Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیزوں کی رت

مہیندر سنگھ سرنا

نیزوں کی رت

مہیندر سنگھ سرنا

MORE BYمہیندر سنگھ سرنا

    جلتے ہوئے کوئلوں سے پوری طرح بھری بھٹی پر جھکے دِینے لوہار کا لوہے کے رنگ کا جسم، تانبے کی طرح دمکنے لگا تھا۔ اس کا وجود تانبے میں ڈھلے ایک تندرست محنت کش کاریگر کامجسم بت لگ رہا تھا۔ بازوؤں کے ایک تکڑے زوردار جھٹکے کے ساتھ اس نے ہتھوڑے کو اپنے گرد گھمایا۔ اس کے کسرتی جسم کی مچھلیاں ابھریں اور ایک زبردست چوٹ ایرن پر ٹکاکر رکھے لوہے کے انگار پر پڑی۔

    یہ چوٹیں لگاتار گونجتی رہیں، کام میں مصروف دینا، دین دنیا بھول گیا اور تب تک بھولا رہا جب تک کھڑکی میں سے آرہی بھادوں کی بھٹی کی آنچ کی طرح جلتی دھوپ اس کی ہڈیوں کو نہ چاٹنے لگی۔ چونک کر اس نے کھڑکی میں سے باہر دیکھا۔ سورج اپنے شکھر پرتھا۔ اتنی جلدی دوپہر ہوگئی تھی اور ابھی اس کا کام آدھا بھی نہیں بنا تھا۔ دھوپ کے سینک سے بچنے کے لیے اس نے کھڑکی بند کردی۔ لیکن کھڑکی بند کرنے سے اس کا دم گھٹنے لگا اور اس کے ماتھے پر چپچپا پسینہ آگیا۔ رات کو بڑا مینہ برسا تھا، آسمان سے پرنالے ہی بہہ نکلے تھے۔ صبح کے وقت بھی کن من ہوتی رہی تھی۔ لیکن اب سورج چڑھنے کے بعد بڑی امس ہوگئی تھی۔

    اس نے کھڑکی کھول دی اور دوبارہ بھٹی پر جھک گیا۔ پسینہ اس کے کانوں سے ہوتا ہوا اس کی گردن پر دھاریوں کی طرح بہہ رہا تھا۔ بھاری تنے ہوئے بازو سے اس نے اپنے پسینے کو پونچھا۔ موٹے قطرے بھٹی میں گرے، شوں کی آواز آئی اور شاید ایک پل بھر کے لیے ایک دہکتے ہوئے کوئلے کی زندگی ذرا سی ٹھنڈی ہوگئی۔

    دھوپ اور بھٹی کے ملے جلے سینک نے اس کے جسم کو بہت گرم کردیا تھا۔ یہ آگ جیسے اس کے لہو میں گھل گئی تھی۔ یہ تپش اس کی ہڈیوں کی چربی کو بھون رہی تھی۔ بھٹی کے تیکھے آپے سے باہر ہوئے شعلے اس کی آنکھوں میں جل اٹھے تھے۔ اپنے گاؤں کا ایک ایک ذرہ اسے پٹاخے کے ’’منہ پر لگا پلیتہ‘‘ لگ رہا تھا۔ اسے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ابھی کوئی پلیتہ آگ پکڑلے گا اور اس کا جسم کسی بڑے پتلے کی طرح ’’ٹھس‘‘ کرتا ہوا پھٹ جائے گا۔

    اچانک اس نے اوزار ہاتھ سے رکھ دیے اور کھڑکی کے پاس کھڑا ہوگیا۔ باہر سارا آسمان بھادوں کی چمکتی دھوپ سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ جب اسے صاف دکھائی دینے لگا تو اس نے اپنے سامنے بچھے دور دور تک پھیلے کھیتوں کی طرف دیکھا اور پھر اس ریتیلے کچے راستے پر جو کھیتوں میں ایک چاندی کی لکیر سا بن کر افق کو چھورہا تھا۔

    اس کچی سڑک کے دائیں طرف کھیت تھے۔ اور کہیں کہیں گنے کے کھیت میں پانی چاندی کی طرح چمک رہا تھا۔ سڑک کی بائیں طرف ہل چلے ہموار کیے کھیت بیج کے بوئے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ تازی بارش سے بھیگی ہوئی مٹی کی سوندھی خوشبو اس کے نتھنوں کوبڑی اچھی لگی اور وہ یکایک جذباتی سا ہو اٹھا۔ اس کا دل کیا کہ وہ کھڑکی سے باہر کود جائے۔ کھیتوں میں لیٹ پوٹ جائے اور گیلی زمین کی مٹی اپنے روئیں روئیں میں بھرلے۔

    اسے کھیت بڑے اچھے لگے تھے۔ پیارے سے۔ سنچائی اور کٹائی کے وقت اس کے خون میں تازگی بھر جاتی تھی۔ اس کی ہڈیوں کا پنجر کھلا کھلا ہوجاتا تھا۔ وہ گاؤں کالوہار تھا لیکن لوہار کا کام گاؤں میں کتنا نکلتا تھا۔ بہت ہی کم۔ اس لیے وہ زیادہ دیر کسانوں کے ساتھ کھیتوں میں ہاتھ بٹاتا رہتا۔ اس جیسی کٹائی سات گاؤں میں کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ نہ ہی اس سے بڑا فصل کا گٹھر کوئی اٹھا سکتا تھا۔ اسی لیے یکایک اس کے ہاتھ درانتی پکڑنے کے لیے ترسنے لگے۔

    درانتیاں، کٹائیاں، چاند کی چاندنی میں جھومتے ایکھ کے پودے، میلوں تک پھیلی سنہری بالیوں کاسررسرر، اور دھرتی کی کوکھ سے پیدا ہوئے گیہوں کی مہک، اور وہ بھول گیا کہ اس کی پشت پر دوزخ کی بھٹی تپ رہی ہے اور پچھلے بیس دنوں سے نیزے، گنڈاسے اور بلمیں بنانے کے علاوہ اس نے کچھ نہیں کیا تھا۔ ہاں درانتیوں اور کھرپیوں کا موسم بیت چکا تھا اور یہ نیزوں اور چھریوں اور بلموں کا زمانہ تھا۔ یہ اس بار کیسی کٹائیاں ہو رہی تھیں، جس میں گیہوں کی جگہ گیہوں بونے اور کاٹنے والے خود کاٹے جارہے تھے۔

    یہ اس نے اپنے لیے کیسا ’’سڑی سپایا‘‘ کیسی مصیبت کھڑی کرلی تھی۔ یہ کیسی ’’وگار‘‘ کیسا مفت کا جھنجٹ اپنے گلے ڈال لیا تھا۔ اس کی مصروفیت سے لگتاتھا جیسے نئے بنے پاکستان کے سبھی مجاہدوں کے لیے ہتھیار بنانے کی ذمہ داری اس کے سر آپڑی تھی۔ پاکستان تو بن گیا تھا لیکن پاکستان کی تکمیل کے لیے پاکستان میں رہ رہے ہندوؤں اور سکھوں کاصفایا کرنا ضروری تھا۔ بے شک دِینے کو ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی لیکن سبھی ایسا کہتے تھے۔ گاؤں کے چودھریوں سے لے کر جامع مسجد کے امام تک یہ کہتے تھے اور جہاد تبھی کامیاب ہوسکتا تھا، جب اس کی بھٹی تپتی رہے اور نیزوں اور بلموں کی شکل میں موت کی آریاں اگلتی رہے۔

    اس نے پلٹ کر بھٹی کی طرف دیکھا۔ کوئلوں میں ٹکاکر رکھے لوہے کے تیکھے ٹکڑے انگاروں سے بھی زیادہ لال ہوگئے تھے۔ ان کی طرف دیکھتے ہوئے اسے چکر سا آگیا اور اس نے اپنی کمر کو اچھی طرح پکڑ لیا۔ کوئی تیکھی اور گرم شے، اس کی کمر کو چیر رہی تھی، کاٹ رہی تھی۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اسے بے حد بھوک لگی ہے۔

    صبح سے اس نے پانی کاگھونٹ بھی نہیں پیا تھا اور اب بھوک اس کے پیٹ کو دونوں طرف سے جلا رہی تھی۔ اس کی آنتیں اکٹھی ہو رہی تھیں۔ اور اس کے ہونٹ لکڑی کے ہوگئے تھے۔

    ’’شبیرے کی ماں۔۔۔‘‘ اس نے گھر کے اندر جھانکتے ہوئے اونچی آواز میں پکارا، ’’پانی دینا جلدی۔‘‘

    پینتالیس سال کی ایک عورت تانبے کے ’’چھنے‘‘ میں پانی ڈال کر لائی۔ اس کی ناک میں نتھ پڑی تھی اور کانوں میں چاندی کے جھمکے ہل رہے تھے۔ اس نے اپنے آدمی کی طرف دیکھا جو پانی نہ پینے کی وجہ سے ہونک رہا تھا۔ صبح سے تین بار وہ اسے روٹی پانی پوچھ گئی تھی لیکن اس کی بات کی طرف دھیان نہیں دیا تھا اور بھٹی جھونکتا رہا تھا اور اب اچانک اسے کیسے اپنی بھوک اور پیاس یاد آگئی تھی۔

    عورت نے بھٹی کی دوزخ سی آگ کی طرف دیکھا۔ لوہے کے ان ٹکڑوں کی طرف دیکھا جو کالے پتھروں کی طرح چاروں طرف فرش پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے کونے میں پڑی کلموہی برچھیوں اور بلموں کے ڈھیر کو دیکھا اور پھر کتنی دیر اس کی نظریں اپنے آدمی کے منہ پر بھٹکتی رہیں، جیسے وہ اسے پہچانتی نہ ہو۔

    پانی کے چھنے کادِینے نے ایک ہی گھونٹ کیا۔

    ’’اور!‘‘ وہ ہانپا۔

    وہ اور بھرلائی اور اسے پیتے ہوئے دیکھتی رہی۔

    ’’بس۔‘‘ وہ بولا۔ اس کی گردن اور ماتھے کی تنی ہوئی نسیں ڈھیلی پڑیں۔ اس کا ہانپنا کم ہوا لیکن اسی لمحے ایک شرم، ایک بے آرامی اس کے چہرے پر پھیل گئی اور وہ بولا، ’’میری طرف ایسے کیوں دیکھتی ہو؟ اور مجھ سے بات کیوں نہیں کرتی، اور مجھ سے دور کیوں کھڑی ہو ایسے جیسے مجھے پلیگ کی گلٹی نکل آئی ہو۔‘‘

    عورت نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ اندر سے روٹی دال لے کر آئی۔

    ’’نہیں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘

    دِینے نے اس کا کندھا جھنجھوڑ کر کہا، ’’تم بولتی کیوں نہیں بھلا میرے ساتھ؟منہ میں گھونگنیاں ابالنے کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔‘‘

    عورت اب بھی کچھ نہ بولی۔

    دِینے نے ایک روٹی مروڑ کر کچھ موٹے لقمے اندر نگلے۔ پھر وہ لقمے اندر جانے سے انکار کرنے لگے۔ اس نے پانی کے کچھ کڑوے گھونٹ بھرے اور روٹی والی چنگیر کو دور ہٹاتے ہوئے بولا، ’’میرے ساتھ بولتی کیوں نہیں، بس دیکھے جاتی ہے۔ جیسے مجھے جِن چمٹ گئے ہوں۔‘‘

    ’’اللہ نہ کرے۔‘‘ عورت بولی، ’’لیکن مجھے تو ایسے ہی لگ رہا ہے۔‘‘

    دِینے کا منہ حیرانی سے کھل گیا۔ اسے امید نہیں تھی کہ شبیرے کی ماں بولے گی کہ اتنے دنوں کی ضدی چپ کو وہ آج اچانک اس طرح توڑدے گی۔ کچھ دیر حیرانی نے اسے سنبھلنے نہ دیا۔ جب اس کے ہوش و حواس لوٹے تو وہ بولا، ’’میں جانتا ہوں جو کچھ تمہارے دل میں ہے۔ لیکن میں کیا کروں۔ تمہارے بیٹے ہی جینے نہیں دیتے۔ اب شبیرا کل شام تک پچاس برچھیاں تیار کرنے کے لیے کہہ گیا تھا۔ میں نے تھوڑی دیر کی تو وہ میرے گلے پڑے گا، کاٹنے کو دوڑے گا۔ تم کہتی ہو یہ اور وہ۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ اگر میں ذرا بھی ان کو انکار کردوں تو وہ میرے ٹکڑے کردیں گے، میرا لہو پی جائیں گے۔‘‘

    ’’بیٹے وہ تمہارے ہیں یا کسی اور کے؟‘‘ شبیرے کی ماں نے پوچھا اور پھر وہ دل ہی دل میں ایسا پوچھنے کے لیے شرمندہ سی ہوگئی۔

    ’’میرے ہی ہیں۔‘‘ دِینے نے مورکھوں کی طرح جواب دیا۔

    ’’پھرڈرنا اُن کو چاہیے تیرے سے، یا تجھے ان سے۔‘‘

    ’’تمہارے لیے باتیں بنانا آسان ہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’جیسے بھلا تم اپنے بیٹوں کو نہیں جانتی کہ کیسے وحشی ہیں وہ۔ میری کیا مجال ہے کہ ان کے سامنے زبان کھول سکوں۔ میری تو جیتے جی چمڑی ادھیڑ دیں۔‘‘

    ’’بیٹے تو وہ میرے بھی ہیں۔‘‘ عورت کے لہجے میں نرمی آگئی تھی، ’’تم دیکھتے ہی ہو، وہ ہر وقت کیسے مجھے کاٹنے کو دوڑتے ہیں، کیسے بات بات پر مجھے ڈانٹتے ہیں لیکن میں ان کے لیے برچھیاں اور بلمیں نہیں بناتی پھرتی۔‘‘

    ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ وہ بولا، ’’میں تو صرف بناتا ہی ہوں۔ لوگوں کو مارتا تو نہیں پھرتا۔‘‘

    ’’یہ مارنے کاٹنے سے بھی برا ہے۔‘‘ عورت بولی، ’’مارنے والا تو ایک دو، حد سے حد پانچ کو مارتا ہے۔ تمہارے ہاتھ کی بنائی ہوئی برچھی کئی بیسیوں کو کاٹتی ہے۔‘‘

    ایک کپکپی سی دِینے کی کمر میں دوڑ گئی۔ پھر یہ کانپنا اس کے روئیں روئیں میں اترگیا۔ کتنی دیر تک وہ کچھ بول نہ سکا۔ جب اسے آواز دوبارہ حاصل ہوئی تو بولا، ’’مجھے کہتی ہے۔ بیٹوں کو نہیں منع کرتی جو سپہ سالار بنے گھومتے ہیں۔ ایک ایک رات میں دو دو گاؤں کو جلائے جارہے ہیں۔‘‘

    ’’میری وہ سنتے ہیں یا تم سنتے ہو؟‘‘ عورت کا لہجہ کچھ اور نرم پڑگیا، ’’میں کسی کو کیا کہہ سکتی ہوں۔ ہر کسی کو اپنے اپنے گناہوں کا جواب دینا ہے۔ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کچھ کہنے کی۔‘‘

    کچھ دیر تک وہ دونوں فرش پر نظریں گاڑے دیکھتے رہے۔

    اچانک عورت بولی، ’’تم روٹی کیوں نہیں کھا رہے۔ بھوک سے سوکھنا ہے؟‘‘ روٹی والی چنگیر اس نے کھینچ کر دِینے کے آگے بڑھادی۔

    باہر کے دروازے پر مہین سی آہٹ نے دِینے کو چونکا دیا۔ وہ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا۔ وہ جانتا تھا کہ شبیرے یا اس کے ساتھیوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ ہاں، وہ اس کو یاد دہانی دینے آئے تھے۔ کُنڈے میں پڑا ہوا اس کا ہاتھ کچھ جھجھک سا گیا۔ اس نے بھٹی کی طرف دیکھا۔ وہ جھائیں جھائیں جل رہی تھی۔ سب کچھ ٹھیک جگہ پر تھا۔ اس نے کنڈا کھول دیا۔ ساون بھادوں کی بارشوں سے بھیگے ہوئے دروازے سے چیخ سی نکلی۔

    گھبراکر دِینے اندر کی طرف بھاگا اور بھٹی سے ٹکراتے ٹکراتے بڑی مشکل سے بچا۔ اس کی گھر والی کا رنگ روئی کے پھاہے کی طرح سفید ہوگیا اور بے بسی کے عالم میں ایک چیخ اس کے ہونٹوں سے نکل گئی۔

    دروازے میں ٹھاکردوارے والی بوڑھی پروہتنی کھڑی تھی۔ اس کے ہلدی رنگ کے چہرے پر جھریوں کاجال بچھا تھااور اس کاسفید بالوں والا سر کانپے جارہا تھا۔ ڈری ڈری آنکھوں سے دینا اور اس کی گھروالی، بوڑھی کی طرف دیکھتے رہے۔ وہ بالکل ویسی ہی تھی، جیسے جیتے جی ہوا کرتی تھی لیکن اب تو وہ بھوت بن چکی تھی۔

    آخر دِینے کی گھروالی نے حوصلہ کیا اور بولی، ’’چاچی پروہتنی، تو ابھی زندہ ہے؟‘‘

    بوڑھی نے کوئی جواب نہ دیا۔ تبھی دِینے کی گھروالی کو یاد آیا کہ پروہتن تو اونچا سنتی ہے۔ شاید مر کر بھی اس کا بہرا پن ٹھیک نہیں ہوا۔ بوڑھی کے اور نزدیک جاکر اونچی آواز میں اس نے اپنی بات دہرائی۔

    بوڑھی کی آنکھوں میں سمجھ پانے کی چمک سی آئی اور وہ بولی، ’’دکھائی نہیں دیتاآپ کو کہ میں ابھی زندہ ہوں۔ سات دن تک مجھے جان توڑ بخار چڑھتا رہا ہے۔ اندر کوٹھری میں پڑی پڑی میں اکیلی بخار میں بھنتی رہی ہوں۔ کسی نے مجھے پانی کا گھونٹ نہیں دیا۔ تلسی کتنے دنوں سے باہر گیا ہوا ہے۔ میں چاہے اس کے پیچھے ہی مرجاتی۔ اور بھئی آدمی کا کیا ہے۔ آج میرا بخار اترگیا ہے۔ مجھ سے تو اٹھ کر کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا تھا۔ لیکن میں نے اپنے من کو دلیری دی اور یہاں تک آگئی ہوں۔ ارے بھئی تم دونوں اتنے ڈرے ہوئے حیران کیوں ہو؟‘‘

    بولتے بولتے بوڑھی کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اس کی سانس کے ساتھ سانس نہیں مل رہی تھی۔ کنپٹیوں کو دباتی وہ پاؤں کے بل فرش پر بیٹھ گئی۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں بے جان سی ہوتی جارہی تھیں اور اس کی ہر سانس آخری سانس معلوم ہو رہی تھی۔

    انوکھے حوصلے کے ساتھ دِینے اور اس کی گھروالی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ یہ سچ تھا کہ وہ پروہتنی ہی تھی، پروہتنی کا بھوت نہیں تھا۔ نمونیے کے بخار نے اسے موت کی اس آندھی سے بچالیا تھا جو سارے گاؤں کے لوگوں کو سمیٹ کر لے گئی تھی۔ اس کے بہرے پن نے اس کے کانوں میں دکھ کی داستان کی بھنک نہیں پڑنے دی تھی، جو پرسوں جمعرات کو اس گاؤں پر بیت گئی تھی۔ وہ آج تک یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا گاؤں پاکستان میں آگیا تھا۔ وہ اب تک نہیں جانتی تھی کہ پاکستان اس کے گاؤں میں آگیا تھا۔ اور گاؤں کے ہندوؤں، سکھوں میں سے ایک بھی زندہ نہیں رہا۔ سوائے ان لڑکیوں کے جن کو فسادیوں نے سنبھال لیا تھا۔

    اچانک پروہتنی بولی، ’’وے دِینا۔ میری بکری نہیں دیکھی کہیں؟‘‘

    بکری۔۔۔ دینے نے سوچا۔ ان دنوں جب فسادیوں اور دھاڑویوں نے ہتھیائے ہوئے مویشی مع دودھ دینے والی گائے بھینسوں کے کھاپکاکر ہضم بھی کر چھوڑے ہیں، پروہتنی بھی بکری کی بھلی پوچھ رہی ہے۔

    ’’پتہ نہیں، کہاں بھاگی پھرتی ہے۔‘‘ بوڑھی کہتی گئی، ’’اور اوپر سے بیاہنے والی ہے۔ مجھ سے تو اب اپنا آپ نہیں سنبھالا جاتا۔ میں کہاں ڈھونڈتی پھروں۔ اور پھر وہ کون سی میرے پکڑنے میں آئے گی۔ رب تیرا بھلا کرے اگر کہیں تیری نظر پڑجائے تو باندھ لینا۔ دیکھو نہ، بیاہنے والی جو ہے۔ میں کہتی ہوں کہ کہیں باہر ہی نہ بچے دے دے۔‘‘

    دینا بولا، ’’مائی کہیں نہیں گئی تیری بکری۔ وہ تو کھاپی لی گئی ہے۔ لوگ تو اس کے ڈکار مار رہے ہیں۔‘‘ لیکن بوڑھی کو کچھ سنائی نہیں دیا۔ وہ اپنی بات اونچی آواز میں دہرانے لگا تھا کہ اس کی گھروالی نے اشارہ کرکے اسے منع کردیا۔

    ’’اور یہ دیکھو نا۔۔۔‘‘ پروہتنی بولی۔ اس کی یہ زنجیر مجھے ٹھاکر دوارے کی دہلیز پر ملی ہے۔ پتہ نہیں ’’چندری‘‘ نے زنجیر کیسے تڑالی۔ دیکھو تو سہی۔ یہ تو چھلا ہی ٹوٹ گیا ہے، جس میں زنجیر پھنسائی جانی ہے۔ میں نے کہا جاکر دِینے سے کہتی ہوں کہ مجھے زنجیر تو جوڑدے۔‘‘

    دِینے نے دیکھا بوڑھی کے ہاتھ میں بکری کو باندھنے والی زنجیر پکڑی ہوئی تھی جو بیچ سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ بکری کی گردن پر گنڈاسے کے تیکھے وار نے زنجیر کے دو ٹکڑے کردیے تھے۔

    کتنی ہی دیر سے دِینے کی گھروالی، بوڑھی کو اور ہی طرح سے دیکھے جارہی تھی۔ اس کے اندر کوئی اُتھل پتھل سی ہوتی لگ رہی تھی۔ آخر سوچتے سوچتے خیالوں میں کوئی کھڑکی سی کھلی اور وہ بولی، چاچی پروہیتے۔ تو تو ہمارے گھر میں ہی رہ جا۔ ٹھاکر دوارے میں جو اکیلی بیٹھی رہتی ہے اور ابھی تو تیرا بخار اترا ہے۔ یہاں اپنا بنا کھالینا۔ برتن ورتن بھی اپنے لے آ۔ تمہارا ہندو جنم ہے نہ اس لیے، تلسی باہر سے آجائے پھر چلی جانا۔‘‘

    پروہتنی کچھ زیادہ ہی بہری ہوگئی معلوم ہوتی تھی۔ شاید نمونیے کے بخار کی گرمی نے اس کے کانوں پر پردے ڈال دیے تھے۔ اتنی لمبی بات میں اس نے صرف تلسی کا نام ہی سنا۔

    ’’میں جوتم سے کہہ رہی ہوں کہ تلسی کہیں باہر گیا ہوا ہے۔ رامے شاہ کی بیٹی کا شگن لے کر ’نویں چک‘ سمبندھیوں میں گیا ہے۔ اسوج ماہ کی پہلی تاریخ کو شادی کا مہورت نکلا ہے۔ شاہ کو میں نے کہا تو اس بار مجھے ایک گائے دان میں دے دینا، تو ہاں کیا شاہوں کے گھروں میں کوئی ایسے خوشی کے موقعے روز روز آتے ہیں۔ اور پھر تم خود سیانی ہو، تلسی کی خشکی والی جان ہے، گھر میں دودھ دہی کی موج رہے گی۔‘‘

    بوڑھی کی بات اَن سنی کرتی ہوئی دِینے کی گھروالی دِینے کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی، کچھ مشورہ کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے بولنے سے پہلے ہی دینا بول پڑا،

    ’’میں جانتاہوں جو تیرے دل میں ہے۔ لیکن یہ بات ہم سے ہو نہیں پائے گی۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں، لیکن اسے ’’بھڑولے‘‘ میں چھپاکر رکھوگی۔ ابھی وہ تمہارے پیٹ کے پیدا کیے ہوئے آدم بو، آدم بو کرتے آجائیں گے، اور تم جانتی ہو ان سے کوئی بات چھپی نہیں رہتی۔ انہیں تو آج ہی پتہ لگ جائے گا، اور پھر وہ ہماری ایسی آب تاب اتاریں گے کہ کسی نے ایسا کیا نہ ہو۔‘‘

    ’’بوڑھی جان ہے۔‘‘ دِینے کی گھروالی نے منت کی۔ اپنے گاؤں کے کھتریوں کی ایک ہی نشانی ہے ٹھاکر دوارے میں۔ پروہتنی اللہ کانام لینے والی ہے۔ دوچار دنوں کی بات ہے۔ اس کا بیٹا باہر سے لوٹ آئے، پھر ان کو کسی اور گاؤں میں بھیج دیں گے۔‘‘

    ’’کون سے گاؤں بھیجو گی اسے؟‘‘ دِینے نے چیختے ہوئے کہا۔ کون سا گاؤں ایسا ہے جہاں یہ بچی رہے گی؟ اور اس کابیٹا۔ وہ اب باہر سے واپس نہیں لوٹے گا۔ وہ اب کی ایسی جگہ مہمان گیاہے، جہاں سے کوئی واپس نہیں لوٹتا۔ ’نویں چک‘ کے سب کھتری مارے گئے ہیں۔ کوئی بیج ڈالنے کے لیے بھی نہیں بچا۔‘‘

    عورت کامنہ اتر گیا۔ اس نے اپنی کانپتی ہوئی انگلی ہونٹوں پر رکھی اور بولی، آہستہ سے نہیں بولا جاتا تم سے کہ اب اسے سناکر ہی رہو گے کہ اس کا بیٹا مارا گیا ہے۔

    اب تک انہوں نے ساری باتیں سرگوشیوں میں کہی تھیں لیکن ان سرگوشیوں کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔ وہ کتنی بھی اونچی باتیں کرتے، بوڑھی کے کانوں میں ان کی بھنک بھی نہیں پڑنی تھی۔

    بوڑھی نے اپنی بخار سے جلی ہوئی آنکھیں ان کے چہروں پر گاڑیں اور کھینچ کر بولی، ’’تم دونوں نے کیا کھسر پسر لگارکھی ہے اور تم دِینے، میری طرف دیکھتے ہی نہیں ہو۔ ارے بُرے کے بچے جوڑدے ذرا۔ یہ بھی کوئی بڑا کاموں میں کام ہے۔‘‘

    ’’کل آنا مائی۔‘‘ اپنا منہ بوڑھی کے کانوں سے جوڑ کر دینا گرجا، ’’آج مجھے فرصت نہیں۔ اور اب جا بھی تو اپنے گھر کو۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتے ہوئے بوڑھی کراہی، ’’اٹھتی ہوں۔ تم کل کہتے ہو تو کل ہی سہی۔ لیکن بکری میری کادھیان رکھنا۔ لے اب میں کہہ چلی ہوں، نظر پڑجائے تو باندھ کر رکھنا، پتہ نہیں غرق جانی کہاں بھاگی پھرتی ہے۔‘‘

    اور اس سے پہلے کے دِینے کی گھروالی اسے روکتی، لڑکھڑاتی ہوئی بوڑھی گلی سے باہر نکل گئی۔

    اس بڑھیا نے کتنا وقت خراب کردیا تھا۔ کام کا حرج ہونے کی وجہ سے دِینے کو بہت برا لگ رہا تھا۔ اتنے میں اس نے پانچ برچھیاں تیار کرلینی تھیں۔ ہاں شبیرے نے یہ تو نہیں پوچھنا تھا کہ وہ کون سے فالتو کاموں میں سرکھپاتا رہا ہے، اس نے تو پچاس برچھیاں گن کر رکھوالینی تھیں۔

    اس نے کام میں مصروف ہونا چاہا لیکن وہ مصروف نہ ہوسکا۔ اس کے دل کو ایک دھک دھکی سی لگ گئی تھی۔ سفید دھولی بالوں کی لٹوں کے پیچھے اس کی بخار سے جھلسی آنکھوں کی یاد بار بار اس کادھیان اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ آگ کے دو موٹے گولوں کی طرح وہ آنکھیں اس کے دماغ میں دھنستی چلی گئیں۔

    جو بات اسے سب سے زیادہ اداس کر رہی تھی، وہ بوڑھی کی لاعلمی تھی۔ وہ کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ تلسی اب کبھی باہر سے واپس نہیں آئے گا۔ اور نہ ہی یہ کہ مقررہ دن پر پرتیو کی شادی نہیں ہوگی۔ پرتیو کو تو اس کے باپ کی حویلی کے ساتھ شبیرے نے سنبھال لیا تھا۔

    یہ بات شبیرے نے بہت بُری کی تھی۔ بیٹی بہن کی عزت سب کے لیے ایک سی ہوتی ہے۔ پرائی بیٹیوں کی عزت بھی اپنی بیٹیوں جیسی ہی ہوتی ہے، اور کون ہے جو اپنی بیٹیوں کی بے عزتی کو ثواب کہتا تھا۔

    اچانک ایک بھیانک منظر دِینے کی یاد میں ابھر آیا۔ پریتو چیختی چلاتی اپنے باپ کی لاش سے چمٹ رہی تھی اور بشیرا اسے چوٹی سے گھسیٹتا ہوا لے گیا تھا۔ رو رو کر منتیں کرتی، واسطے ڈالتی وہ اس کے پیچھے چلی گئی تھی۔ پھر یکلخت وہ چپ ہوگئی تھی، جیسے حلال ہونے سے پہلے بھیڑ چپ ہوجاتی ہے۔

    او روہ شبیرے کا باپ دہلیزوں میں کھڑا چپ چاپ یہ دوزخی منظر دیکھتا رہا تھا۔ اس نے شبیرے کو منع نہیں کیا تھا۔ اس کو گردن سے پکڑ کر زمین پرنہیں پٹخ دیا تھا۔ اپنی بیٹی کی عزت بچانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

    پریتو کے ہلدی سے پیلے بچوں کے سے چہرے کی جھلک دِینے کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی اور اس کی سسکیاں اس کے کانوں میں گونجتی چلی گئیں۔ یکایک اسے کپکپی چڑھ گئی۔ بڑے زور کی کپکپاہٹ، جو لگتا تھاجیسے وہ ٹھنڈی یخ موت کا پیغام ہو۔ اسے لگا کہ اس کپکپاہٹ کو کم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ بھٹی میں جل رہے لوہے کے ٹکڑے اٹھاکر اپنے سینے سے لگاکر بھینچ لے۔ لیکن اس کایہ سر کیوں جل رہاتھا۔ ساری کی ساری بھٹی اس کے سر میں گاڑی گئی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو دبایا۔ ہاتھوں کی ہتھیلیاں ان کے سینک سے جھلس گئیں۔

    اسے لگا کہ وہ پاگل ہوجائے گا۔ کچھ کر بیٹھے گا۔ اسے بھاگ جانا چاہیے تھا۔ دور، ان سب باتوں سے بہت دور۔ جلدی سے اس نے کھڑکی کھولی، اور باہر کود گیا۔ کتنی دیر تک وہ آپے سے باہر ہوکر بے مہار کھیتوں میں بھاگتا رہا۔ سہ پہر شام میں تبدیل ہورہی تھی۔ افق پر کسی نے سورج کو قتل کردیا تھا۔ معصوموں کے لہو سے سارا آسمان رنگا گیا تھا۔ یہ لہو کھیتوں میں بہہ رہی پانی کی نالیوں میں گھل گیا تھا۔ وہ گنے کس نے چوسنے تھے جس پر لہو کے چھینٹے پڑگئے تھے اور ان کپاسوں کی روئی کے بنے کپڑے کو کس نے پہننا تھا جن کی سینچائی لہو سے ہوئی تھی۔ اور لہو سے بھیگے ہوئے کھیتوں میں اب کیسی گندم اُگے گی۔

    چاروں طرف لہو کا چھینٹا اس کے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی برچھیوں سے کیا گیا تھا۔ ہڈیوں اور ماس کی یہ فصل اس کے ہاتھ کی بنی ’’بلموں‘‘ اور گنڈاسوں سے بوئی گئی تھی اور جو دوچار لوگ بچ گئے تھے، ان کے لیے وہ برچھیاں بناکر ہٹا تھا۔ کل رات تک ان کا بھی صفایا ہوجائے گا۔

    وہ گناہ گار تھا۔ بہت بڑاگناہ گار تھا۔ شبیرے کی ماں نے سچ کہاتھا، کم از کم نئی بنائی برچھیاں اُسے شبیرے اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ میں نہیں لگنے دینی چاہئیں۔ ایسا کرنے سے اس کے گناہ کا کفارہ تو نہیں ہوسکے گا، لیکن وہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔

    وہ تیز رفتار سے گاؤں کی طرف بھاگ پڑا۔ شبیرے کے آدمیوں کے پہنچنے سے پہلے وہ گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ برچھیوں کو وہ کسی کنویں یا کسی کھائی میں پھینک دینا چاہتا تھا۔ جہاں سے انہیں ان کا اتہ پتہ نہ لگ سکے۔

    جب وہ گاؤں کے قریب پہنچا تو رات بڑھ چکی تھی اور بھیگے ہوئے چاند کی میلی سی چاندنی گلی میں گھروں کے دھندلے سائے پھینک رہی تھی۔ رات کی بارش سے گلیوں میں کیچڑ ہوگیا تھا۔ بار بار اس کے پاؤں ہل چلے کھیتوں کی مٹی میں پھنس جاتے تھے، پھر بھی وہ جلدی جلدی چلتا گیا۔ اچانک وہ بھونچکا سا رہ گیا۔ کچھ فاصلے پر اسے آوازیں سنائی دیں۔ یہ آوازیں تو اس کے گھر سے ہی آرہی تھیں۔ تو کیا وہ آپہنچے ہیں۔ اسے پہنچنے میں دیر ہوگئی تھی۔ شبیرے کی لچر گندی ہنسی اسے صاف سنائی دے رہی تھی۔

    گھرکے باہر اس کاپاؤں کسی بھاری چیز سے ٹکرایا تو وہ منہ کے بل گرپڑا۔ اس نے اٹھنے ی کوشش کی، لیکن اٹھ نہ سکا۔ کوئی ٹھنڈی یخ چیز اس کے پاؤں سے لپٹ گئی تھی۔ اس نے اپنے پاؤں چھڑانے کی کوشش کی، لیکن وہ اورجکڑے گئے۔ یکایک وہ بہت گھبراگیا۔ ایک وہم بھرا ڈر اس کے دل میں گھس گیااور اس کے ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آگیا۔ سارے جسم کے ایک تگڑے جھٹکے سے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ چاند کی چاندنی میں کچھ سفید دھولی بالوں کی لٹیں ہل رہی تھیں۔ برچھی کا ایک لمبا گھاؤ بڑھیا کے جھریوں بھرے ماتھے پر تھا اور اس کی کھلی، پتھرائی ہوئی آنکھیں اسے پھٹکار رہی تھیں۔ اس نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا۔ بوڑھی کے بازوؤں میں پھنسی لوہے کی زنجیر نے اس کے پاؤں کو جکڑ رکھا تھا۔

    ایک چیخ اس کے ہونٹوں سے نکل گئی اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ اس رات اسے بہت زور کا بخار چڑھ گیا۔ ساری رات وہ چارپائی سے گز گز بھر اچھلتا رہا۔ ساری رات اس کے بڑبڑانے کی آوازیں گاؤں کی سنسان چپ میں گونجتی رہیں، ’’مجھے نہ مارو۔ مجھے برچھیاں نہ مارو۔ یہ زنجیر میری گردن کے گرد سے اتارلو۔ ہائے میری بیٹی، میری بیٹی کو کچھ نہ کہو۔ پریتو کو کچھ نہ کہو۔ ہائے یہ زنجیر۔ اللہ کا واسطہ ہے۔ مجھے برچھیاں نہ مارو۔ مجھے نہ مارو۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے