نہ حد میں، نہ حد کے باہر
’’آنے والا ہے!‘‘
سب بے تحاشہ ہنس رہے تھے۔ ہنستے ہنستے بہت سی باتیں ہورہی تھیں۔ کئی برسوں سے ہنستے ہنستے کئی باتیں ہوتی آئی تھیں۔ یونہی ہنستے ہنستے گھر میں گیتی آئی، سمیتی آئی، نیتی آئی، اور آخر میں سونیتی بھی آگئی۔ قہقہے، دبی دبی خوشگوار ہنسی ماحول میں عزیز واقربا میں، دوستوں میں، دِیو کے چہرے پر اور شوچی کے چہرے پر، دل پر پھیلی ہوئی تھی۔
دِیو اکثر یوں ہی آکر کہتا تھا، ’’افریقہ سے نگین چند آنے والا ہے، تو نہیں جانتی اسے لیکن۔۔۔‘‘
’’پارول آنے والی ہے۔ میرے دوست کی منگیتر ہے۔‘‘
’’سندر آنے والا ہے۔ جیتوآنے والا۔۔۔ سنتوک بہن آنے والی ہے، جسومتی بہن، کوئی دوست کوئی ہمسایہ، کوئی گاؤں کا، کوئی جان پہچان والا، کوئی شناسے کا شناسا، کوئی نہ کوئی آنے والا ہے۔۔۔‘‘
’’آنے والا ہے۔۔۔‘‘ کی گونج گھر میں اکثر ہوتی ہے۔ شوچی نے اسے برداشت کیا ہے۔ صرف کھانا کھانے؟ قیام کرنے، کتنے دن، کتنے گھنٹے، کب، کیوں؟ یہ سارے سوالات کبھی پریشان نہ کرتے بلکہ اس سکھی اور خوش باش کنبے کے تمام دنوں کی خوشگوار محفلوں کا ایک آدھ پروگرام بن جاتے۔ شوچی کی ہنسی کبھی نہ تھمتی۔ اس کا مسکرا تا چہرہ کبھی نہ مرجھاتا، اس کے اعضا کی پھرتی میں کبھی فرق نہ آتا۔ اس کی شائستگی، اخلاق اورمہمان نوازی میں ناگواری کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ کچھ ایسا لگتا۔ خبر سنتے ہی۔۔۔
’’آنے والا ہے!‘‘
’’کون؟‘‘
اور نام، شخصیت، تعارف، جان پہچان، سب ظاہر ہوجاتا اور شوچی، اچھا، کہہ کر کام میں جٹ جاتی۔ بس اتنی سی بات ہے نا، میں تو سمجھی۔۔۔ ارے، کچھ نہیں۔ کچھ نہیں۔۔۔ تووہ لوگ آرہے ہیں، کیوں؟ کوئی بات نہیں۔ ہمیں ان کا استقبال شایان شان کرنا چاہیے تاکہ ہم پر، ہمارے خاندان پر، ہمارے گھر پر حرف نہ آئے۔ اب آنے والے چاہے کوئی بھی ہوں۔‘‘
شوچی ہر مہمان کو، ہر مسافر کو خاص انداز میں، بڑے اخلاق سے، خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہتی، انہیں کھلاتی پلاتی اور نئے نئے طریقوں سے ان کا استقبال کرکے نڈھال نڈھال ہوجاتی۔ اور پھر، ہائے کہتی اور بیزاری کا اظہار بھی کرتی، میں کیا کروں؟ موئی عادت سی ہوگئی ہے۔ ہمیں تو ایسا کچھ نہیں۔ دروازے کھلے ہیں، جو آئے سو۔۔۔۔‘‘
’’گیتی بیٹا! آج بیڈمنٹن کھیلنے میں زیادہ دیر نہ کرنا، جلد لوٹ آنا، اچھا؟ اور سومیتی، تجھے بڑے بازار کا ایک چکر لگانا ہی پڑے گا۔ اور میں، میں نے کہا سن رہے ہو؟ فون کردینا، بڑے بھلکڑ ہو تم بھی۔ گجرا! ارے گجری۔ ی۔ ی۔ کہاں مرگئی؟ آج شام کو تو تجھے دیر ہو ہی جائے گی۔ چنانچہ کھانا یہیں کھالیجیو اور کیا؟ کیا ہے نیتی؟ چلا کیوں رہی ہو؟ تیری بہن تیری دوچوٹیاں گونتھ دے گی اور نئے نئے کپڑے پہن کر گندے نہ کیجیو، اچھا، میری سونا پری جیسی میری باوری بیٹی، اجے کا کا دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔
سونیتی! سرمیں تیل نہ ڈالنے کا فیشن مجھے ذرا پسند نہیں۔ پارول بہن نے کیا کہاتھا؟ آنکھیں خراب ہوجاتی ہیں۔ سناتو نے؟ آج تیل ڈالیو، یہ خشک جٹے کے گھونسلے جیسا سر تو ذرا اچھا نہیں لگتا۔ ایسا سر لے کر باہر کے لوگوں کے سامنے نہ جائیو۔ کیا کہا، ارے سن رہے ہو، سگریٹ کے پیکٹ پہلے سے ہی لے آنا، عین وقت کی بھاگ دوڑ مجھے بالکل پسند نہیں، مہمان ہو کہ پھر کوئی بھی ہو۔ لڑکیوں سے میں ایسے کام نہیں لینے دوں گی۔ ہاں نہیں تو۔ ایک دفعہ نہیں اور سودفعہ یہ بات سمجھ لیجیو۔ ہنس کر اڑادینے کی بات نہیں ہے یہ۔ یاد نہیں رکھا تو۔۔۔ جیبوں کی تلاشی لوں گی۔ ہاںَ گیتی یاد دلادیناذرا۔ ہاں تو بھی، میری بیٹی، یاد دلادیجیو۔ ہم پپا کو سیدھا کردیں گے۔‘‘
یوں ہنسی کاسیلاب کبھی بڑھ جاتا اور کبھی حد کے اندر رہتا۔ گھر میں شور وہنگامہ مچاہی رہتا۔ اتنا بڑا خاندان۔۔۔ باورچی خانے میں ہمیشہ رونق رہتی۔ نشست گاہ کا تو یہ تھا کہ مہمان آنے والے ہوں تب بھی بیت بازی، کیرم بازی، تاش، گپ شپ، بحث و مباحثے یاگیت سنگیت سے اور گھر یا باہر کے آدمیوں سے بھری رہتی تھی، جہاں قہقہوں کے پرزور فوارے اڑا کرتے اور ہر موضوع پر زبردست بحث ہوتی تھی، ہنسی خوشی ہر چیلنج کو قبو ل کرلیا جاتا، جیسے کچھ بھی نہیں ہوا، یوں ہر بحث ختم ہوجاتی۔
’’ایں، کیا؟ شادی کرلی؟ چلو فرصت ہوئی۔ بے چارہ بہت پریشان تھا۔ دہلی تبادلہ ہوگیا۔ یہاں کا گھر بیچ دیا، ترقی مل گئی، اس لیے۔ چندوتیسری دفعہ انجینئرنگ میں فیل ہوگیا، اس کے باپ نے مانا ہی نہیں تو کیا ہو۔ یہ لائن اس غریب کے بس کی نہ تھی، ہاں فی الحال بڑودہ میں ہے۔ لومیرج بابا، لومیریج، بہت خوبصورت ہے، یہ ایک اتفاق ہے ورنہ جسے راجہ پسند کرے وہی رانی۔ کیا پئینگ گیسٹ کے طور پر رکھا ہے؟ اس کی بیوی تو، کہتے ہیں، بہت بیمار رہتی ہے۔ نہیں۔ یہ تو ٹھیک ہے۔ خاندان کو پیسے کی ضرورت تو ہے ہی۔‘‘
’’بیج دیکھنے گیا ہے؟ باپ کے پیسے سے تاگڑدھنّا ہے۔ انٹریسٹنگ تو ہے ہی، لیکن جیب میں۔۔۔ منورما نے کہاتھا مجھ سے۔ ہمارے تو وہ بزرگ ہیں۔ میں نے زیادہ پوچھ تاچھ نہیں کی۔ ہمیں کیا۔ اوہ، ہاؤ لولی، گریگری پیک کی تو کوئی بھی پکچر ہو، میں تو دیکھتی ہی ہوں۔ ڈکیٹوپکچر؟ اوہ، آئی ایم کریزی، ہماری بین۱؎ (بہن) کی شادی ہے۔ دودو روپے کا چندہ لے کر انہیں تحفہ دینا ہے۔ اس دفعہ توہمیں کشمیر لے جائیں گے۔ پپا! میں جاؤں گی۔ اب تو میں بڑی ہوگئی ہوں۔ بالوں میں کنگھی بھی خود کرلیتی ہوں۔ اچھا، چاہے بولڈ کردینا لیکن کشمیر تو جاؤں گی، ضرور جاؤں گی۔ ممی! فیمینا میں پل اوور کی نئی ڈزائن دیکھی؟ بھئی! میں نے پڑھا تو سہی لیکن سمجھ میں خاک نہ آیا۔‘‘
’’آنے والا ہے۔ اے! سن رہی ہے۔‘‘
ایک دن دِیونے ایسے ہی شور وہنگامے کے درمیان کہا۔ شوچی اس وقت یہ سمجھارہی تھی کہ اس ڈیزائن میں کیسے کیسے رنگ گڈمڈ کردیے اور کس طرح ایک نئی طرح کا ہی سویٹر بنادیا۔ یہ بتاتے وقت وہ بے تحاشہ ہنس رہی تھی جیسے کوئی بہت بڑا لطیفہ ہوگیا ہو، جیسے کسی کو بڑی کامیابی سے الو بنادیاگیا ہو اور اس الو بنانے میں سب کو ہی بے حد لطف آیا ہو۔ یوں نشست گاہ میں ہنسی کی ایسی لہر آئی ہوئی تھی کہ اس میں دِیو کا، ’’آنے والا ہے‘‘ کا اعلان ڈوب گیا۔
’’اری پگلی سن تولے، ورنہ پھر کہے گی کہ وقت پر بتایا نہیں۔‘‘
شوچی یوں، دہری ہوہوکر ہنسی تھی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ وہ آنکھیں پوچھتے ہوئے بولی، ’’ہاں رے ہاں۔ راجمان، راج شری، سنا، سنا بھئی ساب، کوئی، پریت، آنے والا ہے تمہارا، لو بس۔‘‘
شوچی مہمانوں کو مذاق میں پریت کہتی تھی اور انہیں کھلانے کی بات کو مذاق میں ’’پریت بھوجن‘‘ یعنی مہمانوں کے لیے پکایا ہوا خاص کھانا۔ ایک بار پھر وہ باتوں کے ریلے میں بہنے ہی والی تھی کہ دیونے اسے اپنی طرف یوں متوجہ کرلیا، جیسے وہ ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ رہا ہو،
’’لیکن یہ پریت بھوجن نہ کرے گا۔ صرف ریل میں یہاں سے گزرے گا۔ اس لیے محترمہ میں آپ کو اسٹیشن لے جاؤں گا۔ اب سمجھ میں آیا حضور کے؟ بھئی، پہچان والا تیرا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ ہم اسے اصرار کرکے ریل سے اتار کر یہاں گھسیٹ لائیں۔ وہ ٹھہرا بڑا آدمی۔ اسے تو مرنے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ لیکن تو کہے اور وہ نہ آئے۔۔۔‘‘
بے تحاشہ ہنستی ہوئی شوچی کی پیٹھ پر جیسے کسی نے مذاق میں دھموکا رسید کردیا۔ مذاق ہی ہے، روز جیسا۔ یوں سوچ کر وہ ہنستی رہی لیکن دوسرے ہی لمحے جیسے چوٹ کھائی جگہ کے درد نے اسے تکلیف کااحساس دلادیا۔ شوچی دیو کی طرف جھک گئی۔ بات کی طرف متوجہ ہونے کا وقت تھا، کان کھڑے ہوگئے تھے اور زبان پوچھ رہی تھی، ہاں کہو، اب کیا کہتے ہو؟ اس کی سمجھ بوجھ عود کر آئی تھی۔
’’آنے الا ہے۔۔۔ ریل میں یہاں سے گزرنے والا ہے۔۔۔ ہمیں اس سے ملنے اسٹیشن پر جانا ہے۔۔۔ بڑا آدمی۔۔۔ تیرے نام سے۔۔۔ مرنے کی بھی فرصت نہیں۔۔۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’کون؟‘‘
’’کون؟‘‘
’’آنے والا ہے۔‘‘
ہنسی اور خوشی کی دیوار میں دراڑ پیدا ہوگئی۔ اینٹوں، چونے اوردھول کے ذرات خوبصورت سجی ہوئی نشست گاہ میں بکھرنے لگے۔
شوچی کا دماغ بھنا گیا۔
’’ارے وہ آنے والا ہے کہہ دیا تو سمجھے کہ چھٹی ہوئی۔ کتنی دفعہ کہا کہ یہ باتیں مجھے پسند نہیں۔ آدھی زندگی تم سے کہتے گزر گئی، اس پریت کو کھلاتے کھلاتے کھلاتے میں تھک گئی ہوں۔ (آنے تو دو اسے ایک دفعہ۔ سمجھ رہا ہوگا۔۔۔) شوچی جیسے استقبال کے لیے تیار ہورہی تھی۔ آتوسہی۔ یہاں دیکھ، دیکھ، دیکھ، حرام خور۔ تو یہ دیکھنے آرہا ہے ناکہ میں کیسی برباد ہورہی ہوں، کتنی دکھی ہوں؟ کیسی سوکھ کر کانٹا ہورہی ہوں؟ ایک دفعہ نہیں سو دفعہ دیکھ لے۔ یہ میری کایا۔ چارچار بچے جننے کے بعد بھی ایسی ہے کہ تیرا پتھر جیسا اور میٹھا میٹھا دل توڑدے۔ ہاں، اتنی طاقت اب بھی ہے مجھ میں۔ ہاں، اپنے دِیو کو چاہتی ہوں۔ اس کے گھر کو، اس کے عزیزوں کو، اس کے بچوں کو۔ دیکھ یہ سب بچے، بیوقوف! کان کھول کر سب کے نام سن لے، شاید تو سوچ رہا ہوگا کہ تیرے نام پر میں نے اپنے کسی بچے کانام۔۔۔ چل ہٹ۔ یہ تو چار ہی ہیں لیکن اگر بارہ بھی ہوتے تو بھی تیرے نام کا ایک حرف، حرف کیا، زیر، زبراور پیش تک نہ آنے دیتی، ایسے نام ان کے رکھتی، سمجھا؟
’’اور تم پریشان کیوں رہے ہو دِیو؟ یہاں میرے پاس سکون سے بیٹھو۔‘‘ شوچی نے بے حد پیار سے دیو کی طرف دیکھا۔ اسے اس پر بے حد پیار آگیاتھا۔
اسی رات اس نے دیو کے قریب جاکر اس کے سینے پر دو چار، پانچ چانٹے مار کر اس سے کہا، تم بیکار ہی کھنچتے پھرتے ہو، اپنی طبیعت کا ذرا خیال نہیں کرتے۔ دیکھونا! آج کل۔۔۔ بس اب میں ایک بھی نہ سنوں گی۔ لوگوں کے لیے یوں۔۔۔ کتنی بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔ میں جیسا کہوں ویسا ہی کرنا۔ ہاں نہیں تو۔ ہم کہیں بوڑھے تو ہونہیں گئے۔ اور نہیں تو کیا؟ چار بچے ہوگئے تو کیا ہوا؟ کیاہوا۔۔۔؟ کیا ہوا۔۔۔؟
کچھ بھی نہیں ہوا تھا، اس کا تجربہ اسی رات دیو کو ہوا۔ رات کو بے حد لطف حاصل کرنے کے بعد صبح دیو نے کہا، شوچی تو تو کمال کی عورت ہے، کمال کی عورت ہے، کمال کی عورت ہے، شوچی! کچھ بھی نہیں ہوا، شوچی۔
کمر کس کے لڑنے کے تیار ہورہی ہو، یوں، آتو سہی، میں بھی تودیکھوں تیرا دم خم، جیسی حالت میں اس نے اس رات کی صبح کردی۔
(مرنے کی بھی فرصت نہیں ہے کیوں؟ نالائق، تو کیا سمجھتا ہے کہ یہاں تیرے لیے رت جگے ہورہے ہوں گے) گیتی، یہ کیا، یہ کیسا ٹھٹھا ہورہا ہے۔ بلو فراک کیوں پہنااتار۔ اتار کہتی ہوں نئے کپڑے پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (وہ آنے والا ہے تو اس لیے میرے گھر میں کوئی تبدیلی نہیں آنی چاہیے، کسی قسم کی کوئی نمائش نہیں۔) گجری، ای، ای۔ اے گجری، میراہاتھ چاقو سے کٹ گیا ہے۔ لیموں تجھے نچوڑنا پڑے گا۔ آلو کے بڑے، ٹھیک ہے وہی بنائے جائیں گے۔ وہ سمجھتا ہوگا کہ میں اس کی پسند کا کھانا بناؤں گی اور ہاتھ میں پنکھا لے کر اس کی خدمت کروں گی۔۔۔ یہاں سے گزرنے والا ہے، بڑا آدمی ہے۔ مجال ہے کہ میرے یہاں سے وہ یونہی گزر جائے؟ کان سے پکڑ کر اس گھر میں لاؤں گی اور دکھاؤں گی اسے۔۔۔
اس کے آنے کے خیال سے شوچی گھر کی ترتیب ہی بدلے دے رہی تھی۔ لمبے لمبے سانس لے کر دانت پیس رہی تھی۔ گلدان میں پھولوں کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس میں موگرے کا پھول تو ہونا ہی نہیں چاہیے۔ نیتی کے بالوں میں لگادیا جائے گا۔ نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے کرسی پر کپڑا پھیرا، جھٹکا، پٹخا اور مقررہ جگہ پر بیٹھی ہوئی ہستی کو سنانے کے لیے مناسب فقرے تیار کرنے لگی،
(جی، آئیے، یہ میرے پتی دیو، میرے اور گھر کے سوامی، میرے بچوں کے، اس ماحول کے، سب کے مربی، سرپرست، سمجھ رہا ہے تو؟ اور پاجی، تو کچھ نہیں، کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں۔ تو تو اس گھر کی دہلیز کے باہر کا آدمی ہے۔ محض ایک پریت! بہت سے پریتوں میں سے ایک پریت، ہاں جی، بچے ہیں۔ میں کوئی بانجھ نہیں ہوں۔ تو پوچھنے والا ہوتا کون ہے۔ ایک دو نہیں چار بچے۔۔۔ اور چار بچے اور ہوں گے۔ بول کیا میں بوڑھی ہوگئی ہوں۔ میں فیشن کی پرستار نہیں ہوں۔ اور ہاں فیملی پلاننگ بھی نہیں مانتی۔۔۔۔ جی ہاں گھومنے گئے ہیں سب۔ آئیں گے جب دل چاہے گا۔ تجھے سلامی تو دینی ہے نہیں کہ میں سب کو ایک قطار میں تیرے سامنے سے گزرنے کا حکم دوں۔۔۔)
اے نیتی! سونیتی، کیا ہے یہ سب کچھ، گیتی، تم سب خاموش کیوں بیٹھے ہو۔ تجھے فلم فیئر دیکھنے کاآج ہی وقت ملا، چپ چاپ؟ اور تو اسکول کا سبق لے کر بیٹھ گئی۔ ریڈیو نہیں سننا، والیوم بڑھاؤکہ باورچی خانے میں سنائی دے۔ نہیں، کچھ نہیں۔ ہوٹل، ریسٹوران جیسا نہیں لگے گا۔ مزے کرو، ہنسو، کھیلو، یوں کیا منہ بنائے گھوم رہے ہو تم لوگ؟ ہاں، میں باورچی خانے میں ہوں۔۔۔ (ابھی سیدھا کرتی ہوں اسے، سرخ مرچوں کا دھنواں کیا ہو جیسے، یوں آنکھوں میں سے پانی بہنے لگے، ایسا تیز بناتی ہوں سالن۔ گوار کی بھلیاں ڈھوروں کو کھلائی جاتی ہیں۔ کیوں؟ ہاں، تو ڈھورہی تو ہے۔ اب تیری باری ہے ٹھہر تو جا)
اب یہ تم کہاں چلے؟ وہ سگریٹ نہیں پیتا۔ نہ پیتے ہوں۔ پیتے بھی ہوں شاید (وہ بڑاا ٓدمی ہے تو اپنے گھر کا، ہمیں کیا) پناما لے آنا۔ سنا؟ اور ہاں۔ میں اسٹیشن نہیں آرہی (جیسے اس کی آرتی اتارنی ہے یا نذر لینی ہے) بس میرا پیغام دے دینا، انتظار کررہی ہوں، نہیں یوں نہیں، ہاں، میرے نام سے اصرار کروگے تو یہاں اتر پڑے گا۔‘‘
یہاں آنے تو دو ایک دفعہ۔ اس کی کھوپڑی نہ توڑ دی تو۔۔۔ جی، ٹھہرنے والے ہو؟ چند گھنٹے؟ اوہو۔ ہو۔ ہو۔ تم جیسے گھنٹے خیرات کرنے نکلے ہو۔ بڑے آدمی ہو، اس کا نشہ ہے؟ لیکن بیوقوف، سن میں۔۔۔ میں۔۔۔ تجھے میری خیر ات چاہیے۔ نہیں چاہیے، آج جاتا ہوتو اسی وقت چلاجا، اٹھ فوراً اسی وقت۔ نہیں پانی نہیں پلاؤں گی۔ یہ کوئی سرائے سبیل نہیں ہے۔ اٹھ۔۔۔ اٹھ۔۔۔ اٹھ۔۔۔ نکل یہاں سے، کس نے تجھے دانے ڈالے ہیں کہ تو یہاں آیا، تو تماشہ دیکھنے آیا ہے، ہے نا؟ تو سوچتا ہوگا کہ واہ اسے کیسے مناؤں، ہے نا؟ چند گھنٹوں کی خیرات اس وقت تو نہ کرسکا، ہجڑا! وعدہ خلاف!
(اب ریل اسٹیشن پر آگئی ہوگی) سونیتی، یہاں آؤ بیٹا، میرے پاس بیٹھ جا۔ اونچی آواز میں نظم پڑھ تو۔ قلی تک نہیں ملتا۔ سب کے سب بیوقوف ہیں۔ پہچانیں گے کہ نہیں وہ؟ وہ بڑا آدمی جو بن گیا ہے۔ ’’اوہ! رمیش بھائی، آئیے، یہ ذرا چکھ کر دیکھو۔ سورن (زمین قند) کارائتہ بنایا ہے جس میں میرے نام کی رائی پڑی ہے۔ چہ کیا تم بھی۔ میرا دماغ۔۔۔۔ ٹیکسی کرتے دیر کتنی لگتی ہے۔ ا س صاحب کی دم کو حیل حجت کرنے کی عادت تو ہے ہی۔ ہاں، نہیں کی پونچھ پکڑ کر بیٹھا ہوگا۔ (گجرا، اری اوگجری، پنکھے کی اسپیڈ بڑھادے، اس گرم ہوا سے کمرہ تپ گیا ہے۔ اور سن، ایرانی کے ہوٹل سے چار آنے کا برف لے آ، سونیتی، گیتی، سونیتی، ای، ای، کہاں گئے سب کے سب؟ یہاں آؤ، یہاں باورچی خانے میں بیٹھو سب۔ میرا ہاتھ بٹاؤ، جو کہوں ایسا کرو۔ یہیں ٹھہرو، میرے پاس۔۔۔ میرے پاس۔۔۔ تمہارے پپا آگئے۔‘‘
دیو کی آواز آئی۔ اسٹیشن سے لوٹ کر وہ اسی طرح شوچی کو پکارتا تھا۔ پکارنے کا لمحہ اور سننے کا لمحہ گڈمڈہوگیاتھا۔ دیوباورچی خانے میں پہنچے، اس سے پہلے ہی اس نے گیتی کوٹوکا،
’’ارے، گر جائے گی، کیا کررہی ہے؟‘‘
’’گھڑی میں کوک بھررہی ہوں، دیکھونا، گھڑی گھڑی۔۔۔ ابھی کل ہی۔۔۔‘‘ گیتی نے جواب دیا۔
دیوشوچی سے کہہ رہا تھا، ’’پھر اس کا پروگرام ہی کینسل ہوگیا۔ اس کے آدمی نے رقعہ دیا۔ بچارے نے خصوصیت سے رقعہ بھیجااور معذرت چاہی کہ وہ آنہیں سکا۔ نیتی! یہ میری گھڑی میز پر رکھ دے۔‘‘
’’کتنے بجے ہیں۔ وقت ملا لوں۔‘‘
’’ارے پہلے کوک تو بھرلے پوری۔‘‘
دیو نے سلسلہ کلام جاری رکھا، ’’کتنا بڑا آدمی لیکن غرور کا شائبہ تک نہیں۔ ورنہ اسے کیا پڑی ہے کہ معذرت طلب کرے۔ تجھے بھی سلام لکھا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کیا؟‘‘
(نہیں آیا؟ نہیں آیا؟ ایک بار پھر مجھے بناگیا؟)
شوچی کا دل بل کھاگیا۔ بھرپور کوک بھری گھڑی کی کمانی ’’سرارچھن‘‘ سے، ایک جھٹکے کے ساتھ ٹوٹ گئی اور اس کی سوئیاں تیزی کے ساتھ گھومتی چلی گئیں، گھومتی ہی چلی گئیں۔۔۔
’’پپا! یہ دیکھونا۔۔۔!‘‘
’’گیتی، موتی کا کا سے کہہ دینا۔ وہ آکر یہ گھڑی لے جائیں گے بہت پرانی ہوگی ہے۔ بیچ دیں تب بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘
گیتی ایک پر دوسری تپائی رکھ کر اوپر چڑھی تھی۔ وہ اترنے لگی۔ تکونی کنجی اس کے ہاتھ میں چھوٹ گئی، تپائی پر گری اور وہاں سے اچھل کر شوچی کے سر پر ’’پٹ‘‘ سے لگی۔
شوچی دونوں ہاتھوں سے سرپکڑ کر اور ’’اوماں رے‘‘ کہتی ہوئی فرش پر بیٹھ گئی۔ بہت زیادہ چوٹ آگئی، بہت چوٹ آئی؟ اس کی رندھی ہوئی، بھنچی ہوئی آواز رفتہ رفتہ بلند ہوگئی۔ دیو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ایک ذرا سی کنجی لگ گئی ہے۔ اس میں یوں بلک بلک کر کیوں رو رہی ہے۔ چار بچوں کی ماں ہے تب بھی، پھر گزشتہ رات کا واقعہ یاد آیا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’شوچی! تو واقعی کمال کی عورت ہے، اس کے دل نے کہا، اور گیتی سوچ رہی تھی، کیا واقعی ماں کو بہت چوٹ آئی ہے؟ خون تو نکلا نہیں، ایسا کیوں؟‘‘
شوچی اپنا سر پکڑ کر اٹھی اور سوچنے لگی (وہ ہے ہی ایسا کم ذات، لیکن، لیکن، اچھا ہی ہوا جو نہیں آیا ورنہ، نہیں تو پھر پریت کی دعوت اور، پھر، وہ آنے والا ہے، کااعلان سننے کا پروگرام شاید زندگی میں سے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا۔ زندگی کاکتنا بڑا حصہ خالی خالی ہوجاتا۔)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.