Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نجات کا راستہ

جارج ورگیج ککانادان

نجات کا راستہ

جارج ورگیج ککانادان

MORE BYجارج ورگیج ککانادان

    میں ایک راستہ ڈھونڈ رہا ہوں۔ نجات کا راستہ!

    چلتے چلتے بہت دیر ہو گئی۔ میں تھک گیا ہوں، سارا جسم دردسے چور ہے۔ پاؤں دکھ رہے ہیں۔ ہاتھ کیلے کے ریشہ کی مانند کمزور ہو گئے ہیں، گوشت اور مغز خشک ہو گئے ہیں، ہڈیاں اتنی پتلی اور سوکھی ہو گئی ہیں کہ وہ کسی بھی لمحہ ٹوٹ جائیں گی۔ پھر میرے لیے چلنا ناممکن ہو جائےگا۔

    باہر نکل سکوں تو محفوظ رہ سکوں گا۔ مجھے معلوم نہیں کہ باہر کیا کیا ہے۔ پھر بھی باہر حفاظت ضرور ہوگی۔ داڑھی والے کبڑے بڈھے نے مجھے یہ سب بتایا۔ باہر بڑا آرام ہے۔ وہاں پہنچنا اس سفر کا مقصد ہے۔ وہاں کے راستے کا پتہ لگانے والے سچ مچ خوش قسمت ہیں۔ کون جانے؟ میں ا س کی باتوں پر بھروسہ نہیں کرتا اور نہ ہی میں ایک لافانی راحت کی تاک میں رہتا ہوں، پھر بھی مجھے پورا یقین ہے کہ باہر آرام زیادہ ہے۔ کیونکہ یہاں زحمتیں اتنی مشکل ہیں کہ دوسرا کوئی بھی مقام اس سے بہتر ہوگا۔ اس لیے میں باہر کی طرف جانے والا راستہ ڈھونڈ رہا ہوں۔

    جہاں میں رہتا ہوں، یہ ایک بڑا راج محل ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ اتنا بڑا ہے۔ ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ کتنا اور بڑا ہے۔ چلتے چلتے لمبی روشنی کے دھندلے دالان آگے کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔ ٹیڑھے میڑھے ڈھنگ سے بڑھتے ہیں۔ شاخ درشاخ بنے ہوئے ہیں۔ ایک بیکراں راستہ۔

    دالانوں کے سرے پرگھنے کالے پتھر کی دیواروں سے بنی چھوٹی کو ٹھریوں میں بےرحم چہرے دانت دکھاتے ہیں۔ کوڑھ کے سفید نشانات سے بھرے بھیانک چہرے جن کی آنکھوں میں آگ بھڑکتی ہے۔ اوپر کومڑی ہوئی ناکیں، خشک پھٹے لب، رخساروں اور سر پر ابھری ہوئی گرہیں۔ بھنے ہوئے پاپڑ جیسی رنگین انگلیاں۔ سکڑتی چھوٹی انگلیاں جگہ جگہ دبوچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بچ کر چلنا پڑتا ہے۔ مگر ہمیشہ یہ ممکن نہیں ہوتا۔ ہاتھ لگے توکوڑھ لگ جائےگا۔ اعضائے جسم سے محروم کوڑھیوں کے پاس، مٹھائیاں، سونااوردولت ہے۔ ان کی کوٹھریوں کے پیچھے لال مخملی پردوں کے پیچھے ننگی عورتیں ہیں۔ سیاہ چبھتے نظارے، قابو میں کرنے والی نشہ آور چیزیں، چھاتی سے لگانے کے لیے آگے بڑھائے موٹے بازو، ہم آغوشی میں دبے ہونٹوں کا بوسہ لینے پر تمہیں ایک لمبی نیند آ جائےگی۔ جاگنے پر سارے بدن پر پھوڑے پھنسیاں۔

    میرے بدن پر رنگ ہے۔ گرمی کا رنگ۔ ہائے! چھی! نہیں مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہ رنگ نہیں ہے۔ کھٹمل نے کاٹا ہوگا۔ نہیں چیونٹی نے۔

    کوڑھ لگے ہوئے ان دالانوں کی کوئی حد نہیں۔ تھکے سر، دبلے بدن اور غیرمتحرک پیروں سے میں کب سے چل رہا ہوں۔۔۔ کب سے۔۔۔

