نہ ختم ہونے والی چپ
ابھی گاؤں والوں پہ ایسا وقت نہ آیاتھا جب انسان پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور اپنی بات کا یقین دلانے کے لیے قسمیں کھانی پڑتی ہیں۔ گاؤں میں کوئی ایسی واردات بھی نہ ہوئی تھی کہ عدم تحفظ کی فضا پیدا ہوتی پھر بھی خدا بخش تاجر اپنے گودام کو خود تالا لگاتا اور تالا لگاکے اسے کئی بار کھینچ کے دیکھتا اور سونے سے قبل اپنے خونخوار کتوں کو کھلا چھوڑدیتا۔ ہرچند کہ وہ صوم و صلاۃکا پابند تھا اور تجارت کو اسلامی پیشہ سمجھ کے اختیار کیے ہوئے تھا، پھربھی وہ ذخیرہ اندوزی کو سودا بیچنے کی تکنیک کہتا اور ماہ صیام میں عمرہ کرنے کے بہانے روپوش ہوکر اپنے ملازموں کی معرفت اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کرتا۔
سال کے مقدس ماہ کے کسی ایک دن اچانک گاؤں والوں پہ افتاد پڑی۔ یہ افتاد ایک عجیب آواز تھی جس نے گاؤں والوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے بچوں کو غور سے د یکھیں۔ وہ صدا کہاں سے آئی تھی۔ سب سے پہلے کس نے سنی تھی۔ اس پر کسی نے بھی غور نہ کیا۔ پریشان کن صورت حال سامنے تھی کہ سب بچے دیکھتے ہی دیکھتے پست قد ہوگئے تھے۔ وہ اشکبار ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے سوچنے لگے، ہمیں اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے ورنہ آنے والا کل ہمیں بونوں کی نسل میں تبدیل کردے گا۔ آن کی آن میں یہ خبر پنچوں تک پہنچ گئی۔ اعلان ہوا کہ صورت حال سے نپٹنے کے لیے نواحی گاؤں کے پنچوں کو بلالیا گیا ہے۔ فیصلے کا انتظار کیا جائے۔
وہ جو اس گاؤں کا پنچ نہ تھا، پنچوں کی اولاد میں سے بھی نہ تھا، گاؤں میں اس کا ذاتی کھیت یا مکان بھی نہ تھا پھر بھی وہ اپنے کاندھے پہ گارے کی تگاری اٹھائے مکانوں کی تعمیر میں جٹا رہا اور کھیتوں میں بیج ڈالنے والی کھیپ میں بھی شامل رہا۔ مکانوں کی نیو میں اور کھیتوں کی تڑختی زمین میں او ر بدلتی رتوں کی لہلہاتی فصلوں میں اس کے پسینے کی خوشبو رچی بسی تھی۔ اسی لیے وہ پسینے میں شرابور ہے اور اس پر کپکپی طاری ہے۔ گاؤں والوں کا یہ بھی خیال تھا کہ ایسی کیفیت برسوں بعد لاکھوں انسانوں میں سے کسی ایک پر طاری ہوتی ہے اور اجتماعی احساس کو بیدار کرنے کی بنا ڈالتی ہے۔
گاؤں کے ٹھنڈے میٹھے پانی والے کنویں کے قریب پیپل کے نیچے سیمنٹ کے تھڑے پہ تمام پنچ سرجوڑ کے بیٹھ گئے۔ گاؤں والے اپنے کو تاہ قد بچوں سمیت تھڑے کے ارد گرد دھول اڑاتی زمین پر سراپا انتظار بنے خاموش ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ انتظار کا ایک ایک لمحہ مردوں کے تنفس کو بے ترتیب کرتا رہا اور بچے فیصلے کی اہمیت سے بے نیاز سوتے رہے۔ نہ جانے کب تک وہ اسی حالت میں بیٹھے رہے۔۔۔ ایک دن۔ ایک دن کا کچھ حصہ یا کئی دن۔۔۔ مدت کا تعین کرنے کی نوبت یوں نہ آئی کہ سب فیصلے کی نوعیت میں الجھ کے رہ گئے۔ فیصلہ ناقابل یقین تھا اور ناقابل عمل بھی۔ صورت حال سے نپٹنا مزید دشوار ہو گیا۔
تھڑے کے ارد گرد کچی زمین پہ بیٹھے لوگوں نے تھڑے کے پکے فرش پر بیٹھے پنچوں کی جانب حیرت سے دیکھا۔ ’’تمہارے لیے دراز قد رسالہ خان کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو نہایت توانا ہے اور جس کے تھیلے میں تمہاری نسل کو قد آور بنانے کے بیج موجود ہیں۔ اپنی عورتوں کو آگاہ کردو کہ وہ اس کی بھوک پیاس کا بطور خاص خیال رکھیں۔‘‘ اعلان ختم ہوا۔ لوگ وہیں دم بخود بیٹھے رہے۔ وہ اس حالت میں نہ جانے کب تک بیٹھے رہے۔ ایک دن۔ ایک دن کا کچھ حصہ یا کئی دن۔ مدت کا تعین کرنے کی نوبت یوں نہ آئی کہ نیا اعلان پہلے سے بھی زیادہ پریشان کن تھا۔
’’جب دراز قد کسی بھی گھر میں داخل ہو تو صاحب خانہ پہ لازم ہے کہ وہ اپنی دہلیز عبور نہ کرے۔ خلاف ورزی کرنے والے کو بھاری جرمانہ یا کئی دن کی جیل یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔‘‘ جیل کی بلند قامت دیواروں کے تصور نے انہیں مزید نڈھال کردیا۔ پنچوں کا فیصلہ ان کی بقا کا ضامن ہے یا وہ قد آور نسل پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔ سب کچھ بے معنی ہوگیا کہ تادیبی کارروائی کا خیال اعصاب کو مفلوج کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ نہایت سوچ بچار کے بعد انہوں نے خاص وضع کے بوٹ تیار کرنے کا ارادہ کیا اور انہیں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ پنچوں سے رسالہ خان کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے۔
چنانچہ ایک خاص وضع کے ایڈجسٹیبل بوٹ بنوائے گئے اور پنچوں کی معرفت دراز قد کو پیش کرتے ہوئے دست بستہ گزارش کی گئی کہ صاحب خانہ کی سہولت کے لیے کسی بھی گھر میں داخل ہونے سے پہلے یہ بوٹ باہر اتار دیے جائیں۔ اپنی دانست میں لوگوں نے قانون کی گرفت سے بچنے کا سامان کیا تھا لیکن وہ ایک نئے آزار میں مبتلا ہوگئے۔ جب بھی کوئی مرد تھکن اتارنے کے لیے اپنے گھر کا رخ کرتا، خاص وضع کے بوٹ دہلیز سے باہر پڑے ملتے۔ صاحب خانہ تادیبی کارروائی کے خوف سے چوکھٹ پہ بیٹھ جاتا۔ یوں چوکھٹ پہ بیٹھنے کا سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہا۔ اس پہ غور کرنے کی نوبت یوں نہ آئی کہ گاؤں والے ایک نئے عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ ہر گھر میں بالشت بھر کا بچہ پیدا ہوا۔
وہ رونے لگے اور روتے ہوئے ایک دوسرے سے کہنے لگے، ’’ہم نے تو کبھی کسی غریب معبد کے تپاون نہ تپائے تھے پھر بھی ہمارا گاؤں کسی ناپاک روح کی نحوست میں کیوں گھر گیا ہے۔ ہماری عورتوں کے حمل ٹھہرتے ہیں لیکن پیدا ہونے والے بچے۔۔۔؟‘‘ پھر وہ سوچنے لگے ہم اپنے گھروں کی دیواروں پراپنے پرکھوں کی تصویریں آویزاں کردیں۔ ممکن ہے اسی طور ہماری عورتیں ہمارے پرکھوں جیسے قد آور بچے پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ پرانے اخبار کا ایک تراشا نہ جانے کہاں سے اڑتا ہوا سیمنٹ کے تھڑے پر آگیا اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
’’بستی باوا آدم میں ایک شخص خلیق احمد نے اپنے بھائی اور اپنی بیوی کو قتل کردیا۔ اس کا بیان ہے کہ مقتولین کے آپس میں ناجائز تعلقات تھے لہذا اس نے جو کچھ بھی کیا کار ثواب سمجھا۔‘‘ لوگ سیمنٹ کے پختہ تھڑے کے سامنے کھڑے بار بار اخبار کاتراشا پڑھتے رہے اور اس بات پر غور کرتے رہے کہ یہ تراشا کس اخبار کا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔
عمرہ کرنے کے بہانے روپوش ہونے والا تاجر خدا بخش سفید عبازیب تن کیے عید کی خریداری کے دوران قیمتوں میں مزید اضافے کے امکانات کاجائزہ لینے نکلا تو تھڑے کے سامنے ہجوم دیکھ کر رک گیا۔ اخبار کا تراشا پڑھتے ہی وہ چیخا، ’’عورت فساد کی جڑ ہے۔ اس نے آدم کو جنت سے نکلوایا اور بھائی سے بھائی کو قتل کرایا۔ فساد کی جڑ کو ختم کردو، ختم کردو۔‘‘ لوگوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر انہوں نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے۔
وہ جو اس گاؤں کا پنچ نہ تھا۔ پنچوں کی اولاد میں سے بھی نہ تھا۔۔۔ اس گاؤں میں اس کے لیے کوئی ذاتی کھیت یا مکان بھی نہ تھا، لرزہ براندام لوگوں کے بیچ کھڑا تھا۔ اسے محسوس ہوامکانوں کی نیو میں اور کھیتوں کی تڑختی زمین میں سے اس کے پسینے کی خوشبو یک لخت غائب ہوگئی ہے اور لہلہاتی فصلیں خشک ہوگئی ہیں۔ تب اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ نہایت خاموشی سے کسی نامعلوم سمت روانہ ہوجائے اور اپنے ہمراہ اپنے بیوی بچوں کے علاوہ ایک ایک جوڑا جانوروں اور پرندوں کا بھی لے جائے اور اپنا نسب نامہ وہیں چھوڑجائے کہ اسے کامل یقین تھا لوگ خدا بخش تاجر کی بات مان جائیں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.