موذی جرثومہ
اس شخص کی مجھ سے یا میرے خاندان سے نہ کوئی رشتہ داری تھی نہ قرابتداری ہاں فقط نانہالی محلہ داری ضرور تھی۔ پیرپور ہمارے شہر کا اچھا خاصا بڑا قصبہ ہے۔ ہم لوگ گرمیوں میں یہیں اپنے نانہال آئے ہوئے تھے۔ امی محلہ کی خالہ مہرن کے یہاں ان کی ساس کی تعزیت کے سلسلہ میں جارہی تھیں میں بھی ساتھ لگ ہو لیں۔ ان کا مکان بس کوئی تین چار مکان کی دوری پر تھا۔ جیسےہی ہم لوگ مکان میں داخل ہوئے آنگن کے دوسرے سرے پر بنے ہوئے کمرے کی طرف سے ایک کھانے کی جھوٹی رکابی فلائنگ ڈسک کی طرح زنانے سے امی کے پیروں کے پاس آ گری اور ساتھ ہی ایک قہقہہ کی فلک شگاف آواز فضا میں گونجی۔ کوئی بھوت نما ہیولا کا تھوڑا حصّہ کمرے کے دروازے میں دکھائی دیا اور پھر روپوش ہو گیا۔ میں سہم کر امی سے لپٹ گئی۔ مہرن خالہ دوڑتی ہوئ آئیں اور مجھے سمجھایا کہ ان سے ڈرنے کی کوئ بات نہیں ہے وہ کسی کو کچھ نہیں کہتے سوائے میرے اور میرے بیٹے کے۔
اسی تعطیل کے دوران مجھے ایک بار پھر ان کےیہاں دوبارہ جانا ہوا۔ میں ان کے بیٹے فضل کےساتھ آنگن میں اکھٹ دکھٹ کھیل رہی تھی کہ آج اس نے ایک کاغذ میں لپٹی ہوئی اپنی غلاظت ہماری طرف دے ماری۔ آج میں دن کی روشنی میں اسے دیکھنا چاہتی تھی تاکہ میرے دل میں اس کی حرکتوں کی وجہ سے جوڈر بیٹھ گیا تھا وہ نکل جائے۔ اب وہ پلٹ گیا تھا اور اب صرف اس کی پیٹھ اور جسامت دکھائی دی۔ اس کا ایک پیر موٹی رسی سے بندھا ہوا تھا۔ رسی میں صرف اتنی ہی ڈھیل دی گئ تھی کہ دروازہ کے باہر سےاس کے جسم کا تھوڑا حصّہ ہی کسی کو نظر آئے۔ اس کے جسم پر لباس نام کی کوئی قسم نہیں تھی۔ میں نے شرم سے آنکھیں بند کر لیں اور سیدھے گھر بھاگ آئی۔ آنے کے بعد میں نے اس شخص سے متعلق امّی سے متعدد سوالات کر ڈالے۔ امی نے سوااس کے کہ وہ فضل کے ابو ہیں اور ان کی دماغی مشین خراب ہو گئی ہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ میرے زیادہ اصرار پر یہ کہہ کر ٹال گئیں کہ باقی باتیں چھوٹے بچّوں کے سمجھنے کی نہیں ہیں اور جب تمبڑی ہو جاؤگی تو بتا دونگی۔
وقت گزرتا رہا بچے جوان اور جوان بوڑھے ہوتے گئے۔ اب میں بھی سن شعور کو پہنچ چکی تھی۔ ایک دن باتوں باتوں میں امی کو میں نے ان کا وہ پرانا وعدہ یاد دلایا تو آج انھوں نے مایوس نہیں کیا اور وہ اس طرح گویا ہوئیں ’’وحید میاں ایک چھوٹے زمیندار تھے اور اچھے خاصے موروثی مکان و جائداد کے مالک تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی احد بھی معہ فیملی کے ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ زندگی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی۔ بس ان کے دل کے کسی کونے میں یہ کسک ضرور تھی کہ ان کو خدا نے اولاد ذکور سے نہیں نوازا تھا۔ بیٹے کی امید سے مایوس ہو چکے تھے۔ تین بیٹیوں میں سب سے چھوٹی دس سال کی ہو چکی تھی۔ پڑھے لکھے اور خاصے قابل انسان تھے۔ اس زمانے میں ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ نہ تھا، لوگ کھیتی باڑی اور چھوٹےموٹے آبائی پیشے اپنانے میں کسر شان نہیں سمجھتے تھے۔ نوکریاں بآسانی مل جایا کرتی تھیں۔ وہ گھر بار اور فیملی احد کے سپرد کرکے کسی دوسرے شہر میں نوکری کرنے چلے گئے۔‘‘ پھر آگے کیا ہوا امی؟ امی ذرا رک گئیں تو میں نے بےصبری سے پوچھا۔
’’ذرا پان تو کھا لوں۔‘‘ امی نے پاندان کھسکاتے ہوئے کہا۔ ’’تو میں کیا کہہ رہی تھی؟ ہاں، اچھا، وحید میاں باہر نوکری کرنے لگے تھے۔ فیملی سے الگ رہنا انھیں اچھا نہیں لگتا تھا اور ہر چھٹی میں بھاگ کر یہاں آ جایا کرتےتھے۔ اچانک کچھ عرصہ بعدان کی زندگی میں ایک ایسا زلزلہ آیا جس نےسب کچھ تہس نہس کر دیا۔‘‘ امی نے قدرے توقف کیا۔ شاید وہ یہ سوچ رہی تھیں کہ آگے کے واقعات کس طرح پیش کی جائیں۔
’’کیسا زلزلہ امی؟‘‘