    میں کس دن یہاں آیا؟ مجھے یادنہیں۔ وقت بہت ہو گیا۔ آیا تنہارشتہ داروں کے بغیر۔ نل کی مانندبرتن میں دبتے گھٹتے، میں اس مکان میں آیا چھوٹے سے دروازے سے ہوکر، سورا خ سے جھانکنے والے چوہے کی طرح۔ میں نے اپنا سر باہر نکال کر دیکھا۔ کھلی آنکھوں سے خوف زدہ ہوکرمیں نے کسی چیز کو ڈھونڈا۔ میں نے کیا ڈھونڈا، آج بھی میں کیا ڈھونڈتا ہوں، مجھے معلوم نہیں۔ اس میں میرے گرتے ہی پھاٹک بند ہو گیا تھا۔ پھر یہ پھاٹک میرے لیے کبھی نہیں کھلےگا۔ وہاں لوٹ جانے کی اجازت بھی نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ وہاں کا حال کیسا ہے۔

    اس مکان میں آنے پر مجھے دیکھنے کی طاقت حاصل ہوئی۔ مجھے پتہ نہیں کسی منتر کی طاقت یا دماغی صدمہ سے میری قوت یادداشت ختم ہو گئی، جوبھی ہو، جہاں سے میں آیا، وہ مقام میری لمبی فراموشی کے اندھیرے میں بھولا پڑا رہتا ہے۔ میں اسے یاد بھی نہیں کر سکتا، کبھی کبھی نیند آنے پرمیں ایک خواب دیکھتا ہوں۔ گرم اور نرم تھیلی میں ایک گہوارہ میں لیٹا ہوا ہوں۔ شاید وہی جائے پیدائش ہے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ ایک تنگ و تاریک پھاٹک سے ہوکر مجھے اس خطرناک گھیرے میں زبردستی سے ڈال دیا گیا ہے۔۔۔ وہاں سے!

    میرے یہاں گر پڑنے پرچاروں طرف کے خوفناک چہرے دانت دکھاکر ہنس پڑے۔ انہوں نے گیت گائے، رقص کیا، میری آمد کی خوشی دھوم دھام سے منائی۔ وہ مجھے پسند آئے۔ پھوڑے اور پھنسیوں سے بدن میں، میں نے پہلی پہل حسن دیکھا۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے اپنی زبان سکھائی۔ چلنا، دوڑنا اور کودنا بھی سکھایا۔ میں بعد میں سمجھ گیا کہ کسی نہ کسی مقصد سے ہی انہوں نے مجھے اور بھی کئی باتیں سکھائی ہیں۔ ان کی ہنسی میں بھی میرے خون کے لیے پیاس تھی۔

    ان کے وسط سے ہوکر میں چلنے لگا۔ سیاہی میں چھپی گلیاں جہاں کسی نے مجھے گرانے کے لیے بھری راہ میں کنکر اور کانٹے ڈال دیے۔ مجھے پھانسنے کے لیے ان کے پھندے تیار رہے۔ میں بہت ہی ہوشیاری سے چلا۔ تھک جانے پر میں خالی کوٹھری تلاش کرکے سو گیا۔ تب خواب میرے پیچھے پڑے۔ میں نے خواب میں بےداغ اور پھوڑوں سے محفوظ انسانوں کو دیکھا۔ یوں میں سمجھ گیا کہ حسن اور بدصورتی میں کیا فرق ہے۔

    مجھے پتہ نہیں چلا کہ کس نے اس مکان کی تعمیر کیا۔ یہ بہت پرانا مکان ہے اور ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے۔ اس لیے پرانی حالت ظاہر نہیں ہوتی۔ نئے کمرے، نئی آرائشیں۔ یہ مکان سب سے پرانا اور سب سے نیا دکھائی دیتا ہے۔ کئی عجیب جانور اس میں اپنی زندگی گذارتے ہیں۔ وہ سب انجانے میں بڑے ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ وہ کہاں سے آئے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ انہیں جانا کہاں ہے۔ میرے جیسے باہر جانے کو ترسنے والے بھی ان میں بہت رہے ہوں گے۔ محنت سے ان کی طبیعت اکتا گئی ہوگی اور انہوں نے ٹھان لی ہوگی کہ آخر تک یہیں دن کاٹیں گے۔ ان کے سر اور لبوں پر خارش ہے۔ ایسی خارش جس سے نجات ناممکن ہے۔

    ان میں سے ایک ہے۔۔۔ کبڑا۔ اس کی داڑھی ہے۔ گلے میں ایک جپ مالا ہے۔۔۔ کمربند والا انگوچھا ہے۔ دالان کے ایک کنارے پر ایک کوٹھری میں خوشبو آمیز چیزوں کا دھواں اڑاتے ہوئے تمہاری راہ دیکھتا ہے۔ موٹی زبان باہر نکالے سونا پوتے ہوئے دانت نکالے، گوشت دیکھے ہوئے کتے جیسی ہنسی ہنستے ہوئے اس نے میرا استقبال کیا۔ اس کے چہرے کی پھنسی سے نکلے مواد کی بدبو کو اس نے خوشبوداردھوئیں میں چھپا رکھا ہے۔ اس نے مجھے بیٹا کہہ کر مخاطب کیا اور بیٹھنے کو کہا۔ میرے بیٹھنے پر وہ کہنے لگا، ’’میں جانتا ہوں تو سفر سے تھک گیا ہے۔ تجھے تھکن دور کرنی ہے نا؟‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ مجھے یہاں سے جانا ہے۔‘‘ میں نے شکایت کی

    ’’ہاں وہی خاص مقصد ہے۔ یہاں سے جانا ہے۔ اس کے باہر بہت راحت ہے۔ وہاں پہنچنا ضرور ی ہے۔ لیکن ابھی تک باری نہیں آئی۔ اس وقت تک تجھے چلتے ہی رہنا ہے۔ سیدھا چل، میں باہر جانے کا راستہ دکھاؤں گامگرراستہ تجھے ہی طے کرناہے۔ لے یہ جپ مالا گلے میں پہن۔ تھک جانے پراس مالاکاجپ کرنا۔ مجھے یادکرنا، تھکان دورہوگی۔ پھرچلنا۔‘‘

    گلے میں اس کی پہنائی ہوئی مالا اور ہونٹوں پراس کے سکھائے ہوئے منتروں کے ساتھ میں اتر آیا۔ چلتے چلتے تھک گیا تو میں نے اس کے منتر کو یاد کیا۔ حیرت کی بات ہے وہ نمودار ہوا۔ لیکن سیاہ کمربند انگوچھا اور داڑھی ہی نہیں، بلکہ موٹی شکل میں۔ اس کا پیٹ بہت پھولا ہوا تھا۔ سر منڈا ہوا۔ اس کی سونڈ بھی تھی۔ خوشبودار چیزوں کی بو سے وہ بدبو کو چھپائے رکھتا تھا۔ میں نے سونڈ کی پچھلی طرف پھنسی دیکھی۔ باہر کا راستہ نظر آنے تک چلا۔ کبڑے کی باتوں پریقین تونہیں ہوا۔ مگر یقین کرنے کے علاوہ اور کچھ تھا بھی نہیں۔ اس لیے میں چلنے لگا۔ جذام کے مریضوں کی مشتاق نگاہوں کے سامنے سے ہوکر میں لڑکھڑاتا چلا، مجھے محسوس ہوا گھٹتے گھٹتے میری ٹانگیں چھوٹی ہو رہی ہیں اور راستہ بیکراں ہوکر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

    تھک جانے پرمیں ایک بار پھر لیٹ گیا۔ جھپکی آئی توخواب مجھے ڈھونڈکر آئے۔ میرا سکھ میرے خواب ہی ہیں۔ چکنائی، گیلاپن، تھوڑی سی گرمی اور تعفن کی تھیلی میں لیٹا ہوں۔ اپنے اس مقام پر اس جائے پیدائش میں واپس جا سکوں تو خواب پھر آئے۔ خواب میں غیرجذامی انسان بھی، جاگنے پر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں خواب میں ہی ڈوبا ہوں۔ خواب سے انسانوں جیسی اچھی صورت نے مجھے جگایا۔ وہ ایک لڑکی ہے جس میں چمیلی کی خوشبو، نیل کمل کا حسن اور ابھی جوتی ہوئی مٹی کی گرمی ہے۔ اس کی مسکراہٹ نے میری کمزوری دور کی۔ اس کی آواز سے میرا خوف غائب ہو گیا۔ اس کی لاڈ پیار بھری تھپکی میں میں اپنے کو بھول گیا۔

    اس نے کہا، ’’میں تیرا انتظار کرتی تھی۔‘‘

    میں نے انجان ہوکر جواب دیا، ’’میں تیری تلاش میں بھٹکتا تھا۔‘‘ میں نے جو کچھ کہا جھوٹ تھا۔ میں تو تلاش کرتا تھا باہر کا راستہ مگر میرے ایسا کہنے سے وہ خوش ہوئی۔ میں بھی خوش ہوا۔ اس نے کہا، ’’میں نے تیرے لیے کمرہ آراستہ کر رکھا ہے۔ بیل بوٹے کاڑھے ہوئے تکیوں اور خوشبو سے تر بستروں سے آراستہ۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کہاں؟‘‘

    پھر دہرایا، ’’کہاں؟ مجھے وہاں لے جاؤ۔ اس راحت کی تلاش کرتا ہوا میں یہاں تک چلا آیا ہوں۔‘‘

    میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

    کسی نے گھنٹی بجائی۔

    کسی نے ہمارے اوپر گل پاشی کی۔

    کسی نے کہا، ’’تم باہم مل کر ہمیشہ رہو، آپس میں محبت کرو، محبت کے دھاگے میں ایک بنے رہو۔‘‘

    میں اس کا ہاتھ پکڑے آراستہ کمرے میں داخل ہوا۔ تو وہ الفاظ گونج رہے تھے۔ خوشبو سے بھرے کمرے کی دھندلی روشنی میں ہمارے داخل ہوتے ہی پیچھے پھاٹک بند ہو گیا۔ تب الفاظ سنائی پڑے۔

    اس آراستہ کمرے میں دوسری دنیا کی سی خوشبو اور تری کااحساس ہوا۔ تھوڑی دیر بعد ایک خوبصورت نغمہ پتلی ترنگوں میں جھولتا کہیں سے آ پہنچا۔ خوشبو آلود بستر، صندل سے مہکتے ہوئے تکیے، بستر پر اس کی عریانی کا خمار اور یہ ہے میرا پھاٹک جس کی مجھے تلاش تھی۔ یہیں ہے میری جنت، میں نے اس کے کانوں میں کہا۔ وہ گوشت کی گرمی کے ساتھ تتلائی، ’’مجھے کبھی نہ چھوڑنا۔‘‘

    ’’کبھی نہیں۔‘‘

    میں نے اس کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ میں اپنے کو، اپنے خوف کو، اپنے غموں کو غائب کرنے کو ترستا تھا۔ وہ اسی آرزوسے میری شریک بننے کی کوشش کرتی تھی۔ وقت ایک خوبصورت نغمہ بن گیا۔ ہوا کو مست کرنے والی نشہ آور چیز، نغمہ اور نشہ۔ تاریکی اور بڑھ گئی، گیلاپن زیادہ ہو گیا۔ گرمی بڑھ گئی، مستی بھی بڑھ گئی۔ میری زبان میں، دل میں، رگوں میں، ہر کہیں اس کا ورود ہوا۔ گدگی پیدا کرتی ہوئی وہ رینگتی رہی۔ میں نے اسے مخاطب کیا، ’’میری رانی!‘‘

    اس نے بھی اسی طرح پکارا، ’’میرے راجا!‘‘

    لمحہ کی مانند نغمہ کی تال۔

    جب جاگا تب روشنی پھیل چکی تھی۔

    مجھے سینے میں ایک گیلا اژدہا رینگتا سا لگا۔ میں نے دیکھا، اس کا ہاتھ تھا۔ کاٹے ہوئے زمین قندکے رنگ کا ہاتھ۔ پورے ہاتھ پر سرخ داغ، آبلے، میں ڈرگیا اور منھ موڑ لیا۔ میں اس کے آغوش میں ہوں۔ اس کے سارے بدن پر آبلے، پھوڑے پھنسیاں۔ میں نے رونے، چیخنے کی کوشش کی۔ میری آواز باہر نہ نکلی۔ میں نے اس کوجنبش دے کر پکارا مگر وہ نہیں جاگی۔ میں نے اس کا ٹھنڈا ہاتھ جھٹک کر ہٹا دیا۔ سردی سے ٹھٹھرتی، لیٹی اس عورت کو دیکھا تو گذری ہوئی مستی کے لمحوں کی یاد لوٹ آئی۔ میں کانپ اٹھا۔

    میں نے بند پھاٹک پر پاؤں مار کر اس کو توڑ ڈالا اور باہر نکلا۔ خوف زدہ حیران اور شل ہوکر میں دوڑا۔ تھک جانے پر لیٹ گیا۔ نیند آئی تو اس ٹھنڈے، سرخ، ٹھٹھرے ہاتھ نے مجھے جنبش دےکر جگایا۔ میں پھر دوڑا۔ تھکنے پر بھی لیٹا نہیں۔ مجھے خوف تھاکہ لیٹنے پر اس کی گھناؤنی شکل مجھے جگائےگی۔ اس لیے میں نہ لیٹوں گا نہ سوؤں گا۔

    تھکے پاؤں، بوجھل بدن اور کمزور دل سے میں چلتا ہی رہوں گا۔

    تاریکی سے بھری گلیوں سے ہوکر میرا جو سفر ہے وہ کب ختم ہوگا۔ کوڑھیوں سے بچتے، کبڑوں کی نگاہ سے چھپتے اس سفر کا خاتمہ ہوگا؟ پتا نہیں۔ نجات کا راستہ میرے لیے کب کھلےگا؟ کون جانے!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے