Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نارنگ

مریم عرفان

نارنگ

مریم عرفان

MORE BYمریم عرفان

    ہر انسان کے اندر ایک جانور چھپا ہے جو کبھی کبھی سر اٹھاتا ہے جس کی اٹھان چیتے جیسی اور منہ سور کا ہے۔ اس جانورکے کانٹے دار جسم سے لگنے والی خراشیں اور اس کے دانتوں کی کاٹ جسم کو ہی نہیں بلکہ روح کو بھی چھلنی کر دیتی ہے۔ یہ بد ہیئت جانور نفس کو مارنا نہیں جانتا بلکہ اس کی رگوں میں صدیوں کی حرام کاریوں کا خون قطرہ قطرہ جمع ہو کر دریا بن جاتا ہے۔ یہ گرم خون جب جوش مارتا ہے تو عزت اور غیرت کے بت بھی پاش پاش ہو جاتے ہیں اور مائیں، بہنیں بیویاں بن جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک جانور نارنگ کے اندر پیدا ہو چکا تھا جو نسلاً جانگلیوں کی اولاد تھا۔ چھوٹی چھوٹی بنٹے جیسی آنکھوں، گہرے رنگ اوردرمیانے قد کا نارنگ بڑی غیر محسوس شخصیت کا مالک تھا۔ اس کی ناک اور آنکھوں میں فاصلہ بہت کم تھا، گول گول نتھنے ایسے اوپر کو اٹھے ہوئے جیسے کچھ سونگھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کے چہرے پر بال ہی بال تھے جبھی تو وہ بےترتیب داڑھی میں چھوٹا سا بھوتنا لگتا تھا۔ گہری سوچوں میں گم اس کا ہاتھ بےاختیار اپنی گھنی داڑھی میں گھس جاتا تو اس کی آنکھیں مندنے لگتیں۔ اس کے سر پر بالوں کا چھجا دھرا تھا، گھنگھریالی جٹائیں اگرچہ گردن تک آتی تھیں لیکن بڑی عجیب سی بسانداس کے پسینے کے ساتھ مل کران میں رچ بس گئی تھی۔ بالوں والایہ ریچھ میلے چیکٹ سادھوؤں کی طرح اپنی ٹانگوں کے بوجھ پر بیٹھتا تو لگتا اس کا دماغ سوچوں کی اگنی میں خیالوں کی ہنڈیا چڑھاکر انگلیوں سے راکھ کریدتا ہو۔

    بارہ بہن بھائیوں میں آخری نمبر پر پیدا ہونے والا نارنگ لٹو کی طرح دن بھرگاؤں کی گلیوں میں گھومتا رہتا۔ نارنگ کا باپ گاؤں کا ماسٹر تھا اس کا طنطنہ اور رعب صرف سکول کی حد تک قائم نہیں تھا بلکہ گھر میں بھی اسی کی چلتی تھی۔ خون کی یہ گرمی اس کے باپ کی رگوں میں فولاد بن کر دوڑ رہی تھی اس کے لیے نارنگ کی ماں صرف عیاشی کا ذریعہ تھی جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے یہ بارہ بچے ڈربے میں بھاگتی پھرتی مرغیوں کی طرح تھے۔ نارنگ اس جیل کا باغی قیدی تھا جسے اپنے باپ کی حرصی نظروں سے سخت نفرت تھی۔ وہ ماں کو ہمیشہ اپنی نظروں کے حصار میں رکھتا تھا لیکن جیسے ہی اس کا باپ چیل کی طرح اسے اپنے پنجوں میں جھپٹ کر دبوچتا نارنگ کٹ کٹ کٹاک کرتا پورے صحن میں چکر لگانے لگتا۔ بےخودی کے عالم میں وہ نجانے کتنی مرتبہ صحن کی دیوار اپنے گھٹنوں اور پنجوں کی مدد سے چڑھتا اور اترتا۔ خود اذیتی کی اس عادت نے اس کے نحیف و نزار جسم کو جگہ جگہ سے داغدار کر دیا تھا اور وہ منہ زور گھوڑے کی طرح اتھرا ہوتا جا رہا تھا۔ ماں باپ کی اس جذباتی زندگی اور لمحاتی کشمکش کے خیال کو مٹانے کے لیے وہ اکثر چاچا رفیق کی سوڈا واٹر کی ریڑھی پر جا کھڑا ہوتا جہاں ٹھاہ ٹھاہ کی آوازوں سے کھلنے والے ڈھکن اور گلاسوں میں شر۔۔۔ررر۔۔۔کی پیدا ہونے والی آوازیں اس کے دل کو تسکین پہنچاتیں۔ وہ گاہکوں کو کسی نادیدے بچے کی طرح ٹکر ٹکر سوڈا واٹر پیتے دیکھتا رہتا۔ ایسے موقعوں پر اکثر اس کے ذہن میں پرانی باتیں سینما میں چلنے والی فلم کی طرح چلتی رہتیں اور وہ اپنے ناخن کترتا رہتا۔

    اسے ماسی برکتے کی بیٹی کی بارات کا دن بھی یاد تھا جب اس کے باپ نے سب بچوں کو قطار بنا کر شادی والے گھر میں بھیجا اور خود آنکھ بچاکر گھر بھاگ آیا۔ نارنگ شکاری کتے کی طرح تاک میں تھا وہ اپنے باپ کی بو سونگھتا ہوا گھر داخل ہوا اور کمرے کی کھڑکی کی ادھڑی ہوئی جالی میں سے جھانکنے لگا۔ تھوک نگلتا ہوا نارنگ اپنے باپ کے لمبوترے چہرے کو تصور میں لیے اپنے بنا تسموں کے بوٹوں تلے روندتا رہا۔ اسے اپنی ماں پر ترس آنے لگا، اس کے دل کی دھڑکن بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ماتھے پر پسینے کی بوندیں اسے ناک کے کونے پر محسوس ہونے لگیں۔ وہ صحن کی طرف بھاگا، اس کی نظریں کھرے کے کنارے رکھے ڈنڈے پر پڑی۔ اس نے ڈنڈا اٹھایا اور دیوار کے ساتھ لگی چارپائی پر تڑاتڑ برسانے لگا۔ اسے محسوس ہواکہ چارپائی کی جگہ اس کاباپ پیٹھ پرہاتھ باندھے کھڑاہے اوروہ اس کی پشت پرڈنڈوں کی برسات کررہاہے۔اس کی ماں ہلکے ہلکے قدم اٹھاتی صحن کی طرف آئی تو نارنگ چارپائی پر ڈنڈے برسا رہا تھا۔ وہ نارنگ کی طرف خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی: ’’ایس کھسماں نوں کھانی منجھی نوں ون کے رکھ دے، حرام دے کھٹمل نے سونا حرام کردتا اے۔‘‘ نارنگ کو لگا جیسے وہ توپ کے سرہانے کھڑا ہو اور انگریز فوجی کے ’فائر‘ کہتے ہی اس نے گولے داغنے شروع کر دئیے۔

    نارنگ جیسے لوگ دنوں میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ یہ صدیوں اور سالوں کی ناپاکیوں اور نجاستوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ کسی بددعا کی طرح ان کی زندگیاں بھی نجس ہو جاتی ہیں۔ نارنگ کے اندر گندگی کے اس انبار نے اس قدر جگہ بنا لی تھی کہ اب اسے اپنی صفائی ستھرائی کا بھی خیال نہیں رہتا تھا۔ دن ہفتوں اورہفتے مہینوں میں بدل جاتے اور وہ منہ ہاتھ دھوئے بنا ہی کھائے چلا جاتا۔ جانگلیوں کے دل اور ذہن بھی جنگل کی باس سے بھرے ہوتے ہیں جہاں سورج کی کوئی کرن اپنا رستہ نہیں بناتی۔ اسے گھرسے کوئی لگاؤ نہیں تھا، وہ سارا دن گاؤں کی گلیوں کی خاک چھانتا رہتا۔ پہلے اسے بلیر ڈکھیلنے کا چسکا پڑا اور وہ لوٹے کی دکان کا بہترین کھلاڑی مشہور ہو گیا۔ بلیرڈٹیبل اس کے گھر کا صحن تھا جہاں اس پر پڑی رنگ برنگی گیندیں گھر کی عورتیں تھیں اور سرخ گینداس کی ماں تھی۔ وہ ڈنڈے کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان میں رکھ کر ایک آنکھ میچتے ہوئے اس زور سے چوٹ لگا تاکہ ساری گیندیں ٹیبل کے کناروں پر جاکر سر پٹخنے لگتیں۔ نارنگ کے چہرے پر تسکین کے چھینٹے پڑنے لگتے، دکان ’نارنگ زندہ باد‘ کے نعروں سے گونج اٹھتی۔ پھر لوٹے نے ایک اور ٹیبل بڑھا لیا جس پرباوے والی گیم کھیلی جانے لگی، بڑی سی ٹیبل پر آٹھ سے دس چھوٹے بڑے ڈنڈوں کے درمیان ایک بال نارنگ تھا۔ ڈنڈوں میں کھبے ہوئے باوے اسے ادھرسے ادھر دھکیلتے رہتے اور وہ سکور کرتا چلا جاتا۔ ان باووں سے کھیلتے اور سکور کرتے اس کے بازوشل ہونے لگتے، ہانپتے ہوئے اس کی نظر ایک جگہ ٹک جاتی اور دیکھنے والوں کو لگتا کہ اس پر کوئی جن آ گیا ہے۔