’’دم تو لینے دو بیٹی بتاتی ہوں۔ یہ زلزلہ ان کی زندگی میں گھر کے چراغ کی صورت میں آیا تھا۔ وہ خود اپنے کسی حسابی مغالطے کا شکار ہو گئے تھے۔ بجاۓ اس کے کہ اتنی ناامیدی کے بعد خدا نے جو نعمت عطا کی تھی اس کے شکر گزار ہوتے، جشن مناتے انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی اور اپنی بیوی پر بندوق ہی تان لی۔ بھائی نے ہر طرح یقین دلایا، بیوی نے قسمیں کھائیں اور دونوں نے مل کر قرآن اٹھایا مگر ان کے لئے مرغےکی وہی ایک ٹانگ کیونکہ ان کی والدۂ محترمہ نےان پر یہ شک بڑے رازدارانہ طور پر ظاہر کیا تھا۔ ان کو جھوٹا مان کے وہ اب ان کے پیروں تلےکی جنت سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ احد نےاپنے خاندانی وقار کی پردہ داری کے لحاظ سے انھیں پولیس کسٹدی میں بھی نہیں دیا۔ انھوں نے قصبہ کے کئی بزرگ رشتہ داروں کے صلاح مشورہ سے گھر ہی کے ایک کمرہ میں جیسا کہ تم کو خود معلوم ہے باندھ دیا جہاں وہ اب تک مقید ہیں۔ پہلے برسوں ان کا علاج بھی چلا تھا لیکن ان کےجنون میں کوئی کمی نہ آنے کے سبب اسے چھوڑ دینا پڑ گیا تھا۔ آج تک وہ اپنے بھائی اور بیٹے دونوں کے سایہ سے نفرت کرتے ہیں۔ بیوی کے ساتھ انکا برتاؤ بین بین ہے۔ بےہوشی میں بھی انھیں اتنا ہوش ہے کہ شاید اس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہوگی۔ وہ ان کی بھوک پیاس نہانے دھونے اور سردی گرمی کا ہر دم خیال رکھنے کے باوجود بھی اکثر ان کے ہاتھوں پٹ جایا کرتی تھی۔‘‘
اچانک امی کی باتوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔ کوئیان سےملنے آ گیا تھا اور ان کےمتعلق کچھ باتیں ابھی ادھوری رہ گئ تھیں۔
رمضان کا آخری ہفتہ چل رہا تھا۔ ایک دن یہ خبر جنگل کے آگ کی طرح ہرطرف پھیل گئی کہ وحید میاں بغیر کسی دوا علاج کے ٹھیک ہو گئے ہیں۔ کچھ کرم فرماانھیں نہلا دھلا کر، حجامت بنواکر اور صاف ستھرے کپڑے پہناکر اپنےساتھ جمعتہ الوداع کی نماز پڑھانے لے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے اپنے احباب و اعزہ سے معانقہ کیا اور سب کے ساتھ مل نماز بھی پڑھی۔
کوئی شخص مستقل تین چار دہائیوں تک مخبوط الحواس رہنے کے بعد یکایک اس طرح بالکل صحیح الدماغ ہو جائے یہ میں نےزندگی میں پہلی بار سنا تھا۔ اگر یہ چشم دید واقعہ مجھے مختلف معتبر ذرائع سے نہ معلوم ہوا ہوتا تو سچ مانیے یقین کرنے کی کوئ وجہ نہ تھی۔ مگر ان کی اس ہوش مندی کی خبر سے مجھے استعجاب آمیز خوشی محسوس ہوئی۔
کوئی واقعہ یا حادثہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو کچھ دنوں تک زبان زد خلائق رہتا ہے لیکن پھر خود وقت ہی اس پر دھول ڈال دیتا ہے۔ وحید میاں کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔
مسجد والے واقعہ کو تقریباً ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔
اور ایک دن صبح صبح۔
’’عظمی! عظمی کہاں ہو؟‘‘ میرے شوہر نے ہاتھ میں اخبار لئے ہوئے مجھے پکارا۔
’’ارے میاں کیا ہمارے ملک نے چاند پر راکٹ داغ دیا جو خبر سنانے کو اتنے بے حال ہو رہے ہو۔‘‘ میں نے دریافت کیا۔
’’نہیں بی بی راکٹ نہیں پستول، وہ بھی اپنے سگے بھائی کو خود اسی کے ہتھیار سے۔ یہ تو وہی حضرت ہیں جو حال ہی میں ہوش و حواس میں واپس آئے تھے۔‘‘
اتنی خبر دے کر بنا کچھ اور بات کئے ہوئے وہ اسی طرح اخبار لئے ہوئے ڈرائننگ روم کی طرف چلے گئے۔
میرے ذہن کے پردے پر ماضی سے اب تک کے واقعات گھومنے لگے اور میں مسلسل سوچتی رہی کہ:
کاش وحید میاں اس دیوانگی کی حالت سے باہر نہ آئے ہوتے۔
اور کاش؟
ایک سال تک باہر رہنے کےبعد تو وہ ڈی این اے ٹسٹ وغیرہ موجودہ طبی وسائل کی وساطت سے جن سے آج ملک کا بچہ بچہ واقف ہے اپنے ذہن کےشک و شبہ نامی موذی جراثیم کو نکال سکتے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.