Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مردہ سانپ

بابا مقدم

مردہ سانپ

بابا مقدم

MORE BYبابا مقدم

     

    گھنی شاخوں اورہری پتوں کی چھتری والا دارِ زعفران واحد درخت تھا جو لُرستان کے تخت آب و اشیون کے علاقے میں نظر آتا تھا۔ کچھ دن ہوئے، مجھے شوق پیدا ہوا کہ دارِ زعفران کو قریب سے جا کر دیکھا جائے۔ تخت آب میں خیمہ لگانے کے پہلے ہی دن میں نے ایک لرستانی سے اس درخت کا نام پوچھ لیا۔ اس سرزمین کے حد نگاہ تک پھیلے ہوئے پست و بلند میں یہ درخت پہچان میں آنے والا تنہا پیکر تھا جو ایک لمبے ٹیلے پر تنا کھڑا تھا، جیسے کوئی تماشاگر خود حیرت سے اپنی جگہ پر جم کر رہ گیا ہو۔ راتوں کو جب اندھیرا اترنے لگتا تو سیاہ پڑتے ہوئے سرخ افق کے پیش منظر میں درخت ایک دو گھنٹے تک کسی اساطیری ہیولے کی طرح نظر آتا رہتا۔ اور رات کی سیاہی جتنی بڑھتی جاتی اور ستارے جتنے روشن ہوتے جاتے، وہ تاریکی میں ڈوبتا اور گھلتا جاتا۔ تاریکی نیچے کی گھاٹیوں سے اٹھتی ہوئی آتی اور درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ 

    تیسرے دن میں نے درخت کے نزدیک جانے کا فیصلہ کیا۔ مغرب کے وقت میں نے چھڑی اٹھائی اور چل کھڑا ہوا۔ سید احمد، میرا خانساماں، بھی ہمراہ تھا۔ وہ کوئی پچیس سال کا ہوگا۔ اس کے پھولے پھولے گول زرد چہرے پر مہاسوں کی کثرت تھی اور اس کی اداس صورت میں اکیلی نمایاں چیز اس کی دھنسی ہوئی سوئی سوئی آنکھیں تھیں۔ 

    سورج کی چمک اب آنکھوں کو چبھ رہی تھیں۔ کسی پیلے تھال کی طرح وہ دور کی پہاڑیوں سے تھوڑا اوپر فضا میں معلق تھا۔ اس کے اوپر آسمان میں ٹکے ہوئے چھدرے بادل کا رنگ کالا پڑتا جا رہا تھا۔ اس کی نچلی گوٹ البتہ ابھی سرخ تھی۔ میرے سامنے پھیلی ہوئی زمین پر نالیاں نالیاں سی بنی ہوئی تھیں اور اس پر اٹھے ہوئے ٹیلے مل کر سمندر سے ابھری ہوئی بڑی بڑی مچھلیوں کی پیٹھوں کی طرح معلوم ہوتے تھے۔ 

    نیچے کی گھاٹیوں میں سایے گہرے ہو رہے تھے اور بلندی کی ماہی پشت زمین پر ہر طرف بکھری ہوئی کربی کی جھاڑیاں اور پتھروں کی سلیں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ یوں تو دن بھر ہی یہ علاقہ ویران اور خاموش رہتا تھا لیکن غروب کے وقت اس کا سناٹا پراسرار، وہم انگیز اور ڈراؤنا سا ہو جاتا تھا۔ نیچے سامنے والی گھاٹی سے ایک بنجارا اوپر جا رہا تھااور اس سے کچھ آگے بڑھ کر کئی اور بنجارے ایک اور پہاڑی کی کمر پر چل رہے تھے۔ ایک کگارے کے چھوٹے سے ہموار قطعے پر کئی سیاہ خیمے دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے ایک کے اندر سے دھواں اوپر جا رہا تھا۔ ایک اور خیمے کے سامنے رہ رہ کر شعلے بھڑک رہے تھے۔ 

    ہم ڈھلانوں سے اترتے ہوئے سایہ دار میدان میں پہنچ گئے اور تڑخی ہوئی زمین پر مشکل سے پیر جما جما کر ایک اور دامن سے اوپر چڑھتے ہوئے ٹیلوں کی روشن پٹی تک آ گئے۔ سورج نیچے اترتا جا رہا تھا جیسے کسی طلائی تمغے کی زنجیر کو آہستہ آہستہ ڈھیل دی جا رہی ہو۔ جتنی دیر ہم گھاٹیوں میں چلتے، دارِ زعفران نگاہوں سے اوجھل رہتا۔ ٹیلوں کے اوپر جا کر ہم اس کو دوبارہ دیکھتے اور اپنا راستہ اس کی جانب موڑ لیتے۔ 

    ہم درخت کے قریب پہنچ گئے تھے۔ اوپر سے وہ چھتری کی طرح تھا، اور زمین کے پاس ہی اس کے تنے سے کئی شاخیں پھوٹی تھیں جو اوپر اٹھ کر تیلیوں کی طرح درخت کی چھتری کو سنبھالے ہوئے تھیں۔ سورج ڈھل چکا تھا اور اب اپنے کنویں میں آخری غوطہ لگانے کو تھا۔ اس کی پھیکی نارنجی روشنی درخت کی چھتری اور تنے کی شاخوں سے چھنتی ہوئی زمین پر پڑ رہی تھی اور اس روشنی میں درخت کے نیچے کی ہموار زمین پر پڑے ہوئے سنگ پاروں کی پرچھائیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ خود درخت کی پرچھائیں اس کے قریب کی زمین پر واضح تھی مگر کچھ آگے بڑھ کر دھندلی ہوتی گئی تھی۔ میں اور سید درخت کی پرچھائیں پر چلتے ہوئے زمین کے روشن دھبوں کے نزدیک پہنچ رہے تھے۔ درخت کی شاخوں پر سیکڑوں چھوٹی چھوٹی چڑیاں بول رہی تھیں۔ 

    سید نے زور سے ہانک لگائی۔ اچانک چڑیاں بھرّا مار کر اڑیں اور درخت کے اوپر اوپر چتر کی طرح گھومنے لگیں۔ سورج کی ایک قاش غائب ہو چکی تھی اور بقیہ حصے کو آسانی سے نظر بھر کے دیکھا جا سکتا تھا۔ اب اس کا رنگ سرخ تھا جیسے پگھلا ہوا لوہا ٹھنڈا ہو چلا ہو۔ اس کے اوپر ٹکا ہوا چھدرا بادل پورا سیاہ ہو گیا تھا۔ دارِ زعفران کے دوسری سمت تیز ڈھال کی صورت میں اترتی ہوئی زمین ایک گھاٹی تک چلی گئی تھی۔ جھٹپٹے میں کچھ بنجارے چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔ ہوا کے ساتھ کسی بچے کی آواز رہ رہ کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ میں اور سید درخت کے نیچے تھے۔ میں درخت کی چکنی چھال پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور سید مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر گھوم گھوم کر درخت کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس کی ڈری ڈری آواز بلند ہوئی، 

    ’’ارے، سانپ!‘‘ 

    میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ سید نے ہاتھ سے ایک شاخ کی طرف اشارہ کیا۔ 

    شاخ میں ایک سانپ لٹکا ہوا تھا۔ 

    ’’لیکن مرا ہوا، گڈریوں نے پھن کچل کر ڈال میں لٹکا دیا ہے۔‘‘ 

    شاخ کی جنبش کے ساتھ اس کے دونوں طرف لٹکا ہوا سانپ کا بدن بھی دھیرے دھیرے ہل رہا تھا۔ پھن کچلے جانے کی وجہ سے اس کا منہ کھل گیا تھا۔ سرخ رنگ کا گوشت منھ سے باہرنکل آیا تھا، اسی میں کہیں اس کی آنکھیں بھی مل گئی تھیں اور اب ان کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ اس کی کمر بھی پھٹ گئی تھی۔ پتھر یا لاٹھی کا زخم تھا۔ سفید پیٹ پر کالی اور زرد چتیاں تھیں۔ باقی بدن پر سفید اور راکھی رنگ کے چھوٹے چھوٹے سفنے تھے۔ پتلا لمبا سانپ تھا او راس کی گردن پر نقطے نقطے تھے جیسے گلوبند لپٹا ہوا ہو۔ 

    سید، جو آگے بڑھ کر اسے دیکھ رہا تھا، بولا، 

    ’’مادہ ہے، گردن دیکھیے کتنی پتلی ہے۔ ان سانپوں کو مارنا نہیں چاہئے۔ جو مارتا ہے، ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ میں نے یہ سانپ دیکھے ہیں۔ کسی سے بولتے نہیں۔ اب دیکھ لیجئے گا، جس نے بھی اسے مارا ہے، پائی پائی کو محتاج، جنگل بیابان کی خاک چھانتا، در در بھٹکتا پھرے گا، جیسے میں پورے پانچ سال سے بھٹک رہا ہوں، اور ابھی پتا نہیں کہاں کہاں کا پانی لکھا ہے۔‘‘ 

    سورج کی بچی کھچی قاش بھی دور کے پہاڑوں کی اوٹ میں جا چھپی۔ گھاٹیاں تاریک ہو گئیں اور صرف ان کے حاشیوں اور ٹیلوں کی بلندی پر لالی باقی رہ گئی۔ اس کالے بادل کی گوٹ اب کسی جھاڑی کی طرح معلوم ہو رہی تھی جس میں آگ لگ گئی ہو۔ چڑیاں اب بھی درخت کے اوپر اوپر چکر کاٹ رہی تھیں اور شاخ پر مردہ سانپ آہستہ آہستہ ہل رہا تھا۔ دور پر سفید دھبوں کے سے ہمارے خیمے بمشکل نظر آ رہے تھے۔ ہم درخت سے کچھ دور ہو گئے تو چڑیاں دھیرے دھیرے دو تین چکر کاٹ کر پھردرخت پر بیٹھ گئیں۔ ہم گھاٹی میں پہنچے تھے کہ ان کی چہچہاہٹ سنائی دی اور سید نے اپنی کہانی شروع کی، 

    ’’کس کو یقین آ سکتا تھا کہ مجھے باورچی گیری کرنا پڑے گی۔ میرے ابا بیوپاری تھے۔ خرم آباد میں سب ان کو جانتے پہچانتے تھے۔ اب بھی، اتنے برسوں بعد بھی، وہاں ان کا نام لیجیے تو سب سوداگروں کو یاد آ جائے۔ کنبے میں بس میں تھا اورمیری ماں اورمجھ سے بڑی ایک بہن جو بیاہ کر سسرال کی ہو گئی تھی۔ میں ابھی چھوٹا تھا۔ اسکول میں پڑھتا تھا۔ میرے ابا تہران سے مال لا کر بیچتے تھے۔ اچھا بھلا کاروبار تھا۔ بہت سے لوگ تو ہم سے جلتے تھے۔ میری ماں دھیمے مزاج کی بے زبان عورت تھی۔ بچپن ہی سے میں دیکھتا تھا کہ اس کے دل میں کچھ ہے، جو وہ کسی کو بتاتی نہیں۔ دن میں دوبار وہ اس کوٹھری کے اندر ضرور جاتی تھی جو ہمارے مکان کے بڑے کمرے کے پیچھے تھی۔ وہاں جا کر وہ اندر سے دروازہ بند کر لیتی اور کچھ دیر تک وہیں رہتی تھی۔ 

    مجھ کو اس نے وہاں جانے سے منع کر رکھا تھا۔ کہتی تھی بچوں کو اندھیری جگہوں پر نہ جانا چاہئے۔ میں خود ہی اندھیرے سے ڈرتا تھا، اس لیے میرا بھی وہاں جانے کو جی بھی نہیں چاہتا تھا۔ مجھ کو اتنا پتہ تھا کہ اس کوٹھری میں میرے ماں باپ کے کپڑوں کے دو پرانے صندوق ہیں اور ایک بکس، ایک سماور اور کچھ اور سامان۔ 

    ایک دن میں نے ڈرتے ڈرتے دروازے کی جھری میں سے کوٹھری کے اندر جھانکا بھی تو مجھے سامنے کے طاقچے میں رکھے سماور کی چمک نظر آئی، بس۔ غرض وہ کوٹھری مجھے ایک اندھیری اور ڈراؤنی جگہ معلوم ہوتی تھی اور مجھ کو اس کے اندر قدم رکھنے کی ذرا بھی خواہش نہ ہوتی تھی۔ 

    جاڑوں کی ایک رات کی بات ہے، میں اسکول کا کام کرتے کرتے تھک کر کرسی 1 کے نیچے جا لیٹا اور سو گیا۔ ابا ابھی آئے نہیں تھے اور ہم نے بھی کھانا نہیں کھایا تھا۔ معمول یہ تھا کہ ابا کے آنے کے بعد سب ساتھ بیٹھ کر کھاتے تھے۔ شاید بھوک ہی کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔ باہر نکلا کہ ماں سے کھانا مانگوں۔ اچانک میں نے دیکھا کہ کرسی کے اوپر ایک سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ طاقچے میں جلتے ہوئے چراغ کی روشنی کرسی پر پڑ رہی تھی۔ 

    پہلے تو مجھے خیال ہوا کوئی رسی وسی ہے، لیکن جب اس نے پھن اٹھا کر میری طرف دیکھا تو میں ایک چیخ مار کر پھر کرسی کے نیچے گھس گیا۔ ماں کمرے کے باہر تھی، میری آواز سن کر آ گئی۔ اس نے مجھے کرسی کے نیچے سے کھینچ کر نکالا۔ میں نے جب اس کو ساری بات بتائی اور قسم کھا کر کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے کرسی پر سانپ دیکھا ہے تو وہ مجھ کو بہلانے لگی کہ میں نے خواب دیکھا ہوگا، ورنہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن مجھے اپنی آنکھوں پر بھروسہ تھا۔ مجھ کو یقین تھا کہ میں نے کرسی پر سانپ ہی دیکھا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس رات میں بڑی بے چین نیند سویا۔ دوسرے دن اسکول جاتے ہوئے میرے دل میں سانپ دیکھنے کی دہشت سمائی ہوئی تھی۔ کلاس میں بھی سارے وقت میری آنکھوں کے سامنے وہی منظر رہا کہ سانپ کنڈلی مارے ہوئے ہے اور پھن اٹھا کر مجھے دیکھ رہا ہے۔ 

    چھٹی کے بعد مجھ کو گھر جاتے ڈر لگ رہا تھا۔ دیر تک گلی کوچوں میں مٹرگشتی کرتا رہا۔ تھک گیا تو ایک مکان کی چبوتریا پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ ماں گھبرائی ہوئی مجھ کو گلیوں میں ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ وہ بہت پریشان تھی، کہتی جاتی تھی کہ سارے شہر کی خاک چھان ڈالی ہے۔ مجھے دیکھتے ہی لپک کر آئی اور اس آوارہ گردی کا سبب پوچھنے لگی۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ گھر میں جو سانپ نکلا تھا، اس سے مجھ کو ڈر لگ رہا ہے اور اب میری وہاں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر تھپکنے لگی اوربولی، بیٹے، ڈرو نہیں۔ آؤ گھر چلیں۔ تم نے کچھ اور دیکھا ہوگا۔ نیند میں تو تھے اور پھر سانپ سے ڈرنا کیا۔ اگر تھا بھی تو ہمارے ہی یہاں کا تو سانپ تھا۔ وہ گھراتی سانپ تھا۔ گھراتی سانپ کسی کو ستاتا نہیں۔ سب گھروں میں سانپ کا ایک ایک جوڑا تو ہونا ہی چاہئے۔ 

    پھر اس نے مجھ کو لے جا کر بازار سے گیہوں کی کھیلیں اور بتاشے دلوائے۔ ہم ساتھ ساتھ گھر لوٹے۔ راستے میں اس نے مجھے تاکید کی کہ سانپ والی بات کسی کو نہ بتاؤں۔ میں نے بھی وعدہ کر لیا۔ 

    اس قصے کو دن گزر گئے اور سانپ والی بات میرے لیے ایسی ہی ہو کر رہ گئی جیسے آدمی کسی پرانے زخم کی دُکھن کا عادی ہو جائے۔ مگر اس کے بعد سے میں کبھی گھر میں یا کمرے میں اکیلا نہیں رہتا تھا۔ ہمیشہ ماں کے پہلو سے لگا رہتا اور اسی کے ساتھ مکان میں اِدھر اُدھر آتا جاتا تھا۔ تہہ خانے اور خاص کر کوٹھری کا تو رخ بھی نہ کرتا تھا۔ میں کھٹک گیا تھا کہ جو بھی ہے، وہ اسی اندھیری کوٹھری میں ہے، جس کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا ہے اور صرف ماں اس کے اندر جاتی ہے۔ 

    آخر ایک رات ماں مجھ سے کہنے لگی، ’’بیٹے، تمہیں ایک بات بتانا ہے۔ اب تم سیانے ہو گئے ہو اور ضروری ہے کہ تم بھی وہ بھید جان لو اور کسی اورکو نہ بتاؤ۔‘‘ 

    میرا دل بولنے لگا کہ بات اسی سانپ کی ہے۔ میرا چہرہ فق ہو گیا اور بدن تھرتھرانے لگا۔ ماں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی، ’’آخر تو تمہیں پتا چلنا ہی ہے، اسی گھرمیں جو رہتے ہو، اورکسی نہ کسی دن وہ تمھیں دکھائی دے جائیں گے۔‘‘ 

    میں ماں سے چمٹا ہوا کھڑا سن رہا تھا، لیکن میرا جی چاہا کہ اس کے پاس سے بھاگ کھڑا ہوں۔۔۔ مجھے ماں سے بھی ڈر لگنے لگا تھا، جیسے اس نے خود اپنے پاس کہیں سانپ چھپا رکھے ہوں۔ وہ مجھ پر جھکی ہوئی بول رہی تھی اور اس کی گرم سانس مجھے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں میرا ہاتھ پسینے سے تر ہو گیا اور مجھے چکر آنے لگا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ میری ماں کے کپڑوں میں سے ابھی ابھی کوئی سانپ سرسراتا ہوا گرے گا اور سیدھا مجھ پر لپکے گا۔ 

    ماں کہہ رہی تھی، 

    ’’لال، آخر تو تم ان کو دیکھو گے ہی۔ اب ان سے دوستی کرنا سیکھ لو۔ وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ جانتے ہو، زیادہ تر مکانوں میں گھراتی سانپ ہوتے ہیں مگر کوئی کسی کو بتاتا نہیں۔ ہمارا نصیبہ انہیں کے دم سے ہے۔ وہ ہمارے گھر کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس کوٹھری میں رہتے ہیں۔ دو ہیں۔ انہیں میں کا ایک تھا، جسے تم نے اس رات کرسی پر دیکھا تھا۔ دوسرا نیچے کرسی کے اس طرف تھا، تمہیں دکھائی نہیں دیا۔ تم چیخ پڑے اور میں آئی تو وہ چلے گئے۔ انہیں شاید خود بھی پتہ ہے کہ تم ان سے ڈرتے ہو۔ اسی لیے تو وہ تمہارے سامنے آتے نہیں۔‘‘ 

    ماں کی باتیں سن کر میں ڈر سے کانپنے لگا، منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ لیکن بھاگ کر جاتا کہاں۔ اکیلے میں ڈر لگتا تھا۔ کچھ بھی ہو، میں کم سے کم وہاں اپنی ماں کے ساتھ تو تھا۔ 

    بہت کہہ سن کر آخر ماں نے مجھے راضی کر لیا کہ اس کے ساتھ چلوں اور سانپوں سے کچھ کچھ آشنائی پیدا کروں۔ میں دونوں مٹھیوں میں اس کے دامن کو جکڑے ہوئے تھا اور وہ مجھے آہستہ آہستہ آگے بڑھا رہی تھی۔ اس نے کوٹھری کے دروازے کی کنڈی کھولی تو میں نے اس کے لباس میں منہ چھپا لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ ماں نے ایک کنارے ہو کر میرا چہرہ کوٹھری کی طرف گھما دیا۔ دروازے کے کھلے ہوئے پٹ سے آتی ہوئی مدھم روشنی کی چادر سی کوٹھری کے فرش پر پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا تھا اور انگلیوں کے بیچ سے دیکھ رہا تھا۔ اس روشنی میں مجھے دو سانپوں کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت سر دکھائی دیے۔ دونوں نے منہ اوپر اٹھا لیے تھے اور ہم کو ٹک ٹک دیکھ رہے تھے۔ 

    ماں کہہ رہی تھی، 

    ’’یہ داہنی طرف والا وہی ہے جو تمہیں دکھائی دیا تھا۔ یہ ہمیں ذرا بھی پریشان نہیں کرتے۔ گھر میں ہر طرف آتے جاتے ہیں۔ برسوں سے ہمارے ساتھ ہیں۔ تمہیں بھی ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ دیکھو نا، کیسا تمہیں دیکھ دیکھ کے حیران ہو رہے ہیں۔ اگر میں ساتھ نہ ہوتی تو دونوں بھاگ کر چھپ گئے ہوتے۔ نئے لوگوں کے سامنے بالکل نہیں آتے ہیں، لیکن تم تو گھر ہی کے ہو۔ اب بڑے ہو رہے ہو۔ چاہیے کہ انہیں اچھی طرح پہچان لو اور یہ بھی تم سے ہل جائیں۔ ہمارا نصیبہ انہیں کے دم سے ہے۔ اور دیکھو بیٹے، کہیں ایسا نہ ہو کسی کے سامنے منہ سے یہ بات نکال بیٹھو کہ ہمارے یہاں سانپ ہیں۔ کسی کو بھی ان کے ٹھکانے کا پتہ نہ دینا۔ اپنے ابا کو بھی نہیں۔ بہن کو بھی نہ بتانا۔ وہ خود جانتے ہیں مگر کسی سے کہتے نہیں۔‘‘ 

    پھر وہ آہستہ سے کوٹھری میں داخل ہوئی اورمیں اکیلا دروازے پر کھڑا رہ گیا۔ میں دیوار سے لگا ہوا کانپ رہا تھا۔ ماں سانپوں کے قریب پہنچی تو وہ دھیرے دھیرے رینگتے ہوئے آگے بڑھے۔ دونوں ایک ایک طرف سے اس کی پنڈلیوں میں لپٹ گئے اوراس کی جوتیوں اور شلوار کے پائینچوں پر سر رگڑنے لگے۔ ماں ان سے باتیں کر رہی تھی جیسے لوگ پالتو پرندوں اور جانوروں سے باتیں کرتے ہیں۔ زمین پر پانی کا برتن اور کھانے کا کچھ سامان تھا۔ تھوڑی دیر بعد ماں باہر نکل آئی اور کہنے لگی، 

    ’’دیکھا بیٹے، کیسے اچھے اور غریب سانپ ہیں! اب تم ان کے عادی ہو جاؤگے۔ انہوں نے بھی تم کو پہچان لیاہے اور اب تم سے بھاگا نہیں کریں گے۔ اگر کسی دن ان کے پاس جاؤ اور انہیں پریشان نہ کرو تو وہ اسی طرح تمہارے بھی لپٹیں گے اور تمہارے پیروں پر سر رکھ دیں گے۔‘‘ 

    ماں نے کہہ تو دیا تھا کہ سانپ میرے دوست بن گئے ہیں لیکن میں خود کو اس پر کبھی تیار نہ کر سکا کہ کوٹھری میں جاؤں اور ان کو دیکھوں۔ ان کا اس گھر میں ہونا میرے لیے مستقل عذاب تھا۔ میں ہر وقت سہما سہما رہتا تھا۔ ذرا سی آواز پر میرا دل بیٹھنے لگتا۔ مجھے وہم ہو گیا تھا کہ ایک نہ ایک دن سانپ مجھ کو ڈس لیں گے۔ مجھے دکھائی دینے لگتا کہ ڈسے جانے کے بعد میرا بدن پھول گیا ہے اور میں تکلیف سے بل کھا رہا ہوں۔ اسی لیے میں کسی بھی وقت گھر میں اکیلا نہیں رہتا تھا۔ کوئی رات نہ جاتی تھی کہ میں ہول اور ہر اس کے بغیر چین کی نیند سو سکوں۔ اکثر سوتے سے چونک کر اٹھ بیٹھتا اور اپنے بستر کو غور سے دیکھنے لگتا تھا۔ 

    ہمارے کمرے کی چھت لکڑی کی تھی۔ چھت پر کڑیاں ڈال کر ان پر نرکل اور لکڑی کی چھیلن جمائی گئی تھی۔ اس زمانے میں میرا ایک کھیل یہ بھی تھا کہ چت لیٹ جاتا اور چھت کی کڑیوں کو دونوں جانب سے گنا کرتا تھا۔ میں ساری کڑیوں کو ان کے رنگوں، ان کی موٹائی پتلائی، ان کے رخنوں اور گانٹھوں سمیت پہچانتا تھا۔ ایک زمستانی رات جب ہم کھانا کھا چکے تھے، میں اپنی جگہ پر لیٹا چپت کو دیکھ رہا تھا۔ اپنے اسکول اور کلاس کے بارے میں سوچتا ہوا میں کڑیوں کوایک ایک، اور دو دو، اور کبھی ایک ایک چھوڑ کر گن رہا تھا۔ اسی میں ایک بار جب میں بیچ کی کڑیوں کی جوڑی پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک کڑی میں کوئی چیز لٹکی ہوئی دھیرے دھیرے ہل رہی ہے۔ 

    یہ نئی چیز تھی جسے میں نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ پہلے تو مجھے خیال ہوا کہ کوئی نرکل یا چھیلن اپنی جگہ سے باہر لٹک پڑی ہے، لیکن فوراً ہی پتہ چل گیا کہ انہیں میں کا ایک سانپ ہے جو چھت پر پہنچ گیا ہے۔ ایک گز سے زیادہ کا بدن چھت سے لٹکا ہوا تھا اور وہ نیچے دیکھ رہا تھا۔ میں اچھل کر کھڑا ہو گیا اور کمرے کے ایک کونے میں جا چھپا۔ میری زبان بند ہو کر رہ گئی تھی۔ ابا اور اماں نے بھی سانپ کو دیکھ لیا تھا اور اب حیران حیران سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، لیکن کچھ بولے نہیں۔ آخر ابا اٹھ کر آئے اور ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ میں ڈر کے مارے کرسی کے نیچے گھس گیا اور وہیں مجھے نیند آ گئی۔ 

    کچھ دن بعد ابا نے ایک اچھا سا مکان مول لے لیا اور ہم اسباب سمیت وہاں چلے گئے۔ میں بہت خوش تھا اور سمجھ رہا تھا اب ہمیں سانپوں کی علت سے چھٹکارا مل جائے گا اور مجھے کوٹھری اور تہہ خانے اور کمروں کی چھتوں، اور اپنے بستر، اور گھر کے کسی بھی حصے سے ڈر نہیں لگے گا اور میں بے کھٹکے ہر جگہ آ جا سکوں گا اور راتوں کو آرام سے سویا کروں گا۔ لیکن میرا خیال غلط تھا۔ جلد ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ سانپوں کا وہی سا جوڑا ہم سے پہلے ہی اس گھر میں پہنچ چکا ہے۔ اب پھر ماں کا کام ان کی خدمت کرنا تھا۔ وہ روز ان کو دیکھنے جاتی اور ان کی خوراک پہنچاتی۔ پھر اب کیا ہو سکتا تھا۔ میں اس مکان میں رہنے پر مجبور تھا۔ میرے ماں باپ وہاں تھے، میرے سونے کا ٹھکانہ وہاں تھا، وہی ایک جگہ تھی جہاں ہم کو صبح شام کا کھانا کھانا تھا اور سردی گرمی میں چھت کے نیچے پناہ لینا تھی۔ 