    نارنگ کے شوق دن بدن بدلتے جا رہے تھے، بلیرڈ اور فٹ بال کھیل کر بھی وہ تھکنے لگا تھا کہ نمبرداروں کی بیٹھک نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ جہاں ہر ہفتے کی رات سے اتوار کی صبح تک وی۔ سی۔ آر۔ پر فلمیں چلتیں۔ نارنگ بھی اب اس بیٹھک کا حصہ تھا لیکن اس کی سیٹ کمرے کے سب سے آخر میں رکھی جاتی۔ سکرین پر تھرکتی لڑکیاں اور کمرے میں بجتی سیٹیاں اس کے جسم میں ہیجانی تلذذ پیدا کر دیتیں اور وہ بےساختہ کرسی سے اٹھ کرنا چنے لگ جاتا۔ نارنگ اپنے حصے کی عیاشی کوڑا اٹھانے والے بچوں کی طرح اپنے دماغ کے تھیلے میں ڈالتا جا رہا تھا۔ اخباروں میں فلمی اشتہاروں والے صفحے بھی اس کی توجہ کا مرکز تھے، جن پر ہیروئنوں کی آڑی ترچھی لکیروں سے جھانکتی فربہ رانوں والی تصویروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی انگلیاں نشئی کی طرح کانپنے لگتیں۔

    نارنگ کو ان دنوں نگو سے محبت ہو گئی، ہمسایوں کی یہ سانولی سلونی لڑکی اکثر اسے خوابوں میں ملنے لگی۔ یہ محبت بھی اس کے لیے خام تیل کی طرح تھی، جس کی قیمت کبھی بڑھتی اورکبھی گھٹتی رہتی تھی۔ نارنگ بھی توخام حالت میں تھا، کچے پھل کی طرح جس کی بو میں مٹھاس نہیں تھی اور رس ابھی کسیلا تھا۔ وقت سے پہلے ہی پیڑ سے گرنے والا پھل اس جیسا ہی ہوتا ہے اسی لیے وہ کبھی دیکھنے والوں کو ان کے پیروں میں پڑا نظر نہیں آیا۔ نگو سے محبت دودھ میں آئے ابال کی طرح تھی جو جتنی جوش میں پتیلی سے اوپر آئی اتنی ہی جلدی بیٹھ بھی گئی۔ پھر اسے اپنی بڑی بہنوں کی چیزوں سے انسیت ہونے لگی وہ انور اور اختر کے درازوں کی تلاشیاں لیتا رہتا تھا۔ انور کی شادی اپنے ہی گاؤں میں ہوئی تھی اور وہ مہینے میں دو تین مرتبہ ماں کے گھر چکر لگا لیتی تھی۔ اختر ابھی کنواری تھی اس کے جسم کا کنوار پن گنے کے رس کی طرح چھلکتا رہتا تھا۔ وہ اب نارنگ کی نظروں کی زد میں رہتی تھی، دھپ دھپ کرتی کپڑے دھوتی اختر جب شراپ۔۔۔پ۔۔۔کی آوازیں نکالتے ہوئے نچڑتے کپڑے تار پر ڈالتی تو نارنگ اس کی کمر کو چھوتی ہوئی چوٹی باندھنے لگ جاتا۔ ’’ بس وے کملیا! تو جا ۔‘‘ اختر کے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ اس کا دل نکال لیتے۔

    اذیت اب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھنے لگی تھی کہ ایک دن جب گھر میں کوئی نہیں تھا نارنگ نے اختر کی کپڑوں والی الماری کھولی اور اس کی بنیان اور جانگیا اپنی شلوار قمیض کے نیچے پہن کر باہر نکل گیا۔ اختر ہفتہ بھر اپنے گم شدہ کپڑوں کا رونا روتی رہی سارا گھر چھان مارا، کچن کے کنستر تک کھنگال ڈالے سامان کھول کر پھر تہہ لگا دیا لیکن اس کی چیزیں نہ ملیں۔ نارنگ کتنے ہی دن اس کی بنیان اور جانگیے میں سوتا رہا۔ جیسے اس نے اختر کی دولت چرا لی ہو اور اب وہ اس زر کے سرہانے سانپ بنا بیٹھا تھا۔ اس دن بھی وہ ایسی ہی ناکارہ سوچوں میں گم تھا کہ گلی سے آواز آئی:

    ’’گھگھو گھوڑے لے لو، اے ہاتھی آ، شیر آ، بھالو آ۔۔۔‘‘کھلونے والی نے سر پر سے ٹوکری نیچے اتارتے ہوئے آواز لگائی۔

    ’’اے ماسی! کوئی نیا کھلونا نہیں تیرے پاس۔‘‘نارنگ نے زمین پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’تے کوں کیہڑا کھڈونا چای دا اے۔ مڑ اے ویکھ لمی دم دا باندر۔‘‘

    ’’نانانا۔۔۔ماسی کوئی کڑی والا کھڈونا دکھا۔‘‘

    ’’ایں ں ں ںں۔۔۔جنانی؟؟؟؟‘‘

    ’’میں کوں تے گھگھو گھوڑے ہی ہو سن۔جنانی کتھو آئی۔‘‘

    نارنگ کو مورتیاں بہت پسند تھیں چاہے وہ پلاسٹک کی ہوں یا مٹی سے بنی گڑیاں۔ وہ جہاں ایسی چیزیں دیکھتا کتنی ہی دیر انھیں تکتا رہتا اور بالاخر اپنی آنکھیں میچ لیتا تھا۔ اس کے پاس ایک پلاسٹک کی باوی بھی تھی جسے اس نے بھینسوں کی کھر لی کے پاس دفنایا ہوا تھا۔ جب بھی اس کی ماں دودھ دوہنے جاتی وہ چپکے سے اپلوں والی کوٹھڑی کی اوٹ میں ہوکر گڑیا نکال لیتا۔ وہ اس ننگ دھڑنگ باوی کی خوشبو اپنے نتھنوں سے سینے کے اندر کھینچنے لگتا۔ وہ باوی اس کے تیز دانتوں کی کاٹ کے باعث جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی۔اب یہ باوی اسے اپنی بڑی بہن انور جیسی لگنے لگی تھی۔ویسی ہی تنے ہوئے جسم کی مالک، سڈول ٹانگیں اور بلند چھاتیاں۔ ایک دن وہ بہن کوملنے اس کے گھر گیا جہاں باوی چولھے میں لکڑیاں جھونک رہی تھی۔ پھونکنی سے لکڑیوں کو سلگاتی ہوئی انور کا چہرہ سرخ ٹماٹر ہو رہاتھا۔ اس کی آنکھوں سے نکلنے والا پانی اس کے گالوں کو بھگو چکا تھا۔ سارا دن وہ انور کو کام کرتے دیکھتا رہا شام کو کمرے میں بیٹھنے کا موقع ملا تو وہ انور کی ٹانگوں پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ بد ہیئت جانور نے انگڑائی لی اور نارنگ نے انور کے پاؤں چوم لیے۔ ’’ صدقے جاواں! میرے بھرا، خیر تے ہے ناں، اج بڑا پیار لٹاون ڈیاں اے۔‘‘ انورکے نتھنے سور جیسے جانور کی سانسوں کی بو سونگھ نہیں پا رہے تھے۔ ’’ انوری! مینوں پیار کر۔‘‘ چیتے نے جست لگاکر انور کے ہاتھ پکڑ لیے۔ وہ لمحہ بھر کو سٹپٹائی جیسے اس کے نتھنے بو سونگھنے کے قابل ہو چکے ہوں۔ اسے نارنگ میں سے انسانی خون کی تیزبو محسوس ہوئی اس نے سور کے منہ والے جانور کو جھٹ گلے سے لگایا اور گالوں پر بوسہ دیتے ہوئے بولی:’’کملیا! گھر جا، شام توں بعد جنور رستہ نپ دے نے۔‘‘ انور کو معلوم نہیں تھا کہ جو جانور اس کے سامنے بیٹھا ہے اس کے سامنے گلی کے جانور کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ گھر واپس آکر بھی وہ ناخوش ہی تھا اس کا جی چاہتا تھا کہ اختر کو بھینچ کر گلے لگا لے یا پھر اپنی ماں کی چھاتیاں نوچ ڈالے۔ سارے رستے وہ پریشان رہاکہ کہیں انوری گھر والوں کواس کی اس حرکت کے بارے میں نا بتادے لیکن پھر کچھ سوچ کر اس کے باریک ہونٹ مسکراہٹ سے لمبے ہو گئے۔ اب وہ ہردوسرے دن انوری کے گھر جانے لگا، پہلے تو وہ اسے نظرانداز کرتی رہی لیکن پھر ایک دن وہ بھی صحن میں بندھی گائے بھینس کی طرح ڈکرانے لگی۔ نارنگ پلے ہوئے سانڈھ کی طرح جگالی کرتا اور دم ہلاتا ہوا انوری کے گلے لگ جاتا۔ جانگلیوں کی قسم انسانوں کی بستی میں دندنا رہی تھی لیکن اتنی بہت سی آنکھیں بھی ان کا تعاقب کرنے میں ناکام ہو چکی تھیں۔ نارنگ انوری کے شانے دباتا تو اس کا بھرا بھرا جسم اس کی پتلی پتلی انگلیوں کے نیچے تھرکنے لگتا۔ اسے لگتا جیسے انوری طبلے کی سیٹ ہے جس پروہ اپنی انگلیوں سے جیسابھی چاہے سر نکال سکتا ہے۔ وہ کتنی ہی دیر ہلکے ہلکے سروں میں طبلے کی تھاپ پر رقص کرتا رہا اور انوری بدمست شرابی کی طرح دائرے میں گھومتی رہی۔انور اور اختر دونوں اس کی انگلیوں کے نیچے طبلوں کی طرح دھری ہوئی تھیں،وہ ان پر من چاہے سروں کی مالا پرونے لگا۔ انور اور اخترکے لیے نارنگ کی جنور طبیعت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی کیونکہ ان کا گھر وہ حمام تھا جس کی چھت نہیں تھی۔جس کی چھوٹی دیواریں نہانے والوں کے آدھے جسموں کی نمائش کرتی ہیں ایسے میں نارنگ ایڑھیاں اٹھا اٹھاکر دونوں کو نہاتے ہوئے دیکھتا۔ انور کے بھرے بھرے بازو صابن کی جھاگ سے اور بھی چکنے ہو جاتے جیسے وہ مکھن سے بلوکر چاٹی میں لسی بننے کے لیے رکھ دی گئی ہو۔ نارنگ شہد کی مکھی کی طرح دیوار میں اپنا چھتہ بنا چکا تھا، جہاں اس کی غلاظتوں کا شہد اکٹھا ہو رہا تھا اور وہ اپنے ہی صحن میں اگے پھولوں کا رس پی پی کر اپنے موم کے چھتے کو پروان چڑھا رہا تھا۔

    گھر والے اس جانور کی للکار سے بے خبر تھے کسی کو یہ جاننے کی جستجو ہی نہیں تھی کہ نارنگ پاگل پن کی کس سٹیج پر پہنچ چکا ہے۔ پھر ایک دن اس کی ماں کو اندازہ ہو گیا کہ یہ جانور اپنے ہی خون کا پیاسا ہو چلا ہے وہ ایسے ہی ایک دن نارنگ کے جھاڑ جھنکار بالوں میں تیل ڈال کر مالش کر رہی تھی۔ سور ہولے ہولے سانسیں لے رہا تھا چیتے کی انگڑائی میں ابھی وہ زور نہیں تھا کہ ماں کے ہاتھوں کی گرمی نے اسے لوہے کی طرح سخت کر دیا۔ اس کی گردن فالج کے مریض کی طرح بےسدھ ہوکر کانپنے لگی تھی اور وہ اپنی ماں کو چارپائی پر گراکر خود اس پر لیٹ گیا۔ ماں کو لگا جیسے کوئی برفانی تودہ اس پر آ گرا ہو وہ بے حس و حرکت پڑی تھی۔ نارنگ بچوں کی طرح اوں۔۔۔اوں کرتا اپنی ماں کی چھاتی سے لگا ہوا تھا۔ پھر اکثر ایسا ہونے لگا جب چیتے جیسی پھرتی اور سور جیسی آنکھوں والا جانور اپنی ماں کی بوٹیاں نوچنے کے لیے اس کی چارپائی تک آتا، پھر اپنے باپ کی ٹانگ سے ٹکرا کر’’ماں یک‘‘بڑبڑاتے ہوئے واپس مڑ جاتا۔ نارنگ کی ماں تپتی دوپہروں میں فالج کے مریض کی طرح اس کے ساتھ لیٹی رہتی۔جن چھاتیوں سے اس کے لیے دودھ اترتا تھا اب وہاں مامتا مر چکی تھی۔ نارنگ کے لیے وہ پتنگ کی طرح تھی جس کی ڈور اس کی انگلیوں میں ہلکورے لیتی تووہ آسمان پر اڈاریاں بھرنے لگتی۔ اس کا باپ جیسے ہی پتنگ کوکنی کراتا نارنگ جھٹکے سے اس کی ڈور کھینچ کر مشاق پتنگ بازوں کی طرح تماشا دکھانے لگ جاتا۔

    دن بڑی تیز رفتاری سے گزر رہے تھے اور نارنگ کڑاہی میں رکھے تیل کر طرح پک پک کر سیاہ ہوتا جا رہا تھا۔ اختر کی بھی شادی ہو چکی تھی اب نارنگ کا دل گھر میں نہیں لگتا تھا اس کے اندر کا پاگل کھل کر سامنے آنے لگا تھا۔ وہ کتنے ہی گھنٹے سوچوں میں گم رہتا یہاں تک کہ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کی وجہ سے اس کے پاؤں سوجھ جاتے۔ ماں اسے کاندھوں سے جھنجھوڑتے ہوئے اٹھاتی اور گھسیٹتے ہوئے چارپائی پر دھکا دے دیتی۔ باپ اس کی حالت سے بےخبر تھا، جب بھی اس کی ماں روتے ہوئے دہائی دیتی کہ اسے شہر کے کسی ڈاکٹر کو دکھا دو تو باپ حقہ گڑگڑاتے ہوئے کہتا: ’’او ماں یکیئے! منڈے نوں سایہ اے، ڈاکٹر کی کر لےگا۔‘‘ پھر ایک دن اس جانور کو سایہ بھگاکر لے گیا۔ ماں نے سار اگھر چھان مارا، بھائیوں نے گاؤں کی گلیاں اور کھیت تک کھنگال ڈالے لیکن نارنگ کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ باپ نے اس کی گمشدگی کو اللہ کی رضا سمجھ کر حقہ گڑگڑانے میں ہی عافیت جانی۔ وہ اپنی جانگلی قوم اور خون سے بغاوت کیسے کر سکتا تھا جس کے لیے اولادبھی پیشاب کے جھاگ کی طرح تھی۔

    لاہور شہر کے شمالی علاقے بادامی باغ کی طرف ریل کی پٹڑی کے دونوں اطراف میں فقیروں کا بسیرا ہے جن کی جھگیاں ریلوے پھاٹک کے سامنے ایک ہی قطار میں آباد ہیں۔ کچھ دنوں سے وہاں ایک جانور نما انسان نظر آنے لگا ہے۔ جس کے جسم پر پرانے اور میلے چیکٹ کوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کی بڑھی ہوئی داڑھی اور بال اس کے منہ سے نکلنے والے جھاگ سے اٹے رہتے ہیں۔ وہ یا تو گھٹنوں کے بل کہنیوں پر منہ ٹکائے کسی سوچ میں گم رہتا ہے یا اپنے جسم کی گندگی کے پاس سادھوؤں کی طرح چوکڑی مارے بنٹے جیسی آنکھیں گھماتاہے۔ اس کا گیلا ناپاک جسم دیکھنے والوں کے لیے کراہت کا باعث ہے۔ کسی نجس کتے کی طرح وہ گندے نالے کے کنارے خود کو جھٹکتا ہوا بڑا خونخوار لگتا ہے جیسے ابھی کسی پاس سے گزرنے والے کو نوچ لےگا۔ چیتے جیسی پھرتی اور سور جیسی تھوتھنی والا یہ جانور شہر کے لوگوں کے لیے نوٹنکی بن چکا ہے۔ وہ آج بھی اپنے اوپر ہنسنے والوں کو ’’ماں یک‘‘ کہتے ہوئے تیزی سے گزر جاتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے