’’چوکا‘‘ ہندوؤں کے گھروں کا باورچی خانہ ہوتا ہے، جہاں جوتوں سمیت جانا منع ہوتا ہے۔)
وہ بھاگتے ہوئے آئے اور چاچا دیوے کو آوازیں دینے لگے، ’’دیوے؟ او دیوے؟‘‘
آواز دیتے دیتے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ منہ کے دونوں طرف رکھ لیے تاکہ آواز ادھر ادھر بکھرنے کی بجائے اکٹھی ہو کر چاچا دیوے تک پہنچ جائے۔ پھر اس قدر زور سے پکارے کہ ان کی آواز ایک چیخ میں بدل گئی۔ اور پھر چیخ نے کھانسی کا روپ دھار لیا۔ کھوں، کھوں۔ پھر بابا نے چوہے کو مار دیا۔ بالکل مار دیا اور جہانگیر آباد کے بھنگی سے اس کی کھال اتروا کر اسے چھت پر رکھ دیا۔ جب کھال سوکھ گئی تو انہوں نے اسے پھگو بھنگی کے ہاتھ بیچ دیا۔ پھگو نے اسے کسی اور کے ہاتھ بیچ دیا اور اس نے کسی اور۔۔۔ اور پھر ایک آدمی نے اس کی فر بنا دی۔ آج کل بڑی بھابی کے سویٹر پر وہی فر لگی ہوئی ہے۔
اس موقع پر بات ناقابل برداشت ہو جاتی۔ تمام بچے جھوٹ جھوٹ، بکواس، بکواس کا شور کرنے لگتے کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ موٹی جرنیل بھابی کے خوب صورت سویٹر پر ایک چوہے کی فر لگی ہو؟
آپ نے دیکھا کہ اس واقعہ میں نصیحت کی گنجائش نہیں۔ میرے باپ کی زندگی کا یہی ایک واقعہ ایسا تھا جس میں ان کی کمزوری دکھائی دیتی تھی۔ وہ خود کس قدر ڈرپوک تھے اور ہمیں ہمیشہ بہادر بننے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ بچوں کے دماغوں کے لیے اس قسم کے واقعات، سچائی، تمیز اور دوسری نصیحتوں سے بھری ہوئی مثالی کہانیوں سے کہیں زیادہ اثر ڈالتے ہیں۔ ان سے ہمیں سچائی کا پتا چلتا تھا اور ہماری سمجھ میں یہ بات آ جاتی تھی کہ ہمارے بزرگ بھی کبھی بچہ تھے، ورنہ دوسری طرح کہانیوں میں وہ بچوں کی بجائے ہمیں بوڑھے ہی نظر آتے تھے۔ جیسے پیٹ تک لمبی ڈاڑھی بچپن ہی سے ان کی ٹھوڑی سے لگی ہوئی تھی۔
بابا کی دی ہوئی آزادی کی وجہ سے ہم خاصے شرارتی ہو گئے تھے۔ آخر کار ہماری روز روز کی شرارتوں سے تنگ آ کر اور ہماری عادتوں کو سنوارنے کے لیے بزرگوں نے ہمارے لیے ایک ماسٹر مقرر کر دیا جو ہمیں چھوڑ کر باقی سب کی عزت کرتا تھا۔ ہمارے اس ماسٹر نے ایک نئی ہی چیز ایجاد کر دی۔ ہم میں سے جو لڑکا زیادہ سعادت مند ہوتا اس کو با ادب با تمیز ہونے کے سلسلہ میں ایک سرخ رنگ کا نشان دے دیا جاتا۔ اس ’’نئے پن‘‘ کا ہم پر بہت اچھا اثر ہوا مگر سچی بات یہ ہے کہ اس امتیازی نشان نے ہماری ذہانت کو اسی طرح غلام بنا دیا تھا جس طرح انگریز حکمران ہمارے کسی قومی بھائی کو دیوان بہادر یا خان بہادر بنا کر اس کے ہاتھ پاؤں کی آزادی چھین لیتے تھے۔ اس طرح کے عزت یافتہ لڑکوں کو ہم بڑی للچائی اور افسوس بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے اور اکثر ’’با ادب با تمیز‘‘ کے لفظوں میں سے ’’ادب‘‘ اور ’’تمیز‘‘ نکال کر بکری کے بچے کی طرح ’’با۔۔۔ با‘‘ ممیانے لگتے۔ حالانکہ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ ہماری اس حرکت میں ’’انگور کھٹے ہیں‘‘ والا جذبہ بہت ہوتا تھا اور سچائی اور آزادی کی کھوج کا جذبہ کم۔
بہار کے موسمی حسن نے اپنی کشش چھوڑ دی تھی اور اس کے میٹھے پن میں کڑواہٹ آ گئی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب شہتوت کے درختوں میں کونپلیں پھوٹ رہی ہوتی ہیں اور ان میں نکلے ہوئے پھول راہ چلتے لوگوں کی نظروں کو للچا کر دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ چنار کے چوڑے پتے اپنی گھنی چھاؤں میں ماں کی گود کی طرح راحت بخش رہے تھے۔
ایسی ہی ایک شام میں میرے ساتھ بھی ایک واقعہ پیش آیا، مجھے بھی وہ سرخ نشان دے دیا گیا۔ اس وقت مجھے اپنے ساتھیوں کا ممیانا اور مجھ پر ایک طرح غداری کا الزام دینا بہت برا لگا۔
ہمارے ماسٹر صاحب نے مجھے عقل مند اور با اخلاق بنا دیا۔ میرے بزرگ بہت ہی خوش تھے کہ میں دوسرے بچوں کی طرح گستاخ نہیں ہوں مگر مجھے معدے کی شکایت رہتی تھی۔ جو بچے مویشیوں کی طرح بے تحاشا چرتے تھے وہ تندرست تھے لیکن میں جو کھانے میں بھی احتیاط برتتا تھا، ہمیشہ بیمار رہتا تھا۔
ہماری بیٹھک میں صندل کی صندوقچی کے پاس ایک قلم دان تھا اور اس پر کچھ پیسے پڑے ہوئے تھے۔ ایک دن میں لیمپ جلا کر اس کی مدھم روشنی میں کتاب پڑھ رہا تھا۔ مگر میرا دل، میری سوچ، شہتوت اور چنار کے پتوں کو پھلانگتی ہوئی ہوا کی سیٹیوں کی طرف اٹکا ہوا تھا اور میری زبان لمبے لمبے شہتوتوں کا ذائقہ لے رہی تھی اور میرے ہاتھ پاؤں خیالوں کی ندی کے پانی میں چپوؤں کی طرح ہل رہے تھے۔
پرتھوی بل سے باہر ’’دتا‘‘ اسی طرح سنگھاڑے بیچ رہا تھا۔ میں نے میز کے پاس کھڑے ہو کر اپنے جسم پر لگے ہوئے سرخ نشان کی طرف دیکھا، پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے قلم دان کی طرف بڑھا اور وہاں سے پیسے اٹھا لیے اور سرخ نشان کو پھاڑ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔
کہنے کو تو میں نے یہ سب کچھ کر دیا تھا لیکن چند منٹوں کی خوشی کے بعد جب میرا ضمیر جاگا تو میں اپنی نظروں سے گر چکا تھا۔ عین اسی وقت گھر میں چوری ہونے کی بات پھیل گئی اور پھر معلوم نہیں کہ امی کو کیسے ہمارا چور ہونا معلوم ہو گیا اور انہوں نے جی بھر کے ہمیں پیٹا۔ شام کو مجھے بخار ہو گیا۔ میرا جسم اور میرا دل قدرت کے رحم کے قابل نہیں رہا تھا۔ میرا ضمیر مجھے مسلسل ملامت کر رہا تھا۔ میری نبض تیز ہو گئی۔
شام کو بابا آئے۔ مجھے ان کا منہ ٹیڑھا، ترچھا نظر آ رہا تھا۔ پھر رنگ برنگے نقطے پھیلنا شروع ہو گئے مگر ان نقطوں کے پھیلے ہوئے دائروں میں سے مجھے بابا کی دودھ جیسی سفید ڈاڑھی اسی طرح ٹھنڈک پہنچا رہی تھی۔ میں نے بابا کو بتایا کہ امی نے مجھے چوری کے جرم میں بہت مارا ہے۔ حالانکہ میں نے چوری نہیں کی تھی۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ بابا نے بھی اپنی زندگی میں چوری کی تھی لیکن انہوں نے دادی کے سامنے اپنی چوری تسلیم کر لی تھی۔ اس روز ماں جب پیسوں کے متعلق پوچھ رہی تھی تو میں انجان بن گیا تھا۔ اس وقت مجھے بار بار یہی خیال آ رہا تھا۔ کاش! میں اپنے بابا کی طرح با ہمت ہوتا اور اپنے جرم کو مان لیتا۔
ایکا ایکی میرے دماغ اور جسم میں شدید درد اٹھا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی پیار بھرا ہاتھ میرے سر کی ساری گرمی کھینچ رہا ہے۔ میں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں اور بابا کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا، ’’بابا کہانی سنایئے؟‘‘
’’کون سی کہانی بیٹے؟‘‘
’’جب آپ بچہ تھے۔ آپ نے ایک بار چوری کی تھی۔ آپ نے امی کے سامنے یہ چوری مان لی تھی۔ اس وقت آپ بہت چھوٹے سے تھے نا؟‘‘
بابا میری امی کو آواز دیتے ہوئے بولے، ’’سیتا! پانی کا ایک گلاس لاؤ۔۔۔ تو نے نندی کو کیوں مارا ہے؟ میں جانتا ہوں وہ کیوں بیمار ہے۔ جلدی پانی لاؤ؟‘‘
پھر پانی کا گلاس پکڑ کر اس میں سے ایک گھونٹ حلق میں انڈیلتے ہوئے بولے، ’’ہاں نندی! میں نے یہ کہانی تم لوگوں کو سنائی تھی کہ میں نے چوری کی تھی اور ماں کے سامنے اس چوری کو تسلیم کر لیا تھا۔‘‘
اس کے بعد بابا یک دم خاموش ہو گئے۔ اس وقت جب کہ وہی پیار بھرا ہاتھ میری تمام مصیبتوں کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا، ان کی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر کہا، ’’بیٹے! سچ یہ ہے کہ میں نے چوری کی تھی۔ جب میں چھوٹا سا تھا اور نندی سنو، میرے بیٹے اٹھو! میرے لال کھیلو۔ میں نے آج تک تیری دادی کے سامنے چوری کو تسلیم نہیں کیا۔ میں نے جھوٹ بولا تھا!‘‘
بابا کے ان الفاظ کا سننا تھا کہ مجھے یوں لگا کہ میں اندھیرے کنویں سے باہر آ گیا ہوں اور پھر اگلے ہی دن میرا بخار اتر چکا تھا۔۔۔ مگر آج جب میں آپ کو یہ کہانی سنا رہا ہوں، مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ بابا کا اصل جھوٹ کیا تھا۔ ان کا اصل جھوٹ یہ تھا کہ انہوں نے مجھے ضمیر کے بوجھ سے آزادی دلانے کے لیے یہ جھوٹ بولا تھا کہ دادی کے سامنے چوری کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہ بات جان لینے کے بعد مجھے کچھ نہیں ہوا، کوئی بخار نہیں ہوا! شاید اس لیے کہ اب میں بڑا ہو گیا ہوں!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.