    اب مجھ کو یقین ہو گیا تھا کہ ہر گھر میں سانپ کا ایک جوڑا ضرور رہتا ہے اور گھر والے مجبور ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ گزارہ کریں، انہیں کھانے کو دیں اور دوسروں کو ان کے بارے میں کچھ نہ بتائیں اور اس بات کو راز کی طرح اپنے سینے میں چھپائے رکھیں۔ اگر مجھ کو کسی کے چہرے پر فکر یا پریشانی نظر آتی اور محسوس ہوتا کہ اسے کوئی دھڑکا لگا ہوا ہے تو میں اپنے آپ سے کہتا، ہو نہ ہو اس میرے یار کو اپنے گھر کے سانپ دکھائی دے گئے ہیں اور اب ڈر کے مارے اس کی جان پر بنی ہوئی ہے، اس لیے کہ جس دن سے میں نے سانپوں کو دیکھا تھا خود میری یہی حالت تھی۔ 

    ایک دن سہ پہر کے وقت میں اسکول کے لڑکوں کے ساتھ کھیلتا کودتا گھر لوٹ رہا تھا۔ راستے میں زمین کا بڑا سا ہموار قطعہ پڑا جس میں بچے کھیل رہے تھے۔ ہم بھی کبھی کبھی اسکول سے لوٹتے میں دیر دیر تک اس میدان میں دوڑیں لگاتے اور اگر گیند پاس ہوتی تو گول بنا کر فٹ بال کھیلتے تھے۔ اس روز ہم وہاں پہنچے تو ایک لڑکے کو میدان کے کنارے ایک سانپ پڑا نظر آیا جسے مار دیا گیا تھا۔ لڑکے نے اسے اٹھا لیا۔ زرد رنگ کا لمبا سا سانپ تھا۔ اس کا پھن کسی چیز سے کچل دیا گیا تھا۔ لڑکے نے سانپ کو دم سے پکڑ رکھا تھا اور اسے گھما گھما کر دوسرے لڑکوں کو ڈرا رہا تھا۔ جو لڑکے ڈر رہے تھے وہ تو بھاگ کھڑے ہوئے اور جنہیں ڈر نہیں لگا وہ اطمینان سے کھڑے رہے اور سانپ ان کے بدن پر لگتا رہا۔ 

    لڑکے نے سانپ میری طرف بڑھایا تو میں چیخ مار کر بھاگا۔ سب لڑکے ہنسنے اور میرا مذاق اڑانے لگے۔ آخر اس لڑکے نے سانپ کو ایک گڑھے میں ڈال دیا اور ہم آگے بڑھے۔ راستے میں بھی انہوں نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا اور یہ کہہ کہہ کر میری ہنسی اڑاتے رہے کہ میں مرے ہوئے سانپ سے بھی ڈرتا ہوں اور اسے چھونے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اب جو ہم سِنوں کے سامنے میری کرکری ہوئی اور سانپ سے میرے ڈرنے کا حال سب کو معلوم ہو گیا تو میری غیرت کو جوش آ گیا۔ مجھے یہ گوارا نہ تھا کہ میں سب میں بودا ٹھہروں اور ڈرپوک کہلانے لگوں، اس لیے میں نے کہہ دیا کہ مردہ سانپ سے ڈرنا کیسا، میں تو زندہ سانپ سے بھی نہیں ڈرتا، اور اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کی دھن میں یہ بھی بتا گیا کہ ہمارے مکان میں دو دو سانپ ہیں جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور میں ان کے پاس چلا جاتا ہوں اور انہیں ہاتھ سے چھوتا ہوں۔ 

    میری بات سن کر سب ہنس پڑے اور پھر میرا مذاق اڑانے اورمجھ کو جھوٹا بنانے لگے۔ میں انگاروں پر لوٹ رہا تھا اور خون کے گھونٹ پی رہا تھا، کہہ بیٹھا اگر تم لوگ مجھے جھوٹا سمجھتے ہو اور میری بات کا اعتبار نہیں کرتے تو میں تمہیں وہ سانپ دکھا سکتا ہوں۔ چلو، سب مل کر میرے یہاں چلو۔ وہ سب کے سب خوشی سے چیختے ہوئے راضی ہو گئے اور میرے گھر کی طرف چل پڑے۔ ذرا دیر میں گھر آ گیا۔ ماں گھر پر موجود نہیں تھی۔ راستے بھر مجھے اس کا یہ کہنا یاد آتا رہا کہ سانپوں کے بارے میں نہ تو کسی سے کچھ کہوں، نہ کسی کو ان کا پتہ نشان بتاؤں۔ لیکن اب معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا اور پھینکے ہوئے پانی کو اٹھایا نہیں جا سکتا تھا۔ 

    اگر اب میں لڑکوں کو سانپ نہ دکھاتا تو وہ اسکول میں میری جان کو آ جاتے اور میں ہمیشہ کے لیے بزدل اور جھوٹا ہونے کی شرم میں مبتلا رہتا۔ 

    میں نے سیڑھیاں چڑھ کر کمرے کا دروازہ کھولا۔ لڑکے میرے پیچھے پیچھے تھے۔ صرف ہمارے پیروں کی آہٹیں سنائی دے رہی تھیں۔ سب خاموش اور دم سادھے ہوئے تھے۔ میرا دل سینے میں اس طرح دھڑ دھڑ کر رہا تھا کہ میں اس کی آواز سن سکتا تھا۔ سانپوں کا سامنا کرنے کے خیال سے میرے ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آ گیا تھا اور پیر کانپ رہے تھے۔ کوٹھری کے دروازے پر پہنچا تو اس کی کنڈی کھولنے کے لیے میرا ہاتھ نہیں اٹھ رہا تھا، لیکن سب لڑکے میرے پیچھے کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ جس لڑکے نے میدان میں مردہ سانپ اٹھایا تھا وہ آگے بڑھا اور بولا، ’’میں سمجھ گیا۔ تمہارے یہاں گھراتی سانپ ہیں۔ مگر گھراتی سانپ تو کسی کو دکھائے نہیں جاتے۔ خیر، اب دروازہ کھولو۔ ذرا دیکھیں تو۔‘‘ 

    اور مجھے ہچکچاتے دیکھا تو اس نے خود آگے بڑھ کر ایک دم سے دروازہ کھول دیا۔ 

    سب لڑکے گردنیں بڑھا بڑھا کر کوٹھری کے اندر دیکھنے لگے۔ کوٹھری کے فرش پر پانی کا برتن اور کھانے کا سامان تو تھا لیکن سانپوں کا کہیں پتہ نہ تھا۔ کچھ لڑکے دبے پاؤں اندر داخل ہوئے اور ہر طرف دیکھنے لگے، مگر سانپ گویا کبھی وہاں تھے ہی نہیں۔ ایک کونے میں ایک ٹوٹی پھوٹی کرسی تھی، طاقچوں میں کچھ برتن اور دوسرا کاٹھ کباڑ، اور بس۔ کچھ لڑکوں نے پانی کا برتن اور کھانا دیکھ کر وہاں سانپوں کا ہونا مان لیا، لیکن بعض پھر بھی میری ہنسی اڑاتے رہے۔ 

    لڑکوں کے جانے کے بعد میری بھی گھر میں ٹھہرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ماں کے آنے تک میں گلی میں گھومتا رہا اور ہم دونوں ساتھ ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔ میں اپنے گھر اور اپنی زندگی کا راز ظاہر کر دینے سے پریشان تھا، اس لیے زبردستی دو تین نوالے حلق سے اتار کر جلدی ہی سو گیا۔ 

    دوسرے دن میری ماں معمول سے پہلے ہی گھبرائی ہوئی جاگ پڑی۔ اس کی عجیب حالت تھی، چہرے کا رنگ اڑا ہوا اور آنکھیں کچھ ایسی ہو رہی تھیں کہ ان کی طرف دیکھتے ڈر لگتا تھا۔ 

    وہ کچھ دیر تک کسی سوچ میں گم رہی، پھر لپک کر کوٹھری میں گئی اور ایک دو منٹ تک اندر رہی۔ میں سانس روکے ماں کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا اب کیا ہوگا، کیا اسے وہاں سانپ ملیں گے؟ کبھی سوچتا کہ سانپ غائب ہو گئے ہوں گے اور ماں سمجھ جائے گی کہ میں نے کیا حرکت کی ہے۔ وہی ایک موقع تھا جب میرا دل چاہا کہ سانپ موجود ہوں اور ماں کو دکھائی دے جائیں۔ میں جانتا تھا کہ سانپوں سے پیچھا چھڑانے کا یہ صحیح طریقہ نہیں تھا۔ ذرا دیر بعد ماں باہر نکلی، کچھ دیر تک مجھ کو غور سے دیکھتی رہی، پھر ابا سے بولی، 

    ’’کچھ پتہ ہے؟ سانپ گئے! رات خواب میں آئے تھے۔ کہہ رہے تھے لوگ ان کا ٹھکانہ جان گئے ہیں اس لیے وہ ہمارے یہاں سے جا رہے ہیں، ہمیشہ کے لیے، اور اب ہم پر جو کچھ بھی پڑے گی اس کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔ بار بار میری آنکھ کھلتی اور میں صلوات پڑھ کر اور شیطان پر لعنت بھیج کر سو جاتی تھی، لیکن ہر بار یہی خواب آتا تھا۔ صبح تک ٹھیک سے سو نہیں سکی۔ اب کوٹھری میں جا کر جو دیکھا تو خواب سچا تھا۔ سانپ گئے۔ کہیں پتہ نہیں۔ میں سمجھتی ہوں اسی لڑکے نے کوئی گل کھلایا ہے۔‘‘ 

    پھر اس نے ڈانٹ کر مجھ سے معاملہ پوچھا۔ میں نے بھی جو کچھ ہوا تھا سب کا سب بتا دیا۔ ماں نے یہ ماجرا سنا تو اس کے سینے سے ایک آہ نکلی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں اس کا اکلوتا بیٹا تھا اس لیے اس نے مجھے زیادہ کچھ تو نہیں کہا لیکن اتنا ضرور کہا، 

    ’’بیٹے تم نے ہماری زندگی برباد کر دی۔ ہمارے گھر کا اقبال رخصت کر دیا۔ بدنصیبی کو دعوت دے دی۔ مجھے ڈر ہے اب تھوڑے ہی دن میں ہم محتاج اور دربدر ہو جائیں گے۔ یہ سانپ پشتوں سے ہمارے یہاں چلے آ رہے تھے۔ ہمارے گھر کے نگہبان تھے۔ انہیں شاید پتہ تھا کہ تم ان کو بھگا کر رہوگے۔ ان کا دل تم سے نہیں مل رہا تھا، اسی لیے وہ تم سے دور دور رہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ تم کو اپنی زبان پر قابو نہیں، گھر کا راز نہیں چھپا سکتے۔ آخر تم نے وہی کیا جس کا مجھے ڈر تھا۔ سانپ گئے، اور ہم بے سہارا رہ گئے۔ مجھے تو یہ بھی ڈر ہے کہ خدا نہ کرے وہ تمھیں کچھ آزار نہ پہنچا دیں۔‘‘ 

    کئی دن تک میں سخت وحشت میں گرفتار رہا اور ڈرتا رہا کہ کہیں مجھے کوئی سانپ ڈس نہ لے۔ ماں نے مجھ کو بہن کے گھر بھیج دیا۔ کئی دن تک وہیں رہا، اپنے گھر میں قدم نہیں رکھا۔ یہاں تک کہ ایک ہفتے بعد ماں نے آ کر بتایا کہ اسے پھر خواب میں سانپ نظر آئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ اگرچہ ان کو ہمارا گھر چھوڑ دینا پڑا ہے لیکن وہ ہم سے کوئی سروکار نہیں رکھیں گے اورمجھ سے بھی نہیں بولیں گے، اس لیے ماں مجھے گھر لے گئی۔ 

    اس قصے کو زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ میرے ابا کا کاروبار الٹ پلٹ ہو گیا۔ تہران سے جو مال وہ بیچنے کو لائے تھے، اس کا مندا پڑ گیا اور بکری نہیں ہو سکی۔ ابا نے نقصان بھرنے کے لیے دوسرے دھندوں میں ہاتھ ڈالا لیکن سب میں گھاٹا ہی گھاٹا رہا۔ 

    شہر بھر میں بات پھیل گئی کہ ابا دیوالیے ہو گئے اور لین دار اُن پر چڑھ دوڑے۔ جو کچھ ہمارے پاس تھا سب ہاتھ سے جاتا رہا۔ مکان تک نکل گیا۔ وہ شخص جس کے بھاگوان ہاتھوں کی دھوم تھی اور جو مٹی کو چھو دیتا تو سونا ہو جاتی، اس کا ایسا وقت بگڑا کہ کرائے کے ایک کمرے میں زمین پکڑ کے بیٹھ رہا اور تھوڑے ہی دن میں مر گیا۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ پریشانیوں اور کوفت نے ابا کی جان لے لی، لیکن جن لوگوں کو سانپوں کے معاملے کی خبر تھی وہ جانتے تھے کہ اس بدبختی اور سیاہ روزی کا اصل سبب میں ہوں۔ 

    باپ کے مرنے کے بعد مجھ کو اسکول چھوڑنا پڑا۔ مدت تک ڈرائیوری کی، اس شہر سے اس شہر دوڑتا پھرا۔ جان کھپا کر اور دوسرے ڈرائیوروں کی گالیاں کھا کھا کر پیسے جمع کیے اور ایک ٹیکسی خریدی۔ شہر کے باہر کی بستیوں کے پھیرے کرتا تھا۔ کام چل نکلا اور قریب تھا کہ جم جاؤں اور گھر بسا لوں۔ ماں بھی بڑی خوش تھی۔ مگر ایک دن شام کے وقت جب میں سواریاں بٹھائے واپس آ رہا تھا، شہر سے ایک موٹر اترتے ہوئے میری نگاہ اچانک ایک مردہ سانپ پر پڑ گئی جس کا پھن کسی گاڑی کے نیچے آ کر پچی ہو گیا تھا۔ بالکل ویسا ہی سانپ تھا جیسے ہمارے یہاں تھے۔ دم بھر میں ایک عجیب سی دہشت سے میرا بدن کپکپا گیا۔ 

    میں نے گاڑی کو ایک طرف کاٹا کہ سانپ اس کے نیچے نہ آنے پائے۔ اس طرف ایک بڈھا اپنے خچر پر ڈھیروں لکڑیاں لادے پہاڑ سے اتر کر شہر جا رہا تھا۔ قریب تھا کہ دونوں کو روند ڈالوں۔ جلدی سے میں نے گاڑی کو پھر دوسری جانب کاٹا۔ اتار کا راستہ تھا، بریک ماروں تو گاڑی الٹ جائے اور ہوا یہی۔ ایک دو لڑھکنیاں کھا کے ہم ایک کھڈ میں جا پڑے۔ مسافروں میں سے دو وہیں کے وہیں ختم ہو گئے، دو تین زخمی بھی ہوئے۔ میرا بھی ہاتھ ٹوٹ گیا اور گاڑی تو ایسی مٹی کہ کسی کام کی نہ رہی۔ 

    اس لیے میں نے سمجھ لیا کہ دوڑنے دھوپنے سے کچھ نہیں ہونا، اس وقت کا انتظار کرنا چاہئے جب وہ میرا پیچھا چھوڑ دیں۔ میں نے آوارہ گردی شروع کر دی۔ کبھی یہاں، کبھی وہاں، دو نوالوں کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ اب خانساماں ہو گیا ہوں۔ ماں اکیلی بیٹھی میری لگائی ہوئی آگ میں جل رہی ہے۔ جب میری حالت پر اس کا بہت دل کڑھتا ہے تو کہتی ہے، 

    ’’بیٹا، تم نے ہمیں بھی برباد کیا، خود بھی کہیں کے نہ رہے۔‘‘ 

    *

    ہم آخری پہاڑی چڑھ رہے تھے۔ ہمارے خیمے تھوڑی ہی دور رہ گئے تھے۔ مغربی افق کی سرخی سیاہی میں ڈھلتی جا رہی تھی۔ کالے بادل نے کسی بہت بڑے اژدہے کی طرح دارِ زعفران کی چھتری کو نگل لیا تھا۔ درخت کا تنا یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے آگ کے شعلوں میں کوئی ہاتھ پھیلائے کھڑا ہو۔ 

    سید نے کہا، ’’اور آج، قسمت کا لکھا یہ تھا کہ ہم اس درخت کو دیکھنے جائیں اور وہاں ہمیں مردہ سانپ دکھائی دے جائے۔ یہ اشارہ ہے اس کا کہ مجھ کو جلد سے جلد یہاں سے رخصت ہونا ہے۔ جاتا ہوں، بستر باندھ لوں، کل صبح روانہ ہو جاؤں گا۔ 


    حاشیہ
    (۱) کرسی، بڑا سا اونچا تخت جس پر اس سے بہت بڑی پوشش ڈال دی جاتی ہے۔ جاڑوں میں گھر والے اسی پوشش اور تخت کے نیچے سوتے ہیں۔ برقی حرارت کے رواج سے پہلے گھروں میں کرسی کا استعمال عام تھا۔ (مترجم)

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے